20/5/25

مظفر حنفی کی شاعرانہ انفرادیت، مضمون نگار: محمد اسرار

 اردو دنیا، فروری 2025

مظفر حنفی کا شمار اردو کے مشہور و معروف شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ اسلوب کے لحاظ سے بلا شبہ ایک صاحب طرز شاعر قرار دیے جا سکتے ہیں۔ جو باتیں انھیں دوسروں سے ممتاز یا منفرد کرتی ہیں ان میں ان کی شاعری کا انداز، کھنک دار تیکھا لہجہ، اور زور بیان ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے بلکہ خود انھوں نے ایک نیا انداز پیدا کیا ہے۔ یوں تو شاعری صدیوں سے ہو رہی ہے اور اکثر نقاد یہ بھی کہتے ہیں کہ مضامین کا تنوع بہت کم شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی مظفر حنفی کی شاعری قابل توجہ قرار پاتی ہے کہ ان کے پاس مضامین کی کمی نہیں۔ وہ پرانے مضامین کو نئے انداز سے کہنے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں سے کم متاثر ہوئے اور لوگوں کو زیادہ متاثر کیا۔ بلا شبہ تین چار نسل ان کی شاعری پڑھ کر متاثر ہوئی اور اس بات کا قائل ہونا پڑا کہ مظفر حنفی واقعی جدید لب ولہجہ کے ایک بہترین اور نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بات کو سیدھے انداز میں کہتے ہیں۔ ان کے یہاں ناز نخرے والا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

مظفر حنفی نے ترقی پسند تحریک کا عروج  دیکھا۔  اپنی نظروں کے سامنے جدید تحریک کی بنیاد اور اس کا عروج بھی دیکھا۔ جدید تحریک نے کس طرح ترقی پسند تحریک کو پیچھے کر دیا یہ بھی دیکھا۔ وہ کسی ایک ازم یا تحریک سے وابستہ نہیں رہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جدید ادب نے انھیں متاثر کیا۔ وہ محض کھوکھلے نعروں اور دکھاوے کی ہمدردی کے قائل نہیں تھے۔ وہ جس مزاج کے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بھی غریبوں، مزدوروں ، دبے کچلے لوگوں سے ہمدردی تھی۔ لیکن وہ اسے شاعری میں ٹھونسنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھے۔ ان کے یہاں اس بات کے لیے ایک رکھ رکھاؤ اور معیار ہے۔

مظفر حنفی نے بلا وجہ کی تنقید اور طنز سے پرہیز کیا ہے۔ ان کا طنزیہ نشتر معاشرے اور قوم کی بھلائی کے لیے کام دیتا ہے۔ ان کی شاعری اس لیے بھی آفاقی قرار پاتی ہے کہ وہ بڑی بات کو آسانی سے کہنے اور مضمون کو سلیقے سے برتنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ ان شاعروں میں سے نہیں جو جلد فراموش کر دیے جائیں۔ ان کی شاعری انھیں زندہ رکھنے کا کام کرے گی۔

کسی کی بطور خاص پیروی نہیں کرنے سے یہ بھی ہوا کہ وہ بھیڑ سے الگ ہو گئے۔ میرے خیال میں ان کی یہ بات فطری تھی۔ کیونکہ اگر وہ محض کوشش سے ایسا کرتے تو شاید اپنی روش پر تمام زندگی قائم نہیں رہ پاتے۔ اس لیے کہ شاعری بے ساختہ ہوتی ہے اور اس میں فطرت ہی کام آتی ہے۔

مظفر حنفی کی شاعری ایک منفرد آہنگ رکھتی ہے۔ وہ روایتی خیال کے ساتھ جدید انداز کی آمیزش اس طرح کرتے ہیں کہ شعر بالکل نیا لگتا ہے۔ بس اسی انداز اور آہنگ کو چونکا دینے والی شاعری کہا جاتاہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی شاعر کا مکمل کلام منفرد ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی نے بھی میر اکثر غزلوں میں کچھ اشعار کا ہی انتخاب کیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اگر دس گیارہ اشعار کی غزل میں دو چار اشعار بھی اعلیٰ درجے کے ہو جائیں یہی کافی ہے۔ اس معیار پر مظفر حنفی کی شاعری دوسروں سے کہیں زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے۔

یہاں ہم کسی سے موازنہ نہیں کر رہے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ مظفر حنفی جو ایک راہ اختیار کی وہ کیوں الگ ہے یہ بتانا مقصود ہے۔

مظفر حنفی کے کئی اشعار ایسے ہیں جو اکثر نظامت کرتے وقت ناظم مشاعرہ یا ناظم جلسہ پڑھتے ہیں۔ ان کے اشعار موقع کی مناسبت سے بھی پڑھے جاتے ہیں۔ آج کل کے شعرا  کا کلام لوگوں کو کم ہی یاد رہتا ہے لیکن مظفر حنفی کے اشعار لوگوں کو کچھ نہ کچھ ضرور یاد رہتے ہیں۔ وہ تقریباً پچاس برس مختلف رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے انھیں کئی نسلوں کو متاثر کرنے والا شاعر کہا ہے۔ وہ بے وجہ داد کے طلبگار نہیں، ان کی ذات میں ایک قسم کی قناعت کا اظہار ہوتا ہے۔

مظفر حنفی صاحب کا لہجہ حقیقتاً دوسروں سے جدا تھا۔ یوں تو اکثر شاعروں پر مضامین لکھتے ہوئے مضمون نگار یہ لکھتے ہیں کہ فلاں صاحب منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ لیکن اس رائے میں دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے۔ اب اگر بات کریں مظفر حنفی کی تو شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ وہ منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ اگر وہ کرخت زبان استعمال کرتے تھے یا اپنی غزل کو کھردری غزل کہتے تھے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ کا انتخاب کاٹ دار لہجے کی ترجمانی کرتا ہے۔ انھوں نے ثابت بھی کر دیا کہ ایسے الفاظ کو برت کر بھی تہ دار شاعری کی جا سکتی ہے۔

یکم اپریل 1936تا 10؍اکتوبر2020 یہ حنفی صاحب کا عرصہ حیات ہے۔ وہ مدھیہ پردیش کے کھنڈوا شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ 84 برس کی عمر میں انتقال کرنے والا یہ شاعر نہ صرف شاعر بلکہ محقق مترجم نقاد اور نہ جانے کیا کیا کچھ یہ ایک باکمال شخص تھا جسے ہم عبقری شخصیت کہہ سکتے ہیں۔ ان کی شاعری احتجاجی اور جارحانہ تھی۔ محبوب کے ناز رکھنے برداشت کرنے والا معاملہ بالکل نہیں بلکہ صاف سیدھی سچی محبت یا قطع تعلق۔ ایک غزل درج کرنے کے بعد اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں        ؎

 فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے

ویرانی امڈی پڑتی ہے گھر کے کونے کونے سے

 اپنی اس کم ظرفی کا احساس کہاں لے جاؤں میں

 سن رکھا تھا الجھن کچھ کم ہو جاتی ہے رونے سے

 بعد از وقت پشیماں ہو کر زخم نہیں بھر سکتے تم

 دامن کے دھبے البتہ مٹ سکتے ہیں دھونے سے

کانٹے بونے والے سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے جیسے راہ رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے

میرے تیکھے شعر کی قیمت دکھتی رگ پر کاری چوٹ

چکنی چپڑی غزلیں بے شک آپ خریدیں سونے سے

آنکھوں میں یہ رات کٹے تو ٹھیک مظفر حنفی جی

رہزن جھنجھلایا بیٹھا ہے اک منزل سر ہونے سے

(ریختہ ڈاٹ کام)

دیکھیے کہ الفاظ کا انتخاب کس طرح کا ہے۔ کچھ الفاظ تو غزل کے لیے بالکل رواں اور سبک ہیں۔ آپ ان لفظوں پر غور کریں جسے نبھانا مشکل ہوتا ہے۔ محاورہ کانٹے بونا لفظ چکنی چپڑی تیکھے شعر جھنجھلایا ان الفاظ پر غور کریں۔ پھر شعر بھی کمال کا کہنا کیا یہ سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ مظفر حنفی نے ڈاکٹر محبوب راہی کی کتاب یادگار زمانہ ہیں یہ لوگ میں ڈیڑھ صفحات پر مشتمل ایک مضمون میں اپنے متعلق اس طرح  لکھا ہے:

’’شاد و فراق و نارنگ کے ساتھ راہی نے مجھ کم ترین کو بھی اس طویلے میں باندھ رکھا ہے۔ ایاز کو اپنی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ ہے البتہ          ؎

وہ بگولہ ہے کہ اڑنے پہ سدا آمادہ

میں جو مٹی ہوں تو مٹی بھی کہاں مانتی ہے

اس طرح یہ کتاب کم از کم نظر بد سے محفوظ رہے گی۔‘‘

(یادگارِ زمانہ ہیں یہ لوگ: ڈاکٹر محبوب راہی، اسباق پبلی کیشنز پونے، 2015، ص 8)

واضح ہو کہ ڈاکٹر محبوب راہی نے مظفر حنفی صاحب پر ’مظفر حنفی حیات اور کارنامے‘اس عنوان سے پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ اپنے ایک خط میں پروفیسر مظفر حنفی صاحب یوں لکھتے ہیں،’ ترقی پسند مجھے جدید شمار کرتے ہیں اور جدید لوگوں کو میں ترقی پسند نظر آتا ہوں بات یہ ہے کہ کبھی خوش آمد اور تعلقات استوار کرنے کی روش اختیار کی نہ گروپ بندی کی اس کے باوجود لوگ اگر کسی نہ کسی طرح اعتراف کرتے ہیں تو دراصل یہ ان کی مجبوری ہے۔‘‘(ایضاً، ص 236)

مظفر حنفی یوں تو جدید شاعری کا اہم نام ہے لیکن وہ خود کبھی یہ ظاہر نہیں کرتے کہ باقاعدہ کس گروپ سے وابستہ ہیں۔ یہ شاعر کا اعتماد ہے کہ مجھے ضرور نوٹس کیا جائے گا کسی سے رسم و راہ استوار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب شاعر کو اپنے کلام پر مکمل اعتماد ہو تو اسے ایسی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسے شاعروں کا معاملہ نقادوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا رہتا ہے۔ جو مستند قسم کے نقاد ہیں وہ ذرا کم ہی کسی شاعر کو خاطر میں لاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اہم ناقد کسی کا ذکر کر دے یا اس پر مضمون لکھ دے تو وہ شاعر لوگوں کے نزدیک اہم ہو جاتا ہے۔ حنفی صاحب ان تمام باتوں سے بے نیاز اپنے کاموں کی طرف متوجہ رہے۔ بس اسی فطرت نے انھیں سب کے لیے قابل قبول بنا دیا۔ اکثر گروپ بندی کسی ایسے شاعر یا ادیب کو بھی آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے جن کی تخلیقات میں کوئی اہم پہلو شامل نہیں ہوتا ہے۔ اس گروپ بندی کا اثر آج ادبی حلقوں میں اور زیادہ ہو گیا ہے۔ پہلے تو صرف کلاسیک ترقی پسند جدید یا اسی طرح کے کسی حلقے میں شامل کیا جاتا تھا مگر اب شاعروں اور ادیبوں کا خاص حلقہ ہو گیا ہے۔ بہرحال اگر 1980 میں حنفی صاحب یہ باتیں لکھ رہے تھے تو ظاہر ہے اس وقت بھی اس کے اثرات ضرور رہے ہوں گے۔

حنفی صاحب کے چند اور جملے اس طرح ہیں:

’’بھائی جتنا کچھ اس دور ابتلا میں کہیں سے مل جائے غنیمت جانو کہ آج کل متاع سخن کے خریدار کہاں ہیں اور خوشامد وغیرہ جیسے حربے استعمال کرنے کے لیے بھی ظرف چاہیے جو ہمارے پاس نہیں۔‘‘

’’مدیران رسائل کی نگاہ میں ٹیڑھی امیج بنی ہوئی ہے اسے برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ میںنے کسی کتاب پر تبصرے کے لیے ایک کے بعد دوسرا خط کسی مدیر کو نہیں لکھا۔‘‘

حنفی صاحب خود ستائش میں کبھی مبتلا نہیں رہے۔ خود جو کچھ لکھا وہ بھی اپنی مرضی سے اور دوسروں نے ان پر جو کچھ لکھا اسے بھی خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ زیادہ تعریف و توصیف پر انھیں خوش ہونے کی عادت نہیں تھی یہ ان کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے۔ اپنی غزلوں کو شاعر سبک اور رواں بتاتے ہیں۔ شاعری میں نغمگی شائستگی روانی سلاست فصاحت شیرینی عشق و محبت رومانیت کی تلاش کی جاتی ہے۔ اپنی غزل کو کھردری غزل بتانے والے مظفر حنفی کی ایک دوسری مکمل غزل پر غور کیجیے         ؎

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

 کس حال میں لکھی ہے میرے پاس آ کے دیکھ

 وہ دن ہوا ہوئے کہ بچھاتے تھے جان و دل

اب ایک بار اور ہمیں مسکرا کے دیکھ

پردہ پڑا ہوا ہے تبسم کے راز پر

پھولوں سے اوس آنکھ سے آنسو گرا کے دیکھ

یہ دوپہر بھی آئی ہے پرچھائیوں کے ساتھ

 ویسے نظر نہ آئیں تو مشعل جلا کے دیکھ

گلچیں نے جب تمام شگوفوں کو چن لیا

کانٹے پکار اٹھے کہ ہمیں آزما کے دیکھ

 تو میرا ہمسفر ہے تو پھر میرے ساتھ چل

ہے راہزن تو نقش قدم رہنما کے دیکھ

اپنی نظر سے دیکھ برہنہ حیات کو

 آنکھوں سے یہ کتاب کی عینک ہٹا کے دیکھ

از راہ احتیاط سفر کو نہ ختم کر

 یہ پھول ہیں کہ آگ قدم تو جما کے دیکھ

ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفر کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

(ریختہ ڈاٹ کام)

اس غزل کی لفظیات بھی قابل توجہ ہے۔ یہی لفظیات انداز بیان اور تیکھا پن مظفر حنفی کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

اوپر مظفر حنفی کی غزل میں لفظ کھردری، حیات کو برہنہ دیکھنے کی بات یا لفظ ٹھپہ شاید ہی کسی نے استعمال کیا ہو۔ یہی باتیں اور خیالات نسلوں کو متاثر کرتے ہیں۔  تقریبا تین نسلوں نے یا چار نسلوں نے مظفر حنفی کو پڑھا ہے اور سبھی متاثر ہوئے ہیں۔ اتنی سخت شاعری کرنے کے لیے دل و دماغ کا نہایت مضبوط ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حنفی صاحب کی شاعری محبوب کے ذکر سے بالکل خالی ہے یا وہ حسن و عشق کی باتیں نہیں کرتے۔ علامتوں استعاروں اور تلمیحات کا استعمال کر کے انھوں نے بھی حسن و عشق کی باتیں کی ہیں لیکن اس میں محبوب سے ایک طرح کا فاصلہ ہے۔ وہ ایسے مضامین محدود دائرے میں کہتے ہیں۔ اس طرح کے مضامین کو برتنے میں کچھ شعرا حدود کا خیال نہیں رکھتے اور بے حجابانہ بات کہتے ہیں جس سے شاعری کا لطف غارت ہو کر محض چٹخارہ رہ جاتا ہے۔ یہ بات حنفی صاحب نہیں کرتے وہ سلیقے سے اور تہذیب کے دائرے میں کہتے ہیں حالانکہ اشارہ اور خیال وہی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود شعر لطف دیتا ہے۔ میں مظفر حنفی کے دو شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں        ؎

گلنار ہو گئے ہم گلریز ہو گئے ہم

جب یاد آئے ہو تم زرخیز ہو گئے ہم

پتھر سے دودھ کل تک ہم بھی نکالتے تھے

فرہاد آگئے تو پرویز ہو گئے ہم

 

Mohammad Asrar

Assistant Professor, Urdu Department

S.K. Prowal College of Art, Science & Commerce, Kamptee,

Dist. Nagpur- 441001 (Maharashtra)

Mob.:9822724276

Email : asrarmohammad1977@gmail.com     

1 تبصرہ:

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...