19/5/22

پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی تنقیدی بصیرت اور خسرو شناسی - مضمون نگار : ریاض توحیدی

 



پروفیسرابوالکلام قاسمی (1950-2021)  ایک استاد  ہونے کے علاوہ ادب میں تنقید نگار کی حیثیت سے بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔علاوہ ازیں کئی رسائل کے ساتھ عملی طور پر منسلک رہے، جن میں’ تہذیب الاخلاق‘ خصوصی طور پر شامل ہے اور اپنا ایک رسالہ ’امروز‘ بھی نکالتے تھے جس نے کم وقت میں سنجیدہ قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ ان کی اہم کتابوں میں کثرت تعبیر، شاعری کی تنقید، تخلیقی تجربہ، مونوگراف مرزا غالب۔۔۔ شخصیت اور شاعری، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت اور ’معاصر تنقیدی رویے‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ساہتیہ اکادمی سے کتاب’معاصر تنقیدی رویے‘ کو 2009 میں ایوارڈ بھی ملا تھا۔ ان کی ترتیب  وترجمہ کردہ کتابوں میں آزادی کے بعد اردو فکشن، آزادی کے بعد اردو طنز و مزاح، انتخاب کلام فراق گورکھپوری‘، کلیات رشید احمد صدیقی، مشرق کی بازیافت، ناول کا فن اور’ڈاکٹر ذاکر حسین ‘ شامل ہیں۔

مجموعی طور پر اردو تنقید کااحاطہ کریں تواردوتنقید کا معتدبہ حصہ تبصراتی، تشریحی،  توصیفی یاتنقیحی نوعیت کا خاکہ معلوم ہوتا ہے، اور بہت کم ناقدین ہیں جن کی تحریرات میں تفکیری اور تجزیاتی فکر و پرکھ کا تکنیکی مکالمہ نظر آتا ہے، ان میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی شامل ہیں، کیونکہ موصوف کسی بھی شعری متن پر گفتگو کرنے کے دوران تنقیدی اسالیب کے پیش نظرتجزیے و تحلیل کے ماہرانہ عمل کا ثبوت جگہ جگہ فراہم کرتے ہیں جو ان کی تصنیفات خصوصاً ’شاعری کی تنقید‘ اور ’معاصر تنقیدی رویے‘ کے بیشتر مضامین سے ظاہر ہوتاہے۔اردو تنقید کے رسمی اور مکتبی انداز کا احساس خود ابوالکلام قاسمی کو بھی تھا کیونکہ ان کی نظر اردو کے علاوہ کئی اور زبانوں کے ادب پر بھی تھی، چونکہ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران عربی اور فارسی سے شناسائی اور پھر عصری تعلیم کے میدان میں آکر اردو ، انگریزی اور چند دیگر زبانوں کے شعر و ادب سے بھی انھیں استفادہ کرنے کا موقع ملاتھا، اس لیے اپنی عدم اطمینانیت کا اظہار کرتے ہوئے کتاب ’معاصر تنقیدی رویے‘ میں فرماتے ہیں:

’’اردو تنقید کی عام فضا ہنوز تاثراتی اور عمومی نوعیت کی تحریروں کو ادبی تنقید کا نام دینے میں مصر نظر آتی ہے۔ اس ماحول میں ادبی تنقید کی منطقی زبان اور معروضی  طرز بیان پر کوئی مفاہمت نہ کرنا ہماری سب سے بڑی ناقدانہ ذمے داری بن گئی ہے۔ ناچیز نے شاعری اور نثر دونوں طرح کے ادب پاروں میں تنقیدی مضامین لکھے ہیں لیکن بالعموم کوشش رہی ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کو مرکز میں رکھنے کے بجائے ان کی تخلیقات کو بنیادی محور بنایا جائے اور متن پر سارا ارتکاز رکھنے کے نتیجے میں تحریک پانے والے ناقدانہ عمل کواستدلال کی مددسے سامنے لایا جائے۔‘‘   (ص6)

مذکورہ اقتباس میں جو اہم بات کہی گئی ہے وہ بنیادی متن پر ارتکاز کرکے ناقدانہ تجزیہ پیش کرنا ہے اور یہی ادبی تنقیدکا بنیادی کام ہے۔اگرچہ ابوالکلام قاسمی کی تحریرمیں یہ طریقہ کار جگہ جگہ نظر آتا ہے تاہم ان کے علاوہ اردو کے کئی اور ناقدین  بھی نہ صرف اس قسم کے تنقیدی اپروچ پر زور دیتے آئے ہیں بلکہ عملی طور پر ان کی تنقیدی نگارشات میں یہ چیزیں نظربھی آتی ہیں، جس سے اردو تنقید کی معیار بندی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔اس حقیقت کی جانب موصوف بھی اشارہ کرتے  ہوئے اپنے تنقیدی طریقہ کار کے مقصد سے متعلق لکھتے ہیں:

’’مجھے اس بات کے اظہار میں کوئی تکلف نہیں کہ معاصر تنقیدی منظر نامے میں سنجیدہ اور قابل اعتنا کاوشیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں اس لیے اردو میں تنقید کے نام پرلکھی جانے والی عام تحریروں سے بے اطمینانی کااظہار کیے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔میں اگر تنقید لکھتا ہوں تو اس کاسبب اس بے اطمینانی کے ازالے کی بساط بھر کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ‘‘                           

ادبی تنقید کے اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھیں تو کسی بھی تخلیقی متن کے تجزیاتی عمل کے دوران تخلیق کار کے زمانی ماحول کے برعکس تخلیق کے متنی ماحول پر ارتکاز کرنا تنقیدی بصیرت کہلاتا ہے تاہم دوران تجزیہ اگر کہیں کہیں متن، تخلیق کار کے زمانی یا ثقافتی ماحول کی بھی عکاسی کرتا ہے اور یہ معاملہ اکثر شعر وفکشن میںسامنے آتا رہتا ہے تو بھی تنقیدی نقطہ نگاہ سے متن(Text) اور بین المتن (Inter text)  میںپوشیدہ لسانی، صوتی، ہیئتی، موضوعی، اسلوبیاتی، ساختیاتی اور جمالیاتی وغیرہ جیسے فنی اور تکنیکی عوامل کے زیر نظر ہی توضیحی امکانات کا سلسلہ چلتا رہے گا اور اس دوران حسب ضرورت تخلیق کار کی شخصیت اور اس کی تخلیق میں عصری اثرات کوپیش نظر رکھ کر بھی بات کی جاسکتی ہے، کیونکہ متن میں الفاظ کے ذریعے ہی معنیاتی فضا بندی قائم ہوتی ہے جو بقول سوسیئر’’صوتی طور پر’ معنی نما‘ (Signifier) اور تصور یا مفہوم کے طور پر ’معنی‘ (Signified)  کے ساختیاتی نظام پر استوار ہوتا ہے۔اس ضمن میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی ادبی تنقید کے اطلاقی طریقہ کار کی اہمیت اور ضرورت پر نظریاتی انداز سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ادبی تنقید کا نام لیا جائے تو بالعموم اس سے اطلاقی تنقیدمراد لی جاتی ہے۔یعنی کوئی ایسی تحریر جوادبی متن کے مطالعے، تفہیم، تجزیے، تقابل، اور تعبیر جیسے وسیلوں کو استعمال کرنے کے بعد ادب پارے کی جانچ پرکھ کرے یا زیادہ واضح  انداز میں کہا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تنقید تو دراصل وہ ہے جس کے وسیلے سے ادبی متن کے سمجھنے اور اس کی قدروقیمت کو متعین کرنے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں تحسین کے ساتھ تنقیص کے مراحل بھی آتے ہیں۔مگر نہ تحسین بلادلیل ہونی چاہے اور نہ تنقیص بغیر کسی نقص کی نشاندہی کے۔ یعنی ہرمرحلے   اور ہر فیصلے میں غیر جانبداری اور معروضی، بنیادی شرط قرار پائے گی۔‘‘

(معاصر تنقیدی رویے،ص11)

محولہ اقتباس میں ادبی تنقید کے اطلاقی پہلوؤں کا عمدہ احاطہ کیا گیا ہے کیونکہ ایک ناقد کاصاحب بصیرت ہونا ضروری ہے تب ہی وہ کسی معیاری متن کا ناقدانہ تجزیہ کرسکتا ہے نہیں تو پھر تنقید کے نام پر تبصرہ نگاری یا سطحی قسم کی خیال آرائی ہی سامنے آتی رہے گی۔

اب پروفیسر ابوالکلام قاسمی صاحب کی خسروشناسی پر توجہ دیں تو اس تعلق سے ان کی تنقیدی کتاب ’شاعری کی تنقید‘ میں شامل مضمون ’خسرو کی غزلیہ شاعری کی حرکیات‘ پر ارتکاز کرنا مفید رہے گا۔ اس کتاب کے تنقیدی مباحثہ پر غور کریں تو اس میں قدیم وجدید تخلیقی متون کا تجزیہ ۔۔۔لسانی، ہیئتی، صوتی، ساختیاتی، نفسیاتی، جمالیاتی، معنیاتی اورماحولیاتی نظام کے اندر معنی خیز انداز سے کیا گیا ہے۔ ان میں روایتی انداز کی معنیاتی تشریح کے برعکس تخلیق کی توضیح میں اپنا خیال بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ تجزیاتی عمل کی دلچسپ غمازی کرتا ہے۔جس کا اندازہ شامل کتاب مضامین کے عنوانات خسرو کی غزلیہ شاعری کی حرکیات، ولی دکنی کا شعری طریقِ کار، خواجہ میر درد ـ ماورائے تصوف، غالب کا شعری لہجہ، ذوق کی غزل گوئی :ایک بازیافت، اردو غزل کی روایت میں اقبال کی انفرادیت،  فراق کی غزل کے امتیا زات،  جدید تر غزل کی صورت حال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ان مضامین کے مباحث اتنے اہم ہیں کہ ہر مضمون کا الگ الگ جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

ابتدا میں ’میرا تنقیدی موقف‘ میں اپنی تنقیدی کارگزاری کے اسلوب کی صراحت کرتے ہوئے قاسمی صاحب فرماتے ہیں:

’’۔۔۔کوئی تنقیدی رویہ میرے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں بن پایا جب تک شعری متن کے براہ راست مطالعے نے اس کی توثیق نہ کردی ہو۔ چناچہ میرے لیے تنقید نگار کا منصب بنیادی طور پر ایک ایسے باذوق قاری کا منصب ہے جو شاعرانہ تدبیر کاری سے باخبر ہونے کے باوجود شاعری کی بھرپور تفہیم، تحسین اور  جمالیاتی قدر کے تعین کے عمل سے، سب سے پہلے گزرنا چاہتا ہے۔ اس موقعے پرمجھے اس تنقیدی طریق کار سے بے اطمینانی ظاہر میں کرنے کوئی تکلف نہیں، جس کا تعلق محض تنقیدی نظریات کے انطباق سے ہوتا ہے یا جس میں شعری متن سے حاصل ہونے والی توثیق سے ماورا ہوکر صرف تنقیدی پیمانوں کی کھتونی سے سروکار رکھا جاتا ہے۔ ‘‘(ص: Viii)

 ان تنقیدی تصریحات کے پیش نظر کتاب میں شامل مضمون ’خسرو کی غزلیہ شاعری کی حرکیات‘ پر نظرڈالیں تواس مضمون میںامیر خسرو کے غزلیہ کلام کی شعریات کے لسانی، صوتی اور استعاراتی نظام کے حرکیاتی رنگ و آہنگ کا معنی خیز اور دلچسپ تجزیہ پیش ہوا ہے۔ مضمون کی شروعات میں خسرو شناسی کے مطالعے کے بارے میں کہاگیا ہے کہ ’’۔۔۔تاہم یہ مطالعے بھی خسروکے فکری رویّے کی طرف بعض اشاروں سے آگے نہیں بڑھتے، اور خسرو کے پیرایۂ بیان اور شعری طریقِ کار کی تفہیم میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتے۔‘‘(ص3)

اور اس کے بعد خسرو کی غزلیات کے تنقیدی عمل اور اپنی ترجیحات کا احاطہ یوں کیا گیا ہے:

’’اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی شاعری کے بارے میں خسرو کے بیانات اور تنقیدی آرا کو درمیان میں حائل کیے بغیر ان کی غزلوںکے متن کا براہ راست سامنا کیا جائے اور اس متن کے وسیلے سے خسرو  کے شعری طریقِ کار کو سمجھا جائے۔‘‘    (ص4)

خسرو کی غزل کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’ان کی غزل اپنے پیرایۂ اظہار کے اعتبار سے فعالیت‘حرکت اور محرک قوتوں کی کشمکش کا ایسا تاثر قائم کرتی ہے جس کی تشکیل میں استعارہ سازی ‘پیکر تراشی اور قول محال (Paradox) کی موجودگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘(ص5)

خسرو کی غزل میں مستعمل استعارے کا روایتی استعمال معنوی یا تکرار کے طور پر کلیشہ نہیں بلکہ متحرک بن کر معنی آفرینی کے کئی در وا کرتا ہے تو خسرو کی استعارہ سازی کے حرکیاتی عمل کا مدلل احاطہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’خسرو کی شاعری میں جب استعارہ سازی کا عمل،  معنی آفرینی کے ذریعے پیدا کیے گئے تنوع سے دوچار ہوتا ہے تو لغوی معنی ‘استعاراتی معنی اور مستعارمنہ اور مستعار لہ کے مابین جو محرک قوتیں کارفرما نظر آتی ہیں، دراصل وہی، خسرو کے استعاروں کی حرکیات کاتعین کرتی ہیں۔‘‘ جیسے منتخبہ اشعار میں پہلے شعر کا تجزیہ دیکھیں:

ہمہ  آہوانِ  صحرا  سرِ  خود  نہادہ  برکف

بہ  امید آں کہ   روزی  بہ  شکار  خواہی  آمد

’’(یہ) شعر ظاہری معنی کے اعتبار سے شکار ہونے کی خواہش اور شکار کرنے کے عمل پر مبنی معلوم ہوتا ہے مگر غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ اشتیاق ملاقات کی شدید کیفیت ، اس شعر میں خود سپردگی ہی نہیں بلکہ شوقِ شہادت کی حدوں کو پہنچی ہوئی ہے۔چنانچہ اس شعر کی محرک قوت شوقِ ملاقات بن جاتی ہے۔‘‘(ص7)

اس طرح کا تجزیہ نہ صرف شعر کی معنوی جہت کا ایک نیا پہلو سامنے لاتا ہے بلکہ قرات کو بھی نئی لطافت سے نوازتا ہے۔

خسروکی شعری کائنات میں اسلوب شعرکے متنوع پہلو نظر آتے ہیں جو فکری و فنی بنیاد پرسوچ وفکر کے کئی در وا کرتے رہتے ہیں۔ ان میں قولِ محال (Paradox) کی اصطلاح  خاص طور پر شاعرانہ تدبیرکاری (Poetic Devices) میں اہم رول ادا کرتی ہے۔خسرو کے غزلیہ کلام پر ارتکاز کرتے ہوئے ان کی غزل میں قول محال کے فنی استعمال کو ’اجتماع النقیضین‘یا’ تضاد کی حرکیات ‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’خسرو‘ قول محال کی تخلیق کرنے اور تضادات کو ابھارنے کی غرض سے ایک سے زیادہ شاعرانہ تدبیر کاری(Poetic Devices)کو روبہ عمل لاتے ہیں۔ کبھی وہ لفظی تضاد کو ابھارتے ہیں ‘کبھی لغوی اور استعاراتی معنی کے تضاد کو نمایاں کرتے ہیں۔ کبھی صورت حال کے تضاد سے قول محال کا تناؤ پیدا کرتے ہیں اور کبھی ایک سے زیادہ پیکروں کے درمیان پائے جانے والے تناقض کو آمنے سامنے  لاکھڑا کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے قول محال یا (Paradox) کی تمام صورتوں میں جو چیزیں ہمیں مشترک دکھائی دیتی ہیں،  اس کو ’تضاد کی حرکیات‘کے علاوہ کوئی اورنام نہیں دیا جاسکتا۔‘‘

مجموعی طور پر دیکھیں تواس مقالے میںامیر خسرو کی غزل کی حرکیات کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے خسرو کی شاعرانہ تدبیر کاری، ڈکشن،  امیج سازی، پیکر تراشی، استعارہ سازی وغیرہ پر فکرانگیز مکالمہ باندھا گیا ہے ‘جو نہ صرف خسرو شناسی کے باب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ خسرو کے کلام کی فکری اور معنوی جہات کی تفہیم و تعبیر کے نئے اکتشافات کے لیے دعوت فکر بھی دیتاہے، کیونکہ بقول قاسمی صاحب:

’’خسرو کی غزل کی یہی حرکیات (Dynamics) فارسی شاعروں کی بھیڑ میںان کے امتیازکی ضمانت ہے‘اور خسرو  کی یہی افتاد طبع صوفی ہونے کے باوجود انھیں وحدۃالوجودی انفعالیت سے دور رکھتی ہے اور اپنے ہم مشرب صوفیوں سے اس نوع کے تخاطب کا حوصلہ عطا کرتی ہے      ؎

اے صوفیانِ  مست  یکے  رقص  عاشقاں

تا  ایں  کبودِ  کہنہ   بساط   شما   کنیم‘‘

(ص12)


 

Dr. Reyaztawheedi

Wadipora Handwara

Kupwara - 193221 (Kashmir)

Mob.: 7006544358

Email.: drreyaztawheedi777@yahoo.com





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں