سرونج کے ادبی ماحول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت میر تقی میر کی شاعری کا ڈنکا بج رہا تھا، انھیں دنوں سرونج میں مرمت خاں مرمت اپنی شاعری کا جادو جگا رہے تھے۔ یعنی سرونج صدیوں سے ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ مرمت خاں مرمت کا گھر تو آج بھی محلہ کڑی میں ویران حالت میں موجود ہے۔ افسوس کہ عہدِ میر کے اس شاعر کا کلام شائع نہ ہونے کی وجہ سے محفوظ نہ رہ سکا اور جو کچھ دستیاب ہوا وہ کسی طرح نادم سیتاپوری پاکستان لے گئے۔ نادم سیتاپوری کے کئی مضامین مرمت خاں مرمت سے متعلق ’ہماری زبان ‘، ’جواز‘اور پاکستان کے ’نقوش‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر مختارشمیم نے بھی ان کی شاعری سے متعلق مضامین لکھے ہیں۔ مرمت خاں مرمت سے متعلق ہندوستان میں پروفیسر مختار شمیم اور ڈاکٹر شان فخری کے علاوہ کسی نے نہیں لکھا۔ البتہ نادم سیتاپوری نے پاکستان کے رسالوں کے علاوہ ’ہماری زبان‘،’ جواز‘ وغیرہ میں ضرور ان کے مضامین آئے۔ بہرحال جتنا بھی ان کا کلام سامنے آیا وہ نادم سیتاپوری کے حوالے سے آیا ہے۔ یہاں ساری بحث کو چھوڑتے ہوئے مرمت خاں مرمت کے چند اشعار پیش ہیں ؎
سخاوت سے نہ ہو کم
دولت حسن کفِ خوباں
نہیں رہتا ہے خالی
زر سے پنجہ مہرتاباںکا
نہ دیتے شاعر ایسی
نسبت لعل لب خوباں
نہ ہوتا مرمت خوں جگر
لعل بدخشاں کا
ڈاکٹر شان فخری لکھتے
ہیں:
’’مرمت خاں مرمت کے بارے میں سب سے پہلی تحقیق نادم سیتاپوری کی ہے
جنھوں نے نہ صرف مرمت خاں مرمت کا دیوان ہی دریافت کیا بلکہ 1958 میں پہلی بار مرمت
خاں مرمت پر ایک مقالہ سپرد قلم کیا۔ مرمت خاں مرمت کے ذکرسے عام طور پر تذکرے خالی
نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مرمت خاں مرمت کا عہد شاعری وہی تھا جو میر تقی میر
کا زمانہ ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ مرمت خاں مرمت کی شاعری کا آغاز اس دور میں ہوا جب علامہ
غلام علی آزاد بلگرامی سرونج میں جاکر اقامت گزیں ہوئے کیونکہ دیوانِ مرمت کا کافی
حصہ فارسی غزلیات پر مشتمل ہے جو ان کا ابتدائی کلام معلوم ہوتا ہے۔ اس دیوان میں فارسی
کے علاوہ ایک اچھا خاصا ذخیرہ اردو غزلیات اور ہندی کلام کا بھی ہے جس سے مرمت خاں
کی کہنہ مشقی اور قادر الکلامی پر روشنی پڑتی ہے۔‘‘
مرمت خاں مرمت کے بعد
بھی سرونج میں اچھے شاعروں کی تعداد کم نہیں ہے مثلاً منشی واحد علی زار صاحبزادہ واحدی
عطا اللہ مکرم رعنا، غلام شاہ خاں منظر، اعجاز مالوی، شہرت ناطق مالوی حکیم فخر احمد،
جوش مالوی۔
محققین نے لکھا ہے
کہ سرونج ان کا وطن تھا، اور سرونج میں ہی انھوں نے شاعری کی ابتدا کی یہیں سے ان کا
دیوان بھوپال گیا، اور بھوپال سے کسی طرح پاکستان کے نادم سیتاپوری نے حاصل کیا، اور
اس کوپاکستان لے جا کر انھوں نے کیا کیا یہ کسی کو نہیں معلوم، ہاں اتنا ضرور ہو ا
کہ ان کے کچھ مضامین میں اس دیوان کا ذکر ضرور کیا گیا ہے، خاص طور پر نومبر 1964 کے
ماہ نامہ ’نقوش‘ میں ان کا ایک مضمون مرمت خاں مرمت ’عہدِ میر کا ایک گمنام شاعر ‘
کے عنوان سے شائع ہوا تھا، جس پر مالیگائوں سے شائع ہونے والے سہ ماہی ’جواز‘ میں جس
کے ایڈیٹر سلطان سجانی تھے، ایک تبصرہ مشہور شاعر، ادیب فضیل جعفری کا شائع ہوا تھا۔
اسی تبصرے کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر شان فخری نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’ سرونج کی ادبی خدمات ‘ میں شائع کیا
ہے، ڈاکٹر مختار شمیم نے اپنی تحقیقی کتاب ’ریاست ٹونک اور اردو شاعری ‘ میں نادم سیتاپوری
کے حوالے سے مرمت خاں مرمت کا ذکر کیا ہے، نادم سیتاپوری کا یہ مضمون ماہنامہ ’نقوش‘
پاکستان کے علاوہ ’ہماری زبان‘ میں بھی شائع ہوا ہے، ڈاکٹر شان فخری نے ماہنامہ ’جواز‘
مالیگائوں میں نادم سیتاپوری کے اس مضمون پر فضیل جعفری کے تبصرے کا ذکر کیا ہے، جس
میں پاکستان سے شائع ہونے والے ’نقوش‘ نومبر 1964 کا حوالہ دیا ہے، جبکہ مختار شمیم
نے ہماری زبان علی گڑ ھ 15 فروری 1958 کا حوالہ دیا ہے، اور دونوں حضرات نے نادم سیتاپوری
کا ذکر ضرور کیا ہے۔لیکن ان دونوں کتابوں میں یعنی ’سرونج کی ادبی خدمات ‘اور’ ریاست
ٹونک اور اردو شاعری‘ میں مرمت خاں مرمت کے جو اشعار پیش کیے ہیں وہ الگ ہیں، اسی طرح
میرعرفانی مرحوم نے 61-62 عیسوی کے سرکاری ہائر سکنڈری اسکول میگزین میں مرمت خاں مرمت
کے جو اشعار لکھے ہیں، میں ان تینوں حضرات سے ہٹ کر مر مت خاں مرمت کے کچھ نئے اشعار
پیش کر رہا ہوں، جو یقینا اردو قارئین کے لیے نئے ہوں گے اور سرونج کی سرزمین سے عہدِ
میر کے اس شاعر کی شاعری پڑھنے کے بعد اس عہد کی پوری تاریخی اور تہذیبی جھلکیاں دکھائی
دیںگی ؎
مرمت جن کو ہیں تیرے
اشعار راحت افزا یہ
انھیں اشعار شیدا،
صوفی و قیصر، سے کیا مطلب؟
ہے یہ غزل پسند مرمت منیر کو
کیونکہ اسے ہے شعرِ
دھواں دھار سے غرض
جان کو ساتھ لے دل،دل
کو کہاں پر ڈوبا
آپ تو ڈوبے تھے، پر
اس کو بھی لے کر ڈوبا
ہاتھ دل، گریہ سے دھو
بیٹھا مرمت میرا
مردم آبی بے چارہ
کا جب گھر ڈوبا
گلہ میں کس سے کروں
تیری بے وفائی کا
رکھے نہیں ہے جو تو
پاس آشنائی کا
سج کے نکلا ہے وہ گھر
سے ’ نک پلک ‘ دلدار آج
دیکھیے کس کا کرے گا
قتل وہ خونخوار آج
سوز و غم اور آ ہ
نالہ، داغ ہجر اں سب کے سب
مجھ دلِ بز یاں پر
آئے ہیں یہ مہماں سب کے سب
نرگس حیراں، سر ولرزان،
لالہ پر خوں رشک سے
سن کے اس کا حسن ہیں
گے یہ پر یشا ں سب کے سب
نور تیرا دیکھ کر شمس
و قمر
جھا نکتے ہیں روز و
شب گھر گھر ہنوز
جو عدم رفتہ ہوئے ہستی
سے آہ
حیف وہ آئے نہیں پھر
کر ہنوز
کرے ہے دشمنی سارا
جہاں تو کیا غم ہے
ہزار شکر کہ رکھتا
ہے دلربا اخلاص
رحمت کون کرتا ہے مرمت
سونچ یو وِسکو
نہ ہستی ہے نہ و حدت
ہے ذرا ٹک دیکھیو وِسکو
چھوڑ دو مت کچھ کہو
رہنے دو بس تقدیر پر
میں ہوں یہ سینا میرا
اور وہ ہے اوس کا تیر ہے
نہ دیکھوں صورت گل
رو کی جب تلک یارو
تو در پر آئے مرے
قاصد و قضا پھر جائے
مجازی عشق سے ہے عزم
اب حقیقت کا
کہ رفتہ رفتہ اودھر
کو بھی مرا دل پھر جائے
رقیب دشمنی ہوئے ہیں
دلبر، ایدھر ہمارے اودھر تمھارے
ہزاروں شکوے کرے ہیں
گھر گھر، ایدھر ہمارے اودھر تمھارے
مقرر خدا ہے مع الصابرین
کیا تم سے اس نے یہ
اقرار ہے
ہے وہ بے گانہ جو یگانہ
ہے
کیا زمانہ ہے، کیا
زمانہ ہے
سنگ طفلاں سے خوش ہے
دل میرا
کیا دیوانہ ہے کیا
دیوانہ ہے
مجھ کو مارا کیا قضا
کا نام
کیا بہانہ ہے کیا بہانہ
ہے
یہ سیلِ اشک آنکھوں
سے مری کب تک رہے جاری
برابر رات دن چشمے
سے پانی کب تلک نکلے
جدا جب سے ہوا ہوں
دوستوں اس شوخ ہمدم سے
نہ غم ہم سے ’کبھو‘
چھوٹا نہ چھوٹے ہم کبھو غم سے
چلا جو آیا وہ باچشم
نیم جواب اٹھا
تو گویا لایا وہ، دو
کانسئہ شراب اٹھا
مرمت خاں مرمتـ کے
ان اشعار کو پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت میر تقی میر کی شاعری اپنے عروج
پر تھی، سرونج کا ایک گمنام شاعر دلی سے سیکڑوں میل دور ایک ایسے قصبہ میں رہ رہا تھا
جس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہاں قیامت بھی آئے گی تو دس بیس سال بعد آئے گی،
یہی وجہ ہے کہ مرمت خاں مرمت کی شاعری بھی سرونج تک محدود ہو کر رہ گئی،چھپنے چھپانے
کے ذرائع نہ ہونے اور کچھ اہلِ سرونج کی بد نصیبی کہیے کہ اگر اتنے پیارے شاعر کا کلام شائع ہوا ہوتا توآج میر تقی میر کے ساتھ
سرونج کا نام بھی جڑ جاتا، لیکن افسوس ان کا سارا کلام ان کے گھر والوں کی نا اہلی کی وجہ سے ادھر ادھر بھٹکتا ہوا بھوپال پہنچا اور بھوپال سے نادم سیتاپوری کے ذریعے
پاکستان چلا گیا، پاکستان میں ان کے دیوان کا کیا ہوا، اس بارے میں آج تک کسی کو پتہ
نہیں چلا۔وہ تو نادم سیتاپوری کا مرمت خاں مرمت سے متعلق مضمون پاکستان سے شائع ہونے
والے ’نقوش‘میں نہیں چھپا ہوتا تو اس بات کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ ان کا غیر مطبوعہ
کلام پاکستان چلا گیا ہے۔
جس طرح ناطق مالوی
کا کلام سرونج سے غائب ہے، اسی طرح مرمت خاں مرمت کا سارا کلام پاکستان میں جا کر کہاں
غائب ہوگیا ہے یہ کسی کو خبر نہیں۔ ریاست ٹونک کے نہ جانے کتنے شاعر ہو گئے ہوں گے،
جن کا کلام شائع نہ ہو سکا، اور وہ گمنامی کے پردے میں روپوش ہو گئے۔ یوں تو سرونج
ریاست ٹونک کا ایک حصہ رہا ہے، لیکن ٹونک کے حکمر انوں کا رویہ سرونج کے لیے کوئی ہمدردانہ
نہیں تھا۔سرونج کی ویسے بھی یہ بدنصیبی ہے کہ یہاں بڑے بڑے قابل علما، ولی، صوفی، حفاظ،
شاعر، ادیب، عالم، فاضل تو بڑی تعداد میں ہوئے ہیں لیکن شعر و ادب کی محفلیں سجانے
کے علاوہ کوئی تعمیر ی کام ایسا نہیں ہو سکا جس سے کہ سرونج عالمی ادب کے حوالے سے
کسی منظر میں آتا، اس کے برعکس ٹونک میں نثر نگار ی کی اہمیت زیادہ رہی۔ یہی وجہ ہے
کہ وہاں کے شاعروں کا تذ کرہ تاریخ ادب میں نمایا ں ہے۔ اگر سرونج میں بھی نثر نگار
ہوتے تو آج مرمت خاں مرمت کا کلام بھی محفوظ رہتا اور ان کا تذکرہ بھی جگہ جگہ ہوتا
اور آج سرونج کا نام ادبی دنیا میں کچھ دوسرا ہی ہو تا۔ یوں تو سرونج میں کئی اور
بھی اچھے شاعر ہوئے ہیں، جن کا ذکر اکثر مضامین میں ہوتا رہتا ہے، لیکن میں تو صرف
مرمت خاں مرمت پر ہی اظہار خیال کر رہا ہوں۔ سرونج کے شعر و ادب سے متعلق ڈاکٹر مختار
شمیم اپنی کتاب ’ریاست ٹونک اور اردو شاعری‘ میں لکھتے ہیں :
’’سرونج چونکہ قدیم تاریخی شہر تھا، اور امیر خاں کے قبضہ کے بعد بھی
اپنی تہذیبی روایات کا حامل تھا اور اس وقت بھی شعر و سخن کا وہاں چرچا تھا، لہٰذا
کوئی وجہ نہیں کہ سرونج کی تہذیب کے اول اول اثرات ہی شہرِ ٹونک پہنچے ہوں اور یہیں
سے امیر خاں کے ساتھی شعرا اس رنگِ شاعری کو اپنے ساتھ لے گئے جس میں سوز و گداز کا
عنصر غالب تھا، درد تھا، زمانے کے تجربات کا نچوڑ شامل تھا، اور یہی رنگ آگے چل کر
ریاست کے شعر و ادب کا خاصہ بنا یہ وہ زمانہ تھا، جب خدا ئے سخن میر تقی میر کا ڈنکا
بج رہا تھا اور ان کی شاعری دور دور تک اپنا تسلط قائم کر رہی تھی سرونج میں اس وقت
میر کی تقلید میں بھی شعر کہے جارہے تھے، سرونج میں اسی زمانے کا گمنام شاعر مرمت خاں
مرمت تھا۔‘‘
ڈاکٹر مختار شمیم نے
اپنی کتاب’ ریاست ٹونک اور اردو شاعری‘ میں اور ڈاکٹر شان فخری اپنے تحقیقی مقالہ
’سرونج کی ادبی خدمات‘ میں اور میر عرفانی مرحوم نے اسکول میگزین میں مرمت خاں مرمت
کے جو اشعار پیش کیے ہیں، جن کی تعداد چار پانچ سے زیادہ نہیں۔ ڈاکٹر شان فخری اور
مختار شمیم نے جن اشعار کو درج کیا ہے وہ صرف اردو کے ہیں جو اس زمانے میں رائج تھی،
جبکہ فارسی شاعری کا غلبہ تھا لیکن مرمت خاں مرمت نے فارسی اور اردو میں ہی نہیں ہندی
گیت کی ٹیکنک پر ہولی دیوالی اور دیگر موضوعات پر بھی بہت کچھ لکھا ہے، یہاں چند نمونے
پیش کیے جارہے ہیں ؎
ہولی میں پاس یار نہیں
کیا جتن کروں
یارو بجائے رنگ یہ
جاری ہے چشم خوں
ہولی کا دور دورا ہے
ہر دل میں ہے امنگ
پچکاریاں گلال ابیر
اور پار سنگ
بن یار ایک میں ہوں
کہ یوں رشک سے جلوں
ہولی میں پاس یار نہیں
کیا جشن کروں
دیکھو جدھر تو رنگ
سے کپڑے ہیں سب کے لال
چہرے پہ ہے گلال ہر
ایک کہ ہیں لال گال
ایسے دونوں میں کیسے
بن اس یار کے رہوں
ہولی میں پاس یار تو
نہیں کیا جشن کروں
قانون ہیں دائرہ، موچنگ
اور ستار
دف طبلہ اور ڈھولک
مردنگ ہیں ہزار
سب ہیں پر ایک غم سے
مرمت میں یوں مروں
ہولی میں یار پاس نہیں
کیا جشن کروں
ملہار
اومنڈ گھمنڈ کے آئی
بدریا برسن لاگو مہیرا
رین اندھیری بجری چمکے
پیوبن ترسے جیورا
مجھ برہن کو پاپی پیو
پیو کر کے جلاوت ہے
پیو مرمت دور بسے ہے
جاسے لاگو نیرا
دوہرا
رن میں لڑنا سہج ہے
جل جانا نہیں دور
بچن بنھا ہن کٹھن ہے
جوں سولی چڑھے منصور
موتی بھٹ کر نا بنے
اور دودھ پھٹے بنے گھیو
پریت رہے نہیں مرمت
جب پھٹ جاوے جیؤ
Dr. Saifi Sironji
Quarterly 'Intesab Aalami',
Sironj-464228 (M.P)
Mob.:9425641777
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں