جدید افسانہ آج بھی ترقی پسند افسانے کی طرح اپنے دور کا ترجمان اور عکاس ہے اور اس میں بھی سیاسی جبر، ناانصافیوں، پا مال عقائد، شکستہ اقدار اور فرسودہ نظام حیات کے خلاف شدید احتجاج پایا جا تا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ علامت نگاروں کا طرز اظہار حقیقت پسند افسانے سے مختلف ہے اور اس میں تمام باتیں واضح اور دو ٹوک انداز میں نہیں بلکہ بالواسطہ اور علامتی پیرائے میں کہی جاتی ہیں اس کی وجہ اگر نئے دور کے افسانہ نگاروں کا قدیم پیرایۂ اظہار سے اجتناب اور نئے اسلوب کو بروئے کار لانے کی خواہش ہے تو دوسری وجہ عصر کا تقاضا بھی ہے۔
جدید افسانے کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدید
افسانہ روایتی افسانے کی طرح صرف کہانی بیان نہیں کرتا بلکہ زندگی کے تلخ حقائق اور
اقدار کی شکست کے ساتھ ساتھ زندگی کی بے معنویت اور بے سمتی کا نوحہ بھی پیش کرتا ہے
اور جبر واستحصال کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتا ہے۔ جدید افسانہ نگار عصری مسائل
کو جس طرح محسوس کر رہے ہیں اس سے قبل کے افسانہ نگاروں نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس
کی وجہ شاید یہ ہے کہ جدید عہد کے معروضی حالات ماضی قریب کے حالات سے بالکل مختلف
تھے۔
جدید افسانہ نگاروں نے عصری زندگی اور خاص طور پر حالیہ
تاریخ کے تمام اہم واقعات پر افسانے لکھے ہیں۔ لیکن ان افسانوں کو ان کے صحیح تناظر
میں دیکھنے اور سمجھنے کے لیے خاص نظر کی ضرورت ہے قاری چونکہ روایتی افسانہ پڑھنے
اور زندگی کو مخصوص نقطہ نظر سے دیکھنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب ہمارے سامنے
کوئی نیا انداز بیان اور زندگی اور فن کو پر کھنے کے لیے نیا معیار آتا ہے تو ذہن
اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، اور قاری اپنے مخصوص اورطے شدہ راہوں پر چلنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔
فنی نقطۂ نظر سے جدید اردو افسانوں میں واضح فرق محسوس
ہوتاہے۔ اردو کا جدید افسانہ نئے تجربات سے گزرا ہے اردو میں ہیئت، اسلوب اور تکنیک
میں کافی تبدیلی کے بعد نئی شکل سامنے آئی ہے بہ الفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ
زبان موضوع کی تابع ہے لہٰذا نئے طرزِ اظہار کے لیے ہیئت کی تبدیلی نا گزیر تھی۔
جدید افسانہ نگاروں
میں انور سجاد، بلراج مین را، احمد یوسف، شفیع جاوید، شفیع مشہدی، غیاث احمد گدی، زکی
انور، الیاس احمد گدی، جیلانی بابو، حسین الحق، شفق، شوکت حیات، عبد الصمد، شمیم افزا
قمر، قمر جہاں، سلام بن رزاق، ذکیہ مشہدی، وغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں درج بالا جدید
افسانہ نگاروں کے افسانوں میں جدیدیت کے زیراثر استعاراتی اور مبہم انداز پایا جاتا
ہے۔ جس سے تانیثیت کا بھرپور موضوع سامنے نہیں آتا جس کا تعلق میرے مقالے سے ہے لیکن
ان میں بعض افسانہ نگاروں مثلا آمنہ ابوالحسن، قمر جہاں، ذکیہ مشہدی وغیرہ کے افسانوں
میں عورت پر ہونے والے جبر واستحصال کا اظہار موجود ہے۔
واجدہ تبسم :
واجدہ تبسم کے افسانے بھی ایک خاص تہذیبی ومعاشرتی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں،
خواتین اردو ادب میں ان کے افسانے منفرد اور بے باک رجحان کے حامل ہیں۔ ان کے بیشتر
افسانوں میں سماجی اور معاشی دباؤ میں کچلی، دبی اور پسی عورتوں کی نفسیات، ذہنی رجحانات
اور ذاتی رد عمل کی مکمل تصویر کشی نظرآتی ہے۔
واجدہ تبسم کا ایک مشہور افسانہ اترن ہے۔ یہ افسانہ
اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں انھوں نے تانیثی فکر واحتجاج کی موثر ترجمانی کی ہے۔ تاریخی،
سماجی اور معاشی جبر کی شکار ایک الہڑ لڑکی ’چمکی‘ کی نفسیات اور ظلم وزیادتی کے خلاف
اس کا احتجاجی رویہ پوری طرح سامنے آتا ہے۔ مذکورہ افسانہ تاریخی، سماجی، نفسیاتی
اور ثقافتی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
افسانہ اترن میں ایک نسوانی کردار ’ چمکی‘ کی کہانی
بیان کی گئی ہے جو شہزادی پاشا کے گھر میں
بیگمات کے اترن پہنا کرتی ہے جو اس کے لیے انتہائی کرب انگیز بات ہوتی ہے اس کا ضمیر
اسے اترن پہننے سے بازر رہنے پر ابھارتا ہے مگر چمکی نام کی یہ کنیز مجبورا اترن پہنتی
ہے۔ دھیرے دھیرے اس کے دل میں انتقامی جذبہ سراٹھانے لگتا ہے۔ بالآخر ایک دن وہ وقت
آگیا کہ اس نے بھی نواب صاحب کی بیگم کو اپنا اترن پہنادیا۔
یہاں ’ اترن ‘ سے ہماری مراد استعمال کی ہوئی کوئی
بھی چیز ہوتی ہے۔ شہزادی پاشا کی شادی ہونے والی تھی اور تمام تیاریاں مکمل ہو چکی
تھیں، اسی رات چمکی کو بھی ایک خوبصورت اور قیمتی جوڑا پہننے کو ملا۔ اس کے دل میں
برسوں کا انتقام لینے کا جذبہ ابھر ا اور رات کو وہ اپنے خوبصورت اور جوان جسم کو خوبصورت
کپڑوں سے مزین کرکے دولہا راجہ کو ملیدہ کھلانے پہنچ گئی۔ وہ ملیدے کے ساتھ خود بھی
دولہا راجہ کے سامنے کھڑی ہو گئی اور انھیں اکسانے لگی۔ دولہا میاں کو بھی اختلاط کا
نشہ سا چڑھنے لگا اور ملیدے کے بجائے وہ چمکی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہنے لگا۔
’’ ہم ملیدے ولید ے سے
منھ میٹھا کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ہم تو۔ ہاں۔ ‘‘ انھوں نے ہونٹوں کے شہد سے اپنا منھ
میٹھا کرنے کو اپنے ہونٹ بڑھا دیے اور چمکی ان کی بانھوں میں ڈھیر ہو گئی۔ ان کی پاکیزگی
لوٹنے۔ خود لٹنے اور انھیں لوٹنے کے لیے۔‘‘
( اترن، مشمولہ، بیسویں
صدی میں خواتین کا اردو ادب، ص300)
واجدہ تبسم نے بڑے جرأت مندانہ انداز میں مسلم معاشرے
کے اس نوابی اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے طبقے کے نظام کو بے نقاب کیا ہے۔ ’ اترن‘ جیسی
کہانی نے جہاں انھیں شہرت اور مقبولیت بخشی لیکن وہیں سماج کے قدامت پرست طبقے نے انھیں
فحش افسانہ نگار قرار دیا۔ وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوئیں۔ بلکہ مسلسل سماجی ناسوروں کے
خلاف احتجاج بلند کرتی رہیں۔ ان کے بہت سے افسانے جنسی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں جس
کے حوالے سے وہ عورت کی مجبوریوں کو اس کی لاچاریوں اور فطری محرومیوں کو بیان کرتی
ہیں لہذا اس اعتبار سے انھیں تانیثیت کا گہرا شعور رکھنے والی افسانہ نگار کہا جا سکتا
ہے۔
آمنہ ابو الحسن:آمنہ ابو الحسن کی تخلیقی نگارشات
لگ بھگ نصف صدی سے منظرِعام پرآرہی ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’کہانی‘ 1965میں
شائع ہوا۔آمنہ ابو الحسن نے عورتوں کی نفسیات کو بہتر طو رپر واضح کیا ہے۔ ان کی کہانیاں
اس لیے جاندار اور متحرک ہوتی ہیں کہ انھوں نے کائنات میں رونما ہونے والے حالات وواقعات
پر محض سرسری نظر نہیں ڈالی ہے بلکہ ان حالات وواقعات کی معنویت کو ہمیشہ مد نظر رکھتے
ہوئے فرقہ واریت کی شدید مذمت کی ہے۔
آمنہ ابو الحسن کا ایک نمائندہ تانیثی افسانہ ’لحاف‘
ہے یہ افسانہ عصمت چغتائی کے ’لحاف‘ سے بالکل مختلف ہے۔ اس افسانے میں مصنفہ نے علامتی
واستعاراتی انداز میںمردانہ سماج میں عورت ذات کی حیثیت کو بیان کیا ہے۔ ’ لحاف‘ کی
کہانی اصل میں عورت کی کہانی ہے جسے مرد نے جب چاہا استعمال کیا اور جب چاہا چھوڑ دیا۔
’لحاف‘ علامت ہے عورت کے وجود کی کہ جس کے میلا ہوجانے پر مرد کو اس کے دھونے کی کوئی
فکر نہیں ہوتی اور اگر پھٹنے لگے تو اس کے سینے کا کوئی غم نہیں ہوتا۔ گویا عورت کی
حیثیت مرد کے نزدیک ایک لحاف سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ آمنہ ابو الحسن کو کہانی بننے
میں کمال حاصل ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بات کہنے کی ماہر ہیں۔ وہ اپنے افسانوں
میں نہ تو سیاست بگھارتی ہیں اور نہ ہی فلسفہ طرازی سے مرعوب کرتی ہیں۔ اْن کا یہ اختصاص
ان کی ہر کہانی میں موجود رہتا ہے۔
افسانہ ’لحاف‘ میں مہر نسوانی کردار ہے اور شکیل مردانہ
کردار ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی ایک ہی لحاف میں سوتے ہیں جب ان دونوں کی شادی ہوئی تھی
تب یہ لحاف انتہائی خوب صورت، ملائم اورآرام دہ تھا لیکن اب کافی عرصہ گزر جانے کے
بعد اور کم سن بیٹے کے بار بار رات کو پیشاب کرنے کی وجہ سے اس میں بد بو اور میلا
پن پیدا ہو گیا تھا۔ شکیل اس پرانے اور بدبو دار لحاف کو گھر میں رکھنا نہیں چاہتا
لیکن مہر کو یہ لحاف اس لیے پیارا تھا کیونکہ اسی لحاف میں وہ اپنے شریک حیات کے ساتھ
شب زفاف کو سوئی تھی، ان حسین لمحوں کی یاد مہر کے پورے وجود اور حواس خمسہ میں رچ
بس گئی تھی، اسی لیے وہ افشاں کے بستر گیلا کرنے کے بعد اسے دھوپ دکھاتی ہے اور اس
پر عطر چھڑکتی ہے تاکہ اس کی بد بو زائل ہوجائے۔ شکیل کے بار بار منع کرنے کے بعد بھی
مہر اس لحاف سے کنارہ کش ہونا نہیں چاہتی ہے آخر کار شکیل ایک نیا خوبصورت لحاف خرید
لاتا ہے اور جب دونوں میاں بیوی رات کو سوتے ہیں تو مہر کو اس میں بالکل نیند نہیںآتی
وہ ساری رات کر وٹیں بدلتی رہتی ہے دوسرے دن وہ پھر اسی پرانے لحاف میں سوتی ہے، یہ
پورا افسانہ علامتی اور استعاراتی نوعیت کا ہے مرد جب ایک بیوی سے اکتا جاتا ہے تو
وہ دوسری ڈھونڈنے لگتا ہے۔ لیکن عورت جس مرد کا دامن تھام لیتی ہے پھر اسے تادم حیات
چھوڑنا نہیں چاہتی۔
آمنہ ابو الحسن عورت کے نفسیاتی پہلوؤں کو بڑے خوبصورت
انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ انھیں زبان وبیان پر بھی قدرت حاصل ہے۔ وہ عورت
ہو کر عورت کی شخصیت اس کی خواہشوں اور سماج میں اس کی حیثیت کی بہتر ین عکاسی کرتی
ہیں۔
قمر جہاں:
اردو کے تانیثی افسانہ نگاروں میں قمر جہاں کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ
افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ نقاد کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔ قمر جہاں کا اصلی نام بھی
قمر جہاں ہی ہے ان کے والد کا نام سید عطا الحق مرحوم تھا اور والدہ کا نام بی بی اختر
جہاں تھا۔ ان کی پیدائش 1948 میں دربھنگہ (بہار ) میں ہوئی۔
جہاں تک ان کی افسانہ نگاری میں تانیثی شعور کا تعلق
ہے ان کے افسانے نہ صرف نسائی خیالات وجذبات پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ سائنسی صنعتی
اور تکنیکی دور کی اس تیز رفتار زندگی میں عورت کے ٹوٹتے بکھرتے وجود کی بھی عکاسی
کرتی ہیں۔آج جب کہ عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ذہانت اور لیاقت کے جو ہر دکھاچکی
ہے۔ لیکن اس سائئنسی،صنعتی اور تکنیکی دور نے بہت حد تک اس کی خانگی زندگی کو در ہم
برہم کر دیا ہے قمر جہاںنے اپنے افسانوں میں عصر حاضر کی عورت کے گونا گوں مسائل اور
مردوں کے ظلم وستم کو بیان کیا ہے۔
’آج کی عورت ‘ قمر جہاں
کا ایک شاہ کار افسانہ ہے جو موجودہ دور کی عورت کے مسائل اور اس کی الجھنوں پرمحیط
ہے۔ اس افسانے کا تانا بانا قمر جہاں نے بہت ہنر مندی اور ہوشیاری سے تیار کیا ہے۔
اس افسانے کی کہانی ایک ایسی عورت کے ارد گرد گھومتی ہے جو سر کاری ملازمت کرتی ہے
ایک کالج میں لائبریرین کے عہدے پر کام کرتی ہے گھر میں کھانا تیار کرنے بچوں کے کپڑے
دھونے اور مختلف طرح کے گھریلو کام کاج میں اس قدر منہمک ہوجاتی ہے کہ اپنی ڈیوٹی پر
اکثر تاخیر سے پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی باس اسے جھڑکتی اور لعن طعن کرتی ہے۔
وہ ہر روز کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر لیتی ہے، اور اپنی باس کو یقین دلانے کی کوشش
کرتی ہے۔ لیکن باس بھی سخت مزاج ہے وہ اسے سب کے سامنے جھڑکتی ہے۔ یہ عورت دل مسوس
کر رہ جاتی ہے اور اپنے آنسو پی لیتی ہے۔ ایک دن اس لائبریرین کا بچہ سخت بیمار پڑ
جاتا ہے۔ وہ اپنے بچے کو پیار بھرے بول سناتی ہوئی بچے کو اپنی ساس کے حوالے کرکے دفتر
چلی جاتی ہے ذہنی بے چینی اور تناؤ کی وجہ سے دفتری کام میں غلطی ہوجاتی ہے اور اس کی باس اس پر سخت ناراض ہوتی ہے۔ تب یہ
اپنے بچے کی بیماری کا ذکر کرتی ہے جسے اس کی باس نیا بہانہ سمجھتی ہے۔ بالآخر وہ
آدھے دن کیCasual Leave ڈال کر جیسے ہی گھر
پہنچتی ہے توساس اس پر برس پڑتی ہے۔
اس مجبور عورت کو اپنے
شوہر کے ساتھ نئی نئی شادی کے وہ دن بھی بہت یادآنے لگتے ہیں کہ جب اس کا شوہر اس
کا بہت خیال رکھتا تھا مگر اب وہ بھی گھر سے باہر اپنے کارو بار اور روپیہ کمانے کے
چکر میں ہے اور اس کی طرف کم ہی توجہ دیتا ہے۔ قمر جہاں کا افسانہ انتہائی دلچسپ اور
سبق آموز ہے اس افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آج کے دور میں ملازمت پیشہ عورت گھریلو
کاموں اور پھر دفتری کاموں میں کتنی ٹوٹتی بکھرتی اور ذہنی وجسمانی تھکان محسوس کرتی
ہے۔ لیکن اس کے باوجودکوئی بھی اس پر خوش نہیں ہوتا۔ آج کی عورت دوہری ذمے داری نبھا
رہی ہے اور اس صورت میں اس کی حالت قابل رحم ہے۔ لیکن مرد با لا دستی والے سماج کے
پاس منصف آنکھیں نہیں ہیں۔
قمر جہاں نے آج کی
ملازمت پیشہ خواتین کی الجھنیں اور اس کی دوہری ذمے داری کی جو تصویر مذکورہ افسانے
میں پیش کی ہے وہ انتہائی مؤثرہے۔ انھوں نے مردوں کی سرد مہری کی طرف بھی کچھ بلیغ
اشارے کیے ہیں یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جن گھروں کی عورتیں ملازمت کرتی ہیں انھیں کئی
الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ جب گھر سے اپنی ڈیوٹی پر نکلتی ہیں تو ان کے بچے
ان کا دامن پکڑ لیتے ہیں راستہ روکنے لگتے ہیں چیختے چلاتے ہیں اور ماں کی ممتا ڈھونڈھتے
ہیں، جو ان کا پیدائشی حق ہے۔ مگر عورت کو وقت پر ڈیوٹی پر حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسی
کشمکش میں بچوں کی صحیح پرورش اور نگہداشت نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمار افیملی سسٹم مفلوج
ہو کر رہ گیا ہے۔ قمر جہاں نے اس افسانے میں
عصر حاضر کی عورت کی جو بھاگ دوڑ دکھائی ہے۔ وہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ مردانہ سماج
کے وضع کردہ اصولوں اور روایات کے خلاف عورت نے بغاوت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس
کے بد لے میں اسے بہت سی الجھنوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ آئے دن
ذمے داریوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی ہے۔
ما بعد جدیدافسانے کی ابتدا1980 کے آس پاس ہوتی ہے۔ما
بعد جدید افسانہ نگاروں کی تعداد کافی زیادہ ہے کیونکہ اس سفر میں جدیدیوں کی بھی شمولیت
رہی اور وہ خالص بیانیہ کی طرف لوٹ آئے اور اسی ڈگر کو اپنانے کی کوشش کی جو ما بعد
جدید فن کاروں کا موقف تھا۔
ما بعد جدید افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ سماجی
عوامل سے آنکھیں نہیں چراتا، فرد کی تنہائی سے بھی اسے کوئی بیر نہیں ہے۔ موضوعات
کے انتخاب میں بھی کوئی مسئلہ در پیش نہیںآتا کسی بھی تکنیک کے استعمال سے اسے گریز
نہیں اور نہ ہی کسی تعصب کا شکار ہوتا ہے۔ گویا ما بعد جدید افسانے کا پورا رویہ انحراف
سے زیادہ انجذاب کا عکاس معلوم ہو تا ہے۔
جدید افسانے کی طرح ما بعد جدید افسانے میں نہ سمجھ
میںآنے والی علامت نگاری، فیشن زدگی، تجریدیت تھی اورنہ ہی مبہم موضوعات تھے۔ اس لیے
قاری کی دلچسپی ان افسانوں میں بڑھی۔
ما بعد جدیدتانیثی افسانہ نگاروں میں قمر اعجاز، غزال
ضیغم، ثروت خان، نگار عظیم، تبسم، فاطمہ، شائستہ فاخری، ہاجرہ مشکور، عنبری رحمن، رخسانہ
صدیقی، کہکشاں پروین، افشاں زیدی اور فریدہ
رحمن وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
نگار عظیم:نگار عظیم کے افسانوںمیںمرکزی حیثیت عورت
کو حاصل ہے۔ نگارعظیم کا اصلی نام مہر نگار اور قلمی نام نگار عظیم ہے 23ستمبر
1951کو میرٹھ (یوپی) میں پیدا ہوئیں۔ وہ تقریبا پچیس سالوں سے افسانے لکھ رہی ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے ’ عکس‘ 1990میں اور ’گہن‘ 1999 میں شائع ہوئے۔
نگار عظیم سماجی احوال وکوائف پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی نظرآتی ہیں کہ عورت مردانہ
ظلم وستم اور زیادتیوں کو بر داشت نہ کرے چونکہ جب وہ مردوں کے ظلم وستم برداشت کرتی
ہے یا نظر انداز کرتی ہے تو اس پر اور زیادہ ظلم، نا انصافی اور محکومیت کے تالے جڑ
دیے جاتے ہیں۔ اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ سراپا احتجاج بن جائے، اسی احتجاجی رویے
کے تحت وہ بہت حد تک مردانہ بالا دستی اور استحصال سے محفوظ رہ سکتی ہے اور سماج میں
اپنا مقام حاصل کر سکتی ہے۔
نگار عظیم کا ایک شاہکار افسانہ ’ابورشن‘ ہے جس میں
عورت کی بے بسی اور مرد کی خود غرضی کو بڑے فنکار انہ طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس افسانے
میں انھوں نے تانیثی فکر واحساس کو بڑے مؤثر انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے میں مرکزی کردار ایک عورت ہے جو ایک ریڈیو
اسٹیشن میں کام کرتی ہے جہاں مختلف مردوں اور عورتوں کاآنا جانا لگا رہتا ہے اور ایک
دن ریڈیو پر ہی عورت کی آزادی اور اس پر مردوں کے ظلم وبربریت پر اِک مباحثہ رکھا
جاتا ہے اس میں کئی مرد اور عورتیں حصہ لیتی ہیں۔ افسانہ ’ابورشن‘ کا مرکزی کردار ایک
سنجیدہ اور دور اندیش عورت ہے و ہ رابعہ نام کی ایک عورت کو جو اپنے شرابی شوہر کی
جنسی خواہش پوری نہ کرنے کی صورت میں زد وکوب ہوتی ہے اپنے گھر میں پناہ دیتی ہے لیکن
کچھ دن کے بعد وہ پھر اپنے شوہر کے پاس جانے کوآمادہ ہو جاتی ہے جس پر ریڈیو اسٹیشن
پر ملازمت کرنے والی خاتون اس سے خفا ہوجاتی ہے کیونکہ وہ خواتین کے لیے با ضابطہ طور
پر ایک مشن کا کام کرتی ہے اس لیے وہ نہیں چاہتی کہ رابعہ اپنے شوہر کے پاس بغیر انتقام
لیے چلی جائے۔
نگار عظیم کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر نئے موضوع کی تلاش
میں رہتی ہیں۔ وہ سماج کی ان حقیقتوں تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں، جہاں تک دوسری خواتین
افسانہ نگار کی نظر نہیں پہنچتی۔ نچلے اور متوسط طبقے کی عورتوں کی زندگی اور ان کی
الجھنوں کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں۔ ’ابورشن‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ طلاق اور عورت کو زندہ
جلا دینے والے اذیت ناک واقعات، عورت کا مستقبل، تعلیم نسواں، شوہروں کی زیادتیاں،
ان پڑھ عورت کے مسائل، اس مباحثے میں حصہ لے کر مجھے کوفت ہو رہی تھی۔ کیونکہ مجھے
لگا سب کے سب وہاں عورت کے مسائل پر کم اور مرد کے خلاف زیادہ محاذآرائیاں کر رہے
ہیں۔ جب کہ میرا نظر یہ ذرا مختلف تھا، عورت ظلم سہے گی تو ظلم ہوتا رہے گا۔ ظلم سہنا
بند کردے گی تو ظلم کے راستے بھی بند ہو جائیں گے۔ سیکڑوں مثالیں ہیںعورت پر عور ت
کے ظلم کی۔
چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ گھر پہنچ کر میں نے رابعہ
کوآواز دی رابعہ ایک کپ چائے…‘‘
بی بی ہم تو جاتے ہیں …آپ کا رستہ دیکھتے دیکھتے تھک
گئی ہم تو ‘‘ کہاں جا رہی ہے؟‘‘
گھر…‘‘
یہ پاگل ہوئی ہو تم … ؟ اتنی جلدی بھول گئیں تم … اتنا
مارا تھا تمہیں لیاقت نے شراب پی کر …
’’آدھی رات کو ہمیں اس
نے گھر سے نکال دیا تھا۔‘‘
کیا کریں بی بی جی … گلتی تو میری تھی…‘‘
کیا غلطی تھی تمہاری ؟
وہ ذرا شرمائی… جھجکی… اور مسکراتے ہوئی بولی :
’’ نشے میں کچھ ادھک تنگ
کرتا ہے نا ؟ بس ہم نے اس کی بات نہ مانی، اسی لیے مارتا تھا۔ اب کیا کریں بی بی؟ آدمی
تو اپنا ہی ہے۔ دوسری عورت لینے چلا گیا تو ہمارا گھر برباد ہو جاوے گا۔ اپنے ببوا
کا باپ بھی تو ہے وہ جاویں نائی تو کیا کریں؟ تنک بولی،آپ کو چاہ بنا دوں پھر چلی
جاؤں گی …
‘‘
’’ نہیں رہنے دو … تم جاؤ
مجھے چائے نہیں پینا‘‘
لڑو عورتوں کے حقوق کے لیے… میں بڑ بڑائی… فون کی گھنٹی
بج اٹھی … ٹرن ٹرن ہلو … کیا …؟
مندرجہ بالا اقتباس میں نگار عظیم نے نہایت ہنرمندی
سے ایک ناخواندہ عور ت کا المیہ بیان کیا ہے عورت کو یہ احساس ہے کہ اگر وہ اپنے شرابی
شوہر کے پاس فورا نہیں جائے گی تو وہ کسی دوسری عورت کو گھر میں بٹھادے گا اور یہ احساس
بھی اسے فکر میں مبتلا کرتا ہے وہ اس کے بیٹے کا باپ ہے۔ ہمارے سماج میںہر روز کئی
طرح کے بھیانک جرائم رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جس کا تعلق عورتوں کی بے بسی سے ہوتا ہے،
عورت جب اپنے شوہر سے تنگ آجاتی ہے تو خود کشی کر لیتی ہے یا پھر راہ فرار اختیار
کر لیتی ہے۔ غرض مرد کی کمزوریاں، زیادتیاں اور اس کی نا انصافیاں ازدواجی زندگی کو
درہم برہم کر نے میں محرک ثابت ہوتی ہیں۔
کہکشاں پروین :کہکشاں
پروین کی پیدائش مغربی بنگال میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید مسعود الدین تھا۔ ان
کی شادی مشہور مضمون نگار اور کالم نویس اخترآفتاب کے بڑے صاحبزادے سید حسین فاطمی
سے ہوئی۔ کہکشاں پروین اردو کے متعدد رسالوں میں افسانے اور مضامین لکھ رہی ہیں۔ ان
کی تصنیفات میں ’ ایک مٹھی دھوپ‘ (افسانوی مجموعہ) ’دوپہر کا سفر‘ (افسانوی مجموعہ)
’سرخ لکیریں‘ (افسانوی مجموعہ) ’صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار (تحقیق وتنقید) اور،
منٹو اور بیدی کا تقابلی مطالعہ (تنقید) شامل ہیں۔
کہکشاں پروین کے افسانوں میں تانیثیت کی بھر پور عکاسی
ملتی ہے ان کے افسانوں میں عورتیں مردوں کے استحصالی شکنجے میں جکڑی نظرآتی ہیں۔ کہکشاں
کا خیال ہے کہ آزادی کے بعد بھی عورتیں ابھی تک مردوں کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ مرد،
عورت کی نزاکت اور معصومیت کی آڑ میں اس پر قہر بر پا کرتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی طے
شدہ ہے کہ عورت کی جو حالت ابتر قدیم سماج میں تھی آج کی عورت کی وہ مایوس کن حالت
نہیں ہے آج کی عورت مکمل طور پر اپنی اہمیت اور صلاحیت کا اعتراف کروانے میں کامیاب
ہوئی ہے وہ قدرت کی ان تمام عطا کردہ خوبیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے جن پر کسی زمانے میں
اس پر پابندیاں عائدکر دی گئی تھیں۔ کہکشاں پروین کے اکثر افسانے عورت کی اسی تلخ حقیقت
کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا افسانہ ’ سراب‘ قابل ذکر ہے جس میں انھوں نے
عورت کی ازلی کمزوری اور اس کی مجبوری کو موضوع بنایا ہے زیر بحث افسانے کا پس منظر
بہار کی یا پھر راجستھان کی وہ مزدور طبقہ خواتین سے تعلق رکھنے والی کنواری مانو ہے
جو انتہائی حسین ہے اور کسی گاؤں میں اپنے غریب ماں باپ اور ایک چھوٹی بہن پارو کے
ساتھ رہتی ہے۔مانو بھیڑ بکریاں چراتی ہے اور گھر میں پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہے چنانچہ
نئی ریاست کے قیام کے بعد حالات بدلتے ہیں۔ مانو کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں مزدوری
زیادہ ملے گی اس لیے وہ اپنے بوڑھے والدین اور دادی اماں سے نمناک آنکھوں سے رخصت
ہوتی ہے۔ شہر میں اپنے علاقے کی مزدور طبقے کی خواتین کے ساتھ رات دن مزدوری کرکے خوب
روپے جمع کرتی ہے لیکن ہر روز جب شام کے وقت ٹھیکیدار یا اس کا کوئی کارندہ مزدوروں
کو ان کی مزدوری بانٹتا ہے تو مانو کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ اس کے روپے کوئی چرا لے گا
اس لیے وہ ہفتہ دس دن کے بعد اپنے بوڑھے بابا کو روپے لینے کو کہتی وہ آکر روپیہ لے
جاتا۔ پھر والدین کسی مجبوری کے تحت مانو کے پاس نہیں پہنچ پاتے ہیں تو اس کی چھوٹی
بہن پاروآتی ہے جس کی بھری جوانی کو دیکھ کر ٹھیکیدار اور اس کے کارندے اْسے اپنے
دام فریب میں مقید کر نا چاہتے ہیں لیکن مانو کی غیرت اور پاک نسوانی جذبہ یہ گوارہ
نہیں کر تا ہے کہ پارو اْس کے پاس روپے لینے آئے۔ چونکہ اسے یہ معلوم ہے کہ یہاں ٹھیکیدار
جسم وجان کا بھی ٹھیکہ کرتے ہیں۔ والدین کی زیادہ روپیہ بھیجنے کی فرمائش پر مانو مجبورا
ٹھیکیدار کے پاس جا کر اس سے روپے مانگتی ہے اور مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنا
جسم بیچنے پر بھی آمادہ ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ گاؤں سے اٹھ
کر شہر میں مزدوری کمانے آنا ایک سراب کے سوا اور کچھ نہیں تھا !
کہکشاں پروین افسانہ ’سراب‘ کے ذریعے اپنے قارئین کو
یہ بتانا چاہتی ہیں کہ مردوں کی کمزوری عورت ہے اور عورت کی کمزوری اس کے خوبصورت جسمانی
خد وخال ہیں۔ خوبصورت عورت سماج میں استحصال کا زیادہ شکار ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے
کہ حسین عورت کو مرد غالب معاشرہ پاکدامن رہنے نہیں دیتا۔ ہندوستان کی کچھ ریاستوں
میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کڑکتی دھوپ اور کڑاکے کی
ٹھنڈ میں بارہ مہینے کام کرتی ہیں۔ زیادہ تر بہار، راجستھان اور چھتیس گڑھ کی خواتین
مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور اپنے شوہر اور بچوں کی کفالت کرتی ہیں۔ کہکشاں پروین
کے افسانہ ’سراب ‘ میں مانوکا کردار بھی ایک ایسی مظلوم لڑکی کا کردار ہے جو اپنے والدین
اور اپنا پیٹ پالنے کے لیے مردوں اور اپنی عمر وطبقے کی خواتین کے ساتھ مزدوری کرتی
ہے یہاں تک کہ محض روپے کمانے کی خاطر وہ اپنے خوبصورت جسم کو ٹھیکیدار کے سپرد کرنے
کو تیار ہے۔
کہکشاں پروین اپنے افسانے کو کامیاب بنانے کا ہنر بخوبی
جانتی ہیں۔ وہ ایک نقاد ہی نہیں بلکہ ایک سلجھی ہوئی کہانی کار بھی ہیں۔ وہ عورتوں
کے مسائل اور مصائب کو بخوبی جانتی ہیں۔ اور اْسے اپنے افسانوں میں بیان کرنے کا سلیقہ
بھی رکھتی ہیں۔
غزال ضیغم:’ایک ٹکرا دھوپ کا‘ افسانوی مجموعے کی مصنفہ
غزال ضیغم کے افسانوں کا حاوی رجحان تانیثی ڈسکو رس ہے۔ یہ خواتین افسانہ نگاروں کی
نئی نسل میں شمار کی جا سکتی ہیں۔
غزال ضیغم کے افسانوں کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ انھیں اپنی تہذیبی جڑوں کی تلاش ہے اس سلسلے میں وہ اپنی پوری تہذیبی
وثقافتی وراثت اور قدروں کا از سر نو تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں
ترنم ریاض ایک جگہ لکھتی ہیںکہ :
’’غزال ضیغم کا شمار اْن
نئی خواتین افسانہ نگاروں میں کیا جا سکتا ہے جو اپنی تاریخ، تہذیب سماجی وثقافتی وراثت
اور اقدار کا از سر نو جائزہ لے کر انھیں اپنے تجزیوں کی روشنی میں جانچنے کی کوشش
کرتی ہیں۔ ان کے افسانے ان کی سوچ اور فکر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا انداز بیاں سادہ
اور دلچسپ ہے۔
(ترنم ریاض: بیسویں صدی میں خواتین ادب، ص
88)
غزال ضیغم کا ایک دلچسپ اور متاثر کن افسانہ ’مدھوبن
میں رادھیکا‘ہے، جو ان کے فن کی عظمت پر دال ہے۔ اس افسانے میں انھوںنے اپنی تخلیقی
بصیرت سے اپنی تہذیب اور سماجی اقدار کو معتبر قرار دیا ہے۔ اس افسانے میں نجمہ باجی
نام کی ایک ایسی جدید تہذیب کی دلدادہ عورت کی سوچ اور طرزِ زندگی کو عیاں کیا گیا
ہے، جو سگریٹ پیتی ہے اور مردوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے میں بڑی ماہر ہے۔ افسانے بھی
لکھتی ہے اور بہترین مقرر بھی ہے اور اپنی باغیانہ طبیعت کی وجہ سے مردوں کو گھاس نہیں
ڈالتی۔ لپ اسٹک سے اپنے ہونٹوں کو لال رکھتی ہے۔ اپنی شوخ اداؤں میں اپنی کشش رکھتی
ہے کہ مرد اْس کی طرف خود بخود کھنچتے چلے آتے ہیں۔ غزال ضیغم ایک راوی کی حیثیت سے
اس عورت کی زندگی اور اس کی سوچ کو بیان کرتی ہیں۔ یہ نجمہ بیو روآفس میں کسی اچھے
عہدے پر فائز ہے وہ عورتوں سے دوستی نہیں کرتی ہے کیونکہ اس کی نظروں میں ساری عورتیں
بے وقوف ہوتی ہیں۔ ساجد نام کا ایک ملازم نجمہ باجی کا ہمراز ہے۔ جس کے نزدیک نجمہ
باجی ایک مکمل عورت ہے۔ ایک دن وہ نجمہ باجی کو اپنے گھر میں دعوت دیتا ہے اور خوب
خاطر مدارات کرتا ہے۔ کہانی کی راوی خاتون بھی ساجد کے گھر پر نجمہ باجی سے ملنے آتی
ہے۔ اور ساجد کی بیوی صائمہ کے دل میں شک کی سوئی گھومنا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے دونوں
بچے ساجد کے حوالے کرکے روتی پیٹتی اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ اختلاف کا فی بڑھ جاتے ہیں
ادھر نجمہ باجی اپنی خود داری اور بے باکی کے باعث شوہر کے ہوتے ہوئے الگ گھر میں رہتی
ہیں۔ کہانی کی راوی خاتون کے شوہر کو ایک دن نجمہ باجی کا فون آتا ہے کہ آپ دونوں
میاں بیوی فورا ًمیرے گھر پرآؤ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ وہ دونوں نجمہ
باجی کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور نجمہ باجی آہستہ سے کہتی ہے کہ اپنے طلاق نامے پر تم
دونوں کے دستخط چاہئیں کچھ دن کے بعد یہ خبرآتی ہے کہ نجمہ باجی نے خود کشی کرنے کی
کوشش کی اور اسپتال میں زیر علاج ہیں ان کے دفتر کے تمام ملازم اور ان کے چاہنے والے
تحفے لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔آگے کیا دیکھتے ہیں کہ نجمہ باجی اپنے ہونٹوں
پر لپ اسٹک لگائے بیٹھی سگریٹ پی رہی ہیں اور سب کو دیکھ کر مسکرارہی ہیں۔
غزال ضیغم نے پوری کہانی میں نجمہ باجی کے کردار کو
بڑی خوبصورتی سے ابھارا ہے۔ مذکورہ افسانے میں مصنفہ نے در اصل یہ دکھانے کی کوشش کی
ہے کہ عورت پر نہ تو بہت زیادہ پابندیاں ہونی چاہئیں اور نہ وہ بالکل آزاد ہونی چاہیے۔
نجمہ باجی ایک آزاد خیال عورت ہے جسے سبھی ایک مکمل عورت سمجھتے ہیں لپ اسٹک اور سگریٹ
پینا انھیں بہت پسند ہے۔ مردوں سے دوستی رکھنا اور شوہر کے ہوتے ہوئے بھی تنہائی کی
زندگی گزارنا ان کی شخصیت کو مشکوک کرتا ہے۔ اس افسانے میں ہمیں ایک ایسی عورت کا کردار
ملتا ہے جو فیشن پرست، عیاش اور باغیانہ ذہنیت کی مالک ہے۔ جو شوہر کے بدلے شوہروں
کو پسند کرتی ہے۔ اس طرح جب ساجد کی دعوت پر نجمہ اْس کے گھر پر جاتی ہے تو ساجد کی
بیوی اپنے شوہر پر شک کرتی ہے۔ اور اس طرح دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلاف بڑھتے
ہیں اور ایک مایوس کن صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
غزال ضیغم نے اپنے افسانے ’مدھوبن میں رادھیکا‘ میں
نجمہ باجی کی ان تمام حرکات وسکنات اور طرز فکر کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ قاری کے سامنے
ایک باغیانہ ذہنیت کی عورت کا کردار ابھرتا ہے۔ جو سماجی اصول وضابطوں کی پرواہ نہیں
کرتی اور مردوں کو اپنی انگلی پر نچانا چاہتی ہے۔ اور اپنی انا پر قائم رہتی ہے اور
اپنے شوہر سے محض اس لیے طلاق لیتی ہے کیونکہ شوہر اس کی نا مناسب آزادی کو بر داشت
نہیں کرپاتا ہے۔ وہ آدھی آدھی رات کو مجلسوں اور پارٹیوں سے واپس گھرآتی ہے جس کی
وجہ سے شوہر مایوس رہتا ہے۔ اور بالآخر طلاق ہوجاتی ہے۔ نجمہ باجی طلاق لینا گوارہ
کرتی ہے لیکن شوہر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں۔ بری عادتوں نے اس میں غرور،
انانیت اور باغیانہ ذہنیت پیدا کردی ہے۔ اس بیان کی تصدیق بقول راوی:
’’کیاآگ ہے اس عورت میں
… کیا لکھتی ہے… لگتا ہے آتش فشاں کا لا وا بہہ رہا ہے …پوری کائنات جل رہی ہے۔ جلتی
سگریٹ اس عورت کے بیضاوی ہونٹوں پر اتنی خوبصورت اتنی دلکش لگتی ہے جیسے معصوم بچے
کی شرارت۔‘‘
غزال ضیغم نے نجمہ کے ذریعے عصری خواتین کے مسائل کا
اظہار کیا ہے۔ ہر چند کہ نجمہ ایک ویلن نظرآتی ہے لیکن قاری کی ہمدردی اْس کے ساتھ
اس لیے ہوجاتی ہے کیونکہ بہرکیف وہ عورت ہے جو بنیادی طو پر اپنے شوہر سے وفا چاہتی
ہے لیکن جب وہ اس سے محروم ہوجاتی ہے تو نجمہ دوسری زندگی جینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔غزال
ضیغم ایک ذی شعور اور ذی علم خاتون ہیں ان کا کینوس کافی وسیع ہے،یہ ان کاتانیثی افسانہ
ہے۔
جدیداردو افسانے کا مطالعہ کرتے ہوئے جو بات کھل کر
سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اردو افسانے میں خواتین افسانہ نگاروں نے تانیثی افسانوں
میں احتجاجی عناصر کو شروع ہی سے روا رکھا۔ احتجاج ہر زمانے میں بڑے ہی گھن گرج کے
ساتھ داخل ہوا۔ ابتدا میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اردو ادب میں تانیثیت
کی روایت کا با قاعدہ آغاز 1932 یعنی انگارے کی اشاعت کو ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن
اس سے قبل نذر سجاد حیدر، ممتاز شیریں اور حجاب امتیاز علی جیسی اہم خواتین افسانہ
نگاروں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے افسانوں میں بھی نسوانی آواز اور
نسائی احتجاج ایک زیریں لہر کی صورت میں سہی لیکن موجودہے ۔
اردو افسانے میں تانیثی
مسائل اور احتجاجی عناصر کو فراموش نہیں کیا
جا سکتا کہ فی زمانہ اس نے ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے لیکن ان تمام باتوں کے
با وجود اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ رب العزت نے اسے جس خصوصی سانچے
میں ڈھالا ہے وہ نازک اور حسین ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ آج خاتون ہر شعبے میں
مرد کے ہم قدم ہے لیکن کیا مردوں جیسے طور طریقے اپنا نے سے عورت مرد بن سکتی ہے۔ یہ
ایک اہم سوال ہے جس کا جواب تانیثی فکر رکھنے والوں کو ڈھونڈھنا چاہیے۔ میرے خیال میں
موجودہ دور کی عورت مردوں سے ایک طرح کا انتقام لے رہی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتی ہے
کہ وہ کسی بھی طور پر مردوں سے کم نہیں اور وہ واقعتا کسی بھی شعبے میں مرد سے پیچھے
نہیں ہے۔ موجودہ دور کی عورت کو تمام حقوق
اور تمام سہولیات حاصل ہیں۔ اس کے با وجود اس حقیقت سے کبھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی
کے مرد کی با لادستی والے سماج نے عورت کے استحصال کے کئی نئے در، دریچے کھول دیے ہیں۔
Dr. Ishrat Saboohi
Asst
Prof. Dept of Urdu
Patna
University
Patna-
800005 (Bihar)
Mob.:
7091175140
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں