احمد
یوسف جدید افسانہ نگاروں میں ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے جدیدیت کے اہم
نظریات کو اپنے افسانوں میں برتا ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کا سفر1948 سے 2004 تک محیط
ہے۔ تقریباً نصف صدی کے تخلیقی سفر میں کسی فنکار کا مختلف ادبی تحریک و رجحان سے
متاثر ہونا فطری امر ہے۔ یہی معاملہ احمد یوسف صاحب کا بھی ہے۔جس زمانے میں موصوف
نے افسانہ نگاری کا آغاز کیا، اس زمانے میں نہ صرف وہ فکری طور پر ترقی پسندی سے
متاثر تھے بلکہ تعلیمی سطح پر بھی اس میں ان کی سرگرم شمولیت تھی۔ ان کے ابتدائی
افسانے مثلاً ’بیس کاریگر‘(1949)، ’عبدالرحیم ٹی اسٹال‘ (1961) کے مطالعے سے
اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ لوگوں پر بڑی ژرف بینی سے روشنی ڈالتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں ان کے شدائد و آلام کی بھرپور عکاسی ہوجاتی ہے۔ احمدیوسف کے
ابتدائی افسانوں میں سماجی ناانصافیوں اور استحصال کے خلاف احتجاج کی صدا خاصی
بلند ہے۔ لیکن خالص ترقی پسندانہ فکر ان کے افسانوں سے دھیرے دھیرے مفقود ہونا
شروع ہوجاتی ہے اور ان کی جگہ جدیدیت کے رنگ و روغن چڑھنے لگتے ہیں۔ احمد یوسف کے
ابتدائی افسانوں کے متعلق پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں :
’’ابتدائی
افسانوں کا مطالعہ کیجیے تو جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ترقی پسندی کی ابتدا
اور عروج کے زمانے میں احمد یوسف نہ صرف اس تحریک سے وابستہ رہے بلکہ ان کے افسانے
کے خد و خال بھی ترقی پسند عناصر سے بیش از پیش منور رہے یعنی پریم چند کے بعد ایک
طرف رومانی آہنگ سے پرہیز کرنے کی کوشش رہی تو دوسری طرف زندگی کے دو تقاضے جن کا
بیشتر حصہ سماجی استحصال پر مبنی ہے وہ افسانے کی خد و خال بنے۔ یہ اور بات ہے کہ
رومانیت یکسر ختم نہیں ہوئی۔ قابل لحاظ اور مستند ترقی پسند افسانہ نگار کرشن چندر
کسی مرحلے میں بھی اس عنصر کو فرامو ش نہ کر سکے۔ لیکن احمد یوسف کے بیشتر افسانوں
کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی کی چیرہ دستیوں اور سماج کے
استحصالی تیور کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ابتدائی افسانوںمیں بھی
یہ عنصر خاصا نمایاں نظر آتا ہے۔‘‘ 1
قابل
ذکر ہے کہ 1960 کے بعد سے ان کے یہاں جدید طرز کے افسانے ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہیں
سے ان کے افسانوں میں علامت و تجرید اور ابہام کی شمولیت ہونے لگتی ہے۔ ایسے
افسانوںمیں شادی کا دوسرا لمحہ، سایۂ آہو، میرا ہی لہو، تلوار کا موسم، ایک
لہکتے دن کا آخری جام، ہم تھے اور شہر تھا، سنگین کے دو کنارے، مخالف سمتوں کا
سفر اور ’پتھر کی زبان‘ وغیرہ اہم ہیں۔
جدید
اردو ادب بالخصوص جدید افسانے کا ایک اہم پہلو عصری حسیت ہے۔ اس دور کے مسائل کا
جائزہ لیتے ہوئے انسانی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ اس عہد کا
انسان بے گانگی، عدم تشخص اور تنہائی کے احساس کا شکار رہا ہے۔ جدید افسانہ نگاروں
نے اس عہد کی زندگی کے متختلف پہلوئوں کو موضوع بناکر انسانی صورت حال کی تصویر پیش
کی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی اندھا دھند ترقی کے منفی اثرات، عالمی جنگ کا خطرہ،
دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی، قدروں کی شکست و ریخت، انسانی رشتوں کا
ٹوٹنا، سیاسی جبر اور معاشی وجوہات سے ترک وطن اور ہجرت، اور پھر اس کے نتیجے میں
پیدا ہونے والے تہذیبی و نفسیاتی مسائل، نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات، آزادیِ
نسواں کی تحریک اور عورتوں کے گونا گوں مسائل کو اپنے افسانوں کاموضوع بنایا ہے۔
جدید افسانے کا ایک اہم موضوع انسان اور انسانیت کا زوال بھی ہے، جسے جدید افسانہ
نگار خیال کی صورت میں نہیں بلکہ احساس کی سطح پر اجاگر کرتے رہے ہیں۔ ان ہی
موضوعاتی خطوط کے آئینے میں احمد یوسف کی افسانہ نگاری کا جائزہ مقصود ہے۔ احمد یوسف کے متعلق معروف افسانہ نگار حسین
الحق نے لکھا ہے:
’’احمدیوسف
بڑے فنکار تھے یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، مگر وہ ایک زندہ فنکار ضرور
تھے۔ ابتدا سے انتہا تک احمد یوسف سوالات سے جوجھتے رہے اور بڑی بات ہے کہ قاری بھی
ان کے ساتھ ان سوالوں کی تپش ضرور محسوس کرتا رہا۔ ‘‘ 2
دراصل
احمد یوسف کامعاشرتی اقدام کے تعلق سے اپنا ایک نظریہ تھا۔ اقدار کی گراوٹ ان کے
ذہن و دل کو جھنجھوڑتی ہے۔ ان کے سامنے طرح طرح کے سوالات قائم کرتی ہے کہ آخر اس
انحطاط کی وجوہات کیا ہیں اور پھر ان کا تدارک کس طرح ہو؟ یہ سوالات افسانوں کے ذریعے
بھی انھوں نے قارئین کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان میں اس کے حل کے لیے
احساس بیدار ہو۔
اردو
کے بہت سے ادبا احمد یوسف کو پرانی قدروں کی زندہ تصویر اور اگلی شرافت کا نمونہ
مانتے ہیں۔ احمد یوسف عوام اور بطور خاص اقلیتی طبقے کو بھی ان اعلیٰ اقدار سے
متصف دیکھنا چاہتے تھے۔ یہاں جدید افسانہ نگار مسعود اشعر کے افسانہ ’بچھڑے کا گیت‘
کا ذکر بے محل نہیں ہوگا کہ اس افسانے میں درخت زندگی کی بنیاد ی انسانی قدروں کی
علامت بن کر ابھرتا ہے۔ اس افسانے میں جس واقعے کو پیش کیا گیا ہے وہ انسانی اقدار
کے تعلق سے پائی جانے والی ایک عام لاتعلقی اور بے حسی کا رویہ ہے۔ بستی میں ایک
پرانے شجر سایہ دار کو کاٹا جارہا ہے۔ بستی والوں کے لیے یہ عام سی بات ہے لیکن
صرف ایک شخص ہے جسے درخت کا کاٹا جانا نہایت سنگین اور المناک عمل معلوم ہوتا ہے۔
درخت کاٹنے والوں کا جواز یہ ہے کہ ہائی ٹینشن پاور لائن کے لیے درخت کا کاٹنا
ضروری ہے۔ حساس انسان کسی بھی طرح درخت کو کٹنے سے بچانے کے لیے دفاتر کا چکر
لگاتا ہے لیکن کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ہے ۔ کیونکہ بستی والوں کا احساس و شعور
مردہ ہوچکا ہے۔ وہ لوگ درخت کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک
کہانی احمد یوسف کے یہاں قتل گاہ کے عنوان سے ہے۔’قتل گاہ‘ ہے جس میں درخت کے پیرائے
میں قدروں کے زوال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اجنبیت،
تنہائی، عدم تشخص اور زندگی کی لایعنیت کے احساسات جدید دورکے بڑے المیے ہیں۔ اجنبیت
یا بے گانگی کے رویے سے انسانی معاشرہ بہت متاثر ہوا ہے۔ ہندوستان کے پس منظر میں
دیکھا جائے تو ہمارے وطن عزیز کی تہذیب تکثیری ہے۔ ہم ہندوستانی اپنی کثیر المذہبی
اور کثیر لسانی تہذیب پر نازاں رہتے ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ
زبان کے تعلق سے اب بھی ہمارے دلوں میں تعصبات کثیر، تحفظات موجود ہیں۔ یہاں مثال
کی گنجائش نہیں۔ اس ضمن میں احمد یوسف کا افسانہ ’قصہ حجام کے ساتویں بھائی کا‘
بڑا اہم ہے جس میں لسانی اور علاقائی تعصب کے ایک واقعے کو بیان کیا گیا ہے۔ لسانی
عصبیت کی وجہ سے ایک مزدور، جو مغربی بنگال میں رہتا تھا، دہشت و تشدد کا شکار
ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے حال زار کا بیان ایمائی طرز اظہار سے کرتا ہے۔ غیر زبان کے
علاقے میں دوسرے خانہ خرابوں کی طرف اجنبیت کی سزا جھیلنے والے مزدور کے حال زار
پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے فنکار نے المناکی کی وہ داستان رقم کی ہے جس کو پڑھ کر
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سقوط بنگال کا خون آشام منظر نامہ اپنی تمام تر وحشت و
بربریت کے ساتھ محرک اور روشن نظر آتا ہے ۔ وقت کی کمی بھی جدید دور کا بڑا مسئلہ
ہے۔ انور سجاد کا افسانہ ’چھٹی کا دن‘ میں وقت کی کمی کے احساس کو ابھارا گیا ہے
کہ دفتری زندگی فرد کو کس حد تک متاثر کرتی ہے ۔ احمد یوسف کا افسانہ ’ملاقاتیں‘
اسی بیگانگی اور عدیم الفرصتی کا المیاتی بیان ہے جس میں افسانے کے مرکزی کردار کا
اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے جانا محض خانہ پری ہے ۔ وہ صرف رشتہ داروں سے
ملاقات اس لیے کرتا ہے تاکہ ان کی دیرینہ شکایت دور ہوجائے۔ یہ جدید دور کی عدیم
الفرصتی اورمادہ پرستی کا نتیجہ ہے ۔ افسانہ ’بڑے گپتا چھوٹے گپتا‘ دو بھائیوں کے
درمیان کی لاتعلقی اور بے گانگی کی کہانی ہے۔ ’بڑے گپتا ‘ اپنے چھوٹے بھائی کے بیمار
ہونے پر اس کی عیادت کو تو نہیں جاتے لیکن ایک بے مروت سا تبصرہ کرتے ہیں کہ اس کا
بھائی کھاتا پیتا نہیں ہے، پیسے بچاتا ہے ۔ نیز یہ کہ اسے اچھی بیوی نہیں ملی۔ یہ
بے مروتی کی باتیں دراصل عصر حاضر کی بڑھتی اجنبیت اور بے گانگی ہے جس نے بھائیوں
کے قلبی لگائو کو بھی کمزور کردیا ہے۔ احمد یوسف کردارکی نفسیات تک پہنچتے ہیں اور
عصری حسیت سے کام لیتے ہیں ۔ مہدی جعفر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ:
’’احمد
یوسف کے کردار عصری رفتار کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں اور اس مشاہدے سے اپنے داخل
کا تجزیہ کرتے ہیں۔ افسانوں کا ماحول قدیم وجدید کے باہم ٹکرائو سے پیدا ہونے والے
نتائج کے طور پر ابھرا ہے۔ مجموعی طور پر احمد یوسف نسلی خلیج کی عکاسی قدامت کے
زاویے سے کرتے ہیں۔ پرانی نسل کی نظر سے دیکھیے تو زندگی کی بڑھتی ہوئی تیز رفتاری،
اس سے ابھرتے ہوئے مصائب اور آلام، پھیلتی ہوئی آبادی کا دبائو، وقت کی تنگی،
ذہنوں کا انتشار، جذباتی بے کیفی، ماحول کی سنگینی، گراں باری اور عہد حاضر کی خونیں
اور سفاک تلور نظر آتی ہے۔ البتہ وہ کنارا جس پر شاید فن کار کھڑا ہے وہ داخلی
طور پر پرانے وقتوں کا پس منظر پیش کرتا ہے جس میں عصریت کا رد عمل ہے۔ احمد یوسف
عصری حسیت کو عموماً ایک مشاہدے کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ وہ حسیت جسے نئی نسل
اپنی شمولیت یا جدوجہد کے ذریعے حاصل کرتی ہے اسکی عکاسی کم ہوپائی ہے۔‘‘3
تنہائی
کا احساس بھی جدید دور کا ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ آج کا انسان کرب، تنہائی اور غم
والم میں مبتلا ہے۔ جدید افسانہ نگاروں نے اس اہم مسئلے کی طرف بھی قاری کا ذہن
مبذول کرایا ہے۔ قدروں کی شکست و ریخت نے رشتوں میں بھی بکھرائو کی صورت پیدا کی
ہے۔ پہلے پورا قصبہ ایک خاندان ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد یہ سمٹ کر گھروں تک محدود
ہوگیا اور آج کے دور میں ا س نے فلیٹوں میں اپنی پناہ گاہ بنائی ہے۔ صرف ماں باپ
اور بچے والا گھر جسے Nuclear Family کہاجاتا
ہے، جدید دور کا بڑا سانحہ ہے، کیونکہ آج آرام و آسائش کے سبھی سامان تو انسان
کے پاس موجود ہیں مگر ایک دوسرے سے بیگانگی اور رشتوں کی بے قدری نے انسانوں کو اکیلا
کر دیا ہے۔ افسانہ ’زندگی میں خلا‘ میں خالد سہیل نے ایک عورت کی کہانی بیان کی ہے
کہ بیٹا اور بیٹی کے چلے جانے کے بعد وہ عورت اور اس کا شوہر اکیلے پن کا شکار
ہوجاتے ہیں۔ ایک دن اچانک اس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے اور پھر وہ گھر میں
تن تنہا رہ جاتی ہے اور پھر ایک دن وہ بھی آتا ہے جب تنہائی کا کرب اس عورت کی
جان لے لیتا ہے اور اس کی موت کی دریافت پینشن آفس کے کلرک ذریعے اس وقت ہوتی ہے
جب اسے یہ تشویش لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ عورت اس ماہ پینشن لینے کیوں نہیں آئی۔ اسی
نوعیت کا افسانہ ترنم ریاض کا ’شہر‘ بھی ہے، جس میں ایک عورت کی لاش بند کمرے میں
پائی جاتی ہے اور افسوسناک صورت حال میں ہوتی ہے کہ پڑوسی کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا
کہ کتنے دنوں سے اس عورت کے گھر کا دروازہ نہیں کھلا۔ احمد یوسف کے یہاں بھی اس
نوع کے افسانے ہیں۔ افسانہ ’خاموشی کے حصار میں‘ اس میں تنہائی اور احساس محرومی
کا بیان موثر انداز میں ہوا ہے۔ یہ افسانہ ایسے والدین کے احساس محرومی اور درد کے
جذبات کا ترجمان ہے، جن کے بچے غیرممالک یا پھر کہیں دور دراز کے صوبوں میں رہتے ہیں۔
والدین کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہوا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دریا
کے ایک کنارے پر اگر ہم کھڑے ہیں تو دوسرے کنارے پر عندلیب اور اس کے کچھ فاصلے پر
مختار کھڑا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتاہے کہ سب اسی کنارے پر آ ملتے ہیں، جلدی جدا
ہونے کے لیے۔ اس کے بعد ہم ہوتے ہیں اور محرومی اور تنہائی کا نہ ختم ہونے والا
کرب۔‘‘4
اس
ذیل میں ایک اور افسانہ ’ایک ایک دن کا حساب‘ بھی ہے۔ یہ افسانہ سبکدوش ہیڈکلرک
اسد علی کے اکیلے پن کا نوحہ ہے۔ سبکدوشی کے بعد انسان اکیلے پن کا شکار ہوجاتا ہے
اور اکثر دیکھاجاتا ہے کہ معاشرے میں دھیرے دھیرے اس کی معنویت اور عزت میں بھی کمی
واقع ہونے لگتی ہے۔ افسانے میں شروع سے آخر تک اسد علی اپنے ماضی اور حال
کاموازنہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سب آسائشوں کے باوجود انھیں دنیا بے رنگ معلوم
ہوتی ہے۔ ان کی زندگی ایک محدود دائرے میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’اسد
علی سوچتے ہیں کہ زندگی جو ہمیشہ ایک ہی پٹری پر گھومتی رہی تھی، گول سا دائرہ
بناتی ہوئی پٹری پر، ریٹائرمنٹ کے بعد تو اور بھی چھوٹے دائرے میں گھومنے لگتی تھی۔
مہینے کے پہلے ہفتے ایک بینک سے اپنی پینشن لینا، ان کی زندگی میں یہی ایک کام رہ
گیا تھا۔ ‘‘ 5
اس
اقتباس سے ظاہرہو تاہے کہ اسدعلی مقصدی سرگرمی کے نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ یہ
ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ملازمت میں ہوتا ہے تو لوگ اس کی بڑی عزت کرتے ہیں لیکن
سبکدوشی کے بعد حالات بدل جاتے ہیں اور لوگ طوطہ چشمی کرنے سے باز نہیں آتے۔ جب
اسد علی اپنے ایک جونیئر سنہا سے ملنے اس کے گھر پر جاتے ہیں تو انھیں جواب ملتا
ہے کہ وہ سو رہے ہیں۔ اس بات سے اسد علی کو سخت مایوسی ہوتی ہے جس کا اظہار افسانہ
کے اختتام پر اس طرح ہوا ہے:
’’آج
کا دن بھی عجیب تھا۔ ‘‘
’’بہت
ہی عجیب‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘6
احمد
یوسف کے اور بھی کئی افسانوں میں یہ احساس شدت کے ساتھ موجود ہے جن میں میراہی
لہو، تلوار کا موسم، قربت کی دوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جدید
افسانہ نگاروں نے نسلی تفاوت کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی
Generation Gapکی بات کی جانے لگی تھی۔ حالانکہ اس موضوع
پر پہلے بھی افسانے لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ’صرف
ایک سگریٹ‘ اور ’ایک باپ بکائو ہے‘ کو ہی لیاجاسکتا ہے جن میں اس موضوع کو معنی خیز
طریقے سے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ احمدندیم قاسمی کا افسانہ ’پاگل‘ بھی
اسی موضوع پرلکھا گیا ہے ۔ اس افسانے میں دو مختلف مکتبہ فکر کے باہمی تصادم
کوموضوع بنا یا گیا ہے۔ جدید افسانوں میں ’دو بھیگے ہوئے لوگ‘ (اقبال مجید)، ’نئے
قدموںکی چاپ‘ (سریندر پرکاش)، ’دلدل‘ (شرون کمار)، ’پہلی موت‘ (قمر الدین ) وغیرہ
افسانے بھی اسی قبیل کے ہیں۔
احمد
یوسف کے یہاں بھی نسلی تفاوت اورمختلف مکاتب فکرکے تصادم کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اسی نوعیت کا ایک افسانہ ’رشتہ‘ ہے جس میں روایتی اورنئی سوچ کے درمیان ٹکرائو کی
صورت کونمایاں کیا گیا ہے ۔ یہ مختصر مکالمہ ملاحظہ کریں جو ایک نوجوان کردارکی
زبانی ادا ہوتا ہے:
’’تم
ماضی اور روایت لپٹے ہوئے کیڑے ۔۔۔۔تمھارا اپنا کیا ہے؟ ۔۔۔۔جب بھی تمھیں کسی شے کی
ضرورت ہوتی ہے، تم اسے ماضی کے بھنڈار سے نکال لاتے ہو۔‘‘7
اس
مکالمے سے واضح ہوتا ہے کہ نئی نسل روایتی اقدار سے بے بہرہ ہے ۔ نسلی تفاوت کو
ظاہر کرتا ایک افسانہ ’ورثہ‘ بھی ہے جس میں ایک بعد کی جنریشن کا انسان اپنے اکابرین
کے ظلم و استبداد کے رویے کو مزید شدت کے ساتھ اختیارکرتا نظر آتاہے۔
جدید
افسانہ نگاروں کا ایک محبوب موضوع شہر رہا ہے۔ صنعتی ترقی نے انسانوں کے ایک ہجوم
کو شہر کی طرف متوجہ کیا جس کے نتیجے میں گائوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی ہوئی
اور شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ شہروں میں آبادی کے بے لگام اضافے نے شہروں میں
بے روزگاری کے مسائل پیداکرنے کے ساتھ ساتھ انسانی اخلاق کو بھی اپنی زد میں لیا۔ انسان اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہونے لگا۔
’عمود‘ (جوگندر پال)، ’اپنا رنگ‘ (ظفر اوگانوی)، ’ڈوبتے ہوئے‘ (حسین الحق)، ’پائوں‘
(شوکت حیات) وغیرہ افسانوں میں شہر کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شہر سے
متعلق یہ موضوعات احمد یوسف کے یہاں بھی پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ’کل کی شب‘
اور ’ہم تھے اور شہر تھا‘ میں چند دیگر تاثرات کے علاوہ شہری زندگی کی برائیوں کو
اجاگر کرنے کی بھی کوشش ہے ۔
افسانہ
’ہم تھے اور شہر تھا‘ شہر کے غیر منظم حالات اور بگڑتے اقدار کا اشارتی بیان ہے۔
اس افسانے میں معاشرے کے افراد کے درمیان عدم اعتمادی، چالبازی، بازار کی گرانی جیسے حالات کا اشارتاً ذکر ملتا ہے۔ اس افسانہ
میں شہری زندگی کے مسائل کو پیش کرتے ہوئے احمدیوسف نے یہ باور کرانے کی کوشش کی
ہے کہ معاشرے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اس کی بڑی وجہ اخلاقیات کا فقدان ہے۔
جدید
افسانے کا علامتی اسلوب تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ ناقدین کی رائے ہے کہ شعر گوئی
کے لیے تو علامت نگاری مفید ہوسکتی ہے لیکن افسانے کے لیے نہیں کیونکہ افسانہ ایک
بیانیہ کا فن ہے اور اس میں ماجرے کا سلسلہ حادثات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ۔ اس
لیے کہاجاسکتا ہے کہ افسانے کا فن توسیع اور توضیع کا متقاضی ہے۔ لیکن جدید
فنکاروں نے علامت کو افسانوں میں بہت استعمال کیا ہے۔ احمد یوسف کے افسانوں میں بھی
علامتوں کا اچھا خاصا اہتمام نظر آتا ہے۔ ان کے افسانے تلوار کا موسم، مکالمہ،
کاروبار، حالات اور23 گھنٹے کا شہر‘ وغیرہ علامت نگاری کے عمدہ نمونے ہیں ۔ احمد یوسف
کے افسانوں میں خال خال ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ علامتیں بعید از قیاس ہیں، کیونکہ
ان کی اکثر علامتیں سمجھ میں آنے والی اور Approachableہوتی
ہیں۔
حواشی
1۔ تاریخ ادب اردو
(جلد سوم) وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 2005، ص1254
2 ۔ سہ ماہی ’ابجد‘
ارریہ، بہار، جولائی تا دسمبر 2014، ص8
3۔ ’نئی افسانوی تقلیب‘
مہدی جعفر، معیار پبلی کیشنز، دہلی، 1999، ص121
4 ۔’رزم ہو یا بزم
ہو‘ احمد یوسف، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 2004، 122
5۔ ایضاً، ص45
6 ۔ایضاً، ص46
7۔ ’23گھنٹے کا سفر‘
احمد یوسف، کلچرل اکیڈمی گیا، بہار، 1984، ص71
Md. Mahmoodul Hasan
Research Scholar (Urdu)
LNMU Darbhanga- 845401 (Bihar)
Mob.: 8294653040
mahmoodulhasan03152@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں