23/7/18

فضیل جعفری اور لحنِ شور انگیز ۔۔ مضمون نگار:۔ پروفیسر عتیق اللہ






فضیل جعفری اور لحنِ شور انگیز
پروفیسر عتیق اللہ

فضیل جعفری بھی نہیں رہے (وفات30اپریل 2018) فضیل الہ آباد کے تھے۔ وہیں ایم اے انگریزی ادبیات تک تعلیم پائی۔ شروع ہی سے بے حد سرگرم اور فعال تھے۔ ان کے اپنے کچھ اصولِ زندگی تھے اور کچھ نظریاتِ ادب جنھیں عقیدت کی طرح انھوں نے حرزِ جاں بنا کر رکھا تھا۔ ارادے کے مضبوط تھے۔ سو ثابت قدم رہے۔ انحراف، انکار اور اپنے قول پر قائم رہنے میں کبھی اپنے آپ کو کم زورنہیں ہونے دیا۔ تھے جعفری خاندان کے فرد لیکن اپنی آن بان میں ولایتی پٹھانوں جیسا کرو فر تھا جو ایام جوانی میں شدید تھا اور یہ شدت کسی نہ کسی طور سے اورنگ آباد تک برقرار رہی، بمبئی جانے کے بعد تھوڑی سی دم لینے کی منزل بھی آئی مگر خود کو پسپائی، مورچہ چھوڑنے یا گوشہ گیری کا موقع فراہم نہیں کیا۔ میں جب 1971 میں اورنگ آباد منتقل ہوا تو وہاں ان کی یادوں کے محض کچھ نقوش لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ تھے۔ بعض حضرات کا خیال تھا کہ ان کی شخصیت میں کجی تھی لیکن وہ کج رو نہیں تھے، بعض کے لیے انا پرست، بعض کے لیے دوستوں کے دوست، اخلاق مند، بے ریا،بے لوث۔ اتنی بہت سی خوبیوں کی جو شخصیت مالک ہو اس میں ا گر تھوڑی سی کجی ہو، وہ تھوڑاسا خود سر ہو تو اسے انگیز نہ کرنے میں کوئی اور چیز مانع نہیں آسکتی۔ یہ کم نہیں کہ وہ خود سر تھے خود سِتا نہیں تھے۔ خود رائے تھے خود خواہ نہیں تھے۔ اسی لیے اردو ادبی معاشرے میں ا نھوں نے پبلک رلیشننگ پر کبھی یقین نہیں کیا۔ دربارداری سے ہمیشہ دامن کش رہے۔ ان کی فرہنگ حیات میں تشہیربازی کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ یہی ان کی سعادتیں تھیں اور یہی انعام و اکرام۔
مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ الہ آباد یونیورسٹی کے لائق طالب علم ہونے کے باوجود وہاں اپنے لیے کوئی راہ کیوں نہیں نکال سکے یا ملازمت کے حصول میں ان کا مزاج مانع آتا رہا۔ جامعات کے شعبے عموماً امیدواروں کی اہلیت کو کم ان کی خدمت گزاری، چاپلوسی اور غلامانہ ذہنیت کو زیادہ اہل اور مستحق سمجھتے ہیں۔ فضیل جعفری مرحوم کوا ماں ملی بھی تو کہاں، سلطنتِ آصفیہ کا شہر اورنگ آباد، جسے ملک عنبر نے بسایا تھا اورنگ زیب نے جب اسے اپنا مستقر بنایا تو اس کانام اورنگ آباد ہوگیا۔جو دولت آباد سے بیس بائیس میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ دولت آباد وہی ہے جسے محمد بن تغلق نے ہندوستان کا دارالسلطنت قراردیا تھا۔ جب فضیل اورنگ آباد پہنچے تو محمد بن تغلق کو دولت آباد سے رخصت ہوئے تقریباً چھ سو برس ہوچکے تھے اور اورنگ زیب کاانتقال 1707 میں ہوچکا تھا۔سارا میدان خالی پڑا ہوا تھا۔ ان حالات میں اورنگ آباد میں فضیل کا ورود بامسعود ہوا جہاں بزرگوں میں مولوی یعقوب عثمانی مرحوم تھے۔ ان کے علاوہ سکندر علی وجد،جوگندرپال، قاضی سلیم، بشر نواز، قمر اقبال، شیخ عصمت جاوید، صفی الدین صدیقی، شمیم احمد، صادق، جاوید ناصر، رفعت نواز، عارف خورشید، یوسف عثمانی وغیرہ سے ادب کی انجمن آراستہ تھی۔ اس پر فضیل کی آمد آمد سونے پر سہاگا۔ جدیدیت کا بگل بج چکا تھا، سوغات، تلاش اور تخلیق کے علاوہ جس رسالے نے سارے منظرنامے کی کایا ہی پلٹ دی تھی، وہ تھا شب خون (الہ آباد) یعنی فضیل کی زاد بوم اور ترقی پسندوں کا مرکز۔ فاروقی نے شب خوں مار کے ترقی پسندوں پر ایسی ضرب لگائی کہ ادب کا میدان ایک اکھاڑے میں بدل گیا۔ وہ تو شکر کیجیے کہ اصلی ترقی پسند جنگ باز تو بڑھاپے کی کگار پر تھے اور قویٰ مضمحل ہوچکے تھے جب کہ جدیدیوں کی پلٹن نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ وہ زیادہ پرجوش، سرکش اور نئے ادبی رجحانات کا علم رکھتے تھے۔ انھیں میں فضیل جعفری بھی تھے، جو شاعر پیدا ہوئے تھے اور اپنے انداز کے منفرد غزل گو تھے لیکن انگریزی بحرِ ادبیات کے شناور بھی تھے۔ ایک تو اورنگ آباد کی فضا نے مہمیز کی دوسرے علم کا زور، تیسرے جنگ بازی کو کھیل سمجھنے کا شوق۔ بس فضیل بھی محاذ آرا ہوگئے۔ جدیدیت کی خوب وکالت کی، ترقی پسند ادیبوں کی خوب خبر لی۔ دلائل کی دھونس دی، آہنگ کو بلند رکھا، شعر شورانگیز نہ کہاہولیکن لحنِ شور انگیز ضرور رکھا۔
فضیل جعفری ان معدودے چند نقادوں میں سے ہیں، جن کی تحریروں کا مجھے شدت سے انتظار رہا کرتا تھا۔ انتظار اس لیے کہ ’بے باکی اور صاف گوئی‘ ان کی تنقیدی گفتار کی ایک نمایاں شان ہے۔ میرے نزدیک وہ محمد حسن عسکری، سلیم احمد، شمیم احمد(پاکستان) اور وارث علوی کی قبیل کے نقاد ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ فضیل محض چھیڑخانی پر اکتفا نہیں کرتے ، وہ نہ استدلال پر تاثر کی بے محابا رَوکوحاوی ہونے دیتے ہیں نہ اپنے دعوے کو دیگر غیرمتعلق جزئیات میں گم ہونے دیتے ہیں۔ فضیل جعفری کی نئی تنقیدی کتاب ’آبشار اورآتش فشاں‘ (جس میں سنہ اشاعت 2007 درج ہے اورجسے قومی کونسل دہلی نے شائع کیا ہے) ان کے اِسی شعار کے ساتھ مخصوص ہے اور جو گیارہ طویل مقالات پر مشتمل ہے۔
فضیل جعفری کی پہلی تنقیدی تصنیف ’چٹان اور پانی‘ (1974) شروع سے آخرتک کئی متنازع ادبی مسائل کومحیط تھی۔ ان دنوں فضیل جعفری جو ان العمر تھے اور وہ جدیدیت کازمانہ عروج تھا۔ محمودہاشمی ، خلیل الرحمن اعظمی، وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی اورگوپی چند نارنگ کی تحریریں جدیدیت کا روزمرہ بن گئی تھیں۔ احتشام حسین اور عمیق حنفی کے مناظرے نے ان مباحث میں کافی شدت و حدت پید اکردی تھی۔ اسی دوران فضیل بھی جدیدیت کے ایک اہم علم بردار کے طور پر ابھرے اور اس فتیلے کو آگ دکھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ’چٹان اور پانی‘ میں انھوں نے ترقی پسندی کے برخلاف جدیدیت کو قائم کرنے نیز جدیدیت سے متعلق ان شکوک وشبہات کو دور کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جو قریب ترین پیش رَووں کی طرف سے پیدا کیے گئے تھے۔
فضیل اردو ادب کے استاد نہیں تھے اس لیے نصابی قسم کا کوئی مضمون ’چٹان اور پانی‘ میں عنوان نہیں بنا۔ بیش تر مقالات متنازعہ، ہنگامہ خیز، بحث طلب اور معاصر ادبی مسائل کو مختص تھے۔ زبان بہت ڈھیلی ڈھالی، اکھڑی اکھڑی بلکہ اکثر صحافتی نوعیت کا شائبہ فراہم کرتی تھی۔ اس دور میں فضیل کی نظر بس مسئلے پر ہوتی تھی کہ کہیں کوئی بحث کی راہ نکل آئے تو پھر ان کو روکنا مشکل تھا۔آؤ دیکھتے نہ تاؤ پل پڑتے۔ وہ اکھاڑ پچھاڑ مچاتے کہ ادبی ماحول عین سرما کے ٹھٹھرتے ہوئے دنوں میں بھی گرماگرم ہوجاتا اور پھر یار لوگوں کی وہ داد و دہش ملتی کہ فضیل اکھاڑہ چھوڑنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ بشرنواز بھی کم من چلے نہیں تھے۔ رسالوں کے کیڑے تھے۔ مجال ہے کوئی تحریر ان کی نظر سے بچ جائے۔ فضیل کو وہ اور بشر کو فضیل شہ دیا کرتے تھے۔ ایک اعتبار سے فضیل انھیں پٹری پرلے آئے۔ بشر بھائی نے ان دنوں کئی نہایت عمدہ مضامین لکھے۔ نثر بھی خوب لکھتے تھے اور فضیل سے اچھے نثر نگار تھے لیکن بشر بھائی کو بھی بس کوئی مسئلہ درکار تھا، جہاں کوئی ادبی مسئلہ کھڑا ہوا، بشر بھائی بھی اٹھ کھڑے ہوتے اور بے حد مدلل اور جامع گفتگو کرتے۔ فضیل کا انگریزی ادبیات کا پس منظر تھا اس لیے ان کی دلیلوں کی نہج کچھ اور ہوتی۔ فضیل جب تک اورنگ آباد میں ا نگریزی کے استاد رہے۔ شاعری کم کی مجادلے اور مناظرے زیادہ کیے۔ الہ آباد والے تھے اس لیے شب خون مارنا جیسے ان کی فطرت میں شامل تھا۔ معاف کیجیے گا یہ جملہ محض معترضہ تھا ورنہ فضیل کبھی شب خوں نہیں مارتے دوبدو، دو ٹوک،صاف اور شفاف گفتگو کرتے۔ا ن کے اورنگ آباد سے جانے کے بعد بشر بھائی نے بھی تنقید کاکاروبار چھوڑ دیا، قاضی سلیم اپنی عادت کے مطابق میٹر گیج گاڑی کی طرح سست رفتاری پر قائم رہے۔ سلیم بھائی کا دربار سلامت تھا، ادبی مسائل کے حل کے لیے وہی ایک محفوظ جگہ تھی اور جوگندرپال کا دم غنیمت تھا، جو پھونک پھونک کر اورنگ آباد کی ادبی فضا کو تازہ دم رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
’آبشار اور آتش فشاں‘ کے بالترتیب دو مضامین موسوم بہ ’ساختیاتی کباب میں رد تشکیل کی ہڈی‘ اور تھیوری، امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعدجدیدیت ‘ میں مابعد جدیدیت پر فضیل اسی طرح حملہ آور ہوئے ہیں جس طرح ’چٹان اورپانی‘ میں ترقی پسندوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ان مضامین کو پڑھنے کے فوری بعد یہ ضرور محسوس ہواتھا کہ فضیل کی نگاہیں کہیں پرتھیں اورنشانے پر کوئی اورتھا۔ ورنہ دونوں مضامین میں محض ان حوالوں کو بنیاد بنا کرباتیں زیادہ بنائی گئی ہیں جو تصویر کے محض ایک رخ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ گوپی چند نارنگ کو ذہن میں رکھے بغیر ان نظریات کے برمحل اوربے محل ہونے ہی پر اپنے موقف کی بنیاد رکھی جاتی جن سے اس کے تناظر کی تشکیل ہوئی ہے۔ جدیدیت خود ایک صورت حال تھی، جس نے مغرب میں مذہبی سطح پراصلاح وانکار کی روش کوہوا دی تھی اور جوبہ یک وقت ادب ہی نہیں مصوری، موسیقی اور آرچی ٹیکچر کے اسالیب پر اثرانداز ہوئی تھی۔ ایڈولف لوز کے اس تصور نے ایک اشتہار کی صورت اختیار کرلی تھی کہ Decoration is a crime لاکور بسے کا یہ تصور کہ A house is a machine for living بہت مشہور ہوا تھا۔ اسی کی تمثیل کی ایک صورت اس زمانے کے ’جوتاگھروں‘ اور ’دنبل دارعمارتوں‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مابعد جدیدیت کے اثرات زِگمنٹ بامین اورانتھنی گڈنس وغیرہ کے عمرانیاتی مطالعوں، بین الاقوامی رابطوں پرجیمس ڈیرڈیرین اورسیاست، اخلاقیات اور شناخت وغیرہ موضوعات پر جان ارّی اور اسکاٹ لیش وغیرہ کے مابعدجدید مطالعوں سے نئی اور بدلی ہوئی صورت حال کوبخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ بالخصوص سوزان ہیکمن، اسٹیون سیڈمین، ڈونا ہراوے اور کیتھرین ہیلیس کی تحریروں سے جنسی سیاسیات، تہذیبی شناخت، سائبرنیٹکس، جدیدبرقیاتی تکنالوجی اور ادب وغیرہ میں جو غیر روایتی اوربنیاد مخالف تصورات نے راہ پائی ہے، اسے مابعد جدید صورت حال ہی سے ملحق کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مختصر تحریر میں فضیل جعفری کے خیالات پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی نہ توگنجائش ہے اور نہ ہی مجھے مناظرہ آرائی سے کوئی خاص ذہنی نسبت ہے، بس اتنا ہی کہناچاہوں گاکہ جوحوالے انھوں نے مابعدجدیدیت کو مسترد کرنے کی غرض سے یکجا کیے ہیں وہ یقیناًکم اہم نہیں ہیں لیکن مابعد جدیدیت کے حق میں جن کتابوں کا ایک انبارسا لگا ہے، انھیں چھونے کی بھی انھوں نے زحمت نہیں کی۔ ساختیات پس ساختیات کی قدر وقیمت گھٹانے کے ساتھ ان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ’’شمس الرحمن فاروقی نے پہلے غالب اورپھرمیر کے صدہا اشعار کی تشریح جس انداز میں کی ہے اس کے ڈانڈے ساختیاتی اور پس ساختیاتی تنقید سے ہی ملتے ہیں (سب سے پہلے میں نے ہی ڈی کنسٹرکشن کے ذیل میں فاروقی کے اس اطلاقی عمل کی طرف اشارہ کیاتھا، جو ادبی اصطلاحات کی وضاحتی فرہنگ بابت 1996 میں شامل ہے)۔ فضیل نے خلیل مامون کے بارے میں لکھا ہے کہ ایڈمنڈہُسرل اور مارٹن ہیڈیگر کے فلسفہ لسان پر سب سے پہلے انھیں نے بحث کی تھی۔ جب کہ ستر کے دہے میں محمدعلی صدیقی نے نہ صرف انھیں اپناموضوع بنایاتھابلکہ ساختیات کے عنوان سے پہلا مضمون بھی انہیں کا لکھا ہوا ہے، جو ان کی پہلی تنقیدی کتاب ’توازن‘ میں شامل ہے۔ مظہری ساختیات یا پس ساختیات پر ہائیڈیگر کے اثرات اورہائیڈیگر زندہ خداؤں کے درمیان جیسے مضامین میں ضمیر علی بدایونی نے ایسے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرلیا ہے جنھیں دیگر نقادوں نے چھوا تک نہیں تھا۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردوں کہ وجودیت پر سب سے پہلا مضمون بھی ضمیرعلی بدایونی کا تھا۔ یہ مضمون ’اقبال وجودیوں کے درمیان‘ کے عنوان سے ’ماہِ نو‘ (کراچی) میں شائع ہوا تھا۔
فضیل جعفری نے مابعد جدیدیت کے تعین زماں کے مسئلے پر بھی بحث کی ہے۔ جدیدیت کے آغاز اور خاتمے کے بارے میں بھی ہم کسی ایک تاریخ پر متفق نہیں ہوسکتے۔ آخری تجزیے کے طور پر بس یہی کہہ کرتسلی کرلی جاتی ہے کہ جدیدیت ایک سلسلہ جاریہ ہے اور ہردور کی جدیدیت کے اپنے تقاضے اوراپنی پہچان کے معیار ہوتے ہیں۔ ایندریو بینیٹ بھی مابعدجدیدیت کے تعلق سے اس خیال کاحامی ہے کہ مابعد جدیدیت میں ’مابعد‘ کاسابقہ خود ایک استبعاد کا حکم رکھتا ہے۔ کیوں کہ (مابعد :Post) یاعصری (جدید:Modern) کے بعد کیا۔ عصری کے بعد کیسے کوئی چیز واقع ہوسکتی ہے۔ جب کہ عصری محض عرصۂ رواں سے عبارت ہے۔ اس صورت میں وہ مابعد جدیدیت کے کسی بھی زمانی تعین کے خلاف ہے۔ جیسے جدیدیت کے لیے وقت کا تعین خودایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اگرمعروضیت کے ساتھ غور کیا جائے تو جدیدیت کی قائم کردہ Vocabulary اور مابعد جدیدیت کی Vocabulary کے تقابل ہی سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ (خصوصاً) ادبی مطالعے میں دونوں میں جتنا اتفاق ہے اختلاف اس سے کم نہیں ہے۔ جدیدیت کی طرح مابعد جدیدیت سے بھی اختلاف کی کافی گنجائش ہے، لیکن مابعد جدیدیت نے ادب کی تفہیم کے دائرے کو وسیع بھی کیاہے اورانکار کی اس روش کو برقرار بھی رکھا ہے، جس کے لیے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ انکاریت ایک ایسی وبا ہے جو مغربی معقولیت پسندوں کی طویل روایت، استقامت اور اخلاقی نفاست کے تئیں ایک چیلنج کا حکم رکھتی ہے۔ مابعدجدید تصورکے تناظرمیں ردتشکیل Deconsrtuction کی خاص اہمیت ہے، جس کے بارے میں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ کیا واقعی اس کا مقصد ہر اس روایت کوتہس نہس کرنا ہے (جیسے جدیدیت کے تشکیلی تناظر میں مستقبلیت اور دا دائیت وغیرہ کے علاوہ ایبسرڈِٹی کے تصور کا خاص حصہ تھا جن کی بنائے ترجیح NO پر تھی)جو صدیوں سے نکھرتی،سنورتی اورمنتقل ہوتی چلی آرہی ہے یااس تنظیم ہی کی مخالفت اس کے مقصد میں شامل ہے جوانسانوں کو یکجہتی کے ساتھ زندگی بسرکرنے کے بلند کوش مقصد پر استوار ہے۔ کیا ردتشکیل کے پاس ان شبہات کا کوئی تدارک ہے کہ اس نے بھی Cynic علم و اشاعت کے لیے زمین تیار کی ہے جودانش ورانہ منظرنامے میں ایک ایسے مہلک کیڑے کی طرح ہے جو نباتات کواندر اور باہرکی طرف کھوکھلا اور چھلنی کردیتاہے۔
فضیل جعفری کی اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے نظریات کے مباحث کو محض دو مضامین تک محدود رکھا ہے۔ دوسرے تمام مضامین کاتعلق اطلاقی سے زیادہ عملی تنقید سے ہے۔ عملی تنقید میں فضیل پہلے سے قائم کردہ دعووں کی تکرار سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ اپنے اس عمل میں وہ دوسروں نقادوں کی طرح مغربی حوالوں کی بارات بھی نہیں سجاتے اور نہ ہی اقرار پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ ’انکار‘ ان کی تنقید کا بھی سب سے نمایاں کردارہے۔ ’پریم چند کو سمجھنے کی ایک ناتمام کوشش‘ اس ذیل میں توجہ کے لائق ہے۔ پریم چند کا نام اور اردو فکشن کی روایت میں ایک آرچی ٹائپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انتظار حسین نے جس طور پر پریم چند کو رد کیاتھا، جدیدیت نے اس سے کہیں زیادہ پریم چند کو بے اوقات ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ جس سے پریم چند کاتو کچھ نہیں بگڑا ہماری ایک پوری نوجوان نسل ضرور گم کردہ راہ ہوئی۔فضیل نے پورے استدلال اور قوت کے ساتھ پریم چند کے غیرمعمولی Contribution کو ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ فضیل کا یہ خیال نہایت درست ہے کہ ’’پریم چند کے افسانوں کا کینوس بہت وسیع ہے‘‘ اور یہ بھی کہ ’’منٹو، بیدی، کرشن چندر اورغلام عباس وغیرہ نے غیر محسوس طریقے سے پریم چند کی حسیت کی توسیع کی ہے‘‘ لیکن خطابت وحمایت کی دھن میں وہ بعض مقامات پر غیرضروری وکالت کرتے ہوئے عجیب سا تاثرمہیا کرتے ہیں۔ وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ پریم چند نے جن راجپوت روایات (خود داری ، قوم پرستی اورحب الوطنی وغیرہ) کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایاہے وہ ہمارا قیمتی ورثہ ہی نہیں ہمارے لیے ایک زندہ حقیقت بھی ہے۔(تسلیم) لیکن وہ یہ نہیں بتاتے ہیں کہ ان افسانوں کی فنی قدر کیا ہے۔ محض کسی قدر کو Glorify کرنے سے کوئی بھی تحریر ، تخلیق کادرجہ حاصل نہیں کرلیتی۔ پریم چند کے یہاں اور بھی بہت کچھ ہے، جس میں تنوع بھی ہے اور جو تخلیقیت کے اعتبار سے بھی کافی اہم ہے۔
فضیل جعفری نے غلام عباس یااحمد ندیم قاسمی پر قلم اس لیے نہیں اٹھایا ہے کہ وہ ان کے نزدیک اہم فکشن نگار ہیں بلکہ اس لیے کہ انھیں مسلسل نظرانداز کیاجاتارہاہے۔ غلام عباس یقیناًایک اہم افسانہ نگار ہیں اور بقول فضیل منٹو، کرشن چندر، بیدی اورعصمت کے ساتھ ان کانام بھی لینا چاہیے۔ فضیل نے مجموعاً غلام عباس کی تکنیک کو موضوع بحث بنایاہے نیز یہ کہ کردار نگاری، اسی تکنیک کاایک حصہ ہے۔ فضیل نے غلام عباس کی کردار نگاری پر بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ خودغلام عباس نے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھا کہ ’’کہانی لکھنے کے لیے سب سے پہلے مجھے ایک کردار کی جستجوہوتی ہے۔ یہ کردار سچ کا یعنی گوشت پوست کا ہوناچاہیے۔ میں اسے اپنے ذہن میں تخلیق نہیں کرتا بلکہ وہ مجھے زندگی ہی میں مل جاتا ہے۔ میرا اس پر کچھ قابو نہیں ہوتا اورنہ میں اپنے نظریات اس کی زبان سے کہلواتا ہوں۔ میں تو خود چپکے چپکے اس کی باتیں سنتا اور اس کے اعمال وافعال کو دیکھتا رہتا ہوں اور یوں رفتہ رفتہ میں اس کے مزاج کو کچھ کچھ پہچاننے لگتاہوں۔ کردار اور افسانہ نگار کی اسی جان پہچان کو دراصل کردار نگاری سمجھتا ہوں۔ ‘‘ فضیل، سیاہ وسفید، بھنور، سایہ، غازی مرد، اور بردہ فروش‘ کے کرداروں پربحث کرتے ہوئے اس نکتے پر بجا طور پر خصوصی زور دیتے ہیں کہ ’وہ (غلام عباس) کرداروں کی خارجی زندگی کااستعمال محض داخلی پہلوؤں کوابھارنے اوراجاگر کرنے کے مقصد سے کرتے ہیں۔‘‘ ’عصمت چغتائی کا فن‘ عصمت کے فکشن پر لکھے ہوئے مضامین میں معرکے کا مانا جائے گا کیوں کہ فضیل نے نہایت معروضیت کے ساتھ عصمت کے مقام کا تعین کیا ہے اور بیانیہ پر ان کی مضبوط گرفت کو ایک دعوے کے طور پر پیش کیا ہے۔
’وارث علوی اورفکشن کی تنقید‘ ایک اچھا مضمون ہے۔ یہ اور بھی اچھا ہوسکتا تھا اگرفضیل ان کی کمزوریوں کو بار بار Justify کرتے ہوئے نہ چلتے۔ وارث اور ان کی تنقید فضیل کو عزیز ہے، اسی محبت آمیز رشتے نے فضیل کے قلم پربھی قدغن لگائی اور وہ کھل کر وارث کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرسکے۔ ضرب مارنا، چمکارنا، بچالینا بھی تنقید کے داؤ پیچ ہیں، جنھیں آزمانے کا فن ہمارے فضیل جعفری کو خوب آتاتھا۔ ’آبشار اور آتش فشاں‘ بھی اس طرح کے داؤ پیچ سے خالی نہیں ہے۔
لطف کا اک مقام ہے یہ بھی
بمبئی میں فضیل کی سرگرمی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ ایک کالج میں ا نگریزی کے استاد رہے۔ عہدساز اور تاریخ ساز روزنامہ ’انقلاب‘ کی ادارت کے فرائض بھی بڑی دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ سنبھالے، جہاں رہے اپنی شرطوں کے ساتھ رہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ جوان العمری کے خروش میں بھی تھوڑی بہت کمی آگئی تھی۔ ہر کسی دیوار سے سر پھوڑنے سے گریزبھی کیا اور پگڑی بھی سنبھالی۔ شاعری کو بالائے طاق رکھایا شاعری کے لیے مہلت ہی کم ملی۔ معاصر تنقید پر ایک نہایت فکرانگیز تجزیاتی مطالعہ بعنوان ’کمان اور زخم‘ (1986) بمبئی کی عدیم الفرصتی کی دین ہے۔ کالج میں پڑھاتے بھی تھے اور ایک جامع منصوبے کے تحت مذکورہ عنوان کے ساتھ وفا بھی نبھاتے رہے۔ چونکہ جدید تنقیداور جدید نامور نقادوں اور مدحیہ نیز مزاحیہ تنقید کے نمونموں میں بہت کچھ ایسا تھا جسے برداشت کرنا فضیل جیسے سچے اور صاف گو صاحبِ علم کے لیے مشکل تھا، سو انھوں نے قلم کی دھار کو تیز رکھا، اپنے اسلوبِ نقد میں چھانٹ چھانٹ کے محاوروں کی مار مارتے رہے۔ سلیم احمدکی انھیں کی زبان سے خبر لی۔ آل احمد سرور، محمد حسن، شمس الرحمن فاروقی، وزیرآغا،گوپی چند نارنگ،وارث علوی وغیرہ کی تنقید کے لائق تحسین پہلوؤں کی تعریف بھی کی اور مزے لے لے کر ضربیں بھی ماریں۔ حامدی کاشمیری جیسے اہم نقاد سے انھوں نے کیوں صرفِ نظر کیا ہے؟ اس کے وہ یقیناًقصوروار ہیں۔ بس ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ انھیں معاف کرے۔
زبیر رضوی نے جدید نظم پر ایک سمینار منعقد کیا تھا۔ جس میں کلیدی خطبہ فضیل جعفری کا تھا۔فضیل نے زبانی کچھ باتیں کیں جو بے حد سرسری اور تشنہ تھیں۔ وہ مجھے کچھ بجھے بجھے نظر آئے۔ سمینار ختم ہوا، شام کو زبیر بھائی کے یہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اورنگ آباد کابھی ذکر نکلا۔میں نے پوچھ ہی لیا کیا بات ہے اورنگ آباد والا طرار فضیل کہاں گم ہوگیا۔
’’نہیں بھائی ا یسا کچھ نہیں ہے۔ کبھی موڈ ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا‘‘ فضیل نے جواب دیا۔
’’لیکن ابھی ابھی نارنگ کی کتاب پر تو آپ نے خوب جم کر لکھا ہے۔ ضربیں مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سامعین گوش برآواز تھے کہ آج اسی فضیل جعفری کا شعلہ انگیز خطبہ ہوگا، لیکن آپ151‘‘
’’ارے یار عتیق یہ سب چھوڑو تم نے بھی کس کی یاد دلادی، زبیر بیچ میں ٹپک پڑے فضیل نے لقمہ دیا ’’بھائی سنو، ہم نے وہی لکھا جو صحیح سمجھا۔ کلیدی خطبہ وغیرہ یونیورسٹی کے اردو اساتذہ کو مبارک۔ زبیر سے کہا بھی تھا یار، اس چکرمیں مجھے مت ڈالو۔‘‘
’’فاروقی تو کسی یونیورسٹی سے منسلک نہیں ہیں، لیکن وہ تو گذشتہ تیس برسوں سے دھڑلے کے ساتھ سمیناروں کی صدارت بھی کررہے ہیں ا ور انھوں نے کلیدی خطبے بھی دیے۔‘‘
’’ارے یار آپ نے یہ کون سا مسئلہ چھیڑ دیا‘‘ زبیر بولے ’’نہیں زبیر بات یہ ہے کہ فاروقی نے جب شب خون نکالا تھا اس وقت جدیدیت کو قائم کرنا ان کا اوّلین مقصد تھا، ایلیٹ، رچرڈز، لیوس اور ولیم ایمپسن کے تصورات ان کے ذہن پر حاوی تھے۔ پھر تشریح و تفہیم کی راہ پر نکل گئے جس کے باعث جامعات اور کالجوں کے اساتذہ اور طلبا میں بھی انھیں شہرت ملی اور اس طرح تعلیمی اداروں کے دروازے بھی ان پر کھل گئے۔ ہم تو کسی شمار میں نہیں۔ نہ پہلے تھے اور نہ اب ہیں۔‘‘
’’پھر بھی موضوع نئی نظم سے متعلق تھا اور آپ نے افتخار جالب کی ایک ایسی نظم کی معنی کشائی کی تھی کہ اسے مہمل کہنے والوں کو سانپ سونگھ گیا تھا‘‘ میں نے یاد دلایا۔
فضیل نے جواباً کہا ’’یہ معنی کشائی خوب کہا، پہلی بار سنا، ارے یار ایسا نہیں ہے ان دنوں بکواس لکھنے والوں کی بھی ایک بھیڑ تھی، ابہام کا طوطا فاروقی نے نئے لکھنے والوں کو تھما دیا تھا، وہ لغو، بے معنی، مہمل لکھتے اور رسالوں کے خطوط میں خوب خوب تعریفیں حاصل کرتے۔‘‘
’’اب تو سارا منظر نامہ ہی بدل گیا ہے‘‘میں نے کہا۔
’’لیکن یہ تو ہونا ہی تھا‘‘
’’تو کیا اسے مابعد جدید دور کہنا چاہیے‘‘ میں نے انھیں چھیڑا۔
اتنے میں زبیر پھر ٹپک پڑے ’’ارے کھانا ٹھنڈا ہورہاہے، باتیں پھر کرنا۔‘‘
میں دیکھ رہا تھا کہ فضیل کی تیزیِ گفتار، نرمیِ گفتار میں بدل گئی تھی۔ ممبئی کی مصروفیت اور عمر کے تقاضے نے ان پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ڈالاہے۔ سنا کرتے ہیں کہ بندر بوڑھا ہوجائے لیکن گلاٹیں لگانا نہیں بھولتا، زبیر تو نہیں بھولے لیکن فضیل بھولتے ہوئے نظر آئے کیونکہ وہ باتیں مان بھی رہے تھے اور ان کے لہجے میں کرختگی شمہ برابر نہیں تھی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جب کوئی ہر بات ماننے لگے تو سمجھو کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ خیر سے فضیل بوڑھے نہیں ہوئے تھے، جیسے ہم نہیں ہوئے ہیں۔ ہم نے عیش زیادہ کیا دھکے کم کھائے۔ کھائے بھی تو انھیں یاد کم رکھا۔ فضیل مرحوم نے دھکے بہت کھائے۔ انھیں جو کچھ ملا محض ان کی اہلیت کی وجہ سے۔ اورنگ آباد ہو کہ ممبئی ان کے قدردانوں کی کمی نہیں ہے۔ ویسے بھی مردم شناسوں سے کوئی دور خالی نہیں رہا۔ فضیل صاحب نے اختلاف بہتوں سے کیا لیکن دشمن کسی کو نہیں سمجھا۔ یوں بھی وہ ماضی کو کم ہی دہراتے تھے۔ غالباً بھلانے کی انھوں نے مشق کررکھی تھی۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ جن کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ بھلانے اور بھولنے میں جو عافیت ہے وہ یاد رکھنے میں کہاں۔ زبیر بھائی کا یہی مسئلہ تھاکہ ایک بات جب ان کے ذہن میں بیٹھ جاتی وہ نکلتی نہیں تھی۔ بالآخر اس کاانجام بھی ہم نے دیکھ لیا۔ فضیل مرحوم کی یہ بڑی خوبی تھی کہ ناگوار باتوں کو وہ ذہن سے جھٹک دیتے تھے۔ کوئی یاد بھی دلاتا توہنس کر ٹال دیتے یا ان سنی کردیتے۔ دہلی تو مکارانِ ادب کا گہوارہ ہے۔ اچھا ہی ہوا انھوں نے الہ آباد سے نکل کر دہلی کے بجائے دور دیس بسایا ورنہ کینہ وروں اور کینہ توزوں سے یہاں بچنا محال تھا۔ ویسے جو اخلاص مند اور بے لوث ہیں، ان کی گھِگِھی بندھی رہتی ہے اور پھر آپ انھیں بہ آسانی شمار بھی کرسکتے ہیں۔ یہ شہر آج بھی قصبات کا شہر ہے۔ یہاں انا گزیدہ نام نہاد علمائے ادب اور ارباب حل و عقد کے بول سندکا درجہ رکھتے ہیں، جو ہوتا آیا ہے۔ لوگوں کے پاس غیبتوں اور ریاکاریوں کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ ممبئی واقعتاً عروس البلاد ہے۔ وقت کسی کے پاس نہیں۔ سب اپنے اپنے غموں اور مسئلوں میں گرفتار زندگی کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ فضیل نے ممبئی بسا کر اچھا ہی کیا۔ان میں تعلّی نام کو نہیں تھی۔ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر تھے۔ ادب اور انسان کو جانچنے کی ان کی اپنی کسوٹی تھی جس پر وہ قانع رہے اور یہ ان کاحق تھا۔ سوچیے اس حق کا ہم میں سے کتنے لوگ استعمال کرتے ہیں۔

Prof. Ateequllah
125-C/1, Flat NBo:5, Basera Apts. Johri Farms
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں