20/5/22

زبیرالحسن غافل کی شاعری کے امتیازی پہلو - مضمون نگار: فاطمہ خاتون

 



 

 

اجنبی شہر میں داخل ہونے سے پہلے لوگ کافی محتاط رہتے ہیں، پتہ نہیں وہاں کی سرزمین ہمیں کیا رنگ وبو دکھائے، لیکن جب اس کی سیرکی جاتی ہے توہمیں کئی نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ وہ شہر ہمارے لیے اجنبی تھااور وہاں کی ہر چیزسے ہم ناآشنا تھے، چونکہ ناآشنا چیزیں ہمارے شعور ولاشعورکو بہت جلد متاثر کرتی ہیں، لہٰذا ہم نئی کیفیت اور ناآشنا چیزوں سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، کم وبیش یہی حالت میری بھی ہوئی جب میں نے مجموعہ ’اجنبی شہر‘ کے حوالے سے زبیر الحسن غا فل کی شاعری کا مطالعہ کیا تو ان کی متنوع خوبیوں سے روشناس ہوئی قبل اس کے اتنی جہتوں سے آشنا نہیں تھی، گویا ان کے اس مجموعے نے مجھ پر سحر کاسا اثر کیا۔ زبیر الحسن غافل نے اپنے اس مجموعے میں زندگی کے کئی رنگ بکھیرے ہیں۔اس میںحمد اور نعت کی شکل میں، اللہ اور ہمارے پیارے نبی حضورؐ سے محبت کااظہار ملتاہے، تو ’سوزجگر‘ کی غزلیں ان کے جگر کا درد آشکار ا کرتی ہیں، کبھی وہ ’شوخیِ نظر‘ کا تیرچلاتے ہوئے مزاحیہ انداز میں ملک کی سماجی وسیاسی حالت پر چوٹ کرتے نظرآتے ہیں تو وہیں وہ ’رنگ دگر‘ کے ذریعے اپنی طرحی غزلوں سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ’سلک گہر‘ کے متفرقات موضوعات کے ذریعے وہ اپنی ادبی صلاحیت کا لوہا منواتے ہیں، وہیں جب ہم ’دیدہ تر‘ کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں غافل صاحب کے دردمندانہ اظہار کے ذریعہ نم ہوجاتی ہیں، آخرمیں اس ’اجنبی شہر‘ کی منزل ’نقش ہنر‘ پر ختم ہوتی ہے، جہاں معزز شخصیات نے ’اجنبی شہر‘ اور اس کے خالق زبیر الحسن غافل کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرکے ہماری معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ زبیر الحسن غافل کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر بھی کیاہے۔ ’اجنبی شہر‘کے آغازِ سفر میں بھی مختلف قلم کاروں نے ’نقد ونظر‘ کے ذریعے زبیر الحسن غافل کی شاعری کو ادب کی کسوٹی پر پرکھ کران کی شاعرانہ بصیرت اور ان کی انفرادی صلاحیت کا برمحل اظہار کیاہے۔

 زبیر الحسن غافل کا تعلق بہار کے ضلع ارریا سے ہے، ان کا شمار ارریا کے معتبر شعرا میں ہوتاہے۔وہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں، ان کے کام اور مزاج میں مجھے بڑا تضاد نظرآیا، جو ڈیشیل مجسٹریٹ جیسے سنجیدہ  عہدے کا انسان اتنے اعلیٰ پایے کی ظریفانہ شاعری کرسکتاہے، یہ کافی متاثرکن ہے۔ ظریفانہ شاعری انھیں ورثے میں ملی تھی۔ ان کے نانا فرزندعلی شیدا اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے، ان کے ماموں اسلام الدین مخمور وکیل ہونے کے ساتھ اچھے شاعر بھی تھے، اور ظریفانہ رنگ میں شعر کہتے تھے۔ ان کے وا لد ظہور الحسن بھی اچھی شاعری کرتے تھے۔ گویا وکالت اور شاعری مشترکہ طورپر ان کے خون میں شامل ہے۔ زبیر الحسن غافل نے اپنی وکالت کے دوران سماج کے مختلف مسائل کو قریب سے دیکھا، انھیں ظالم ومظلوم دونوں کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے کا موقع ملا۔ملک کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی پہلوؤں پر ان کی گہری نظر ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ہے۔وہ زندگی کے تلخ وشیریں تجربے کو مزاحیہ انداز میں قاری کے گوش گزار کردیتے ہیں، تاکہ موضوع کی تلخی قاری کو گراں نہ گزرے، یوں نیم کی گولی کو شوگر کوٹیڈکرکے وہ قاری کو پیش کردیتے ہیں۔

زبیر الحسن غافل کی شاعری پر غالب، اکبرالہ آبادی،  اور فیض احمد فیض کا اثر نظر آتاہے۔ ظریفانہ رنگ میں وہ غالب سے متاثر نظرآتے ہیں تو طرز فکر میں وہ اکبر الہ آبادی سے زیادہ قریب ہیں، وہیں موضوع کے اعتبار سے وہ فیض احمد فیض کی پیروی کرتے نظرآتے ہیں۔تاہم زبیر الحسن غافل کا اندازجداہے۔وہ ہلکے پھلکے انداز میں اپنی بات قاری تک پہنچاتے ہیں۔وہ زندگی کی تلخ حقیقت کوبڑے سلیقے کے ساتھ سادہ اور سلیس انداز میں شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ رشوت خوری ہما رے سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف رشوت کی بدولت نااہل لوگ بھی اعلیٰ مقام پر فائز ہوجاتے ہیں۔ اسی کی بدولت مفاد پرست انسان اپنا کام آسانی سے نکال لیتاہے، جب کہ ایماندارانسان خاموش تماشائی بن کر در در کی ٹھوکر کھاتارہ جاتاہے۔ہمارے مکروہ سماج کے اس ناسور کو کریدتا ان کا ظریفانہ انداز دیکھیے       ؎

ہر بار نیا ایک کرشمہ یہ دکھائے

معصوم کو پھانسے کہیں مجرم کو بچائے

اکزام بھی کچھ لکھے بناپاس کرائے

رشوت کے مقدمے سے بھی رشوت ہی چھرائے

جاری ہے اس کا فیض ہر اک خاص وعام پر

فن وشعبدہ کا ختم اسی کے ہے نام پر

(رشوت)

 زبیر الحسن غافل کی شاعری صرف ہنسنے ہنسانے تک محدود نہیں بلکہ وہ سنجیدگی کے ساتھ سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں، جو کسی بھی بالیدہ ذہن کوبیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ گویا ان کی نظمیں ہمیں پیغام دیتی ہیں کہ ہم خود کو کس طرح حالات سے نبرد آزما کر یں، اور اپنے سماج کی اصلاح کریں۔

موضوع خواہ سیاسی ہو یا سماجی لیکن انھوں نے شعری محاسن کو کبھی مجروح ہونے نہیں دیا۔ان کی شاعری میں فکر وفن کا حسین امتزاج نظرآتاہے۔

زبیرالحسن غافل ہربرائی کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہیں، مگر کہیں بھی جارحانہ رویہ اختیارنہیں کرتے بلکہ سادگی وسلاست کے ساتھ اپنی بات رکھتے ہیں، وہ نئی تہذیب کی عریانی سے بیزار نظرآتے ہیں، مگر انھوں نے اکبرالہ آبادی کی طرح نئی تہذیب کے خلاف محاذ نہیں کھولا بلکہ دھیمے انداز میں اس تہذیب کی شکایت کی ہے کیوں کہ اس نئی تہذیب نے ہم سے ہمارا اخلاق، ثقافتی ورثہ اور شرم وحیا کوModernismکے نام پر چھین لیاہے       ؎

شرم آنکھوں سے رخ سے حیالے گئی

جانے تہذیب نو اور کیالے گئی

زبیرالحسن غافل کی شاعری میں جہاں طنزومزاح کانشاطیہ پہلوہے وہیں ان کی غزلوں میں کلاسیکی شاعری کی بیش بہا خصوصیات بھی موجودہیں۔ انھوں نے اصل زندگی کے تمام لوازمات کو اپنی شاعری میں برتا ہے۔ ان کے یہاں فلسفہئ حیات ہے تو عشق کی تپش بھی، دنیا کی بے ثباتی کا کرب ہے، توحوصلہ واستحکام بھی، غرض ان کی شاعری میں نشاطیہ کرب کا حسین امتزاج ملتا ہے۔زبیر الحسن غافل کی شاعری کی خصوصیات کے متعلق حقانی القاسمی اپنے مضمون ’صرصر سے الجھتی صبا: زبیر الحسن غافل کا تخلیقی مد و جزر‘ میں لکھتے ہیں کہ    :

’’زبیر الحسن غافل کی شاعری میں ’نشاطیہ کرب‘کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں۔دراصل یہی نشاطِ غم ہے جو زندگی کا اصل فلسفہ ہے اور اسی فلسفے سے انسانی زندگی میں امید اور رجا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔تمام تر خطرات کے باوجود امید و رجا کا شاعر زندگی کو نہایت آزادہ روی کے ساتھ گزار دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو کلاسیکی شاعروں کی طرح غافل میں بھی ایک جنون اور دیوانگی کی کیفیت ہے اور اسی مقدس دیوانگی نے ان کی زندگی کے زاویے اور حیات و کائنات کے نظریے کو اثباتی رنگ عطا کیا ہے۔ حیات و کائنات کے تضادات میں انھوں نے جو توافق تلاش کیا ہے،وہ توافق اُن کے اندرون اور ذہنی و فکری صحت مندی کا اشاریہ ہے‘‘

(مجموعہ ’اجنبی شہر‘،از،زبیر الحسن غافل،براون بک پبلی کیشنز،نئی دہلی،2015،ص:37-38)

موصوف کی زندگی کا ا شاریہ ان کی شاعری میں پوری طرح جلوہ گر ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں متنوع موضوعات پر اشعار مل جاتے ہیں۔ان کی غزلوں کے مختلف موضوع پر متفرق اشعار ملاحظہ ہو           ؎

بے نام آدمی جو سرشام ہوگیا

سورج کے شہرمیں وہ اندھیراہی کرگیا

کبھی جو گزرا تیری گلی سے چراغ یادوں کے جل گئے ہیں

نظرجوآئی تمہاری چوکھٹ جبیں پہ سجدے مچل گئے ہیں

غافل کے لبوں پر ہنسی دیکھی تھی ہم نے

کچھ لوگ مگر کہتے ہیں آنکھوں میں نمی تھی

سلیقہ جن کو تھا رنج والم میں جینے کا

غموں کی دھوپ میں وہ اور بھی نکھرآئے

اجنبی شہر‘کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ زبیرالحسن غافل نے اردو شاعری کی تقریباً ہر صنف میں اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیاہے، شخصی مرثیے کی اگر ہم بات کریں تو انھوں نے اپنے والد محترم کے لیے ’والد کی وفات پر‘ اور اپنے لخت جگر کا مرثیہ بعنوان ’اپنے مرحوم بیٹے اشعر حسن آشی کی نذر‘ لکھ کر اپنے دردکا اظہار کیا ہے۔ زبیرالحسن غافل نے اپنے رنج وغم کو اس درد مندانہ انداز میں پیش کیاہے کہ ان کی شاعری کا منفرد رنگ وآہنگ آشکار ہوجاتاہے۔

زبیرالحسن غافل نے پیروڈی کے ذریعے بھی اپنی شعری صلاحیت کو اجاگر کیاہے۔ ان کی پیروڈی میں تک بندی کی خامی نہیں بلکہ فکر ومعنی کی ایک الگ دنیا آباد ہے۔  انھوں نے مشہورشعرا غالب، فیض احمدفیض، مجروح سلطان پوری اور دیگر شعرا کی زمین میں پیروڈیاں لکھ کر ان سنجیدہ موضوعات کو طنزومزاح کی دلکشی اور تازگی سے آراستہ کردیاہے۔ ان کی پیروڈی میں ’دیتے ہیں دھوکا یہ لیڈر کھلا‘ (برغزل غالب) ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ‘ اور ’خلد شیشے میں‘ شامل ہیں۔ ایک بند دیکھیے      ؎

میںنے سمجھا تھا جنوں عشق کا گھٹ جائے گا

تو بھی اکتا کے مرے راہ سے ہٹ جائے گا

تھا نہ معلوم کہ وہ دن بھی کبھی آئے گا

بھوت کی طرح تو مجھ سے چمٹ جائے گا

اب میںبچوں کو کھلائوںکے تجھے پیار کروں

تیری زلفوں کو سنواروںکہ میں بازار کروں

 کیا دیا تو نے مجھے شادی کی جھنجھٹ کے سوا

  حاصل عشق ہے کیا روز کی کھٹ پٹ کے سوا

  مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ

   (پیروڈی’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘)

 زبیرالحسن غافل کی طرحی غزلوں کی خاصی تعداد بعنوان ’رنگ دگر‘ ان کے مجموعے ’اجنبی شہر‘ میں شامل ہیں۔ ان کی طرحی غزلیں درجہ کمال کی ہیں، جن میں ان کی شاعری کے سنجیدہ گوشے نظرآتے ہیں، ان میں سلاست وفصاحت اور غنائیت کی حسین رنگا رنگی ہے جو ان کی شاعری کو پر اثر وپرلطف بناتی ہے۔ شعرملاحظہ ہو       ؎

کہیں یادوں کے کانٹے تھے کہیں تھے درد کے پتھر

تمھارے شہر میں کتنی پریشانی سے ہم گزرے

شاعری میں صنف ماہیاوہ صنف شعر ہے جس میں تین مصرعوں میں شاعر اپنی بات کہتا ہے، اس کا پہلا اور تیسرا مصرعہ ہم وزن جب کہ درمیانی مصرع کے دو حروف پہلے اور آخری مصرع کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔یہ پنجاب کی مشہور صنف ہے جو بنیادی طورپر گائی جانے والی صنف ہے، زبیرالحسن غافل نے نہ صرف اس صنف میں طبع آزمائی کی بلکہ کامیاب بھی ہوئے مثال دیکھیے     ؎

گجرا ابھی تازہ ہے

ایسے میں آجاؤ

موسم کا تقاضہ ہے

مجموعہ ’اجنبی شہر‘ میں زبیرالحسن غافل کی شاعری کی الگ دنیا آبادہے، جس میں سنجیدہ ذہن کا انسان ظریفانہ انداز میں سماج کے مسائل، انسانی نفسیات، سیاست کی بے حسی، ثقافت کا بکھرتا شیرازہ اور زندگی کے گوناگوں پہلوؤں سے پردہ اٹھاتاہے۔ان کی شاعری کا نشاطیہ کرب ہمیں احساس دلاتاہے کہ زندگی کی حقیقت پرہنسنے والا اندر سے ٹوٹا اور بکھرا ہوا بھی ہوسکتاہے۔ تاہم یہ زبیرالحسن غافل کی شاعری کا امتیازی پہلوہی ہے، جوہماری آنکھوں میں نمی لاکر بھی ہونٹوں پر مسکان بکھیر دیتا ہے۔

 

Dr. Fatma Khatoon

B-40/8, 3rd Floor, Iron Gate

Garden Reach

Kolkata - 700024 (West Bengal)

Mob.:9831726195

Email.: fatmakhatoon2809@gmail.com

 

 



 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں