ہندوستانی معاشرے میں علم، تعلیم اور تعلیمی اداروں کی ایک فلسفیانہ اور سماجی تعبیر رہی ہے۔ لمبے عرصے تک ہندوستان میں تعلیم کو انسان کی تعمیر اور اس کی ترقی کا ذریعہ باور کیا جاتا رہا۔ مہاتما گاندھی نے آزادی سے قبل تعلیم کا جو نظریہ پیش کیا، جسے بعد میں مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، اس کے پیش نظر یہی تھا کہ انسان کی ترقی ہو کیونکہ انسان کی ترقی میں ہی سماج کی ترقی ہے۔ تعلیم کے اس تصور میں انسان کی ہمہ جہت ترقی کی بات کی گئی تھی، جس کا ووکیشنل ڈیولپمنٹ بھی ایک حصہ تھا۔ آزادی کے بعد ملک میں جو تعلیمی پالیسیاں بنیں، ان میں بھی اسی فلسفہ تعلیم کو پیش نظر رکھا گیا۔ مثال کے طور پر سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن ہو یا کوٹھاری کمیشن دونوں جہاں ایک جانب بہتر شہری کی تعمیر اور سماج کی ترقی پر فوکس کرتے ہے وہیں ووکیشنل ایجوکیشن کے فروغ کی بھی وکالت کرتے ہیں۔
البتہ
اس تصور میں بنیادی انقلاب اس وقت آیا جب 1991 میں Liberalisation کی پالیسی اختیار کی گئی، جس نے نج کاری کو تیزی سے فروغ دیا اور انسانی زندگی
پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ بازار میں مقابلہ آرائی شروع ہوئی، بیرون ممالک سے
کمپنیاں ہندوستان آئیں اور ہندوستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسے ملک کے طور پر ابھرا
جہاں بآسانی کم خدشات کے ساتھ
Investment کیا
جا سکتا تھا۔ اس پورے عمل نے تعلیمی نظام کو بری طرح متاثر کیا۔ نتیجتاً’بازار کی تعلیم‘ (Education of
Market) کے ساتھ ساتھ ’تعلیم
کا بازار‘(Market of
Education) بھی
وجود میں آیا۔ بڑی تعداد میں نجی تعلیمی ادارے شروع ہوئے اور بازار کی ضروریات کو
مد نظر رکھتے ہوئے اِسکل ڈیولپمنٹ کورسز اور پروفیشنل کورسز کی جانب رجحان بڑھا۔1
اس
کا نتیجہ آج نئی تعلیمی پالیسی میں صاف طور پر نظر آرہا ہے، جہاں ووکیشنل ایجوکیشن
کو اسکول ایجوکیشن سے جوڑنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اِسکل انڈیا مشن (SIM) جیسے پروگرام چلائے جا رہے ہیں،جن کا واحد مقصد
اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے طلبہ کو Industries کی ضروریات کے تحت ورک فورس میں تبدیل کر دینا
ہے۔ بازار، پورے تعلیمی نظام کا مرکز بن گیا ہے جس کے پیشِ نظر طلبہ بھی ایسے کورسز
کا انتخاب کر رہے ہیں جو روزگارسے جڑے ہوں۔طلبہ کی کثیر تعداد پروفیشنل اور ووکیشنل
کورسز کی جانب متوجہ نظر آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کورسز میں دیگر میدانوں کے بالمقابل
اندراج کی شرح بہت زیادہ ہے۔ان کورسز میں اندراج کی بہتات کے باعث بے تحاشہ مسابقت
پیدا ہوگئی ہے۔
ہمارا
ماننا ہے کہ اس پورے عمل میں سب سے زیادہ نقصان طلبہ کا ہوا۔ جس طرح تعلیم اپنی فلسفیانہ
اور سماجی تعبیر سے دورہوئی، اس نے طلبہ کی زندگی کو بہت منفی طور پر متاثر کیا ہے۔
اس مقابلہ آرائی کے ماحول میں جن طلبہ کی تعمیر ہو رہی ہے ان کی بڑی تعداد جس نفسیاتی
و ذہنی خلفشار میں بہت تیزی سے مبتلا ہورہی ہے
وہ ’اکیڈمک ڈسٹریس ‘ ہے۔ مختلف مطالعات
سے انکشاف ہوا ہے کہ اس مسئلے سے دوچار طلبہ کی کثیر تعداد ہائی اسکول، ٹیکنیکل کورسز اور مسابقتی امتحانات جیسے NEET اور JEE کے طلبہ کی ہے، بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ پروفیشنل
اور ووکیشنل ایجوکیشن حاصل کررہے طلبہ سب سے زیادہ تعلیمی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
مسئلے
کی حساسیت
طلبہ
کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، وہ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں کلیدی
کردار ادا کرتے ہیں۔تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پچھلے کافی وقت سے اِس نہایت قیمتی اثاثے
کو اکیڈمک ڈسٹریس کی دیمک کھوکھلا کررہی ہے۔جن طلبہ سے کسی خاندان کا، سماج اور ملک
کا حال اور مستقبل وابستہ ہے وہ ذہنی و نفسیاتی خلفشار میں مبتلا ہیں۔ 2021 میں یونیسیف
کے ذریعے انجام دیے گئے سروے کے مطابق، ہندوستان میں 15 سے 24 سال کے درمیان ہر سات
میں سے ایک نوجوان کی مینٹل ہیلتھ متاثر پائی گئی ہے جن میں ڈپریشن، اضطراب یا عدم
دلچسپی کے احساسات نمایاں طور پر نوٹ کیے گئے ہیں۔ 2 حد تو یہ ہے کہ سال 2020 اور 21 میں طلبہ کی خود
کشی کے حادثات کسانوں کی خودکشی کے اعداد وشمار سے بھی بڑھ گئے ہیں۔3 نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے مطابق 2020 میں، ہر
42 منٹ میں ایک طالب علم نے اپنی جان لی۔یعنی ہر روز 34 سے زائد طلبہ خودکشی کرکے ہلاک
ہوئے۔4 عالمی سطح پر پچھلی کئی دہائیوں سے نفسیاتی مسائل میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا
ہے بالخصوص کووڈ-19 وبا کے بعد۔عالمی ادارۂ صحت(WHO) کی رپورٹ کے مطابق کووڈ-19 کی وجہ سے دنیا بھر
میں اضطراب (Anxiety) اور ڈپریشن میں بالترتیب 26 فیصد اور28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔5
طلبہ
میں تیزی سے بڑھتا خودکشی کا رجحان اکیڈمک ڈسٹریس کی انتہا ہے۔ ایمائل ڈرکھائم جو ایک
فرانسیسی ماہرِ سماجیات ہیں، ان کے مطابق خودکشی میں حد سے زیادہ اضافہ سماج میں پائے
جانے والے انتشار اور اجتماعی ضمیر کی کمزور ہوتی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ خودکشی
کے تناسب میں حددرجہ تیزی ڈرکھائم کے مطابق ایک ’اَیب نارمل‘ ہوتی صورت حال کا مظہر ہے۔6 جو معاشرے کو کمزور
اور کھوکھلا کرنے والی قوتوں کے متحرک و مضبوط بننے کی علامت ہے، یہ صورت حال ہمارے
سماج کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
عموماً
سماج اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کسی مسئلے یا بحران کے سنگین نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔لیکن
وہ ان مراحل کو نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے جن سے گزر کر کسی مسئلے یا بحران کے سنگین
نتا ئج ظاہر ہوتے ہیں۔ چونکہ اکیڈمک ڈسٹریس کا سنگین انجام خودکشی ہے اس لیے اس پر
شائع ہونے والی خبریں اور رپورٹس موضوعِ بحث بنتی ہیں۔ لیکن خودکشی سے پہلے کے وہ بہت
سے مراحل جو کسی طالب علم کو ذہنی ونفسیاتی خلفشار میں مبتلا کرتے ہیں نیز وہ متعدد
کیفیات جن سے ایک طالب علم دوچار رہتا ہے، سماج ان کا نوٹس تک نہیں لیتا چہ جائے کہ
ان کے تدارک کی کوشش کی جائے۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اکیڈمک ڈسٹریس کے باعث
پیدا ہونے والے مسائل، دشواریوں اور کیفیات کا جائزہ لیا جائے، ڈسٹریس کی مختلف نوعیتوں کو سمجھا جائے اور اسی
طرح ڈسٹریس کے اسباب وذرائع کا نوٹس لیا جائے جو بظاہر معمولی ہی نظر آتے ہوں لیکن
ایک طالب علم کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔اس مضمون میں فیلڈ اسٹڈی اور لٹریچر
کے ذریعے سامنے آنے والے چند اہم نتائج و مباحث کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
طلبہ
تعلیمی تناؤ کے زیرِ اثر
اِس
مسابقتی دنیا میں، طلبہ کو مختلف تعلیمی مسائل و رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو
ان کے لیے نفسیاتی الجھنوں کا سبب بنتے ہیں۔ جن میں امتحان کا تناؤ،ناکامی کے امکان
کا خوف، کلاس میں شرکت کی عدم دلچسپی اور کسی مضمون کو نہ سمجھ پانا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ تعلیمی تناؤ طلبہ کے اردگرد کے ماحول میں بہت سی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے: اسکول
میں، گھر میں، ان کے دوستانہ تعلقات میں اور یہاں تک کہ ان کے پڑوس میں۔اکیڈمک ڈسٹریس
یا تعلیمی تناؤ میں وہ تما م متحرکات
(Triggers) شامل
ہیں جو طلبہ کے لیے کسی نہ کسی درجے میں ٹینشن کا سبب بنتے ہیں، ان محرکات کو 'Stressors' کہا جاتا ہے۔ یہ محرکات شخصی،غیر شخصی،سماجی،
صحت، ماحول کسی سے بھی متعلق ہوسکتے ہیں جو تعلیمی اداروں میں کسی طالب علم کی تعلیمی
ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ اگر اس بے لگام اکیڈمک ڈسٹریس پر قابو نہ پایا جائے
تو پھراس کے سنگین اثرات نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی صحت پر مرتب ہوسکتے ہیں۔7 مختصر
الفاظ میں تعلیمی تناؤ سے مراد وہ نفسیاتی کیفیت ہے جوکسی تعلیمی ماحول میں بیرونی
طورپر یا خود مسلط کردہ تناؤ سے پیدا ہوتی ہے، جو ایک طالب علم کی تعلیمی کارکردگی
میں تنزلی کا باعث بنتی ہے۔تنزلی سے آگے بڑھ کر بعض ماہرین
اکیڈمک اسٹریس کو
Career stopper کے طور پر بھی پیش کرتے ہے۔8
تناؤ
کی نفسیاتی تفہیم
جیسا
کہ ہم جانتے ہیں Stress طبیعیات
کی معروف اصطلاح ہے۔ نفسیات میں باقاعدہ سب سے پہلے 1936 میں ہنس سیلیے نے اِس اصطلاح
کو متعارف کروایا تھا۔ان کے مطابق ’’تبدیلی کے کسی بھی مطالبے پر جسم کا غیر مخصوص
ردعمل‘‘ تناؤ کہلاتا ہے۔ 9 ویسے ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر
تناؤ سے جوجھ رہا ہوتا ہے۔ درحقیقت تناؤ نفسیاتی یا اعصابی بوجھ یا بے چینی کا ایک
احساس ہے جو طویل وقت کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور قلیل وقت کے لیے بھی۔
تناؤ
قلیل وقت یا طویل وقت کے لیے محسوس ہوسکتا ہے۔قلیل وقت کے لیے محسوس ہونے والا تناؤ Acute Stressکہلاتا ہے جس پر فکر مندی کی ضرورت نہیں ہے،
بلکہ یہ ہماری کارکردگی میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ جو عموماً سستی، کاہلی اور
بے زاری سے جان چھڑواکر ہمیں متحرک بناسکتا ہے۔اِس مثبت تناؤ کے لیے 'Eustress' کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔مثبت تناؤ اس وقت
رو نما ہوتا ہے جب کوئی شخص تناؤ والے عناصر کو مثبت سمجھے۔ جب کہ طویل وقت کے لیے
محسوس ہونے والے تناؤ کو Chronic Stress کہتے ہیں، جو جسمانی
و نفسیاتی لحاظ سے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔اِس منفی تناؤ کے لیے 'Distress' کی اصطلاح
بھی استعمال کی جاتی ہے۔ایسے میں جب ہم تعلیمی
تناؤ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد طویل
مدتی تناؤ ہے، جو نوعیت کے لحاظ سے منفی ثابت ہوتا ہے۔
تناؤ
کا سماجیاتی رُخ
جس
طرح تناؤ کا ایک نفسیاتی پہلو ہے ویسے ہی
اس کا سماجیاتی رخ بھی ہے،ہماری اس اسٹڈی میں اسی سماجیاتی رخ کو اجاگر کرنے کی کوشش
کی گئی ہے۔ سماجیاتی رخ دراصل اس بات کو واضح کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح
سماجی عوامل اور سماجی ڈھانچہ افراد اور برادریوں کے اندر تناؤ کے تجربے، مظاہر اور
نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا گیا
ہے:
*تناؤ کے
سماجی ڈٹرمیننٹس: سماجی نقطہ نظر اس بات پر زور دیتا ہے کہ تناؤ صرف ایک فرد کا داخلی
تجربہ نہیں ہے بلکہ اس کی تشکیل
Social Determinants سے ہوتی ہے۔ جس میں سماجی و اقتصادی حیثیت، جنس، نسل، پیشہ
وغیرہ شامل ہیں۔ عدم مساوات، امتیازی سلوک اور سماجی محرومی پسماندہ گروہوں میں تناؤ
کی سطح میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔10
*سوشل اسٹریسرس:
سماجیاتی تحقیق افراد کے تناؤ کی سطح پر سوشل اسٹریسرس کے اثرات کو نمایاں کرتی ہے۔
ان اسٹریسرس میں بے روزگاری، غربت، غیر مستحکم رہائش، امتیازی سلوک، اِردگِرد میں تشدد،
خاندانی تنازعات اور سماجی اکیلا پن(Isolationsocial) شامل ہو سکتے ہے۔
*
سماجی
معاونت: تناؤ کے منفی اثرات کم کرنے میں سوشل سپورٹ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مضبوط
سماجی سپورٹ سسٹم افراد کو تناؤ سے نمٹنے اور ابھرنے کی قوت (Resilience) بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔
*سماج کاری
اور سماجی تعلیم: سماجیاتی اپروچ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح افراد سماج کاری
کے عمل کے ذریعے تناؤ کے ردعمل کو سیکھتے اور Internalize بناتے ہیں۔ خاندانوں، برادریوں، اور وسیع تر
سماجی ڈھانچے کے اندر سماج کاری افراد کی تناؤ سے متعلق سمجھ اور اسے مؤثر طریقے
سے مینیج کرنے کی صلاحیت پروان چڑھاتی ہے۔11
*
سماجی
کردار اور توقعات: بحیثیتِ والدین،بحیثیتِ کارکن، یا بحیثیتِ طالب علم جو بھی کردارہم
ادا کرتے ہیں ان کے ساتھ متعدد ذمے داریاں اور مطالبات بھی وابستہ ہوتے ہیں جو تناؤ
کا باعث بن سکتے ہیں۔ صنفی کردار اور ثقافتی حدبندیاں بھی تناؤ کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔12
*
ساختی
تناؤ: سماجیاتی نقطۂ نظر اس بات کا بھی جائزہ لیتا ہے کہ کس طرح سماجی ڈھانچے اور
ادارے ساختی تناؤ میں حصہ ڈالتے ہیں۔ معاشی عدم مساوات، بے روزگاری کی شرح، ناکافی
ہیلتھ کیئرسسٹم، اور تعلیمی تفاوت جیسے عوامل افراد اور طبقات کے لیے دائمی تناؤ (Chronic stress) پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ساختی تناؤ اکثر فرد
کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں اوران میں نظام کی تبدیلی کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت
پیش آتی ہے۔13
تعلیمی
تناؤ کے ذرائع و عوامل
طلبہ
کی تعلیمی کارکردگی پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو دو حصوں میں درجہ بند کیا جاسکتا
ہے۔ایک اندرونی عوامل اور دوسرے بیرونی عوامل۔
اندرونی
عوامل:اندرونی عوامل کو ذاتی عوامل بھی کہا جاتا ہے اور ان عوامل کا تعلق فرد کے اندرون
سے ہوتا ہے۔ ہماری فیلڈ اسٹڈی سے اکیڈمک ڈسٹریس کے5 ذاتی عوامل سامنے آئے ہیں جو درج
ذیل ہیں:
(1) ناکامی کا خوف: امتحان سے متعلق خوف
عموماً طلبہ میں پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاری کررہے طلبہ
میں یہ خوف بہت زیادہ ہوتا ہے، اس خوف کی بڑی وجہ مختلف خدشات ہوتے ہیں کہ اگر مطلوبہ
نتائج حاصل نہ کیے تو تیاری میں لگایا گیا طویل وقت، محنت اور سرمایہ سب کچھ ضائع ہو سکتا ہے۔
(2) باہمی مشکلات: طلبہ کو تعلیمی مصروفیات
کے باعث دوسروں کے ساتھ تعامل اور تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عموماً
طلبہ کوچنگ کی مصروفیت کے باعث سماج سے
isolateہونے
لگتے ہیں۔ امتحان کی تیاری کا پریشر اور وقت کے تقاضے خاندان، دوستوں، یا پڑوسیوں کے
ساتھ اکثر محدود سماجی تعاملات اور کشیدہ تعلقات کا باعث بن جاتے ہیں وہ اس مصروفیت
میں سوشلائز نہیں ہوپاتے۔
(3) ٹائم مینجمنٹ کی کمی: چونکہ عموماً ٹیکنیکل
اور پروفیشنل کورسز میں سیمسٹر پیٹرن ہوتا
ہے، جس کی وجہ سے کم مدت ہی میں نصاب مکمل ہونے سے پہلے امتحان سرپرآکھڑا ہوتا
ہے۔عموماً طلبہ مشکل مضامین کے لیے کوچنگ جوائن کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ایسے میں ان
پر ایک جانب نصاب کا دباؤ ہوتا ہے وہیں وہ اسکول یا کالج اور کوچنگ کے درمیان جوجھتے
ہیں اور ذاتی مطالعے کے لیے وقت فارغ نہیں کر پاتے۔ اس میں مزید مصیبت موبائل اور سوشل
میڈیا پیدا کردیتا ہے، جس کے باعث طلبہ عدم توجہی کا شکار بن جاتے ہیں۔
(4) ہائی اسٹڈی لوڈ: طلبہ کو طویل نصاب اور
امتحان کی مسابقتی نوعیت کی وجہ سے اکثر بہت زیادہ اسٹڈی لوڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نصاب
وسیع ہوتا ہے، وقت ہوتا ہے، ایسے میں طلبہ
تیاری اور مسلسل مشق کے لیے وقت فارغ نہیں کرپاتے اور پڑھائی کے لوڈ سے دوچار ہوجاتے
ہیں۔
(5) تیاری کی کمی: اس سے مراد امتحان کے
لیے ناکافی تیاری یا ناکافی مطالعہ ہے۔یہ مسئلہ اصل سبب نہیں ہے بلکہ یہ دوسرے عوامل
سے پیدا ہونے والا مسئلہ ہے۔ ٹائم مینجمنٹ کی کمی، اسٹڈی کا معمول(Routine) بنانے میں
کوتاہی، اسٹڈی کی غیرموثر تکنیک یا امتحان فارمیٹ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تیاری متاثر
ہوسکتی ہے۔ ناکافی تیاری کی وجہ سے اعتماد کی سطح کم ہوتی ہے جس کا راست اثر امتحان
میں کارکردگی پر ہوتا ہے۔
ہماری
فیلڈ اسٹڈی میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان مسائل کی ایک بڑی وجہ مسلم طلبہ کا کریئر سے
متعلق کمزور فیصلہ ہے۔مسلم طلبہ میں کریئر کاونسلنگ کا رجحان شاذ و نادر ہی پایا جاتا
ہے۔ ان میں کریئر کے حوالے سے مقصدیت کا فقدان نظر آیا۔ بعض طلبہ خوابوں کی دنیا ہی
سے باہر نہیں آپاتے تو بعض بس سماج کی خدمت کا خیالی مقصد لے کراس گھماسان میں اتر
جاتے ہیں۔
عموماً
انڈرگریجویٹس عمرکے لحاظ سے کم پختہ ہوتے ہیں اور نفسیاتی لحاظ سے حساس بھی،ایسے میں
اس کچی عمر میں وہ بہ آسانی اکیڈمک ڈسٹریس کا سافٹ ٹارگیٹ بن جاتے ہیں۔ عموماً پختہ
عمر میں تناؤ کو مینیج کرنے کی کچھ اہلیت پروان چڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے تناؤ تعلیمی
عمل میں مثبت کردار بھی ادا کرسکتا ہے، یااگر مثبت نہ صحیح تو کم از کم اس قدر منفی
تو نہیں ثابت ہوسکتا ہے۔فیلڈ اسٹڈی میں سامنے آیا ہے کہ اکیڈمک ڈسٹریس کی وجہ سے نصف
سے زائد طلبہ کی ذہنی صحت، مزاج اور رویے میں تبدیلی، روز مرہ کے معمولات حتی کہ ان
کی جسمانی صحت تک منفی طور پر متاثر ہوئی ہے۔
عمر
کے اس نازک و اہم موڑ پر طلبہ کو سماجی سپورٹ کی سخت ضرورت پیش آتی ہیں۔ مختلف طلبہ
سے گفتگو کے دوران یہ بھی واضح ہوا کہ وہ ان مسائل کو والدین سے اس بنا پر شیئر نہیں
کرپاتے کہ والدین ان جدید مسائل کی زیادہ سمجھ نہیں رکھتے اس لیے وہ ان معاملات میں
کوئی تعاون نہیں کرپاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو بھی ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ
اِن نفسیاتی مسائل میں اپنے بچوں کو کس طرح سپورٹ فراہم کریں۔
بیرونی
عوامل: یہ عوامل فرد کی ذات سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ فرد کے اردگرد موجود ہوتے ہیں۔ہماری
فیلڈ اسٹڈی سے اکیڈمک ڈسٹریس کے 4 بیرونی عوامل سامنے آئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1)
والدین
کی توقعات اور پریشر: والدین کی توقعات بچوں کے لیے ایک اہم محرک ثابت ہوتی ہیں۔ والدین
کااپنے بچوں سے امیدیں وابستہ کرنا کوئی غیر فطری عمل نہیں ہے چونکہ وہ ان کے بہتر
مستقبل کے لیے فکر مند ہوتے ہیں اور اس مہنگی تعلیم کے دور میں اپنا قسمتی سرمایہ بھی
خرچ کرتے ہیں اس لیے وہ بہتر نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔لیکن جب والدین حد سے زیادہ دخل
اندازی (Overinvolvement) کرنے لگتے ہیں اور
غیر حقیقی توقعات وابستہ کرنے لگتے ہیں تب بچوں کے لیے مصیبت کا باعث بنتے ہیں۔ بعض
والدین جبراً اپنی خواہشات کو بچوں پر تھوپتے ہیں اور ان کی پسند اور دلچسپی کا لحاظ
رکھے بغیر ان کے کریئر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے اپنی
استعداد اور زمانے کی ضروریات کا خیال رکھے بغیر کریئر متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں
ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اعتماد میں لے کر انہیں صحیح رہنمائی
کریں۔ فیلڈ اسٹڈی سے معلوم ہوا کہ طلبہ کی اکثریت کے مطابق بیرونی عوامل میں سب سے
زیادہ تعلیمی تناؤ کا سبب والدین کی توقعات اور پریشر ہے۔
(2) اسٹڈی کی ناکافی سہولت:کمزور معاشی پس
منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مطابق دوسرا بڑا بیرونی عامل اسٹڈی کی ناکافی سہولیات
ہے۔یہ ناکافی سہولیات طلبہ کی پڑھائی میں رکاوٹ بنتی ہیں جس کے باعث ان کی کارکردگی
متاثر ہوتی ہے۔ ناکافی سہولیات جیسے اسٹڈی کے لیے معیاری مواد یانصابی کتب کا فقدان،
یا آن لائن وسائل تک رسائی کی کمی طلبہ کی بڑے پیمانے پر نصاب کا احاطہ کرنے کی صلاحیت
کو محدود کر سکتی ہے۔ مزید برآں، اسٹڈی کے لیے مناسب و پرسکون ماحول کی دستیابی نہایت
ضروری ہے۔ان سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے طلبہ کو ارتکاز اور فوکس کا مسئلہ پیش
آتاہے۔
(3) پسندیدگی اور تعصب:عموماً پسندیدگی (Favouritism) کا مسئلہ اسکولی سطح پر زیادہ پیش آتا ہے۔بعض
اساتذہ امتحان میں نمبر دینے، حوصلہ افزائی کرنے اور مواقع فراہم کرنے میں جانبداری
سے کام لیتے ہیں۔جس کی وجہ سے دیگر طلبہ میں ناانصافی اور احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے۔ جس کا راست اثر ان کی ذہنی صحت اور
تعلیمی کارکردگی پر پڑتا ہے۔اسی طرح تعصب یا امتیازی سلوک (Discrimination) ان اداروں یا کوچنگ سینٹرز پر پیش آسکتا ہے
جہاں مختلف مذاہب یا ذاتوں کے طلبہ پڑھائی کرتے ہوں۔ امتیازی سلوک راست طور پر کریئر
کے امکانات کو متاثر کرسکتا ہے۔پسندیدگی اور امتیازی سلوک کی وجہ سے کلاس روم کا ماحول
متاثر ہوتا ہے جہاں محروم طلبہ گھٹن اور خود کو خارج یا حاشیے پر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
جب طالب علم اور استاد کے درمیان تعلق آلودہ ہوجائیں تو نقصان کسی اور کا نہیں صرف طالب علم کا ہوتا ہے اور یوں اس کی ہمہ جہت تنزلی
کا باعث بنتا ہیں۔
(4) حکومت کی ذمے داری: ہم دیکھتے ہیں کہ
نولبرل ازم کے عروج نے نوجوانوں کو اپنے ’خوابوں کی نوکری یاکریئر‘ سے محرومی یا ناکامی
کے لیے خود کو موردِ الزام ٹھہرانے پر مجبور کیا ہے جبکہ اس معاملے میں ذاتی مسائل و کمزوریوں سے ہٹ کر ایک مرکزی وجہ ساختی
نظام ہے۔ 14 حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مواقع کی فراہمی کو یقینی بنائے۔لیکن حکومت
اس معاملے میں کوتاہ ثابت ہوئی ہے، اس حوالے سے صرف ایک مثال پیش ہے؛ اندراج کے لحاظ
سے نیٹ ہندوستان کا سب سے بڑا مسابقتی امتحان بن چکا ہے۔ امسال 20لاکھ 38ہزارطلبہ نے
نیٹ امتحان دیا تھا۔ جن میں سے 11 لاکھ 45 ہزار کولیفائے ہوئے۔ 15پورے ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری تمام میڈیکل کالجز
میں صرف 1لاکھ 70 ہزار
Seats ہیں۔16
صرف سرسری نگاہ ہی سے دیکھا جائے تو یہ
Seatsکل
کولیفائے کرنے والے طلبہ کا صرف 15 فیصد ہے۔ یعنی کل کولیفائے کرنے والے طلبہ میں سے
صرف 15 فیصد ہی کے لیے حکومت
Seat مہیا
کراسکتی ہے، کولیفائے کرنے والے بقیہ 9لاکھ 75 ہزار طلبہ Repeat کرنے یا اخراج کرنے یا تعلیم چھوڑنے کے علاوہ
کچھ نہیں کرسکتے ان کے پاس اس کے علاوہ کو ئی آپشن نہیں ہوتا۔
ان
کے علاوہ بھی کئی اور اندورنی و بیرونی عوامل
ہوسکتے ہیں لیکن مطالعات سے سامنے آنے والے یہ چند نمایاں عوامل ہیں جو عموماً طلبہ
کی بڑی تعداد کو متاثر کرتے ہیں اور ان میں اکیڈمک ڈسٹریس کے اہم عامل کے طور پر کردار
ادا کرتے ہیں۔
حوالہ
جات
- مقالہ: مارکیٹائزیشن آف ہائر ایجوکیشن، الیکس پی جوسیف، جرنل آف ایمرجنگ ٹیکنالوجیز (jetir.org)، اگست 2018
- رپورٹ:یونیسیف، دی اسٹیٹ آف دی ورلڈز چلڈرن، 2021
- رپورٹ:این سی آر بی، ایکسیڈینٹل ڈیٹھس اینڈ سوسائیڈز اِن انڈیا،2020-21، ص203-04
- رپورٹ: این سی آربی،2020-21
- روپرٹ: مینٹل ہیلتھ اینڈ کووڈ19، ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)،مارچ 2022
- کتاب: کلاسیکی سماجیاتی نظریات از ڈاکٹر سہید میو
- مقالہ:ریویو’ اکیڈمک اسٹریس امنگ فیکلٹی اینڈ اسٹوڈنٹس اِن ہائرانسٹی ٹیوشن‘، جرنل آف ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسیز، اگست 2020، ص1055-1064
- مقالہ: اسٹریسرس آف اکیڈمک اسٹریس، انڈین جرنل آف سائنٹفک ریسرچ، 3(1)،2012، ص 171تا175
- کتاب:Stress without Distress از ہنس سیلیے (Hans Selye)، 1974، ص 27
- مقالہ: اسٹریس امنگ سینئرسیکنڈری اسکول اسٹوڈنٹس اینڈاِٹ ڈٹرمیننٹس، انٹرنیشنل جرنل آف ایپلائیڈ ریسرچ، 2021(7)، ص401تا406
- آنلائن پلیٹفارم:کورا (quora.com)، ڈینیلّا پورٹ مین (Daniella Portman)،26اپریل 2023
- مقالہ:دِی سوشولوجیکل اسٹڈی آف اسٹریس، لیونارڈ پیئرلائن، جرنل آف ہیلتھ، ستمبر1989، ص 241 تا256
- ایضاً
- مضمون:اکیڈمک اسٹریس اینڈ اسٹوڈنٹس سْوسائیڈز اِن انڈیا، دی وائر، جون 2022
- نیوز پورٹل: 48 % Increase in qualifiers in NEET UG 2023، دی ٹائمس آف انڈیا، جون 2023
- آنلائن پلیٹ فارم: ایم بی بی ایس سیٹس اِن انڈیا، ویدانتو، جولائی 2023
- ڈِیسینٹ ورک فَور یوتھ اِن انڈیا، انٹرنیشنل
لَیبر آرگنائزیشن (ilo.org)
Syed Aasim Suhail
Dept of Sociology,
Maulana Azad National Urdu
University
Hyderabad- (Telangana)
Mob.: 9730407510
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں