حنیف نقوی کا شماراردو کے نامور محققین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے،لیکن میدان تحقیق ان کا سب سے پسندیدہ میدان رہا، اردو کے کلاسیکی ادب پر ان کی مضبوط پکڑ تھی، تذکرہ نگاری کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے، اردو کے اس میدان میں عملی کاوشیں کرنے والے محققین کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں،ان میں یہ اپنے امتیاز سے بلندی کے ایسے درجے پر فائز ہیں جس تک پہنچنا ہر کہ و مہ کے بس کی بات نہیں۔
تذکرہ نگاری کے میدان
میں ان کی روش تحقیق سب سے جدا اور نرالی رہی،کیوں کہ تذکرہ نگاری سے دلچسپی ہونے کے
باعث انھوں نے اس کی اہمیت و افادیت کو جس احسن طریقے سے ثابت کیا ہے وہ انھیں کا حصہ
ہے۔ تذکراتی ادب سے کلاسیکی ادب کا جو رشتہ ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کلاسیکی ادب
کی بہت سی گتھیاں انھیں تذکروں کے ذریعے سلجھتی ہیں، اگر ان کے نقوش اولیں نہ ہوں،
تو راہ میں ظلمت ہی ظلمت ہے۔لیکن پتا نہیں کہ ادبا کے سامنے ایسے کون سے عوامل تھے؟
جن کی وجہ سے یہ علمی ورثہ ان کی توجہ سے محروم رہا اور محرومیت کے بادل بھی اس قدر
طویل تھے کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے،بھلا
ہو ان گنے چنے افراد کا جنھوں نے اپنے قرطاس و قلم کے ذریعے انھیں ایک نئی زندگی عطا کر کے ان میں
پوشیدہ نظریات، رجحانات وتحریکات، سیاسی اثرات، ادبی چاشنی، تنازعات،لفظی مباحث،محاوراتی
رچ رچاؤ اور رنگا رنگی کو ہمارے سامنے پیش کیا،ان تذکروں میں شاعری کے ایسے گلشن آباد
ہیں،جن کی نظیر ان کے علاوہ کہیں دوسری جگہ نہیں ملتی،مزید یہ بات بھی مسلم الثبوت
ہے کہ تنقید کے اولین سرچشمے انھیں تذکروں
سے پھوٹتے ہیں۔ تنقید نے انھیں کے سہارے چلنا سیکھا،ماضی میں اس کا انداز کیسا تھا؟ناقدین
کا طریقہ کار کیا رہا؟تنقید کی نوعیت کیا تھی؟ زبان کے رنگ وآہنگ، شعر و ادب،زبان اور مسائل زبان،
زبان کی پیدائش، جیسے گراں قدر مسائل پر بھی،ان تذکروں ہی سے روشنی پڑتی ہے۔یہ تذکرے
کلاسیکی روایت کے تسلسل کے امین اور اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ روایت عہد شباب تک کن
کن مراحل سے ہوکر گزری۔کن ادبا نے اس کو اپنی گود میں پال پوس کر بڑا کیا، اگر یہ نہ
ہوتے، تو ہم بہت سے شعرا و ادبا سے محروم ہوجاتے،جن کے نام ونشان کی حفاظت کی ذمے داری
ان تذکروں نے برداشت کی، تذکرے ہمیں ایسی پر خطر وادیوں سے سلامتی کے ساتھ گذرنے کا
ہنر بھی سکھاتے ہیں،جن میں ان کے سوا کوئی اور چراغ راہ ہے ہی نہیں، وہاں تہ در تہ
تاریکی ہے، اگر تھوڑی بہت روشنی کی کہیں سے آس ہے،تو یہی صنف ہے۔ فی زمانہ اگرچہ ان
کا رواج نہیں ہے۔ لیکن ان کے بغیر ادبی،اور مشرقی روایت کو سمجھنا نہایت مشکل ہے۔
حنیف نقوی فارسی اور
عربی کے اچھے اسکالر تھے۔ ان کے مطالعے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے نقوی ان تمام
سے لیس تھے۔ اسی لیے انھوں نے اس کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی، اور اس پر پڑی بے
اعتنائی کی چادروں کو اس کے سر سے ہٹانے کی جد و جہد کی،جس وقت ان کا یہ قابل قدر کارنامہ
منظر عام پر آیا سبھی نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لے کر اس کی توصیف کی،رشید حسن جیسا ناقد
بھی داد تحسین سے اپنے آپ کو نہ روک سکا۔
’’میں نے اس تحقیقی مقالہ کو اول سے آخر تک پڑھا آپ نے جس لگن سے مسالا اکٹھا کیا ہے وہ قابل داد ہے اور جس دیدہ ریزی سے اسے مرتب کیا ہے وہ مستحق تحسین و آفرین ہے۔‘‘ــــ
(تذکرے اور تبصرے، ص 6)
’’گیان جند جین جیسا سخت گیر ناقد بھی ان کے طرز کا دیوانہ ہوگیا،آپ کا ذوق تحقیق دیکھ کر نہایت مسرت ہوتی ہے۔‘‘
(ایضاً، ص 6)
حنیف نقوی کا طریقہ
کار بالکل صاف انداز کا ہے اور اسی کے تحت انھوں نے اس کاوش کو پیش کیا ہے۔ جن ادبا
و شعرا کے حالات زندگی یا ان کی تصانیف باآسانی دستیاب ہوجاتی ہیں تو وہ ان کی تاریخ
وفات بیان کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن اگر اس میں ادبا کے درمیان اختلاف ہو
تو محاکمہ کرتے ہوئے اس کے سبھی پہلووں کو بیان کرتے ہیں۔
’’میر تقی میر متوفی 1225ھ/1810 نے فارسی نثر میں تین کتابیں نکات الشعراء،ذکر میر،فیض میر اپنی یادگار چھوڑیں ہیں۔ان میں سے جو شہرت و مقبولیت ’نکات الشعرا‘ کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسری کتاب کو حاصل نہیں۔‘‘
( شعرائے اردو کے تذکرے، ص 179)
یہ تو رہانکات الشعراکے
خالق اور ان کی نثری کتب کا تعارف،لیکن ابھی اس میں نکات کے نسخ کے بارے میں کچھ بھی
پتا نہیں چل رہا ہے۔اس کے سبھی نسخوں کا تعارف بھی بڑے اچھے انداز سے اس بیان کا حصہ
ہے۔ اس کی اشاعت کب، کہاں سے ہوئی؟کس نے اس
پر مقدمہ لکھا؟یہ سب ابتدائی معلومات درج کی ہے ملاحظہ کریں۔
’’شعراے اردو کا یہ تذکرہ انجمن ترقی اردو،
ہند اورنگ آباد سے دو مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔
پہلا ایڈیشن 1922میں
نواب صدر یار جنگ حبیب الرحمن خان شیروانی کے مقدمے کے ساتھ نظامی پریس بدایوں سے شائع
ہوا تھا۔
دوسرا ایڈیشن 1935
میں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ترتیب دیا جس کی طباعت غالباانجمن کے ذاتی پریس میں
عمل میں آئی۔
تیسرا ایڈیشن 1972میں ڈاکٹر محمود الٰہی صدر شعبہ اردو گورکھپور یونیورسٹی نے مرتب کر کے شائع کیا ہے یہ ایڈیشن پیرس کے قومی کتب خانے کے خطی نسخے پر مبنی ہے جو ’بندر سورت‘ میں نقل کیا گیا ہے اور چہار شنبہ 17 ماہ شوال 1178 ھ 10 اپریل 1765 کو مکمل ہوا‘‘
(ایضاً، ص 180)
اس کے علاوہ اور بھی
خطی نسخوں کا تعارف اور کیفیات کا ذکر کیا ہے نسخہ کس کے ہاتھ کا لکھا ہے اس میں ترقیمہ
ہے کہ نہیں، یہ ناقص الاول ہے یا ناقص الآخر مذہب ومطلی ہے اگر ہے تو کس انداز کی
روشنائی اور ورق کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے نسخے ہندوستان میں کہاں کہاں دستیاب ہیں وغیرہ۔
حنیف نقوی کی استخراجی
صلاحیت کا ملکہ زبردست ترقی پذیر تھا جس کے دم پر وہ نتائج کا استنباط کرکے اپنے معاصرین
پر فوقیت رکھتے ہیں ان کی تحقیقی حس بڑی بیدار
ہے صحیح وسقیم کو وہ بڑی جلدی پہچان لیتے ہیں۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے مخزن نکات
کو نکات الشعراء پر فوقیت دی ہے۔اس کے علاوہ نثار احمد فاروقی کا موقف یہ ہے کہ نکات
الشعراء کی ترتیب کے وقت مخزن نکات ان کے پیش نظر تھا اس کی بہت سی دلیلیں انھوں نے
پیش کی ہیں۔ ان سب ادلہ کو بالترتیب ردکرکے
خارجی اور داخلی شہادتیں پیش کرکے مخزن نکات پر نکات کی اولیت کو ثابت کیاہے اور اپنے
موقف کے خلاف جتنے بھی ممکنہ پہلو ہیں ان کا احاطہ کرکے اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا
ہے لکھتے ہیں:
’’یہ امر طے شدہ ہے کہ گردیزی نے میر کے تذکرے سے پوری فراخ دلی کے ساتھ کسب فیض کیا ہے حتی کہ انھوں نے شاہ حاتم کا ایک شعر اس ترمیم شدہ شکل میں اپنے ہاں نقل کرلیا ہے جو میر نے اصل شعر کا مصرع اول بدل کر متعین کی تھی۔‘‘ (تذکرے اور تبصرے36)
اس کے علاوہ استفادہ
پر ایک قوی دلیل قائم کرتے ہیں اور اس بات کو مضبوط بناتے ہیں کہ میر نے مخزن نکات
سے استفادہ نہیں کیا بلکہ قائم نے استفادہ کیا ہے اور خوب کیا ہے اس کے بارے میں لکھتے
ہیں:
’’ میر محمد یار خاکسار اور آفتاب رائے رسوا کے منتخب کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نکات الشعراء سے ماخوذ ہے میر صاحب نے خاکسار کے بارہ اور رسوا کے چار شعر انتخاب کیے ہیں۔ قائم نے ان میں سے خاکسار کا صرف ایک شعر حذف کیا ہے باقی تمام اشعار بعینہ نکات الشعرا کی ترتیب کے مطابق نقل کردیے ہیں۔ رسوا کے نمونہ کلام کی صورت یہ ہے کہ میر کے انتخاب کردہ چوتھے شعر کو قائم نے دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔باقی تین اشعار میں کوئی الٹ پھیر نہیں کیاہے ان دونوں مثالوں سے نکات الشعرا کی اولیت ومرکزیت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے قائم نے یقینا اس سے خوشہ چینی کی ہے اور یہ اس دور کی روایت کے عین مطابق ہے۔‘‘
(ایضاً، ص 37)
ان کی تذکراتی تحقیق
کی یہ خوبی بھی ہے کہ یہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ترک نہیں کرتے،وہیں مختلف نسخوں کو
دیکھے بغیر کوئی رائے بھی قائم نہیں کرتے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تمام کتب کا احاطہ
کرکے نیز مسئلے کو ہر پہلو سے جانچ کر ہی اس کو لکھتے ہیں اس کے بعد یہ املا، نسخوں
کی کیفیت،تصحیح و تصحیف،تحریف متن، سقوط جمل، فساد معنی پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے تحقیق
وتدوین کے اصول کے ساتھ مرتبین ومدونین پر بھی جامع اورمعلوماتی انداز کے تبصرے کرتے
ہیں جن کے لیے سر کھپانا پڑتا ہے۔ اگر ترتیب
متن کا معیار بلند ہوتا ہے تو اسے سراہتے ہیں اگر اس میں کوئی خامی ہوتی ہے تو اسے
ضرور بیان کرتے ہیں۔تدوین متن تو ویسے بھی بڑا مشکل فن ہے اس کو پورے طور پر نبھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ڈاکٹر اقتدا
حسن نے جو نسخہ مرتب کیا ہے اس میں اغلاط کی بھر مار ہے۔ اس نسخے اور مولوی عبد الحق
کے مرتب کردہ نسخے کو پیش نظر رکھ کر اختلافات کو حواشی میں درج کیا ہے۔اقتدا حسن اور
مولوی عبدالحق دونوں کے مرتبہ متن تدوین کے معیار پر پورا نہیں اترتے،اقتدا حسن پر
تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اشاعت ثانی مرتبہ ڈاکٹر اقتدا حسن کا متن بھی تدوین کے متوقع معیار کے مطابق تحقیق و تصحیح کی شرائط پوری نہیں کرتا۔‘‘ (ایضاً، ص 39)
یہ تبصرہ اسی وقت کیا
جاسکتا ہے جب مبصر دونوں نسخوں کا مطالعہ کرے
ورنہ اتنا ٹھوس تبصرہ بغیر مطالعے کے نہیں کیا جاسکتا۔اس تبصرے کی شان کتنی اونچی اور
گہری ہے وہ اس میدان کے شہسواروں پر واضح ہے یہ تحکم اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے کلی لوازمات پر گہری
نظر ہو ورنہ لہجے میں اس قدر پختگی پیدا نہیں
ہوتی۔یہ حک وصک کے بعد تجرباتی بھٹی میں تپ کر ہی یقین میں تبدیل ہوتا ہے اس کے لیے
خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے۔
تصحیح متن کی ایک اور
مثال پیش کرتا ہوں تاکہ ان کی گہری نظر پر وہ شاہد ہوسکے۔اور ان کی تحقیقی کاوش اجاگر
ہوسکے جہاں اکثر وبیشتر محققین کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں وہاں پر سلامت روی سے گذرجانا
ان کا طرۂ امتیاز ہے۔
’’در زینت
المساجد کہ کنار دریا ئے(جمن) چوں از تعمیر زینت النسابیگم است مسکن خود قرار دادہ۔‘‘
) ایضاً، ص 40)
اس عبارت پر گرفت کرتے
ہوئے رقم طراز ہیں کہ چوں اصلا جمن کی ہی مسخ شدہ شکل ہے جو کہ غور وفکر کی متقاضی
تھی لیکن مرتب متن نے پتا نہیں کیوں اس پر
غور وفکر نہیں کی؟ اور اس فحش غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ یہ تن آسانی اور دماغ سوزی
سے دوری اور کم نظری کی دلیل ہے جس پر انھوں نے تنبیہ کی۔ ان کی بزم تذکرہ نگاری میں
انفرادیت کے ایسے بہت سے گل بوٹے سجے ہیں ان
کو آشکار کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تذکرہ نگار کے تعارف
کے بعد اصل موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ اگر تذکرہ نگارمعروف نہیں ہے تو اس کے وطن اور
تلمذ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کی سیرت وسوانح سے بحث کرتے ہیں اور اس کی سوانح حیات
کن کتب میں موجود ہے اس کی جانب بھی توجہ دیتے ہیں۔دکنی مصنفین کی کتب اور ان کا تعارف
بھی پیش کرتے ہیں لیکن کتب کا تعارف کم یاب ہے اگر کوئی خوبی ایسی ہے کہ جس
کا ذکر ناگزیر ہے تو اسے بھی کشادہ روئی سے ذکر کرتے ہیں یہ طریقہ کار اس وقت اور بھی
شدت اختیار کرجاتا ہے جب تذکرے یا مخطوطہ کا تعلق دکن سے ہو۔یہ اس لیے بھی ہوتا ہے
کہ دکنی مخطوطات میں اشکال حروف کے امتیازکو لے کر بڑے ابہامات ہیں۔ مثال کے طورپر
دو چشمی ھا اور ہائے لٹکن دکنی مخطوطات میں امتیاز نہیں رکھتی دھڑلے سے اس کے لیے دو
چشمی ھا کا استعمال ہوتا ہے اس ابہام کے رفع کے لیے بھی انھوں نے اس طریقہ کار کو اپنایا
ہے۔
’’چمنستان شعرا دکنی تذکروں میں حسن ترتیب، جامعیت اور ادبی
معیار کے لحاظ سے چمنستان شعرا کا سر فہرست ہے اس کے مؤلف لچھمی نرائن شفیق بڑے باصلاحیت
اورذی علم انسان تھے اورنگ آبادجیسے گہوارہ علم ادب سے وطنی وابستگی اور علامہ آزاد
بلگرامی کے فیضان تربیت کی بدولت ان کی شخصیت کے جوہر نکھرے اور کم عمری ہی میں شعر
و ادب نیزتصنیف وتالیف سے ان طبعی دلچسپیاں بام عروج تک پہنچ گئیں۔‘‘
(شعرائے اردو کے تذکر ے، ص217)
شفیق کی تنقیدی صلاحیتیوں
پر بھی نقوی نے کھل کر داد تحسین پیش کی ہے اور ان کے نپے تلے انداز کو
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بیان کیا ہے اور ان کے ساتھ ادبی انصاف کیا ہے کہیں بھی ان کی
پسند دخیل نہیں ہے۔ دیانت داری رواداری کا ایسا نمونہ پیش کیا ہے جو شخص بھی بغیر کسی
تعصب کے اس کا مطالعہ کرے گا وہ ان سب خوبیوں پر مطلع ہوجائے گا، شفیق کی تنقیدی بصیرت
کے اظہار واعلان کے لیے انھوں نے تین مثالیں پیش کی ہیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ دعویٰ
انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ہے ناکہ الفت ومحبت کے پیش نظر یہ باتیں
کہی گئیں ہیں۔
’’چمنستان شعرا میں ابتدائی دور کی عام روایات کے بر خلاف تنقیدی مواد بھی خاصی مقدار میں موجود ہے شفیق نے کلام کے متعلق عام طور پر جن الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شاعری کے لیے معانی تازہ ومضامین بیگانہ کی تلاش اورمتانت وخیال اور شیرینیِ مقال کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور ان فن پاروں کو لائق تحسین خیال کرتے ہیں جو پڑھنے اور سننے والوں کے لیے انشراح طبیعت کا سامان فراہم کرسکیں بہ الفاظ دیگر ان کے نزدیک کوئی شخص اس وقت تک ایک کامیاب شاعر کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک اس کے کلام میں متذکرہ خوبیاں موجود نہ ہوں۔‘‘
(ایضاً، ص 218)
مرتب تذکرہ کسی خاص
فن سے لگاؤ رکھتا ہے تو اس کی جھلکیاں اس کے کام میں نظر آتی ہیں ان کو بھی انھوں
نے بیان کرکے ان مقامات کی نشان دہی کی ہے اور جن تذکروں میں سوانح نگاری کے ساتھ سنین
اور حالات زمانہ کی رعایت برتی گئی ہے اور اس سے اس عہد کی ادبی اور سیاسی تاریخ پر
کچھ انفعالی اثرات مرتب ہوئے ہیں تو ان سب کو بھی عمدہ انداز سے نقوی نے ذکر کیا ہے۔
ان کی تنقید میں جماؤ،گیرائی، سلیقہ مندی، اظہار کے پیرایے سبھی درمیانہ ہیں کہیں بھی
کسی کے دباؤ میں نظر نہیں آتے، کسی پر آنکھ موند کر بھروسہ نہیں کرتے، تن آسانی
ان کے قریب سے نہیں گذری جدو جہد محنت ومشقت کی چکی میں اپنے آپ کو پیستے ہیں اور
اس قدر پیستے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ
جاتا ہے۔ کیوں کہ اس قدر انہماک، شدت اور کام کی لگن ان کے سوا کم یاب ہے جس کے تصور
سے ہی اچھے اچھے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔لیکن ان کی دھن نے ان کے لیے آسانیاں
پیدا کی ہیں۔
تقابلی مطالعہ کرتے
وقت بہت سے تاریخی واقعات کی اسناد اور اس کی صحت و سقامت کو بڑے اچھے انداز سے بیان
کرتے ہیں۔ تذکروں کی اس خامی پر تنبیہ کرتے ہوئے اس کے مخرج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے
یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ صحیح یہ ہے یہ غلط
بیانی یا انتساب اس عہد میں اس مقام سے تذکروں میں در آئی اور اس کی صحت کا مآخذ
یہ ہے۔ تذکرے میں کلام کا انتخاب کس نوعیت کا ہے غزلیں، قصیدہ یا اس کے علاوہ کسی اور
صنف سے اس کا تعلق ہے وہ ان سب پر روشنی ڈالتے
ہیں۔ تذکرے میں غالب رجحان کیا ہے،یہ تذکرہ دوسرے تذکروں سے کن وجوہات سے مختلف ہے۔
اخیر میں جب وہ تبصرہ کرتے ہیں تو اس مجموعے کی پوری خوبیاں خوش اسلوبی سے بتاتے ہیں
اور اس کے ساتھ ہی اس کی خامیوں کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں جس سے قاری کے دماغ میں اس
کا ایک خاکہ مرتب ہوجاتا ہے۔ اس کی ادبی اہمیت کیا ہے؟ اور اگر اس کی اہمیت ہے تو کن
عناصر کی وجہ سے ہے اور ادبیت کس درجے کی ہے اور اس کی ادبیت مجروح ہوئی ہے تو کیوں
مجروح ہوئی ہے؟ وہ کون سے عناصر ترکیبی ہیں جو اس کی ادبی اہمیت کو گھٹا رہے ہیں ان
سب پر روشنی ڈالتے ہیں۔
’’آخر میں قائم کے بعض ایسے بیانات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا
ہے جو غلط فہمی اور حقائق سے بے خبری پر مبنی ہیں اور ہمارے لیے قابل قبول نہیں مثلاً
سعدی کے ذکر سے طبقہ اول کا آغاز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اتفاق جمہور بر آنست
کہ چوں حضرت شیخ سعدی شیرازی در ہنگام سیاحت بہ طرف گجرات تشریف آوردند بی سبب مجاورت
سومنات چناں کہ در نسخہ بوستاں مذکور است بہ زبان ایں دیار وقوف یافتہ یک دو غزل ریختہ...
مع دیگر ابیات بر سبیل تفنن ارشاد فرمودند۔
اب یہ بات بالکل پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دیار ہند میں طبع آزمائی کرنے والے سعدی شیخ شیرازی سے بالکل مختلف شخصیت ہیں۔میر اور ان کے متبعین نے انھیں باشندہ دکن قرار دیا ہے لیکن حافظ محمد علی حیدر کاکوروی کے مطابق وہ لکھنؤ کے قصبہ کاکوری کے رہنے والے تھے حافظ صاحب موصوف نے ان کی تاریخ وفات 3 ذی الحجہ 1003ھ مطابق 10 اگست 1594 بتائی ہے... آگے رقم کرتے ہیں آنچہ بعض ایں را شیخ سعدیؒ گمان بردہ اند خطا است۔‘‘
(ایضاً، ص 266)
اختلاف بڑی اچھی چیز
ہے کیوں کہ انسان کا فکری تنوع خود اختلاف کی دلیل ہے لیکن ادب میں اس کی اہمیت اس
وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ تحقیقی دروازوں کے وا کرنے یا ادب میں در آئی خرابیوں
کو دور کرنے کے لیے کیا جائے۔ اور اگر اس میں تعصب و ہٹ دھرمی شامل ہوجائے تو یہ حقیقتوں
کا قاتل بن بیٹھتا ہے۔نقوی نے بہت سی جگہوں پر اپنے پیش روؤں سے اختلاف کر کے ان کے
تسامحات کی قلعی کھولی لیکن دامن ادب کو ہاتھوں میں تھامے رکھا۔پروفیسر محمود الٰہی نے تذکرہ شورش کے نسخہ جون پور کا اولا
تعارف کرایا جس میں انھوں نے جناب شورش کی تنقیدی بصیرت کو بڑا سراہا، ان کی آزادانہ
رائے کی اہمیت کے قصیدے پڑھے، ان کے نقدو نظر کو عظیم آباد کی مٹی کا اثر اور علما
فضلا کی صحبتوں کا فیضان قرار دے کر ان کی
تعریف و توصیف کے قلابے ملانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، جتنی تعریف و توصیف ہوسکتی
تھی وہ انھوں نے کی نقوی اس بارے میں نہایت صاف گو تھے انھوں نے مقابلہ اور توازن کرکے
محمود الہی کی سخت سرزنش کی ہے لکھتے ہیں :
’’نسخہ جون پور کے واسطے سے تنقید کلام کی جتنی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں ان میں اعتماد اور آزادی رائے کی جھلک کسی جگر بھی نظر نہیں آتی، البتہ اگر کلام پر اظہار رائے کی تخصیص ختم کرکے میر صاحب کے تذکرے کی حریفانہ خردہ گیری کو بھی تنقید ہی کے زمرے میں شامل کر لیا جائے تو کسی حد تک ڈاکٹر صاحب کے قول سے اتفاق کی گنجائش نکل سکتی ہے۔‘‘
(ایضاً، ص 316)
شورش کے انداز انتخاب
سے بھی نقوی مطمئن نظر نہیں آتے کیوں کہ جو خامیاں دیگر تذکروں میں ہیں وہ سب ان کے
اس تذکرے میں موجود ہیں۔ ان کے انتخاب میں نیا کچھ بھی نہیں جو ماقبل کے تذکروں میں
موجود نہ ہو، جدت ان کے پڑوس کو بھی نہیں گذری، کسی بھی جہت سے اس کو پرکھا جائے تو
آغاز سے انتہا تک قدیم نہج کا مرقع معلوم ہوتا ہے۔
تذکروں میں اسلوبیاتی
مطالعے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور یہ بات بھی طے ہے کہ ہر مصنف کا اسلوب تحریر جداگانہ
ہوتا ہے جواس کی شناخت ہوتاہے،جس کا تشکل محاورے، روز مرہ، اسما و افعال کنایہ،مجاز،
تشبیہ و استعارہ اور جملوں اور فقروں سے ہوتا ہے۔ یہ ترکیب اسی مصنف کے ساتھ خاص ہوتی
ہے۔ لیکن کبھی کبھار وہ اس ترکیب میں چوک جاتا ہے اور اس طرح کی چوک کو نقاد اپنی گرفت
میں لے کر اس کی خرابیوں پر قارئین کو آگاہ کرتا ہے یہ فنی نقطہ نظر سے زبان وبیان
پر اس کی مضبوط گرفت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ نقد و نظر کے اولین مرحلے سے آج تک ہر زبان میں رائج ہے۔ خاص کر اردو تذکرہ نگاری نے جب
تنقید کی داغ بیل ڈالی تو اس طرف بھی توجہ کی اور از میر تا حال یہ زبان کا حصہ بنی
ہوئی ہے۔
’’بعض جگہ
شفیق نے میر کی طرح الفاظ و محاورات کے نامناسب یا غلط استعمال پر بھی گرفت کی اور
اشعار کے ظاہری ومعنوی اسقام سے بحث کرتے ہوئے مناسب تر الفاظ اور متبادل مصرعے بھی
تجویز کیے ہیں...
لالہ نہال کرن داغ
کا ایک شعر ہے ؎
انتظاری سے تری اے گل پر کیفیت
دیدہ نرگس فتاں میں
بھرے ہیں جالے
شفیق اس پر لکھتے:
’’اگر بجائے پر کیفیت،نسریں رخسار می گفت خوب است۔‘‘
(ایضاً، ص 284)
اس پیراگراف سے یہ بات
روشن ہوجاتی ہے کہ تذکراتی ادب میں زبان و بیان پر خاصی گرفت کی جاتی ہے اور ابتدائی
دور میں تو اس پر بڑی شدت برتی جاتی تھی، یہ ایک نمونہ ہے ان صاحبان فکرو قلم کے لیے
جو تذکروں کی اہمیت کا اعتراف نہیں کرتے اس
کے ساتھ ہی تذکراتی ادب انھیں مطالعے کی دعوت بھی پیش کرتا ہے کہ اگر واقعی
انھیں ادب اور اس کے مستقبل کی فکر ہے تو اس سرمایے کو اپنی توجہ کا مستحق قرار دے کر اس سرمایے کو اس کا حق عطا کریں ورنہ ان کا ادب
کے تئیں فکر مند ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
تاریخ اور تذکرہ بعض نوعیتوں سے ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ تاریخ تذکرہ
کی جگہ نہیں لے سکتی اور نہ تذکرہ اس کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔ البتہ ایک دوسرے کے ممد
ومعاون ضرور بن جاتے ہیں اور بالکلیہ ایسا بھی نہیں کہ تذکروں میں تاریخی شعور ہی نہ
ہو یہ اور بات ہے کہ تذکروں میں تاریخی شعور بعد میں پیدا ہوا لیکن ایسا نہیں کہ تذکرے
اس تاریخیت سے بالکلیہ خالی ہوں۔ یہ شعور تذکروں کے آغاز میں بالکل دھیما تھا۔ بعد
میں اس کی جانب بھی توجہ کی گئی اور تذکرہ نگاروں نے اس نقص سے تذکرہ نگاری کو دور
کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ ہمیشہ تذکرہ نگاروں کو ایک دوسرے سے
شکایتیں رہیں لیکن پیش قدمی کا سہرا کریم الدین کے سر جاتاہے۔کریم الدین نے نہ صرف
اس طرف توجہ دی بلکہ تذکرہ نگاری کوادبی تاریخ نگاری سے قریب تر کرنے کی عملی کوشش
بھی کی۔حنیف نقوی لکھتے:
’’ انھیں (کریم) اپنے پیش رو تذکرہ نویسوں سے یہ شکایت بھی تھی کہ ان میں سے کسی نے اس کو شاخ تاریخ نہ رکھا اس لیے انھوں نے اپنے تذکرے میں شعرا کو مختلف ادوار اور طبقات میں تقسیم کرکے اسے تاریخ ادب سے قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘
(تذکرے اور تبصرے ص129)
حنیف نقوی کی یہی خصوصیات
ان کو دیگر محققین سے جدا کرکے ان کی علمی برتری کو ثابت کرتی ہیں،تنقید تذکرہ نگاری
میں کوئی بھی ان کے ہم پلہ نظر نہیں آتا،ان کی تحریروں کا اسلوب دلکشی کے ساتھ ادبیت
اور چاشنی لیے ہوئے ہے، نقوی کے صبر و شکر نے بھی ان کی علمیت کی گیرائی میں بڑا اہم
رول پلے کیا ہے۔ان کی تحقیق اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وہ اپنے نتائج سے پوری طرح سے مطمئن نہ ہو جائیں وہ اردو کے پہلے محقق ہیں جو نتائج کے معاملے میں
نہایت محتاط ہیں،کسی بھی مسئلے پر وہ جلد بازی نہیں کرتے،اور نہ اس کو پسند کرتے ہیں،
جدید تنقید کی اس چکاچوند میں بھی حنیف نقوی غلغلے، شور وشغب کے بغیر ہی تن دہی کے
ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔تذکراتی نقد ونظر کے ساتھ انھوں نے اپنے طور پر انصاف
کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں یہ کامیاب بھی رہے ہیں، اس میدان میں انھوں نے نظریہ شکنی کے مظاہرے کیے ہیں۔بڑے بڑے ناقدین کے نظریاتی
شیش محل کو زمین بوس کیا ہے۔ اور ان کی حقیقت
عیاں کی ہے کہ ان کے ان اقوال کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں، ہاں انھوں نے تذکروں
کے سلسلے میں مختلف مفروضات کو ضرور جنم دیاجو تذکراتی ادب کے لیے مضر ثابت ہوئے اور انھیں مفروضات کی وجہ جدید تنقید میں تذکروں کو
چند توصیفی کلمات کا ڈھیر تصور کیاگیا،لیکن حنیف نقوی نے اس بات پر زور صرف کیا کہ
ہر گز ایسا نہیں ہے، بلکہ ان کے مطالعے اور
بحث و تمحیص کی ضرورت ہے اور انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے ساتھ انصاف نہیں
کیا گیا اور ایسا کہنے میں وہ حق بہ جانب تھے تو ہم اپنی مشرقی روایت نقد ونظر کو کما
حقہ نہیں پہچان سکتے یہی وجہ رہی کہ انھوں
نے مشرقی تنقید کے الگ الگ ابعاد سے تذکراتی ادب کو جانچنے پرکھنے کی کوشش کی
ہے اور اس کی روشنی میں تذکرہ کی ادبی اہمیت کو اجاگر کرنے کی سعی مشکور ہے اور یہ
بات بھی ثابت کی کہ تذکرے نہ صرف ہندوستانی ادب کے افہام تفہیم میں مدد گار ہیں بلکہ
تاریخ ادب اردو کا جزو لاینفک ہیں اگر کوئی بھی تاریخ نگار ان کے بغیر ادب کی تاریخ
لکھتا ہے تو اس کی ادبی تاریخ ادبی حلقوں میں کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
تذکراتی ادب کی تحقیق
و تفتیش میں انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی ان کے عنوانات خود اس بات کے گواہ ہیں کہ
انھوں نے اس میدان میں بہت سے نئے گوشے سر کیے ہیں۔ جس کا اندازہ ان کی تذکراتی تحقیق
کے مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے۔
Mohd Abdul Quadir
H. N.: 237, Gangan Wali Mainather
Near Pani ki Tanki
Moradabad- UP
Mob.: 8882370711/941659868
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں