19/7/18

شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری ۔ مضمون نگار:۔ محبوب الٰہی





شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری
محبوب الٰہی


ہندوستان کا مغلیہ شاہی خاندان نہ صرف یہ کہ ادب اور آرٹ کی سرپرستی کرتا رہا بلکہ اسے ادب اور فن سے گہری دل چسپی بھی تھی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ خود شاہی خاندان کے بہت سے افراد نے قابل قدر ادبی کارنامہ انجام دیا اور نظم و نثر میں اپنی یادگار چھوڑیں۔ انھیں میں سے ایک شاہ عالم ثانی آفتاب کی اہم شخصیت ہے۔ وہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دسواں مغل بادشاہ تھے۔ ان کی پیدائش 14 جون 1728 عیسوی میں ہوئی۔ جب مغلیہ سلطنت رو بہ زوال ہوچکی تھی۔
شاہ عالم ثانی آفتاب کو کئی مشرقی زبانوں پر دستگاہ حاصل تھی۔ حالانکہ ان کی پوری زندگی بے چینی میں گزری لیکن انھوں نے ہر حال میں ادب اور شاعری سے اپنی دلچسپی قائم رکھی۔ مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں ادب اور شاعری سے یک گونہ ذہنی سکون ملتا تھا۔ اور یہی ان کی تنہائی کا بہترین ہم نشیں ہے۔
شاہ عالم ثانی آفتاب نے اردو فارسی کے علاوہ بھاشا اور پوربی میں بھی شاعری کی ہے۔ شاعری سے انھیں کس قدر دلچسپی تھی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب بکسر کی جنگ کے بعد انگریزوں کی سرپرستی یا نگرانی میں الہ آباد میں بے کاری کے دن گزار رہے تھے۔ ان دنوں انھوں نے اردو فارسی اور ہندی تینوں زبانوں میں شاعری کی۔ غرض یہ کہ دربدری کے باوجود انھوں نے شعر و شاعری کو ترک نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وہ سفر میں بھی فکر سخن سے غافل نہیں رہتے تھے۔ خصوصاً جب غلام قادر خان نے شاہ عام ثانی آفتاب کی دونوں آنکھیں نکال لی تھیں تو وہ صرف کان اور زبان سے ہی دل بہلایا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے دور کے نامور شعرائے کرام جیسے حکیم ثناء اللہ خاں فراق، قدرت اللہ خاں قاسم، شاہ ہدایت میاں شکیبا، شیخ ولی اللہ محب وغیرہ اپنے کلام سے نابینا بادشاہ کو محظوظ کرتے اور ان کا دل بہلاتے اور بادشاہ کے کلام کی داد دیا کرتے تھے۔ خاص طور پر سید انشاء اپنے کلام کے علاوہ ادبی اور ظرافت آمیز باتوں سے شرکائے مجلس کو مسکرانے اور قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتے تھے۔ اس لیے شاہ عالم ثانی آفتاب کو ان سے زیادہ تعلق ہوگیا تھا اور وہ سید انشا کی سب سے بڑھ کر قدردانی کرتے اور ان کی ہر ضرورت اور فرمائش پوری کردیا کرتے تھے۔

شاہ عالم ثانی آفتاب صاحب دیوان شاعر تھے۔ اردو فارسی میں ان کے کئی شعری مجموعے تھے۔ فارسی زبان میں ان کی شاعری کا مجموعہ ’مثنوی منظوم اقدس‘ کے نام سے ہے اور اردو میں ان کے دیوان کا نام ’نادراتِ شاہی‘ ہے لیکن شاہ عالم ثانی آفتاب کا اردو دیوان جس کا ذکر ڈاکٹر اشپرنگر نے دیوان آفتاب کے نام سے کیا ہے وہ اب نایاب ہے یہی حال منظوم اقدس کا ہے مگر مختلف تذکروں میں ان کے اردو اشعار ضرور پائے جاتے ہیں۔

اب وہ شاہ عالم ثانی آفتاب کے اردو، فارسی، ہندی اور پنجابی کلام کا ایک مجموعہ یعنی ’نادراتِ شاہی‘ دستیاب ہے جسے رضا لائبریری رامپور نے 1984 میں شائع کیا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے: 
’’یہ کتاب اس عہد کی صاف ستھری ہندی زبان کا قیمتی نمونہ ہونے کے سبب ہندی ادب کی تاریخ میں نمایاں جگہ پانے کی مستحق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہ کے زمانے میں ہندوؤں کے حکومت سے کیسے تعلقات تھے قلعہ معلی میں اسلامی اور ہندوانہ کون کون سی رسمیں کس طرح برتی جاتی تھیں اور بادشاہ کو دیسی زبانوں سے کتنی دلچسپی تھی اس لیے یہ کتاب سیاسی اور سماجی حیثیت سے بھی بہت دلچسپ ہے، اور آخری صفت۔ جو اہمیت میں پہلی خوبیوں سے کس طرح کم نہیں۔ یہ ہے کہ اسے بادشاہ نے دیوناگری اور نستعلیق دونوں خطوں میں لکھوا کر اس مسئلے کا بڑا اچھا حل پیدا کردیا جو آج بھی ہندوؤں اور مسلمانوں سے طے نہیں ہوسکا۔‘‘ 
(بحوالہ مقدمہ: تقریب نادرات شاہی)
نادرات شاہی کے مطالعے سے اٹھارہویں صدی کے ان مذہبی اور معاشرتی رسوم اور تہواروں کا پتہ چلتا ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں رائج تھے۔ شاہ عالم ثانی آفتاب نے ان کا ذکر اس انداز سے کیا ہے جس سے یہ اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے کہ عید، بقرعید، شب برات، چھٹی، بسم اللہ، منگنی، مہندی، ہولی اور دیوالی وغیرہ جیسے رسوم اور تہواروں کو وہ خود قلعے کے اندر منایا کرتے تھے۔ ذیل میں عید پر ایک شعر ملاحظہ ہو:
جو ماہ عید، اس پر رہے گی نظر جہاں
تعریف ہوسکے نہیں، کچھ تیرے ابرواں کی
(بحوالہ صف نمبر 9 نادرات شاہ)
مذکورہ شعر میں عید کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن اس شعر کا مرکزی خیال عید نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ماہ عید آتا ہے تو شاعر کو اپنے محبوب کی یاد شدت سے آنے لگتی ہے چونکہ عید خوشیوں کا تہوار ہے اور اس مناسبت سے محبوب کا بننا سنورنا اور ا س کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے تو عاشق کے لیے راحت کا باعث بن جاتا ہے۔ اصل جو خاص بات ہے وہ یہ کہ عید کے لفظ کا استعمال شاہ عالم ثانی آفتاب نے اس شعر میں کیا ہے جس سے ان کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک شعر میں ’عید‘ اور ’شب برات‘ دونوں کا استعمال ایک مصرعہ میں کس خوبصورتی سے کیا ہے ذرا ملاحظہ کیجیے ؂
دن عید کا ساگر ہو، اور شب برات کی رات
تو ہی نہ ہو، تو پھر یہ دن رات کچھ نہیں ہے
(بحوالہ صفحہ نمبر 17 نادرات شاہی)
عید ہو یا شب برات بغیر محبوب کے سب بیکار ہے، مزہ تو تب ہے کہ ہر دن ہو اور ہر رات شب برات ہو عید قربان پہ بھی ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
عید قربان، بتو، ای شاہ، مبارک باشد
ہر زمان شادی دلخواہ مبارک باشد
(بحوالہ صفحہ نمبر 78 نادرات شاہی)
اس طرح سے ہم نے دیکھا کہ ان کی شاعری میں کتنی جہات ہیں۔ اب ہولی پہ بھی ایک شعر دیکھیے:
آج رنگ کھیل آئیں سکل برج کی ناری
چووا، چندن، عبیر، گلال اور پچکاری رنگ ماری
(بحوالہ صفحہ نمبر 141، نادرات شاہی)
شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کسی مقصد کے تحت نہیں تھی اگر مقصد ان کی شاعری پہ غالب ہوتا تو مختلف تہواروں کا ذکر ان کی شاعری میں نہیں ہوتا۔ اس سے ان کی آزاد خیالی کا اندازہ ہوتا ہے جس میں گنگا جمنی تہذیب کی ترجمانی دکھائی دیتی ہے سلطنت کی پیچیدہ ذمے داریوں سے دست برداری کے بعد ان کی شاعری میں ان کے احساسات کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔
اٹھارہویں صدی اردو ادب و شاعری کے لحاظ سے ایک عظیم اور انقلابی دور تھا اس صدی میں سیاسی تبدیلی رونما ہوئی۔ شاہ عالم ثانی آفتاب نے اسی سیاسی اور لسانی انقلاب کی صدی میں فارسی، ہندی اور پنجابی کے علاوہ اردوئے معلی میں نہ صرف شاعری کی بلکہ نثر میں ’عجائب القصص‘ جیسی تاریخی اہمیت کی حامل داستان بھی تصنیف کی۔
شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری خصوصاً غزل اگرچہ اپنے دورکے بلند پایہ اور نامور شعرا جیسے میر، سودا، اور درد کے ہم پلہ نہیں بلک دوسرے درجے کی شاعری ہے لیکن ان کی شاعری اس دور کی تہذیب اور روایت کی عکاس ہونے کے اعتبار سے یقیناًمنفرد اور ممتاز ہے۔ چنانچہ امتیاز علی خاں عرشی نے شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’ان کے شعروں کی خاص خوبی یہ ہے کہ ان میں پیچ دار خیالات، مشکل فقرے یا لفظ اور دورازکار تشبیہیں نہیں ملتیں۔ ان کی شاعری جذبات کی شاعری ہے جو کچھ دل پر گزرتی ہے۔ خوشی ہو یا رنج، آرام ہو یا تکلیف اسے سادہ طریقے سے بیان کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں شان و شکوہ کم مگر اثر زیادہ ہے۔ ممکن نہیں کہ آپ ان کے شعر پڑھیں اور پڑھ کر ان کی خوشی یا رنج کے ساتھی نہ بن جائیں۔ رہ گئی زبان تو وہ قلعہ معلی کے ممتاز رکن تھے۔ ان سے زیادہ ستھری اور پاک صاف اردو کون لکھ سکتا تھا وہ جو کچھ لکھ گئے ہیں ہمارے لیے سند ہے۔ ایسی سند جس کے روبرو میر اور سودا جیسی تحریریں بھی ناقابل قبول ہیں۔ چنانچہ آپ ان کے عہد کے شاعروں کے کلام سے مقابلہ کریں تو زبان کے لحاظ سے بڑے سے بڑے شاعر کو بھی ان کا ہم پلہ نہ پائیں گے۔‘‘
مثال کے طور پر ایک غزل ملاحظہ ہو ؂
مطلوب دل ہمارا، اے گلعزار، تو ہے
سب گل رخاں پے غالب، بے نوبہار، تو ہے
مجھ کو نہ سیر بھاوے باغوں کی اور گل کی
میرے بہار دل کی، اے میرے یار، تو ہے
سورج مکھی کیا دل اس آفتاب رو نے
اودھر کو دل پھرے ہے، جیدھر کو یار تو ہے
دل بیقرار ہر دم تیرے فراق میں، آہ!
مجھ بیقرار دل کا، پیارے، قرار تو ہے
مجھ زلف میں پھنسا ہے دل آفتاب کا اب
اب دیں رہا نہ اسلام، زناردار! تو ہے
(بحوالہ نادرات شاہی، ص 22)
مذکورہ بالا اشعار سے شاہ عالم ثانی آفتاب کے رنگ وآہنگ اورطرز ادا کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اس غزل میں جو کہ غزل مسلسل ہے جس کا کلیدی لفظ دل ہے اوردل کو مختلف طریقہ سے تقریبا ہر مصرعہ میں برتنے کی کوشش کی ہے اورجب کسی شاعر کے یہاں دل اور گل یا پھر گل وبلبل کی باتیں ہوں تو قاری کا ذہن عشق وعاشقی کی طرف منتقل ہوہی جاتا ہے ،شاہ عالم ثانی آفتاب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں معلوم ہوتے ہیں چونکہ جس کرب کا اظہار وہ مذکورہ غزل میں کررہے ہیں یہ انھیں کا خاصہ معلوم ہوتا ہے اور اس غزل کے پہلے ہی مصرع میں اپنے مقصدکا اظہار کررہے ہیں کہ اے گلعزار میرے دل کا مقصد توہی ہے اورتمام گلوں پر فوقیت حاصل ہے تمھاری اس خوبی اورخوبصورتی کو دیکھ کر میرا دل ہی نہیں کرتا کہ باغوں کی طرف جاؤں اور گلوں کا نظارہ کروں ہم جو کچھ بھی دیکھنا چاہتے ہیں وہ سب تمھارے یہاں موجود ہے میرے یار اوردل کے بہار بلکہ سورج مکھی کی طرح تمھارا چہرہ ہے میرادل بھی اس پھول کے مانند ہے جس پھول کا رنگ تم سے مشابہت رکھتا ہے۔غزل کے تیسرے مصرع میں شاہ عالم ثانی نے آفتاب کا لفظ استعمال کیا ہے اور ان کا تخلص بھی آفتاب ہے اسے نہایت ہی چابکدستی کے ساتھ ذومعنی استعمال کیا ہے تخلص کی وجہ سے شعر کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے پوری غزل میں خیالات کا تسلسل برقرار ہے جبکہ غزل کا ہر مصرعہ جداگانہ ہوتا ہے لیکن شاہ عالم ثانی کی یہ انفرادیت کہ غزل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔اور مرکزی خیال سے قاری کو بھٹکنے نہیں دیتا اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان کی بیشتر غزلوں کا رنگ ایک ہی طرح کا ہے وہی خیالات کا تسلسل یہ غزل کی خوبیوں میں شمار ہوتا ہے شاہ عالم ثانی جس وقت یہ شاعری کررہے تھے وہ اردو کا ایک طرح سے ابتدائی زمانہ ہے اورمغلیہ سلطنت کے زوال کا اس وقت ہندوستان کی دفتری زبان فارسی ہواکرتی تھی اس اثنا میں اردو نے اپنی آنکھیں کھولنی شروع کردیں۔
ڈاکٹر خاور جمیل نے شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کے اوصاف و خصوصیات کے ساتھ اس میں پائے جانے والے بعض نقائص اور عیوب پربھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
’’انھوں نے شاعری صرف تفنن طبع کے طو رپر نہیں کی بلکہ پوری سنجیدگی سے کی ہے۔ انھیں ادب و شعر کا ملکہ قدرت نے ودیعت کیا تھا۔ شاہ عالم نے اپنے دور پر شاعر و ادیب بادشاہ کی حیثیت قابل ذکر اثرات چھوڑے ہیں۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’بحیثیت مجموعی شاہ عالم کی غزل اٹھارہویں صدی کی نمائندہ غزل ہے۔ ان کی شاعری آپ بیتی ہے جو کچھ دل پر گزرا ہے اسے بیان کردیا۔ اس تخلیقی عمل میں شاعری کی آواز میر، سودا، درد کی طرح تو نہیں ابھرتی لیکن لہجے اور زبان کالوچ، اظہار کی گرمی، جذبہ و احساس کی قوت ایسی اور اتنی ضروری ہے کہ ان کا شعر ہمیں آج بھی متاثر کرتا ہے۔‘‘
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ غلام قادر خاں نے شاہ عالم کی دونوں آنکھیں نکال لی تھیں۔ چنانچہ آنکھ جیسی چیز سے محرومی کے بعد بھی انھوں نے جو شاعری کی اس میں انھوں نے آنکھ کو کئی طرح سے استعمال کیا ہے اور جس لاچاری اور کرب سے انھیں سابقہ پڑا اس کا اظہار انھوں نے کئی غزلوں میں اور مختلف پیرایہ میں کیا ہے۔ مثلاً ؂
لاچار ہوں میں اپنی آنکھوں کے بات یارو
کرتی ہیں دشمنی نت یہ میرے سات یارو
(بحوالہ صفحہ نمبر 5 نادرات شاہی)
یہاں دو غزلوں کے دو دو اشعار درج کیے جاتے ہیں جن میں شاہ عالم ثانی نے آنکھیں نہ ہونے کے دکھ اور لاچاری کو بیان کیا ہے ؂
کرتی ہیں میرے دل پر جو کچھ جفا سو آنکھیں
تقصیر نہیں کسو کی جو ہیں بلا سو آنکھیں
خوباں سے آشنا ہو بیگانہ ہم سے ہوگئیں
دیکھی ہی سب جہاں میں نا آشنا سوآنکھیں
(بحوالہ صفحہ نمبر 12 نادرات شاہی)
دست ستم سے اس بت ظالم کے دل کو اب
ہرگز نہیں نباہ ان آنکھوں نے کیا کیا
اے آفتاب! کر نہیں سکتا ہوں کچھ بیاں
مجھ سے سلوک واہ ان آنکھوں نے کیا کیا
(بحواہ صفحہ نمبر 22 نادراتِ شاہی)
شاہ عالم ثانی آفتاب نے نہ صرف غزلیں اور نظمیں کہی ہیں بلکہ مختلف رسوم اور تہواروں کے موقعوں کے لیے کبت، سوہرے، ترانے وغیرہ کے علاوہ شادی بیاہ کے موقعے کے لیے سیٹھنے بھی کہے ہیں۔ اس طرح تمام مواقع کے کے لیے گانے والو ں اور گانے والیو ں کو بول دیے ہیں۔ 
چنانچہ خود قلعہ معلی کے اندر ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہر قسم کے تہوار منائے جاتے تھے جس میں شاہ عالم دلچسپی لیتے تھے اور گویوں اور مراثنوں کو قلعہ معلی اور دیگر مقامات پر ہونے والی تقریبات میں گانے کے لیے ایسی شاعری اور بول کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس ضرورت کو شاہ عالم نے صرف محسوس ہی نہیں کیا بلکہ خود اپنی شاعری کے ذریعے وقت کی اس ضرورت کو پورا کیا۔
شاہ عالم ثانی آفتاب کی شاعری کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری ہر سطح کے لوگوں کے لیے ہے جس میں تنوع ہے ایک ایسا شاعر جس نے عید بقرعیدپہ شاعری کی ہے تو ہولی دیوالی نوروزوغیرہ کو بھی اپنے احساسات کے قالب میں ڈھالا ہے اسی وجہ سے ان کی شاعری میں گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی ملتی ہے۔بادشاہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے لوگوں سے ان کا رابطہ رہا ہے۔ چونکہ بادشاہ کے دربار میں ہرطرح کے لوگوں کا آنا جانا لگارہتا ہے اور مختلف النوع خیالات کی رعایا سے ان کا ملنا جلنا اور بات کرنا ایک اچھے بادشاہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ احساسات کے شاعر تھے تو بیجا نہ ہوگا ان کی شاعری ایک ایسے دور کی غماز ہے جو کسی تحریک سے وابستہ نہیں عمر کے آخری ایام میں آنکھوں کی بینائی کے جانے کے بعد انھوں نے اپنے محض احساسات سے جس طرح کی شاعری کی ہے اسے پڑھنے کے بعد رقت سی محسوس ہونے لگتی ہے زبان نہایت ہی سادہ ہے اور ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں لانا شاہ عالم ثانی آفتاب کی خصوصیت معلوم ہوتی ہے مغلیہ سلطنت کا یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ جسے وقت اور حالات نے کچھ اس طرح مجبور کردیا تھا کہ ایسے حالات میں وہ اس کے علاوہ اپنی شاعری میں کہہ بھی کیا سکتے تھے ہر کیف انہی خصوصیات کی وجہ سے ہم ان کی شاعری پر آج کے دور میں بھی نظر ڈالیں تو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی عکاس نظر آتی ہے۔


Mahboob Ilahi

F-39, Near Nisar Masjid

Shaheen Bagh, Jamia Nagar
New Delhi - 110025


Mob: 9811148447, Email:elahi1983@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں