31/10/23

خلائی افق کا آفتاب ہیں خواتین: آسیہ خان

 

15اگست2019 کو ہندی فلم مشن منگل کی ریلیز سے قبل شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس مشن کی کامیابی کا کریڈٹ ان خواتین کو جاتا ہے جنھوں نے ایسی سائنسی مشین کو پایۂ تکمیل پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ حالانکہ مشن منگل کے ہیرو اکشے کمار تھے لیکن اس فلم میں5کردار ایسے تھے جو ہیرو کے کردار پرغالب آ گئے تھے او ریہ کردار ادا کیے تھے ودیا بالن، سوناکشی سنہا، تاپسی پنّو ، کیرتی کلہڑی اور نتیا مینن نے۔ ان اداکاروں نے جن کردارکو نبھایا یہی وہ کردار تھے جنھوں نے پوری دنیا میں اس مشن کی کامیابی پر مقبولیت حاصل کی اور ثابت کر دیا کہ سائنس کے میدان میں خواتین کی حصے داری اب بھی برقرار ہے اور صنف نازک کہلائی جانے والی عورت کسی بھی حصے میں مردو ںسے کم نہیں۔

آج زندگی کے ہر شعبے میں خواتین ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج خلائی سائنس سے لے کر کیمسٹری، فزکس، بایولوجی، مخلوقیات، میڈیکل، نینو تکنیک ، جوہری تحقیق، زمین اور ماحولیاتی سائنس، ریاضی انجینئرنگ اور زراعتی سائنس جیسے چیلنجنگ شعبوں میں خواتین کامیابی کے پرچم لہرا رہی ہیں۔ حالانکہ سائنس، تکنیک، انجینئرنگ اور ریاضی کے شبعوں میں ان کی تعداد مردوں کے برابر تو نہیں ہے۔ لیکن ان شعبوں میں ان کی دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی سماجی اور گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے خواتین کے لیے سائنس کی دنیا میں مقام حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے۔ کچھ دہائیوں قبل ظاہر ہے حالات اور بھی مشکل تھے۔ جہاں لڑکیوں کا اسکول جانا بھی برا سمجھا جاتا تھا اور انھیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں بھی خواتین نے تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سائنس جیسے شعبے میں اپنی شناخت بنائی اور ایسی مثالیں قائم کیں جنھیں آج دنیا یاد کرتی ہے۔ ایسے میں ان سینئر خواتین سائنس دانو ںکا ذکر ضروری ہے جن کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے ایک نذیر ہے۔یہاں ہم کچھ ایسی ہی خواتین کا ذکر کر رہے ہیں جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے۔ جیسے انّا منی(23اگست 1918 16-اگست2001) جنھوں نے 8سال کی عمر میں تحفہ میں ملنے والے ہیرے کے بُندے ٹھکرا کر انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا(Britinica) مانگ لیا تھا۔انھوں نے1930 میں نوبل اعزاز سے سرفراز ہندوستانسی سائنس داں سی۔ وی رمن کے ساتھ بہت سے سائنسی پروجیکٹس پر کام کیا اور مختلف سائنسی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہیں۔

 اسیما چٹرجی نے23ستمبر1917سے22نومبر2006 کو کیمسٹری کے شعبے میں بہت کام کیا ۔ انھوں نے کینسر جیسی کئی موذی امراض کے لیے موثر دوائیاں ایجاد کیں اور دنیا نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ مرگی سے لے کر ملیریا جیسی بیماریوں میں ان کے فارمولے پر بنی دوائیں آج بھی لوگوں کو راحت پہنچا رہی ہیں۔

کمل رن دیوے(15دسمبر1905سے11اگست 1970) ملک میں کینسر کے علاج کو ممکن بنانے میں انھوں نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے جزام جیسے مرض کے لیے بہت اہم دوائیوں کی ایجاد کرنے میں مدد کی جس کی وجہ سے انھیں ملک کے دوسرے سب سے بڑے اعزاز پدم وبھوشن سے نوازا گیا۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے انڈین ویمن سائنس فیڈریشن کا قیام کرکے فیلڈ میں آنے والی نئی نسل کی خواتین کے لیے نئی رائیں بھی ہموار کیں۔

ای کے جانکی امّال(6نومبر1897سے7فروری1984) جانکی امال نے گنے کی ایک نہایت میٹھی قسم کی ایجاد کی۔ انھوں نے ایسے گنے کی بھی ایجاد کی جو کئی طرح کی بیماریوں اور قحط کے حالات میں بھی پیدا ہو سکے۔

انھیں صرف ایسی ریسرچس کی وجہ سے ہی نہیں جانا جاتا بلکہ آزادی کے فوراً بعد جو با صلاحیت سائنس داں یہاں سے جانا چاہتے تھے تو انھیں ملک میں روکنے کے لیے اور با صلاحیت شخصیات کی حوصلہ افزائی کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی درخواست پر انھوں نے انڈین بوٹینیکل سوسائٹی کا دوبارہ قیام کیا۔ انھیں1957میں پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔

کملا سوہنی(18جون1911 سے28جون1998) کملا سوہنی مشہور سائنس داں پروفیسر سی وی رمن کی پہلی طالب علم تھیں۔ کملا سوہنی پہلی ہندوستانی خاتون سائنس دان بھی ہیں جنھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھوں نے نوبل اعزاز یافتہ فریڈرک ہاپ کنس کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔

آنندی بائی گوپال راؤ جوشی (31مارچ1865سے 26فروری 1887) ہندوستان کی پہلی خاتون فزییشن تھیں۔ ان کی شادی محض 9 سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور وہ16سال کی عمر میں ماں بھی بن گئی تھیں ۔ کسی دوائی کی کمی کی وجہ سے بہت ہی کم عمر میں ان کے بیٹے کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے نئی نئی دوائیوں کی ایجاد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انھوں نے پینسل وینیا میڈیکل کالج میں پڑھائی کی تھی۔ اتنی مشکلات کے باوجود ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا اور انھوں نے اپنی جدوجہد سے کامیابی کی ایک نئی کہانی لکھی۔

ڈاکٹر درشن رنگا ناتھن(6جون1961 سے6جون 2001) نے بایو کیمسٹری کے شعبے میں نہایت اہم رول ادا کیا۔ دلی کے مرانڈا ہاؤس کالج میں پڑھا۔ وہاں سے اسکالرشپ مل گئی تو امریکہ چلی گئیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد آئی آئی ٹی کانپور میں ٹیچر سبرا منیم رنگا ناتھن سے شادی تھی۔ وہ سائنس سے متعلق جریدوں کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ نیشنل سائنس اکیڈمی کی فیلو بھی رہیں۔ پھر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنا لوجی حیدر آباد کی ڈائرکٹر کا عہدہ سنبھلا۔ 2001 میں دار فانی سے کوچ کر گئیں۔

کلپنا چاولہ: کلپنا اسپیس شٹل Space Shuttle سے خلاء میں جانے والی پہلی ہندوستانی خاتون سائنس داں ہیں۔ 1982 میں امریکہ جاکر ایئر و اسپیس انجینئرنگ ماسٹر ز کی ڈگری لینے والی کلپنا نے 1986میں دوسری ماسٹرز کی ڈگری لی اور پھر1988میں ایئر و اسپیس Airo Spaceانجینئرنگ میں پی ایچ ڈی مل گئی۔ فروری2003 کو کولمبیا شٹل ڈیزاسٹر (Columbia Shuttel disaster) میں مارے جانے والے کرو ممبرز میں سے ایک کلپنا چاولہ بھی تھیں۔

اب ہم ذکر کریں گے نئے دور کی ان خواتین سائنسدانوں کا جنھوں نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان نے خلاء میں ایک سیٹیلائٹ کا کامیاب تجربہ کیا ۔ جس کی تعریف پوری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی کر رہے ہیں۔ اس کامیابی کے پیچھے بھی خواتین سائنسدانو ںکا اہم رول رہا ہے اور خواتین نے پھر سے ثابت کر دیا کہ ان کی صلاحیتو ںکی کوئی حد نہیں وہ لا محدود ہیں۔ ان خواتین سائنسدانو ں میںریتو کرڈھال کا نام پہلے نمبر پر لیا جا سکتا ہے۔ ایسرو میں آنے والے کئی مسائل کو انھوں نے چٹکیوں میں حل کر دیا ہے۔ دو بچوں کی ماں ہیں اس کے باوجود اپنا زیادہ تر وقت ایرو میں ہی گزارتی ہیں وہ منگل یان مشن کی ڈپٹی آپریشن ڈائرکٹر رہیں اور اس مشن کو پورا کرنے والے کامیاب گروپ کی ایک اہم کردار ہیں۔

مومیتا دتّا۔ مومیتا دتا نے منگل یان مشن کے لیے بطور پروجیکٹ منیجر کام کیا۔ انھوں نے کولکاتا یونیورسٹی سے ایم۔ ٹیک کیا ہے۔

نندنی ہری ناتھ: نندنی ہری ناتھ اپنی پہلی ملازمت کے طور پر ایسرو میں شامل ہوئی تھیں اور آج20سال گزر جانے کے باوجود مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور اس پروجیکٹ کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔

انورادھاٹی کے: ایسرو میں ایک سینئر عہدے پر فائز ہیں اوردیگر خواتین سائنس دانو ںکے لیے ایک آئیڈیل ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں انھیں بجائے رٹتے یا یاد کرنے کے منطقی سبجیکٹس زیادہ پسند تھے آج وہ ایسرو کے اہم ڈرپاٹمنٹ کی ہیڈ ہیں او راب بھی اسی طرح سوچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برابری یہاں برابری کے سلوک کی وجہ سے کئی بار انھیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ ایک خاتون ہیں یا کچھ الگ بھی ہیں۔

این ولارمتھی: ولارمتھی نے ہندوستان کے راڈار امیجنگ سیٹیلائٹ کی لانچنگ کی قیادت کی ہے۔ ٹی کے اندورادھا کے بعد وہ ایسرو کے سیٹیلائٹ مشن کی ہیڈ کے طور پر دوسری خاتون افسر ہیں۔52 سال کی عمر میں انھوں نے اپنی ریاست تمل ناڈو کے وقار میں اضافہ کیا ہے وہ ریموٹ سینسنگ سیٹیلائٹ مشن کی بھی ہیڈ رہی ہیں۔

مینل سنپتMeenal Sampat: مینل سمپت نے ایسرو کے سسٹم انجینئر کے طور پر 500 سائنسدانوں کی قیادت کی ہے۔مشن منگل میں کامیابی کے بعد اب ان کا دوسرا ٹارگیٹ نیشنل اسپیس انسٹی ٹیوٹ میں پہلی خاتون ڈائرکٹر بننا ہے۔

کیرتی فوجدار: ایرو کی کمپیوٹر سائنس داں ہیں جو سٹیلائٹ کو ان کی صحیح جگہ پر پہنچانے کے لیے ماسٹر کنٹرول فیسیلیٹی پر کام کرتی ہیں۔ کچھ بھی غلط ہونے پر سدھار کا کام وہی کرتی ہیں۔ کیرتی اب بھی پڑھائی کرنا چاہتی ہیں اور مزید بہتر کارکردگی کے لیے ایم ٹیک کرنا چاہتی ہیں۔

ٹیسی تھامس: ٹیسی ہندوستان کی وہ میزائل ویمن ہیں جنھوں نے اگنی4اوراگنی5مشن میں اہم رول دا کیا ہے۔ ٹیسی ڈی آر ڈی او کے لیے تکنیکی کام کرتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور کار گزاریوں کی وجہ سے ہی انھیں ’اگنی پتری ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

موجودہ دور میں6ہزار سے بھی زائد خواتین ایسرو کے لیے کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ ایسرو کے سبھی 7ڈائرکٹرز مرد سائنس داں ہی رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہزاروں خواتین ہمارے خلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی نئی ریسرچوں کے لیے دن رات محنت کر رہی ہیںاور اگر سمت حکومت ہند کے اقدامات کی بات کریں تو خواتین سائنس دانو ںکی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے ہر خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ سائنس ،ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مدیان میں کیریر بنانے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس کے تحت2019سے ’وگیان جیوتی‘ نامی ایک اسکیم بھی چلائی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی خواتین سائنس دانوں کی صلاحیتوں میں مزید نکھار کے لیے2014-15 میں ایک مہم ’’کیرن یوجنا‘‘ کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس کے تحت ہزاروں خواتین کی سائنس کے تعلق سے کارگزاریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین نے سائنس کے میدان میں اپنی محنت اور لگن سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ ہاں ان کی رفتار میں ابھی اتنی تیزی نہیں ہے لیکن ان کے تجربات اور نئی ایجادات نے دنیا کو آگے لے جانے میں بہت مدد دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بے پناہ صلاحیت کی مالک جو اپنے ذاتی اور گھریلو حالات کے باوجود اتنی محنت کر رہی ہیں ان کو بھر پور تعاون دیا جائے۔ ان کے خاندان، تعلیمی ادارے، کمپنیاں اور حکومتیں سب کو ساتھ مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی وہ خواتین جنھوں نے سائنس کی دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور اپنے تجربات اور ایجادات سے دنیا کو فائدہ پہنچایا ان کی کہانی ٹی وی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سب تک پہنچائی جانی چاہیے۔تاکہ تنگ ذہنیت والے لوگوں کو بیدا ر کیا جا سکے اور ملک کی بیٹیاں سائنس کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ اپنی حصہ داری کو یقینی بنا سکیں۔

 

 

Asiya Khan

1101, Chabuk Sawar

Lal Kuan, Chandni Chowk

Delhi-110006

Mob: 7011800481

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...