3/11/23

خواجہ غلام الثقلین کا سفرنامہ ’روزنامچۂ سیاحت‘:فیضان حیدر

 

خواجہ غلام الثقلین ایک سچے، بے غرض اور انسانی قدروں کے پاسدار شخص تھے۔ انھوں نے پوری زندگی عوام اور سماج کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردی تھی۔  وہ ایک شریف النفس انسان تھے۔ سماج اور معاشرے کی خدمت کے وقت ان کے ذہن میں کبھی نہ ستائش کی تمنا رہی اور نہ ہی صلے کی پروا۔ مخالفتوں، بدگمانیوں اور اعتراضوں کے جوابات بھی انھوں نے بڑی بے باکی اور جرأت کے ساتھ دیے ہیں۔

انھوں نے علمی، ادبی اور صحافتی میدان میں جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ ان کا رسالہ ’عصر جدید‘ آفاقی قدروں کا ترجمان تھا۔اس نے اردو زبان وادب کی خدمت کے ساتھ قوم و ملت کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔

خواجہ غلام الثقلین کی پیدائش 1872 میں پانی پت میں ہوئی۔ والد کا نام خواجہ غلام عباس تھا۔ ان کے آباواجداد بادشاہ بلبن کے عہد حکومت میں ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ بادشاہ نے پانی پت کے نواح کا علاقہ ان کو بطور جاگیر دیا تھا۔ ان کا سلسلہ نسب پیغمبر اکرمؐ  کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ تک پہنچتا ہے۔ ابتدائی نشو و نما والد کے زیر سایہ ہوئی۔ پھر انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کو ایک سرکاری مدرسے میں داخل کرادیا۔ اس کے بعد کی تعلیم انھوں نے مدرسہ شاخ انصار پانی پت میں حاصل کی۔ انھیں دنوں مولوی شیخ احمد علی مرحوم سے فارسی اور عربی قواعد کی کتابیں پڑھیں۔

ایک بار انھیں دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کی رونق دیکھی تو اپنے والد سے ضد کی کہ آگے کی تعلیم دہلی میں ہی حاصل کریں گے۔ چنانچہ تقریباً 12سال کی عمر میں ان کو مولانا الطاف حسین حالی کے زیر نگرانی دہلی بھیج دیا گیا۔ وہاں ان کا داخلہ اینگلو عربک اسکول میں کرادیا گیا۔ 1887 میں مڈل کا امتحان پاس کیا اور انٹرنس کے لیے گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ انٹرنس کی تعلیم تک وہ اپنا زیادہ تر وقت مطالعے میں صرف کرتے۔ نصابی کتابوں کے ساتھ ادبی کتابوں کے مطالعے بھی کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کا ذہن ادب کی طرف مائل ہوگیا۔

 ایک روز مولوی ذکاء اللہ مولانا حالی سے ملنے گئے۔ خواجہ غلام الثقلین کو دیکھ کر انھوں نے کہا کہ یہ صرف پڑھا ہی کرتے ہیں یا کچھ لکھتے بھی ہیں؟ تو مولانا حالی نے جواب دیا کہ اب تک تو ان کی کوئی تحریر میں نے نہیں دیکھی۔ منشی ذکاء اللہ نے کہا کہ ’’برتن میں جب پانی بھرے گا تو وہ رِسے گابھی۔‘‘غرض ان کے درمیان یہ بات آئی گئی اور ختم ہوگئی، لیکن اس وقت خواجہ غلام الثقلین کو بڑی غیرت محسوس ہوئی اور انھوں نے ٹھان لیا کہ اب صرف مطالعہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ حاصل مطالعہ کو بھی تحریری صورت میں قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے۔ چنانچہ انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایک مضمون بہ عنوان ’النظر فی التاریخ‘ لکھا جو تقریباً بیس صفحات پر مشتمل تھا۔ اس مضمون کی اس زمانے میں بڑی دھوم رہی۔ اس کے بعد علمی و ادبی حلقے میں ان سے لوگ واقف ہوگئے۔ خصوصاً علی گڑھ کالج میں علامہ شبلی نعمانی سے نیاز حاصل رہا اور سرسید سے بھی تقرب حاصل ہوگیا۔

اکتوبر 1889 سے اپریل 1894 تک علی گڑھ کالج سے وابستہ رہے۔ وہیں سے ایف اے، اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران انھوں نے علمی و ادبی معاملات میں بڑی دسترس حاصل کرلی تھی۔ کئی اہم موضوعات پر ان کی سرسید سے بھی بے تکلّفانہ گفتگو ہوا کرتی تھی۔ مسٹر بیک کے مقابلے میں شرکت کیا کرتے تھے اور علمی و سیاسی معاملات پر ان سے مباحثے بھی ہوا کرتے تھے۔ 1890 میں انھوں نے مسٹر آرنلڈ کی سرپرستی میں ایک انجمن قائم کی جس کا نام ’اخوان الصفا‘ تھا۔ اس انجمن کے تین بنیادی مقاصد تھے۔1۔ زندگی کی پاکیزگی؛2۔علمی مذاق پیدا کرنا؛ 3۔ باہمی محبت اور آپسی بھائی چارہ قائم کرنا۔اس انجمن کے تحت دو ڈھائی سال میں کئی اہم مضامین پڑھے گئے۔لیکن ان کے وہاں سے چلے جانے کے بعد یہ انجمن قائم نہ رہ سکی۔ اس کے ٹوٹنے کی دوسری اہم وجہ یہ بھی تھی کہ کچھ دنوں بعد پروفیسر آرنلڈ بھی علی گڑھ چھوڑکر چلے گئے تھے۔پھر ایل ایل بی کے لیے دوبارہ علی گڑھ گئے اور نومبر 1895 میں ایل ایل بی پاس کیا۔

1896 میں مولوی سید علی حسن ناظم حیدرآباد کے اصرار پر حیدرآباد دکن چلے گئے۔ وہاں چار ماہ تک ’فلک نما‘ کے بے نظیر محل میں رہے۔ پھر عدالت دیوانی بلدہ (حیدرآباد) میں بطور کارآموز آنریری جج مقرر ہوگئے جس میں پانچ سو روپے تک کے مقدمات ان کے سپرد رہے۔ پھر انسپکٹری مدارس ورنگل پر بھیجے گئے۔ اسی عہد میں سرسید کے حالات کے متعلق چند مضامین انگریزی میں ’آبزرور‘کے لیے لکھے۔ ہندی ناگری مباحثے کے متعلق 1900 میں ایک کھلا خط لارڈ کرزن اور ایک سر انٹونی میکڈانل کے نام لکھا جو مسٹر حامد علی خاں (لکھنؤ) کی انگریزی کتاب میں شامل ہے۔ اسی دوران اردو میں بھی کئی اہم مضامین لکھے جن میں ’عمر خیام کا فلسفۂ حیات‘، ’سوفسطائی حکما اور ان کا فلسفہ‘ اور ’مذہب و علم‘وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ 1901 میں وزارت حیدرآباد سے دوسال کی رخصت لے کر شمالی ہند چلے آئے اور پھر واپس نہیں گئے۔ وہاں سے واپسی کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔

 جنوری 1903 میں’عصر جدید‘کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس میں انھوں نے زیادہ تر سوشل، اصلاحی اور تمدنی مضامین کو جگہ دی۔ کچھ دن مالیر کوٹلہ اور پھر لکھنؤ میں قیام رہا۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران شیعہ سنی اختلافات زوروں پر تھے۔ انھوں نے اپنی کوششوں سے دونوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کی کوششیں بارآور نہ ہوئیں۔ چنانچہ دونوں مسلک کے افراد ان سے بدظن ہوگئے اور ان کی تحریر و تقریر خصوصاً ’عصر جدید‘کے اصلاحی مضامین پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس سلسلے میں ان کا ہزاروں روپے کا نقصان بھی ہوا۔ اس کے بعد وہ بد دل ہوکر میرٹھ اور پھر پانی پت چلے گئے۔زندگی کے آخری ایام میں سخت علیل رہے اور میرٹھ میں قیام رہا۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے اگست 1915 کے اوائل میں مونٹگمری چلے گئے۔ بیس بائیس روز وہاں قیام کیا لیکن طبیعت روبہ صحت نہیں ہوئی۔ 22 اگست کو اسی علالت کی حالت میں پانی پت لوٹ گئے۔ آخر کار 3 ستمبر 1915 کو جمعہ کے روز حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال کیا۔ خواجہ غلام السیدین نے اپنے ایک کتابچے بہ عنوان ’ایک مرد درویش‘میں ان کی شخصیت، مشاغل اور کارناموں کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہماری آنکھوں میں پھرجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’سطحی نظر سے دیکھیے تو ان کی زندگی میں کوئی ایسے غیر معمولی، نظر کو خیرہ کرنے والے ہنگامے نہیں ملتے جو ان کے نام کو ان کی زندگی میں اخباروں کا سرعنوان بنائیں اور مرنے کے بعد اس کو تاریخ کے سینے پر ثبت کریں۔ وہ ایک شریف متوسط خاندان میں پیداہوئے۔ علی گڑھ میں تعلیم پائی۔ لکھنے پڑھنے اور تقریر کرنے میں ایک خاص امتیاز حاصل کیا۔ چند سال ملازمت کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ اصلاح تمدن کی تحریک جاری کی اور اس کی اشاعت کے لیے ایک رسالہ ’عصر جدید‘ نکالا۔ چند کتابیں اور بہت سے مضامین لکھے۔ یوپی کونسل کے ممبر چنے گئے۔ وہاں اصلاح قانون سود کا مسودہ پیش کیا۔  اسلامی ممالک کی سیاحت کی اور وہاں کے سیاسی، تمدنی اور اخلاقی حالات کا گہرا مطالعہ کیا اور ایک مصروف اور پاکباز زندگی بسر کرکے بیالیس سال کی مختصر عمر میں خدا کو پیارے ہوئے۔‘‘1

انھوں نے دوسرے ادبا، شعرا اور دانشوروں کے مقابلے میں بہت کم عمر پائی لیکن اس قلیل مدت میں بھی جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ قابل ستائش ہیں۔ ان کی اہم کتابوں میں ’’طالب علم کی زندگی کا کیا مقصد ہونا چاہیے(1896)‘‘[یہ ان کے تین اہم لکچرز کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ’انجمن اخوان الصّفا‘ مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں دیے تھے]،’’ابوالفضل علامی کے سوانح عمری (1902 بار سوم)‘اور ’روزنامچۂ سیاحت (1912 )‘ کا نام لیا جاسکتا ہے۔

20 مئی 1911 کو انھوں نے ممالک اسلامیہ اور زیارت مقامات مقدسہ کی غرض سے سفر کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے عراق، ایران، جنوبی روس، قسطنطنیہ، شام، حجاز اور مصر کی سیاحت کی۔ وہاں کے باسیوں سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ رہا۔ وہ اس سفر سے دسمبر 1911 میں واپس ہوئے۔ سفر کے دوران ہی انھوں نے اپنے سفرکی روداد اور تجربات و مشاہدات کو سفرنامے کی صورت میں قلم بند کرلیا تھا جسے مناسب حذف و اضافے کے بعد 1912 میں شائع کیا۔ اس سفرنامے میں انھوں نے متعلقہ مقامات کے کوائف، لوگوں کے رہن سہن، ان کے اخلاق و عادات، شہروں اورملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی حالات بخوبی بیان کیے ہیں۔

خواجہ غلام الثقلین کا ’روزنامچۂ سیاحت‘ اس اعتبار سے اہمیت اور قدر و منزلت کا حامل ہے کہ اس میں انھوں نے جن مقامات، شہروں اور ملکوں کا سفر کیا ہے وہاں کے سفری کوائف، جغرافیہ اور تاریخ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوگئی ہیں۔ انھوں نے اپنے عینی مشاہدات اور آنکھوں دیکھے حالات و مناظر کا بیان اس عمدگی اور صفائی کے ساتھ کیا ہے کہ وہ حالات و مناظر قارئین کے ذہن و دماغ کو مسحور کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خبر کو اپنے سفرنامے کا جزو نہیں بناتے بلکہ نظر سے جن چیزوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اسے سفرنامے کا حصہ بناتے ہیں۔

اس سفرنامہ کو انھوں نے پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے کا عنوان ’عراق[عرب]‘ ہے جس میں انھوں نے عراق کے اہم مقامات، وہاں کے مقامات مقدسہ کی زیارت، وہاں کے لوگوں کے اخلاق و عادات اور دیگر اہم چیزوں کا تذکرہ جامعیت کے ساتھ کیا ہے۔ حصۂ دوم کا عنوان ’سلطنت ایران میں ستر دن‘ہے۔ اس حصے میں انھوں نے ایران کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی حالات کا تذکرہ بڑی خوب صورتی سے کیا ہے۔ چوں کہ ان کا زیادہ تر وقت تہران میں ہی گزرا اس لیے انھوں نے تہران کے مختلف مقامات، اعیان شہر سے ملاقات اور لوگوں کے طرز بود و باش کا تذکرہ کیا ہے۔ سفرنامے کی تیسری سرخی ’باکو سے بیرون دمشق تک‘ ہے۔ اس کے تحت خواجہ غلام الثقلین نے جنوبی روس، قسطنطنیہ، بیروت اور دمشق وغیر کے سفری کوائف بیان کیے ہیں۔ سفرنامے کا چوتھا حصہ ’بیرون دمشق سے بمبئی تک‘ہے۔ اس میں حجاز کے مختلف شہروں خصوصاً مدینۂ منورہ، شام کے سواحلی علاقوں اور بندرگاہوں کے ساتھ مصر کے حالات بیان کیے ہیں۔ پانچواں حصہ خاتمے پر مشتمل ہے جو موجودہ کتاب میں شائع نہیں کیا گیا ہے اور اس کو جداگانہ شائع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خاتمہ میں اسلامی ممالک کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال اور آئندہ ان سے وابستہ توقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ان کا وہ فارسی لکچر بھی شامل ہے جو انھوں نے ایران میں دیا تھا اور وہاں کے مجلے ’اسباب رفاہ و ترقی ایران‘میں شائع ہوا تھا۔ سفرنامے کے آخری حصے کے متعلق وہ ’عذر و خطاب بہ ناظرین‘میں یوں رقم طراز ہیں:

’’حصۂ پنچم جس میں عام ریویو اور اسلامی ممالک کی عام حالت اور آئندہ کے توقعات پر ریویو تھا وہ میں نے اب تک نہیں لکھا۔ اس وقت کہ حالت نازک ہورہی ہے، اس کی اشاعت یا لکھنا خوش آئند نہ تھا۔ مگر ان شاء اللہ دو تین ماہ کے بعد میں اس کو جداگانہ رسالے کی شکل میں شائع کروں گا۔‘‘2

اس سفرنامے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اس میں صرف عینی مشاہدات کا ہی تذکرہ کیا ہے، دوسری تاریخ اور جغرافیے کی کتابوں یا کسی سفرنامے سے مطالب اخذ و اقتباس نہیں کیے ہیں۔ وہ جن مقامات و مناظر سے گزرتے ہیں ان کو مس کرکے سرسری نہیں گزرتے بلکہ ان سے اپنے دیدہ و دل کو لطافت بار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اشیا کی تہ میں جھانکتے ہیں اور ان مناظر و اشیا کے مشاہدے کے وقت ان پر جو کیفیت طاری ہوتی ہیں،اسے سفرنامے کے بیانیے میں شامل کرتے ہیں۔ شہری اور دیہاتی فضاؤں، سرسبز و شاداب علاقوں اور حسین و جمیل مناظر سے خود بھی لطف اندوز ہوتے اور قارئین کو بھی لطافت بخشتے ہیں۔ وہ اپنے سفرنامے کے تعلق سے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’یہ سفرنامہ جس کو راقم کا روزنامچۂ سیاحت کہنا بہتر ہے معمولی سفرناموں سے کسی قدر مختلف ہے۔اس میں مختصر طور پر عمارات، شہروں اور مناظر کے حالات بھی درج ہیں جو راقم نے خود دیکھے ہیں۔ دوسروں کے سفرناموں سے حالات نقل نہیں کیے گئے، لیکن زیادہ تر لوگوں کی تمدنی اور اخلاقی حالت کو دکھایا ہے اور روزانہ جو خیالات و کیفیات راقم پر گزریں ان کو بے کم و کاست درج کردیا ہے۔ بعض اصحاب جو سیاست یا پالٹکس یا دین میں شہرۂ کامل رکھتے ہیں ان سے کچھ گفتگو ہوئی اس کو کسی قدر مفصل درج کیا ہے۔‘‘3

وہ اس سفر کی تیاری میں ایک مہینے پہلے سے ہی مصروف تھے۔ معاملات کو نپٹانے میں منہمک تھے اور ایک مہینے سے مقدمات لینا چھوڑدیا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ 19 مئی کی شام کو سفر کا آغاز کریں، لیکن ان کے برادر عزیز خواجہ غلام السبطین لکھنؤ سے یکایک ان سے ملنے آگئے، اس لیے انھوں نے شام کی روانگی ملتوی کردی اور 20 مئی کو سفر پر روانہ ہوئے۔ پانی پت سے دہلی گئے۔ وہاں ان کا قیام خواجہ تصدق حسین کے یہاں رہا جو خفیفہ میں جج تھے۔ دہلی سے بہ راہ کوٹہ بمبئی پہنچے۔ وہاں ضروری کاغذات درست کرائے اور 25 مئی کو جہاز پر سوار ہوئے۔ سمندر میں تلاطم تھا، اس لیے طبیعت بگڑ گئی۔ دوسرے مسافروں کا بھی یہی حال تھا۔ جہاز میں کئی مسافروں سے ان کی دوستی ہوگئی جس سے جہاز کا تکلیف دہ سفر بڑی آسانی سے طے ہوگیا۔

 اس زمانے کے اکثر مسافروں نے بمبئی کے لوگوں اور ان کے رہن سہن کی مذمت کی ہے۔ چنانچہ خواجہ غلام الثقلین کا تجربہ بھی بمبئی کا بہت تلخ رہا۔ چوں کہ وہاں کے لہجے میں اکھڑپن ہے اس لیے وہاں کے لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو تکلیف ہوتی تھی۔ دوسری چیز جس کی سفرنامہ نویس نے شکایت کی ہے وہ وہاں کے لوگوں میں تحمل اور برداشت کی قوت کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے وہ بات بات پر بگڑجاتے ہیں۔ جب ان کا جہاز مسقط میں رکا تو وہاں کئی مسافر اترے اور دوسرے کئی مسافر جہاز پر سوار ہوئے۔ ان میں مسیحی مشنری کے افراد بھی تھے جو بظاہر مسلمان معلوم ہوتے تھے۔ وہاں ان کو مسقط کے فرقہ اباضیہ کی اطلاع ملی جن کو انھوں نے خوارج کا نام دیا ہے۔ اس فرقے کے بارے میں وہ اس انداز میں اطلاع فراہم کرتے ہیں:

’’مسیحی مشنری سے میں نے اباضیہ(خوارج مسقط) کا حال دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ وہ دیگر مذاہب سے تعصب نہیں رکھتے اور نجاست غیر مسلم کے قائل نہیں۔ خاص مسقط میں شیعہ اور سنی بہت ہیں، مگر باہر ملک عمان میں فرقۂ اباضیہ کی آبادی زیادہ ہے۔ یہ لوگ مونچھوں کو بہت ناپاک جانتے ہیں۔ اور حج کو ایسا ضروری نہیں جانتے جیسا شیعہ اور سنی جانتے ہیں۔ ان کے ملّا صرف ایک علم پڑھتے ہیں یعنی علم نحو۔ جو شخص نحو زیادہ جانتا ہے وہی بڑا عالم دین ہے۔سیدنا علی ابن ابی طالب کو نہیں مانتے۔‘‘4

ان کا جہاز بندر بوشہر (ایران) کے راستے بصرہ پہنچا۔ بصرہ میں انھوں نے مچھروں کی زیادتی کی شکایت کی ہے کہ یہاں کے مچھر معمولی نہیں ہیں۔ وہ اس طرح کاٹتے ہیں جیسے قینچی جسم میں داخل ہو رہی ہو۔ وہاں تقریباً سات دن وہ قرنطینہ میں رہے اور 8 جون کو قرنطینہ سے باہر ہوئے۔ بصرہ شہر نے ان کے دل و دماغ کو کچھ خاص متاثر نہیں کیا۔ وہاں وہ بازاروں میں گئے۔ لوگوں کے عام رواج اور طرز بود و باش کا مشاہدہ کیا، لیکن وہاں کی کسی چیز میں ان کو کوئی دل کشی یا ندرت نظر نہیں آئی۔ دکانداروں کی صفائی ستھرائی کی تعریف کی جو ہندوستان میں کم ہی نظر آتی ہے۔ وہ بصرہ کے بازار کی چہل پہل کا منظر یوں پیش کرتے ہیں:

’’دوکانیں کچھ شاندار نہیں ہیں، لیکن ہر چیز کا بازار جداگانہ ہے۔ مال بکثرت ہے اور نہایت سلیقے سے لگایا گیا ہے۔ دوکاندار عموماً خوش پوشاک ہیں۔ دوکاندار عجم بہت زیادہ ہیں اور شاید یہودی ان سے بھی زیادہ ہیں۔ ولایتی چیزوں کی قیمت ہندوستان سے کسی قدر کم ہوتی ہے۔‘‘5

عراق میں انھوں نے بصرہ، کاظمین، سامرا، بغداد، کربلائے معلی، نجف اشرف اور کوفہ وغیرہ کی سیاحت اور مقامات مقدسہ کی زیارت کی۔ وہاں کی تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی اور مذہبی زندگی کا بغور جائزہ لیا۔ اس جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان صرف کشور کشائی میں مصروف ہیں اور دجلہ، فرات اور شط العرب جیسے علاقوں پر ان کی کوئی خاص نظر نہیں ہے جس کی وجہ سے وہاں یہودیوں اور عیسائیوں کا بول بالا ہے۔ عراق کے افراد جوشیلے اور جنگجو ہیں۔ اہل شہر خلیق، ملنسار اور خوش پوشاک ہیں۔ وہاں کی آبادی کا تناسب یہ ہے کہ وہاں کے دیہاتی علاقوں کی تین چوتھائی آبادی شیعہ ہے جب کہ شہری علاقوں میں نصف سے کچھ کم شیعہ ہیں اور بقیہ اہل سنت ہیں۔ لیکن ان کے درمیان آپسی بھائی چارہ پایا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک دوسرے کو تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ وہاں کے لوگوں کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہیں جب کہ ہندوستان میں حالات بالکل برعکس ہیں۔ ملک مفلسی اور غریبی سے پاک ہے۔ زمین زرخیز اور پانی کی افراط ہے لیکن وہاں کے لوگ زراعت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

وہاں کی تعلیمی حالت ہندوستان کے مقابلے میں بہت خراب ہے۔ شہر کے لوگ تو پڑھے لکھے ہیں لیکن گاؤں میں تعلیم نہیں ہے۔ انھیں ایرانیوں اور ترکوں سے کوئی خاص شغف نہیں ہے، البتہ ہندوستانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ ان کے اخلاق کی تعریف کرتے ہیں۔

عراق سے ایران کا سفر کیا۔ وہاں ان کا قیام ستر دن رہا۔ ان ایام میں انھوں نے وہاں کے اہم مقامات، ان کے تاریخی پس منظر، شاہ ایران کے حالات، شاہ کے متعلق وہاں کی رعایا کے خیالات، وہاں کے تعلیمی اداروں خصوصاً دارالفنون کی تعلیمی پالیسی، مقامات مقدسہ کے روح پرور مناظر، وہاں کے لوگوں کی طرز بود و باش، رسم و رواج اور اپنے تجربات و مشاہدات کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔جیسا کہ کہا گیا ان کا زیادہ تر وقت تہران میں گزرا، اس لیے تہران کے سلسلے میں انھوں نے جو معلومات بہم پہنچائی ہیں ان میں سطحیت نہیں ہے۔ وہ وہاں کے لوگوں کے اندر پائے جانے والے عیبوں اور نقائص کے باوجود انھیں دنیا کی مختلف اقوام وملل سے ممتاز اور برتر گردانتے ہیں۔ انھوں نے ان کی زبان، لب و لہجہ، بات چیت کے انداز اور بعض نیک عادتوں کی تعریف کی ہے۔

ان کو سب سے زیادہ ایران کی بے روزگاری اور بے کاری نے متاثر کیا۔ انھوں نے تہران کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں ایسے بہتیرے نوجوانوں اور بوڑھوں کو دیکھا جن کے لباس اور پوشاک بہت عمدہ تھے لیکن وہ بے روزگاری کی وجہ سے مفلسی کا کرب جھیل رہے تھے۔ روزی روٹی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کی رعایا اکثر و بیشتر پریشاں حال رہتی ہے۔ وہ استرا کے راستے روس میں داخل ہوئے۔اس سفرنامے میں انھوں نے روس کے سیاسی،  سماجی، تہذیبی، صنعتی اور ثقافتی امور سے بحث کی ہے اور وہاں کے لوگوں کے طرز زندگی، سیرت و شخصیت اور فکری رویے کی بھی عکاسی کی ہے۔

چوتھے حصے میں انھوں نے دمشق اور وہاں سے بمبئی تک کے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔ دمشق کی انھوں نے تعریف کی ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کو اہل شام عروس البلاد اور جنت الارض یا جنت فی الارض کہتے ہیں۔ شام کے عروس البلاد دمشق کی رونق اور وہاں کی فرحت بخش فضا کا تذکرہ انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’دمشق بہت بڑا شہر ہے اور رونق میں دلی سے کم نہیں۔ آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے اور بازار مسقف ہے۔ اس قدر بلند اور چوڑی اور شاندار چھت نہ بغداد میں ہے نہ تہران میں۔ مغرب کے وقت جب میں داخل ہوا تھا تو چراغ دکانوں پر روشن تھے۔ تاہم بازاروں میں تاریکی نظر آتی تھی۔ ٹریم جاری تھی۔‘‘6

شام کے دوران قیام انھوں نے نہ صرف دمشق کی موجودہ صورت حال کا مشاہدہ کیا بلکہ اس کو تاریخ کے آئینے میں بھی دیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سفرنامے میں مختلف مقامات پر وقت کے ساتھ تیزی سے بدلتے ہوئے سماج اور معاشرے نیز تہذیب و ثقافت کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ قدیم اخلاقی روایات کی پامالی اور قوم و ملت خصوصاً نوجوانوں کے اس طرف سے بے خبر ہونے کو باعث تشویش قرار دیا ہے۔ ان کا یہ سفر اگرچہ ایک خاص مقصد کے تحت تھا لیکن انھوں نے اپنے سفرنامے کو اس کاتابع نہیں ہونے دیا۔ سفرنامے کے مطالعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و دماغ کے دریچے کھلے رکھے ہیں۔ سیاسی، تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی امور میں الجھنے کے بجائے صرف انھیں واقعات و مناظر کو سفرنامے کا حصہ بنایا ہے جن سے ان ممالک اور وہاں کی روزمرہ کی زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس میں انھوں نے ہر اس چیز کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جس نے ان کے دل و دماغ کو متاثر کیا یا جو ان کی آنکھوں کو بھلی معلوم ہوئی۔

زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اس سفرنامے میں کئی خوبیاں موجود ہیں۔ اس کا بیانیہ سادہ، سلیس اور دل کش ہے۔ وہ اشیا و مناظر کے مشاہدے کے وقت جن احساسات سے گزرتے ہیں ان کو ہوبہو پیش کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ زبان و بیان پر ان کو دسترس حاصل ہے۔ چوں کہ یہ سفرنامہ بیسویں صدی کے اوائل میں لکھا گیا ہے اس لیے کہیں کہیں زبان اور لب و لہجے سے قدامت جھلکتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ سفرنامہ مواد و محتویٰ کے ساتھ فنی نقطۂ نظر سے بھی کئی خصوصیات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ جزئیات نگاری اس کا اہم وصف ہے۔ سفرنامہ نویس ہر شے اور ہر منظر کو بڑی باریکی سے دیکھتے ہیں اور جزئیات سمیت اس کی مکمل تصویر پیش کردیتے ہیں۔ کہیں کہیں عربی ترکیبات اور فارسی اشعار کا بر محل استعمال بھی ملتا ہے جس نے سفرنامے کے حسن کو دوبالا کردیا ہے۔

حواشی

1          ایک مرد درویش، خواجہ غلام الثقلین،مطبع و سنہ ندارد، ریختہ ڈاٹ اوآرجی، ص1

2          روزنامچہ سیاحت، خواجہ غلام الثقلین، مطبع شمس الانوار، میرٹھ، 1912ء، ص ب

3          روزنامچہ سیاحت، دیباچہ، ص1

4          روزنامچہ سیاحت، ص15

5          روزنامچہ سیاحت، ص29

6          روزنامچہ سیاحت، ص366-67

 

Dr. Faizan Haider

Assistant Professor Dept. of

Urdu & Persian, C.M. College,

Quila Ghat, Darbhanga - 846004

Mob.: 7388886628,

E-mail: faizanhaider40@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...