اردو دنیا، فروری 2025
کسی خاص متن کی بازیافت اور اس کی تصحیح وترتیب کے عمل
کو تدوین کہتے ہیں۔ تدوین کے ذریعے قدیم متون کو گمنامیوں سے نکال کر ان کو مصنف
کے اصل متن سے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے مختلف نسخوں کا
مقابلہ کرکے درست کیا جاتا ہے۔ اس میں مرتب کسی مصنف کی منتشر تخلیقات یا کسی تخلیق
کے منتشر اجزا کی تصحیح و ترتیب کرکے جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ کوشش بھی
کرتے ہیں کہ کسی بھی قدیم متن کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ جیسا اس متن کو
مصنف نے آخری مرتبہ لکھا تھا۔ ترتیب متن کا کام تحقیق و تنقید سے قدرے مختلف ہے
اس میں فنی مہارت کے ساتھ دلچسپی کا ہونا بھی ضروری ہے۔یہ کام وہی انجام دے سکتے ہیں
جن کو قدیم مخطوطات و متون سے دلچسپی ہو اور یہ دلچسپی ہمیں مکمل طور سے مولاناامتیاز
علی عرشی کی تحریروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔صابر علی سیوانی اپنی کتاب ـ’ــتدوین
متن کی روایت آزادی کے بعد‘ میں لکھتے ہیں:
ــ’’ان کا امتیاز یہ ہے کہ
انھوں نے اردو ادب کو تحقیق کے آداب و رموز سکھائے۔ تحشیہ و تدوین کا معیار قائم
کیا اور صحت متن کواعتبار بخشا... عرشی صاحب نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ادب کو بیش
بہا ادبی خزینے سے روشناس کرایا اور ان متون کوصحت متن کے ساتھ پیش کیا،جو نہایت
اہمیت کی حامل ہیں۔ــ‘‘ـ1
مولانا امتیاز علی عرشی نے پوری زندگی نادر مخطوطات اور
کلاسیکی متون کی دریافت میں وقف کر دی۔ محنت و تجسس مولانا عرشی کا شیوہ تھا وہ اس
وقت تک مطمئن نہیں ہوتے جب تک کہ کسی بھی متن کے تمام تر نسخوں کو ملاحظہ نہ کر لیں۔
تحقیق کی شرط اول کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ اس لیے انھوں نے کبھی قیاس آرائی اور افواہ پر یقین نہیں کیا بلکہ
خود اس کی تصدیق کی۔ اس لیے ان کے اسلوب میں ہمیں ان کی محنت، تجسس، تخصیص نظر آتی
ہیں۔ امتیاز علی عرشی کا تحقیقی دائرہ بہت وسیع ہے انھوں نے اردو زبان کے ساتھ
ساتھ فارسی اور عربی زبانوں کی ادبیات پر بھی بیش بہا کارنامے انجام دیے ہیں۔
مولانا امتیازعلی عرشی کا شمار اردو تحقیق میں بحیثیت
غالب شناس ہوتا ہے۔ انھوں نے غالب کے تعلق سے جو تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں، ان
میں دیوان غالب (نسخہ عرشی)، مکاتیب غالب، انتخاب غالب، فرہنگ غالب قابل ذکر ہیں۔
مولانا امتیاز علی عرشی نے بحیثیت مدون جو پہلا مقبول ترین کارنامہ انجام دیا وہ
’مکاتیب غالب‘ ہے۔اس حوالے سے مشہور محقق رشید حسن خان لکھتے ہیںــ:
’’مکاتیب
غالب کے ایک ایک خط کے ذیل میں مرحوم نے بیش قیمت معلومات سے بھرپور حواشی لکھے ہیں
اور مقدمہ کتاب کو گنجینہ معلومات بنا دیا ہے۔‘‘2
مولانا امتیاز علی عرشی جب رامپور رضا لائبریری سے
وابستہ ہوئے تو ان کی نظر غالب کے ان خطوط پر پڑی جوزمانے سے کتب خانے میں کاغذوں
کے انبار میں دبے رکھے تھے۔ مولانا عرشی نے اس وقت کی ریاست رامپور کے چیف منسٹر
کرنل بشیر حسین زیدی کے اصرار پر ان تمام خطوط کو جمع کرکے ان پر ایک مبسوط مقدمہ
حواشی کے ساتھ مرتب کرکے 1937 میں شائع کیا۔ یہ سارے خطوط عرصہ دراز سے ردی کی
مانند پڑے تھے لیکن مولانا امتیاز علی عرشی نے انھیں خطوط کے ذریعے غالب کی زندگی
کے بعض ایسے پہلو واضح کیے جو کہ نہ صرف غالب کی نجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ
اس وقت کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ماحول کو سمجھنے اور جاننے کے لیے کافی اہم ہیں۔
ــ’ مکاتیب غالب‘ غالب کے
ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے رامپور کے نواب یوسف علی خان اور ان کے جانشین
نواب کلب علی خان کے نام تحریر کیے تھے۔ مکاتیب غالب میں خطوط کی کل تعداد115 اور
مکتوب الیہم کی تعداد 6 ہے۔اور خطوط کے علاوہ اس میںایک قطعہ اورایک قصیدہ درج ہے۔
مکاتیب غالب دو حصوں پر منقسم ہے جس کے پہلے حصے میں کرنل بشیر حسین زیدی کی تقریب
کے علاوہ مولانا عرشی کا 173 صفحات کا طویل ترین مقدمہ شامل ہے۔ دوسرے حصے میں
خطوط شامل ہیں جن کی تعداد 117 ہے۔ مکاتیب غالب کے پہلے ایڈیشن میں مولانا عرشی نے
غالب کے متعلق 10 عنوانات قائم کیے تھے اور جب اس کا دوسرا ایڈیشن 1943 میں شائع
ہوا تو مولانا عرشی نے اس میں دو اور عنوانات کا اضافہ کیا۔ اس طرح مکاتیب غالب میں
عنوانات کی کل تعداد 12 ہوگئی ہے۔
مقدمہ کا پہلا عنوان ’سرگزشت غالب‘ ہے جس میں غالب کے
سوانحی کوائف،تعلیم،معاصرین سے ان کا تعلق، قرض، امراض، وفات، مدفن وغیرہ کو بہت ہی
مفصل و محققانہ انداز میںپیش کیا ہے۔ دوسرا عنوان ’تصانیف‘ ہے جس میں مولانا عرشی
نے غالب کی تمام تحریروں کا احاطہ کیا ہے جس میں غالب کی اردو فارسی کی کتابیں، دیوان
اردو، دستنبو، کلیات فارسی، نامۂ غالب اور تاریخ سلاطین تیموریہ کا تحقیقی جائزہ
پیش کیا ہے۔ تیسرے عنوان میں غالب کے شاگردں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق رامپور سے
تھا۔چوتھے عنوان میں غالب کے کاروبار اور قرض وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ پانچویں عنوان
میں غالب کے انگریز تعلقات کا ذکر کیا ہے جس میں ان کو انگریزوں سے ملنے والی پینشن
اور غدر کے وقت بگڑے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔ چھٹا عنوان ’بہادر شاہ ظفر سے
تعلقات‘، ساتواں عنوان’تعلقات رامپور‘، آٹھواں عنوان ’اصلاح غالب‘ کے نام سے قلم
بند کیا۔ نویں عنوان میںغالب کی انشا پردازی پر بات کی گئی ہے۔ دسواں عنوان غالب
کے عادات و خصائل پر مبنی ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ غالب کسی بھی
خط کا جواب دینے میں عجلت سے کام لیتے تھے۔ شدت مرض اور زیادتی ضعف کے باوجود خط
کا جواب جلد از جلد دینے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں:
’’خط
کا جواب دینے میں میرزا صاحب بہت باضابطہ تھے۔ وہ یوں تو ہر خط کا جواب فوراـــــ
لکھتے،اور غیراختیاری عذر کے علاوہ اور کسی عذر کے پیش کرنے کا کبھی موقع نہ آنے
دیتے۔‘‘3
تحقیق و تدوین کے سلسلے میں ’دستور الفصاحت‘ مولانا امتیاز
علی عرشی کی ترتیب کردہ کتابوں کی فہرست میں اہم مقام رکھتی ہے۔ دستور الفصاحت حکیم
احد علی خان یکتا کی تصنیف ہے جس کا موضوع اردو زبان کی صرف و نحو، معانی، عروض
اور قواعد اردو سے ہے۔دستور الفصاحت فارسی زبان میں ہے اور یہ کتاب انشاء اللہ خان
انشا کی کتاب ’دریائے لطافت‘ سے پیش تر لکھی گئی تھی لیکن دریائے لطافت کے بعد
شائع ہوئی۔اس سلسلے میں مولانا امتیاز علی عرشی لکھتے ہیں:
’’
اس کی تالیف کا کام انشا کی دریائے لطافت سے پہلے انجام
پا چکا تھا۔جس کا سال اختتام 1222ھ (1807) ہے۔‘‘4
اور آگے لکھتے ہیں:
ــ’’اس لیے ہم پچھلے دلائل
کی کمک پر کہہ سکتے ہیں کہ مصنف کی نظر میں دریائے لطافت کا نہ ہونا اس بنا پر تھا
کہ یہ ابھی معرض وجود ہی میں نہیں آئی تھی۔‘‘5
دستور الفصاحت کے مقدمہ میں ارد و زبان کے آغاز و
ارتقا، زبان کے مستند مراکز پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ دستور الفصاحت میں مقدمہ
کے بعد اس میں پانچ ابواب شامل ہیں۔پہلا باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ جو فارسی زبان
کے اصول و قواعد اورصرف و نحو سے متعلق ہے۔ دوسرا باب ایک تمہید اورچھ فصلوں پر
مشتمل ہے جس میں اردو زبان کے قواعدو صرف سے بحث کی گئی ہے۔تیسرے باب میں ایک تمہید
اور16 فصلیں ہیں اور یہ باب بھی اردو زبان و قواعد سے متعلق ہے۔ چوتھے باب میں 2
فصلیں ہیں جو عروض اور علم قافیہ سے متعلق ہیں۔ اس باب میں اردو اور فارسی کی
بحروں پر بحث کی گئی۔پانچواں باب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس باب میں علم بیان، علم
معانی اور علم بدیع پر بحث کی گئی ہے اور آخر میں ’خاتمہ‘ ہے جس میں ان شعرا کے
حالات زندگی اور منتخب اشعار پیش کیے گئے ہیں جن کا کلام کتاب میں بطور مثال پیش کیا
گیا ہے۔
دستور الفصاحت 125 صفحات کی کتاب ہے لیکن مولانا عرشی
نے اس پر 117صفحے کافاضلانہ مقدمہ قلم بند کیا ہے جس میں فارسی اور اردو کے متعدد
تذکروں کے متعلق اہم معلومات جمع کی ہیں۔ مولانا عرشی نے مقدمہ میں مصنف کے حالات
زندگی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ہی ساتھ نسخے کے سائز،اس کی ضخامت، اول و زائد
اوراق، ہر صفحے میں سطروں کی تعداد،نسخے کا خط جیسے اہم نکات کی وضاحت کی ہے۔ مولانا عرشی کی کاوش
اور محنت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کتاب کے آخر میں ایک
ذیلی عنوان ’مآخذ حواشی‘ قائم کر کے ان فارسی اور اردو کے 59 مطبوعہ کتب و تذکروں
کی تفصیلات درج کی ہے جن سے دستور الفصاحت کی تدوین کے دوران مدد لی۔ جس میں حمید
اورنگ آبادی کا تذکرہ ’گلشن گفتار‘،میر تقی میر کا تذکرہ نکات الشعراء،سید فتح علی
گردیزی کا تذکرہ ’تذکرہ ریختہ گویاں‘،قیام الدین قائم کا تذکرہ مخزن نکات وغیرہ کا
نام شامل ہے۔
’دیوان
غالب نسخہ عرشی ‘مولانا امتیاز علی عرشی کا ماہر غالبیات کی حیثیت سے سب سے اہم
کارنامہ ہے۔ یہ نسخہ غالب کے اردو کلام کا مجموعہ جسے تاریخی اعتبار سے تریب و تدوین
کیا گیا ہے۔ دیوان غالب پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے 1958 میں پہلی بار
شائع ہوا۔ دیوان غالب میں مولانا عرشی کا ایک عالمانہ و فاضلانہ مبسوط مقدمہ تحریر
کیا جس کی ضخامت 160 صفحات ہے۔ اس میں انھوں نے غالب کے حالات زندگی، غالب کی عربی
اور فارسی زبان پر دسترس،غالب کی شاعری کی خصوصیات و عیوب پر تفصیل سے بات کی ہے۔
اس سلسلے میں مشہور محقق مالک رام اپنے مضمون تبصرہ دیوان غالب (نسخہ عرشی) میں
لکھتے ہیں:
’’اردو
دنیا کو مولانا امتیاز علی عرشی کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ برسوں کہ برسوں کی ریاضت
کے بعد انھوں نے یہ کام مکمل کر لیا جس میں انھوں نے موضوع کے تمام گوشوں کو اجاگر
کیا۔ سب سے پہلے 160 صفحات کا دیباچہ ہے اس میں انھوں نے حسب معمول پوری داد تحقیق
دی ہے۔‘‘6
مولانا عرشی نے دیوان غالب کی ترتیب و تدوین میں متعدد
نسخوں سے استفادہ کیا۔ ان سبھی نسخوں کا ذکر مولانا نے مقدمہ میں کیا ہے۔جس میں
کچھ نام یوں ہیں: 1857 کا غالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ،نسخہ بھوپال، نسخہ شیرانی،گل
رعنا ،نسخہ رامپور ،نسخہ حمیدیہ،نسخہ لاہور وغیرہ۔نسخہ غالب چار حصوں پر مشتمل
ہے:گنجینہ معنی، نوائے سروش،یادگار نالہ باد آورد۔نسخہ عرشی میں غالب کا وہ تمام
تر کلام درج کیا گیا ہے جو ان کے نام سے
اب تک شائع ہوتا رہا۔
دیوان غالب کا پہلے حصے ’گنجینہ معنی‘ میںغالب کے وہ
تمام اشعار درج کیے گئے ہیں جو نسخہ بھوپال اور نسخۂ شیرانی میں تو موجود تھے ،لیکن
1833 میںترتیب کردہ دیوان سے مرزا غالب نے خارج کر دیا تھا۔ دوسرے حصے بعنوان
’نوائے سروش‘ میںغالب کا وہ کلام شامل ہے جسے مرزا غالب نے اپنی زندگی میں لکھوایا
تھا اور اسے طبع کراکرکے لوگوں میں تقسیم کیا تھا۔ تیسرے حصے ’یادگارنالہ‘ میں وہ
کلام درج کیا گیا ہے، جو دیوان غالب کے کسی بھی نسخے میں نہیں تھا، لیکن بعض نسخوں
کے حاشیوں یا ان کے خطوط کے اندر یاغالب کے نام سے دوسروں کے بیاضوںاور ڈائریوں میں
پایا گیا تھا اور یہ اشعار اخبارات و رسائل کے ذریعے لوگوں تک پہنچ چکے تھا۔ ’باد
آورد‘کے حصے میں نسخہ عرشی زادہ کے ذریعے سے دریافت کلامِ غالب کوشامل کیا گیا
ہے۔ ’بادآورد‘ کا حصہ ’دیوان غالب‘ نسخہ عرشی کے پہلے ایڈیشن، جو 1958 میں شائع
ہوا تھا اس میں شامل نہیں تھا۔
مولانا امتیاز علی خان عرشی کا مغلیہ دور کے حوالے سے ایک
اور اہم کارنامہ ’نادرات شاہی‘ کی تدوین و ترتیب ہے۔ یہ کتاب مغلیہ حکومت کے آخری
دور کے فرمانرواں شاہ عالم ثانی کے ہندی،اردو اور فارسی کلام کا مجموعہ ہے۔جس کو
خود بادشاہ شاہ عالم ثانی نے 1797 میں مرتب کروایا تھا۔ نادرات شاہی کو نواب کلب
علی خان نے مشہور اردو شاعر داغ دہلوی کے توسط سے رامپور رضا لائبریری کے لیے خریدا
تھا۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1944میں شائع ہوا۔حسب دستور اس میں بھی مولانا عرشی نے
ایک محققانہ مقدمہ تحریر کیا جس میں شاہ عالم ثانی کی حالات زندگی،حسب ونسب،سخن
گوئی وغیرہ کا ذکر بہت مفصل انداز میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے صباح الدین عبد
الرحمن لکھتے ہیں:
’’
عرشی صاحب کو نادر چیزیں ڈھونڈنکالنے کا فطری ملکہ ہے
جنھیں وہ زیور اطاعت سے آراستہ کر کے اہل ذوق تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ 1944 میں
نادرات شاہی کی اشاعت ان کی جوہر سناشی کا نتیجہ ہے... اس کے شروع میں عرشی صاحب
نے 62 صفحے کا جو مبسوط مقدمہ لکھا ہے،اسے پڑھنے کے بعدماننا پڑھتا ہے کہ ہندوستان
کی تاریخ پر بھی ان کی نظر وسیع ہے۔‘‘7
’تاریخ
محمدی‘ میرزا محمد حارثی بدخشی دہلوی کی اہم ترین تاریخی کتاب ہے۔اس کتاب میںحارثی
بدخشی نے10 ھ سے 1161ھ تک کے مشاہیر و علمی شخصیات کے مختصر حالات زندگی اور سنہ
وفات درج کی ہیں۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کی متن کی تصحیح کر کے اس پر حواشی لکھے۔
اس کتاب کا متن 142 صفحات پر محیط ہے لیکن حواشی187 صفحات تک پھیلے ہیں۔ مولانا
عرشی نے تاریخ محمدی کو تمام تر تحقیقی و تدوینی اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے تدوین
کیا۔ عرشی صاحب کے تدوینی کارناموں میں تاریخ محمدی کو اہم مقام حاصل ہے۔
ترجمہ مجالس رنگین مشہور ریختی گو شاعر سعادت یار خاں
رنگین کی فارسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ رامپور کے اخبار ’ناظم‘ میں 1942
میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو حواشی کے ساتھ ترتیب دیا اور
ساتھ ہی ان تمام تفصیلات کا بھی ذکر کیا جو اس کتاب کے وجود میں آنے کی وجہ بنیں۔
اس کتاب میں کل 62 مجالس ہیں اور مولانا عرشی نے اس کتاب کے عنوان پر بھی تفصیلی
بات کی ہے۔جس میں انھوں نے یہ بتایا کہ اس کتاب کا نام مجالس رنگین کیسے پڑا۔
اردو کے مشہور قواعد نویس، داستان گو، شاعرو ادیب انشاء
اللہ خان انشا کی مشہور غیر منقوط کتاب سلک گوہر کو تصحیح کے ساتھ پہلی مرتبہ 1948
میں رامپور سے مولانا عرشی نے شائع کیا۔یہ 36 صفحات پر مشتمل ایک مختصر داستان ہے۔
اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک بھی نقطہ نہیں ہے۔لیکن یہی خوبی ہی شاید اس
کی بے لطفی کی وجہ بنی۔پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں:
’’اس
کتاب کی اہمیت محض ’کوہ کندن و کاہ برآوردن‘ میں ہے۔بے نقط کی قید کی وجہ سے اس
قدر بے لطفی پیدا ہو گئی ہے کہ پوری داستان کا پڑھنا تقریباََ محال ہو گیا ہے۔‘‘8
لیکن پھر بھی اپنی خاص نوعیت کی بنا یہ کتاب آج بھی
قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔سلک گہر کے علاوہ انشاہ اللہ خان انشا کی ایک
اور مشہور داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ ہے۔یہ ایک طبع زاد داستان ہے جس میں رانی
کیتکی اور کنور اودے بھان کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔اس داستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ
خالص ہندوستانی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ سے پرہیز کیا
گیا ہے۔سب سے پہلے اس کتاب کو مولوی عبدالحق نے تصحیح متن کے ساتھ 1926 میں انجمن
ترقی اردو اورنگ آباد کے رسالہ ’اردو‘ میں شائع کیا۔ اس کے بعد عبدالحق صاحب نے
اس داستان کو کتابی صورت میں 1933میں اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ مولانا امتیاز
علی عرشی نے عبد الحق کے پہلے ایڈیشن اور رضا لائبریری میں رکھے دو اور مخطوطوں کا
آپس میں مقابلہ کرکے درست کیا۔بقول گیان چند جین:
’’اسٹیٹ
لائبریری رامپور میں داستان کے دو مخطوطے دریافت ہوئے ایک کتابی شکل میں ہے۔ دوسرا
انشا کے ساتھ شامل ہے۔ان کی مدد سے مولانا امتیاز علی خان عرشی نے اسے از سر نو
مکمل کیا۔‘‘ 9
مولانا امتیاز علی عرشی کی ایک اور اہم کارنامہ
’محاورات بیگمات ‘ہے۔ یہ کتاب مشمولہ اردو ادب، علی گڑھ، اشاعت جولائی، دسمبر1952
میں نامی پریس، لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو خان آرزو کی
نوادر الالفاظ اور سعادت یار خان رنگین کے دیوان ریختی کی مدد سے تیار کیا۔ اس
کتاب میں کل صفحات 32 ہیں۔ دیوان ریختی کے آخر میں عورتوں کے مخصوص محاوروں اور
الفاظ کی فہرست ہے۔ ان محاوروں کو خان آرزو نے اپنی کتاب نوادرالالفاظ میںشامل کیا۔
مولانا عرشی نے دیوان ریختی اور نوادرالالفاظ ان دونوں کتابوں کی تشریحات کو سامنے
رکھ کر مزید تحقیقی حواشی کے ساتھ مرتب کیا۔
’ارد
و اور افغان‘ بھی مولانا عرشی کی تحقیق دسترس اور زبانِ اردو پر ان کی وسعتِ نظر
کا ثبوت ہے۔ مولانا عرشی نے از قبل اس کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جشن سیمیں میں
1942 میں بطور مقالہ ’اردو پر پشتو کا اثر‘ کے عنوان سے پڑھا تھا پھر اصلاح وو
اضافے کے بعدمعارف کے تین شماروں میں 1949 میں ’اردو زبان کی بناوٹ میں افغانوں کا
حصہ‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور 1960 میں بروی پریس،پشاور سے کتابی صورت میں بعنوان
’اردو اور افغان‘ طبع ہوئی۔یہ کتاب لسانیات کے تعلق سے بہت اہم کتاب ہے اس کتاب میں
ان تمام پشتو الفاظ کے بارے میں بات کی ہے جن کا اردو کی تشکیل میں اہم حصہ
ہے۔مولانا عرشی اس بات کا بھی انکشاف کرتے ہیں کہ ماہرین لسانیات نے صرف فارسی،
عربی، سنسکرت اور ترکی کو ہی اردو زبان کا پیش خیمہ بتایا لیکن پشتو زبان کو کسی
نے بھی اہمیت نہیں دی۔اس کے علاوہ عربی اور فارسی زبان میں موجود 253 پشتو الفاظ کی
بھی نشاندہی کی جو آج بھی بگڑی ہوئی شکلوں میں موجود ہیں۔یہ کتاب لسانیات کے ضمن
میں اردو کی مستند اور اعلیٰ کتب میں شمار کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ مولانا امتیاز
علی خان عرشی کی دیگر غیر مطبوعہ کتابیں بھی ہیں جو ان کی وفات کے سبب منظر عام پر
نہ آ سکیں؛ جیسے اشاریہ اودھ کیٹلاگ،انتخاب ناظم، خطاطی کی تاریخ،دیوان
مومن۔مولانا عرشی کا انتقال اردو تحقیق و تدوین کے لیے بہت بڑا خسارہ تھا جس کی کمی
شاید کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔امتیاز علی عرشی کی تحقیقی کاوشیں اور ان کی لگن ،غیر
مطبوعہ مخطوطات کی چھان بین اور ان کی تدوین و ترتیب میں انہماک نے اردو تحقیق کو
مالا مال کیا ہے اور جہاں تک ان کی ذہنی انسیت کی بات کی جائے تو قطعاً ہر تحقیق جیسے
حرف آخر نہیں ہوتی مگر عرشی کی ترتیب کردہ کتب یقینی طور پر آخری حوالے کا مقام
رکھتی ہیں ۔کتابوں کی ترتیب میں انھوں نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا ہے اور ان کے یہاں
اغلاط شماری بھی کم ہی ہے بلکہ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، یہ ان کے تحقیقی ذہن اور
انتہائی احتیاط کی مثال ہے۔ امتیاز علی عرشی اپنی تحقیقات اور تدوینی خدمات کے آئینے
میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔
حواشی
1 تدوین
متن کی روایت آزادی کے بعد: ڈاکٹر صابر علی سیوانی، محمد خالد تنویر پبلشر، حیدرآباد،2021،ص14
2 مشمولہ:
ماہنامہ ـ’تحریک‘ نئی دہلی،
جلد 92، اپریل 1981، ص 8
3 امتیاز
علی عرشی(مرتب)، دیباچہ مکاتیب غالب،مطبوعہ قیمیہ، بمبئی، 1937، ص 108
4 دستور
الفصاحت سلسلہ مطبوعات کتاب خانہ رامپور 1943، ص 27
5 ایضاً
6 مشمولہ
’نقوش‘ لاہور،شمارہ 101، نومبر1964،ص 166
7 مشمولہ:
ماہنامہ ’تحریک‘ نئی دہلی، جلد 92، اپریل 1981، ص 17
8 اردو
کی نثری داستانیں: پروفیسر گیان چند جی ، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو زبان،نئی
دہلی،2002،ص370
9 ایضاً
Faizan Ashraf
Lal Bahadur Shastri Smarak P.G. College
Anandnagar
Maharajganj - 273155 (UP)
Mob.: 9917284412
faizanashraf664@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں