اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے میں نے منشی پریم چند
کا افسانہ ’عیدگاہ‘ اور رابندر ناتھ ٹیگور کی کہانی ’پوسٹ ماسٹر‘ کا انتخاب کیا ہے۔
اس مقالے میں ان دونوں کہانیوں کا موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ، ان میں موجود بچوں کے
کرداروں کا نفسیاتی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انیسویں
صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں لکھی جانے والی کہانیوں کی عصری معنویت کیا
ہے؟ ہم اسے کیوں پڑھیں؟ کیا اس کی سماجی و تہذیبی صورت حال، عصری حسیت سے مطابقت رکھتی
ہے؟ ان سوالوں کی روشنی میں ہم اس کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔یہاں اس بات
کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان دونوں کہانیوں کی پوری بُنت بچوں کی ذہنی کشمکش اور ان
کے حرکات و سکنات کے اطراف ضرور گردش کرتی ہے لیکن ان کے مخاطب بڑی عمر کے لوگ ہیں
جو ان کہانیوں کے مطالعے سے بچوں کے ذہن میں ہونے والی اتھل پتھل اور ان کی نفسیات
کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
درج بالا دونوں کہانیوں میں موجود بچوں کے کردار یتیم
ہیں۔ایک یتیم کی زندگی میں پیدا ہونے والے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور
نفسیاتی کشمکش کو جس خوبصورتی کے ساتھ ان کہانیوں میں پیش کیا گیا ہے اس سے ہمیں ان
بچوں کے جذبات اور خواہشات کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی اس وقت کے معاشرے کی صورت
حال سے روبرو ہونے کا بھی موقع ملتا ہے۔ ’عید گاہ‘ میں حامد کا کردار اور ’پوسٹ ماسٹر‘
میں رتن کا کردار اپنی زندگی میں موجود خالی پن کو بھرنے اور اس خلا کو پُر کرنے کے
لیے ’دادی‘ اور ’پوسٹ ماسٹر‘ کا سہارا لیتے ہیں۔حامد کی پوری دنیا اس کی دادی ہے اور
رتن، گاؤں ’اولاپور‘ میں بحیثیت ڈاک بابو (پوسٹ ماسٹر) مقرر ہوئے،کلکتہ سے آنے والے
شخص میں اپنے کسی عزیز کو تلاش کرنے پر مجبور ہے اور پوسٹ ماسٹر کوکبھی بابوجی اور
کبھی ’دادا‘ یعنی بڑا بھائی کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ ان دونوں کہانیوں میں انسانی نفسیات
کا وہ پہلو بھی شامل ہے،جس میں بیٹا اپنی ماں سے اور بیٹی اپنے باپ سے زیادہ قریب اور
ہلی ملی ہوتی ہے۔ پریم چند نے دادی کی شکل میں ایک ماں کا پیار دینے والی شخصیت اور
اس کی خوشی اور غم میں شریک ہونے والے ایک ساتھی کا کردار خلق کیا ہے، وہیں ٹیگور نے
ایک یتیم اور بے سہارا لڑکی کے لیے پوسٹ ماسٹر کے کردار کی رچنا کی ہے، جس کے سہارے
رتن کی بے سہارا زندگی کو ایک عارضی سہارا تو مل ہی گیا لیکن رتن پوسٹ ماسٹر کی شخصیت
میں اپنے باپ اور بڑے بھائی کو تلاش کرتی اور پوسٹ ماسٹر اور اس کے گھر کے دیگر افراد
کے ساتھ اپنی باقی زندگی گزارنے کا خواب دیکھ کر اپنی ویران زندگی کو روشن کرنے کا
کام کرتی ہے۔
حامد اور رتن کے کردار میں رتن عمر میں بڑی ہے۔ ’پوسٹ
ماسٹر‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’پوسٹ ماسٹر کی تنخواہ
بہت ہی تھوڑی تھی۔ انھیں اپنا کھانا آپ ہی پکانا پڑتا۔ اسی گاؤں کی ایک بارہ تیرہ
سالہ مسکین یتیم لڑکی کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹا دیتی۔ اس کے بدلے اسے تھوڑا بہت کھانا
مل جاتا۔ اس کا نام رتن تھا۔ اس کے شادی بیاہ کی کوئی امید نہ تھی۔‘‘
یتیم ہونے کے سبب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے رتن کا
کہیں نہ کہیں کام کرنا فطری عمل ہے، جس کے عوض اسے تھوڑا بہت کھانا مل جاتا۔ اس چھوٹے
سے اقتباس میں ٹیگور نے رتن کی شخصیت کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اس عمل میں انھوں
نے چپکے سے ایک جملے کا اضافہ اور کر دیا ہے کہ ’’اس کے شادی بیاہ کی کوئی امید نہ
تھی۔‘‘ بارہ تیرہ برس کی عمر ہی کیا ہوتی ہے لیکن اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیگور
نے جس معاشرے، عہد اور تہذیب کو پیش کیا ہے اس میں بارہ تیرہ برس میں لڑکیوں کی شادی
ہو جاتی تھی۔ یہ عمل صحیح تھا یا غلط اس پر بحث کرنے کا موقع نہیں لیکن یہ ضرور کہنا
چاہوں گا کہ عصر حاضر میں اسے ’بال ویواہ‘ سے منسوب کیا جاتا ہے اور ایسی شادی کرنا
قانوناً جرم ہے۔ اگر غور کریں کہ جس معاشرے میں ’بال ویواہ‘ کا تصور عام تھا وہاں لڑکیاں
ہوش سنبھالتے ہی ذہنی طور پر کہیں نہ کہیں اس کے لیے تیار ہونے لگتی تھیں کہ انھیں
زندگی کے اس موڑ سے آگے بڑھنا ہے جس کے لیے نہ صرف ان کا جسم بلکہ ان کا ذہن بھی تیار
نہیں ہوتا تھا۔ ویسے شادی کا ذکر اس جانب بھی ذہن کو متوجہ کرتا ہے کہ لڑکی سیانی ہو
گئی ہے۔ سیانا پن سنجیدگی کی جانب اشارہ کرتا ہے اور سنجیدگی مشکلوں سے لڑنے کا حوصلہ
فراہم کرتی ہے۔ یہاں تو رتن کا کردار یتیم بھی ہے۔ یتیم ہونا ہی اپنے آپ میں ایک ایسا
سانحہ ہے جو چھوٹے اور معصوم ذہن کو بھی بڑوں کی طرح سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ زندگی
کے ہر فیصلے میں غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو رتن کے کردار اور حامد
کے کردار کو ایک ساتھ کھڑا کرنے کا کام کرتی ہے۔دونوں اپنی اپنی زندگی میں ہونے والے
تغیرات سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں اپنے سے متصل کرداروں کے متعلق نہ صرف
سوچتے ہیں بلکہ ان کا خیال رکھنے کی بھی پوری کوشش کرتے ہیں۔
افسانہ ’عید گاہ‘ کی ابتدا، پریم چند نے صبحِ عید کی
منظرنگاری سے کی ہے اور ساتھ ہی اس کی تیاری میں لوگوں کو مصروف بھی دکھایا ہے۔ بطور
خاص بچوں کا ذکر کرتے ہوئے پریم چند لکھتے ہیں:
’’لڑکے سب سے زیادہ خوش
ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا وہ بھی دوپہر تک، کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے
کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لیے ہوں گے۔ بچوں کے لیے تو عید ہے۔ روز
عید کا نام رٹتے تھے۔ آج وہ آگئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عیدگاہ کیوں نہیں چلتے۔‘‘
پریم چند نے درج بالا اقتباس میں عید کو لے کر بچوں
کی خوشی کوبہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ آخر اس خوشی کی وجہ کیا ہے؟ اور انھیں عید
گاہ جانے کی جلدی کیوں ہے؟ ’’اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ آخر عید گاہ کیوں نہیں چلتے‘‘
اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ بچے اپنے گھر میں موجود بڑے لوگوں سے بار بار یہ سوال کر
رہے ہیں۔ عید اپنے ساتھ خوشیاں لے کر آتی ہے اور اس کی برکتیں نازل ہوتی ہیں، ان باتوں
سے بچوں کو کیا سروکار، دراصل بچوں کے ذہن میں کہیں نہ کہیں گذشتہ عید کا نقشہ موجود
ہے جو انھیں بار بار یہ یاد دلاتا ہے کہ عیدگاہ کے باہر میلہ بھی لگتا ہے جس میں رنگ
برنگی مٹھائیاں، جھولے اور بچوں کی تفریح کے لیے متعدد چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی
کشش ہے جو انھیں عیدگاہ کی جانب جلدی جانے پر اکساتی رہتی ہے۔ بطور خاص عید کے دن لگنے
والے میلے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیوں کہ بچوں کو عید کے دن عیدی کی شکل
میں کچھ روپے پیسے مل جاتے ہیں جن کو خرچ کرنے کے لیے وہ آزاد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ جیب میں موجود قارون کا خزانہ خرچ کرنے اور اپنی پسندیدہ مٹھائیاں کھانے وغیرہ کے
لیے انھیں عیدگاہ کی طرف جانے کی جلدی رہتی ہے:
’’انھیں [بچوں کو]گھر
کی فکروں سے کیا واسطہ، سویوں کے لیے گھر میں دودھ، شکر یا میوے ہیں یا نہیں اس کی
انھیں کیا فکر، ان کی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے اپنا
خزانہ نکال کر گنتے ہیں، دوستوں کو دکھاتے ہیں اور رکھ لیتے ہیں۔ انھیں دو چار پیسوں
میں دنیا کی نعمتیں لائیں گے۔مٹھائیاں اور کھلونے اور بگل، خدا جانے کیا کیا۔‘‘
انھیں بچوں میں ایک بچہ حامد بھی ہے جس کی دادی نے
اسے تین پیسے دیے ہیں تاکہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح اپنی خواہشات پوری کر سکے۔ عیداور
عیدی کا معاملہ آج بھی ویسے ہی قائم ہے جیسا کہ افسانے میں بیان کیا گیا ہے۔ بچوں
کو ملنے والی عیدی اور ان کی زیادہ سے زیادہ عیدی پانے کی خواہش اور ان کے چہرے پر
موجود خوشی کے تاثرات قابل دید ہوتے ہیں۔ ایک طرف عید کی خوشی اور اس کے متعلقات ہیں
تو دوسری جانب رتن کی پوسٹ ماسٹر کے دل میں اپنی اہمیت بڑھانے کی کوشش تاکہ وہ اپنی
گھر واپسی کے وقت رتن کو بھی اپنے ساتھ لے جاسکے۔ پوسٹ ماسٹر نے اسے ایک کام کرنے والی
بے سہارا لڑکی سے زیادہ سمجھا نہیں، اس کے برعکس رتن پوسٹ ماسٹر کو اپنا بڑا بھائی
تسلیم کر چکی ہے اور بحیثیت چھوٹی بہن اپنے
ناز نخرے بھی اٹھوانا چاہتی ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’گھر کے اندر ٹمٹماتے
ہوئے دیے کی مدھم روشنی میں بیٹھے ہوئے پوسٹ ماسٹر بابو پکارتے ’رتن‘۔ رتن اسی پکار
کے انتظار میں دروازے پر بیٹھی رہتی۔ مگر ایک ہی آواز میں گھر کے اندر داخل نہیں ہوتی۔‘‘
رتن کا دروازے پر بیٹھ کر پوسٹ ماسٹر کی آواز کا انتظار
کرنا اور ایک ہی آواز میں گھر میں داخل نہ ہونا، رتن کے ذہن میں پوسٹ ماسٹر کو اپنا
عزیز تسلیم کر لینے کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ وہ پوسٹ ماسٹر کی نوکر نہیں ہے کہ پہلی
پکار پر ہی گھر میں دوڑی آتی۔ لیکن رتن کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ پوسٹ ماسٹر کے دل میں اتنی جگہ بنانے
کے لیے کہ وہ اسے اپنے گھر لے جائے، اسے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ
رتن پکار کے انتظار میں دروازے پر بیٹھی رہتی۔رتن کی شخصیت کی تکمیل کسی گھر کی متقاضی
ہے اور غالباً اس کی پوری زندگی میں پوسٹ ماسٹر پہلا شخص ہے جس کے وہ اتنے قریب ہوئی
تاکہ اس کی ماں اور بہنوں کے ساتھ وہ بھی اپنی زندگی گزار سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی
شخصیت کی تکمیل کی خاطر وہ پوسٹ ماسٹر کی خدمت میں دن رات لگی رہتی ہے۔ لیکن ایسا کیا
ہوا کہ رتن کے دل میں اس طرح کے خیالات پیدا ہوئے؟ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟ ٹیگور اس
جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کبھی کبھی شام کو اسی
پھوس کی بڑی کوٹھری کے ایک کونے میں آفس کی چوکی پربیٹھے پوسٹ ماسٹر اپنے گھر کی باتیں
اس سے کہا کرتے۔ چھوٹے بھائی، ماں اور بڑی بہن کی باتیں۔گھر سے دور تنہائی میں جن کی
یاد دل کو ستایا کرتی، ان کی باتیں۔ دل میں جو باتیں اکثر آیا کرتیں اور جنھیں نیل
کوٹھی کے عملہ والوں کے سامنے کہنا کسی حالت میں بھی مناسب نہ تھا۔وہ باتیں ایک اَن
پڑھ چھوٹی لڑکی سے کہہ جانے میں انھیں کوئی جھجک محسوس نہ ہوتی۔ آخر ایسا ہوا کہ لڑکی
بات چیت میں ان کے گھر والوں کا ذکر ماں، بہن اور بھائی کہہ کر پرانے جان پہچان والوں
کی طرح کرتی۔ یہاں تک کہ لڑکی نے اپنے ننھے سے دل میں ان لوگوں کی خیالی تصویر بھی
بنا لی۔‘‘
یتیم اور بے سہارا لڑکی
سے ماں، بہن اور بھائی کے متعلق باتیں کرنا، یتیم کے دل میں کسی اپنے کے ہونے کا جذبہ
بیدار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رتن کے دل میں وہ تمام خواہشات عود کر آتی ہیں جو اس
کے ننھے دل میں کہیں نہ کہیں دفن ہو چکی تھیں۔ یہاں تک کہ ایک دن پوسٹ ماسٹر کے تبادلے
کا وقت آ جاتا ہے اور وہ گھر جانے کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ اقتباس دیکھیے:
’’آخر ایک ہفتہ بعد شام
کو اس [رتن] کی پکار ہوئی۔ آرزو بھرے دل کے ساتھ وہ اندر داخل ہوئی۔ پوچھا ’’دادا
پکار رہے تھے۔‘‘ پوسٹ ماسٹر نے کہا ’’رتن میں کل ہی یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘
’’کہاں جاؤگے دادا؟‘‘’’گھر جا رہا ہوں‘‘ ’’کب لوٹوگے؟‘‘ پوسٹ ماسٹر: ’’اب کبھی یہاں
نہ آؤں گا۔‘‘ رتن خاموش رہی۔… کچھ دیر بعد رتن روٹی پکانے کے لیے دھیرے دھیرے چوکے
میں گئی۔ ہر روز کی طرح جلدی جلدی نہ پکا سکی۔ شاید طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں
چکر لگا رہے تھے۔ پوسٹ ماسٹر کھا چکے تو لڑکی نے ان سے پوچھا ’’دادا مجھے بھی اپنے
ساتھ لے چلوگے؟‘‘ پوسٹ ماسٹر ہنس کر بولے
’’یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘
پوسٹ ماسٹر کا رتن سے گھر جانے کے متعلق گفتگو کرنا
اور اس کا گھر میں کھانا پکانے کے عمل کو دھیرے دھیرے کرنا رتن کے ذہن میں اٹھنے والے
اس طوفان کی جانب اشارہ کر رہا ہے جس کے لیے وہ پوسٹ ماسٹر کے کھانا کھا لینے تک کا
انتظار کرتی ہے۔ اس ذہنی اور نفسیاتی کشمکش میں کہ آیا اس کا ’دادا‘ اس کو اپنے ساتھ
اپنے گھر لے جائے گا یا وہ اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ کر واپس چلا جائے گا۔ رتن کے لیے
یہ اتنا اہم سوال تھا جس پر اس کی باقی زندگی کا انحصار تھا۔ رتن کو اس بات کی امید
بھی تھی کہ ڈاک بابو اس کو اپنے ساتھ اپنے گھر ضرورلے جائے گا، لیکن کہیں نہ کہیں اس
کے دل میں ساتھ نہ لے جانے کا ڈر بھی تھا۔ اس خوف اور امید کی کیفیت میں مبتلا رتن
کسی طرح خود کو اس بات کے لیے تیار کرتی ہے کہ وہ پوسٹ ماسٹر سے سوال پوچھ سکے کہ کیا
وہ اسے بھی اپنے ساتھ اپنی ماں، بہن اور بھائی کے پاس لے جائے گا۔ اس سوال کے جواب
میں پوسٹ ماسٹر کا ہنس دینا، اُس کے جواب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ غور کیا جائے تو رتن
پریشان حالی کا استعارہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کے برعکس حامد کا کردار خوشی
کا استعارہ بن کر ابھرتا ہے جو اپنی باتوں کے ذریعے اپنے اعمال کو صحیح ثابت کرنے میں
کامیاب ہوجا تا ہے۔ جس کے سبب نہ صرف اسے ذہنی و قلبی اطمینان ملتا ہے بلکہ اس کی ذہانت
کی دھاک بھی اس کے ہم عمروں پر بیٹھ جاتی ہے۔ عیدگاہ سے نکل کر تمام بچے جھولے اور
مٹھائیوں کی دکانوں کی طرف تیزی سے بڑھ جاتے ہیں:
’’محمود اور محسن ہنڈولے
پر بیٹھے ہیں،نور اور سمیع گھوڑوں پر۔ حامد دور کھڑا ہے۔ تین ہی پیسے تو اس کے پاس
ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لیے وہ اپنا خزانہ نہیں صرف کر سکتا۔ محسن کا باپ اسے بار
بار چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں کہ اس لڑکے میں ابھی
سے اپنا پرایا آگیا ہے۔ حامد سوچتا ہے کیوں کسی کا احسان لوں۔ عسرت نے اسے ضرورت سے
زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔‘‘
حامد ذرا سی دیر کے مزے کے لیے اپنے خزانے کوخرچ کرنا
نہیں چاہتا تھا۔ دراصل اسے بھی پیسوں کی اہمیت اور اپنی مجبوری کا احساس تھا۔ وہ جانتا
تھا کہ اس کی دادی نے یہ تین پیسے گرچہ میلے میں خرچ کرنے اور اپنی خواہشات کو پورا
کرنے کے لیے دیے تھے لیکن حامد ان پیسوں کو کسی ایسے کام کے لیے استعمال کرنا چاہتا
تھا جس کا خاطر خواہ نتیجہ حاصل ہو۔ محسن کے باپ کے بلانے پر نہ جانا عزت نفس کا معاملہ
ہے جیسا کہ پریم چند نے ذکر بھی کر دیا ہے۔ حساس طبیعت کے لوگ آج بھی کسی کا احسان
لینا گوارا نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ حامد جھولے پر چکر کھانے سے اجتناب برتتا ہے۔
پریم چند نے حامد کے کردار میں بیک وقت ایک بچے اور ایک ذی شعور شخص دونوں کرداروں
کو جمع کر دیا ہے۔ کھلونے کی دکان پر بھی اسی طرح کا معاملہ پیش آتا ہے۔ دوسرے بچے
کھلونوں کی خرید فروخت میں مصروف ہیں اور حامد دور کھڑا یہ سوچ رہا ہے کہ یہ کھلونے
دو دو پیسے کے ہیں اور ابھی ذرا سی چوک ہوئی اور یہ گر کر ٹوٹ گئے۔ اس طرح کے بہلاوے
وہ خود کو بھی دے رہا ہے تاکہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھ سکے اور وہ خودکو کھلونا خریدنے
سے باز رکھ سکے:
’’[کھلونے] کہیں ہاتھ سے
گر پڑیں تو چور چور ہو جائیں، ذرا سا پانی پڑے تو سارا رنگ دھل جائے۔ ان کھلونوں کو
لے کر وہ کیا کرے گا۔ کس مصرف کے ہیں۔‘‘
لیکن ایک بچے کی نفسیات اسے مجبور کرتی ہے :
’’لیکن ہر چیز کو للچائی
ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کے رفیق کوئی چیز خرید لیتے ہیں تو وہ بڑے اشتیاق
سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے کے لیے لپکتا ہے۔‘‘
کھلونوں کی خرید و فروخت کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آتا
ہے۔ حامد اپنے نفس پر قابو کرتے ہوئے وہاں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کے بعد لوہے
کے سامانوں کی دکانیں تھیں ’’لڑکوں کے لیے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔‘‘لیکن
حامد کی نظر لوہے کی دکان میں رکھے دست پناہ پر پڑتی ہے جس کی وجہ سے وہ رک جاتا ہے۔
اسے اپنی دادی کی انگلیاں یاد آتی ہیں جو توے سے روٹیاں اتارتے وقت اکثر جل جایا کرتی
تھیں۔ اس وقت حامد دادی کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ حامد کی
دکان دار سے ہونے والی گفتگو کچھ اس طرح ہے:
’’اس نے دکاندار سے ڈرتے
ڈرتے پوچھا: یہ دست پناہ بیچوگے؟ دوکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ میں کوئی آدمی
نہ دیکھ کر کہا کہ وہ تمھارے کام کا نہیں ہے۔
’’بکاؤ ہے یا نہیں؟‘‘
’’بکاؤ ہے جی، اور یہاں
کیوں لاد کر لائے ہیں۔‘‘
’’تو بتلاتے کیوں نہیں،
کے پیسے کا دوگے؟‘‘
’’چھ پیسے لگیں گے۔‘‘
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کرکے بولا۔ ’’تین
پیسے لوگے؟‘‘ اور آگے بڑھ گیا کہ دکاندار کی گھڑکیاں نہ سنے۔ مگر دکاندار نے گھڑکیاں
نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لیے۔‘‘
دوکاندار سے ہونے والا مکالمہ اور حامد کا قیمت کم
کرانے کی کوشش پورے ماحول کو فطری بنا دینے کے لیے کافی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورا
منظر قاری کی نظروں کے سامنے پھر گیا ہو۔ حامد کا چھ پیسے کی قیمت والے دست پناہ کے
لیے تین پیسے دینے کی پیشکش کرنا، دست پناہ پانے کی چاہ کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے۔
اس سے پہلے اس بات کا ذکر ہو چکا ہے کہ حامد کے پاس کل تین پیسے ہی تھے۔ دست پناہ کی
قیمت سن کر اس کا دل اس لیے بیٹھ جاتا ہے کیوں کہ اس کو اپنی دادی کی انگلیاں پھر توے
سے جلتی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دکاندار کو آدھی قیمت کی پیشکش کرنے
کے لیے خود کو آمادہ کر پاتا ہے۔ خرید و فروخت کے اس عمل کے بعد ایک مرحلہ ابھی حامد
کو اور طے کرنا ہے وہ ہے دوستوں کے سامنے خود کو شرمندہ ہونے سے بچانا اور کچھ ایسا
کرنا تاکہ اس کے دوست اس کا مذاق اڑانے کے بجائے اسے عقل مند تسلیم کر لیں۔ حامد اور
اس کے دوستوں کے درمیان ہونے والے مکالموں کو دیکھیے:
’’محسن نے ہنستے ہوئے
کہا ’’یہ دست پناہ ساتھ لایا ہے۔ احمق اس سے کیا کرے گا؟ حامد نے دست پناہ کو زمین
پر پٹک کر کہا ’’ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرادو۔ ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بیچارے
کی۔‘‘
محمود: ’’تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے۔‘‘
حامد: ’’ کھلونا کیوں نہیں ہے۔ ابھی کندھے پر رکھا
بندوق ہو گیا۔ ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا۔ چاہوں تو اس سے تمھاری ناک پکڑوں۔
ایک چمٹا جما دوں تو تمھارے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمھارے کھلونے کتنا ہی زور
لگائیں اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ‘‘
حامد کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ اس کے دوست اس
کے دست پناہ خریدنے پر نہ صرف سوال جواب کریں گے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑائیں گے۔ انسانی
سرشت میں شامل ہے کہ وہ اپنی چیزوں کی تعریف اور دوسروں کی چیزوں میں عیب تلاش کرتا
ہے۔ حامد اپنے دست پناہ کی اتنی تعریف صرف اس لیے کرتا ہے تاکہ اس کے دوست اس کا مذاق
نہ اڑائیں اور وہ اس معاملے میں اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس ایک دست پناہ میں
مختلف کھلونوں کی خوبیاں گنوانے اور اسے مختلف دیگر کاموں میں استعمال کرنے کے متعلق
نہ صرف بتاتا ہے بلکہ اسے کر کے بھی دکھاتا ہے تاکہ اس کے دست پناہ کے خریدنے کا جواز
بھی پیدا ہو جائے اور اس کی دھاک بھی دوستوں پر جم جائے۔
دونوں افسانوں میں موجود کردار آج کے دور میں بھی
ہمیں ہر طرف چلتے پھرتے نظر آجائیں گے۔ ہندوستانی سماج میں لڑکیوں کو مجبور اور کسی
کے اوپر منحصر سمجھا جاتا ہے جن کی خواہشیں تو ہوتی ہیں لیکن انھیں پورا کرنے کے لیے
بھی وہ کسی نہ کسی کی محتاج ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک لڑکا اپنی مرضی کا مالک سمجھا
جاتا ہے۔ لڑکا ہی دوسروںکی زندگیوں میں خوشی بھرنے اور ذمے داریاں اٹھانے کا کام کرتا
ہے۔ رتن لڑکی ہونے کی وجہ سے مجبور ہے اور محتاج ہے کہ ڈاک بابو اسے اپنے ساتھ اپنے
گھر لے جائیں یا نہ لے جائیںاور حامد لڑکا ہونے کی وجہ سے مجبور نہیں ہے بلکہ وہ اپنی
خوشیوں کا سودا کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دادی کی تکلیفوں کو کم کر سکے۔
ان دونوں افسانوں میں ایک بات اور غور کرنے کی ہے کہ
’پوسٹ ماسٹر‘ میں کہیں نہ کہیں غم کی زیریں لہریں پورے افسانے کو اپنی لپیٹ میں لیے
ہوئے ہے اور رتن اس غم واندوہ کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہونے کی کوشش میں برسرپیکار نظر
آتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اس کے برعکس ’عیدگاہ‘ میں حامد کا کردار خوشی و
کامرانی کا پیکر نظر آتا ہے، جو اپنے دل میں اُٹھنے والی ننھی ننھی خواہشات کا گلا
ضرور دباتا ہے لیکن اپنے فیصلے اور عمل کے ذریعے اپنی دادی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش میں کامیاب ہو
جاتاہے۔
Dr. Saquib Imran
Guest Faculty, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
Mob.: 9891423216
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں