ہر زندہ زبان میں علوم و فنون کی سطح پر اصطلاحات بنیادی
اہمیت رکھتی ہیں جو زبان کو نئے الفاظ کا خون اور تازہ خیالات کی توانائی عطا کرتی
ہیں اور جو ہماری سماجی وراثت کو ثروت مند بناتی ہیں۔ اگر مروج معنی کے علاوہ کسی لفظ
کے کوئی معنی صلاح و مشورے سے مقرر کرلیے جائیں تو معنی کی اس صورت کو اصطلاحات کہتے
ہیں۔ اسی طرح کئی تصورات یا خیالات اس لفظ سے ادا ہوجاتے ہیں۔ مولوی وحیدالدین سلیم
اپنی کتاب ’وضع اصطلاحات‘ میں اصطلاح کی صراحت یوں کرتے ہیں :
’’ہر اصطلاح سے اختصار
مقصود ہوتا ہے تاکہ ایک چھوٹے سے لفظ سے وسیع معنی مراد لیے جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا
جاتا اور ہمیشہ اس بات کی کوشش کی جاتی کہ عبارت خواہ کسی قدر طولانی ہوجائے تاہم پورا
اور صحیح مفہوم ظاہر ہوتو پھر اصطلاح وضع کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہتی۔ غرضیکہ
’’ہر اصطلاح ایک چھوٹی سی علامت ہوتی ہے، جو بہت بڑے مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے اور
بولنے والوں اور لکھنے والوں کو وقت ضائع کرنے سے بچاتی ہے۔‘‘
(وضع اصطلاحات انجمن ترقی اردو ہند اورنگ آباد 1921، ص 187)
فیروز اللغات میں اس لفظ کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ’’کسی
علمی یا فنی گروہ کا کسی لفظ کے عام معنوں کے علاوہ کوئی خاص مفہوم مقرر کرلینا۔‘‘
اصطلاح کے لیے انگریزی میں Terminology لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اردو زبان میں اصطلاحات کا سرمایہ تو اسی وقت سے پیدا
ہونے لگا تھا، جب یہ زبان متعدد علوم و فنون کا ذریعہ بنی تھی۔ اسی دور میں عربی، فارسی،
ترکی اور سنسکرت سے اصطلاحات ماخوذ کی جانے لگی تھیں یا وضع ہونے لگی تھیں لیکن اٹھارہویں
صدی عیسوی میں جب برّصغیر میں مسلم سلطنت کا زوال ہونے لگا اور انگریزی اقتدار رفتہ
رفتہ وجود میں آکر انیسویں صدی میں مکمل طور پر مستحکم ہوگیا تو ایک نیا مسئلہ اس
وقت پیش آیا جب جدید مغربی علوم کو اردو زبان کے ذریعے حاصل کرنے کا عمل شروع ہوا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصطلاحات اور وضع اصطلاحات کے مسئلے نے ایک خاص اہمیت حاصل
کرلی۔ 1825 میں دہلی کالج قائم ہوا، اسی کے ساتھ ساتھ وہاں ’دہلی ورٹیکلر ٹرانسلیشن
سوسائٹی‘ قائم ہوئی اور درسی کتابوں کی ضرورت کے لیے کیمیا، نباتات، معدنیات، ریاضی،
طب، علم ہندسہ اور دوسرے علوم کی اصطلاحیں وضع کی گئیں۔ حیدرآباد میں شمس الامرا نے
انگریزی اور فرانسیسی سے اہم کتابوں کے اردو تراجم میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ یہاں
1834 سے 1850 کے درمیان 20 سے زائد سائنسی کتابوں کے اردو تراجم منظر عام پر آئے۔
سرسید احمد خان نے 1863میں ’سائنٹفک سوسائٹی‘ قائم کی۔ اس سوسائٹی کا مقصد جدید بنیادی
سائنسی کتابوں اور امہات الکتب کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔ وضع اصطلاحات کی کمیٹی
بھی اسی زمانے میں سرسید احمد خان نے قائم کی۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں 1856سے
1888 تک ذریعۂ تعلیم اردو زبان تھی۔ درسی ضروریات کے پیش نظر وہاں بھی متعدد کتابیں
اردو میں لکھی گئیں اور اصطلاحات وضع کی گئیں۔ اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں بھی ذریعہ
تعلیم اردو تھی، وہاں بھی طلبہ کی درسی ضرورت کے پیش نظر کتابیں لکھی گئیں اور جدید
طبی اصطلاحات اردو میں وضع کی گئیں۔ یہ ذخیرہ
آج بھی ہند و پاک کے بعض کتب خانوں میں محفوظ ہے۔ سائنٹفک سوسائٹی مظفرپور نے
1868کے آس پاس فلکیات، معدنیات، طبیعیات، جغرافیہ اور فنِ تعمیر وغیرہ پر متعدد کتابیں
ترجمہ کرائیں، لکھوائیں بلکہ وضع اصطلاحات کے کام کو بھی اس سوسائٹی نے آگے بڑھایا۔
شاہان اودھ غازی الدین حیدر اور نصیرالدین حیدر کے دور حکومت میں بہت سی علمی و سائنسی
کتابیں اردو میں ترجمہ ہوئیں اور بہت سی نئی اصطلاحیں وجود میں آئیں۔ 1865 میں انجمن
پنجاب کا لاہور میں قیام عمل میں آیا۔ اس انجمن کے تحت بھی ترجمہ و اصطلاحات کا بڑا
کام منظر عام پر آیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریزی سے اردو تراجم اور علمی اصطلاحات
کی روایت کی تاریخ کم و بیش 200 سال قدیم ہے، جس کا سلسلہ آج بھی جاری تو ضرور ہے
لیکن اصطلاحات سازی کا عمل کم و بیش رک سا گیا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزی سے اردو تراجم اور
اصطلاحات سازی کا عمل اس وقت زیادہ اہمیت حاصل کرگیا جب 26 اپریل 1917 کو نظام دکن میر عثمان علی خان نے یہ فرمان جاری
کیاکہ ’’اپنی تخت نشینی کی یادگار میں سلطنت آصفیہ میں ایک جامعہ کے قیام کا حکم دیتا
ہوں جس کا نام ’جامعہ عثمانیہ‘ ہوگا۔‘‘ اس فرمان کے چار ماہ کے اندر اندر 14 اگست
1917 کو شعبۂ تالیف و ترجمہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس شعبے کے سربراہ مولوی عبدالحق
مقرر کیے گئے۔ اس کا مقصد جامعہ عثمانیہ کے لیے ضروری کتب لکھوانا اور ترجمہ کرانا
تھا تاکہ یہ کتابیں جامعہ عثمانیہ میں درسی کتب کے طور پر استعمال کی جاسکیں۔ جامعہ
عثمانیہ کا قیام 1918 میں عمل میں آیا۔ جامعہ
عثمانیہ کا ذریعہ تعلیم چونکہ اردو زبان تھی۔ اس لیے یہاں اصطلاحات سازی کے کام میں
بھی غیرمعمولی پیش رفت ہوئی۔ اس حوالے سے مولوی وحیدالدین سلیم نے اپنی کتاب وضع اصطلاحات
میں لکھا ہے کہ :
’’خدا کا شکر ہے کہ جامعہ
عثمانیہ دکن کی اس جنرل کمیٹی میں جس زبان اور علم کا صحیح مذاق رکھنے والے بزرگ شامل
تھے، یہ اہم مسئلہ کثرت رائے سے طے کردیا ہے کہ انگریزی زبان کی اصطلاحیں بجنسہٖ یا
کسی تغیر یا تبدل کے ساتھ اردو زبان میں نہ لی جائیں بلکہ انگریزی علمی اصطلاحات کے
مقابلہ میں اردو علمی اصطلاحات وضع کی جائیں۔ اس بنا پر ان حضرات کے خیالات جو اصطلاح
سازی کے مخالف ہیں، اب زیادہ قابل توجہ اور لائق بحث نہیں رہے‘‘۔
(وضع اصطلاحات، مولوی سید وحیدالدین سلیم، اورنگ آباد 1921، ص 7)
اس مرحلے پر پہنچ کر اصطلاحات سازی کے دو گروہ پیدا
ہوگئے۔ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ تمام اصطلاحی الفاظ عربی زبان سے بنائے جائیں۔ دوسرے
گروہ کا خیال یہ تھا کہ اصطلاحات وضع کرنے میں ان تمام زبانوں کے لفظوں سے کام لینا
چاہیے جو اردو زبان میں بطور عنصر شامل ہیں اور ان لفظوں کی ترکیب میں اردو گرامر سے
مدد لینی چاہیے۔ اس گروہ نے یہ بھی کہاکہ اردو زبان آریائی خاندان سے اور عربی زبان
سامی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں خاندانوں میں الفاظ بنانے کے جدا جدا قاعدے ہیں
اور یہی وہ چیز ہے جس کی ضرورت علمی اصطلاحات میں پیش آتی ہے۔ چنانچہ جامعہ عثمانیہ
کی وضع اصطلاحات کمیٹی نے دونوں گروہ کے نقطۂ نظر پر غور کرنے کے بعد یہ منظور کردیا
کہ اردو زبان میں جو علمی اصطلاحیں وضع کی جائیں ان کے الفاظ عربی فارسی اور ہندی سے
بے تکلف لیے جائیں مگر الفاظ کی ترکیب وضع کرتے وقت اردو زبان کی گرامر کا لحاظ رکھا
جائے۔
مجالس وضع اصطلاحات کا طریقِ کار یہ تھا کہ الفاظ کی
فہرست پہلے تیار کرکے ہر رکن کے پاس بھیجی جاتی تھی لہٰذا جب وہ لفظ پیش کیا جاتا تو
اس کا ترجمہ بھی پیش کیا جاتا۔ اس سلسلے میں اگر کسی کو اعتراض نہ ہوتا تو وہ لفظ مع
ترجمہ صدرنشین مجلس ایک رجسٹر میں درج کرلیتے اور دوسرے لفظ کو لیتے۔ پھر کوئی لفظ
ایسا آتا کہ مختلف ترجمے پیش ہوتے۔ ان پر بحث ہوتی اور جو طے پاتا اسے درج کرلیا جاتا۔
کبھی کبھی ایک ہی لفظ پر اتفاق رائے بننے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ لیکن اس کے بعد کوئی
نہ کوئی لفظ طے کرلیا جاتا تھا۔
مجلسِ وضعِ اصطلاحات میں مختلف علوم و فنون اور ماہرین
زبان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جن کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں سے تھا۔ پورے ملک
سے ماہرین کو جمع کرکے وضع اصطلاحات جیسے مشکل کام کو انجام دیا گیا۔ ان تمام میں سرفہرست
مولوی سید وحیدالدین سلیم تھے، جنھیں ترکیبیں بنانے اور وضعِ اصطلاحات سے خصوصی دلچسپی
تھی۔ جس کا ثبوت ان کی کتاب ’وضع اصطلاحات‘ ہے، جس میں اصطلاحات بنانے کے متعدد طریقے
بتائے گئے ہیں۔ سابقوں، لاحقوں، انگریزی زبان کے لاحقوں، اردو مصادر، مفرد اصطلاحیں،
فعلی اصطلاحات، اردو کے جدید مصادر، ترکیب الفاظ، نیم سابقے، نیم لاحقے، مرکب اصطلاحات
جیسے اصطلاحات بنانے کے لیے متعدد اصول و ضوابط اور طریقے مع مثال پیش کیے گئے ہیں۔
چوں کہ وحیدالدین سلیم عربی فارسی اردو ہندی اور انگریزی زبان کے ماہر تھے اس لیے انھیں
یہ کام زیادہ مشکل محسوس نہیں ہوا لیکن برسوں کی محنت کے بعد اس کتاب کی تکمیل ہوپائی۔
اس موضوع پر آج تک اس نوعیت کی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سو سال سے
زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کتاب سے استفادہ کرنا محققین، ناقدین اور وضع اصطلاحات
سے دلچسپی رکھنے والوں کی ضرورت تسلیم کی جاتی ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وحیدالدین
سلیم کی کتاب ’وضع اصطلاحات‘ سے چند ایسے مرکب الفاظ اور اصطلاحیں پیش کی جائیں جو
سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے وضع کی گئی ہیں۔ پہلے سابقوں پر مشتمل چند مثالیں دیکھیں
جو لفظ ’خوش‘ سابقہ کے ذریعے وجود میں لائی جاتی ہیں۔
خوش اسلوب، خوش اسلوبی، خوش اقبال، خوش آواز، خوش الحان، خوش انتظام، خوش باش، خوش بیان، خوش
پوشاک، خوش تقریر، خوش حال، خوش خبری، خوش خرام، خوش خط، خوش خلق، خوش اخلاق، خوش دامن،
خوش دل، خوش ذائقہ، خوش رنگ، خوش زبان، خوش طبع، خوش تحریر، خوش گوار، خوش لباس، خوش
نصیب، خوش نویس، خوش وضع، خوش کلام، خوش فکر، خوش قسمت، خوش مزاج، خوش اطواروغیرہ۔
(وضع اصطلاحات صفحہ 33-34)
اسی طرح لاحقوں کے ذریعے بنائی گئیں چند اصطلاحیں دیکھیں
جو ’خواں‘ کے لاحقے کے ساتھ وضع کی گئی ہیں جو خواندن مصدر پڑھنا سے امر کی شکل ہے۔
مولود خواں، ناظرہ خواں، قرآن خواں، قصہ خواں، فاتحہ
خواں، کتاب خواں، ثنا خواں، مدح خواں، نعت خواں، روضہ خواں، مرثیہ خواں، نوحہ خواں،
غزل خواں، خوش خواں، سوز خواں، درود خواں، پریخواں، ابجد خواں، انگریزی خواں وغیرہ۔
اسی طرح ’خانہ‘ لاحقہ سے وضع کی گئی چند اصلاحیں دیکھیے :
آبدار خانہ، آئینہ خانہ، بیمار خانہ، پاگل خانہ،
قید خانہ، جیل خانہ، کارخانہ، چھاپہ خانہ، شراب خانہ، باورچی خانہ، مے خانہ، قمار خانہ،
توپ خانہ، نعمت خانہ، عجائب خانہ، ٹپہ خانہ، شفا خانہ، ڈاک خانہ، دیوان خانہ، غریب
خانہ، غسل خانہ، بت خانہ، کبوتر خانہ، کتب خانہ، نگار خانہ، نقار خانہ، بھٹیار خانہ،
عاشور خانہ، مہمان خانہ وغیرہ۔
’مجلس وضع اصطلاحات‘
میں ملک کی نامور شخصیتوں کی شمولیت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ عہدِ عثمانی میں اہل
علم و فضل کی قدردانی کا کیا عالم تھا۔ سائنسی علوم، فلسفہ، تاریخ، قانون، ریاضی، ارضیات،
حیاتیات، انجینئرنگ، طب، تدریسات، علم ہیئت، نباتیات، حیوانیات، منطق، عمرانیات، سیاسیات،
معاشیات کے شعبوں کے لیے علیحدہ علیحدہ 12 مجالس وضع اصطلاحات (ذیلی کمیٹیاں) قائم
کی گئی تھیں۔ ان کمیٹیوں میں متعلقہ علوم و فنون کی وابستہ ماہرین کی خدمات حاصل کی
گئی تھیں۔ ڈاکٹر سید مصطفی کمال نے متعدد علوم و فنون پر مشتمل وضع کی گئیں اصطلاحات
کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے :
’’1940
کے قریب دارالترجمہ میں اصطلاحات سازی کی گیارہ مختلف مضمون واری کمیٹیاں
کام کررہی تھیں۔ سر رشتۂ تالیف و ترجمہ کی آخری مطبوعہ رپورٹ کے مطابق سر رشتہ نے
مارچ 1946 تک مختلف فنون کی جو اصطلاحیں وضع
کی تھیں اس کی تفصیل یوں ہے : فلسفہ 837، تاریخ 618، عمرانیات 729، تدریسیات 5370،
قانون 18,000، ریاضیات 1696، طبیعیات 1213، کیمیا 1176، ارضیات 1200، حیاتیات 7000،
طب 40,000، انجینئری 10,000۔ گویا مارچ 1946 ء تک دارالترجمہ میں جملہ 88,839 (اٹھاسی
ہزار آٹھ سو انتالیس) اصطلاحیں وضع ہوچکی تھیں۔ ستمبر 1948 تک ممکن ہے اس تعداد میں پانچ چھ ہزار کا اضافہ
ہوا ہو لیکن اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔‘‘
(حیدرآباد میں اردو کی ترقی تعلیمی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے، ڈاکٹر مصطفی کمال، شگوفہ پبلی کیشنز حیدرآباد 1990، ص 27)
ڈاکٹر مصطفی کمال نے وضع اصطلاحات کمیٹیوں میں تال
میل نہ ہونے اور ثقیل اور نامانوس اصطلاحیں وضع کرنے کے حوالے سے لکھا ہے :
’’جامعہ عثمانیہ میں اصطلاحات سازی کا کام خاص نہج پر بڑی احتیاط و دانش مندی کے ساتھ سر انجام دینے کی کوشش کی گئی اور ابتدا ہی سے اس تحریک کو انتہا پسند حضرات کی دست برد سے محفوظ رکھا گیا تاہم چوں کہ علمی اور وضع اصطلاحات کی کمیٹیوں میں ان کا غلبہ تھا اور ہر مرحلہ پر ان کی نگرانی ممکن نہ تھی اس لیے ایسی ثقیل اور نامانوس اصطلاحیں بھی مدون کرلی گئیں جن پر بجا طور پر اعتراض ہوتا رہا اور اسی وجہ سے ان اصطلاحات کو مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ اس کے علاوہ وضع اصطلاحات کے کام میں رابطہ کی کمی بھی تھی۔‘‘
(ایضاً، ص 270)
دارالترجمہ عثمانیہ کے مترجمین اور مولفین اپنے اپنے
فن میں ماہر تھے۔ ان میں وحیدالدین سلیم، الطاف حسین حالی، نظم طباطبائی، مرزا محمد
ہادی رسوا، عبداللہ عمادی، منشی ذکاء اللہ کے فرزند محمد عنایت اللہ دہلوی، محمد الیاس
برنی، عبدالماجد دریابادی، ظفر علی خان، رشید احمد صدیقی، عبدالباری ندوی، خلیفہ عبدالحکیم،
نصیر احمد عثمانی، عبدالحلیم شرر شامل تھے۔ ان کے علاوہ جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ میں
ڈاکٹر مظفرالدین قریشی، ڈاکٹر سید حسین، محمد نصیر احمد عثمانی، محمود احمد خان، ڈاکٹر
رضی الدین صدیقی اور مولوی عبدالحق وغیرہ شامل تھے جنھوں نے ان اصطلاحوں کی ترتیب و
طباعت اور نشر و اشاعت میں اعانت کی تھی۔
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں وضع اصطلاحات کے برسوں
بعد تک اصطلاحات کی تدوینی رفتار کافی سست رہی ہے۔ سرکاری سطح پر چلائے جانے والے فروغ اردو سے وابستہ
اداروں نے اپنی سطح پر وضع اصطلاحات پر متعدد کام کیے لیکن وہ تشفی بخش نہیں رہے۔ کچھ
ماہرین زبان نے بھی اصطلاحات سازی کے عمل میں اپنی دلچسپی ظاہر کی اور کتابیں شائع
کرائیں لیکن موجودہ ضرورت کی تکمیل نہ ہوسکی۔ لغات کی تدوین میں بھی ہندوستان اور پاکستان
میں بڑا کام ہوا ہے لیکن اصطلاحات سازی کے عمل میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی ہے۔
ہندوستان میں لغات و فرہنگ اصطلاحات کے حوالے سے بھی
قابل قدر کام نہیں ہوئے ہیں تاہم کچھ اداروں اور ماہرین زبان نے اس موضوع پر وقیع کام
کیے ہیں۔
مولوی ظفرالرحمن کی ’فرہنگ اصطلاحات پیشہ وراں‘ آٹھ
جلدوں پر محیط ہے۔ یہ لغت کرخنداری اور پیشہ ورانہ الفاظ و اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اس
لغت کو مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو سے شائع کیا تھا۔ مولوی عبدالحق کا ہی ایک
اہم ترین کارنامہ انگریزی اردو ڈکشنری ہے جو اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری کے نام سے
منظر عام پر آئی۔ اب تک اردو انگریزی ڈکشنری کی کمی محسوس کی جاتی تھی، اس کمی کو
مولوی عبدالحق نے پورا کردیا۔ جمیل جالبی نے بھی اکیسویں صدی کے اوائل میں اردو انگریزی
ڈکشنری مرتب کرکے شائع کی۔ یہ لغت بھی اپنی نوعیت کی منفرد لغت ہے۔ ہندوستان کے کئی
اداروں نے اس ڈکشنری کو شائع کیا ہے۔ قومی کونسل نئی دہلی کی جانب سے مشہور ناقد کلیم
الدین احمد کی مرتبہ ڈکشنری ’جامع انگریزی اردو لغت‘ چھ جلدوں میں برسوں قبل شائع ہوچکی
ہے۔ یہ لغت بھی کافی اہمیت کی حامل ہے۔
اردو کی مقبول و مبسوط اور ضخیم لغت مولوی فیروز الدین
کی ’جامع فیروز اللغات‘ ہے۔ یہ لغت 1472 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ایک لاکھ پچیس ہزار
قدیم و جدید الفاظ کے معنی، صحیح تلفظ، علمی، ادبی اور فنی اصطلاحات، مرکبات، محاورات
اور ضرب الامثال شامل ہیں۔ فیروز اللغات کی اشاعت
1950 کے آس پاس عمل میں آئی تھی۔
1967 میں اس لغت پر نظرثانی کی گئی اور ہندی حروف کو علیحدہ کرکے اس کی اشاعت عمل میں
لائی گئی۔ میرے زیرنظر 1988کا ایڈیشن ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کا ہے جس میں
تقریباً پچیس ہزار جدید الفاظ اور اصطلاحات کے اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ طلبا کی
ضرورت کے پیش نظر ’فیروز اللغات‘ عام کتابی سائز پر بھی اہم ترین الفاظ و اصطلاحات
و محاورات کو شامل کرتے ہوئے ضخامت کم کرکے شائع کی گئی ہے۔ ہندوستان و پاکستان کے
متعدد اداروں نے اس لغت کو اپنے اپنے انداز سے شائع کیا ہے۔ لیکن آج جب کہ نئے نئے
الفاظ، اصطلاحات اور تکنیکی و سائنسی لفظیات اردو میں رائج ہوچکے ہیں، ان کے اندراج
کی ضرورت ہے۔ کم و بیش پچاس برسوں سے اس لغت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جس کی شدید
ضرورت ہے۔ اس لغت میں بعض غلطیاں بھی موجود ہیں جس کی تصحیح ضروری ہے بلکہ یہ کہا جائے
تو بہتر ہوگا کہ اردو میں ایک ایسی لغت کی ابھی بھی ضرورت ہے جو ضخامت میں بھلے ہی
فیروز اللغات سے کم ہو مگر جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل کرسکے اور جس میں قدیم و جدید
علوم و فنون سائنس، ٹیکنالوجی، اصطلاحات اور محاورات کے حوالے سے نئے انداز سے روشنی
ڈالی گئی ہو۔ یہ کام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے بہتر کوئی دوسرا
ادارہ نہیں کرسکتا ہے۔ قومی کونسل کو وضع اصطلاحات کے حوالے سے ابھی کام کرنے کی شدید
ضرورت ہے، وحیدالدین سلیم کی وضع اصطلاحات
کے بعد مولوی عبدالحق، برج موہن دتاتریہ کیفی، سید سلیمان ندوی، مسعود حسن رضوی ادیب،
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری
جیسے اصحاب قلم نے قلم اٹھایا، لیکن اس کے باوجود فی الوقت جو نئی نئی اصطلاحات اور
انگریزی کے نئے نئے الفاظ اردو میں من و عن داخل ہوکر رواج پاچکے ہیں، ایسے اصطلاحات
و الفاظ کی اردو میں ترجمے کی شدید ضرورت ہے۔ کشاف قانونی اصطلاحات کے عنوان سے رشید
احمد صدیقی کی کتاب 1987-1988 میں منظر عام
پر آئی۔ یہ فرہنگ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ وضع اصطلاحات کے موضوع پر پاکستان سے عطش
درانی کی کتاب ’اردو اصطلاحات سازی‘ کم و بیش بیس سال قبل منظر عام پر آئی، اس کے
بعد ہند و پاک میں اس طرح کا کوئی دوسرا کام اب تک نہیں ہوسکا ہے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے لغات
کی اشاعت و ترتیب کے سلسلے میں اہم کام انجام دیے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کی اشاعت کے علاوہ
مختلف فنون و موضوعات پر مشتمل متعدد فرہنگیں شائع کی ہیں۔ ان میں ’دکنی لغت‘ شامل
ہے جسے پروفیسر سیدہ جعفر نے ترتیب دیا۔ بڑی محنت سے اس فرہنگ کی ترتیب عمل میں آئی۔
’دکنی لغت‘ قومی کونسل کی سلسلہ وار نصابی غیر نصابی اشاعت کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس لغت
میں ساڑھے پانچ سو سال قدیم الفاظ تک کو جگہ دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ان پر اعراب بھی لگائے
گئے ہیں تاکہ قاری کو دکنی الفاظ کے صحیح تلفظ کی ادائیگی میں کوئی دقت نہ ہو۔ الفاظ
کے معنی کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کی چار چار مثالیں بھی دی گئی ہیں اور مآخذ کی
نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مثالیں زیادہ تر نظموں سے پیش کی گئی ہیں اور شاعر کا نام بھی
درج کیا گیا ہے۔ دکنی زبان و ادب کے حوالے سے سیدہ جعفر کی ’دکنی لغت‘ایک سنگ میل کی
حیثیت رکھتی ہے۔
شمالی ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں ہندی زبان بولی
جاتی ہے اور کہیں کہیں اردو بولنے والے افراد موجود ہیں تو ان کی بولیوں پر بھی مقامی
ہندی کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بہت سے مترجمین کو جنھیں ہندی سے اردو
میں ترجمے کا کام کرنا پڑتا ہے، اردو لغت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر قومی
کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے دو جلدوں پر مشتمل ایک ’جدید ہندی اردو‘ لغت
کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور اس ڈکشنری کی تالیف کی ذمے داری معروف ماہر لسانیات پروفیسر
نصیر احمد خاں مرحوم (سابق استاد جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی) کو سونپی گئی۔
انھوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد جدید ہندی اردو لغت کی تدوین کا فریضہ انجام
دیا۔ اس لغت میں قدیم و جدید ہندی کے الفاظ
اور معانی و مفاہیم ہندی اور اردو دونوں رسم الخط میں دیئے گئے ہیں۔ اس لغت کی تدوین
میں جن چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے ان میں یونیورسٹیوں کے نصاب، قدیم دستاویزات،
صحافتی زبان اور عام بول چال کے الفاظ شامل ہیں۔ الفاظ کے مآخذ کے لیے عربی، فارسی
اور سنسکرت لفظیات کی بنیاد تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے۔ علاقائی بولیوں کے الفاظ،
کبیر، سور داس اور تلسی داس وغیرہ کے کلام کے الفاظ، محاورے اور کہاوتیں بھی اس میں
شامل ہیں۔ ہندی اندراجات کے معانی اردو میں دے کر انھیں اردو اور دیوناگری دونوں رسم
الخط میں علامات و اعراب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاکہ متن کی قرأت اور تلفظ کی ادائیگی
میں کوئی دشواری نہ ہو۔ دو جلدوں پر مشتمل اس لغت میں تقریباً سوا لاکھ الفاظ جمع کیے
گئے ہی۔ چار ہزار محاورے اور کہاوتیں بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں کونسل نے مختلف موضوعات پر چھوٹی چھوٹی
فرہنگیں شائع کی ہیں۔ جن میں اردو کی صوتی لغت (مرتب نصیر احمد خاں) فرہنگ اصطلاحات
شماریات، فرہنگ اصطلاحات قانون وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ اردو لغات کی ضرورت کی تکمیل
کی راہ آسان کرنے میں کونسل مدد کرے گی۔
’ادبی اصطلاحات کی وضاحتی
فرہنگ‘ کے عنوان سے ایک کتاب پروفیسر عتیق اللہ نے اردو مجلس،دہلی سے 1993 میں شائع
کی۔جس میں ادبی اصطلاحات کے حوالے سے مفید معلومات ملتی ہیں۔
یہاں ایک اور اہم ڈکشنری کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا
ہے، اور وہ ہے حیدرآباد کے یعقوب میراں مجتہدی کی ’اردو انگریزی لغت مجتہدی‘۔ یعقوب
میراں مجتہدی 1931 میں حیدرآباد میں پیدا
ہوئے۔ انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کیا۔ ڈپارٹمنٹ آف ٹرانسلیشن
حکومت آندھراپردیش میں ملازم ہوئے۔ ڈپٹی ڈائرکٹر آف ٹرانسلیشن کے عہدے سے
1989 میں سبکدوش ہوئے۔ 21 جولائی 2010 کو ان
کا حیدرآباد میں انتقال ہوا۔ یعقوب میراں مجتہدی کو اردو اور انگریزی زبان پر عبور
تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تنہا یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ ’اردوانگریزی لغت
مجتہدی‘ تین جلدوں پر مشتمل ہے، جس میں ایک لاکھ پچیس ہزار الفاظ ہیں۔ یہ لغت چنچل
گوڑہ حیدرآباد سے 2009 میں شائع ہوئی۔ برسوں
کی محنت کے بعد مجتہدی صاحب نے بغیر کسی کی مدد کے یہ کام انجام دیا جو قابل ستائش
و لائق تقلید کارنامہ ہے۔ لغت نویسی کا عمل موجودہ دور میں رک سا گیا ہے کیونکہ عہد
حاضر کے نقاد، دانشور اور محققین اس دقت طلب کام کی ذمے داری اپنے سر نہیں لینا چاہتے
ہیں اور نہ ہی کوئی ادارہ یہ جوکھم اٹھانا چاہتا ہے۔ ’’فیروز اللغات‘‘ کے بعد کم و
بیش نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں کوئی بھی مستند لغت منظر عام پر نہیں
آسکی ہے۔ حالانکہ اس طویل مدت میں کثیر تعداد میں ہندی، انگریزی اور دوسری زبانوں
کے الفاظ اردو میں داخل ہوچکے ہیں اور ان کا استعمال ہو بہو اردو میں ہوتا ہے۔ اس جانب
توجہ کی ضرورت ہے اور ایک ایسی لغت کی تدوین وقت کا تقاضا ہے جس میں جدید الفاظ کے
ساتھ ساتھ مروجہ اصطلاحات اور تراکیب وغیرہ کی اصولِ فرہنگ کے مطابق تدوین عمل میں
لائی جائے۔
یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے وہ
یہ کہ اصطلاحات سازی کا عمل برسوں سے جمود کا شکار ہے۔ اردو میں گزشتہ پچاس برسوں میں
بہت سے انگریزی اور ہندی کے الفاظ لکھنے، پڑھنے اور بول چال کی زبان میں شامل ہوچکے
ہیں، جنھیں ہم من و عن اپنی زبان اردو میں استعمال کرتے ہیں، حالانکہ تھوڑی سی توجہ
کے بعد ان الفاظ کے اردو متبادل تلاش کیے جاسکتے ہیں یا ان الفاظ کے نعم البدل وضع
کیے جاسکتے ہیں۔ اصطلاحات سازی پر کوئی بھی ادارہ، کوئی بھی تنظیم یا کوئی بھی دانش
گاہ توجہ مبذول کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ انگریزی زبان کی تکنیکی و پیشہ ورانہ
اصطلاحات اردو زبان کا آئے دن حصہ بنتی رہتی ہیں، جس کے باعث اردو کا ذخیرہ ثروت مند
ہونے کی بجائے کم مائیگی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ یہی صورت حال دوسری زبانوں سے اردو
میں ترجمہ ہونے والی کتابوں کا بھی ہے۔
اصطلاحات کے حوالے سے جو کام گزشتہ پچاس برسوں میں
ہوئے ہیں، ان میں زیادہ معنویت نہیں پائی جاتی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ
اس مدت میں اصطلاحات سازی پر کوئی کام ہی نہیں ہوا ہے۔ محمد نعمان وحید بخاری اصطلاحات
سازی اور تراجم کی موجودہ صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اصطلاحات کی بات کی
جائے تو عرصہ دراز سے یا یوں کہیے کہ گزشتہ نصف صدی سے کوئی بھی نئی اصطلاح اردو زبان
کا حصہ نہیں بنی، جبکہ انگریزی زبان کی تکنیکی اور پیشہ ورانہ اصطلاحات اردو زبان میں
آئے دن حصہ بنتی رہتی ہیں، جس کے سبب اردو الفاظ کا ذخیرہ تقریباً معدوم ہوتا جارہا
ہے۔ یہی حال دوسری زبانوں سے اردو زبان میں ترجمہ ہونے والی کتب کا ہے۔ اس کی ایک وجہ
تو مترجم کا مقصدِ ترجمہ پیغام رسانی کا ہوتا ہے یا خیال سے متاثر ہوکر وہ اس کام کو
انجام دیتا ہے، جس کے باعث مقصد تو پورا ہوجاتا ہے لیکن کوئی زبان سے متاثر نہیں ہوپاتا،
یا یوں کہیے کہ اردو زبان کی جانب نہیں آتا۔ تراجم کی فہرست میں بھی موجودہ صورت حال
میں دیکھا جائے تو انگریزی زبان سبقت لے گئی ہے۔ دنیا بھر کے کلاسیکی ادب کا ترجمہ
انگریزی میں ہوچکا ہے۔ اگر تخلیق کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو بھی جدید علم میں جو
اضافہ ہورہا ہے وہ انگریزی میں ہورہا ہے۔ اگر کسی زبان میں ہوتا بھی ہے تو اسے فوری
طور پر انگریزی میں ترجمہ کردیا جاتا ہے۔‘‘
ہندی والے اصطلاحات سازی اور تراجم کے معاملے میں ہم
سے آگے ہیں۔ آج جدید ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق سیکڑوںالفاظ جو انگریزی
کے ہیں، اردو کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ الفاظ ہماری توجہ کے متقاضی ہیں۔ یہاں چند انگریزی
الفاظ و اصطلاحات لکھے جارہے ہیں جو عام طور پر بول چال اور لکھنے پڑھنے میں استعمال
ہوتے ہیں لیکن ان کے اردو تراجم موجود نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ بھی سیکڑوں اصطلاحیں ہو بہو اردو میں مستعمل ہیں جو انگریزی زبان
کی ہیں۔ مثال کے طور پر واشنگ مشین، ریفریجریٹر، چالان، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، موبائل،
کمپیوٹر، انٹرنیٹ، کی بورڈ، ہارڈ کاپی، سافٹ کاپی، ہارڈ ڈسک، مانیٹر، پرنٹر، ماؤس،
اسکرین، لیپ ٹاپ، گیجٹس، واٹس اپ، چیٹنگ، ای میل، سوشل میڈیا، فیس بک پوسٹ، لائک، شیئر،
ٹوئٹر، انسٹا گرام، ویوز، کانفرنس، سمینار، سمپوزیم، آل انڈیا ریڈیو، پاس بک، نیفٹ،
کرنٹ اکاؤنٹ، سیونگ اکاؤنٹ، سی سی ٹی وی کیمرہ، ایمبولنس، وائرس، آدھار کارڈ، لائسنس،
پاسپورٹ، آن لائن میٹنگ، ورچول میٹنگ، ماسک، سینیٹائرز، فیس شیلڈ، پی پی ای کٹ، لاک
ڈاؤن، کونسلنگ، کال سنٹر، ریزرویشن، ٹکٹ، اسٹیشن، اسٹیشن ماسٹر، ٹی ٹی ای۔ ٹی سی اسٹیشن
وغیرہ۔ یہ وہ الفاظ و اصطلاحات ہیں جو برسوں سے ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ان
کے علاوہ انگریزی کے ہزاروں الفاظ و اصطلاحیں ہماری زبان میں من و عن مستعمل ہیں جن
کا ترجمہ اردو میں نہیں ہوا ہے جس کے باعث مجبوراً ہمیں انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے
پڑتے ہیں۔
تجسس، تفکر، تدبر اور تحقیق جیسی خصوصیات نئی نسل اور
خصوصاً طلبہ میں تقریباً ناپید ہوچکی ہیں۔ تساہل، تجاہل، تغافل اور جمودِ فکر کی شکار
یہ نسل محنت اور جدوجہد سے عاری نظر آتی ہے۔ سہل پسندی ان کا وطیرہ بن چکا ہے جس کی
وجہ سے زبان کا غلط استعمال، اِن کی بول چال اور تحریروں میں پایا جاتا ہے۔
مصدر، مخرج، مشتق، مفرد، مرکب، اضافتِ لفظی، مضاف،
مضاف الیہ اور واؤعطف سے لاعلمی بھی غلط زبان بولنے اور لکھنے کی جانب طلبہ اور اساتذہ
کو مائل کرتی ہے۔ انگریزی اصطلاحات پر قناعت کرنے کی عادت بن چکی ہے۔ یونیورسٹیوں میں
ادب کے ساتھ ساتھ زبان پر خصوصی توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی یہ مشکلات طلبہ کے ساتھ
پیش آتی ہیں۔ بہت سے حرکت والے الفاظ کو ساکن پڑھنے کی روایت عام ہوگئی ہے مثلاً
: علما، فضلا، شعرا، فقرا، جہلا، شرکا، ادبا، رؤسا، ورثا، امرا، طلبہ، سفرا وغیرہ
کو حرف دوّم پر جذم کے ساتھ پڑھنے کی غلط روایت بن چکی ہے۔
شعَرا کو شعرا، علَماء کو علما، فضَلا کو فضْلا، شرَکاء
کو شرَکا، فقَرا کو فقْرا، جہَلا کو جہلا، ادَبا کو ادْبا، طلبہ کو طلباء، امَرا کو
امْرا، سفَرا کو سفْرا، اسَاتذہ، اساتذہ، جَدّوجہد کو جدّوجہَد، جَہالت کو جِہالت،
خودکشی کو خودکَشی، زعَم کو زعم، شمولیت کو شَمولیت، معنَون کو مَعْنون، ناراضی کو
ناراضگی، پڑھنے کی ایک عام روش پڑھے لکھے افراد میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جمع الجمع
استعمال کرنے کی روایت عام روش کا حصہ بن چکی ہے۔ جیسے : وجوہ کی جگہ وجوہات، رسوم
کی جگہ رسومات، اکابر کے لیے اکابرین، عمائد کے لیے عمائدین، لوازم کے لیے لوازمات،
ارکان کے لیے اراکین، مشائخ کے لیے مشائخین وغیرہ الفاظ کو غلط اعراب کے ساتھ پڑھنا
عام ہوگیا ہے۔
بول چال کی زبان میں بھی انگریزی کا تسلط اِس قدر بڑھ
گیا ہے کہ ہر پڑھا لکھا شخص اپنی گفتگو میں انگریزی الفاظ کا بے محابہ استعمال کرتا
ہے۔ اس کی ایک مثال کے لیے ایک اقتباس پیش ہے۔ ایک صاحب اپنے ساتھیوں کو کسی جلسہ کی
روئیداد سنارہے تھے۔ ان کی باتیں کچھ اس طرح تھیں :
’’جب ہم ہال میں انٹر (Enter) ہوئے تو اندر گیدرنگ (Gathering) (مجمع) کچھ خاص نہیں
تھی، بہت سی کرسیاں ایمٹی (Empty) پڑی تھیں، اسپیکر بہت لاؤڈلی (Loudly) بول رہا تھا، میں واپس
آگیا، اس لیے کہ وہاں خواہ مخواہ ٹائم ویسٹ ہونا تھا۔‘‘
(زبان خامہ کی خامیاں، علیم ناصری، پاکستان، صفحہ 66)
امکانات:
اردو میں مغربی علوم
و فنون کے تراجم اور اصطلاحات سازی کے عمل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اردو روز بروز
ترقی کررہی ہے۔ اخبارات و رسائل اور ٹیلی ویژن نشریات کے علاوہ ٹی وی چینلس پر اردو
کی خبریں پیش کی جاتی ہیں۔ ان خبروں کے پڑھنے والوں کے زبان و بیان اور لفظوں کی ادائیگی
پر توجہ دلائی گئی تو وہ اردو زبان کو بہتر طور پر پیش کرسکیں گے۔
آج کل ٹی وی چینلوں
کے ذریعے جو خبریں ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہیں ان میں بہت سے ایسے انگریزی الفاظ استعمال
میں لائے جاتے ہیں جن کے متبادل لفظ اردو میں موجود ہیں، صرف تھوڑی سی توجہ دینے کے
بعد یہ کام بہتر طور پر انجام دیا جاسکتا ہے۔
اردو کے اساتذہ اور
زبان کے ماہرین کی کوششوں سے اردو میں دخیل نئے انگریزی الفاظ و اصطلاحات کے تراجم
وضع کیے جاسکتے ہیں شرط یہ ہے کہ انھیں سرکاری سرپرستی حاصل ہو یا کوئی سرکاری ادارہ
اس طرف توجہ دے اور ان کی خدمات حاصل کرسکے۔
قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان نئی دہلی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ وضع اصطلاحات پر کسی جامع پروجیکٹ
کو منظوری دے اور اس کے لیے خطیر رقم فراہم کرے تو چند برسوں میں ماہرین زبان وضع اصطلاحات
کے عمل کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور مختلف علوم و فنون پر مشتمل انگریزی میں رائج
اصطلاحات کے متبادلات اردو میں وضع کیے جاسکتے ہیں۔
ریاستی سطح پر اردو
سے وابستہ افراد بھی اس جانب توجہ دیں تو یہ کام ناممکن نہیں کیوں کہ اردو سے تعلق
رکھنے والے افراد کی ملک میں کمی نہیں اور نئی نسل کو اردو میں نئی اصطلاحات سے روشناس
کرانے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو صحیح زبان سکھانا وقت کا تقاضا ہے۔ ممکن ہے اِس جانب حکومت
بھی توجہ دے مگر شخصی دلچسپی سے بھی اردو کے اساتذہ یہ کام بہ آسانی انجام دے سکتے
ہیں۔ کیونکہ ؎
نہیں ہے امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
حوالے
- وضع اصطلاحات :مولوی سید وحیدالدین سلیم، انجمن ترقی ہند، اورنگ آباد 1921
- فرہنگ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ: مرتبہ : ڈاکٹر جمیل جالبی مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد 1991
- کشاف قانونی اصطلاحات، ترتیب : رشید احمد صدیقی مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد1982
- فرہنگ ِ اصطلاحات اور محاوراتِ قانون، شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونیورسٹی، کراچی 1982
- حیدرآباد میں اردو کی ترقی تعلیمی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے: ڈاکٹر سید مصطفی کمال، شگوفہ پبلی کیشنز، حیدرآباد1990
- مملکت آصفیہ میں اردو زبان کی ترویج و ترقی، مرتب نظامس اردوٹرسٹ ، ملک پیٹ، حیدرآباد 2022
- جامعہ عثمانیہ : ڈاکٹر حسن الدین احمد، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 1988
- ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ(جلداوّل): عتیق اللہ اردو مجلس، دہلی 1995
- زبان خامہ کی خامیاں: علیم ناصری، پاکستان ……
- حیدرآباد کے علمی اور ادبی ادارے ، شفیعہ قادری، حسامی بک ڈپو، حیدرآباد 1983
- نقوش (مکاتیب نمبر)، ادارہ فروغ اردو لاہور، پاکستان 1968
- ماہنامہ معارف: دارالمصنّفین شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، یوپی مارچ 2022
- سہ ماہی عالمی فلک : مدیر احمد نثار، دھنباد، جھارکھنڈ اکتوبر تا دسمبر 2021
- اخبار اردو : مقتدرہ قومی زبان، کراچی، پاکستان، مئی 1982
Dr. Sabir Ali Siwani
H. No.: 9-4-87/C/12, Ist Floor
Behind Moghal Residency,
Tollchowkl
Hyderabad- 500008 (Telangana)
Cell.: 9989796088
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں