6/11/23

مشائخِ دہلی کی فارسی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ:غلام اختر

تاریخ ہند میں دہلی کا مقام جہاں سیاسی نقطۂ نظر سے بلند ہے کہ اسے طویل مدت تک دارالسلطنت ہونے کا شرف ملا جو اسے اب تک حاصل ہے، وہیں اسے صنعت وحرفت،علم وحکمت اور زہد وتصوف کا گہوارہ ہونے کی وجہ سے آماجگاہ خاص وعام ہونے کا بھی حق حاصل ہے۔حضرت سید معین الدین چشتی اجمیری کا یہ احسان کہیے کہ انھوں نے ہندستان آمد کے بعد خود اجمیر شریف میں مقیم رہتے ہوئے دہلی میں اپنے تربیت یافتہ مرید وخلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی شکل میں علم وعرفان، زہد وورع اور خلق خدا کے ساتھ رواداری کا ایسا چشمہ جاری فرمایا،جس سے نہ صرف یہ کہ خلق خدا نے اپنی اخلاقی،  روحانی اور علمی پیاس بجھائی بلکہ اس سے ایسی ایسی نہریں نکلیں جو پورے خطہ ہند میں گھوم گھوم کر لوگوں کو حسب مقتضی سیراب کیا۔دہلی میں اگرچہ خواجہ قطب کے علاوہ اور بزرگوں کا بھی پتہ چلتا ہے تاہم خلق خدا کی بے لوث دستگیری کا جو سلسلہ ان کے اور ان کے خلفا نیز خلفا کے خلفا کے ہاتھوں جاری ہوا وہ صرف انھیں کا حصہ تھا،ان میں ایک سے ایک صاحب کشف وکرامت اور مختلف علوم وفنون کے ماہرافراد بھی پیدا ہوئے جن سے نہ صرف یہ کہ اہل تصوف کی بزمیں روشن ہوئیں بلکہ شعر وادب اور موسیقی کی محفلیں بھی آباد ہوئیں،یہاں تک کہ صنعت وحرفت میں بھی وہ اپنی مثال آپ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ فنون لطیفہ میں سہ تار اور طبلے کی ایجاد اسی سلسلے کے ایک درویش صفت شخص نے کیا جسے دنیا امیر خسرو کے نام سے جانتی ہے۔ دہلی میں شاعری کا آغاز،خواہ وہ فارسی ہو یا اردو انھیں خانقاہوں سے ہواجہاں مذکورہ اوصاف والے قدآور سخنور صوفی کی حیثیت سے یاد کیے جاتے تھے۔ان سے چونکہ خلق خدا براہ راست منسلک تھی اس لیے بادشاہ وقت کو بھی ان بارگاہوں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ہاں یہ ضرور ہے کے بادشاہوں میں بھی کچھ اشخاص ایسے گزرے ہیں جو فی نفسہ متدین اور خدا ترس تھے اس لیے وہ اہل اللہ سے قریب رہتے تھے اور گاہے بہ گاہے ان کی خدمت میں نذریں بھی پیش کیا کرتے تھے۔چونکہ اہل خانقاہ توکل علی اللہ اور قناعت کے خوگر ہوتے تھے اس لیے وہ جو بھی کرتے تھے بے لوث اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کرتے تھے۔اپنے افکار ونظریات کا اظہار نیز علم وحکمت کے اسرارو رموز کا افشا کسی دنیوی منفعت کے لیے نہیں کرتے تھے،اس لیے ہمیں خانقاہی شاعری میں زیادہ تر عشق حقیقی، خدمت خلق، اخلاق حسنہ و اعمال خیر کی ترغیب اور خدا ورسول کے بعد مرشد کی تابعداری پر مشتمل مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہم یہاں پر ذیل میں دہلی کے ان مشائخ کی فارسی شاعری کا مطالعہ کریں گے جن کے دیوان تک اب تک ہماری رسائی ہو سکی ہے۔

خانوادۂ چشت کے مشہور بزرگ سیدنا خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ہیں۔ان کی طرف ایک فارسی دیوان بنام ’دیوان خواجہ قطب الدین بختیار کاکی‘ منسوب ہے، جس کا سلیس اردو ترجمہ راقم نے کیا ہے۔ترجمہ مکمل ہو نے کے بعد جب میں نے اس کتاب کا ذکر فارسی کے چند دانشوروں کے سامنے کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی شاعر ہی نہیں تھے،بہر حال میں نے تحقیق جاری رکھی ہے، اب تک اردو کے بڑے محقق حافظ محمود شیرانی اور پروفیسر نذیر احمد (علی گڑھ)کی تحریروں سے اس بات کی قطعی وضاحت ہو چکی ہے کہ خواجہ قطب شاعر نہیں تھے۔اس سلسلے میںحافظ محمود شیرانی کی سب سے بنیادی دلیل یہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا  نے اپنے ملفوظات میں فرمایا کہ سلسلۂ چشتیہ کے ہمارے مشائخ میں کوئی شاعر نہ تھا، حضرت کے اسی وضاحتی ارشاد نے محققین کو ’دیوان خواجہ معین الدین چشتی‘ کی تحقیق پر مجبور کیا اور بالآخر یہ ثابت ہوا کہ وہ بھی ان کا نہیں ہے بلکہ معین مسکین فراہی کا ہے جو صاحب تصانیف کثیرہ ہیں، انھوں نے تفسیر وسیر پر اچھا خاصا لکھا ہے ان کی معارج النبوۃ سیرت پر عمدہ اور معتبر کتاب ہے،وہ اپنی نثری تصنیفات میں جا بجا اپنے فارسی اشعار کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو گیا کہ ’دیوان معین ‘ در اصل انھیں کا ہے۔مذکورہ محققین کی تحقیقات سے ’دیوان خواجہ قطب الدین بختیار کاکی‘کے بارے میں بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت کا نہیں ہے بلکہ حضرت کی طرف منسوب ہے،کیونکہ حضرت شاعر نہیں تھے یہ اور بات ہے کہ سماع کے دوران فارسی شعر سنا کرتے تھے یہاں تک کہ شیخ احمد جام کا ایک شعر سننے کے بعد حضرت کے دل میں پنہاں عشق حقیقی کی چنگاری بھڑک اٹھی جس کی تاب نہ لاکر ان پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ نماز کے اوقات کے علاوہ تین دن تک بیہوش رہے اور جب ہوش آتا تومرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے۔شیخ احمدجام کا وہ شعر یہ ہے         ؎

کشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں از غیب جان دیگراست

ترجمہ: تسلیم و رضا کی تلوار سے مارے گئے لوگ ہر لمحہ غیب سے ایک نئی زندگی پاتے ہیں۔یعنی مرتے ہیں،جیتے ہیں۔پھر مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔

پروفیسر نذیر احمد نے ’دیوان خواجہ قطب الدین بختیار کاکی‘ سے درجنوں اشعار نقل کر کے ان میں استعمال شدہ الفاظ،تراکیب اور ہیئت سے یہ ثابت کیا کہ خواجہ قطب کے عہد کی فارسی شاعری دیوان میں مستعمل طرز و اسلوب کی نہیں ہوتی تھی ساتھ ہی اس کے بیشمار اشعار ایسے ہیں جن سے حافظ شیرازی کی اثر پذیری ظاہر ہوتی ہے جبکہ حافظ شیرازی کا عہد خواجہ قطب کے بعد کا ہے۔ پروفیسر مذکور نے تو یہاں تک ثابت کیا ہے کہ دیوان مذکور کی شاعری بارہویں صدی ہجری کی ہے،اسی زمانے میں کسی قطب الدین نامی شخص نے حافظ شیرازی کا دیوان سامنے رکھ کر شاعر ی کی ہے،دیوان قطب میں موجود اشعار کے معانی ومفاہیم نیز تراکیب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے حافظ سے کافی استفادہ کیا ہے لیکن وہ حافظ کے شاعرانہ درجۂ کمال تک نہیں پہنچ سکا ہے بلکہ وہ اپنے کمزور اسلوب سے اس سے بہت نیچے نظر آتا ہے، شاعری میں صوفیانہ مضامین ضرور ہیں لیکن جس درجے کی مضمون آفرینی اور معنی خیزی عرفان وتصوف کے راہرو شاعر کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے وہ دیوان قطب میں عنقا ہے، اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواجہ قطب جیسے بحر معرفت کے غواص اگرشاعری کرتے تو فارسی کی صوفیانہ شاعری میں بڑے بڑے قدآور شعرا سے بہت آگے نظر آتے۔

ہم نے یہاں پر دیوان خواجہ قطب کے حوالے سے اتنی وضاحت اس لیے کردی ہے کہ چونکہ مشائخ دہلی میںخواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کا رتبہ بہت ہی عالی ہے،دہلی میں سلسلہ چشتیہ کے تمام مشائخ کے شیخ ہیں اگر ہم ان کی شاعری کو اپنے مضمون کا حصہ نہ بنائیں تو یہ نہ صرف یہ کہ علمی خیانت ہوگی بلکہ اپنی حرماں نصیبی بھی ہوگی،چونکہ وہ شاعر نہیں تھے اس لیے ان کی طرف منسوب دیوان سے اشعار اخذ کرکے لکھنا تحقیقی دیانت کے خلاف ہوگا،البتہ جب اس دیوان کے اصل شاعر کا پتہ چل جائے گا تب یہ سوال ہوگا کہ وہ مشائخ دہلی سے تھے یا نہیں۔یہاں پر ہم دہلی کے عظیم شاعر طوطی ہند حضرت امیر خسرودہلوی، حضرت مرزا مظہر جان جاناں اور حضرت خواجہ میر درد کی فارسی شاعری پر گفتگو کریں گے۔

امیر خسرودہلوی

حضرت امیر خسرو(پیدائش 651ھ مطابق 1253 وفات 17 ؍شوال725ھ مطابق25دسمبر 1325) گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے،جن کا نام فارسی شاعری میں بڑے ادب سے لیا جاتا ہے،ساتھ ہی اردو ادب میںانھیں بانیان اردو کی پہلی صف میں شمار کیا جاتا ہے، آپ حضرت نظام الدین اولیا کے تربیت یافتہ ہیں، آپ کی تحریروں میں عرفان وتصوف،سماجی رواداری، اخوت ومحبت،حب الوطنی اور ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کی جھلک صاف طور سے دکھائی دیتی ہے۔عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ اصحاب تصوف کو فقط خانقاہ اور پیری مریدی سے ہی مطلب ہوتا ہے،وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوتے ہیں،ان کو علم وادب اورسماج وسیاست سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا لیکن جب ہم خانقاہ نظامیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں عوام کی مذکورہ غلط فہمی کے پیچھے اہل علم کی وہ تساہلی کارفرما دکھائی دیتی ہے جس کے سبب انھوںنے ہمارے مشائخ کے علمی وادبی، سیاسی وسماجی اور رفاہی کاموں پر پڑے پردے کو ہٹانے کی کوشش نہیں کی اور وہ جلسوں میں ان کی سنی سنائی کرامات بیان کر کے عوام سے داد وصول کر کے یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کا قرض چکا دیا،جبکہ خانقاہ نظامیہ کی علمی،ادبی،فنی اور سماجی خدمات کے اثرات ملک کے طول و عرض میں عیاں طور پہ دیکھے جا سکتے ہیں،حضرت امیر خسرو خانقاہ نظامیہ ہی کی روحانی خدمت کا نتیجہ ہیں، جن کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ خانقاہ وہ جگہ ہوا کرتی تھی جہاں نہ صرف یہ کہ مذہبی،سماجی اور اخلاقی تربیت ہوتی تھی بلکہ وہاں ایسے افراد پیدا کیے جاتے تھے جو زبان وادب، شعروسخن،تحقیق وتدوین،تنقید وتنقیح اور فنون لطیفہ کے ایسے ماہر ہوتے تھے جوخود راہ حق پہ ہوتے ہوئے سماج کو بھی حق کی راہ دکھاتے تھے۔

خسرو چونکہ حضرت نظام الدین اولیا کی خانقاہ سے وابستہ تھے اس لیے ان کی شاعری میں مذہبی رنگ واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے، ساتھ ہی ان کی رسائی شاہی درباروں تک بھی تھی جس کے نتیجے میں انھوں نے بادشاہوں اورشہزادوں کی مدح میں چند قصائد بھی کہے۔ ان کی شاہی دربار تک رسائی کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بزرگوار امیر سیف الدین محمود شمسی بادشاہ شمس الدین التمش کے دربار میں بلند رتبے پر فائز تھے۔امیر خسرو کی شاعری میں جس قدر عرفان وتصوف اور عشق مجازی کے ضمن میں عشق حقیقی کا بیان ہے اگر ان تمام تفصیلات کو بیان کیا جائے تو ایک مستقل کتاب ہو جائے گی۔ہم یہاں پر اس مختصر سے مقالے میں ان کی غزلوں سے چند اشعار پیش کر کے ان کی فارسی شاعری کی ہلکی جھلک پیش کرنا چاہتے ہیں،چند اشعار ہدیۂ ناظرین ہیں،ملا حظہ ہو!       ؎

ابر می بارد من می شوم ازیار جدا

چون کنم دل بہ چنین روز زدلدار جدا

ابروباران ومن ویار ستادہ بوداع

من جدا گریہ کنان ابر جدا یار جدا

سبزہ نوخیز وہوا خرم وبستان سرسبز

بلبل روی سیہ ماندہ زگلزار جدا

ای مرا در تہہ ہر موی ززلفت بندی

چہ کنی بند زبندم ہمہ یک بار جدا

ترجمہ:جس دن میں اور میرادل یار سے جدا ہوتا ہے بادل خوب برستاہے۔پھر تو بادل،بارش،میں اور یار الوداع کہتے ہوئے اٹھتے ہیں اور میں ایک طرف روتا ہوں،بادل دوسری طرف روتا ہے اور یار کسی اور طرف روتا ہے۔گلشن سرسبزہو،نئی نئی گھاس اُگی ہو اور ہوا خوش وخرم چلتی ہو پھر بھی گلزار سے جدا ہوتے وقت بلبل روسیاہ ہوجاتا ہے۔ میرے محبوب !تم نے مجھے اپنی زلف کے ایک ایک بال کی تہہ میں باندھ رکھا ہے،جب ایک بار مجھے جدا کردوگے تو میری بند کے بجائے کیا باندھوگے؟

امیر خسرو کے درج بالا فارسی غزلیہ اشعار کے مضامین دیکھیے اور عش عش کیجیے۔خسرو کی غزل میں عشق مجازی کی تہہ میں عشق حقیقی کی جلوہ سامانی پنہاں ہے۔وہ اپنے محبوب سے جدا ہو کر رہنا نہیں چاہتے،جدائی کی صورت میں اپنی اشک باری کا ذکر کرتے ہوئے اس منظر کی عکاسی کرتے ہیں جس میں گلشن کے سرسبز ہونے کے باوجود محبوب کی جدائی کے سبب ان کے عشق کا بلبل افسردہ وروسیاہ ہے۔خسرو اپنے محبوب سے یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ جب تم نے مجھے اپنی زلفوں سے باندھ لیا تو اچانک مجھ سے کیوں جدا ہوتے ہو؟۔ظاہر ہے اشعار میں مذکور محبوب ان کے مرشد ہی ہیں، چونکہ اہل اللہ سے عشق، محبت الٰہی کی دلیل ہے اس لیے اس عشق مجازی کو عشق حقیقی تک متعدی مانا جا سکتا ہے۔خسرو کی غزل سے چند شعر اور دیکھیں!       ؎

مست ترا بہ ہیچ مئے احتیاج نیست

رنج مرا زہیچ طبیبی علاج نیست

ای مہ مشو مقابل چشمم کہ بارخش

مارا بہ ہیچ وجہ بتو احتیاج نیست

بامن مگو حکایت جمشید وافسرش

خاک درسرای مغان کم زتاج نیست

بادوست عرض حاجت خود چند می کنی

اوواقف ست حاجت چندین لجاج نیست

ترجمہ:تیرے مست کو کسی شراب کی حاجت نہیں، میرے مرض کو کسی طبیب کے علاج کی ضرورت نہیں۔ اے چاند!تو میری نظروں کے سامنے مت آ کہ مجھے اس(یار) کے چہرے کے مقابلے میں تیری کوئی ضرورت نہیں۔لوگو!میرے سامنے جمشید اور اس کے وزرا کے قصے مت بیان کرو کہ میرے یار کے در کی مٹی تاج سے کچھ کم نہیں۔اپنی حاجت دوست کے سامنے پیش کروکہ وہ واقف ہے کہ اس میں کوئی عداوت یا کینہ نہیں ہے۔)

درج بالا اشعارمیں خسرو نے محبوب کی بارگاہ میں خود سپردگی ظاہر کرتے ہوئے محبوب کے علاوہ ہر چیز سے پہلو تہی اختیار کی ہے، محبوب کی نگاہ التفات کے علاوہ ہرجام سے بے نیازی کا اظہار کیا ہے اور اپنا سب کچھ محبوب کو قرار دیتے ہوئے محبوب کی گرد راہ کو تاج سر سے بہتر قرار دیا ہے،ان کے عاشقانہ مزاج کو فقط محبوب کا ذکر وفکر ہی راس آتا ہے اس لیے انھیں بادشاہ جمشید اور اس کے وزرا کی حکایات سننا گوارہ نہیں،جبکہ انھوں نے خود بادشاہوں وشہزادوں کی مدح میں قصائد کہے ہیں،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خسرو قصیدہ نگاری کو فقط منہ کا ذائقہ بدلنے یا شاہی مراعات کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں،ورنہ ان کی روح کی غذا تو عشق حقیقی ہے جس کے بیان سے پورا دیوان بھرا پڑا ہے،یہی وجہ ہے کہ دیوان کامل میں غزلیات کے مقابلے میں قصائد بہت ہی کم ہیں،ان میں بھی حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی کلام ہیں۔خسرو اپنی زندگی میں شاہی درباروں  سے بھی منسلک رہے یہاں تک کہ انھیں اور ان کے رفیق ہمدم حسن سجزی دہلوی کو سلطان محمد خان شہید ابن بادشاہ غیاث الدین بلبن اپنے ساتھ ملتان لے گیا تھا اور خسرو کو مصحف بردار جبکہ حسن کو دوات بردار کے عہدے پر فائز کیا تھا جہاں دونوں صاحب پانچ سال رہ کر دہلی واپس آئے تھے۔شاہی دربار میں اتنی قدر ومنزلت کے باوجود خسرو کے اندر خانقاہی ومذہبی رنگ شاہی رنگ پر غالب رہا اور انھوں نے اپنی شاعری میں قصیدہ حسب ضرورت کہہ کر اپنی طبیعت کے مطابق غزلوں میں اپنے روحانی جذبات کا خوب اظہار کیا۔قصائد کے باب میں خسرو نے حمد باری اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چند کلام کے علاوہ سلطان کیقباد، شہزادہ چھجو،سلطان جلال الدین، سلطان علاء الدین اور سلطان محمد شاہ کی مدح میں قصیدے کہے ہیں،جبکہ ایک کلام وعظ ونصیحت پرمشتمل کہا،ساتھ ہی ترکیب بند کلام میں شیخ نظام کی مدح میں ایک کلام کہا اور ایک ترکیب بند نعت بھی کہی ہے،البتہ نعت کا طرز واسلوب علیٰحدہ ہے۔

مرزا مظہر جان جاناں

مرزا مظہر جان جاناں خانوادۂ چشت کے ایسے چشم وچراغ ہیں جنھوں نے قلت شعر گوئی کے باوجود اردو زبان وادب میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو قابل ستائش وتقلید ہے۔اردو ادب میں ان کی وہ خدمت جس کی وجہ سے انھیں میر وسودا جیسے شعرا کی صف میں شمار کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے زبان کی اصلاح کی اور انداز سخن کے نت نئے اسالیب ایجاد کیے جن کی بنیاد پر زبان سلیس اور شستہ ہو گئی۔ان کا تعلق بیجا پور کے شریف ترین گھرانے سے تھا،ان کے والد عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے 1111ھ میں جب عالمگیر نے دکن پر فوج کشی کررکھی تھی اسی اثنامیں ا ن کے والد نے عالمگیر کی نوکر ی چھوڑ دی اور دہلی کی طرف روانہ ہوگئے،جب وہ مالوہ علاقے کے کالا باغ میں پہنچے تو مظہر جان جاناں کی پیدائش ہوئی۔ اس زمانے میں جب امرا کے گھر بچے کی پیدائش ہوتی تو آئین سلطنت کے مطابق بچے کا نام خود بادشاہ طے کرتا تھا یا گھر والوں کے منتخب کردہ نام پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا تھا، اس رسمی آئین کے سبب بادشاہ وامرا کے درمیان تعلقات میں خوش گواری آتی اور امرا کے اندر جاں نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔مرزاکانام یوں رکھا گیا کہ بادشاہ عالمگیر نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے،چونکہ ان کے والد کانام مرزا جان تھا اس لیے ان کا نام جان جاناں رکھ دیا،اگرچہ ان کے والد نے ان کا نام شمس الدین رکھا تھا لیکن یہ نام بادشاہ کے رکھے ہوئے نام کے مقابلے میں مشہور نہ ہو سکا، مرزا نے اپنا تخلص’مظہر‘ خود ہی رکھا،اس طرح وہ دنیائے ادب میں مرزا مظہر جان جانان سے مشہور ہوئے۔ان کے والد کی طرح ان کے دادا بھی عالمگیر کے دربار میں منصب پر تھے جبکہ دادی عالمگیر کے وزیر اسدخاں کی خالہ زاد بہن اور پردادی اکبر بادشاہ کی بیٹی تھیں،اس طرح ان کا گھرانہ شاہی گھرانہ تھا۔سولہ سال کی عمر تھی کہ ان کے والد کا نتقال ہو گیا،تب سے تیس سال کی عمر تک خانقاہوں سے منسلک رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کرتے رہے۔انھیں مدرسوں اور خانقاہوں کی تعلیم وتربیت نے ہی تصوف کی طرف مائل کیا،جس کا اثر ان کی شاعری میں بھی جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے،ان کے یہاں بھی عشق مجازی کے ضمن میںعشق حقیقی کا بیان ملتا ہے۔ہم ذیل میں ان کی غزلوں سے چند اشعار پیش کرتے ہیں جو ان کی ماہرانہ واستادانہ صلاحیت پر غماز ہیں۔ملاحظہ فرمائیں!        ؎

آبرو پیش کسی نیست کف خاک مرا

شعلہ ہم از نظر انداختہ خاشاک مرا

قبلۂ مردم حرمان زدہ امروز منم

میکند یاس پرستش دل غمناک مرا

یک سر طُرّہ بدست من ویک در کف او

شانہ ا م زلف بود سینۂ صد چاک مرا

چون شود بزم سخن گرم توان دید بچشم

از چنین شمع صفت شعلۂ ادراک مرا

ترجمہ: میری آبرو کسی کے سامنے مشت خاک کے برابر بھی نہیں،نیز لوگ میرے تنکوں پر شعلۂ نظر بھی ڈالتے ہیں۔ آج میں نے حرماں نصیبوں کے قبلہ کو ٹھکرا دیا ہے کہ ناامیدی میرے غمزدہ دل کی پرستش کرتی ہے۔طرے کا ایک سرا میرے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں، میرا شانہ زلف ہوگیا(یعنی غم واندوہ بڑھ گیا) اور سینہ  سیکڑوں بار چاک ہوا۔ جب بزم سخن گرم ہوتی ہے تو آنکھوں  سے دیکھا جاسکتا ہے کہ میرا شعلۂ ادراک شمع کے مانند کیسے بھڑکتا ہے۔)

درج بالا اشعار میں مرزا مظہر جان جاناںنے عشق میں اپنی بیچارگی کااظہار کرتے ہوئے اپنی عملی بے مائیگی کو اشار ے کنائے میں بیان کیا ہے، جس کے لیے انھوں نے ایسی لطیف مضمون بندی کا سہارا لیا ہے جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں کے ستائے ہوئے ہیں اور اسی دست وگریبانی میں ان کا دل پارہ پارہ ہوا ہے، جبکہ شعر کے اندر ان کی تعلّی کا رنگ بھی ہے کہ وہ حرماں نصیبوں کے قبلے کو ٹھکرا کر اپنے غمزدہ دل کو ناامیدی کا قبلہ بنا بیٹھے ہیں۔آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بزم سخن گرم ہوتی ہے تو شاعر کا ادراک شمع کے مانند شعلہ زن ہوتا ہے،مظہر جان جاناں کے اس طرز بیان کو جتنی داد دیجیے کم ہے۔ دراصل وہ اپنے اشعار بالا میںشکوہ،تعلّی اور درد جیسے مختلف مضامین کو پیش کرتے ہیں لیکن انداز بیان اتنا اشاراتی ہے کہ اول مرحلے میں ذہن کا تبادر وہاں تک نہیں ہوتا ہے اس اعتبار سے مظہر جان جاناں کو بلا تأ مل استاد سخن کہا جا سکتا ہے۔ذیل میں ان کی ایک غزل سے چند شعر اور دیکھیے!

تا نفس باقیست چون نی نالہ سامانیم ما

زندہ تا ہستیم ہمچون شمع گریانیم ما

کردہ اند این شوخ چشمان نالۂ مارا خراب

سر بصحرا دادۂ شہر غزالانیم ما

بر نمی داریم دست از دامن دیوانگی

ہمچو گل لب تشنۂ خون گریبانیم ما

بررخ وچشم تر ما در مبند ای باغبان

بہر گل ابریم وبہر سبزہ بارانیم ما

نیستم آگاہ مظہر از فن آوارگی

ہمچو موی اہل ماتم نو پریشانیم ما

ترجمہ: جب تک سانس باقی ہے،ہم بانسری کی طرح (نالہ سامانی )دردوسوزکی صدائیں بلند کرتے رہیں گے، ہم جب تک زندہ ہیں شمع کی مانند پگھل پگھل کر روتے رہیں گے۔ان شوخ چشموں نے ہماری آہ وزاری کوبربادکردیا ہے،ہمارے شہر غزالاں (ہرنیوں کے شہر) نے ہماراسرصحرامیں ڈال دیا ہے۔ہم دیوانگی کے دامن سے ہاتھ نہیں جھاڑتے،کہ لب گل کے مانند ہمارے خون گریبان کا پیاساہے۔اے باغبان! ہمارے چہرہ و تر نگاہ پر دروازہ مت بند کر،کہ ہماری پلکیںگل کے لیے اور آنسوسبزہ کے لیے ہیں۔اے مظہر!میں آوارگی کے فن سے آگاہ نہیں،اس لیے اہل ماتم کی آہ وزاری کے مانند پریشان نہیں۔)

حضرت مظہر جان جاناں کے درج بالا اشعار پڑھنے کے بعد ان کے عشقیہ بیان میں مضمون آفرینی کی جودت کمال کا ادراک ہوتا ہے، وہ عشق میں اس طرح راسخ نظر آتے ہیں کہ ان کی ہر سانس عشق کی ضرب سے ہونے والے درد کا اظہار کرتی ہے،وہ محبوب کی شوخ چشمی کی شکایت یوں کرتے ہیں کہ اس نے ان کے شہر غزالاں کو صحرا میں ڈال کر ویران کردیا ہے،وہ دیوانگی کے دامن سے ہاتھ نہیں کھینچتے اس لیے کہ ان کالب گل کی طرح خون گریبان کا پیاسا ہے(یعنی سرخ ہوا چاہتی ہے)اور وہ باغباں سے یوں فریاد کناں ہیں کہ اے باغباں! میرے پژمردہ چہرے اور اشک برساتی آنکھ پر اپنا دروازہ بند نہ کر،کیونکہ میرابادل(آنکھ)گل کے واسطے اور میری بارش (آنسو)سبزہ کے واسطے ہے۔اخیر میں خود سے مخاطب ہو کر کہتے ہیںکہ اے مظہر!میں آوارگی کے فن سے آگاہ نہیں ہوں اور نہ ہی اہل ماتم کی طرح پریشان ہوں۔مظہر جان جاناں کی شاعری میں جہاں شکوۂ زمانہ ہے وہیں عشق کے لازمہ عاجزی،آہ وزاری،درد و سوز اور عشق میں دل کی ویرانی بھی ہے، ان کے اشعار پڑھتے جایئے اور ان کے مجازی عشق میں موجود وارفتگی کی کیفیت کا ملاحظہ کرتے جائیے! جو دراصل ان کے دل میں پوشیدہ عشق حقیقی کا آئینہ دار ہے۔رنج والم، دردوکسک اور عشق میں کامل رسوخ ان کے کلام کے لازمی اجزا ہیں جن کا احساس ہر قاری کو ہوتا ہے۔

خواجہ میردرد

اردو زبان وادب میں حضرت خواجہ میردرد کی شناخت ہی ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے بن چکی ہے، اس لیے ان کے مشائخ شعرا میں شمار کیے جانے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں،تاہم ان کے حالات زندگی کی مختصر تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

خواجہ میر درد (پیدائش 1133ھ۔ وفات 24 ؍ صفر 1199ھ مطابق 1720) کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا، آپ نجیب الطرفین سید تھے جن کا سلسلۂ نسب والد کی طرف سے حضرت بہاء الدین نقش بند سے اور ماں کی طرف سے غوث اعظم سید شاہ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے،ان کے نانا میر سید محمدحسینی قادری بن نواب میر احمد خان نے ان کا نام ’خواجہ میر‘ رکھا تھا،درد نے خود اپنا تخلص ’درد‘ اپنے والد خواجہ محمد ناصر کے تخلص ’عندلیب‘ کی مناسبت سے رکھا،جبکہ ان کے والد نے اپنا تخلص ’عندلیب‘ اپنے پیر حضرت سعداللہ گلشن کی مناسبت سے رکھا اور سعداللہ گلشن نے بھی اپنا تخلص’گلشن‘اپنے پیر ’عبدالاحد گل وحدت‘ کی مناسبت سے رکھاتھا۔درد نے اپنا تخلص رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنے مشائخ کے تخلص کا خوبصورت بیان اپنے اس شعر میں کیا ہے۔

درد از بس عندلیب گلشن وحدت شدست

جلوۂ روی گل او را غزل خوان می کند

ترجمہ :درد تو بس حضرت عبدالاحد گل وحدت کے مرید حضرت سعداللہ گلشن،بلکہ سعداللہ گلشن کے مریدخواجہ محمد ناصر المتلخص بہ عندلیب سے نسبت رکھتا ہے،اسی کے رخِ گل کا جلوہ غزل خوانی کرتا ہے۔

درد نے درج بالا شعرکے مصرع اول کو اس طرح باندھا ہے کہ ان کے،ان کے والد،ان کے والد کے پیر اور ان کے والد کے پیر کے پیر کے تخلص کا ذکرعلی الترتیب درد،عندلیب، گلشن اور وحدت ہوگیا اور ساتھ ہی سارے تخلص کی ترتیب سے ایک خوبصورت معنی بھی پیدا ہوگیا ہے جس کا براہ راست معرفت وتصوف سے تعلق ہے،اسی سے دردکی شاعرانہ مہارت کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔درد جس دور میں پیدا ہوئے،وہ فتنہ وفساد کا زمانہ تھا،سلطنت مغلیہ روبہ زوال تھی،دہلی میں ایسی کس مپرسی کا عالم تھا کہ لوگ دہلی چھوڑ کر بھاگ رہے تھے،ایسے عالم میں درد اپنے استقلال اور خدا پر توکل کے سبب دہلی میں ہی جمے رہے،اہل مملکت اور صاحب ثروت وامارت سے ان کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ ایک بار انھوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو بہت سخت جواب دیا تھا،ان کے والد بھی صاحب کشف بزرگ تھے جو اپنے زمانے میں برپا شیعہ سنی اختلافات اور بیجا تکرار سے بیحد پریشان تھے،انھوں نے خلق خدا میں بیجا اختلافات کے رفع کے لیے خدا کی بارگاہ میں التجائیں کیں یہاں تک کہ ایک مرتبہ وہ اپنے حجرے میں سات دن اور سات رات بغیر کھائے پیئے عالم سکوت میں بند رہے،اس دوران میر درد دروازے پر سر رکھے روتے رہے،جب ان کے والد مکرم عالم سکوت سے باہر آئے تو درد کو دروازے پر سر رکھے روتا دیکھا چنانچہ انھوں نے میردرد کو گلے لگایا اور فرمایا کہ اے فرزند مبارک ہو کہ حضرت علی اور امام حسن کی روحوں کا نزول ہوا تھا،انھوں نے مجھے مخلوق کے درمیان اختلاف کو رفع کرنے کے لیے طریق محمدیہ کی اشاعت کا حکم دیا ہے،دوران گفتگو میں نے حضرت امام حسن سے عرض کیا تھا کہ اس تبلیغی سلسلے کا نام ’طریق حسن ‘رکھوں،لیکن انھوں نے مجھے منع فرمایا اور کہا کہ ہم سب غلام محمد ہیں اور ہمارا سلوک سلوک محمد ہے اس لیے اس کانام ’طریق محمدیہ‘ رکھو۔ چنانچہ درد کے والد کی محنت سے لوگ جوق در جوق طریق محمدیہ میں داخل ہونے لگے اور وہ محمدی کہلائے،جن میں سب سے پہلا محمدی خود درد ہیں۔طریق محمدیہ میں قرآن وسنت کی پیروی پر زور دیا جاتا تھا،اس تبلیغی مشن سے لوگوں کے درمیان اختلافات ختم ہونے لگے،درد اس طریق سے لوگوں کو تصوف اور سلوک کی اس منزل تک پہونچانا چاہتے تھے جہاں پہنچ کر سالک کے دل میں خدا کی یاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔درد خود ساقی جام وحدت تھے جس کا اثر ان کی شاعری میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔درد بہت کم عمر سے ہی تصنیفی کام انجام دینے لگے تھے، چنانچہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں اعتکاف کی حالت میں ’رسالہ اسرار الصلوٰۃ‘ لکھا، انتیس سال کی عمر میں ’واردات درد‘ نامی رسالہ لکھا، پھر اس کی شرح ’علم الکتاب‘ کے نام سے کی جس میں ایک سو گیارہ رسالے ہیں۔اس کے علاوہ ’نالۂ درد‘، ’آہ سرد‘، ’درددل‘، ’سوزدل‘ اور ’شمع محفل‘ جیسے معرکۃ الآرا رسالے تحریر کیے،جو دنیا ئے تصوف میں بڑے ادب کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔اس مختصر سے سوانحی خاکے کے بعد اب ہم ذیل میں درد کی غزلوں سے چند اشعار پیش کرنا چاہتے ہیں،تاکہ ان کی شاعرانہ مہارت کی ہلکی معرفت ہو سکے۔ان کے دیوان کی پہلی غزل کے دو ابتدائی شعر دیکھیں!

زبس فیض سخن روشن کند ہرجا بیانم را

سزدبرسر دہم جاشمع سان عضو زبانم را

چنان درمن تجلی کردہ حسن بی نشان او

ہما عنقا شود بیشک خورد گر استخوانم را

ترجمہ:بس فیض سخن میرے بیان کو روشن کرتا ہے، نیز وہ سرپر شمع کے مانند زیب دیتا ہے جہاں میں عضو زبان  دیتا ہوں۔مجھ میں اس کے بے نشان حسن نے ایسی تجلی کی ہے کہ اگر ہُما میری ہڈی کھالے تووہ بیشک عنقا ہوجائے۔

درد اپنے مذکورہ اشعار میں اپنے فیض سخن کا بیان جا بجا کرنا چاہتے ہیں،جس کے لیے وہ اپنے جسم کے ہر عضو کو زبان عطا کردینا چاہتے ہیں،جیسا کہ اس ذات بے نشان کے حسن لازوال نے ان کی ذات میں جلوہ افروزی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تجلی محبوب کی وجہ سے میں اس قدر بابرکت ہو گیا ہوں کہ اگر میری ہڈیا ںہما کھالے تو وہ عنقا ہو جائے۔ درد کو اپنے بافیض عشق میں جو کامل رسوخ حاصل ہو چکا تھا اس کا بیان وہ خودمذکورہ مجازی پیرائے میں کرتے ہیں،جسے تحدیث نعمت بھی کہا جاسکتا ہے نیز ان کا عشق بھی ان سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ محبوب کے ذکر میں وہ اپنے جسم کے سارے اعضا کو زبان بناکر عشق کا خراج پیش کریں،درد کو یہ افکار ان کے والد کے مشن ’طریق محمدیہ‘ کی پیروی واشاعت میں ملے ہیں۔آگے یوں کہتے ہیں         ؎

جوش زبادۂ توحید بمیخانۂ ما

بحر داردبکُرہ قطرۂ پیمانہ را

بیخودی پردہ کشای حرم دل باشد

بستہ احرام رہش لغزش مستانۂ ما

ترجمہ:میرے میخانے میں توحید کے جام سے جوش اٹھتا ہے،میرے پیمانے کا قطرہ روئے زمین پر سمندر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیخودی دل کے حرم سے پردہ ہٹائے دیتی ہے،میری مستانہ لغزش(لڑکھڑاہٹ)اس کی راہ میں احرام باندھے ہوئے ہے۔

درد جام عشق وعرفان کے ایسے میخوار ہیں کہ ان کے میخانے میں نہ صرف یہ کہ جام وحدت چھلک رہا ہے بلکہ ان کے پیمانۂ عشق کا قطرہ اپنے اندر سمندر کو سموئے ہوئے ہے،عشق میں ان کی بیخودی نے دل کا پردہ اٹھا دیا ہے،جبکہ ان کے مستانہ قدموں کی لڑکھڑاہٹ ایسی ہے جو محبوب کا احرام باندھے ہوئے ہے۔درد نے اپنے شعروں کو اپنے پوشیدہ درد کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے جو اندرون دل جوش زن ہے، آگے کے چند شعر اور دیکھیں!         ؎

رنگ ہستی بہار جان وتن ست

چمن آرای باغ ما ومن ست

ازحدوث وقدم مپرس اینجا

نوشدن نیز عادت کہن ست

ترجمہ:ہستی کا رنگ،جان وبدن کی بہار ہے جس نے میرے اور ہمارے چمن کو سجا رکھا ہے۔یہاں جدت وقدامت کے بارے میں مت پوچھ کہ نیا ہونا بھی پرانی عادت ہے۔

درد نے درج بالاشعروں میں وجود کی ماہیت کی تعبیر باغ وبہار سے کی ہے نیز اس حقیقت کو بھی واضح کیا ہے کہ حدوث وقدم کا معنی اس جہان میں فقط اتنا ہے کہ پرانی شے کو نئی ہونے کی عادت ہو۔یہ مضامین درد کی دنیا سے بے رغبتی پر دال ہیں۔اب اخیر میں درد کے چند شعر اور دیکھیں!       ؎

تا گرہ از زلف وا آن رشک خوبان می کند

خاطر جمع جہانی را پریشان می کند

شورش عشق تو اینجاہر سحر با جیب صبح

پنجۂ خورشید را دست وگریبان می کند

موج حسن کیست اینجا سلسلہ جنبان اشک

چشمہ ہای چشم من امروز طوفان می کند

ترجمہ:وہ رشک خوباں جب تک اپنی زلف کی گرہ کھولے رکھتا ہے ایک جہان کی دل جمعی کو پریشان کردیتا ہے۔یہاں تیرے عشق کا شور وہنگامہ ہرروز وقت سحر میں صبح کے گریبان کے ساتھ پنجۂ خورشید کو دست گریباں کردیتا ہے۔یہاں موج حسن کیا ہے؟آنسوؤں کی زنجیر ہلانے والا ہے،آج میری آنکھوں کے چشمے پھوٹ کر طوفان برپاکیے ہوئے ہیں۔

درد نے اپنے درج بالا شعروں میں عشق مجازی کے ضمن میں عشق حقیقی کو بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔محبوب کی زلفوں کی گرہ کشائی سے دل پر ہونے والے حملے کا بڑے خوبصورت اسلوب میں بیان کیا ہے،عشق کی شورش کا عالم یہ ہے کہ وہ ہرصبح خورشید سے دست وگریباں ہوتی ہے،ساتھ ہی محبوب کے دیے ہوئے درد عشق نے آنکھوں سے اشکوں کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے اور آنکھوں سے نکلنے والے چشمۂ اشک نے طوفان برپا کررکھا ہے۔ درد کے مذکورہ شعروں میں چھپے مضامین سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ درد کا تخلص ان کی ذات وجذبات پر سو فی صد صادق آتا تھا۔

حواشی

  1.       دیوان کامل، امیر خسرو،باہتمام۔م درویش،انتشارات جاویدان،  تہران۔1343شمسی
  2.      دیوان حسن سجزی دہلوی،باہتمام۔مسعود علی محوی(علیگ)مکتبہ ابراہیمیہ مشین پریس،حیدرآباد،دکن۔1352ھ
  3.       دیوان فارسی حضرت خواجہ میر درد،حسب فرمائش مولانا سید نورالحسن،مطبع انصاری،دہلی۔1309ھ
  4. دردباقی دُرد ساقی،مرتب راجہ نرسنگھ راج بہادرخلف اکبر راجہ صاحب، سردار پریس،حویلی قدیم، حیدرآباد، دکن 1342 م  1332ف
  5.       دیوان مظہر جان جاناں،بفرمائش شیخ الٰہی بخش محمد جلال الدین۔ کشمیری بازار،لاہور،مطبع کانسی رام لاہور۔س ن
  6. تاریخ فیروز شاہی،مولانا ضیاء الدین برنی،(مقدمہ)سید عزیز الدین حسین،رضا لائبریری،رامپور۔1391 شمسی مطابق 1213
  7.       آب حیات،محمد حسین آزاد،کتابی دنیا،دہلی۔2008
  8.       تاریخ ادب اردو،(جلد دوم حصہ اول)جمیل جالبی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی 2011
  9.       بزم صوفیہ،سید صباح الدین عبدالرحمان،دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،یوپی 2011
  10. خسرو شناسی،ظ انصاری، ابولفیض سحر،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی 2010
  11.     امیر خسرو شخصیت افکاروخیالات وفکرو فن،شاہد مختار،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی 2009
  12.     فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ،ڈاکٹر محمد ریاض وڈاکٹر صدیق شبلی،بسمہ کتاب گھر،دہلی 2011

 

Ghulam Akhtar

Vill. Begampatti,P.O. Khaje Chand Chhapra

Dist. Vaishali- 844112 (Bihar)

Mobile No.9958602553

Emil ID gavaishalwi@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...