10/10/25

بابا فریدالدین گنج شکر اور ان کا کلام، مضمون نگار: ابراہیم افسر

 اردو دنیا، مئی 2025


ہندوستان دورِقدیم سے ہی رشیوں، منیوں، جوگیوں، ولیوں، درویشوں اور صوفیوں کی آماج گاہ رہا ہے۔یہاں کی سر سبز و شاداب اور مردم خیزمٹی نے ان افکار و نظریات کو ہمیشہ فروغ دیا جن میں یک جہتی، اخوت و بھائی چارے کی باتیں موجزن ہوں۔ شمالی ہندوستان بالخصوص دریائے سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں جوگیوں، صوفیوں اور ولیوں نے اپنی نیک سیرت اور پر وقار شخصیت سے لوگوں کے اذہان و قلوب کی آلودگی کو روحانیت کے نور سے صاف کیا۔

سر زمینِ پنجاب میںتوحید کی صدا کو عام کرنے والے ایک رفیع المرتبت شخصیت کا نام حضرت فرید الدین گنج شکرمسعود ہے جنھوں نے اپنے پاکیزہ خیالات، ملفوظات،نیک سیرت،پر وقار شخصیت اور سماجی، اصلاحی، فلاح و بہبود کے کارناموں سے عوام و خواص کو متاثر کیا۔ حضرت بابا فریدؒ نے مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر لوگوں تک حق و صداقت اور توحید کا پیغام پہنچایا۔ ان کی روحانی اور تزکیۂ نفس سے متعلق باتوں کو عوام و خواص قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔انھوں نے خود اپنے کلام میں اپنا تعارف ’کملی‘یعنی اونی چادر میں لپٹے ہوئے درویش کے طور پر پیش کیا۔ در اصل صوفیوں کی اصطلاح میں لفظ صوفی کا مطلب اونی یا موٹے کپڑے پہن کر خود کو دنیا سے الگ کر لینا اور خلوت میں زندگی بسر کرکے خدا کی رفاقت و قرابت حاصل کرنا ہے۔

حضرت بابا فرید 1173میںملتان کے کھتوال علاقے میںپیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام مسعود تھا جب کہ فرید کے لقب سے مشہور ہوئے۔آپ کے والد  جمال الدین اور والدہ قرسم بی بی تھیں۔ فریدؒ کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثر ان کی والدہ اور اساتذہ کا تھا۔قرسم بی بی ایک دیندار خاتون تھیں۔ان کی والدہ نے شیخ فرید کو بچپن سے ہی صوم و صلاۃ کی پابندی کی ترغیب دی۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ فریدؒ کو شکر گنج کا خطاب ان کی ماں نے ان کے کرامات دیکھنے کے بعد عطا کیا۔ شیخ فرید کو بچپن سے ہی شکر (شیرینی)سے لگاؤ تھا۔اس مناسبت سے بہت سی روایتیں ان سے منسوب ہیں۔ فریدؒ کی ابتدائی تعلیم کھتوال میں قائم مولانا منہاج ترمذی کے مدرسے میں ہوئی۔ یہاں پر انھوں نے قرآن مجید حفظ کیا۔ان کے اساتذہ نے ان کی علمی ریاضت،لگن و جستجو کو دیکھتے ہوئے انھیں ’قاضی بچہ دیوانہ‘ کے لقب سے پکارا۔زمانۂ طالب علمی میں ہی ان کی ملاقات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے ہوئی۔ فریدؒ ان سے متاثر ہوئے اور گزارش کی کہ وہ انھیں اپنا مرید بنا لیں۔ لیکن مرشد نے فرمایا کہ پہلے تعلیم مکمل کیجیے اس کے بعد دہلی ان کی خانقاہ میں تشریف لائیے۔مرشد کے حکم کی تعمیل میں فریدؒ نے اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے پانچ سال قندھار میں گزارے۔  یہاں سے آپ بخارا، بغداد، غزنی، بدخشہ، اور مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔اس طویل مسافرت کے بعد فریدؒ ہندوستان واپس آکر اپنے مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے۔اپنے مرشد کے حکم پر شیخ فرید نے ہانسی میں خانقاہ قائم کی۔ یہاں پر آپ نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر آنے کی تلقین کی۔ 1235میںخواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی وفات کے بعد آپ کو ان کا جا نشیں بنایا گیا۔ وہ ایک بار پھر دہلی میں مقیم رہے۔لیکن دہلی کی سیاسی سازشوں سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور وہ واپس ہانسی چلے گئے۔یہاں کچھ سال قیام کرنے کے بعد انھوں نے اپنی خانقاہ اجودھن (پاک پٹن) میں  قائم کی۔یہیں پر آپ کا انتقال 1265میں ہوا۔ فریدؒ کے انتقال کے بعد حضرت نظام الدین اولیا ؒکو ان کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔ انھوں نے اپنی خانقاہ دہلی میں قائم کی۔

فریدؒ کا تعلق صوفیوں کے مشہورچشتیہ سلسلے سے تھا۔چشتیہ سلسلے کے بانی حضرت خواجہ ابو اسحاقؒ تھے۔ چشتیہ سلسلے کا منبع افغانستان کے شہر ہرات کا ایک گاوں ’چشت‘ ہے۔اسی گاؤں میںخواجہ معین الدین حسن سنجری کا قیام تھا، جنھوں نے اپنی خانقاہ اجمیر میں پرتھوی راج چوہان کے زمانے میں قائم کی1۔اجمیر کے بعد چشتیہ سلسلے کی دو اہم خانقاہیں دہلی میں حضرت بختیار کاکیؒ اور حضرت حمید الدین ؒنے ناگور میں قائم کیں۔ حضرت بابا فرید الدین گنج  شکرؒنے اپنے پیر بختیار کاکیؒکے حکم کو مقدم رکھتے ہوئے اجودھن (پاک پٹن )میں خانقاہ قائم کی، جہاں پر سادہ مزاجی اور مرتاض طرزِ زندگی گزارنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ حضرت بابا فرید کے مریدوں میں حضرت نظام الدین اولیاؒ اور علاؤالدین صابر کلیریؒ کا نام ادب و احترام سے لیا جاتا ہے۔یہ دونوں صوفی بزرگ اپنے مرشد فریدؒ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔انھوں نے اپنی خانقاہیں دہلی اور کلیر میں قائم کیں۔ان دونوں جگہوں کی زیارت سے بر صغیر کے بہت سے لوگ اپنی زندگی کے لیے روحانی سکون تلاش کرتے ہیں۔جمال الدین ہانسوی بھی فریدؒ کے عزیز ترین شاگرد تھے جو شرف الدین بو علی شاہ قلندر پانی پتی کے خالہ زاد بھائی تھے۔ جمال الدین ہانسوی کو حضرت بہاء الدین ذکریا ملتانی اپنی شاگردی میں لینا چاہتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے فرحدؒ کی روحانیت سے متاثر ہو کر انھیں کے ہاتھ پر بیعت کی۔

فریدؒ نے اسلامی تعلیمات بالخصوص روح کی پاکیزگی اور اس کی تازگی پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ان سے ملنے والوں میں امرا،فقرا، وزرا اور عوام تھے۔انھوں نے ہمیشہ غریبوں کی مدد کو مقدم رکھا۔ان کے پاس جو تحفے تحائف آتے انھیں فوراً غریبوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ فریدؒ نے جو تعلیم اپنے مریدوں کو دی،اس پر وہ پہلے عمل کرتے تھے۔ان کی شخصیت میں کسی طرح کا جھول اور تضاد نہیں تھا۔یعنی وہ جو کہتے اس پر کھرا اترکر عوام کو دکھاتے تھے۔انھوں نے عوام سے رابطے کے لیے ملتانی پنجابی اور ہندوی زبان کا استعمال کیا۔ان کے شاگردوں نے ان کے کلام کو سینہ بہ سینہ محفوظ کیا۔ فریدؒ نے اپنے نظریات کی تبلیغ کے لیے کس زبان کا استعمال کیا،اس کے بارے میں زاہد ابرول رقم طراز ہیں:

’’بابافریدؒ کو عربی اور فارسی زبانوں کے ساتھ ساتھ ملتان میں پیدا ہونے اور شمالی ہندوستان کی مختلف جگہوں میں مقیم ہونے کی وجہ سے اس زمانے کی ملتانی، پنجابی، پراکرت،اپ بھرنس اور برج وغیرہ پر مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے اپنے اس کلام میں عربی اور فارسی کے الفاظ پنجابی زبان کے سانچے میں ڈھال کر انھیں نئی شکل اور نیا روپ دیا ہے۔جیسے ملک الموت کی جگہ ملک، مشائخ شیخ کی جگہ مسائک سیخ، فرشتہ کی جگہ فرستہ، وضو کی جگہ اجو اور نماز کی جگہ نواج وغیرہ۔ حضرت بابا بابا فریدؒ کا کلام اپنی سادگی،عام لوگوں میں بولی جانے والی زبان کا استعمال اور اوّل درجے کی شاعری کی وجہ سے تقریباً پنجابی بولنے والے کو زبانی یاد ہے۔یہاں تک ہی نہیں،ان کے کلام میں سے بیسیوں مصرعے ایک زمانے سے پنجابی ادب اور پنجابیت کی تہذیب میں محاوروں کی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔‘‘2

گرو نانک نے حضرت بابا فریدؒ کے پنجابی کلام کو محفوظ کر اپنے شاگرد گرو انگد کے سپرد کیا۔ 1604 میں سکھوں کی مقدس کتاب ’آدی گرنتھ‘کی تالیف کے وقت گرو ارجن نے فریدؒ کے کلام کو’اشلوک شیخ فرید‘کے عنوان سے شامل کیا۔اس طرح شیخ فریدؒ کا کلام ’گرو بانی‘کے طور پر گنگنایا جانے لگا۔حالانکہ اس بارے میں گمان غالب ہے کہ ’گروگرنتھ صاحب‘ میں شیخ فرید شکر گنج سے منسوب کلام ان کا نہیں بلکہ پاک پٹن کی خانقاہ کے بارویں سجادہ نشیں شیخ ابراہیم عرف شیخ برھم عرف فرید ثانی کا ہے، جن سے گرو نانک نے دو بار ملاقات کی تھی۔ اس ضمن میں لوگوں کا یہ بھی گمان ہے کہ فریدؒ اور گرو نانک کے درمیان تین صدیوں کا زمانی فرق ہے۔ البتہ فریدؒ کے روحانی کلام سے متعلق دعووں اور  دلیلوں کے درمیان گرو گرنتھ صاحب میں شامل ان کے اشلوکوں کو’بانی بھگت فریدی‘نام سے موسوم کر پڑھا جاتا ہے۔’گرو گرنتھ صاحب‘میں موجود کلامِ فرید کی تفصیل بیان کرتے ہوئے زاہد ابرول لکھتے ہیں :

’’پاک پٹن کی گدی کے بارہویں سجادہ نشیں شیخ ابراہیم عرف برھم سِکھوں کے پہلے گرو شری نانک دیو جی کے ہم عصر تھے۔ حضرت بابا فرید کا لکھا پنجابی کا سارا کلام گرو نانک دیو جی نے شیخ ابراہیم سے لیا تھا جسے بعد میں گرو گرنتھ صاحب میں شامل کیا گیا۔اس کلام میں بابا صاحب کے 112اشلوک اور 4شبد ہیں اور ان کو گرو گرنتھ صاحب میں شامل کر تے وقت 18اور اشلوک بھی ساتھ رکھے گئے جو گرو نانک دیو جی(4)،گرو امر داس جی(5)،گرو رام داس جی(1) اور گرو ارجن دیو (8) نے بابا صاحب کے کچھ اشلوکوں کی تشریح کرنے اور ان کے معانی ومفہوم کا دائرہ وسیع کر نے کے لیے لکھے تھے۔ان میں تو کسی کسی اشلوک میں حضرت بابا فرید کے اشلوک کی اصلاح بھی کی گئی ہے۔‘‘3

وحید احمد مسعودنے اپنی کتاب ’سوانح حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ‘میں اس بات پر تردد کا اظہار کیا کہ فریدؒ شاعر تھے۔حالانکہ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ فرید ؒ کا مذاق اعلا و بلند تھا۔وہ ہندوی زبان میں اپنے مریدوں سے خطاب کرتے تھے۔ درمیان میں کوئی شعر موزوں کہہ دیتے جسے ان کے مرید یاد کر لیتے تھے۔وحید احمد مسعودنے حافظ محمود خاں شیرانی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ان دعووں پر سوالیہ نشان قائم کیے جن میں فریدؒ کو شاعر قرار دیا گیا۔وحید احمد مسعود اس بارے میں لکھتے ہیں:

’’ہمارے نامور ادیبوں میں حافظ محمودشیرانی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق بڑے پایے کے محقق گزرے ہیں۔ان دونوں نے اپنی اپنی تصانیف میں حضرت بابا صاحب قدسِ سرہ العزیز کے شاعر ہونے کی تائید و توثیق کی ہے اور ان کا کلام بھی پیش کیا ہے۔ حافظ شیرانی مرحوم نے اپنی کتاب ’پنجاب میں اردو‘کا افتتاح حضرت بابا صاحبؒ ہی کے ذکر سے کیا ہے۔ اور انھیں اردو کا سب سے پہلا شاعر مانا ہے۔ ’اردو کی نشو و نما میں صوفیا ئے کرام کا کام‘ مولوی عبدالحق صاحب مرحوم کی تصنیف ہے۔اس میں بھی اسی دعوے کی تائید کی گئی ہے۔لیکن دونوں حضرات کے پاس نہ کوئی اصلی سند ہے اور نہ دونوں میں سے کسی نے اپنا ماخذ بتایا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت اس پر ہے کہ خواجگان چشت کی تاریخ کے ماہر و محقق پروفیسر خلیق احمد نظامی نے بغیر روایت کے ان بے اصل کی بنیاد پر بابا صاحب کو شاعر لکھا ہے اور ان کا کلام بھی ثبوت میں پیش کیا ہے۔‘‘4

بھلے ہی وحید احمد مسعود نے فریدؒکے کلام پر شک کیا ہو لیکن مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب’اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام‘ میں 32صوفیا کا کلام پیش کیا جن میں حضرت فرید الدین شکر گنج کا کلام بھی شامل ہے۔مولوی عبدالحق نے مولانا سید مبارک معروف بہ میر خورد کی تالیف کردہ کتاب ’سیر الاولیا ‘ سے مکمل عبارت نقل کی جس میں فریدؒ کے شعری ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں انھوں نے حضرت شاہ عالم کے ملفوظات کے مجموعہ’جمعات شاہی‘سے درج ذیل منظوم قول نقل کیا         ؎

اسا کیری یہی سوریت

جاؤں نائے کہ جاؤں مسیت

مولوی عبدالحق نے شیخ فرید کی پرانی بیاض سے درج ذیل نظم نقل کی         ؎

تن دھونے سے دل جو ہوتا پوک

پیش رو اصفیا کے ہوتے غوک

ریش بنسبت سے گر بڑے ہوتے

بو کڑواں سے نہ کوئی بڑے ہوتے

خاک لانے سے گر خدا پائیں

گائے بیلاں بھی واصلاں ہو جائیں

گوش گری میں گر خدا ملتا

گوش چویاں(ہکذا) کوئی واصل نہ تھا

عشق کا رموز نیارا ہے

جز مدد پیر کے نہ چارا ہے

مولوی عبدالحق نے محمد شمیم ڈسنوی کی وساطت سے شیخ فرید کی ریختہ میں کہی ہوئی غزل کو بھی قارئین کے سامنے پیش کیا         ؎

وقت سحر وقت مفاجات ہے

خیز دراں وقت کہ برکات ہے

نفس مبادا کہ بگوید ترا

خسپ چہ خیزی کہ ابھی رات ہے

باتن تنہا چہ روی زیر زمیں

نیک عمل کن کہ رہی سات ہے

پند شکر گنج کہ بدل جان شنو

ضایع مکن عمر کے ہیہات ہے

مولوی عبدالحق نے یہ بھی دعوا کیا کہ انھیں چار صفحے کے رسالے میںشیخ فرید کی نظم ’جھولنا شیخ فرید شکر گنج‘ دریافت ہوئی ہے۔موصوف نے نمونے کے طور پر دو شعر شامل کتاب کیے    ؎

(سگن ذکر جلی)

جلی یاد کی کرنا ہر گھڑی یک تل حضور سوں ٹلنا نہیں

اٹھ بیٹھ میں یاد سوں شاد رہنا گواہ دار کو چھوڑ کے چلنا نہیں

پاک رکھ توں دل کو غیر ستی آج سائیں فرید کا آوتا ہے

قدیم قدیمی کے آونے سیں لا زوال دولت کون پاوتا ہے5

فریدؒ سے منسوب54صفحات پر مشتمل کلام ’انتخاب کلام بابا فرید‘ ڈاکٹراسلم فرخی کے مقدمے کے ساتھ فضلی سنز،کراچی سے دسمبر2002میں شائع ہوا۔ اس انتخاب میں اشعار کے مطالب و مفاہیم حاشیے کے علاوہ متن کے نیچے بیان کیے گئے ہیں۔ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امیر خسرو نے بھی ’سیر الاولیا‘میں فریدؒ کا ایک شعر ملتانی پنجابی میں نقل کیا ہے۔6یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شیخ فرید ؒ نے اپنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ارشادات و ملفوظات کا سہارا لیا۔ اغلب ہے ملفوظات و ارشادات نثر ومنظوم شکل میں رہے  ہوں گے۔بعض پنجابی محققین کا خیال ہے کہ گرو نانک کے عہد تک فرید ؒ کے کہے گئے اشعار میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آئی ہوگی۔لیکن تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انھوں نے پنجابی زبان میں عوام سے خطاب کیا۔ اس لیے انھیں پنجابی کا پہلا شاعر قرار دیا گیا ہے۔ حضرت بدر الدین اسحاق کی مرتبہ کردہ کتاب ’اسرار الاولیا (ملفوظات بابا فرید گنج شکرؒ)کے اردو مترجم پروفیسر محمد معین الدین دردائی نے بھی فرید کی شاعری کے بارے میں ضمنی باتیں رقم کی ہیں۔انھوں نے ’بابا صاحب کی شاعری‘ عنوان کے تحت اس بات پر زور دیا کہ موصوف  کے جذبات کبھی نہ کبھی اشعار کی شکل میں ابل پڑتے تھے۔امیر خسرو نے بھی اپنی کتاب میں فریدؒ کے اشعار نقل کیے۔انھوں نے یہ بھی لکھا کہ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام‘میں حضرت بابا فرید کے اردو اشعار نقل کیے ہیں۔ اس بارے میں پروفیسر محمد معین الدین دردائی لکھتے ہیں:

’’باباصاحب کے دل میں جو سوز و گداز محبت اور شفقت کے بے پناہ جذبات بھرے ہوئے تھے اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ یہ جذبات کبھی نہ کبھی اشعار کی شکل میں ابل پڑیں۔چنانچہ یہی ہوتا تھا جب وہ جذبات سے مغلوب ہو جاتے تھے تو اکثر زبان مبارک سے اشعار نکل پڑتے تھے۔امیر خسرو نے اپنی کتاب میں بابا صاحب کے کچھ اشعار نقل کیے ہیں۔مثلاً          ؎

بقدر رنج یابی سروری را

بشب بیدار بودن مہتری را

تو گدائی دور باش از بادشاہ

تانباید بر در تو دور باش

گر وصال شاہ می داری طمع

از وصال خویشتن مہجور باش7

کچھ شعرا نے فریدؒ کے پنجابی کلام کا ترجمہ اردو میں کیا ہے۔ان تراجم میں خداداد مونس کا  پوری کتاب کا نام نشان زد ہے۔ ’ترجمان الفرید‘ (گرو گرنتھ صاحب میں شامل حضرت بابا فرید کے کلام کا منظوم ترجمہ)  (اشاعت 1993-94)8،اور زاہد ابرول کا  ’فرید نامہ‘، (شیخ فرید گنج شکر کا پنجابی کلام اور اس کا اردو میںمنظوم ترجمہ)، (اشاعت اوّل 2003اشاعتِ ثانی 2020)9  اہمیت کے حامل ہیں۔ان دونوں تراجم میں شیخ فرید کے کلام کا اردو ترجمہ جدا گانہ ہے۔دونوں شاعروں نے فریدؒ کے پنجابی اشعار میں پنہاں خیالات، نظریات و افکار کومنفرد لب و لہجے کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیا۔

ترجمان الفرید‘پریکم مارچ 1993کوپروفیسر عنوان چشتی نے مربوط و مبسوط مقدمہ لکھا ہے۔انھوں نے اس مقدمے میں شیخ فرید کی شخصیت،تصوف کے پیغامات، روحانی تازگی،پاکیزہ افکار اور ان کے کلام کی انفرادیت پر خاص توجہ مرکوز کی۔ موصوف کی نظر میں ’ترجمان الفرید‘شیخ فرید کے کلام کا پہلا منظوم ترجمہ ہے۔عنوان چشتی نے مقدمے کے آخر میںلکھا:

’’خدا داد مونس ایک اچھے شاعر اور با شعور نقاد ہیں۔ انھوں نے بڑی حد تک اپنے اصول پر عمل کیا ہے۔ چونکہ انھوں نے ’روحانی کلام‘ کا ترجمہ کیا ہے، اس لیے روحانی اسرار و رموز سے آ گہی،تصوف کی راہ کے پیچ وخم سے آشنائی اور اخلاقی نکات سے آگہی کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔حضرت بابافرید کے شلوکوں کے نثری تراجم تو نظر آتے ہیں لیکن یہ اردو میں پہلا منظوم ترجمہ ہے۔ اس لیے اپنی نوعیت کا پہلا ترجمہ کہا جا سکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ خداداد خاں مونس کا ترجمہ(ترجمان الفرید) تصوف کے متوالوں اور ادبی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور مشترکہ تہذیب کو فروغ دینے نیز دو قوموں کے دلوں کو جوڑنے کا خوش گوار اور پاکیزہ فرض انجام دے گا۔‘‘10

فریدؒ کے اشلوکوں کا دوسرا منظوم ترجمہ زاہد ابرول نے کیا۔وہ خود پنجابی النسل ہیں اور اس زبان کے ماہر اور شاعرہیں۔زاہد ابرول کا یہ ترجمہ ’فرید نامہ‘ کے نام سے پہلی بار 2003میں شائع ہوا۔اسے دوسری بار ترمیم و اضافوں کے ساتھ 2020میں شائع کیا گیا۔ اس ترجمے پر پروفیسر عزیز پری ہار،بلراج کومل،پروفیسر ستندر سنگھ نورنے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ اشاعت اوّل کے بعد جن ادبا، شعرا ناقدین و محققین نے اپنے قلمی تاثرات ظاہر کیے ان میں وارث علوی،شمس الرحمن فاروقی، ندا فاضلی، مظفر حنفی، شمیم حنفی،ترنم ریاض،زبیر رضوی، افتخار امام صدیقی، آزاد گلاٹی،راشد جمال فاروقی، عبدل رشید خاں غوری،خوشونت سنگھ،ندیم پرماراور طیب خان کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔زاہد ابرول کے ترجمے پر شمس الرحمن فاروقی کی راے ملاحظہ کیجیے جس میں انھوں ’فرید نامہ‘کی تعریف کی ہے ـ:

’’بابا صاحب کا کلام جس پنجابی میں ہے وہ میری سمجھ سے آگے کی چیز ہے۔اس لیے میں کوشش کے باوجود اصل کلام کو ٹھیک سے نہیں پڑھ سکا۔ترجمہ البتہ میں نے جگہ جگہ سے دیکھا اور مجھے ترجمہ ہر جگہ بہت رواں اور شگفتہ معلوم ہوا۔آپ نے اس ترجمے کے ذریعے اردو شاعری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔مجموعی حیثیت سے آپ کی کتاب بہت قیمتی اور قابلِ تعریف ہے۔‘‘11

زاہد ابرول نے اپنے مقدمے میں فریدؒ کی حیات اور علمی،سماجی و روحانی اور لسانی خدمات پر ناقدانہ گفتگو کی ہے۔انھوں نے فرید نامہ کی اشاعت دوم پر اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ فرید نامہ کے پہلے اڈیشن میں اصل کلام گر مکھی اور رومن انگریزی میں اور اردو ترجمہ اردو اور ہندی میں دیا تھا۔لیکن دوسرے اڈیشن میں بابا فرید کا اصل کلام قدیم پنجابی اور ترجمہ اردو میں منظوم کیا گیا ہے۔حالانکہ انھوں نے حضرت بابا فرید کے کلام کا ترجمہ اردو میں کرتے وقت اپنی قلبی و ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا:

’’یہ ترجمہ میں نے خود نہیں کیا ہے بابا فرید نے مجھ سے کروایا ہے۔میں تو ان کا ایک اشلوک پکڑ لیتا تھا، آنکھیں موند کر ا س کو بار بار دہراتا ہوا بابا فریدسے پوچھتا تھا ’’بابا! یہ اشلوک اگر آپ اردو میں کہتے تو کیسے کہتے ؟ ذہن میں سمندر منتھن جیسا کچھ ہونے لگتا اور بابا کچھ دیر بعد اپنا اشلوک اردو میں ترجمہ کر کے مجھے دے دیتے۔غیبی باتیں کچھ مبہم بھی ہوتی ہیں اور اوپر سے اتری بات سننے میں اور لکھنے میں کوئی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس ترجمے میں جو بھی خوبیاں ہیں، حضرت بابا فرید کی ہیں اور جو خامیاںرہ گئی ہیں وہ میری نا سمجھی اور کم عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اپنی ان خامیوں کے لیے میں حضرت بابا فرید اور ان کے چاہنے والوں سے معافی چاہتا ہوں اور آخر میں حضرت بابافرید ہی کے ایک اشلوک کے ساتھ ’فرید نامہ‘کا دوسرا اڈیشن آپ کے سپرد کرتا ہوں           ؎

عاقل ہو کر طفل ہے، شکت ہے لگے اشکت

پاس نہیں کچھ پھر بھی دے، وہی ہے سچا بھکت12

ترجمان الفرید‘اور ’فرید نامہ‘دونوں ترجمے لفظی ترجمے نہیں بلکہ تخلیقی ترجمے کے زمرے میں آتے ہیں۔ دونوں تراجم اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔بابا فرید کے کلام کویک لخت تشکیک کے زمرے میں شامل کرنا کوتاہ فہمی کے مترادف ہے۔گرو گرنتھ صاحب میں گرو ارجن دیو نے فریدؒ کے علاوہ دیگر صوفیوں کے کلام کو خوب چھان پھٹک کر شامل کیا ہے۔وہ صرف سکھ مذہب کے گروہی نہیں تھے بلکہ اعلا شعری ذوق و نقد و فہم کے دلدادہ تھے۔خود پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی کتابLife And Times of Fariduddin Ganj-i-Shakar میں (1) فوائد السالکین(حضرت بابا قطب الدین بختیار کاکی کے ملفوظات، مرتب حضرت بابا فرید) (2) اسرار الاولیا (حضرت بابا فرید کے ملفوظات،مرتب شیخ بدرالدین اسحاق) (3)  رفعت القلوب(حضرت بابا فرید کے ملفوظات، مرتب حضرت نظام الدین اولیا)کے حوالوں سے یہ بتایا کہ بابافرید کا کچھ کلام ان میں شامل ہے۔13اس موقع ’ترجمان الفرید‘اور ’فرید نامہ‘میں شامل شیخ فرید کے کچھ اشلوکوں کے تراجم ملاحظہ کیجیے       ؎

فرید نامہ ‘ : اشلوک نمر (1)

وقت نہ ٹلتا ہے کبھی، دل کو کوئی سمجھائے

وقتِ مقرر پر دلھن، ہر اِک بیاہی جائے

میکے سے بیٹی اٹھے، جسم سے جان اٹھ جائے

خالی قالب جان بِن کِس کو گلے لگائے

اب تک سنتے تھے جسے، آکر منہ دکھلائے

دلھا ملک الموت کا، جان دلھن لے جائے

بال سے بھی باریک پل، دریا پار کرائے

فریدا! سن کے جو ان سنی کرے سو دھوکا کھائے

ترجمان الفرید(1)

جو ساعت وصل کی لکھ دی گئی وہ کون بدلے گا

فرشتہ موت کا بر وقت سر پر آن دھمکے گا

اجل کا دن مقرر ہے یہ کب ٹالے سے ٹلتی ہے

چیخ اٹھتی ہیں ساری ہڈیاں جب جاں نکلتی ہے

عروسِ مرگ نے شادی رچائی ہے بنی جاں پر

دلہن گھر سے چلی اب روئیں ہم کس کے گلے لگ کر

ہے راہ پل صراط اک بال سے باریک اے غافل

نہیں سنتے ہیں آواز درا گم کردہ منزل

فرید نامہ‘اشلوک نمبر(4)

فریدا! تِل کم ہوں اگر، سنبھل کے بھریئے ہاتھ

سائیں بال سمان ہو، جھک کر کیجیے بات

ترجمان الفرید(4)

نفس گنتی کے تھے جن کو گنوا کر دل پشیماں ہے

پیا ناداں سہاگن حسن بے کار نازاں ہے

فرید نامہ نامہ‘اشلوک نمبر(19)

جنگل جنگل کیا پھرے، کانٹوں پر کیا سوئے

باہر کیا ڈھونڈے اسے، من اندر جو ہوئے

ترجمان الفرید(19)

پھرے صحرا صحرا اپنی سعیٔ غیر حاصل میں

جسے ڈھونڈا کیے برسوں وہ نکلا جا گزیں دل میں

فرید نامہ‘اشلوک نمبر(28)

روٹی میری کاٹھ کی، بھاجی میری بھوک

چپڑی جو کھائیں دکھ سہیں، مجھ سے نہ ہو چوک

ترجمان الفرید(28)

چبا کر سوکھے ٹکڑے بھوک پی جانا ہی اچھا ہے

یہ نانِ روغنی کل کے لیے گھاٹے کا سودا ہے

فرید نامہ‘اشلوک نمر(58)

دھن دولت سے نہ موہ رکھ،موت بڑی بلوان

آخر جانا ہے جہاں، رہے وہیں کا دھیان

ترجمان الفرید(58)

متاع و مال کا سودا ہے سر میں موت ہے سر پر

کرو فکر اس جگہ کی جس جگہ جانا ہے جاں دے کر

فرید نامہ‘اشلوک نمر(100)

پانی انّ سے ہی چلیں، بھاری دیہہ کے شواس

بندہ جگ میں آئے ہے، لے کے سہانی آس

آئے ملک الموت جب، توڑ کے سارے دوار

بھائی بندھو، باندھ کر، کریں اسے تیار

چلا ہے بندہ چار کے، کندھوں پر اسوار

کرم جو اِس جگ میں کیے، کام آئیں اس پار

ترجمان الفرید(100)

بدن کے بوجھ کو ڈھوتا ہے جب تک آب و دانہ ہے

یہ انسان نت نئی امید کا ہر دم نشانہ ہے

اجل ساری فصلیں توڑ کر جب آ دھمکتی ہے

جو اپنے ہیں انہی کی آنکھ میں میّت کھٹکتی ہے

جسد جاتا ہے دیکھو چار انسانوں کے کاندھوں پر

عمل بس کام آئے گا حضورِ داور محشر

حواشی

1             بابا فرید،بلونت سنگھ آنند ترجمہ مہر افشاں فاروقی،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،1992،ص15

2             فرید نامہ،زاہد ابرول،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، 2020، ص 30

3               ایضاً،ص30

4             سوانح حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر،وحید مسعود اختر، پاک اکیڈمی،141/1۔وحید آباد 1965،  ص215 تا216

5             اردو کی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام،مولوی عبدالحق، انجمن ترقی اردو(ہند)،نئی دہلی، 2008، ص8تا9

6             بابا فرید،بلونت سنگھ آنند ترجمہ مہر افشاں فاروقی،ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی،1992،ص41

7             اسرار الاولیا (ملفوظات بابا فرید گنج شکرؒ)، مرتب بدر الدین اسحاق،اردو ترجمہ پروفیسر محمد معین الدین دردائی،نفیس اکیڈمی،کراچی،طبع دوم،جون 1975،ص 17

8             ترجمان الفرید،خداداد مونس، راجستھان اردو اکادمی، جے پور، 1993-94

9             فرید نامہ،زاہد ابرول،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، اشاعت دوم2020

10          ترجمان الفرید، خداداد مونس، راجستھان، اردو اکادمی، جے پور، 1993-94، ص 15-16

11          فرید نامہ،زاہد ابرول،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، 2020، ص 18

12          فرید نامہ،زاہد ابرول،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، 2020،ص32

13          بابا فرید،بلونت سنگھ آنند ترجمہ مہر افشاں فاروقی،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،1992،ص39

 

Dr. Ibraheem Afsar

Ward No 1, Mehpa Chauraha

Nagar Panchayat Siwal Khas

Distt.: Meerut - 250501 (UP)

Mob.: 9897012528

ibraheem.siwal@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

بابا فریدالدین گنج شکر اور ان کا کلام، مضمون نگار: ابراہیم افسر

  اردو دنیا، مئی 2025 ہندوستان دورِقدیم سے ہی رشیوں، منیوں، جوگیوں، ولیوں، درویشوں اور صوفیوں کی آماج گاہ رہا ہے۔یہاں کی سر سبز و شاداب ا...