زبان
ایک ایسا آلہ ہے یا آوازوں کا مجموعہ جس کے ذریعے ایک انسان اپنے خیالات وجذبات دوسرے
انسان تک منتقل کرتا ہے، اسلوب زبان کو مزید موثر بناتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو انسان
اور غیرانسان کے درمیان دیوار کھڑی کرتی ہے۔ انسان وہی ہے، جس کے اندر نُطق و گویائی
ہو اور وہ اپنی ضروریات کے اظہار کے لیے حرف و صوت کا سہارا لینے پر قادر ہو۔ اگر ایسا
نہیں ہے تو ہم اُسے گونگا کہیں گے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جس
شخص کا بولنے چالنے، ادائے روز مرہ اور مافی الضمیر کے اظہار کا انداز، جتنا معیاری
اور اعلیٰ ہوگا، اتنا ہی اعلیٰ اور معیاری اس کا وہ پیام ہوگا، جسے وہ کسی ضرورت کے
پیشِ نظر کسی فرد یا اجتماع تک پہنچانا چاہ رہا ہے۔
انسانی
دنیا میں کتنی زبانیں بولی یا سمجھی جاتی ہیں، ان کا شمار دشوار ہے۔ خود ہمارے ملک
ہندستان جنت نشان میں درجنوں زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی، پڑھی جاتی ہیں۔ سب کے اپنے
اپنے انداز اور ڈھب ہیں۔ یہ سب اپنے علاقوں کے باشندوں کے ذریعے سے ان کی ضروریات کے
مطابق وجود میں آئی ہیں۔ اردو بھی ایک زبان ہے۔اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اِس وقت یہ
دنیا کی بڑی اور عظیم علمی و تہذیبی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اِس کا امتیاز یہ ہے
کہ یہ کسی قوم، ملک یا خطۂ ارض تک محدود نہیں ہے اور نہ یہ کسی مذہب و ملت کے زیرِ
اثر وجود میں آئی ہے۔ ہر علاقے و دیار میں اور ہر قوم و مذہب کے لوگ اسے بولتے، سمجھتے
اور لکھتے ہیں۔
اردو،دنیا
کی متعدد چھوٹی، بڑی زبانوں کی آمیزش سے وجود میں آئی ہے۔ سب سے اس نے حسب ضرورت
استفادہ کیا ہے، اپنے دامن کو موتیوں سے بھرا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہے۔ آپ
اِس میں بے شمار زبانوں کے اچھے، صاف ستھرے اور دلوں میں جگہ پیدا کرنے والے الفاظ
پائیں گے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں اور علمی دنیا کے متعدد علما اور دانش وروں کے اقوال
سے اس کی تائید و تصویب ہوتی ہے کہ اردو زبان خالص صحبتی، تربیتی اور تہذیبی زبان ہے۔
اس کی شیرینی، مٹھاس، نزاکت، تاثیر اور خوشبو کو وہی لوگ محسوس کرسکیں گے، جنھوں نے
ایسی مجلسیں، محفلیں اور صحبتیں پائی ہیں، جہاں اس کی آرائش و زیبائش کا التزام ملتا
ہے اور مسلسل اس کا انداز و اسلوب، محلِ استعمال، محاورات اور روز مرہ ان کا موضوع
گفتگو رہتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نزاکتوں تک محض لغات یا سندوں اور ڈگریوں کے ذریعے
سے نہیں پہنچاجاسکتا۔
اردو
کا دائرہ بہ تدریج پھیلتا اور وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اِس کو بولنے، سمجھنے اور پسند کرنے
والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں آباد ہورہی
ہیں۔ یورپ، امریکا، عرب ممالک، امارات اور دور و نزدیک کے دوسرے ممالک میں کسی نہ کسی
سطح پر اس کے فروغ و ارتقا کے سلسلے میں کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمہ وقتی یا شبینہ و صباحی
مدارس و مکاتب قائم ہورہے ہیں۔ وہاں آئے دن اردو کی مجلسیں اور محفلیں منعقد ہوتی
رہتی ہیں۔ چھوٹے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔
اردو
زبان اپنی مذکورہ بالا تمام خوبیوں اور انفرادیتوں کے باوجود بعض پریشان کن اور ترقی
کی راہ میں موانع پیدا کرنے والے مسائل سے بھی دوچار ہوتی رہی ہے۔ اُن میں اس کا تلفظ
اور املا دونوں سرِ فہرست ہیں۔اِن دو چیزوں نے اردو کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں اور دشواریاں
پیدا کی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اِن پہلووں سے بے پناہ بے احتیاطیاں اور بے اعتدالیاں پائی
جاتی رہی ہیں۔ اب بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ مسائل صرف عوام یا کم خواندہ طبقے تک محدود
نہیں ہیں، اعلی درجے کے تعلیم یافتہ افراد، مصنفین اور ارباب درس و تدریس بھی ان کا
شکار رہے ہیں۔
علم و ادب، تحریر و تصنیف اور تقریر و خطابت کی دنیا میں الفاظ اور اُن کے تلفظ کی ہمیشہ اور ہر دور میں اہمیت رہی ہے۔ علما اور اربابِ نظر نے ہمیشہ ان کی معنویت، لغوی حیثیت، محلِ استعمال، تلفظ اور طرز ادا پر زور دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تحریر یا تقریر کی عمارت جملوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جملے الفاظ سے بنتے ہیں۔ الفاظ کے بغیر ابتدائیہ، خبریہ یا انشائیہ جملوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں یہ بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ اصل حیثیت الفاظ کی ہے۔تقریر یا تحریر کا اصل حسن اسی وقت سامنے آتا ہے، جب اِس بات کا پورا پاس و لحاظ رکھا گیا ہو کہ اس میں زیرِ استعمال الفاظ کی لغوی حیثیت کیا ہے، اس کا تلفظ کیا ہے، اس کی ادائی کس طرح ہوئی ہے اور جہاں اور جس سلسلے میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہاں وہی لفظ مناسب ہے یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے تھا؟۔ اِس احساس سے انحراف کرکے جو عبارت لکھی جائے گی یا بات کی جائے گی، وہ صاحب نظر قاری یا سامع کے لیے تکلیف دِہ اور اذیت ناک ہوگی۔وہ تقریر یا تحریر اپنے موضوع کی اہمیت و ناگزیری کے باوجود بے اثر اور غیرمفید رہے گی۔ جو لوگ تقریر، تحریر یا اپنی عام زندگی میں موقع و محل کا خیال نہیں رکھتے، وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں رہتے۔سچ کہا ہے وسیم بریلوی نے:
کون
سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ
سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
املا
لفظ
یا جملے میں اِملا ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اِسی سے مصنف کی پہچان ہوتی ہے۔ ویسے
املا تحریروں میں ہی دیکھا اور جانا جاتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہ تقریر میں بھی اپنا
رنگ دکھا دیتا ہے۔ جیسے: لفظ شَخْصْ میں شین پر زبر ہے، خا پر ساکن اور صاد پر بھی
ساکن۔ اِسے اگر کوئی شَخَصْ، شین اور خا دونوں کو زبر کے ساتھ بولتا یا لکھتا ہے تو
وہ تحریر کی بجائے تقریر ہی میں پہچانا جائے گا۔
اِملے
میں پہلی چیز تو یہ دیکھی جاتی ہے کہ لفظ میں کن کن حرفوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری
چیز مستعمل حرفوں کی ترتیب دیکھنے کی ہوتی ہے۔ تیسری چیز یہ دیکھنے کی ہوتی ہے کہ جو
حروف استعمال کیے گئے ہیں، اُن میں صحیح حرکات کا استعمال کس حد تک ہوا ہے۔ اس کی ایک
مثال املا کی تعریف کے ذیل میں دے دی گئی ہے۔ عِلْم کو عِلَمْ، قَلَمْ کو قَلْمْ، حُکْمْ
کو حُکَمْ، شَکْلْ کو شَکَلْ، گَرْمْ کو گَرَمْ، سِحْرْ کو سِحَرْ یا سَحَرْ کو سِحْرْ
یا سِحَرْ لکھنا یا بولنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اِس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں
ہیں۔ ایسی غلطیوں کا اندازہ تحریروں میں تو نہیں ہوپاتا لیکن تقریروں، گفتگووں اور
اشعار میں ہوتا ہے۔ایسی غلطیوں سے تقریر یا گفتگو میں بھی کرکراپن آجاتا ہے اور اشعار
بھی بے بحرے ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں، جن میں اچھے خاصے لوگ غچّا کھا جاتے ہیں۔
اِن
شاء اللہ /انشاء اللہ یہ ایک پاکیزہ اور مقدس جملۂ ناقص ہے۔یہ ادھورا جملہ عربی کا ہے لیکن عربی، فارسی،
اردو اور دوسری زبانوں میں بھی بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔ اِس کے املے کے سلسلے میں
لوگ شدید غلطی کا شکار ہیں۔ سب انشاء اللہ الف، نون اور شین کو ملاکر لکھتے ہیں۔ جب
کہ یہاں ’اِن‘ کا استعمال حرفِ شرط کے طورپر ہوا ہے۔ اِس کا مطلب ہے،’اگر اللہ نے چاہا‘۔
ایسی صورت میں الف اور نون کو’ شا‘ سے الگ ہی لکھنا چاہیے۔ قرآنِ مجید میں بھی یہ
الگ ہی استعمال ہوا ہے۔
نونِ غنّہ (ں)
خطابیہ
کے آخر میں نونِ غنّہ (ں)لگانے کا بھی رواج عام ہے۔ اے جوانو! اے دوستو! اے مسلمانو!
کو غنّہ لگا کر اے جوانوں، اے دوستوں اور اے مسلمانوں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اِس سے
ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔ غنّہ تو اس وقت لگے گا، جب انھیں ہم غائب کے صیغے میں استعمال
کریں۔ مثلاً:
جوانوں
نے کہا، دوستوں نے سنا، دشمنوں سے مت ڈرو، اور مسلمانوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
مصدر
فارسی
میں مصدر کی پہچان دَن یا تَن ہے۔ لیکن اردو میں’نا‘( نون اور الف)۔ جیسے:
کھانا، پینا، لینا، دینا، جانا، پانا وغیرہ۔
مصدری
لفظ کے سلسلے میں دبستانِ دہلی کا عمل یہ ہے کہ یہ اِسم اور فعل کے تابع ہے۔ وہ مذکّر
ہے تو یہ بھی مذکر ہے، وہ مؤنّث ہے تو یہ بھی مؤنث۔ مثلاً: روٹی کھانی ہے، دوا لینی
ہے، کتاب پڑھنی ہے۔ شہر جانا ہے، کل اُسے کھانا کھلانا ہے اور درزی کے یہاں کرتا سلانا
ہے۔ وغیرہ
ہا
اور الف
اردو
املا ہا اور الف کے سلسلے میں اکثر موضوعِ بحث بنا رہتا ہے۔ حالاں کہ ذرا سی توجہ سے
یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کہاں الف لکھا جائے گا اور کہاں ہا۔ یہاں ’ہا‘ سے ہماری مراد
ہاے مختفی سے ہے۔ ہاے مختفی وہ ’ہا‘ ہے، جو ہم کسی لفظ کے آخر میں لکھتے ہیں اور ہمیشہ
اُسے الف کی آواز میں بولا جاتا ہے۔ وزنِ شعری میں بھی وہ الف ہی کا قائم مقام رہتا
ہے۔ ہاے مختفی سے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ یہ صرف عربی یا فارسی الفاظ کے آخر میں ہی
آئے گی۔ جیسے:
طلبہ،
صوفیہ، کعبہ، ادویہ، مدینہ، مرثیہ، صفحہ، آموختہ، شگفتہ، گزشتہ، رفتہ، دستہ، بستہ،کہنہ
وغیرہ جو الفاظ عربی یا فارسی کے نہیں ہیں ان کے آخر میں ہم الف لکھیں گے۔ جیسے:
پتا،
راستا، رستا، بھروسا، اکھاڑا، پسینا، پٹاخا، پیسا، روپیا، راجا، مہینا، ڈاکیا،
ڈھانچا،
جھروکا، چبوترا، دھبّا، ٹھپّا، ڈونگا وغیرہ
بعض
ماہرین لسانیات نے بعض شہروں کے ناموں کو مستثنیٰ کردیا ہے۔ مثلاً: امروہہ، کلکتہ،
پٹنہ وغیرہ لیکن استثنا کی حیثیت بس استثنا کی ہے۔اِس سے قاعدہ نہیں بدلے گا۔
’ہا‘ کی قسمیں
’ہا‘ کی تین قسمیں ہیں:
ہائے ملفوظ، ہائے مخلوط اور ہائے مختفی۔
ہاے
مخلوط وہ ’ہا‘ ہے، جو کسی لفظ کے شروع میں آتی ہے یا درمیان میں۔ یہ اپنے پورے تلفظ
کے ساتھ بولی یا لکھی جاتی ہے۔ جب یہ کسی لفظ کے شروع میں آتی ہے تو شوشے دار لکھی
جاتی ہے۔ جیسے: ہم، ہو، ہجرت، ہر۔ اس کی پہچان کے لیے نیچے ایک علامت(،) لگا دیتے ہیں۔
اِس علامت کو بعض علاقوں میں لٹکن بھی کہتے ہیں۔
اگر
’ہا‘ کسی لفظ کے درمیان میں آئے گی تو اسے کہنی دار لکھیں گے۔ پہچان کے لیے اس کے
نیچے بھی لٹکن لگائیں گے۔ جیسے: بہت، نہیں، کہیں، مہینا، کہنہ وغیرہ۔
جب
ہا کسی لفظ کے آخر میں لکھیں گے تو اسے ہاے مختفی کی شکل میں لکھیں گے۔ البتہ اس کے
نیچے پہچان کے لیے لٹکن لگائیں گے، جو کہ عام ہاے مختفی کے نیچے نہیں لگاتے۔ جیسے:
وجہہ، کنہہ، نُہہ فلک، گنہہ(گناہ کا مخفف) اور کُہنہ وغیرہ۔ لیکن ہا کی اِس شکل پر
انکاری ’نہ‘ یا کافِ بیانیہ ’کہ‘ کو قیاس نہ کریں۔ ’نہ‘ ہمیشہ نون پر زبر کے ساتھ ہی
لکھا اور پڑھا جائے گا اور ’کہ‘ کاف کے زیر کے ساتھ۔ شعری وزن میں بھی یہ دونوں نَ
اور کِ ہی رہیں گے۔
ہاے
مختفی کے سلسلے میں مزید باتیں
یہ
بات بتائی جاچکی ہے کہ ہاے مختفی ہمیشہ عربی یا فارسی الفاظ کے آخر میں آتی ہے۔ ہاے
مختفی میں ’ہا‘ سے پہلے والا حرف ہمیشہ زبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن جب ایسے کسی لفظ
کو امالے کے ساتھ پڑھیں گے یا لکھیں گے تو ہا سے پہلے والا حرف زیر کے ساتھ ہوجائے
گا۔ ایسی صورت میں ہا کو یاے مجہول (ے) سے بدل دیتے ہیں۔ جیسے قصیدہ سے قصیدے، درجہ
سے درجے، مرثیہ سے مرثیے، رتبہ سے رتبے اور جذبہ سے جذبے وغیرہ۔
امالہ ایک ضروری عمل ہے۔ اس کے بغیر تقریر،
تحریر یا شعر میں بدنمائی اور مضحکہ خیزی پیدا ہوجاتی ہے۔ داغؔ دہلوی کا بہت مشہور
شعر ہے ؎
کسی
کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
کمی
ہے کون سی یارب! ترے خزانے میں
اِس
شعر کے پہلے مصرعے میں اگر زمانہ اور دوسرے مصرع میں خزانہ پڑھا یا لکھا جاے تو یہ
بات اہلِ نظر کے درمیان دیر تک مذاق و تمسخر کا موضوع بنی رہے گی۔ یہی بات شہروں کے
ناموں کے سلسلے میں بھی ہے۔ غالب کا شعر ہے ؎
کلکتّے
کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اِک
تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہاے ہاے
داغ
دہلوی کا بڑا پیارا سا شعر ہے ؎
کوئی
چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں
عظیم
آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
مذکورہ
بالا دونوں شعروں میں اگر کلکتے کو کلکتہ اور سینے کو سینہ پڑھیں گے یا لکھیں گے تو
یہ ایک مقبوح و مکروہ بات ہوگی۔
ہمزہ
ہمزہ
حرف بھی ہے اور علامت بھی۔ مثلاً: جلوۂ یار،
کوچۂ جاناں اور حوصلۂ مرداں میں ہمزہ کا استعمال علامتِ اضافت کے لیے ہے اور جائو،
کھائو، سائل، مسئلہ، علاء الدین، ثناء اللہ، ماشاء اللہ اور اِن شاء اللہ میں حرف کے
طور پر۔
جن
الفاظ کے آخر میں الف ہے، ان میں اضافت کے وقت ہمزہ کا استعمال نہیں ہوگا۔ یاے مجہول
(ے) کافی ہے۔ جیسے: ابتدائے عشق، انتہائے شوق، صدائے دل، دانائے راز وغیرہ
جن
الفاظ کے آخر میں یاے معروف (ی) ہے، وہاں بھی ہمزہ نہیں رہے گا۔ آسانی کے لیے یا
کے نیچے بس زیر لگادیں گے۔ جیسے: روشنیِ دل، بندگیِ خدا، مرضیِ مولیٰ، سرخیِ حِنا،
تجلّیِ کعبہ وغیرہ۔ البتہ اگر کسی لفظ کے آخر کی یا میں ہمزہ شامل ہے تو وہاں ہمزہ
ضرور لکھیں گے اور سہولت کے لیے نیچے زیر بھی لگادیں گے۔ جیسے: تماشائیِ حیات، دانائیِ
انسان اور بے وفائیِ دوست وغیرہ
چاے،
راے، ہاے اور جاے وغیرہ میں بھی عدمِ اشباع کی صورت میں ہمزہ نہیں ہے۔ ہم چاے پییں
گے، یہ ان کی راے ہے۔ اقبال کی مناجات کا یہ شعر اکثر لوگ بے وجہ اِشباع کرکے ساقط
الوزن کردیتے ہیں ؎
دور
دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہوجاے
ہر
جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجاے
اگر
دونوں مصرعوں میں جاے کو جائے لکھیں گے یا پڑھیں گے تو دونوں مصرعے بحر سے خارج ہوجائیں
گے۔
’گی‘ کا استعمال
بعض
الفاظ کے آخر میں ’گی‘ کا استعمال کردیا جاتا ہے۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جن الفاظ کا
آخری حرف ہاے مختفی ہے، جو کہ صرف عربی یا فارسی الفاظ میں لکھاجاتا ہے، ان میں ’گی‘
کا استعمال کیا جائے گا۔ جیسے : آہستہ سے آہستگی، شگفتہ سے شگفتگی، شایستہ سے شایستگی،
زندہ سے زندگی، پختہ سے پختگی، اور آزردہ سے آزردگی وغیرہ۔
اگر
ایسا نہیں ہے تو ’گی‘ کا استعمال درست نہیں: جیسے ناراض سے ناراضگی نہیں ناراضی لکھیں
گے اور بولیں گے اور ادا سے ادائیگی نہیں بل کہ ادائی لکھیں گے اور بولیں گے۔
’ہا‘ اور ’ھ‘
’ہا‘ کا استعمال تو
عام ہے۔ اس کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ملفوظی ہے۔ جیسے: یہاں، جہاں، کہاں، بہت اور مہینا
وغیرہ لیکن ’ھ‘ جسے دو چشمی ہا بھی کہتے ہیں، اس کا استعمال ہمیشہ کسی حرف کو ہندیانے
کے لیے ہوتا ہے۔ وہ حروف جنھوں نے دوچشمی ہا کی مدد سے ہندی کا جامہ پہنا ہے، وہ درجِ
ذیل ہیں:
بھ،
پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ، وھ، یھ۔
دو
چشمی ہا کا اصطلاحی نام ہاے مخلوط بھی ہے۔ اس کی آواز اپنے سے پہلے والے حرف میں شامل
ہوکر نکلتی ہے۔جیسا کہ آپ نے بالا حروف سے اندازہ کیا ہوگا۔ ہاے مخلوط کے حرف کو دوچشمی
ہا سے ہی لکھیں گے۔ اگر کسی نے مجھے، تھے، چولھے، ننھا، جھاڑو، انھیں، انھوں نے، تمھیں،
تمھارے، جنھیں، سیدھا، پڑھناوغیرہ کو ہاے ملفوظی سے مجہے، تہے، چولہے، جہاڑو، انھیں،
جنھیں، تمھیں، انھوں نے، تمہارا، تمہاری وغیرہ لکھ دیا تو یہ غلط املا ہوگا۔ اِن تمام
الفاظ میں ہمیشہ ہاے مخلوط ہی استعمال کریں گے۔ میر کا مشہور شعر ہے ؎
سرھانے
میر کے آہستہ بولو
ابھی
ٹک روتے روتے سو گیا ہے
اِس
شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ’سرھانے‘ کو اگر ہم ’سرہانے‘لکھ دیں گے تو املا بھی غلط
ہوگا اور ایک عظیم شاعر کے شعر کو ساقط الوزن کرنے کے بھی مرتکب ہوں گے۔اس سلسلے میں
یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ جس طرح سے ہاے مخلوط والے حروف کو ہاے ملفوظ سے لکھنا
اِملے کا عیب ہے، اسی طرح سے ہاے ملفوظ والے حروف کو ہاے مخلوط (ھ) سے لکھنا بھی ایک
بڑا عیب ہے۔ جیسے:
ہے
کوھے، ہو کو ھو، ہمیں کو ھمیں، ہونا کو ھونا، ہند کو ھند، ہم کو ھم، لاہور کو لاھور
اور
ہوا کو ھواوغیرہ لکھنا۔
الفاظ
کو الگ الگ لکھنا
اردو
کو آسان، زیادہ قابلِ فہم اور حسین بنانے کے لیے علما ے زبان و بیان نے بعض لفظوں
کو الگ الگ کرکے لکھنے کی سفارش کی ہے۔ ایسی صورت میں درجِ ذیل الفاظ کو الگ الگ لکھنا
زیادہ مناسب ہوگا:
لے
کر، دے کر، کے لیے، اس کا، ان کا، جن کا، اس میں، دل میں، اَن پڑھ، اَن جان،
بے اثر، بے خوف، بے قرار، بے حیا، بے عزت، فن
کار، شاہ کار،
دولت
خانہ، دانش مند، دانش ور، طاقت ور، عقل مند، پان دان وغیرہ
بہ
بہ
کو ہم چاہے جس معنیٰ میں استعمال کریں، اِسے الگ ہی لکھا جائے گا۔ جیسے:
بہ
نظر اصلاح، بہ دقت، بہ رنگِ میر، بہ عافیت، بہ خیریت، بہ صد ادب و احترام،
بہ ذاتِ خود، بہ ہر صورت، بہ ہر حال، بہ قدرِ
ضرورت، بہ مشکل، بہ غور وغیرہ
دو
لفظوں کے درمیان بھی ’بہ‘ کا استعمال الگ ہی رہے گا۔ جیسے:
ماہ
بہ ماہ، دم بہ خود، دم بہ دم، جاں بہ لب، سر بہ سجدہ،صحرا بہ صحرا، صدا بہ صدا،
کو
بہ کو، شہر بہ شہر وغیرہ
واو
اردو
میں بعض الفاظ ایسے ہیں، جن میں اصول اور قاعدے کے بغیر درمیان میں کبھی کبھی واو کا
اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جب کہ وہاں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ الفاظ یہ ہیں:
اُس،
اُن، دکان، مٹاپا، لُہار، اُدھار، دہرایا، دہرانا، پہنچا، پہنچ، خرد (چھوٹا)اور ہندستان وغیرہ۔
البتہ
خورد (کھانے کے معنیٰ میں) واو سے لکھا جائے گا، جس کا مصدر خوردن ہے۔
مذکورہ
بالا تمام الفاظ میں واو کی نہیں صرف پیش کی آواز آئے گی۔ رُومال فارسی کے دو لفظوں
سے بنا ہے۔ ’رو‘ کے معنیٰ چہرے کے ہیں اور ’مال‘فارسی کے مصدر مالیدن سے ہے، جس کے
معنیٰ مَلنے کے ہیں، اس لیے اِسے ہمیشہ واو کے ساتھ لکھیں گے۔ لیکن واو کبھی حسب ضرورت
ملفوظی رہے گا اور کبھی محض مکتوبی۔
واضح
رہے کہ درج ذیل الفاظ میں واو کا استعمال ہوگا۔ مگر ملفوظی نہیں مکتوبی:
دو
آتشہ، دوبارہ، دوپلّی، دوپلّا، دو پٹّا، دو چار، دو چند، دو دھاری
دوسالہ،
دوشالہ، دوزانو، خوشامدی، دوشنبہ، دوگانہ، دولتّی، دومحلا،
دوبالا،
دومنزلہ، دو ورقہ وغیرہ
واوِ
معدولہ
درج
ذیل الفاظ میں واو صرف مکتوبی رہے گا۔ ان میں صرف الف کو پڑھیں گے:
خواب،
خواجہ، خواجہ تاش، خوار، درخواست، خواہ مخواہ، دسترخوان وغیرہ۔
خورشید
اور کم خواب کو بعض لوگوں نے واو کے بغیر لکھا ہے۔ لیکن ماہرین لسانیات نے واو کے ساتھ
لکھنے پر ہی اصرار کیا ہے۔
جُز
اور جُزو
اس
سلسلے میں علما نے اِس بات کی سفارش کی ہے کہ مفرد لکھنے کی صورت میں ’جُز‘ لکھیں گے
اور جب فارسی ترکیب کے ساتھ لکھیں گے تو جیم اور زا کے بعد وائو بھی لگائیں گے۔ جیسے:
جزوِ بدن، جزوِ لاینفک اور جزوِ لازم۔
علاقائیت
زدہ الفاظ
کچھ
الفاظ ایسے ہیں، جو بُری طرح سے علاقائی عیب کا شکار ہیں۔ جیسے : میں پڑھا ہوں، میں
سنا ہوں، لوٹا دھل دو اور کپڑا سِل دو وغیرہ۔حالاں کہ میں نے پڑھا ہے، میں پڑھ چکا
ہوں، میں نے سناہے، میں پہلے بھی سن چکا ہوں، برتن دھو دو، کرتا سی دو، لکھنا درست
ہے۔ دھل اور سِل میں مفعولیت ہے۔ جیسے: برتن دُھل گیا ہے، کرتا سِل گیا ہے۔
عدمِ
یک سوئی کے الفاظ
اردو
میں ایسے الفاظ بڑی تعداد میں ہیں، جن کی لکھاوٹ کے معاملے میں لوگ یک سو نہیں ہیں۔
ان میں سے چند یہ ہیں:
لیے،
دیے، کیے، جیے، سیے، لیجیے، دیجیے، کیجیے، آئیے، کھائیے، گائیے،
چاہیے،
سوچیے،دیکھیے۔
انھیں
کوئی ہمزہ سے لکھ دیتا ہے اور کوئی ہمزہ اور یا دونوں سے۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر یاے
مجہول سے پہلے والے حرف کے نیچے زیر ہے تو یاے مجہول کے نیچے یا کے دو نقطے لگائیں
گے۔ جیسا کہ اوپر لکھا ہوا ہے۔ اگر یاے مجہول سے پہلے والے حرف پر زبر ہے تو یا ے مجہول
پر ہمزہ لگائیں گے۔ جیسے : آئے، کھائے اور گئے۔
تماشا،
معما
غالب
کا مشہور مصرع ہے ؎
تماشاے
اہلِ کرم دیکھتے ہیں
ایک
دوسرے شاعر کا مصرع ہے ؎
حل
ہوسکا نہ ہم سے معماے زندگی
یہ
دونوں مصرعے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان الفاظ کا درست املا تماشا اور معما
ہے۔ تماشہ اور معمہ لکھنا درست نہیں ہوگا۔
اِعراب
اردو
میں اعراب کا التزام نہیں ہوتا۔ لیکن بعض موقعوں پر یہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ مصنف یا محرّر
کو اِس ناگزیریت اور ضرورت کا خود احساس ہونا چاہیے۔ اس کا کوئی قاعدہ نہیں وضع کیا
جاسکتا۔ خداے سخن حضرتِ میر کا شعر ہے
؎
دلّی
کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو
شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
شعر
کے پہلے مصرعے میں لفظ ’مصور‘استعمال ہوا ہے، اسے واوکے زبر کے ساتھ بھی پڑھا جاسکتا
ہے اور واو کے زیرکے ساتھ بھی۔ دونوں کے الگ الگ معنیٰ ہیں۔ اگر لکھنے والا اس لفظ
پر اعراب لگا دیتا تو قاری کو شعر کے مفہوم تک پہنچنے میں دیر نہ لگتی۔ خصوصاً کسی
حرف کے مشدّد ہونے کی صورت میں حرکت کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
عطف
اور اضافت
دو
لفظوں کے درمیان اور کے معنیٰ میں استعمال ہونے والے ’واو‘ کو عطف کہتے ہیں۔ جیسے:
صبح
و شام، مکّہ و مدینہ، نماز و روزہ، روز و شب، قیام و طعام وغیرہ
کسی
لفظ کو کسی لفظ سے منسوب کرنے کے لیے اس کے آخری حرف کو زیر کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے
یا بولنے کو اضافت کہتے ہیں۔ جیسے:
کتابِ
حیات، روشنیِ حرا، نورِ چشم،
شرحِ کتاب وغیرہ
اس
سلسلے میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ یاد رکھنے کی ہے کہ عطف یا اضافت کا استعمال صرف عربی
و فارسی الفاظ میں ہوگا۔ بہ صورتِ دیگر عطف کی بہ جاے اور، اور زیر کے ساتھ اضافت کی
بہ جاے کا،کی اور کے کا استعمال ہوگا۔ جیسے:
دن
اور رات، سونا اور جاگنا، چوری اور ڈکیٹی، چوری اور سینہ زوری
رنگ
اور روپ وغیرہ
یہاں
دن و رات، سونا و جاگنا، چوری و ڈکیٹی، چوری و سینہ زوری یا رنگ و روپ لکھنا اور بولنا
غلط ہوگا۔
اسی
طرح دل کی دھڑکن، اسکول کا وقت، دل کی بات لکھیں گے۔ یہاں دھڑکنِ دل، وقتِ اسکول
اور باتِ دل لکھنا غلط ہوگا۔
رُموزِ
اوقاف
اوقاف،
وقف کی جمع ہے۔ وقف کے معنیٰ ٹھہرنے اور رُکنے کے ہیں۔ جن علامتوں سے جملوں کی صحیح
و مناسب تقسیم ہوتی ہے اور ان کے مختلف ٹکڑوں کو صحیح طور پڑھنے اور سمجھنے میں مدد
ملتی ہے، اُن کو اوقاف کہتے ہیں۔ یہ اوقاف ہر زبان کی کتابوں اور عبارتوں میں اپنے
اپنے انداز سے ہوتے ہیں۔ اہلِ علم و دانش اُن کا پورا لحاظ رکھتے ہیں۔ اُن کے بغیر
جملے کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ اُنھیں پڑھنے، سمجھنے اور صحیح نتیجے تک پہنچنے میں دقت
پیش آتی ہے۔ ایک اچھے اور باسلیقہ مصنف یا محرّر کی ایک ذمّے داری یہ بھی ہے کہ وہ
اُن اوقاف کا پورا پاس و لحاظ رکھے اور اُن کے ذریعے سے اپنی تصنیف و تحریر کو آسان،
لائقِ مطالعہ اور قابلِ فہم بنائے۔
اُردو
میں درج ذیل آٹھ علامات ہیں، جن کی مدد سے جملوں کو آراستہ اور آسان کیا جاتا ہے:
- سکتہ —: ،
- وقفہ —: ؛
- رابطہ : — :
- ختمہ —: ۔
- سوالیہ —: ؟
- ندائیہ، فجائیہ !— :
- قوسین : — ( )
- واوین —: ’’ ‘‘
.1 سکتہ( ،)
سکتہ
کی علامت یہ ہے:،۔ یہ اپنے انگریزی نام کاما (Comma) سے زیادہ مشہور ہے۔عبارتوں کو حسین، دل کش اور
سہل الفہم بنانے میں سکتہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سکتہ، خصوصاً ایسے موقعوں پر استعمال
کیا جاتا ہے، جب دو یا دو سے زیادہ کلمے ایک ہی ساتھ آئیں۔ ایسی صورت میں پہلے ایک،
دو یا اس سے زائد کلموں کے آگے سکتے کی علامت(،) لگادی جاتی ہے اور آخری کلمے سے
پہلے ’اور‘ کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے:
رشید
ایک ذہین، محنتی اور سنجیدہ نوجوان ہے
میر
کی شاعری آسان، عام فہم اور معنیٰ خیز ہے
تم
بازار سے آتے وقت کچھ آم، خربوزے اور کیلے لیتے آنا
ندائیہ
جملوں میں اس طرح استعمال کریں گے:
جناب
صدر، معزز سامعین، مائو، بہنو اور بیٹیو!
اے
مری قوم کے نام ور شاعرو!
اے
عالمو، حافظو اور قاریو!
دو
جملوں کے درمیان اس طرح استعمال کریں گے:
* صبح ہو کہ شام، رات ہو کہ دِن ہمیں اللہ
کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔
* انسان کو ہمیشہ، ہر لمحہ اور ہر حال
میں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
ایک
ہی ڈھنگ کے جملوں کے درمیان، اس طرح استعمال کریں گے:
* میں یہاں آیا، وہاں گیا اور دن بھر
یوں پھرتا رہا
دو
ناموں کے درمیان اس طرح استعمال کریں گے:
* سہیل، دہلی سے واپس آگیا
* الفاروق، شبلی کی شاہ کا ر تصنیف ہے
.2 وقفہ (؛)
سکتہ
چھوٹے ٹھہرائو کے لیے آتا ہے، جس کی علامت ’ ،
‘ہے۔ وقفہ، سکتہ سے کچھ زیادہ ٹھہرائو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی علامت
(؛) ہے۔
جب
کئی جملوں یا ٹکڑوں کے درمیان سکتہ ہو تو اس صورت میں آخری ٹکڑے کے بعد نسبتاً لمبا
توقف کرنا پڑتا ہے۔ اس مقام پر وقفہ کا استعمال کریں گے۔جیسے:
محنت،
مستعدی، احساسِ ذمے داری؛ یہ سب آج کی نسل میں مفقود ہیں۔
.3 رابطہ (:)
کسی
کا قول نقل کرنے کے لیے، کوئی حوالہ دینے کے لیے یا کسی بات کی تشریح و توضیح سے پہلے
رابطہ استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی علامت (:) ہے۔ مثلاً:
فارسی
کے تین معروف شاعر یہ ہیں:
سعدی،
جامی اور حافظ
یہ
اقبال کا شعر ہے ؎
عقابی
روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر
آتی ہے، ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
علامت
رابطہ کو تفصیلیہ بھی کہتے ہیں۔
.4 ختمہ(۔)
ختمہ اپنے انگریزی نام ڈیش سے زیادہ جانا جاتا ہے۔اس
کی علامت (۔) ہے۔ جب کوئی جملہ مکمل ہوجاے تو ختمہ (۔) لگاتے ہیں۔ جیسے:
میں
لکھنؤ میں رہتا ہوں۔
مجھے
کل بمبئی جانا ہے۔
.5 واوین )’’— ‘‘)
واوین
کا استعمال اس وقت ہوتا ہے، جب کسی کی کوئی بات یا کسی کا کوئی خاص جملہ نقل کریں۔
اس بات یا جملے کے شروع اور آخر میں واوین (’’
‘‘) کی علامت لگائیں گے۔ تاکہ یہ بات واضح رہے کہ متذکرہ بات یا جملہ کہاں سے
کہاں تک ہے۔
چونکہ کمپیوٹر میں واوین کا استعمال کسی قدر
بدنمائی پیدا کردیتا ہے، اس لیے بعض اہل علم دونوں طرف صرف ایک ایک علامت لگاتے ہیں۔
جیسے:
نظیراکبر
آبادی کی نظم ’آدمی نامہ‘ ہے۔
نام
ور عالم و محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر نثار احمد فاروقی ؒنے آخر میں یہی رویہ اختیار
کرلیا تھااور ہمارے ممدوح اور مشہور عالم و مصنف مولانا سیّد جلال الدین عمریؒ بھی
اِسی پر عمل کرنے لگے تھے۔
.6 ندائیہ، فجائیہ (!)
ندائیہ
کو فجائیہ بھی کہتے ہیں۔یہ علامت کسی کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے:
صدرِ
محترم!، پیارے بھائی! ساقیا!
خدایا!
اکمل!
کل تم کہاں تھے؟
غالب
کا مشہور مصرع ہے ؎
جب
توقع ہی اٹھ گئی غالب!
جب
تخاطُب میں کسی قسم کا غصہ، افسوس، تعجب یا تکلیف کی کیفیت ہو تو یہ علامت فجائیہ کہلاتی
ہے۔ جیسے: افّوہ! بھیا بس کرو!، وہ اور شرافت! افسوس صد افسوس!
.7 سوالیہ (؟)
اگر
کسی جملے میں سوال یا دریافت طلب بات ہو تو اسے سوالیہ کہتے ہیں۔ اس کی علامت (؟) ہے۔
جیسے:
کیا
اذان ہوگئی؟، حامد کہاں گیا؟
سوالیہ
کو اِستفہامیہ بھی کہتے ہیں۔
.8 قوسین ( )
قوسین
کا استعمال عموماً جملۂ معترضہ میں کیا جاتا ہے۔ جیسے: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی (جو
جماعت اسلامی کے بانی امیر بھی تھے) انھوں نے تفہیم القرآن کے نام سے قرآنِ مجید
کی تفسیر لکھی ہے۔
کبھی
کبھی کسی بات کی وضاحت کے لیے اِسے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے: مولانا عامر عثمانی اپنے
عہد کے نام ور سخن ور (شاعر) تھے۔
قوسین
کی علامت ( ) بھی ہے اور [ ] بھی۔
میں
نے اس مختصر سے وقت میں تصنیف و تحریر کی اہم ضروریات کے پیشِ نظر زبان و بیان اور
تلفظ و املا کے سلسلے کی چند باتوں کی نشاں دہی کی ہے اور اُن اصولوں اور قاعدوں کی
بھی کسی قدر صراحت کردی ہے، جو میں نے لسانیات کے علما کی صحبتوں اور اُن کی کتابوں
سے سیکھے ہیں۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ یہ میدان بہت وسیع ہے۔ کسی چھوٹے سے مضمون
یا مختصر سی صحبت میںاِس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے صرف قاری یاسامع کو زبان
و بیان اور تلفظ و املا کے سلسلے میں احساس دلایا ہے اور زبان و بیان اور املا کی اہمیت
واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
زبان
و بیان اور تلفظ و املا کے سلسلے میں ہندو پاک میں بہت کام ہوا ہے۔ کتاب خانوں اور
لائبریریوں میں اِس موضوع پر بے شمار کتابیں ملتی ہیں۔ اس موضوع پر کام کرنے والوں
میں صفِ اوّل کے علما و دانش ور شامل ہیں۔ان میں مولوی عبدالحق، نثار احمد فاروقی،
عبدالستار صدیقی، شان الحق حقی، شوکت سبزواری، رشید حسن خاں، شمس الرحمن فاروقی، گوپی
چند نارنگ، اطہر ہاشمی، رفیع الدین ہاشمی اور ابونثر احمد حاطب صدیقی کے نام خصوصیت
کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔بڑی تعداد میں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے اوراپنی تحریروں،
تقریروں اور تصانیف میں ان کی تجویزوں، سفارشوں اور وضع کردہ قاعدوں کو برتا بھی ہے۔
آپ حسب سہولت ان کتابوں، رسائل اور مضامین کو دیکھیں گے تو اِن شاء اللہ فائدہ ہوگا۔آپ
کی تحریر و تقریر میں دل کشی پیدا ہوگی۔
Dr.
Tabish Mehdi
G5/A
- Abul Fazl Enclave
Jamia
Nagar, New Delhi - 110025 (INDIA)
Ph:
26970736 Cells: 9818327947
E-mail:
drtabishmehdi@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں