9/11/23

پروفیسر مظفر حنفی کی تحریروں میں ہندوستانی عناصر:محمد خوشتر


ہمارا پیارا قدیم و عظیم ملک ہندوستان، مختلف مذاہب اور مختلف زبان بولنے والواں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔اس میں کئی ریاستیں ہیں اور سیکڑوں زبانیں اور بولیاں بولنے والے کروڑوں افراد بھی۔ ہندوستان کے بے شمار اردو ادیبوں نے ہندوستانی عناصر جیسے تہذیب و تمدن،رہائش وزیبائش، زبان وبیان، زمان و مکان، تاریخ، عمارت، علاقے،تہوار، رسم و رواج اور معاشرے پر نثرو نظم میں گفتگو کی ہے اسی سلسلے کو پروفیسر مظفر حنفی نے مزید مستحکم کیا ہے۔انھوں نے ایک کتاب ہی ’ہندوستان اردو میں‘ نام سے تحریر کی ہے جو اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ انھیں ہندوستانی تہذیب و عناصر سے قلبی لگائوتھا جس کا جابہ جا اظہار ان کی نثر و نظم میں ملتا ہے۔

ہندوستان اردو میں‘ نامی کتاب میں حالات حاضرہ پر اگر بہترین مضامین ملتے ہیں تواسی کے ساتھ اردو کے احوال، حالات،ضرورت اور دیگر معلومات کا بھی اس کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے۔جمہوری اقداروروایات اور سیکولرزم کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس مضمون کو دیکھیے جس میں انھوں نے ہولی تہوار پر گفتگو کی ہے:

راوی: اس تیوہار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ راگ اور رنگ کے بغیر ہولی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عوام الناس کا تیوہار ہے۔ اس میں پوجا پاٹھ یا دوسرے مذہبی کاموں کی جگہ لوگوں سے ملنے جلنے، گانے بجانے، رنگ، گلال اور عبیر لگانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یار دوست، اقربا اور رشتے دار مل جل کر کھاتے پیتے ہیں اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔

راویہ: یہ شاید واحد تیوہار ہے جس میں اُونچ نیچ کی تفریق بالکل مٹ جاتی ہے۔چھوٹے سے چھوٹا، بڑی سے بڑی شخصیت کو رنگ بھی سکتا ہے اور اس کے ساتھ بے تکلفانہ مذاق بھی کرسکتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہولی کا اصل مزہ بڑے شہروں سے زیادہ گاؤں میں آتا ہے۔ سلام سندیلوی نے ہولی مناتے ہوئے ایک گاؤں کا نقشہ بڑے دلکش اسلوب میں پیش کیا ہے۔

کورَس:

ہولی آئی ہولی آئی، رنگ گلابی ساتھ میں لائی

بچے، بوڑھے، عورت، مرد، جوان سبھی پر لالی چھائی

پوری پکی، گوجیا نکلی، بنے سموسے، چڑھی کڑھائی

ڈھول بجاتے، ہولی گاتے، لوگ پھر رہے  گاؤں میں

لے کر اپنی اپنی ٹولی، آئی ہولی، آئی ہولی

(ہندوستان اُردومیں، ص 69)

پروفیسر مظفر حنفی نے اس مضمون کے ذریعے ہولی کے کھیل اور اس کی رنگا رنگی کو بیان کیا ہے تووہیں دوسری طرف اس کھیل اور ہولی تہوار میں پائے جانے والی محبت،وارفتگی کے جذبہ کو بیان کرتے ہوئے اسے سیکولر تہذیب کی نشانی قرار دیاہے۔ذرا آنے والے مضمون کے اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں۔ اس مضمون میں مظفر حنفی اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اردو میں سب سے زیادہ ہندو مذہب سے متعلق جو کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ بھگوت گیتا اور راماین ہیں اور اس کے مرتب ومصنف اور مترجم ہندو کے شانہ بہ شانہ مسلم بھی ہیں:

’’ہندو مذہب سے متعلق جو کتابیں اُردو میں سب سے زیادہ شائع ہوئی ہیں اُن میں بھگوت گیتا اور راماین سرِ فہرست ہیں۔ ان دونوں مذہبی صحیفوں کے نثری اور منظوم ترجمے نیز ان کی ضمنی داستانوں پر مشتمل تصانیف کی ایک بڑی تعداد اُردو میں موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنّفین و مترجمین میں ہندوؤں کے دوش بدوش مسلمان بھی برابر کے شریک ہیں۔‘‘

(ہندوستان اُردومیں، صفحہ 73-74)

پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے اس مضمون میں یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ اردو زبان وادب میں اگر اسلام اور اسلام کے ماننے والی کتابوں پر مضامین اور کتابیں تحریر کی گئی ہیں تو اسی طرح اردو زبان و ادب میں ہندو مذاہب اور ہندو مذاہب کی مقدس کتابوںپر بھی مضامین اور کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔آنے والی گفتگو میں یہ بات صاف ہوجائے گی، مظفر حنفی کہتے ہیں:

’’القصہ نظر ِ انصاف سے دیکھا جائے تو اُردو نے کسی امتیاز کے بغیر اپنے دامن میں رامائن کو بھی اُسی احترام و عقیدت اور محبت کے ساتھ جگہ دی ہے جس طرح اسلام اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے موضوعات کو۔ اس گفتگو کو میں علامہ اقبال کے چند اشعار پر ختم کرنا چاہتا ہوں جو ان کی نظم ’امامِ ہند‘ سے ماخوذ ہیں          ؎

لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند

سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رامِ ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں مرد تھا

پاکیزگی میں، جوشِ محبت میں فرد تھا

(ہندوستان اُردومیں، صفحہ 79(

انھوں نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور اس ملک میں پیدا ہونے والی زبان اردو میں اگر اسلام کے بارے میں کتابیں اور مضامین پائے جاتے ہیں تو وہیں ہندومذاہب پر بھی کتابیں اور مضامین رقم کیے گئے ہیں۔برج نارائن چکبست اردو شاعری کا بڑانام ہے انھوں نے اپنی شاعری میں حب الوطنی، پیام آزادی اور اخوت و محبت اور بھائی چارگی کادرس دیا ہے ایک مضمون میں پروفیسر مظفر حنفی اسی تعلق سے رقمطراز ہیں:

’’برج نارائن چکبست کی کم و بیش تمام شاعری اصلاحِ معاشرہ، پیامِ آزادی، ہندو مسلم اتحاد اور حب الوطنی کے محور پر گھومتی ہے اور اس دور کے سیاسی اسٹیج پر رونما ہونے والے تمام اہم واقعات و کردار اس منظرنامے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ بلاشبہ اُردو شاعری کا دامن اوائلِ بیسویں صدی کے ہندوستان میں رونما ہونے والی سیاسی بیداری اور تحریکِ آزادی کے نشیب و فراز کی تصویروں سے خالی رہ جاتا اگر چکبست نے اپنے قلم کا رُخ اس میدان کی جانب نہ موڑ دیا ہوتا۔ چکبست کی چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں براہِ راست نہ وطن دوستی کا پیغام دیا گیا ہے نہ کسی سیاسی واقعے یا حادثے کی تصویر کشی کی گئی ہے پھر بھی ان کے پس پشت یہ جذبہ کارفرما ہے کہ اہلِ وطن ان نظموں کے پس منظر میں ہندوستان کے عظیم الشان ماضی اور جلیل القدر شخصیتوں کو دیکھ کر اپنی حالتِ زار اور ملک کی عام پسماندگی کو محسوس کریں اور بہتر مستقبل کی فکر کریں۔ ایسی نظموں میں بطورِ خاص ’راماین کا ایک سین‘ ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے۔مصیبت کے وقت رام چندرجی کی مستقل مزاجی اور فرض شناسی کا جذبہ اس نظم کا مرکزی خیال ہے اور یہی وہ خصوصیات تھیں جنھیں چکبست اپنے عہد کے ہندوستانیوں میں عام کرنا چاہتے تھے۔ اس پر تاثیر نظم کا ایک بند بطور مثال پیش ہے         ؎

دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال

خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ حال

دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال

سکتہ سا ہوگیا ہے، یہ ہے شدتِ ملال

تن میں لہو کا نام نہیں، زرد رنگ ہے

گویا بشر نہیں کوئی تصویرِ سنگ ہے

(ہندوستان اُردومیں، صفحہ 86-87)

160 صفحات کی اس کتاب میں کل مضامین 13 ہیں اور پہلا مضمون ’اردو شاعری اور ہندوستانیت ‘ ہے۔یہ مضمون صفحہ ۱۱سے شروع ہوکر 58 صفحات پر ختم ہوتاہے۔ اس کے بعد ان موضوعات پر انھوںنے خامہ فرسائی کی ہے ہولی اور اردو شاعری، راماین اردو میں،چکبست کی قومی نظمیں، جمہوری معاشرہ اور اردو، علاقائی زبانوں سے ادبی ترجمے اور قومی یکجہتی،اردو ادب اور مذہبی رواداری، اندرا گاندھی اردو شاعری میں، عصری سماج میں تشدد کا رجحان اور ہمارے دانشور،اردو ادب میں ہندوستانی عناصر کی تلاش،تحریک آزادی میں اردو شاعری کا کردار، جنگل کے مناظر اردو شاعری میں، را م کی عظمت اور اردو شاعری۔  اس کتاب کے مضامین یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ مظفر حنفی کو قلم پر عبورحاصل تھا اور وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ان مضامین کے ذریعے ہندوستانی قومی یکجہتی، بھائی چارگی، گنگا جمنی تہذیب اور آپسی محبت و بھائی چارگی کو بیان کیا گیا ہے تو وہیں ہولی، رام، جنگل، پیڑ، درخت اور دیگر ہندوستانی اشیا کو بیان کرکے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو بتانے کی کوشش کی ہے اسی کے ساتھ سیکولرزم بھی زیر موضوع ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس کتاب کی ضرورت و اہمیت اوراس کی افادیت ہمیشہ باقی اور روز افزوں رہے گی۔ عرض مصنف صرف آدھے صفحے کا ہے اور وہ اس طرح ہے:

’’گزشتہ چالیس پینتالیس برسوں میں میں نے متعدد  ایسے مضامین قلمبند کیے، جن میں اردو کے جمہوری مزاج، اس کے شعرا اور ادبا کی وسیع النظری، مذہبی رواداری اور بے تعصبی،اس زبان کے مختلف اصناف ادب میں قومی یکجہتی کے مظاہرے اور اس میں ہندستانی عناصر اور گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کی جانب کہیں واضح اور مفصل نیز کہیں اجمالاًاور اشاریاتی انداز میں اظہار خیال کیا گیا ہے پیش نظر کتاب میں انھیں بکھری ہوئی تحریروں کو یکجا کردیا گیا ہے تاکہ ان کے یکمشت مطالعے سے اردو زبان وادب کے اس تابناک پہلو کا مستحکم اور گہرا نقش پڑھنے والوں کے ذہن ودل پر مرتسم ہوسکے‘‘۔ (ہندوستان اردو میں، صفحہ9)

اس طرح سے یہ کتاب گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔اسی طرح سے ڈاکٹر مظفر حنفی نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ہندوستانی کلچرو ثقافت اور تہذیب وتمدن اور ہندوستانی عناصر کو پیش کیا ہے۔انھوں نے کئی جامعات اور اسکول کے لیے ترانے بھی رقم کیے ہیں انھیں ترانوں میں سے ایک ترانہ پیش خدمت ہے۔یہ ترانہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے لیے تحریرکیا گیا تھا واضح ہوکہ حنفی نے نو ترانے سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے لیے ہی رقم کیے ہیں۔

ہندوستانی تہذیب و ثقافت،رسم ورواج، تہوار، مقام جگہ کا تذکرہ پروفیسر مظفر حنفی کی شاعری میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔اب ان کی شاعری سے شہر، گائوں، آسمان، زمین، جنگل، پیڑ پودے، پھل پھول، موسم، کھان، پکوان وغیرہ کے تعلق سے چندمتفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا

اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں

سادہ کاغذ کی کہانی کا پس منظر ہیں

دوج کا چاند، ہرے بانس چمکتا پانی

جھوم کر کیلے کے پودے نے بلایا تھا

وہ بھی نکلا کوئلے کی گرد میں لتھڑا ہوا

موسم نے کھیت کھیت اگائی ہے فصل زرد

سرسوں کے کھیت ہیں کہ جو پیلے نہیں رہے

ملہاریں گاتے ہیں مینڈک تال کنارے

آسمان پر بھورے بادل مٹک رہے ہیں

اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں

سادہ کاغذ کی کہانی کا پس منظر ہیں

جب گائوں ترقی کے لیے شہر میں آیا

ناپید ہوئے پھول ٹھکانے لگے جگنو

اس نے اس انداز سے جھٹکا اپنے بالوں کو

میری آنکھوں میں در آیا پورا کجلی بن

مظفر کس لیے بھوپال یاد آنے لگا

کیا سمجھتے تھے کہ دلی میں نہ ہوگا آسماں

مظفرحنفی کی ایک نظم ہولی کے عنوان سے ہے اسی کا ایک بند ملاحظہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اس میں کس حدتک ہندوستانی تہذیب اور کلچر وثقافت کو بیان کیا ہے اور مشہورو معرف تہوار ہولی کے بارے میں ان کا قلم کس طرح کا نقشہ کھینچتا ہے         ؎

گلشن پہ رنگ و نور کی بدلی سی چھائی ہے

پودوں کو ہے خمار، ہوا پی کے آئی ہے

پھولوں کو دیکھئے تو عجب دلربائی ہے

رنگینیوں سے آج مری آشنائی ہے

ہولی نئی بہار کا پیغام لائی ہے 

 منجملہ ایں کہ مظفر حنفی کی مجموعی خدمات کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھوں نے اردو ادب کی تقریباً تمام شعری و نثری اصناف میں اپنی تخلیقی و علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو ادب میں اہم اور نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ان کے مضامین اور شاعری میں بھی ہندوستانی عناصر کو ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستانی تہذیب و تمدن،کلچر وثقافت، علاقے، موسم، پھل اور پھول، تہوار اور شہروں کے ناموں کو بھی اپنی تحریروں میں جگہ دے کر ہندستانی عناصر کو مضبوطی دی ہے۔ انھوں نے ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں مثلاً ہندی، اڑیا، گجراتی بنگالی زبانوں کے افسانوں اور ناولوں کو اردو کا جامہ پہناکر اردو زبان وادب کو وسعت دی وہیں قارئین اردو کو ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں کے ادبیات کو بھی جاننے، پڑھنے سمجھنے،سیکھنے اور فائدہ اٹھانے کا حسین موقع فراہم کیا ہے۔ ان کی ادب کے تئیں سچی محبت، گہری لگن و جستجو،محنت کا جذبہ اورجہد مسلسل کے ذریعے ادب میں انھوں نے خود اپنا ایک اہم اور نمایاں مقام بنایا ہے۔ شاعر، ادیب، مترجم، محقق وناقد کی حیثیت سے ادب کے ہر میدان میں کامیابی سے گزر نے کی انھوں نے کوشش کی۔اسلوب کی طرح ان کی شخصیت کی بعض اہم خوبیاں ان کے ادب میں درآئیں مثلاً خلوص، محبت،ہمدردی اور اعتدال و توازن جوان کی شخصیت کی اہم خصوصیات ہیں وہی ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں جا بجا ہندستانی عناصر کو ملاحظہ کیا جا سکتاہے۔ بحیثیت صحافی ہو یا مدرس یا پھر شاعر و ادیب اور محقق و ناقد انھوں نے اپنی تحریروں میں اعتدال و توازن، خلوص و محبت کے جذبا ت کو برو ئے   کار لاکرادب میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایاہے اور اسی انفرادیت کی وجہ سے ان کا شمار اردو کی نامور ادبی ہستیوں میں ہوتا ہے۔            

 

Md. Khushtar

Department of Urdu

University of Hydrabad

Mob.: 8341116397

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...