25/7/18

مراسلہ نگاری اور ذرائع ابلاغ۔ مضمون نگار بدر محمدی





مراسلہ نگاری اور ذرائع ابلاغ۔
    بدر محمدی

زندگی کی بقا فطرت زندگی سے ہے اور انسانی زندگی کی اہم فطرت آبادی کے درمیان زندگی گذارنا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم باہمی رابطہ بنائے رکھنا ضروری ہے ورنہ کاروبار زندگی منجمد ہو جائے۔ ایک دوسرے کی خبرگیری تقاضائے فطرت انسانی ہے۔ ضروریات زندگی کے لیے لوگ پھیل رہے ہیں تو آپسی رابطے کے سبب دنیا سمٹ رہی ہے۔ یہ رابطہ ان دنوں مختلف ذرائع سے ممکن ہے، جنھیں ذرائع ابلاغ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ پر انسان کی روزمرہ کی زندگی کا انحصار سا ہو گیا ہے کیونکہ یہ عوام کو باخبر، بیدار اور بہرہ ور کرتے ہیں۔خبروں سے آگاہی کے علاوہ مختلف شعبۂ حیات کی معلومات بھی ان سے فراہم ہوتی ہیں۔ چنانچہ بودو باش، طور طریقے اور خیالات کو ایک دوسرے سے روشناس کر ا کے باہمی اتحاد، انسیت اور اخوت کے جذبے کو ذرائع ابلاغ نے فروغ دیا ہے۔ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھنے کا ہمیں موقع ملا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شریک رہنے لگے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اب ع
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
فرد کی ذاتی خبر رسانی میں ان دنوں ٹیلی مواصلات کی بالا دستی ہے۔ ان کے ذریعے آن کی آن میں خبر پہنچ جاتی ہے۔ تاہم خطوط نویسی کی اہمیت اپنی جگہ آج بھی مسلم ہے۔ مراسلہ جتنا پر معنی اور پہلودار ہے ٹیلی مواصلات قطعی نہیں۔ خط کو آدھی ملاقات یونہی نہیں کہا گیا ہے۔ زبان و بیان کی خوبیاں مراسلے کو مکالمہ بنا دیتی ہیں۔ ’’کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے‘‘ صرف خط نویسی سے ہی ممکن ہے۔ فون میں دوران گفتگو دماغ کا دخل ہوتا ہے جبکہ مراسلے میں دم تحریر دل کی پاسداری ہوتی ہے۔ وہ لمحاتی اور یہ دائمی چیز ہے۔ ٹیلی وسیلہ کا رگذار شے ہے جبکہ مراسلہ یادگار ورثہ۔ ڈاک و تار کا شعبہ بظاہر ٹھہرا سا لگتا ہے۔ لیکن واقعتا آج کی تاریخ میں یہ زیادہ رواں دواں ہے۔ فیکس،ای میل، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیوٹر نے اسے مزید تیز گامی عطا کی ہے۔ مراسلہ نگاری کی اہمیت و افادیت بدستور قائم و دائم ہے۔فیس بک اورواٹس ایپ کی اطلاعات، کمینٹ، سوال و جواب، تبادلۂ خیالات یہ سب مراسلے بازی کا حصہ ہیں۔ مذکورہ سوشل میڈیا ایک دوسرے کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔
مراسلے نے سرکاری غیر سرکاری کاموں میں اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔ تقرری ہو یا استعفا، شکایت ہو یا مطالبہ، مراسلے کے توسط سے ہی یہ چیزیں منظر عام پر آتی ہیں۔ دفاتر کے اعلانیہ خط کے ذریعے ہی مشتہر کیے جاتے ہیں۔ مراسلہ نگاری فقط نصاب تعلیم کا حصہ نہیں بلکہ اس کی ضرورت متعدد شعبہ ہائے زندگی میں ہے، حتیٰ کہ خود ذرائع ابلاغ مراسلوں کے محتاج ہیں۔ انھیں خاص و عام کے مراسلوں کا بڑے شدومد سے انتظار رہتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ مراسلے کے توسط سے تخلیقات کی فراہمی ہوتی ہے۔ بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی کارکردگی پر عوام کی گرانقدر رائے حاصل کی جاتی ہے۔ مراسلہ ذریعۂ ابلاغ کا آئینہ ہے جس میں اس کی شکل و صورت نظر آتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مقبولیت کا اندازہ عوام کی پسند و ناپسند سے ہوتا ہے۔ یہ پسند و ناپسند مراسلے کے توسط سے ہی دستیاب ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اثرات کس قدر عوام پر اثر انداز ہوئے یہ تبصرہ سے ہی پتہ چلتا ہے۔
اپنے الجھے سلجھے بالوں کو ہر شخص آئینے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تاکہ ان کی آرائش و زیبائش کی جاسکے یہی کام عوام کے مراسلے سے ہوتا ہے۔ اس سے مضمون نگار حوصلہ پاتا ہے اور رہنمائی بھی حاصل کرتا ہے۔ اہل کاروں کوا پنی کارگذاری مزید بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیونکہ زبان خلق نقارۂ خدا کے مترادف ہے۔ لہٰذا ذریعۂ ابلاغ کی خدمات کا محنتانہ تب وصول ہوتا ہے جب عوام میں اس کے رد و قبول کا پتہ چلتا ہے۔مراسلہ حمایت میں بھی لکھا جاتا ہے اور مخالفت میں بھی۔ ذرائع ابلاغ کو اپنی خوبی و خامی کا اندازہ خود نہیں لگتا۔ لہٰذا وہ عوام الناس کے تبصروں پر مبنی مراسلہ نما آئینہ سے اس کے احتساب کی سعی کرتے ہیں۔ اخبارات و رسائل نے اس کے لیے کالم مخصوص کر رکھا ہے۔ جبکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ہفتہ وار پروگرام ہوا کرتا ہے اور پتہ بتا کر خط لکھنے کی درخواست کی جاتی ہے کہ پروگرام کیسا لگا؟ بار بار اصرار کیا جاتا ہے گذارش کی جاتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی آرا کا انتظار رہے گا۔ یعنی اظہار خیال کی کھلی دعوت دی جاتی ہے۔اظہار خیال کی کھلی دعوت کس طرح دی جاتی ہے اس کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
’’صحت مند تبصرہ کسی بھی رسالے کو جلا بخشنے اور اسے مزید بہتر بنانے میں مدد گار ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شمارے کے بعد ہمیں باذوق قارئین کے تبصروں اور تجزیوں کا انتظار رہتا ہے۔ اس لیے اپنے تاثرات سے ہمیں ضرور آگاہ کرتے رہیں۔ یہ قارئین کی ادبی ذمہ داری بھی ہے اور ان کی محنت اور خلوص کا نذرانہ بھی۔‘‘
(اداریہ ’ایوان اردو‘ ستمبر2016)
’’ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ نئے نئے موضوعات پر عمدہ مضامین شائع کیے جائیں۔ ہمیں اس میں کتنی کامیابی ملی ہے یہ آپ کے تاثرات سے اندازہ ہوگا ...... اس تعلق سے آپ کے گرانقدر مشوروں کا ہمیں انتظار رہے گا۔‘‘
(اداریہ ’فکروتحقیق‘ اکتوبر تا دسمبر 2016)
’’قارئین کے خطوط ہمارے لیے میزان کا کام کرتے ہیں ہم اپنی کاوشوں کو اس میزان پر تولتے رہتے ہیں، ساتھ ہی ہم اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
(اداریہ ’زبان و ادب‘ پٹنہ جنوری 2017)
’’میں اپنے احباب سے بضد ہو کر اس بات کی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے فون، ایس ایم ایس اور ای میل کی بجائے خط لکھیں اور اپنی محبت کا ثبوت ارزاں کریں۔‘‘ 
(اداریہ ’سرسبز‘ جنوری تا مارچ 2017)
’’ہمیں قطعی کوئی دعویٰ نہیں کہ ہم نے کوئی بہت اہم کام انجام دیا ہے۔ زیر نظر شمارہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے اس شمارے میں روایت سے ذرا ہٹ کے کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شمارہ حاضر ہے اسے پڑھنے کے بعد آپ کی جو بھی رائے ہو بلا جھجک ہمیں اس سے ضرور مطلع کریں۔‘‘ (اداریہ ’آج کل‘ ڈائمنڈ جوبلی نمبر جولائی2017)
قاری یا سامع کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔گونا گوں مضامین پڑھ کر یا پروگرام سے محظوظ ہو کر اس پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں انھیں وہ قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح مشاعرے میں سامع کی واہ واہ بے ساختہ نکل پڑتی ہے ذرائع ابلاغ کی پیش کش پر عوام کو لب کھولنے کی چاہت ہوتی ہے۔ اس سے قاری یا سامع میں رائے زنی کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ خود کو فعال ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ چنانچہ وہ مراسلے کا وسیلہ اختیار کرتا ہے۔مراسلے سے ذریعۂ ابلاغ کی رہنمائی ہی نہیں تشہیر بھی ہوتی ہے۔ اچھی پیش کش کی تعریف اور چھچھلے پن کی شکایت یعنی کارکردگی کی کمی بیشی پر اظہار خیال کر کے عوام اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔کیونکہ ایک اچھے شہری کی یہی صفت ہے۔ یہ درست ہے کہ دفتر تک پہنچنے والے سارے مراسلے منظر عام پر نہیں آتے لیکن دل کی بھڑاس تو نکلتی ہے۔ اور کتنے ایسے ہیں کہ ان کے دل میں بات آتی تو ہے مگر وہ صفحۂ قرطاس تک نہیں پہنچ پاتی۔ لیکن ہر فرد پر اثر مرتب ضرور ہوتا ہے۔ کچھ ایسے بھی مراسلے لکھے جاتے ہیں جو غیر ضروری ہوتے ہیں۔ ایسی تحریر کا مقصد محض مبصرین میں شامل ہونا رہتا ہے۔ کچھ لوگ تنقید سے زیادہ تنقیص پر زور دیتے ہیں تو کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ تعریف پر۔ دونوں طریقے نا مناسب ہیں۔ مراسلے کو حقیقت کا آئینہ دار اور غیر جانبدار ہونا چاہیے نہ کہ طرفدار یا مخالف۔
ذرائع ابلاغ اور مراسلہ نگاری میں گہرا رشتہ دکھائی دیتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کے محرک ہیں۔یہ رشتہ دراصل ذرائع ابلاغ اور عوام کا رشتہ ہے۔ مراسلہ نگاری ذرائع ابلاغ کی زندگی سے عبارت ہے۔ ان کی شریانوں میں اس سے خون دوڑانے کا کام لیا جاتا ہے۔ویسے ذرائع ابلاغ کا عوام سے تو رشتہ ہوتا ہی ہے مگر مراسلہ نگاری سے مزید رابطے کا پتہ چلتا ہے ۔ کسی رسالے کے اگلے شمارے کا انتظار یہ دیکھنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے کہ گذشتہ شمارے میں شائع شدہ تحریر پر رد عمل کیا ہے گویا مراسلہ خوش یا مایوس بھی کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا مقصد و منشاء اور باتوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ان سے مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ انھیں ابھرنے اور فروغ پانے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن سارے لوگ تو فنکار ہوتے نہیں۔ لہٰذا فنکارانہ صلاحیت کی یہ کمی مراسلہ نگاری سے پوری ہو جاتی ہے۔ جو مضمون نہیں لکھ سکتے مراسلہ ہی تحریر کر کے تسکین حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم بہت سارے مراسلوں میں دیکھتے ہیں کہ ان میں تخلیقی اور فنکارانہ رنگ ہوتا ہے، مضمون کا سا عکس پایا جاتا ہے۔ اور پھر خط لکھتے لکھتے وہ جناب مضمون بھی لکھنے لگتے ہیں۔ بہت سے صاحب مضمون بھی مراسلہ لکھ کر اپنے تاثرات ارسال کرتے ہیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ افراد کو شرکت کا موقع ملتا ہے۔
مراسلے معیاری اور غیر معیاری بھی ہوتے ہیں۔ ایک ہی فرد کے مراسلے کا معیار مختلف رسائل میں الگ الگ ہوتا ہے۔ مراسلے کی تنقیدی حیثیت بھی ہے۔ یہ ناقدانہ رائے پیش کرتا ہے۔ اس سے تنقیدی رجحان کو فروغ ملتا ہے۔ اسے نقد و تبصرہ سے موسوم کیا جانا بے جا نہیں۔ اس عمل کو علمی خراج کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ مراسلے کی صورت میں جو رائے منظرعام پر آتی ہے وہ قاری کی رائے ہوتی ہے۔ ادیب بھی مراسلہ قاری ہی کی حیثیت سے لکھتا ہے۔ مراسلہ شائقین ادب کے رد عمل کی اطلاع بلا معاوضہ قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اسے تصحیح نامہ یا مطلق تعریف کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ کھرے کھوٹے کی پہچان کرا تا ہے۔ دعوے کی دلیل پیش کرتا ہے۔ اپنی کارکردگی کی خود ستائی یا اپنی خامیوں کا محاسبہ خود ممکن نہیں لہٰذا مراسلوں کے ذریعے یہ کام عوام کے توسط سے کرایا جاتا ہے۔ عوام کی رائے سے مضمون اور صاحب مضمون کا مقام متعین کیا جاتا ہے اور وابستگان ذرائع ابلاغ اس سے صاف صاف بچ جاتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔
ذریعۂ ابلاغ کو ارسال کیا گیا مراسلہ عوام سے عوام کا رشتہ استوار کرتا ہے۔ میری مراد قلمی دوستی سے نہیں بلکہ اس لامتناہی سلسلے سے ہے جو مراسلہ نگاری سے شروع ہوتا ہے۔ اردو کے متعدد روزناموں میں ایسے معرکے دیکھے گئے ہیں کہ مراسلہ کا دوطرفہ جواب در جواب کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات مدیرمخل ہو کر اسے روک دیتے ہیں ورنہ یہ قلمی جنگ دیر تک اور دور تک چلتی رہے۔ واضح ہو کہ یہ معرکہ آرائی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتی۔ اخبارات و رسائل خطوط فراہمی کے اور بھی طریقے اپناتے ہیں۔ مثلاً کوئی موضوع منتخب کر کے اس پر رائے عامہ طلب کی جاتی ہے۔ اور ان گرانقدر آرا کو مشتہر کیا جاتا ہے۔ حوصلہ بخش کلمات اور افادیت آمیز تاثرات سے راہیں سہل ہو جاتی ہیں۔ قاری کی رائے کی روشنی میں رسالے کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ ا س طرح کا کام ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ محکمۂ ڈاک کی خدمات انجام دے کر عوام کے مابین پیغام رسانی کا کام بھی کیا کرتے ہیں۔ چند سال قبل عراق پر امریکی حملے کے دوران اس طرح کا پروگرام بی بی سی ریڈیو پر چلایا گیا تھا۔ خلیج میں مقیم ایشیائی لوگ اور ان کے لواحقین کے مابین خبروں کا تبادلہ اور خیریت کی بھرپور آگاہی کی گئی تھی۔
ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر فون سے بھی پیغام اور خیالات بھیجے جاتے ہیں مگر خط سے جو بیان ارسال کیا جاتا ہے اس کی بات جدا گانہ ہوتی ہے۔ دونوں کا فرق سامعین و ناظرین واضح طور پر سمجھتے ہیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مراسلہ نسبتاً زیادہ پر کشش ہوتا ہے۔ ای میل، فیکس، فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیوٹر کی صورت میں ہی سہی مگر مراسلہ چیزے دیگر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس الیکٹرانک عہد میں بھی ذرائع ابلاغ خطوط نویسی کی صنف کو زندہ جاوید رکھنے کی کامیاب کوشش کیے ہوئے ہیں۔ مراسلے کے حوالے سے مراسلہ نگار نہ صرف اپنا تعارف پیش کرتا ہے بلکہ تعریفی پہلو کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ اس کے اس عمل سے ذریعۂ ابلاغ کے دائرۂ کار کا پتہ چلتا ہے کہ کتنی دور تک اس کی پہنچ ہے؟ ذرائع ابلاغ سے زبان کا بھی فروغ ہوا ہے اور زبان سے ذرائع ابلاغ کو فائدہ پہنچا ہے۔ چنانچہ زبان اردو اور ذرائع ابلاغ کا رشتہ مستحکم ہے۔
مراسلہ نگاری اور ذرائع ابلاغ ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہیں مگر ایسا نہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر دونوں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ذرائع ابلاغ کے بغیر بھی مراسلہ نگاری رواں دواں رہے گی اور مراسلہ کے بغیر ذرائع ابلاغ ختم نہیں ہو جائیں گے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ عوام کے مراسلوں کے بغیر ذرائع ابلاغ متاثر ضرور ہوں گے اور یہ بات اس کی اہمیت و افادیت کے لیے کافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے لیے مراسلے کی وہی اہمیت ہے جو زبان کے لیے قواعد کی۔ چنانچہ مراسلہ نگاری ذرائع ابلاغ میں محض خانہ پری کے لیے مقبول نہیں بلکہ اس کے خیر مقدم کا سلسلہ ضرورتاً جاری و ساری ہے۔ اس کا دوطرفہ افادی پہلو ہے۔ اور اس عمل میں کچھ کام کی بات بھی ہو جاتی ہے۔ بہت سے مشورے بروئے کار آتے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ مراسلے سے عوامی فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔ حالات کا منظر نامہ پیش کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت تک اپنی بات پہنچائی جاتی ہے۔ ذاتی یا اجتماعی مسائل کی طرف حکام کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ اس طرح ذرائع ابلاغ کو ارسال کیے گئے مراسلوں سے نہ صرف عوام سے عوام کا رشتہ ہموار ہوتا ہے بلکہ عوام کا حکومت سے براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے۔
Badr Mohammadi
AT - Chandpur Fatah
P.O. - Bariarpur - 843102 (Bihar)
Cell - 9939311612
E-mail:badrmohammadi1963@gmail.com




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا نہیں: رفیق جابر،خصوصی گفتگو، غضنفر اقبال

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024   غضنفراقبال:محترم رفیق جعفر صاحب!آج کا اُردو قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی کے وہ کون سے سین ہی...