اردو دنیا، فروری 2025
لفظ اُپنشد کا ابتدائی مفہوم گرو کے قدموں کے نزدیک بیٹھنا
اور اطاعت گزاری کے ساتھ اس کے اپدیش کو سننا تھا۔ چنانچہ مکس ملر اپنشد کی تمہید
میں کہتا ہے کہ سنسکرت زبان کی تاریخ اور ذہانت اس بات میں کچھ شبہ باقی نہیں رکھتی
کہ ابتدا ً اُپنشد کا مفہوم مجلس تھا اور بالخصوص ایسی مجلس جو شاگردں پر مشتمل ہو
اور جو اپنے استاد کے چاروں طرف ادب سے تھوڑے فاصلہ پر جمع ہوں۔ ڈیوسن کا خیال ہے
کہ اس لفظ کا مطلب پوشیدہ تعلیم ہے جو پردۂ راز میں دی جاتی ہے اور خود اپنشدوں کی
بہت سی عبارتوں سے ان کا ثبوت ملتا ہے۔ مکس ملر کو بھی اتفاق ہے کہ یہ لفظ اپنشدوں
میں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلیم کو پوشیدہ
رکھنے کے لیے بہت سے احکام کی تعمیل کرنی پڑتی تھی اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ تعلیم
اسی شاگرد یا طالب علم کو دی جائے جو اپنی اعلیٰ اخلاقی پابندی اور نیک خواہشات سے
خود کو سننے کا اہل ثابت کرے۔ اپنشدوں کے مشہور شارح شنکراچاریہ نے اس لفظ کو ماخذ
’سد‘ قرار دیا ہے۔ جس کے معنی تباہ کرنے کے ہیں اور یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ
جبلی جہالت کو تباہ کرتا ہے اور صحیح علم کے اظہار سے نجات کی طرف لے جاتا ہے لیکن
اگر ہم ان بہت سی عبارتوں کا مقابلہ کریں جن میں لفظ اپنشد واقع ہوا ہے تو معلوم
ہوتا ہے کہ ڈیوسن کے معنی درست ہیں۔ اس بارے میں خصوصی توجہ دی جاتی تھی کہ یہ تعلیم
کسی غیرمستحق کو نہ دی جائے تاکہ اس کے بارے میں غلط فہمی اور اس کا غلط استعمال یا
بے جا تصرف نہ ہوسکے۔ چنانچہ ’پرشن اپنشد‘ کے قول کے مطابق چھ شاگرد ایک بڑے گرو کی
خدمت میں اعلیٰ ترین حقیقت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہنچتے ہیں لیکن گرو تعلیم دینے
سے قبل یہ مشورہ دیتا ہے کہ و ہ ایک سال تک اس کے ساتھ سکونت اختیار کریں۔ بظاہر
اس غرض سے کہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے، تاکہ ان کو تشفی ہوجائے کہ وہ
ایسی تعلیم کے مستحق ہیں اور ’کٹھ اپنشد‘ میں جب نچکیتا یہ جاننا چاہتا ہے کہ روحِ
انفرادی یا جیو آتما موت کے بعد زندہ رہتی ہے یا نہیں، تویم (موت کا دیوتا) اس
وقت تک کوئی جواب نہیں دیتا جب تک کہ اس کم سن طالب علم کے خلوص اور ذہنی قوت کی
پوری آزمائش نہیں کرلیتا۔ ست اور آست کی تمیز کے بغیر کسی کو اعلیٰ ترین صداقت کی
تعلیم دینے سے گریز کرنے کا طریقہ کچھ ہندوستان میں ہی نہ تھا بلکہ تمام قدیم
باشندوں میں سب جگہ پایا جاتا تھا۔
اُپنشدوں کے ادب کا جو کہ نسلاً بعد نسل ہم تک منتقل
ہوا ہے، ماخذ کا پتا چلانا کسی قدر دشوار ہے۔ ہندو روایت میں ان کا وہی رتبہ ہے جو
ویدک ادب کی دیگر نوع مثلاً ’منتروں‘ یا ’برہمنوں‘ کو دیا گیا ہے۔ ان سب کو حیرت
انگیز انکشاف یا ’اشروتی‘ خیال کیا جاتا ہے یعنی یہ ایسی تصانیف ہیں جن کا مصنف
کوئی انسانی وجود نہیں ہے۔ اپنشدوں میں ہمیں اِدھر اُدھر ایسے مختصر اور پرمغز بیان
ملتے ہیں جن میں ’سوتروں‘ یا ضابطوں کے مخصوص نشان پائے جاتے ہیں اور وہ ادبی
مسالہ جس میں وہ مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں، کچھ اس نہج کا ہے کہ جس سے ان میں
محفوظ صداقت کی تشریح اور اس کا تفصیل سے بیان ہوجاتا ہے۔ مزید برآں ان بیانات کو
متعدد جگہوں پر اپنشد کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ
بہت ممکن ہے کہ شروع شروع میں یہ لفظ ’سوتر‘ یا ضابطہ کے لیے استعمال کیا گیا ہو
جس میں فلسفہ اپنشد کی اہم صداقت کا لب لباب موجود ہو۔ مثال کے طور پر (تت توام اسی)
’وہ تو ہی ہے‘ پیش کیا جاسکتا ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ انفرادی روح اور
کائناتی روح بنیادی طو رپر بالکل ایک اور یکساں ہے۔ قدیم زمانے میں اسی قسم کے
فلسفیانہ سوتروں کا راز گرو اپنے چیلے پر افشا کرتے تھے اور اسی موضوع پر تشریحی
تقریریں پہلے ہوتیں تو کبھی بعد میں۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا ان تقریروں نے خاص
صورتیں اختیار کرلیں اور ان اپنشدوں کے آغاز کا سبب نہیں، جو اس وقت ہمیں دستیاب
ہیں۔ اگرچہ اس وقت تک یہ تحریری شکل میں نہیں لائی گئی تھیں۔ جس طریقے پر کہ اصل
عبارت کی نشو و نما ہوئی ہے۔ یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ اس میں فقط ایک گرو کی
تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ اساتذہ کا ایک سلسلہ ہے اور اس نشو و نما میں قدیم تصورات
نئے تصورات سے مل جل گئے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ایک ہی
اپنشد کی تعلیم میں بعض وقت مختلف عناصر
نظر آتے ہیں۔ ایک زمانے کے ہندوؤں کا قدیم علم و فضل جب اکٹھا اور مرتب کیا گیا
تو اپنشد اس صورت میں ’برہمن‘ ادب کے ساتھ تتمہ کے طور پر شامل کیے گئے اور جب یہ
ایک ہی صنف میں شامل کیے گئے تو دونوں یکساں قدیم شمار کیے جانے لگے۔ اس طرح ویدوں
کے آخر میں واقع ہونے کے سبب اپنشدوں کو ویدانت کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ قدیم
اور مستند اپنشدں کا عہد ٹھیک طور سے معین نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ان کے کسی مصنف کا
حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب بدھ سے قبل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ کائنات کی فلسفیانہ
تشریح کرنے میں وہ انسان کی اولین جدوجہد کی نمائندگی کرتے ہیں اس لحاظ سے انسانی
فکر کی تاریخ میں بہت ہی انمول ہیں۔ وہ تمام نظامات ہاندی فلسفے کے اور بالخصوص ’ویدانت‘
کے اساسی عناصر ہیں۔ وہ تاریخی اہمیت سے بہت آگے ہیں۔اس لیے کہ ان کی نرالی روحانی
قوت اور ان کی عالم گیر دل کشی کا عنصر فکر کی ازسرِ نو تعمیر میں اور مستقبل کے لیے
زندگی کاازسر نو خاکہ تیار کرنے میں بہت زیادہ اثر پذیر ہے۔
یہ اپنشد بالخصوص جو کافی ضخیم ہیں زیادہ تر مکالموں کے
طرز میںہیں۔ ان کا طریقہ استدلال فلسفیانہ کے بجائے شاعرانہ ہے۔ یہ فلسفیانہ نظمیں
ہیں جو عام طور پر استعارے اور کنایے کے ذریعے صداقت کا اظہار کرتی ہیں۔ طرز ادا میں
بہت زیادہ حذفِ عبارت سے کام لیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تصانیف کی تفسیر کے لیے وہی شخص مخصوص کیا جاسکتا ہے جو
آسانی سے اس کمی کو پورا کرسکے جو موضوع کو پیش کرتے وقت رہ گئی تھی۔
ویدک ادب پر مشتمل تصانیف میں سے غیرملکیوں کی توجہ سب
سے پہلے اپنشدوں پر مبذول ہوئی۔ ان میں سے
کئی کتابو ںکا ترجمہ مغلوں کے زمانے میں فارسی میں کیا گیا اور پھر ان کا ترجمہ
لاطینی زبان میں کیا گیا اور لاطینی زبان کے ذریعے یورپ میں پہلی مرتبہ ان سے واقفیت
ہوئی۔ چنانچہ شوپنہار کو اپنشدوں کا، جنھیں وہ نہایت قابل قدر سمجھتا ہے، علم اسی
طرح حاصل ہوا۔ اس نے اپنی مشہور کتاب میں اپنشدوں کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا
ہے کہ ’’اپنشد کی ہر سطر مستحکم، معین، کامل اور متناسب معنی پیش کرتی ہے۔ ہر ایک
فقرے سے عمیق، اصلی، پرجلال خیالات برآمد ہوتے ہیں اور وہ سب ایک اعلیٰ، مقدس اور
باوقار اسپرٹ سے چھایا ہوا ہے۔ تمام دنیا میں اصلی اپنشدوں کے سوا کوئی مطالعہ اس
قدر مفید اور اعلیٰ نہیں ہے۔ یہ میری زندگی کی تسکین ہے اور یہی میری موت کے وقت
وجہ تسلی ہوگا۔‘‘ شوپنہار کے ذریعے اپنشدوں کا مطالعہ جرمنی میں زیادہ ہوا اور
سنسکر ت کے مطالعے سے عام دلچسپی بڑھی تو یہ اپنشد دیگر ممالک میں بھی جا پہنچے۔
حالیہ زمانے میں ان کے بے شمار ترجمے راست سنسکرت سے مغربی زبانوں میں کے گئے ہیں
اور ان کی تعلیم غیرملکی عالموں کے لیے جاذبِ توجہ رہی ہے۔ فلسفہ اپنشد سے متعلق
بہت سی شائع شدہ کتابوں میں سے ڈیوسن کی اعلیٰ درجے کی تصنیف کا ذکر ضروری ہے جو
خاص پراز معلومات ہے اور جس میں اپنشدوں
کے مکمل خلاصے یا لب لباب بیان کرنے کے لیے بڑی احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔
اپنشد میں دلچسپی کا مرکز بجائے بیرونی خالق کے اندرونی
آتما ہوجاتا ہے، ویدوں کی وحدت پرستی کے میلان کا فطری نشو و نما خداپرستی کی ترقی
یافتہ شکل میں ہوسکتا تھا نہ کہ اس نظریے کی طرف کہ ذات ہی اصلی حقیقت ہے اور باقی
ہر ایک چیز اس سے بالکل ادنیٰ حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں نہ تو کسی قسم کی عبادت کی جاتی
ہے نہ کسی دیوتا اور پجاری کا کوئی تعلق ہی معلوم ہوتا ہے بلکہ ساری تلاش اعلیٰ ترین
صداقت کی ہے اور انسان کی حقیقی ذات ہی حقیقتِ عظمیٰ معلوم ہوتی ہے۔ فلسفیانہ فکر
کی تاریخ میں یہ سب سے اہم واقعہ ہے کہ ہندو ذہن برہمنی فکر سے اپنشدی خیال کی طرف
راغب ہوا اور دلچسپی کا مرکز بیرونی خالق کی بجائے آتما ہوگئی۔ فلسفیانہ حیثیت کا
یہ تغیر بے حد دلچسپ ہے اس لیے کہ اپنشدوں میں معروض سے موضوع کی طرف خیال کی تبدیلی
کسی فلسفیانہ بحث یا نفس کی دقیق تحلیل سے حاصل نہیں کی گئی بلکہ اس کا تجربہ
براہِ راست ادراک سے ہوا ہے اور یہ اذعان جس سے کہ اس صداقت کو سمجھ لیا گیا ہے،
کسی بھی مطالعہ کرنے والے پر اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ سمجھنا تو
بالکل خلافِ قیاس ہے کہ طریق ’برہمن‘ کے تصورات سے اپنشدوں میں ’برہمہ‘ کے نظریے
کا نشو و نما ہوا ہوگا۔
سب سے قدیم اپنشد نثر میں تحریر ہوئے ہیں اور اپنے طرز
ادا میں تقریباً رموز ی کیفیت رکھتے ہیں۔ وہ بسیط، پرمغز اور دل پر اثر کرنے والے
ہیں۔ ہم ان کو بار بار پڑھیں تب بھی نہیں تھکتے۔ یہ ہمیشہ تازہ ہیں، ان کا لطفِ
عبارت ان کے خیالات کی قیمت سے الگ ہے، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ لفظ اپنشد پوشیدہ
اصول یا تعلیم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اپنشد تعلیمات کا منشا یہ تھا کہ
رازداری کے ساتھ خلوص سے دریافت کرنے والو ںکو یہ تعلیم دی جائے جو اعلیٰ اخلاق
اور اعلیٰ خود ایثاری کے جذبے سے متصف ہوں اور جن کی غرض نجات حاصل کرنی ہو اور اس
طرح ایک مرتبہ جب اپنشد کی اعلیٰ ترین طرز تحریر کا طریقہ ظاہر ہوگیا تو وہ مذہبی لوگوں کے لیے خاص
دلچسپی اور دل فریبی کا باعث بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب سنسکرت میں دوسری
نثر و نظم کی تصنیفیں لکھی جانے لگیں۔ تب بھی اپنشدی صورت موقوف نہیں ہوئی۔ اس طرح
اگرچہ ابتدائی اپنشد 500 ق م میں لکھے گئے، تاہم ہندوستان میں اسلامی اثر پھیلنے
تک وہ اسی طرح لکھے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ابتدائی اور اہم ترین وہ ہیں جن کی شرح
شنکراچاریہ نے کی ہے۔ ان کے نام ہیں برہد آرنیک، چھاندرگیہ، ابیزیہ، تیتتریہ، ایمن،
کین، کٹھ، پرشن، منڈک، ماندوکیہ، اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ الگ الگ اپنشد ایک دوسرے سے مضمون اور طرزِ بیان میں
مختلف ہیں۔ بعض تو وحدتی اصول ذات پر زور دیتے ہیں کہ وہی ایک حقیقت ہے، بعض یوگ
کے عمل پر زور دیتے ہیں، بعض شیوا یا وشنو کی عبادت پر زور دیتے ہیں اور بعض فلسفہ
یا تشریح بدن پر۔ حسبہ علی الترتیب ان کے نام پڑگئے۔ یہ سب مل کر تعداد میں 108ہیں۔
اپنشد الہامی ویدک ادب کے اختتامی حصے ہیں اور ان کو ویدانت
کہا جاتا ہے۔ بالعموم یہ یقین ہے کہ سب سے اعلیٰ حقائق صرف ویدوں کے الہام ہی میں
پائے جاتے ہیں۔ عقل کو عام طور پر کم درجہ دیا گیا ہے اور اس کا اصلی استعمال یہ
تھا کہ انھیں دانائی کے ساتھ ویدوں کے تصورات کے معنی واضح کرنے کے لیے کام میں لایا
جائے۔ یہ خیال کیا گیا ہے کہ حقیقت اور صداقت کا اعلیٰ علم کلیتاً اپنشدوں میں ظاہر ہوچکا ہے اور عقل کا کام صرف یہ
تھا کہ اس کو تجربے کی روشنی میں کھولے اور یہ انتہائی گستاخی سمجھی جاتی تھی کہ
کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی فاضل اور لائق کیوں نہ ہو ،وہ اپنی رائے کی سند پر یا
اپنی زبردست دلیلوں کی بنا پر صداقت کو بسیط طور پر بیان کرسکے۔ اس کا نظریہ اس
وقت تسلیم کیا جاتا جب کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اپنشد اس کی تائید کرتے ہیں۔ اس طرح
ہندو فلسفے کے اکثر مذاہب اپنا اصلی فرض یہ سمجھتے ہیں کہ اپنشدوں کی تعبیر اس غرض
سے کریں کہ یہ ثابت ہو کہ ان کا بیان کیا ہوا نظریہ ویدانت کے اصول کو ظاہر کرتا
ہے۔ اس طرح ہر شارح نے اپنے موقعے پر عبادتوں کو خود اپنے نمایاں اصولوں کے موافق
بنا کر پیش کیا اور دوسروں کو دبا دیا ان کی تشریح کرکے ان کو رد کردیا لیکن اپنشدی
تعبیر کے مختلف نظامات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شنکر آچاریہ نے جو
تعبیر کی ہے وہ وسیع طور پر ابتدائی اصولوں کے عام مجموعے کی رائے کو ظاہر کرتی
ہے، اگرچہ بعض اصول ایسے ہیں جو دوسرے نظامات کے اصولو ںپر ممیز طور پر پردہ ڈالتے
ہیں۔ اس طرح ویدانت بالعموم شنکر آچاریہ کی تعبیر سے وابستہ ہے۔ اگرچہ اور بھی
نظامات ہیں جو اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حقیقی ویدانت کے اصول کو ظاہر کرتے
ہیں، لیکن صرف شنکر کے نظام کو ہی نظام ویدانت کہا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں
اپنشدوں کی جدید تعبیر کرنے والے کا فریضہ ہوجاتا ہے کہ وہ ان شرح کرنے والو ںکی
طرف مطلق توجہ نہ دے اور اپنشد کو باضابطہ کتاب نہ سمجھے بلکہ مختلف خیالات کا
خزانہ سمجھے جس میں سب متاخر فلسفیانہ تصورات ابھی تک حیرت انگیز انکشاف کی حالت میں
ہیں۔ اگرچہ یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ شنکر کا وحدتی اصول یا اس حد تک رسائی بہت سے
اپنشدوں کا واحد مضمون ہے۔
جدید تعبیرکرنے والے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ قدیم
تعبیر کرنے والو ںکی پیروی نہ کرکے اپنشدوں کو مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ دیکھے
اور ان کے معنی متعین کرے لیکن ربط عبارت کا خاص لحاظ رکھے جس میں وہ ظاہر ہوتے ہیں،
صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنشدوں میں دوسرے ہندی نظامات کے افکار کے اثرات کا
مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس طرح ان میں افکار کے میلانات کی ابتدائی تحریروں کو
پاسکتے ہیں۔
اپنشد کوئی باقاعدہ کتابیں نہیں ہیں جو کسی شخص نے لکھی
ہوں، بلکہ وہ خود کلامیوں، مکالموں یا قصوں پر مشتمل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں
سادہ مباحث ہیں، لیکن کہیں علم کی شیخی یا منطقی ورزش نہیں، ایک سرسری طور پر
پڑھنے والا بھی رشیوں کے جوش، سرگرمی اور صداقت طلبی کو دیکھ کر متحیر ہوجاتا ہے
کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ایسے استاد کی تلاش میں بڑے شوق سے مارے مارے پھرتے ہیں
جو ان کو برہمہ کے طریقے پر تعلیم دینے کے لائق ہو کہ برہمہ کہاں ہے، اس کی نوعیت
کیا ہے۔ ان کو اس تصور کی تلاش تھی کہ خارجی عالم کی تعبیر کے تحت ایک غیرمتغیر حقیقت
ہے اور وہ عین اس کے مطابق ہے جو انسان کے جوہر میں ہے۔ ’سہمتا‘ کے آخری زمانے میں
ایسے لوگ تھے جو عالم کے واحد خالق اور نگرانی کرنے والے کے تصور تک پہنچ گئے تھے
اور اس کو مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ مثلاً پرجاپتی، وشواکرما، پرش، برہمہ، لیکن
یہ ربانی متصرف ابھی تک صرف دیوتا ہی تھا اور اس دیوتا کی تلاش اپنشدوں میں شروع
ہوئی۔ رشیوں نے ابتدا ہی اس خیال کے ساتھ کی کہ اعلیٰ اہتمام کرنے والا جوہر وہ ہے
جو انسان اور عالم پر حکمران ہے لیکن اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ فطر ت کے دوسرے دیوتاؤں
کے مطابق ہے یا وہ ایک جدید دیوتا ہے یا کوئی دیوتا ہی نہیں؟ اپنشد اس جستجو کی
تاریخ پیش کرتے ہیں اور ان نتائج کا ذکر کرتے ہیں جو حاصل ہوئے۔
اس جستجو میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ابھی آرنیکی تصورات
اور عبارت کی علامتی صورتوں سے باہر نہیں آئے ہیں ’پران‘ (حیاتی سانس) کے متعلق
کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی زندگی میں لازمی وظیفہ ادا کرتا ہے اور بہت سے قصے یہ
ثابت کرنے کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ وہ دوسرے اعضا مثلاً آنکھ،کان، وغیرہ پر
فوقیت رکھتا ہے اور اسی پر سب وظائف کا دار و مدار ہے۔ پران کی فوقیت کے اس اقرار
سے اس پر برہمہ کے طور پر مراقبہ کرنا شروع ہوا گویا کہ وہ بہت مفید نتائج برآمد
کرنے والا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ’آکاش‘ کی اعلیٰ خصوصیات، ہمہ جائیت اور
ازلیت کے باعث اس پر برہمہ کے طو رپرمراقبہ کیا جاتا ہے اور اسی طرح من یا نفس اور
آدتیہ یا سورج پر برہمہ کے طور پر غور کیا جاتا ہے۔ پس برہمو کے حاصل کرنے کے لیے
ہم ایک سرگرم جستجو دیکھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس نصب العین کا تشفی بخش
جواب نہیں دے سکا جو برہمہ سے درکار تھا۔ برہمہ کی نوعیت کے صحیح علم تک پہنچنے کے
لیے رشیوں کو ایسی بہت ناکامیوں، جدوجہد اور کشمکش سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
ویدک شعرا کے دل مرئی ظہور کے دیوتاؤں کی پرستش کے اس
قدر طویل مدت سے عادی تھے کہ وہ ایک مثبت اور معین برہمہ کی تلاش میں اس کو ترک نہیں
کرسکتے تھے۔ انھوں نے قدرت کی پرجلال قوتوں کی بہت سی علامتوں کی آزمائش کی، لیکن
کسی سے اطمینان کلی نہ حاصل ہوسکا، برہمہ کس کے مانند ہے، وہ نہیں جانتے تھے، وہ
اپنی روحوں کی گہری طلب میں اس کا دھندلا اور خواب کا سا خیال رکھتے تھے جو مستقل
اصطلاحات میں ظاہر نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہی چیز ان کو منزلِ مقصود تک لے گئی کیونکہ
وہ بہترین سے کم کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوسکتے تھے جہاں تک انھوں نے آخری حقیقت
کو متعین اور ایجابی صورت دینے کی کوش کی، وہ ناکام رہے۔
ماخذ: قدیم ہندی
فلسفہ، مصنف: رائے شیوموہن لعل ماتھر،
دوسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں