23/5/22

اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے دکن کا حصہ - مضمون نگار : احمد

 



اردو بر ِ صغیر میں عام بول چال کی وہ زبان ہے جس کا قدیم ہند آریائی زبان سے بڑا گہرا رشتہ رہا ہے۔ ہندوستان میں رابطے اور بول چال کی زبان کے طور پر اس کی ترویج و اشاعت مسلمانوں کی آمد سے بھی پہلے کا واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس دور میں ارباب اقتدار اور اہل علم و دانش نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں اس زبان کے ابتدائی نمونے متعدد علاقوں میںمختلف شکلوں میں شہہ پاروں کی صورت بکھرے نظر آتے ہیں۔ اردو زبان کی ایک اہم خاصیت رہی ہے کہ وہ جس علاقے میں گئی وہاں کے علاقائی اثرات کو قبول کرکے ایک نئی راویت کی بنیاد گزار بنی۔ اردو زبان کی اس کشادہ قلبی کا اثر یہ ہوا کہ ہر علاقے میں اس کا رنگ و آہنگ ایک دوسرے سے قدرے مختلف اور جداگانہ رہا۔ اس میں جذب و ادغام کا ایک لطیف رشتہ ہمیشہ موجود رہاجس نے قومی وحدت اور مذہبی ہم آہنگی کا راستہ ہموار کیا۔ اپنے مختلف رنگ و اسلوب اور لب و لہجے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں اس کا نام بھی مختلف رہا۔ زبان کے نام میں اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ علاقائی اثرات کو قبول کرنے کی وجہ سے اردو کا رنگ و روپ متعدد علاقوں میں جداگانہ رہا۔اردو زبان کو اس کے تاریخی پس منظر کی بنا پر مختلف ناموں مثلاًریختہ،  ہندوی،ہندوستانی،  اردو اور اردوئے معلی جیسے ناموں سے تعبیر کیا گیا۔

تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ جس دور میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی اثرات ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ ہورہے تھے اسی دور میں اردو زبان مقامی محاوروں اور کہاوتوں میں استعمال کی جارہی تھی۔ اردو زبان کی تاریخ کا مطالعہ اس بات کا شاہد ہے کہ ابتدا میں اشرافیہ کے بڑے طبقے نے اسے نا قابلِ اعتنا سمجھا کیونکہ ان کے درمیان فارسی جیسی متمول زبان رائج تھی۔یہ اشرافیہ طبقہ تھا جس کی زبان عربی اور فارسی تھی۔تیسرا گروہ ان انسان دوست صوفیا کا تھا جن کی آمد نے انسانیت اور اردو زبان کو بہت کچھ دیا۔صوفیا نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور اردو نے ذہنوں میں۔ انھوں نے اردو کو بڑے پیمانے پر اپنایااور عوام میں اپنی تعلیمات کو پہونچانے کا ذریعہ بنایا۔ وہ اردو کو اپنے خیالات کی تبلیغ و اشاعت کا ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔ اس کی ظاہر وجہ یہ ہے کہ یہ زبان عوام میں بولی اور سمجھی جاتی رہی ہوگی۔ لہٰذا اس کے توسط سے عوام سے مکالمہ کرنا آسان تھا۔ تبلیغ و ارشاد کے بامعنی اور مفید مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی نئی یا اجنبی زبان کو اپنانا کار لاحاصل تھا۔ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اردو زبان کی بنیاد بہت قدیم ہے اور اس کے تشکیلی دور میں صوفیا کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ یہ اور بات ہے کہ صوفیا کے کلام اور ان کے ملفوظات سے ادبی تخلیقیت اور لفظوں کے خلاقانہ استعمال کی کوئی زندہ اور توانا روایت نہیں ملتی لیکن ایک زبان کی حیثیت سے اردوکی ترویج و اشاعت  میں ان کا کردار مثالی ہے۔ صوفیا کی ابتدائی کوششیں نہ ہوتیں تو شاید اردو زبان وادب اور  اسلوب و آہنگ کی زندہ اور توانا روایتیں بھی نہ ہوتیں۔

اردو زبان کے تشکیلی دور میں صوفیا کی تحریری سرگرمیوں، ملفوظات اور تواریخ میں محفوظ ان کے اقوال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔بلاشبہ زبان کی تعمیر و ترقی، ترویج و اشاعت صوفیا کا مطمحِ نظر نہیںتھا بلکہ عوامی زبان کی طرف ان کا میلان تبلیغی اور اصلاحی مقاصد کے پیش نظرتھا۔ صوفیا کے ارادت مندوں میں عوام اور خواص دونوںہی ہوتے ہیں۔ یہ صوفیا سے تعلق کا نتیجہ ہی تھا کہ اردو زبان کے بعض محاورے اور روزمرہ کی کہاوتیں ان مصنفین کی کتابوں میں بھی جگہ پا جاتی ہیں جو اپنی نگارشات فارسی میں رقم کیا کرتے تھے۔1مثال کے طور پر ابوالفرج، خواجہ مسعود سعد سلمان، منہاج سراج، ضیائ الدین برنی، شمس سراج عفیف اور امیر خسرو وغیرہ کی فارسی تصانیف میں بہت سے اردو یا ہندوی الفاظ کابے تکلف استعمال ہواہے۔

اردو زبان کی تشکیل کے تعلق سے سب سے پہلا نام مسعود سعد سلمان لاہوری (1046-1121) کا لیا جاتا ہے۔ انھیں ہندوی کا پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔2

امیر خسرو کے مطابق ان کا ایک ہندوی دیوان بھی تھا جو آج مفقود ہے۔ امیر خسرو فارسی کے شاعر تھے لیکن ’دیباچۂ غرۃ الکمال‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تفریح طبع کے طور پر ہندوی زبان میں بھی کچھ شاعری ضرور کی ہے۔ 3

امیر خسرو سے بہت سی معروف پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں منسوب ہیں جن میں سے اکثر کی استنادی حیثیت مشکوک ہے۔ امیر خسرو کے علاوہ حضرت نظام الدین اولیا کے ایک اور مرید امیر حسن کی ایک غزل اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر، شیخ حمید الدین ناگوری، خواجہ نظام الدین اولیا، شیخ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری وغیرہ کے ارشادات و ملفوظات اور بیاضوں میں بھی اس زبان کے ابتدائی نقوش اور تشکیلی عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ جنوبی ہندوستان ایک طویل مدت تک شمالی ہند سے الگ تھلگ رہا ہے۔ جنوبی ہند میں عرب تاجر اور مبلغ کی حیثیت سے اور ترک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔جو اپنی زبان اور روایات بھی ساتھ لائے۔شمالی اور جنوبی ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی روابط کا آغاز جنوبی ہندمیں علائ الدین خلجی اور اس کے سپہ سالار ملک کافور کے حملوں سے شروع ہواجو محمد بن تغلق اور اورنگ زیب کے عہد تک جاری رہا۔ان کے حملوں اور فتوحات کے سبب بڑے پیمانے پر آمد و رفت کے علاوہ تہذیبی لین دین کی راہیں استوار ہوئیں۔ محمد تغلق کی وفات کے بعد جب تغلق سلطنت کمزور ہوگئی تو دکن میں بہمنی سلاطین کو عروج حاصل ہوا اور امیر تیمور کے حملے کے بعد گجرات بھی آزاد ہوگیا اور نتیجتاً مظفر شاہ نے وہاں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ دکن کی ان دونوں ریاستوں کی تاریخ کے تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے سلاطین کے عہد میں اردوزبان و ادب کو فروغ حاصل ہوا تھا۔اس عہد کی ادبی اور تخلیقی سرگرمی میں جن شعرا کا ذکر کیا گیا ہے ان میں فخرالدین نظامی بیدری کے علاوہ سبھی صوفی ہیں اور ان صوفیاکی تحریری کاوشیں مذہبی نوعیت کی ہیں۔ جن میں شیخ بہاالدین باجن (1388-1506) کی تصنیف ’خزائن رحمت اللہ‘ فارسی نثر میں ہے۔ اس کتاب کے ’خزینۂ ہفتم‘ میں شیخ باجن کا صوفیانہ کلام بھی شامل ہے۔ 4

قاضی محمود دریائی (1469-1534)کا کلام بھی صوفیانہ رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ شاہ علی محمد جیوگام دھنی (م 1565) شاہ ابراہیم کے بیٹے تھے۔ جیوگام دھنی کے مجموعے کا نام ’جواہر اسرار اللہ‘ ہے۔ شیخ خوب محمد چشتی (م 1614) اسی زمانے کے نامور صوفی شاعر اور گجرات کے صوفیائے کبار میں سے ہیں۔ فارسی زبان اور انشا پر انھیں مہارت حاصل تھی۔ ان کی اردو مثنوی ’خوب ترنگ (1578)‘ بڑی شہرت کی حامل ہے۔ شیخ خوب محمد چشتی کی تصنیف ’امواج خوبی‘ جو کہ فارسی نثر میں ہے دراصل اسی مثنوی کی شرح ہے۔ خوب محمد چشتی کا ایک منظوم رسالہ ’چھند چھنداں‘ بھی خاصا مشہور ہے۔ اس رسالے میں فارسی عروض کو ہندوی عروض کے توسط سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاہ باجن، قاضی محمود دریائی، شاہ علی جیوگام دھنی اور خوب محمد چشتی نویں اور دسویں صدی ہجری کے صوفی شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ 5

دسویں صدی ہجری کے اواخر اور گیارھویں، بارھویں صدی ہجری میں شیخ احمد گجراتی، سید محمد مہدی، میاں مصطفی، عالم گجراتی، محمد فتح بلخی وغیرہ قابل ذکر شعرا ہیں۔ یہ تمام شعرا گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ادبی روایت ’گجری روایت‘ کہلاتی ہے۔

حضرت خواجہ گیسو دراز بندہ نواز کی دکن تشریف آوری سے دکن میں دکنی اردو کی تحریری تخم ریزی ہوئی۔ آپ کے خلیفہ میراںجی شمس العشاق (م1496) کو اردو لکھنے والوں میں اولیت حاصل ہے۔ ان کا تعلق خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے سلسلے سے تھا۔ آپ شاہ کمال الدین بیابانی کے خلیفہ تھے۔6خوش نامہ، خوش نغز، شہادت التحقیق اور مغز مرغوب ان کی نظمیں ہیں۔ ’شہادت التحقیق‘ میراںجی کی ایک طویل نظم ہے جس میں انھوں عام لوگوں کی تفہیم کے لیے معرفت اور شریعت و طریقت کے مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں آسان اور سادہ زبان میں بیان کیے ہیں۔ سید اشرف بیابانی (1459-1528) کی تین تصانیف دستیاب ہیں: ’لازم المبتدی‘، ’واحد باری‘ اور ’نوسرہار‘ میں اردو زبان کے ابتدائی نقوش نمایاں طور پر نظر آتے  ہیں۔

شاہ برہان الدین جانم، میراں جی شمس العشاق کے فرزند ارجمند اور خلیفہ تھے۔7 ان کا مفصل حال نامعلوم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کا انتقال 1582  کے بعد ہوا۔ شاہ برہان الدین جانم اپنے وقت کے بڑے عارف باللہ اور برگزیدہ بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ’کلمۃ الحقائق‘ اور ’رسالۂ وجودیہ‘ ان کی نثری کتابیں ہیں۔ ان کا منظوم کلام ’وصیت الہادی‘، ’بشارت الذکر‘، ’فرمان از دیوان‘، ’حجۃ البقا‘، ’ارشاد نامہ‘، ’منفعت الایمان‘، ’نکتۂ واحد‘ اور ’سکھ سہیلا‘ کی شکل میں ملتا ہے۔ ان کی نظم وصیت الہادی ایک مربوط و مسلسل نظم ہے جس کے اوزان ہندوی ہیں لیکن عربی فارسی کے الفاظ کی تعداد دور ماقبل کی بہ نسبت زیادہ نظر آتی ہے جو کہ عربی فارسی کی وہ اصطلاحات ہیں جو تصوف میں رائج ہیں۔

جانم کی نثری تصنیف ’کلمۃ الحقائق‘ میں شریعت و طریقت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں ہندوی اور فارسی طرز احساس میں جو کشمکش چل رہی تھی وہ بہت نمایاں ہے۔ ان کی نثر کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:

’’توں بندہ خدا تھے تو فعل تیرے وہ بھی خدا تھے جسے تیری طاقت میں آوتا و کار کمال قدرت غالب آتی خدا ست و نہ بینی کہ در کار دنیا نفسانی جہد کوشش تدبیر قوی دیکھلاتا و در کا خدائی یعنی کاہلی می کند انصاف نہ شوی در خور۔‘‘   8

شہباز حسینی قادری بیجاپوری (م 1606) ہدایت اللہ حسینی کے پوتے اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی اولاد سے تھے۔9 ان کا کلام بہت کمیاب ہے جس کی وجہ سے ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا مشکل امر ہے۔ البتہ دستیاب کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا موضوع بھی تصوف ہے اور کلام میں عربی اور فارسی الفاظ کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے۔

اس دور کے صوفی شعرا میں شیخ برہان الدین جانم کے دو مرید شیخ داول اور شیخ محمود خوش دہاں کے علاوہ ان کے پوتے شاہ امین الدین عالی بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان صوفیا کے کلام کی اہمیت یہ  ہے کہ اس سے صوفی طرز تحریر میں زبان کے ارتقائی مراحل کا علم ہوتا ہے۔ شمس العشاق میراں جی کا اسلوب گجری و ہندوی روایت سے عبارت ہے۔ برہان الدین جانم بھی بنیادی طور پر اسی روایت کے پیرو ہیں لیکن ان کے کلام میں فارسیت کی چمک اجاگر ہے۔ جانم کا یہی اسلوب شیخ داول، شیخ محمودالحق خوش دہاں اور امین الدین عالی کے یہاں اور بھی صاف و شستہ ہوگیا ہے۔

شیخ غلام محمد داول (م1657) نے اپنے متصوفانہ خیالات کے اظہار کے لیے اردو زبان کو وسیلہ بنایا۔ ان کا پیشہ کتابت تھا۔ ان کی چار نظمیں چہار شہادت، کشف الانوار، کشف الوجود اور’ ناری نامہ‘ ہیں۔ شیخ داول نے ’خیال‘ میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے کئی ’خیال‘ دستیاب ہیں۔ شیخ داول نے عموماً برہان الدین جانم کے خیالات کی تشریح سے سروکار رکھا ہے۔ ان کا اظہار بیان کسی حد تک جدید اسلوب سے قریب ہے۔

شیخ محمود الحق خوش دہاں، شاہ ابوالحسن قادری کے بھانجے اور شاہ بدرالدین حبیب اللہ کے نواسے تھے۔ 10 بیجا پور میں پیدا ہوئے اور بیدر میں نانا کے یہاں پرورش و پرداخت ہوئی۔ بیجاپور آکے برہان الدین جانم کے مرید ہوگئے اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے امین الدین عالی کے اتالیق بھی ہوئے۔ان کا ایک اردو رسالہ دستیاب ہے جس کے مرتب حمید الدین شاہد ہیں اور انھوںنے اس رسالے کو ’رسالۂ محمود خوش دہاں بیجاپوری‘ کا نام دیا ہے۔ ان کی اردو نثر خاصی نکھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے چند جملے بطور نمونہ درج کردیے جائیں تو مضائقہ نہ ہوگا:

’’اول ذکر جلی اللہ کا نائوں ظاہر کے اعضا سوں، ذکر قلبی باطن کی زبان سوں ہمیشہ، بعد ازاں ذکر روحی مشاہدہ اس طریق سوں۔ اول مرشد کی صورت دل میں مقابلہ پکڑنا، اس صورت کوں دیکھنا۔ سو روح کا نظر ہے۔ اس دل میں یوں بولنا کہ صورت کوں دیکھتا سو کون۔ کیا نظر پاک ہے۔ عجیب لطیف بعد ازاں اس صورت پر تے نظر ثابت کرنا۔ علاحدہ نظر معلق رکھنا۔‘‘   11

شاہ امین الدین عالی (1582-1675)، برہان الدین جانم کے بیٹے ]۱۲[اور شیخ خوش دہاں کے شاگرد تھے۔ شاہ امین الدین عالی کی کئی تصانیف ہیں جن میں ’محب نامہ‘، ’رموز السالکین‘، ’کلام اعلیٰ‘ نظم میں اور ’گفتار حضرت امین‘، ’وجودیہ‘ اور ’کلمۃ الاسرار‘ نثری تصانیف ہیں۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان و بیان میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں شاہ امین الدین عالی کا کلام ان تغیرات کا مظہر ہے۔ ان کی زبان ہمارے لیے قدرے مانوس ہے۔ یہی انداز اور اسلوب ان کے گیتوں اور دوہروں میں بھی ہے۔

 امین الدین عالی کی تصنیف ’وجودیہ‘ میں نثر کی ترتیب، تنظیم، ربط، جملوں کی ساخت اور بیان کا تسلسل خوش دہاں کی نثر سے زیادہ نمایاں ہے۔ ان کی نثر میں فاعل، مفعول اور فعل کی نشست ماضی کی نثر کے بالمقابل زیادہ باقاعدہ ہے۔ مثال کے طور پر ’وجودیہ‘ کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’علوی کے مرتبے چار ہیں۔ سفلی کے مرتبے چار ہیں۔ اول مرتبہ علوی۔ مرتبۂ چہارم سفلی۔ مرتبۂ اول مقام شہود۔ مرتبۂ دوم مقام محبت۔ مرتبۂ سیوم مقام حال۔ مرتبۂ چہارم سفلی۔ مرتبۂ اول تنگی لذت۔ دویم شہوت۔ سیوم خطرات نیک بتعلق دل۔ چہارم ممتنع دیگر عروج و نزول آدمیاں کا۔‘‘    13

گفتار شاہ امین الدین اعلیٰ‘ اور ’کلمۃ الاسرار‘ بھی ان کی نثری تصانیف ہیں۔’کلمۃ الاسرار‘ بہ طریق سوال و جواب لکھی گئی ہے۔

قطب شاہی دور میں اردو ادب شروع  سے ہی غیر مذہبی میلان کا حامل رہا ہے۔ اس کے باوجود دو صوفی بزرگ ایسے ہیں جن کی نثری تصانیف کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذکر کے بغیر  دکن میں اردو ادب اور صوفیائے کرام کی خدمات کا جائزہ نامکمل کہلائے گا۔ اس عہد میں میراں جی حسین خدا نما کی نثری تصانیف ’چہار وجود‘، ’شرح تمہیدات ہمدانی‘ اور ’قربیہ‘کے علاوہ میراں یعقوب کی تصنیف ’شمائل الاتقیا‘  بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

میراں جی حسین خدا نما (1595-1663)عبداللہ قطب شاہ کی سرکار میں پیشے سے سواروں کے جمعدار تھے۔ وہ بیجا پور کے دربار میں قطب شاہی سلطنت کے سفیر بھی رہے۔انھوں نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تین کتابیں تالیف کیں۔وہ اپنی تصنیف’چہار وجود‘ میں سوال و جواب کی صورت میں متصوفانہ مضامین کی تشریح پیش کرتے ہیں۔ ’تمہیدات ہمدانی‘ عربی کی مشہور تصنیف ہے جسے ابوالفضائل عبداللہ بن محمد عین القضاۃ ہمدانی (م 1138) نے تحریر کیا تھا۔ 14خواجہ بندہ نواز گیسو دراز (م1421) نے فارسی میں اس کتاب کی شرح لکھی۔ میراں جی حسین خدا نما نے گیسو دراز کی اسی فارسی شرح کو ’شرح تمہیدات ہمدانی‘ کے نام سے بہ زبان دکنی تحریر کیا۔ اس دور میں میراں جی حسین خدا نما کے شاگرد میراں یعقوب کی تصنیف ’شمائل الاتقیا‘ کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ میراں یعقوب کی نثر میں سادگی اور پُرکاری دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر تبلیغی مقاصد کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ادبیت کے تقاضوں کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ نمونے کے طور پر درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’جھوٹ کیوں ہے۔ جوں چودویں رات کا چاند۔ جوں جوں دن جاتے تیوں تیوں کم ہوتا۔ ہور سچ جوں پہلا چاند ہے۔ روز روز روشن ہوتا ہے۔‘‘   15

اوپر پیش کیے گئے اقتباس میں تبلیغ کا دلنشین انداز اور نثر کا ادبی حسن اپنی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ صاحب کتاب نے متصوفانہ اور شرعی اصطلاحات کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ مثال کے طور پر وحدت کا ترجمہ ’ایک پنا‘، دوئی کا ’دو پنا‘، کثرت کے لیے ’بہوت پنا‘، آدمیت کے لیے ’آدمی پنا‘، خودی کے لیے ’میں پنا‘ وغیرہ۔ اس مضمون میں میرے پیش نظر حضرات صوفیا کی تالیفات اور اردو کی تشکیل میں ان کے کردار کا جائزہ لینا ہے اس لیے میں نے ان مذہبی تصنیفات سے صرف نظر کیا ہے جن مصنّفین کا تعلق جماعت صوفیا سے نہیں ہے۔ ورنہ قطب شاہی سلطنت میں دیگر مذہبی تصانیف بھی لکھی گئیں جن کے مصنّفین کا شمار صوفیا میں نہیں ہوتاہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اردو زبان کی ابتدائی تشکیل او ر ترسیل میں صوفیا ئے دکن کی تحریری و تقریری سرگرمیاں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ دکن کے صوفیا نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں جو گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔بہتر سماج کی تشکیل میں صوفیا کے روحانی کردار کے ساتھ ان کی لسانی خدمات کو بھی منظر عام پر لانا چاہیے۔ بلاشبہ ان کے ارشادات و ملفوظات کا لسانی مطالعہ اس پُر آشوب دور میں لسانی کدورتوں کو مٹانے میں معاون ثابت ہوگا۔

حواشی:

.1         مقالات حافظ محمود شیرانی (جلد اول)، شیرانی، مظہر محمود، مجلس ترقی ادب: لاہور، طبع دوم، 1966، ص: 62 تا 73

.2         تاریخ ادب اردو (جلد اول)، جالبی، جمیل، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس: دہلی، طبع پنجم، 1993، ص23

.3         دیباچۂ غرۃ الکمال، امیر خسرو، مترجم: لطیف اللہ، گلشن اقبال، کراچی، سنہ ندارد، ص133

.4         تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ص106

.5         ایضاً، ص: ملخص 107 تا 129

.6         اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا کام، عبدالحق، مولوی، انجمن ترقی اردو ہند: اردو گھر، نئی دہلی، 1988، ص34

.7         ایضاً، ص45

.8         تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ص211

.9         ایضاً، ص227

.10       ایضاً، ص305

.11       ایضاً، ص307

.12       اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا کام، ص50

.13       تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ص315

.14       ایضاً، ص498

.15       ایضاً، ص502

 

Dr. Ahmad

Lecturer History, MANUU, Gachibowli

Hyderabad-500032 (Telangana)

Mob.: 9811715196, 8851013094

Email.: ahmadkhanlaisi@gmail.com

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں