9/5/22

بہار میں اردو فکشن کی تنقید: روایت اور صورتِ حال - مضمون نگار: مسرت جہاں




اردو تنقید،تذکروں کے ابتدائی مراحل طے کرتے ہوئے مکمل فن کی صورت ـ’کاشف الحقائق‘ میں رونما ہوئی۔ اس کی شہرت و مقبولیت علمی اور تاریخی لحاظ سے کسی قدرحالی کی مقدمہ شعر و شاعری سے کم نہیں ہے۔ اردو تنقید کے آغاز و ارتقا کے بعداردو تنقید کی با ضابطہ روایت نے فن کی صورت اختیار کرلی۔ جیسے جیسے اردو تنقید نے ترقی کے مراحل طے کیے ویسے ویسے اس کی مختلف جہتیں رونما ہونے لگیں۔ تنقید کے وسیع اور پھیلتے دائرہ کار کو انتشار کی زد سے بچانے کی غرض سے مختلف اصناف کے طور پر اردو نظم کی تنقید،اردو غزل کی تنقید، اردو مثنوی، مرثیہ، قصیدے کی تنقید اور ڈرامے کی تنقید، اردو افسانے اور ناول کی تنقید وغیرہ کے عنوانات دیے جانے لگے۔

بہار کے ابتدائی تنقید نگاروں میں امداد امام اثر، عبدالغفور شہباز، شاد عظیم آبادی،فضل حق آزاداور نصیرالدین خیال کے نام اہم ہیں۔ دوسرے دور کے ادب نوازوں میں جمیل مظہری، سید سلیمان ندوی،معین الدین دردائی، کلیم الدین احمداور اختراورینوی وغیرہ جیسی معروف شخصیتوں نے اردو ادب کی تنقید کو مستحکم کیا اوروقار بخشا۔

بہار میں اردو فکشن کی تنقید کے حوالے سے اختر اورینوی اور کلیم الدین احمدکا نام سر فہرست ہے۔ان دونوں شخصیات کا تعلق پٹنہ یونیورسٹی سے رہا ہے۔ پروفیسر اختر اورینوی کی شخصیت اپنی ذات میں انجمن ہے۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، تنقید نگار اورمحقق کے ساتھ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کی سر پرستی بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ان کے افسانوی مجموعے کینچلیاں اور بال جبریل،  سیمنٹ اور ڈائنامائٹ،  منظر و پس منظر، کلیاں اور کانٹے، سپنوں کے دیس میں وغیرہ نیزناول ’حسرت تعمیر ‘ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے تنقید کے سرمائے میں بھی قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی نگارشات میں شامل اردو شعر و شاعری یا نثری تصنیف، اس کے اصول و ضوابط اور ان کے روشن پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ تحقیق و تنقید، مطالعہ و محاسبہ، مطالعہ اقبال، مطالعہ نظیر اور ’مجلس اردو ادب‘ وغیرہ ان کی تنقیدی کتابیں ہیں۔

تحقیق و تنقید‘ (جدید) ترمیم و اضافے کے ساتھ 1962 میں کتابستان الہ آباد سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں شامل مضامین افسانوی نقطۂ نظر سے بے حد اہم ہیں۔ افسانہ فنی نقطۂ نظر سے، افسانے میں مقصد، افسانے میں حقیقت طرازی کے علاوہ فن ناول نگاری اور نذیر احمد دہلوی، بہار میں اردو ناول نگاری کے موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ ’مطالعہ و محاسبہ‘ پروفیسر اختر اورینوی کے دس مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں علی عباس حسینی کے دو افسانوی مجموعے ’میلہ گھومنی‘ اور ’آئی سی ایس (چند افسانے)‘ کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے خوبیوں کے ساتھ ان کے فنی عیوب کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

پٹنہ یونیورسٹی کی ذی وقار شخصیتوں میں پروفیسر کلیم الدین احمد کا شمار ہوتا ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد انگریزی کے استاد تھے۔ انگریزی شعرو ادب کے ساتھ ساتھ اردو شعرو ادب خصوصاً اردو تنقید پر ان کی خاص نگاہ رہی ہے۔ اردو تنقید پر ان کی مختلف کتابیںہیں۔ اردو شاعری پر ایک نظر، اردو تنقید پر ایک نظر، سخنہائے گفتنی، عملی تنقید، اقبال ایک مطالعہ، میری تنقید ایک بازدید اور ادبی تنقید کے اصول۔ ان میں ایک کتاب ’ اردو زبان اور فن داستان‘ بھی ہے۔ یہ کلیم الدین احمد کے عمدہ تنقیدی تجربات ومشاہدات کا نمونہ ہے جس میں ان کے تنقیدی افکار بخوبی ابھرتے ہیں۔

پروفیسر آصفہ واسع کا تحقیقی مقالہ گراں قدر اہمیت کا حامل ہے۔ ’بہار میں اردو ناول نگاری‘ کے موضوع پر ان کا پرمغز مقالہ ’الف، ب اور ج‘ کے تین ضمنی حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ ’الف‘ میں پس منظر کے طور پر ’ہندوستان کے سماجی اور سیاسی حالات‘ (1857 سے 1947 تک) کا مختصر جائزہ لیاگیا ہے اور حصہ ’ج‘ میں شائق احمد عثمانی اور امداد امام اثر کو ضمیمے کے طور پر شامل کیا ہے۔حصہ ’ب‘ موصوفہ کا اصل تحقیقی حصہ ہے۔ ان کے احاطۂ تحقیق میں ابتدا سے 1947 تک کے ان سبھی ناول نگاروں کا ذکر بہ تفصیل ناول موجود ہے، جن کا تعلق سرزمین بہار سے ہے۔ آخر میں ناول کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی قدر وقیمت متعین کی ہے۔ معروف ناول نگاروں میں عظیم آباد اور دوسرے مراکز کے ناول نویسوں کی تصنیفات کا بھی تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ شاد عظیم آبادی، محمد اعظم، افضل الدین، صفیر بلگرامی، رشیدۃ النسا، سجاد عظیم آبادی، عرش گیاوی، اسلم عظیم آبادی، محمد حنیف فائز عظیم آبادی، رام انوج سہائے، آل حسن معصومی، شمس گیاوی، جمیل مظہری اور اختر اورینوی کا جائزہ لیا گیا ہے۔  ان کے مطالعے اور تحقیقی رویے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ محترمہ نے دیدہ ریزی ا ور عمیق رویے سے کام لیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ وثوق کے ساتھ کہتی ہیں:

’’یہ مقالہ 1965 میں داخل ہوا تھا۔ اس وقت تحقیق کی راہ میں دشواریاں بہت تھیں۔ نئے مواد کی فراہمی کا کام بہت مشکل تھا۔ میں نے اگلے ہوئے نوالے نہیں چبائے ہیں۔ بلکہ اچھوتا اور بالکل نیا کام ادب میں پیش کیا ہے، جس کی روشنی سے اہل قلم فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘

(بہار میں اردو ناول نگاری: پروفیسر آصفہ واسع، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی1997، ص 9)

 انگریزی زبان و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے پروفیسر عبدالمغنی کو عربی، فارسی اور اردو تینوںزبان پر عبور حاصل تھا۔ انگریزی کتابوں کے علاوہ پروفیسر عبدالمغنی کی متعدد اردو کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کی تنقیدی کتابوں کے اعداد وشمار  سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر اردو کے ناقد ہیں۔ نقطہ نظر(1965)، جادۂ اعتدال (1972)، برنارڈ شا (1976)، تشکیل جدید (1976)، معیار واقدار (1981)، اقبال اور عالمی ادب (1982)، مولانا ابوالکلام آزاد: ذہن و کردار (1989)، اسلوب نقد (1989)، تنویر اقبال (1990)، عظمت غالب (1990)، اقبال کا نظریہ خودی (1990)، قرۃ العین حیدر کا فن (1991)، تنقیدی زاویے (1993) اور فروغ تنقید وغیرہ ان کی یادگار ہیں۔عبدالمغنی کی ان کتابوں میں سے ان کا ذکر ضروری ہے جن میں فکشن کے تعلق سے ان کے مقالات سامنے آئے ہیں۔ ’جادۂ اعتدال‘ (1972)  موصوف کے دوسرے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اکیس تنقیدی مقالات میں سے تین مقالے فکشن پر ہیں۔ اختر اورینوی کی افسانہ نگاری، علی عباس حسینی کی افسانہ نگاری اور شین مظفرپوری کی افسانہ نگاری۔ یہ سبھی مضامین اپنی نوعیت کی منفرد تحریریں ہیں۔248 صفحات پر مشتمل متفرق مضامین مختلف اصناف ادب سے تعلق رکھنے والی عبد المغنی کی کتاب ’تنقیدی زاویے‘ کے نام سے سنہ 1993 میں آصف پبلی کیشنز علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ کتاب میں شامل سات مضامین اردو فکشن کے بڑے فنکاروں کے فن پر ان کی گہری نگاہ اور تیز مشاہدے کو پیش کرتے ہیں۔ قرۃالعین حیدر: ایک منفرد فنکار، چاندنی بیگم، قاضی عبدالغفار بحیثیت ادیب، لہو کے پھول: ایک تنقیدی مطالعہ، غلام عباس کی فنکاری، کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری اور آدھے چاند کی رات جیسے مضامین فکشن کی تنقید میں اضافہ ہیں۔

قرۃ العین حیدر کا فن‘ (1991) عبدالمغنی کی عمدہ تنقیدی کتابوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے یہ پوری کتاب قرۃ العین حیدر کے فکر و فن اور ان کی شخصیت کے لیے مختص کر دیا ہے۔ ’اختر اورینوی کے افسانے‘ کے نام سے پروفیسر عبد المغنی نے اختر اورینوی کے عمدہ افسانوں کا انتخاب کیا ہے۔ اختر اورینوی کے بہترین اور عمدہ افسانوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی سعی کار خیر کے مترادف ہے اور ہم جیسے ادب کے طالب علموں کے لیے زاد راہ بھی۔ عبد المغنی نے کتاب کے شروع میں اختر اورینوی کی افسانہ نگاری کے عنوان سے ایک مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے۔مقدمہ اختر اورینوی کی کم وبیش پوری زندگی اور ان کے فن کا احاطہ کرتا ہے۔ اس مضمون کے معتبر اور مستند ہونے کی مثال اس طور پر دی جاسکتی ہے کہ خود عبد المغنی کے ذریعے 25 جولائی 1976 کو انٹرویو کے درمیان جو بحثیں تنقیدی اور ادبی تناظرمیںہوئی تھیںاس کابھی ذکر انھوں نے کیاہے۔ اختراورینوی کی اشاریت (Symbolism)   اور سریت  (Mystification)  کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے بعض افسانوں میں اشاریت تو پائی جاتی ہے مگر وہ سریت سے مبرا ہیں۔

صوبہ بہار کی عبقری شخصیت پروفیسروہاب اشرفی کو بیک وقت عہد ساز نقاد، محقق، افسانہ نگار، صحافی، استاد اور دانشور جیسی مختلف حیثیتوں سے اعتبار حاصل ہے۔ ان کی تعلیمی اور علمی لیاقت کی واضح مثال ’تاریخ ادبیات عالم‘ کی سات جلدیں اور’تاریخ ادب اردو‘کی تین جلدیں ہیں۔ ویسے تو وہاب اشرفی کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد بہت ہے۔مگر اردو فکشن کی تنقیدی نگارشات میں ان کی کتاب ’معنی کی تلاش‘ اہم ہے۔اس کا ایک مضمون ’افسانے کا منصب ‘ ہے۔ جو موضوع سے پوری طرح انصاف کرتا ہے۔ ’سہیل عظیم آبادی اور ان کے افسانے‘ میں سہیل کے نمائندہ افسانوں مثلاً الاـؤ، جینے کے لیے، سادھو اور بیسوا، اور بد صورت لڑکی وغیرہ کا خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے۔ ’معنی سے مصافحہ‘ کے مشمولات میں ایک طرف شعری اصناف سے تعلق رکھنے والے سودا اور غالب کی شاعری پر مضامین ہیںتو دوسری طرف معاصر فکشن کے نمائندہ لکھنے والوں مثلاًجیلانی بانو، احمد یوسف، عبدالصمد، شوکت حیات، شموئل احمد،جابر حسین اور محمود واجد وغیرہ کے فن کا بھی بے باکی سے احاطہ کرتے ہیں۔ ’اردو فکشن اور تیسری آنکھ‘ میں شامل مضامین فکشن سے متعلق وہاب اشرفی کے نقطہ نظر کو واضح کرتے ہیں۔ انھوں نے فکشن کے بنیادگزاروں کے ساتھ معاصر فنکاروں کا بھی جائزہ لیا ہے۔خاص طور سے تقابلی نگاہ ڈالتے ہوئے معاصر فکشن کے امتیازات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔اپنی اس کتاب میںبڑے خوبصورت نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

’’ادب مماثلتوں کی تلاش کا فن ہے۔ یہ فن اسی وقت بالیدہ ہوتا اور نکھرتا ہے، جب کوئی تخلیق جمالیاتی احساس سے بہرہ ور ہوتی ہے۔موضوعات کی کثرت میں، کسی ایک یا ایک سے زیادہ کا ادب بذات خودکوئی خاص بات نہیں ہے۔ بات تب خاص ہو جاتی ہے جب فنکار کا احساس جمال اسے جلا بخشتا ہے، ورنہ موضوع اپنے آپ میںمحترم نہیں، نہ ہی چھوٹے اور بڑے موضوع کی تفریق  کسی ادب پارے کے چھوٹے یا بڑے ہونے کی شہادت ہے۔‘‘

(اردو فکشن اور تیسری آنکھ: پروفیسر وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،  2005، ص 5)

اردو فکشن کی تنقید میں قدوس جاوید کا نام نیا نہیں ہے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی قدوس جاوید معتبر اور موقر رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔ پٹنہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کشمیر یونیورسٹی، سری نگر میں لکچرر ہوئے اور وہیں مقیم ہیں۔ ’جدید اردو افسانہ‘ کے موضوع پر ان کا تحقیقی مقالہ اپنے آپ میں گراں قدر اہمیت کا حامل ہے۔  ’تقسیم ملک، فسادات اور افسانہ‘ اور ’آخر شب کے ہم سفر اور سماجی شعور‘  بھی ان کی اہم کتابیں ہیں۔ انھیں اردو ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کے علاوہ بنگالی زبان وادب کے معروف ومقبول فکشن رائٹر شرت چندر چٹرجی اور ٹیگور کی کہانیوں کا جائزہ بھی بڑے خوبصورت انداز میں لیا ہے۔

متن، معنی اور تھیوری‘ کے نام سے پروفیسر موصوف کی کتاب 2015 میں ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی نے شائع کی ہے۔اس میں شامل ایک مضمون ’افسانے کی شعریات‘ ہے جس میں اردو افسانہ کی ابتدا سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کے اسرار ورموز اور افسانے کی شعریات  کا احاطہ کیا گیا ہے۔

 پروفیسر اسلم آزاد کا براہ راست واسطہ فکشن کی تنقید سے ہے۔ 1974 میں پروفیسر اختر اورینوی کی نگرانی میں ’اردو ناول 1947 سے 1967 تک‘ کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کی۔ ان کا تحقیقی مقالہ ’اردو ناول آزادی کے بعد‘ (1981) کے نام سے شائع ہوا۔ پیش نظر کتاب میں پروفیسر موصوف نے ’ناول کا فن‘، ’ناول کا ارتقا‘ اوراس کے رجحانات پر خاص توجہ دی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے پندرہ فکشن رائٹر (عزیز احمد سے قاضی عبد الستار تک) کے ناول پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔  خدیجہ مستور کا مشہور ومعروف ناول ’آنگن‘ کا تنقیدی جائزہ 1978  میں شائع ہوا۔  ’عزیز احمد بحیثیت ناول نگار‘ کے نام سے بھی پروفیسر اسلم آزاد کی کتاب موضوع گفتگو رہی ہے۔ انھوں نے عزیز احمد کے اہم ناولوں مثلاً ہوس (1932)، مرمر اور خون (1936)، گریز (1943)، آگ (1946)، ایسی بلندی ایسی پستی (1947) اور شبنم (1949) کو اپنے مطالعے کا حصہ بنایا ہے۔

 صوبۂ بہار کے اہم اور خاص ادبا اور شعرا میں پروفیسر اعجاز علی ارشد کا نام لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کی مختلف صنفوں پر طبع آزمائی کی ہے۔ تحقیقی وتنقیدی مضامین لکھنے کے علاوہ ان کا خاص میدان ظرافت نگاری اور شاعری ہے۔ ان کی دو کتابیں ’کرسی اور کرنسی‘ اور ’دعوت اور عداوت‘ طنز وظرافت پر ہیں۔ ’نشاط غم اور دھوپ کا مسافر‘ شعری مجموعے ہیں۔ ان کی دوسری کتابیں سید عاشور کاظمی: فنکار اور فن، منثورات جمیل مظہری (ترتیب مع مقدمہ)  اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ’اسلوب ومعنی، بہار میں اردو تنقید اور بہار کی بہار (دو جلدیں)‘ ہیںعلاوہ ازیں اردو فکشن کی تنقید کے زمرے میں ان کی خدمات اردو ادب کے سرمائے میں بہت بڑا اضافہ ہیں۔جن میں توبۃ النصوح: ایک جائزہ، نذیر احمد کی ناول نگاری، کرشن چندر کی ناول نگاری، ہم عصراردو فکشن: چند زاویے وغیرہ اہم ہیں۔

اسلوب ومعنی‘ (1989) پروفیسر اعجاز علی ارشد کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے دیگر مضامین سے قطع نظر ان کے افسانوی مضامین ’اردو افسانہ اورعلامت‘، ’گدی کا افسانہ تج دو: تحلیل وتجزیہ‘، ’سہیل عظیم آبادی اور ان کی تحریریں: ایک تحقیقی جائزہ‘ ہیں۔ یہ تینوں مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی دوسری اہم کتاب ’کرشن چندر کی ناول نگاری‘ہے۔ پیش نظر کتاب موصوف کی تنقیدی بصیرت اور علم وآگہی کی شناخت کراتی ہے۔ ان سے قبل کم وبیش سبھی فکشن ناقدوں نے کرشن چندر کا ناول ’شکست‘ کو موضوع بحث بنایا ہے جبکہ پروفیسر موصوف نے کرشن چندر کے تقریباََ سبھی ناولوں کا فرداً فرداً مطالعہ ومحاسبہ کیاہے۔ یہ پوری کتاب کرشن چندر کی شخصیت کی تعمیر، ان کی ذہنی تشکیل اور اسلوب نگارش کے مطالعے پر مبنی ہے۔ ’نذیر احمد کی ناول نگاری‘ پروفیسر اعجاز علی ارشد کا تحقیقی مقالہ ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے سبھی ناولوں کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے ناول کے فن، پلاٹ، تکنیک، کردار نگاری اور ان کے طرزنگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیاہے۔ حال ہی میں ان کی ایک اور کتاب ’توبۃ النصوح ایک تلخیص ایک جائزہ‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ ’ہم عصر اردو فکشن چند زاویے‘ (2010کتابی دنیا، دہلی) میں بارہ مضامین شریک اشاعت ہیںجو خالص فکشن پر مبنی ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا ناولٹ سیتاہرن، شکیلہ اختر کی ناول نگاری، عبد الصمد کی ناول نگاری اور عہد حاضر میںلکھے جارہے ناولوں کا سیر حاصل مطالعہ پیش کیا گیاہے۔ اردو افسانے کے تعلق سے مغرب کے اہم رجحانات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

عصری تنقیدی منظر نامے کا ایک مسلم الثبوت نام ابوا لکلام قاسمی کاہے۔طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ تقابلی مطالعے کی طرف راغب رہے۔ 1978 میں ای ایم فورسٹرکی کتاب Aspects of the Novel(1927)کا اردو ترجمہ’ناول کا فن‘کے نام سے کیا ہے۔یہ کتاب ناول کی تنقید اور اس کی فنی خصوصیات پر مبنی ہے۔ ای ایم فورسٹر نے دو نئی اصطلاح آہنگ اور پیٹرن کا اضافہ کیا۔اس کی مثال میں مختلف ناولوں کے پلاٹ اور نثری آہنگ کو پیش کیا ہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ پروفیسر موصوف نے Aspects of the Novel کا اردو ترجمہ کیا اور اردو ناول کے فن کو دو نئی اصطلاح سے متعارف کرایا ہے۔ان کی دوسری کتاب ’تخلیقی تجزیہ‘میں اردو فکشن  اور اردو فکشن نگار کے متعلق وسیع اور مبسوط مقالات زیر بحث آئے ہیں۔ موصوف نے قدیم و جدید تخلیقی متون کا تجزیہ پیش کرکے نئے اور پرانے متون کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ’اردو فکشن آزادی کے بعد۔۔۔۔مسائل اور مباحث‘  میں سمینار میں پڑھے گئے مقالات کو ترتیب دیا گیا ہے۔جس میں اردو افسانے اور ناول کے مسائل پر کھل کر گفتگو ہوئی ہے۔

اردو فکشن کے معروف ناقدوںمیںپروفیسر ارتضی کریم کا نام لیا جاتا ہے۔وہ بیک وقت اردو ادب کی مختلف جہتوں پر گامژن ہیں۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ’آٹھویں دہائی میں بہار کا اردو ادب (1986)‘ سے کیا، مگر ان کی توجہ فکشن کی تنقیدپررہی ہے۔ ’عجائب القصص کا تنقیدی مطالعہ‘ (1987) کے ساتھ 18 ویں صدی کے دوسرے نثر نگاروں کا جائزہ لیتے ہوئے شاہ عالم ثانی کے معاصر ادیبوںکا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ’جوگندرپال۔۔۔ ذکر، فکر اور فن‘ مختلف ادیبوں کے مقالات اور خود جوگندر پال کے مضامین سے مزین ہے۔ ’قرۃالعین حیدر۔۔۔ایک مطالعہ‘ اور ’انتظار حسین۔۔۔ ایک دبستان‘ معیار و اقدار کے اعتبار سے نمائندہ کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ’مابعد جدیدیت اور پریم چند‘ میں ارتضی کریم نے ما بعدجدیدیت کے تنا ظر میں پریم چند کے فن پاروں کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ دو جلدوں میں ترتیب دی گئی کتاب ’آزادی کے بعد اردو افسانہ‘کی فہرست سازی میں گوپی چند نارنگ اور اسلم جمشید پوری جیسی قد آور شخصیات کی شمولیت عمدہ ترتیب سازی کی ضمانت ہے۔ ’اردو فکشن کی تنقید‘ فکشن کی تنقیدی روایت اور پس منظر پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔فکشن کے ضمن میں صرف ناول اور افسانوں کو ہی نہیں بلکہ ڈرامے، تمثیل اور داستان کو اپنے مطالعے کا حصہ بنا کراس پر مبسوط اور مدلل طریقہ کار سے بحث کی ہے۔کتاب کے آخر میں اردو فکشن کا اشاریہ بھی شامل کیا ہے۔یہ کتاب اردو فکشن کی تنقید پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی کتاب ثابت ہوئی ہے۔

خواتین فکشن تنقید نگاروں میں پروفیسر اشرف جہاں کا مقام بلند وبالا ہے۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ’اکیسویں صدی کی نرملا‘ اور ’اگر میں نا ہوتی‘ ان کے بہترین افسانوی مجموعے ہیں۔ ’ہم اردو کے ٹیچر ہوئے‘ انشائیہ کے طرز پر لکھی گئی ہے، جبکہ ان کی تین تنقیدی کتابیں جن کا تعلق براہ راست فکشن کی تنقید سے ہے۔  فن کردار نگاری اور ڈپٹی نذیر احمد، اردو ناول کے آغاز میں دبستان عظیم آباد کا حصہ اور اردو افسانے کا بدلتا مزاج۔ ’فن کردار نگاری اور ڈپٹی نذیر احمد‘ پر ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ ’اردو افسانے کا بدلتا مزاج‘ میں انھوں نے مختلف عہد میں افسانوی بنت، اس کے موضوعات اور بیان کے قاعدے کو احاطۂ تحریر میں لیتے ہوئے تر قی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت، اردو افسانہ 1947  کے بعد جیسے موضوعات کے تحت اردو افسانے پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ’اردو ناول کے آغاز میں دبستان عظیم آباد کا حصہ‘ اشرف جہاں کی عمدہ تصانیف میں شمار کی جاتی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے اردو فکشن کی تنقید پر کام کرنے والوں میں ڈاکٹر ہمایوں اشرف کا نام نمایاں ہے۔ ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ فکشن کی تنقید پر ان کی اہم کتابیں عبد الصمدعکس در عکس،غیاث احمد گدی: فرد اور فنکار،کلیات سعادت حسن منٹو آٹھ جلدیں ہیں۔ فکشن کی بازیافت(2013‘تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اس کے علاوہ الیاس احمد گدی اور رضا نقوی واہی کے فن پاروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

موجودہ دور کے اہم فکشن کے نقادوں میں صفدر امام قادری کا نام آتا ہے۔ان کی حالیہ کتابوں میں ’ذوقِ مطالعہ‘ (2014)، ’محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور اور دیگر مضامین(2015)‘، ’مشاہدات(2016)‘ وغیرہ کے مطالعے و محاسبے سے ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ قاسم خورشید نے ’ادبی منظر نامے پر گئودان‘ میں ناول کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے ناول ’گئودان‘ کو مختلف زاویے سے پرکھا ہے۔ ناول ’گئودان‘  پریم چند کا شاہکار ناول ہے۔ دیہی زندگی کے مسائل کی عکاسی جس دیانتداری سے پریم چند نے کی ہے اسے اردو اور ہندی کے علاوہ مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے مفکروں اور دانشوروں نے صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی ستر فیصد آبادی کی سسکتی ہوئی زندگی کو محسوس کیا ہے۔ ان کی دوسری اہم کتاب ’متن اور مکالمہ‘ کے نام سے 2016 میں شائع ہوئی۔ ’متن اور مکالمہ‘ کا اندراج جس جدت و ندرت کی نشاندہی کرتا ہے قابل تعریف ہے۔ ان کی تمام آرا سے قطع نظر میری نگاہ موضوع کی مناسبت سے ان چند نکتوں پر مرکوز ہے جن کا تعلق فکشن سے ہے۔ 1960 کے بعد خواتین ناول نگار، عینی اور روشنی کی رفتار، نئی تنقید اور عہد رواں کے افسانے، تفریحی ادب اور جاسوسی ناول، سہیل عظیم آبادی: اردو فکشن کا اسکول، سجاد ظہیر وغیرہ فکشن نگاروں اور ان کے فن پاروں پر وسیع تناظر میں سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔

 شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نئی نسل کے معتبر تنقیدنگاروں میں سے ایک ہیں۔  یوں تو شہاب ظفر اعظمی کی نگاہ فکشن کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف پر بھی رہتی ہے لیکن ان کی اساس اور پہچان فکشن کے اسلوبیاتی مطالعے سے ہوتی ہے۔ فکشن کے فن پاروں کے سبھی اجزا پلاٹ، کردار، منظر، پس منظر و زبان و بیان پر خود کو مرکوز کرتے ہوئے اس کے اسلوب پر سنجیدگی غیرجانبداری اور تعمیری نقطۂ نظر ان کے سامنے ہوتا ہے۔ ان کی سنجیدگی اس بات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے کہ وہ متن کو صرف ناقد کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیںبلکہ مصنف کے وژن، اس کے تجربات و احساسات و جذبات کی پیشکش کی گہرائی و گیرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے تنقیدی تجزیے میں متن کا مرکزی خیال اور مصنف کے زاویہ نگاہ کی آمیزش ہوتی ہے۔ یہی اسلوب ان کو ان کے ہم عصروں میں انفراد بخشتا ہے۔

اردو ناول کے اسالیب‘ چار سو صفحات پر مشتمل عمدہ تنقیدی جہات کا مجموعہ ہے۔ موصوف نے ناول کے آغاز و ارتقائ کا احاطہ کرتے ہوئے مختلف ادوار کی مناسبت سے پانچ ابواب میں تقسیم کر کے ہر ایک دور کے اہم ناول نگاروں اور ناولوں کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ اردو ناول ترقی پسند تحریک کے بعد، جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے نظریات و رجحانات کے حامل ناول نگاروںمثلا عبدالصمد، پیغام آفاقی، الیاس احمد گدی، سید محمد اشرف، غضنفر، ساجدہ زیدی، محمد علیم، کوثر مظہری، شفق، آچاریہ شوکت خلیل اور شاہد اختر اور دوسرے فن کاروںکے بھی فن پاروں کو تنقیدی پیمانے پر پرکھتے ہیں۔

کتاب ’متن اور معنی‘ اپنی گوناگوں تحقیقی، تنقیدی اور تاثراتی خصوصیات کے ساتھ مختلف موضوعات لے کر 2013 میں شائع ہوئی۔ اس میں شامل سبھی اکیس مضامین مختلف صنفوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ فکشن کے تعلق سے اس میں اردو داستانوں کا اسلوبی مطالعہ، ترقی پسند اردو ناول کے اسالیب، تانیثیت اور اردو کی نئی افسانہ نگار خواتین، بہار کی خواتین افسانہ نگار جیسے موضوعات ہیں، جو عمیق مطالعہ اور غوروفکر کی جانب ذہن کو مرکوزکراتے ہیں۔حال کے دنوں میں موصوف کی کتاب’جہان فکشن‘ اور ’مطالعات فکشن‘ یک موضوعی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان دونوں کتابوں کے سبھی مضامین اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے مطالعے پر مشتمل ہے۔

مطالعات فکشن کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے 2018 میں عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ موصوف نے اپنی سہولت کے لیے اختصاص، امتیازاور انفراد جیسے تین ضمنی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔اختصاص کے تحت ناول اورا فسانہ کے تعلق سے تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کے پانچ مضامین شامل ہیں۔ان میں ترقی پسند تحریک سے قبل سے ہم عصر ادب تک مختلف جہات سے اردو فکشن پہ گفتگو کی گئی ہے۔انفراد کے حصے میں نئی پرانی کتابوں کا تبصرہ شامل ہے۔یہ تبصرے فنکار کے مخصوص فکر و اسلوب کی غمازی کرتے ہیں۔ امتیاز کے تحت دس فکشن نگاروںکا مجموعی طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ان میں زیادہ تعداد معاصر فکشن نگاروں کی ہے۔ناقد موصوف کا مثبت اور غیر جانبدارانہ رویہ ان کے مزاج میں داخل ہے۔اس طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاصر فکشن نگاروں کے متون کی روشنی میں ان کی امتیازی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

 اس کے علاوہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی مرتب کردہ دو کتابیں ’فرات: مطالعہ، محاسبہ‘ اور ’صالحہ عابد حسین: فنی اور فکری جہات‘ کے نام سے اردو فکشن کی تنقید میں مزید اضافہ ہیں۔ ان دونوں کتابوں کی ادبی قدر وقیمت اور معنویت اس لحاظ سے اہم ہے کہ’فرات‘ آٹھویں دہائی کے بعد منظر عام پر آنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کی تفہیم وتعبیر میں پرانے لکھنے والوں کے ساتھ نئے قلمکاروں کو شامل کرکے ان کے نقطۂ نظر کو پیش کیاگیا ہے۔ اسی سلسلے کی موصوف کی دوسری کتاب ’صالحہ عابد حسین: فنی اور فکری جہات‘ میںشامل مضامین سمینار میں پڑھے گئے مقالات ہیں۔ ان دونوں کتابوں کی دستاویزی اہمیت اردو ادب میں مسلم ہے۔

بہار میںاردو فکشن کی تنقید‘ پر لکھی گئی کتابوں کی فہرست بہت لمبی ہے جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔ اس لیے چند ناموںکے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔اس ضمن میںشمیم صادقہ( قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں نسوانی کردار)، ڈاکٹر نسیم احمد (اردو ناول پر تقسیم ہند کے المیے کے اثرات)، شمشاد جہاں(کرشن چندر کے ناولوں میں نسوانی کردار)، ثریا جبیں (عصمت چغتائی بحیثیت افسانہ نگار)، ڈاکٹر سورج دیو سنگھ (اردو اور ہندی کے سیاسی ناول: ایک تقابلی مطالعہ )، ابوبکر رضوی( اردو افسانے میں مہملیت کا رجحان )،واجدہ تبسم(قا ضی عبد الستار کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ)، مسرت جہاں (قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری: ایک تنقیدی مطالعہ)، رضوانہ پروین( الیاس احمد گدی اور سنجیو کی ناول نگاری کا تقابلی مطالعہ)، شمع انجم(اردو افسانوں میںدلت مسائل کا جائزہ) وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔


 

Dr.  Musarrat Jahan

Post:  Doc. Fellow

Patna University

Patna- 800005 (Bihar)

Mob:08969042640/ 09801377362

E-mail:-drmusarratjahanali@gmail.com

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2022

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں