17/5/22

حسین الحق: فکشن کے ایک روشن باب کا خاتمہ - مضمون نگار: محمد شارب

 



حسین الحق کو پہلی بار دسمبر2016  میں قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا جب ونوبا بھاوے یونیورسٹی، ہزاری باغ(جھارکھنڈ) کے شعبۂ اردو میں ’اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر‘ پریک روزہ سمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں ان کے ساتھ ساتھ اسلم جمشید پوری، شاہد رضوی، پروفیسر فاروق، ڈاکٹر کہکشاں پروین، احمد بدر (صدور) وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ اس میں بحیثیت ریسرچ اسکالرز مقالہ نگار کے راقم الحروف کی بھی رانچی سے شرکت ہوئی تھی۔جب حسین الحق کو دعوت سخن دی گئی تومیں نے دل ہی میں اراکین بزم (ڈاکٹر عامر مصطفی صدیقی، ڈا کٹر زین رامش، ڈاکٹر ہمایوں اشرف وغیرہ) کا شکریہ ادا کیا۔ اس دن کی تقریب میرے لیے تاریخ رقم کرنے جیسی تھی کہ جن کا نام اب تک میں نے ناول ’بولو مت چپ رہو‘ اور ’فرات ‘ کے حوالے سے سنا تھا آج انھیں اپنی آنکھوں سے اور دن کی روشنی میں دیکھ رہا ہوں۔رنگ گورا چٹا، قد درمیانہ، آنکھوں پر عینک، خشخشی داڑھی اور زبان و بیان میں بلا کی روانی تھی۔ جب موصوف نے تمہید کے بعد اپنی تقریر کا سلسلہ شروع کیا تو نظیر اور اردو ادب کے حوالے سے ایسی معلومات افزا باتیں سامنے آئیںجن سے اب تک میں نابلد تھا۔ دوران تقریرمعلوم یہ چلا کہ انھیں نظم و نثر دونوں اصناف ادب میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ انھوں نے کوئی سو سے زائد غزلیں بھی لکھیں ہیں۔شاعری میں اپنا تخلص حسین استعمال کرتے تھے۔ وہ کلاسیکی اردو شعریات کے احیا کے آرزو مند تھے اور اسی بنیاد پر بر صغیر کی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو، عربی اور فارسی زبان کے کلاسیکی ادب کے مطالعے سے اردو شاعری کو وقار و عظمت عطا کرنے کے خواہاں تھے، لیکن اسے بھی محض ایک اتفاق ہی کہا جائے گا کہ موصوف کا ایک بھی شعری مجموعہ ہنوز منظر عام پر نہیں آسکا ہے۔ اگر شعری تصنیف کے پس منظر میں بات کی جائے تو ایک کتابچہ ’آخری گیت‘ جو ایک طویل نظم تھی تقریباً 30-32  صفحات پر مشتمل تھا شائع کرایا۔جہاں تک اردو فکشن کی بات کی جائے تو اس صنف میں انھیں زبردست عبور حاصل تھا جس کے تعلق سے صوبۂ بہار کی سر زمین کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جہاں سے جید فکشن نگاروں اور دانشوروں نے جنم لیا۔ایسے ہی ناموں میںایک معروف نام موصوف کاہے۔

حسین الحق جو 72 برس کی عمر گزار کراس دار فانی سے 23 دسمبر 2021 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔  انھیں اب مرحوم لکھتے کلیجہ منھ کو آتا ہے گزشتہ ایک سال سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ علاج و معالجے میں کوئی دقیقہ باقی نہ تھااور علاج کے دوران ہی پٹنہ کے میدانتا ہسپتال میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور آبائی وطن سہسرام میں سپرد خاک ہوئے۔ وہ مختلف اصناف ادب میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے جن کی شخصیت کے کئی گوشے روشن ہیںجہاں یہ بیک وقت ایک غیر معمولی فکشن نگار تھے، وہیں ایک مشفق و مہرباںاستاذ کی حیثیت سے مختلف جامعات میں درس و تدریس کا کام انجام دیا توعلم تصوف میں بلا کی مہارت حاصل تھی، مصلح ایسے کہ کسی کو ان کی تجاویز سے کوئی اختلاف نہ ہوتا، فلسفیانہ گفتگو میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا،خود احتسابی اور نقد ونظر کے سارے احوال پر اظہار خیال ان کا کمال سمجھا جاتا تھا اور ساتھ ہی عالمی ادبیات کے ماہرین میں بھی ان کا شمار ہوتا۔ ان کے معاصرین فکشن نگاروںمیں عبدالصمد، پیغام آفاقی، غضنفر، مظہر الزماں خاں، شوکت حیات،شموئل احمد،  سلام بن رزاق، نورالحسنین، انجم عثمانی کے نام نامی شامل ہیں۔

حسین الحق کی پیدائش 2نومبر 1949 کو محلہ املی آدم، سہسرام، بہار میں ہوئی۔ ان کے والد مولاناانوارالحق شہودی نازش سہسرامی تھے جو ایک عالم، صوفی صفت انسان تھے اور والدہ کا نام شوکت آرا تھا۔خود موصوف بھی متصوفانہ فکر رکھتے تھے۔ انھوں نے سیاسی، سماجی اور معاشرتی تغیرات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے لیکن عام انسانی زندگیوں پرجیسی غائرانہ نگاہ انھوں نے ڈالی ہے ویسی ان کے معاصرین میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ان کی شادی 1977   میں نشاط آرا خاتون سے ہوئی جن کے بطن سے دو بیٹیاں اور دو بیٹے تولد ہوئے۔برسوں قبل بسلسلۂ ملازمت ان کی فیملی سہسرام سے گیا، نیوکریم گنج آکر آباد ہو گئی تھی لیکن اپنے آبائی وطن سے ان کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا۔

 ان کی ابتدائی تعلیم ان کے آبائی وطن سہسرام میں ہی ہوئی۔ کبیریہ مدرسے سے مولوی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد آرا ضلع اسکول سے 1963  میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہو کر1968  میں S.P. Jain collegeسہسرام سےB.A. کی ڈگری امتیازی نمبرات سے حاصل کی۔ 1970 میںM. A.کے امتحان میں بھی پٹنہ یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد 1972 میں مگدھ یونیورسٹی سے بھی فارسی میں ایم۔ اے کیا۔پھر عارضی طور پر گورو گووند سنگھ کالج، پٹنہ میں بحیثیت لیکچرار ملازمت بھی کی۔اسی دوران انھیں U.G.Cکی جانب سے جونیر فیلوشپ عطا ہوئی اور 1974 تک بطور ریسرچ فیلوشپ کی حیثیت سے پٹنہ یونیورسٹی میں تحقیقی وتدریسی کام انجام دیا۔بطور لکچرار ان کی پہلی تقرری S.P.Collegeدمکا(موجودہ جھارکھنڈ) میں ہوئی لیکن یہاں انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد 1976 میں ان کی پہلی تقرری گیا کالج، گیا میںبحیثیت لکچرار عمل میں آئی۔ بعد ازاں 1981 میں شعبہ اردو، مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا میں ان کا تبادلہ ہوا جہاں سے 2014 میں سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے’ اردو افسانوں میں علامت نگاری ‘کے موضوع پر 1985میں پروفیسر افصح ظفر کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔

اگر ان کے ادبی اسفار کا ذکر کریں تو وہ تقریباًدو سو سے زائد افسانوں کے خالق ہیں۔ ان کی پہلی کہانی ’عزت کا انتقال‘صوفی بلیاوی کے نام سے ماہ نامہ ’کلیاں‘ لکھنؤ سے 1965 میں شائع ہوئی۔ اسی زمانے میں ان کا پہلا افسانہ ’پسند‘ ماہ نامہ’ جمیلہ ‘دہلی میں شائع ہوا۔ان کے منتخب افسانوں میں نیو کی اینٹ، ندی کنارے دھواں، زخمی پرندے، مردہ راڈار، چپ رہنے والا کون، لڑکی کو رونا منع ہے،جلیبی کا رس، کریلا، گونگا بولنا چاہتا ہے،کُہاسے میں خواب،سبحان اللہ، وقنا عذاب النار،ایندھن، ناگہانی وغیرہ ہیں جو اردو فکشن میں لازوال مقام رکھتے ہیں۔  ان کے طویل تخلیقی سفر میںسات افسانوی مجموعے ہیں۔ پہلامجموعہ ’پسِ پردئہ شب‘ (1981)، دوسرا مجموعہ’صورت حال‘ (1982)، تیسرامجموعہ ’بارش میں گھرا مکان‘ (1984)، چوتھا مجموعہ ’گھنے جنگلوں میں‘ (1989)، پانچواں مجموعہ ’مطلع‘(1995)،چھٹا مجموعہ ’ سوئی کی نوک پر رکا لمحہ‘ (1997) اور ساتواں مجموعہ ’نیو کی اینٹ‘ (2009) ہیں جو شائع ہو کر مقبول خواص و عام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے جب افسانے لکھنے کا آغاز کیا تووہ عہد جدید تجربات اور علامت نگاری کا تھا جہاں نئے نئے افسانے وجود میں آرہے تھے جن پر شعور کی رو کی تکنیک کے واضح اثرات تھے لیکن انہوں نے روایت سے انحراف نہ کیا بلکہ اس میں اپنے منفرد اسلوب و زبان کے حسین امتزاج سے اپنی فکشن فہمی کا ثبوت پیش کیا۔آگے چل کر ان کا یہی لب و لہجہ اور انداز بیاںجدید افسانہ نگاری میں ایک دستخط کاحامل بنا۔فکشن کا قاری اس بات کو کیسے فراموش کر سکتا ہے جب عالمی تنقید نگار وارث علوی نے کبھی مشہور فکشن نگار عبدالصمد بشمول رضوان احمد کی افسانوی زبان پر سخت اعتراضات کیے تھے اور ساتھ ہی خطئہ بہار کے نئے واردان کی زبان واسلوب پر سوالیہ نشان قائم کیا تھا۔ اسی زمانے میں حسین الحق اور شوکت حیات نے اپنی تخلیقیت کے ذریعے باور کرایا کہ ان کی زبان فکشن کے تئیں نہ صرف موافق ہے بلکہ معتبر بھی ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر کہانیاں لکھیں جو قابل ستائش و تحسین ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے تنقیدی و صوفیانہ و مذہبی موضوعات پر بھی گراں قدر مضامین لکھے ہیں جن کا تعلق مطالعے سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مزاج میں تصوف آمیزسادگی ہے۔

حسین الحق بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے لیکن بحیثیت ناول نگار بھی ان کی انفرادیت مسلم ہے۔ تین ناول اشاعت کی منزل سے ہمکنار ہو چکے ہیں جن میں ان کا پہلا ناول ’بولو مت چپ رہو‘ ہے جو 1990 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں موصوف نے آزادی کے بعد تعلیمی نظام میں جو تبدیلیاںآئیں اور کس طرح افسر شاہی نے اس مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی عزت کاکھلواڑ بنایا ہے اس کا بیان ہے۔اس کے ساتھ ہی نکسلیوں کی تحریک کو پیش کیا ہے۔ اس ناول کا ایک کردار سابق انقلابی اور موجودہ ہیڈماسٹر افتخارالزماں معاشرے سے کٹاہوا فرد ہے۔اس نے آزادی کی تحریک میں جمہوریت،مساوات اور معاشی عدل کے خوابوں کی تکمیل کے مقصدسے حصہ لیا تھا لیکن آزادی کے بعد اس کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے یاران ہم پیالہ وہم نوالہ کامیاب دنیادار بن جاتے ہیں۔ ماسٹر چونکہ ایماندارہے اس لیے اپنے چاروں طرف پھلنے پھولنے والی بدعنوانی،ہوس اور لوٹ کھسوٹ کے درمیان وہ اپنے آپ کو قائم کردہ اسکول کے قلعے میں محفوظ کر لیتا ہے۔یہ ایک ایسا کردار ہے جوانسانیت،رواداری اور خدمت خلق کو اپنا شعارسمجھتاہے۔تحریک آزادی کے زمانے کی حب الوطنی،انسان دوستی،فرقہ وارانہ یگانگت اور قربانی کے جذبات آزادی کے بعد کے چند ہی سالوں میں ہوس پرستی،لالچ،استحصال اور فرقہ واریت کی مہیب شکل میں تبدیل ہو گئے اور ماسٹر افتخار الزماں جیسے لوگ پرانی اور فرسودہ اقدار کے امین بن کررہ گئے۔

موصوف کادوسرا ناول ’ فرات‘ 1992 میں شائع ہوا۔یہ 296 صفحات پر مشتمل وسیع کینوس کا ناول ہے جس میں نئی نسلوں میں کس طرح ذہنی، جذباتی اور اخلاقی تبدیلیاں رونماں ہوتی ہیںاسے مصنف نے صداقت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ ناول اپنے اسلوب اور موضوع کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس میں نسلوں کے تصادم کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مرکزی کردار وقار احمد کی ساری زندگی مجاہدے میں گزرتی ہے۔ یہ ناول ایک کرداری ناول ہے جس میںمصنف نے اس ناول کے مرکزی کردار کے توسط سے پانچ نسلوں پر مشتمل ایک حقیقی کہانی قاری کے سامنے پیش کی ہے ساتھ ہی غوروفکر کرنے کے اوقات بھی فراہم کیے ہیں۔ الماس فاطمہ اپنے تحقیقی مقالے میں رقمطراز ہیں کہ:

’’ حسین الحق نے اپنے ناول میں دو تہذیبوں کے تصادم کے علاوہ جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کی سچی تصویر کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس ناول میں لفظوں کے ذریعے ایسی فضا کی تخلیق کی ہے جس کی آرائش و زیبائش، حسن و جمال، دلکشی اور دلفریبی، سادگی اور روانی کے سحر میں قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی گرفتار رہتا ہے۔ حسین الحق نے ہمارے آس پاس کی زندگی کو جس طرح محسوس کیا ہے ویسا ہی اس ناول میں بیان کیا ہے۔‘‘

(مشرف عالم ذوقی کے ہمعصر ناول نگار: کشمیر عظمیٰ)

مصنف نے فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعے اپنے بچپن، والد کی زندگی، نظریۂ حیات اور تہذیبی و معاشرتی اقدار کی تصویرکشی کی ہے۔مرکزی کرداروقار احمد پٹنہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے جہاں کلیم عاجز جیسے استاد کی صحبت ملی۔ ایم اے کے بعد نوکری لگ گئی۔اپنی محنت اور لگن سے ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتے ہیںاور پرانی بستی کو خیر باد کہہ شہر کی ایک پوش کالونی میں ذاتی خوبصورت مکان ’ سہسرام ہائوس‘ بنواتے ہیں۔ یہاں دو نسلوں اور دو تہذیبوں کے تضادو تصادم رونما ہوتے ہیں۔ اس میں وہی تکنیک استعمال کی گئی ہے جو اکثر فلموں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ کسی کردار کا ہمزاد اس کے مد مقابل اگر محو گفتگو ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح وقار کا ہمزاد بھی اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ تین نسلوں کے اقدار کا احوال بیان کرتا ہے جو آسان کام نہیں ہے۔ اس میں تمام رشتے جبلتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے کردار اس کریہہ صورت حال کو جھیلتے ہیں۔ روحانی، اخلاقی تعلقات کی پامالی کھل کر سامنے آتی ہے۔تبریز اور شبل کے کردار کے مابین بڑا فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ شبل تعلیم یافتہ اور روشن خیال لڑکی ہے۔ لیکن وہ تبریز کی مانند اپنی زندگی کو تعفن بھرے ماحول کا حصہ نہیں بننے دیتی۔اس کی روشن خیالی اور آزاد خیالی اس کی فکر سے جھلکتی ہے لیکن عملی طور پر وہ ان غلاظتوں میں ملوث نہیںہوتی جسے تبریز اپنی زبان میں تہذیب کے ختنہ کا خون سمجھتا ہے۔ ناول کے متعلق انور پاشا رقمطراز ہیں:

’’حسین الحق’کا فرات‘معاصر ناول میں موضوعی اعتبار سے قدرے الگ جہتیں رکھتا ہے۔ یہ ناول جنریشن گیپ (Generation Gap) اور بدلتے تہذیبی و معاشرتی اقدار سے پیدا شدہ صورت حال کو موئثر انداز میں لاتاہے۔ تین نسلوں کے درمیان موجود ذہنی اور معاشرتی تہذیبی و اخلاقی قدروں کے تصادم سے ناول کا ہیولیٰ تکمیل پاتا ہے۔ زبان و اسلوب میں رچائو اور چاشنی بیانیہ کو تازگی عطا کرتی ہے۔‘‘ 

(معاصر اردو افسانے کے تہذیبی و سماجی سروکار، کتابی سلسلہ 7، نیا سفر، دہلی)

جہاں تک اسلوب بیان کامعاملہ ہے تو اس میں اظہار کی بے باکی، فکر کی ندرت اور لہجے کا توازن ناول کو ایک الگ انداز دیتاہے۔اس کے علاوہ مصنف شعری آہنگ سے اپنی نثر کو پراثر بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی تشبیہات و استعارات کے استعمال سے نثر میں بے ساختگی اور بے تکلفی بھی پیدا ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر احمد صغیر:

’’یہ تشبیہات واستعارے زیب داستاں کے لیے نہیں لائے گئے ہیں بلکہ ناول کی داخلی ضرورت بن کر سامنے آئے ہیں جن کے بغیر وہ جذبہ یا احساس قاری تک پہنچ ہی نہیں سکتا جو پہنچانا شاید ناول نگار کا مقصد ہے۔‘‘(اردو ناول کا تنقیدی جائزہ 1980کے بعد، ص 120)

عام طور پر حسین الحق اسلامی استعاروںسے کام لیتے ہیں۔ اس ناول میں بھی فرات زندگی اور خوش حالی کی علامت ہے اورایک طرف انسانیت اس کے کنارے کھڑی پیاس سے نڈھال ہے۔ موصوف کے طرز نگارش کے ضمن میں یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے اس ناول میں اظہار کے ان تمام وسائل سے کام لیا ہے جن سے اسلوب کو منفرد اور فن کو عظیم بنایا جا سکتا ہے۔ناول کی اثرپذیری کی بحث سے قطع نظراس ناول میں معنوی اور اسلوبیاتی سطح پرتنوع کے ساتھ ساتھ وسعت بھی دکھائی دیتی ہے، جس کے حوالے سے قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ عہد حاضر میں ہندوستانی معاشرتی تہذیب پر مغربیت کا کافی گہرا اثر ہے اور سیاسی وضع قطع تو بالکل فرنگی نقطئہ نظر سے مملو ہے۔اور انھیں وجوہات و علل سے انسانی اخلاقی اقدار کی پامالی رونما ہوئی ہے۔جدید مغربی تصورات و تفکرات نے انسانی فلاح و بہبود کے لیے فلسفیانہ موشگافیوںکی دقتیں بھی سہیںمگر کوئی بھی فلاحی فلسفہ انسانی معاشرے کے لیے حیات کا درماں نہ بن سکا۔اور تیسر ا ناول ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ’اماوس میں خواب ‘ (2017)  ہے۔ اس ناول کا موضوع ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی حالات تھے۔اس کا کینوس وسیع ہے جس میں آزادی کے بعد مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات و انقلابات کی ترجمانی کی گئی ہے۔

حسین الحق اپنے دوررکے ان تخلیق کاروں میں سے تھے جن کے بغیراردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔بحیثیت ناول نگار ان کی انفرادیت مسلم ہے۔ تنقید پر بھی انہوں نے گہری نظر ڈالی ہے اور ان کا اسلوب بھی اپنے ہم عصروں سے مختلف ہے۔ ان کی تحریروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے عہد اور ماحول کے تضادات کی ترجمانی کرتی ہیں جس میں افسانوی انفرادیت کے ساتھ ساتھ فکشن کی نئی جمالیات بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹرشہاب ظفر اعظمی کو دیے ایک انٹر ویو میں وہ اپنے وسیلہ اظہار کے طور پر فکشن کے انتخاب کے ضمن میں کہتے ہیں کہ:

’’میرے خیال میں لکھنے والا خود کسی صنف کا انتخاب نہیں کرتا۔شاید صنف لکھنے والے کا انتخاب کرتی ہے کیونکہ اختر اورینوی، آل احمد سرور، کلیم احمد، احتشام حسین، شمس الرحمن فاروقی سب نے شاعری کے انتخاب کی کوشش تو کی اور اس کے نمونے بھی پیش کیے مگر جس صنف نے مذکورہ بالا حضرات کا انتخاب کیا وہ حضرات شاعر نہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں لکھنے والے کی مرضی نہیں چلتی۔ خود میرا بھی یہی معاملہ ہے۔ شاعری کی ہے اور جم کے کی ہے۔ میری کاپیوں میں کم از کم سو غزلیں اور ڈیڑھ سو نظمیں موجود ہیں۔ مضامین بھی لکھے اور چھپے بھی، واہ واہ بھی ہوئی مگر وہ مولوی مدن کی سی اگر افسانوں میں ہی پیدا ہوئی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ شاعری اور مضمون تو میرا انتخاب تھا مگر میں دراصل فکشن کا انتخاب ہوں۔‘‘

(ایک انٹرویو، ماہنامہ ’اردو دنیا‘ نئی دہلی، دسمبر 2003)

حسین الحق کو دیر سے ہی سہی ان کے ناول ’اماوس میں خواب‘ کے لیے ساہتیہ ا کادمی ایوارڈ 2020 سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی کاوشوں کے مد نظر انھیں غالب ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ان کے جانے سے اردو فکشن میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھر پائی اس صدی میں مشکل ہے۔

 

Dr. Md. Sharib

Vill.: Masihani, Tola Mandeya

P.S.- Chhatarpur- 822113

Dist.- Palamu- Jharkhand

Mob.: 9835938234

 

 



 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں