1/11/23

طباعت اور صحافت: محمد مجید بیدار

 

طباعت اور صحافت

عالمی سطح پرجب چھاپہ خانے کی ایجاد ہوئی تو اس کے ساتھ ہی مختلف قسم کے نئے امکانی وسائل کو فروغ کے مواقع فراہم ہوگئے۔ فرانس کی نشاۃ الثانیہ کے نتیجے میں انسانی ہاتھ کے بجائے مشینوںکی کارکردگی کی وجہ سے کام کی رفتاراور پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔چنانچہ ہر شعبہ حیات کی ترقی کے معاملے میں مشینوںکی ضرورت اور اہمیت کی وجہ سے انسانی زندگی پرمشینوںکی حکمرانی کاسلسلہ شروع ہوا۔اگرچھاپہ خانہ نہ ہوتاتوبلاشبہ عالمی سطح سے متعلق ہر ترقی کا مرحلہ خطرے کا شکار ہوجاتا۔ بہرحال کاغذکی صنعت کوبھی مشینوںکی تیاری کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی اورمخصوص ہاتھ سے کاغذ بنانے کی صنعتوں کے بجائے مشینی صنعت کی رفتار سے کاغذ کی پیداوار میںاضافہ ہوگیا۔ اسی طرح قدیم دورمیں مٹی کی تختیوں اورچمڑوں پرلکھنے کے علاوہ پتھرکی تختیوں اورکھجورکی شاخوں کے علاوہ چھالوں پرلکھنے کی تاریخی خصوصیات کے بجائے کاغذ پرلکھنے اوراسے پیش کرنے کی روایت شروع ہوئی، جس کے نتیجے میںصحافت کو فروغ حاصل ہوا۔ بیک وقت صحافت کی ترقی جہاں اخبارکی صنعت کی پروردہ ہے، وہیں کاغذ سازی اور سیاہی کی تیاری کے معاملے میں انسانی ہاتھ کے بجائے کارخانوں کی صنعتوں کی وجہ سے دیگرکاموں کے علاوہ صحافت کوفروغ حاصل ہوا۔ عالمی سطح پراسپین، سسلی اورترکی کے راستے سے یوروپ کے ملکوں میں دستی کاغذسازی کافن فروغ پانے لگا۔ اس دور تک دستی کاغذہی عام طورپراستعمال ہوتا تھا۔

 سب سے پہلے انگلستان میں 1492 میں کاغذ سازی کاکارخانہ قائم ہوا،جس کے بعدچھالوں اور چمڑوں پرلکھنے کے بجائے انگلستان میں کاغذپرلکھنے کی روایت شروع ہوئی۔ بڑی بڑی مشینوںسے کاغذتیار کیا جانے لگا اور مشینوں سے کاغذکی تیاری کی وجہ سے طباعت کوفروغ حاصل ہوا۔ پرنٹنگ کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے، کیونکہ قدیم زمانے میں ایران ، عراق ،شام اور ترکی کے باشندے مٹی کی تختیوں پرلکھا کرتے تھے۔ گیلی مٹی کی تختیوں پرتصویریں اتارنے کا رواج قدیم مصرکے باشندوں میںموجود رہا۔ ان تمام پرانی چیزوں پرترقی کااثر اس وقت دکھائی دیتا ہے جبکہ کاغذ بنانے کے لیے مشینوںکاآغاز ہوااور قدیم دور میں موجود طریقے جیسے گوند، کاجل اورپانی کوملاکر روشنائی یاسیاہی بنائی جاتی تھی۔ اس کے بجائے کارخانوں میں سیاہی کی تیاری کا آغاز ہوگیا تواس طریقے سے پرنٹنگ پریس یاپھرطباعت کے لیے پکی سیاہی کی تیاری آسان ہوگئی۔ہر زبان کی تحریر  کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں موجودبے شمار زبانوں میں تحریر لکھنے کی روایت بھی جداگانہ ہے۔کچھ زبانیں سیدھی جانب سے لکھی جاتی ہیں،  جن میں عربی ،فارسی ،اردو اور دوسری زبانیں شامل ہیں، جبکہ کچھ زبانیں بائیں جانب سے سیدھی جانب لکھی جاتی ہیں، جن میں سنسکرت، ہندی، انگریزی، فرانسیسی، جرمنی کے علاوہ ہندوستان کی دوسری مقامی زبانیں شامل ہیں۔ کچھ زبانوں کوریاضی کے ہندسوں کی طرح لکھا جاتا ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف تحریرکی جاتی ہیں۔ چینی، جاپانی اور دوسری زبانیں اسی انداز کی نمائندہ ہیں۔ قدیم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کاغذسازی کی صنعت کا آغاز134ھ مطابق 751ء  کے دوران عربوں کی جانب سے سمرقند کا علاقہ فتح ہونے کے بعد چند چینی کاغذسازوں کوگرفتار کیا گیا، جن سے عربوںنے کاغذسازی کی صنعت کا ہنر سیکھا۔ چنانچہ مسلمان دورحکومت میں کاغذ سازی کی صنعت کودستی صنعت کادرجہ حاصل ہوگیا۔مشرق کے مشہور شہروں سمرقند، بخارا، بغداد، دمشق، قاہرہ اورقرطبہ میں کاغذ کے دستی کارخانے قائم ہونے لگے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں جیسے کشمیر،دولت آباد اوراحمد آباد میں بھی کاغذسازی کے دستی کارخانوںکو فروغ حاصل ہوا۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشہور کاغذ  سمرقندی کاغذکہلاتا تھا۔ غرض صحافت کی سب سے بڑی ضرورت کاغذاور سیاہی اور اشاعت کے مرحلے میں طباعت کی ضرورت سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح طباعت کی تکمیل یا پرنٹنگ پریس کی موجودگی کی وجہ سے ہی صحافت کی ترقی کے راستے ہموارہوئے۔ صحافت چاہے کسی بھی زبان کے اخبار سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہو، یا ادبی رسائل سے متعلق کیوں قائم نہ ہو، علم وفن اورتہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ شعرو ادب کی نمائندگی کے جدید طریقوں میں چھاپہ خانے کی موجودگی سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔

دنیا میں سب سے پہلے جرمنی کے شہرمینزجیسے مقام پرگوٹنبرگ نامی جوہری نے مہر بنانے اورآئینہ سازی میں مہارت حاصل کی۔ اس کا مشغلہ ہی یہی تھا کہ وہ ہیرے جواہرات کو تراشنے اورآئینوںکو کاٹنے کا کام کیا کرتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے حروف کاٹنے اورحروف بنانے کی بنیاد رکھی۔جرمنی کے مقام پر1471 میںسب سے پہلے ولیم کیکسٹن نامی انگریز نے فن طباعت کے طریقے پرتوجہ دی، پھرجرمنی کے توسط سے یہ فن انگلستان منتقل ہوا جہاں ویسٹ منسٹرنے اپنا ذاتی خانگی پریس قائم کیا۔جس کے ذریعے ہاتھ سے لکھی جانے والی کتابوں کو مشین کے ذریعے اشاعت یاچھاپنے پر توجہ دی گئی۔فن طباعت کی ترقی میں پرنٹنگ پریس یامطبع کی اہمیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔ آج بھی ساری دنیا میں اخبارات اور رسائل کی اشاعت اس لیے ممکن ہوگئی ہے کہ اس کے توسط سے کاغذپر سیاہی کے ساتھ بہ یک وقت کئی ہزارصفحات کی اشاعت کے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ پرنٹنگ پریس کے ذریعے ایسی سہولت فراہم ہونے کی وجہ سے صحافت کے پیشے اور اخبارات کی اشاعت کے لیے ماحول تیار ہوگیا۔اس پس منظر میں صحافت کی تمام تر ترقی کوپرنٹنگ پریس کی مرہون منت قرار دینامناسب قرار دیا جائے گا ، جہاں کاغذ پر کبھی نہ مٹنے والی تحریرکی اشاعت ممکن ہوجاتی ہے ، اسی لیے صحافت کی تمام ترترقی کوپرنٹنگ پریس یاطباعتی مرکز یا چھاپہ خانے کی ضرورت کادرجہ حاصل ہو جاتا ہے۔اخبار ہو یارسالہ یاجریدہ، ہرایک کی اشاعت کے لیے نہ صرف پرنٹنگ پریس کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی اخبار کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ افرادکی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے ہی اشاعت کے مرحلے تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ اس لیے ادبی صحافت ہویااخباری صحافت ، ان دونوں معاملات کی تکمیل کے لیے جہاں کاغذکی موجودگی ضروری ہے، وہیں سیاہی یاروشنائی کے علاوہ اس کی چھپائی کی تکمیل کے بغیرصحافت کی ذمہ داریوںکومکمل نہیںقرار دیاجاسکتا، ا س طرح ساری دنیا کی زبانوں میں شائع ہونے والے مواد کاتعلق مختلف چھاپہ خانوںکی بروقت کارکردگی کا مرہون منت ہے۔جن کے ذریعے معلومات کی فراہمی ہی نہیں، بلکہ عام انسان تک اہم معلومات کی دسترس کے لیے ان وسائل کے استعمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

صحافت درحقیقت عربی زبان کاایسا لفظ ہے جواردو میں فارسی کے توسط سے منتقل ہوا۔ تاریخی پس منظر میں صحافت کی معنوی حیثیت مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ لغوی اعتبار سے صحافت کی تعریف اور وضاحت اوراس کی صداقت کے ساتھ ساتھ قدامت کے بارے میں مختلف حقائق موجود ہیں۔ عام زبان میں صحافت کے ذریعے اخبار نویسی ہی نہیں، بلکہ اخبارات یاجرائد کی زندگی کے لیے نامہ نگاری یاپھر خبر رسانی کے طریقوں کی تکمیل کی جاتی ہے۔ لازمی طورپر صحافت کے حقیقی مفہوم میں وہ تمام علوم وفنون اور تفریح کے علاوہ کھیل کود، جرائم اور اطلاعات کے وسائل شامل ہوجاتے ہیں، جن کے ذریعے کوئی اخباریارسالہ شہریوں، عام انسانوںاوراہل زبان کو معلومات فراہم کرنے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔اس اعتبار سے صحافت ایک ایسا وسیلہ ، جس کے ذریعے کوئی بھی تحریر ایک سے زیادہ تعداد میں شائع ہوکرلوگوں تک پہنچائی جائے گی۔ صحافت کی بنیادی ضرورتوں اور اس کے آغاز اور ارتقا کے بارے میںبھرپور جائزہ لینے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ صحافت کے مختلف رویوں کوپیش نظررکھتے ہوئے یہ ثابت کیاجائے کہ اخباری صحافت اورادبی صحافت میں موجود اشتراک اورتفریق کے امکانات کیا ہیں۔  اس لیے سب سے پہلے ادبی صحافت کے پس منظر میں مختلف حقائق اورامکانات کومنظرعام پرلایاجائے گا۔

قدیم دورسے ہی عالمی ممالک کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں خبروںکی فراہمی کے مختلف ذرائع موجود تھے، بادشاہوںکے درباروں میں وقائع نویس اور خبرنویسوں کے علاوہ باضابطہ ڈاک وتار کے نظام کی وجہ سے اطلاعات اورمعلومات کوایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کاطریقہ موجود تھا۔جدید ترقیات کے نتیجے میں دنیا میں بہت  بڑا انقلابی رجحان یہ پیدا ہوا کہ ایک وقت میں بے شمارنقول تیار کرکے انہیںدنیا کی کسی بھی زبان میں پیش کرنے کا طریقہ انسان کے قابو کاحصہ بن گیا، جس کے نتیجے میں اخباری صحافت اورادبی صحافت کی بنیادمستحکم ہوئی۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور ترقیاتی ہی نہیں، بلکہ ملک و قوم کے عروج وزوال اور مختلف تنظیمی ،  فلاحی اور خیراتی کاموں  اوران سے متعلق اطلاعات کوپیش کرنے کی ضرورت بلاشبہ کسی بھی اخباری صحافت کی دلیل ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ اشاعت کے وہ مرحلے جوروزنامہ، دوپہرنامہ، شامنامہ، دو روزہ، سہ روزہ،   ہفت روزہ یاپندرہ روزہ اساس کی نمائندگی کے علمبردارہوں، انہیں اخبارات کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے۔ انگریزی میںNews اورViews کی نمائندگی ، جن کے ذریعے اطلاعات اورنظریات کی پیشکش کواخباری صحافت Newspaper Journalism کی وجہ قرا ر پاتی ہے، اس کے بجائے شاعری ،نثر نگاری اوراس کی مختلف اصناف کے علاوہ تحقیق و تنقیدکی نمائندگی کرنے والی صحافت کو اخباری صحافت سے بالکل مختلف اورادبی صحافت  Literary Journalism کی حیثیت سے شناخت دی جائے گی۔ اردو ادب کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اس زبان کے املا، انشااورطرز تحریر کے علاوہ پیشکش کی مختلف خصوصیات کو نمائندگی دینے کے سلسلے میں نہ صرف اخباری صحافت کوعروج حاصل ہوا،بلکہ ادبی صحافت بھی فروغ پانے لگی۔جیسا کہ ابتدا میں بتایا جاچکاہے کہ اخباری صحافت ہویا ادبی صحافت،ہر دونوں کی ترقی کے لیے نہ صرف کاغذاورچھاپہ خانے کی ضرورت سے انکارنہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسی کے ساتھ اشاعت کے مرحلوںکوبھی اہمیت کا درجہ حاصل ہوجاتاہے۔ ادبی صحافت ہویا اخباری صحافت ہر دونوں کی تکمیل کئی افراد اور لکھنے والوں کی وجہ سے ممکن ہے۔ خبر رساںایجنسیوںاور نامہ نگاروں کی کوششوں کی وجہ سے اخباری صحافت کوفروغ حاصل ہوتاہے، جیسا کہ ابتدا میں بتایاجاچکاہے کہ پرنٹنگ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اخباری صحافت ہی نہیں، بلکہ ادبی صحافت کو بھی فروغ حاصل ہونے لگا۔ ایک دور تھاجبکہ اخبارات اور رسائل اگرچہ مشین پرشائع ہوتے تھے، لیکن لیتھوپریس کی موجودگی سے ہمہ رنگی طباعت ممکن نہیں تھی ، مشین کی طباعت کے باوجود لینوٹائپ مشین اسی وقت کارگر ہوتی تھی، جبکہ مشین آپریٹر موجودہو،جو انگلیوں سے بٹن کو دباکر اشاعت کاکام انجام دیتاتھا۔ کیلاٹائپ مشین بھی اردو میںاشاعت   اورچھپائی کی ضرورت بنی ،لیکن موجودہ دور میں رنگین طباعت اور آفسیٹ پریس کی وجہ سے پرنٹنگ ٹکنالوجی نے کافی ترقی کرلی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف اخبارات اور کتابیں اوراس کے ساتھ ہی رسائل وجرائد کی تیزرفتار اشاعت میں اضافہ ہوگیا ہے بلکہ مختلف سائز کے علاوہ مختلف رنگوں کے ساتھ نہ صرف نقاشی کے نمونے چھاپہ خانے کے ذریعے پیش ہورہے ہیںبلکہ اب توایسامحسوس ہونے لگا ہے کہ پرنٹنگ ٹکنالوجی کی ترقی اور آفسیٹ مشین کی ترقی یافتہ رنگین طباعت کی وجہ سے اخبارات ورسائل کے علاوہ کتابوںکی خوشنمااشاعت کوفروغ حاصل ہوچکاہے۔

اخباری صحافت کے توسط سے بلاشبہ اطلاعات اورنظریات پیش کرنے اوران سے اختلاف کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے۔ ادبی صحافت میں تحقیق و تنقیدکے ذریعے اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہوتی ہے تاہم ادبی صحافت کے تمام نکات شعری اورنثری اصناف  کے علاوہ ہر دورمیں ان کی ترقی یا تنزل اور ان کے تاریخی پس منظر سے آگاہی  سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری صحافت  کے ساتھ ساتھ اردو کی ادبی صحافت کی سرگرمیوں کوبھی فروغ حاصل ہوا۔ عام طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ صحافت کی تفہیم ہی مخصوص اندا زکی نمائندگی ہے۔ اس سلسلے میں صحافت کی تاریخ نہ صرف ادبی پس منظر میں ترقی کرنے لگی بلکہ علمی اورعملی سطح پر بھی ان کی ترقیات کادائرہ  حد درجہ وسیع ہے۔ لازمی ہے کہ اخباری صحافت کا موضوع اپنی مخصوص شناخت رکھتا ہے لیکن ادبی صحافت کے پس منظر میں اس حقیقت کااعتراف کیاجانا ضروری ہے کہ طباعت کی ترقی کی وجہ سے جہاں عالمی سطح پر اخباری صحافت کوفروغ حاصل ہواوہیں ادبی صحافت بھی ادبیات کے نثرونظم کے پس منظرمیںاہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک اورلاتعداد زبانوں میں اخباری صحافت اور ادبی صحافت کے بے شمار نمونے منظر عام پرآگئے۔ ہندوستان جیسے کئی زبانوں کے ملک میںصحافت کی نمائندگی کے دوران ادبی اوراخباری صحافت کے نمایاں نقوش واضح ہوچکے ہیں۔ اس لیے اخباری صحافت کے علاوہ ادبی صحافت کی ترقی کے پس منظرکو پیش کرناضروری ہے۔ اس موضوع کے ذریعے اخباری صحافت کے بجائے ان رسائل وجرائد پرگفتگوکی جائے گی ،جن کاتعلق علم وفن اور ادبیات سے گہراہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو رسائل و جرائدکی تاریخ کے محاکمے پر توجہ دی جائے۔ ایسے جرائد ورسائل نہ صرف طبی اور تعلیمی حیثیت سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، بلکہ یہ کہاجائے تو بیجانہ ہوگا کہ اردو دنیامیںرسائل کا مرحلہ کافی وسیع ہے۔ سیاسی،معاشی اورمعاشرتی ترقیات اورتنزل کو اخبارات اور صحافت کے ذریعے اوراطلاعات کی حیثیت سے پیش کیاجاتارہا،جبکہ رسائل کے توسط سے قانونی رسائل، زرعی رسائل، تعلیمی رسائل،اقتصادی رسائل، تدریسی اور خواتین کے رسائل ، بچوں کے رسائل کے علاوہ گلدستے  اور ایسی ہی موضوعاتی درجہ بندی سے اندازہ ہوتاہے کہ اردو دنیامیں جہاں اخباروں کی صحافت نمایاں ہے، وہیں علمی اورادبی رسائل کی بے شماراشاعتوں سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔ مطبع یا چھاپہ خانے کی شروعات کے بعد ہی عالمی سطح پراخبارات ورسائل کاسلسلہ دنیا کی بے شمار زبانوں میں عام ہوا۔ ادبی رسائل و جرائدمیںبھی مختلف قسموںکی نمائندگی ہوتی ہے ، جن کے ذریعے شعری اور نثری اصناف کے علاوہ تنقید و تبصرہ کی گنجائش برقرار رہتی ہے۔ ان ادبی خصوصیات کے علاوہ واقعات اور ادبی خبروںکی اشاعت بھی ادبی صحافت کا حصہ قرار پاتی ہے۔ کسی بھی زبان میں شائع ہونے والے رسائل کا طریقہ اخبارکے انداز سے جداگانہ ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسائل اور جرائد کی شناخت اور اس کی ساخت اخبار سے مختلف ہوتی  ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماہنامے، دوماہی ،سہ ماہی ، ششماہی اورسالنامے کی اشاعت کورسائل میںشامل کیا جاتا ہے۔ رسائل کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والی اصطلاح Journal کی حیثیت سے شناخت کی جاتی ہے۔کسی خاص انجمن یا ادارے کی نمائندگی کرنے والے رسالے کو جریدہ ،مجلہ یا Magazineکہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خاص فکر کی وضاحت سے وابستہ رسالے کوترجمان یاSpokesman کہا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک اوراصطلاح انگریزی میں مروج ہے جسے Periodical قراردیاجاتاہے۔ جرنل کے لیے رسالہ یاجریدہ اور پیریاڈیکل کے لیے اردو میں یہی انگریزی اصطلاح مروج ہے، جو وقفے وقفے سے یا طویل وقفے سے شائع ہونے والے رسالوں کے لیے مختص ہے۔ ، اس قسم کے رسائل و جرائد کو انگریزی میں پیریاڈیکل قرار دیا جاتا ہے۔ 2سال یا5سال کے علاوہ دہ سالہ یا پھر پندرہ سالہ یا  20سال کے بعد کوئی رسالہ شائع کیاجائے تو اسے رسالہ یا جریدہ نہیں قراردیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ سلورجوبلی(جشن سیمیں) گولڈن جوبلی (جشن زریں) ڈائمنڈجوبلی (جشن الماس )کے علاوہ پلاٹینم جوبلی کے علاوہ صدسالہ تقاریب پرشائع ہونے والے رسالے انگریزی زبان میں پیریاڈیکل قرار دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ادبی صحافت کے لیے جہاں ماہنامے ،دوماہی ،سہ ماہی ، ششماہی اورسالنامے شہرت رکھتے ہیں، وہیں دو سال، پانچ سال، دس سال، پندرہ سال، بیس سال یا 25سال کے علاوہ 50سال اور60سال گزارنے اور 75سال کے وقفے میں شائع ہونے والے رسائل کی حیثیت ادبی صحافت کی دین ہے، لیکن ایسے رسائل کو انگریزی میں پیریاڈیکلس کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اردو میں جنتری کے انداز سے شائع ہونے والے سالانہ رسالوں میں ہرمہینے کے اعتبار سے اہم واقعات کی تفصیلی صراحت ہوتی تھی ،اس قسم کے رسالوں کو’’ تقویم ،،کہا جاتا تھا۔ تقویم کے متبادل کے طورپر انگریزی زبان میں مستعمل اصطلاح ' Almanac' کوبھی پیریاڈیکل میںشمارکیا جاتا ہے۔

ادبی صحافت کے توسط سے ایسے تمام نقوش واضح ہوتے ہیں، جن کے ذریعے ادبی صحافت کی سرگرمیوں کو اجاگر کیاجاتا ہے۔ کسی تنظیم ، ادارے یا پھر انجمن کے علاوہ سوسائٹی کی جانب سے اس کے25 یا50سال گزارنے اور 75 سال اورسو سال پرشائع ہونے والے ادبی رسالے کوپیریاڈیکلس کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوتی ہے۔ اردو کی ادبی صحافت میں ان تمام امکانات کی گنجائش موجودہے۔  دنیا کی ہر زبان میں اس قسم کی روایت کے موجود ہونے کاثبوت ملتا ہے۔ اخباری صحافت پربھی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ادبی صحافت کی بھی نمائندگی ہوتی رہی ہے، غرض جہاں اخباری صحافت کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے وہیں ادبی صحافت کے ذریعے بھی بے شمار کارناموں کااحاطہ ممکن ہے۔ جس طرح اردو زبان کی صحافتی تاریخ میں اخبار کی حیثیت سے ’’ جامع جہاں نما،، کواہمیت حاصل ہے جو 1822میں منظرعام پرآیا جو 27 مارچ 1828 کو کولکتہ سے شائع ہونے والا ہفتہ واراخبار تھا۔اس کے ابتدائی شمارے اردومیں اورپھر فارسی میںشائع ہوتے رہے، جس کے ساتھ اس اخبار کا اردو ضمیمہ بھی شائع ہونے لگا۔ اخباری صحافت کے تمام دائرے وسیع تر ہیں، جن میں روزنامے ، دو روزہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ کے علاوہ  پندرہ روزہ اخبارات بھی شامل ہیں، جبکہ ادبی صحافت میںماہنامہ اور دوماہی رسالوں کی کوئی کمی نہیں۔ان رسالوں کا آغاز 1837 سے ہوا، امریکہ کی مشنری سوسائٹی نے عیسائی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی غرض سے ایک اہم اردو ماہنامہ ’ خیر خواہ ہند‘  مرزا پوربنارس سے 1837 میں جاری کیا، جس کے ایڈیٹرلندن مشنری سوسائٹی کے پادری آرسی ماتھرتھے۔ اس جریدے کو اردو کا پہلا ماہنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں شائع ہونے والے مضامین کا انداز فارسی اور رومن خط سے وابستہ تھا،لیکن اس کی زبان اردو تھی۔ چند سال بعد یہ رسالہ بند ہوگیا، لیکن1861 میں دوبارہ شائع ہواتو اس ماہنامے کی اشاعت میں فارسی مضامین کے علاوہ ناگری رسم الخط کوبھی شامل کیاگیا۔ اس رسالہ کی جانب سے1860 میں دومعلوماتی مضامین پرمختص کتابیں شائع کی گئیں، جو ’منتخب العلم‘ اور’ مفرح القلوب‘  کے نام سے شہرت رکھتی ہیں۔ان کتابوں کے بارے میں امداد صابری نے یہ لکھاہے کہ یہ کتابیں لیتھو طریقے پرشائع ہوئی تھیں، جن کے لیے بھاپ کی کلوں اوردخانی جہازوں کے علاوہ انگلستان کی آہنی سڑکوں کی تیاری کی طرح لیتھو طریقے پرطباعت ہوئی تھی۔ جس کے مشمولہ مضامین میں مختلف ممالک کے پرانے باشندوںکی معلومات شائع ہوتی رہیں ،غرض اردوکا پہلا روزنامہ ’جام جہاں نما‘ 1822 میں شائع ہو نے کے بعد اردو کا پہلا ماہوار رسالہ 1837 میں شائع کیاگیا۔ اس اعتبار سے اخباری صحافت کے15سال بعد ادبی صحافت کے ذریعے علمی اور تحقیقی وتنقیدی خدمات سے وابستہ رسالے کی اشاعت عمل میں آئی، اس طرح اردو صحافت میں پہلے اخباری صحافت کی کارکردگی کواہمیت حاصل ہوئی ،جبکہ ادبی صحافت کوفروغ پانے کے لیے15 سال کاوقفہ گزرگیا۔ چنانچہ آج بھی اخباری صحافت کے ساتھ ساتھ ادبی صحافت کی سرگرمیوں اورکارگزاریوں کے بارے میں مقالے ،مضامین اور تحقیق و تنقید کے ساتھ تجزیے کے طریقے رائج ہیں جوادبی صحافت کے فروغ کی ضمانت قرار پاتے ہیں۔

 

Prof. Majeed Bedar

Ex. Dept of Urdu

Usmania University

Hyderabad- (Telangana)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024 بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے   اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولا...