14/3/19

نظم نگاری میں خواتین کا حصّہ (اسّی کے بعد) مضمون نگار:۔ محمد مستمر




نظم نگاری میں خواتین کا حصّہ

(اسّی کے بعد)

محمد مستمر

تلخیص
اردو نظم نگاری میں خواتین کا حصہ (سنہ اسّی کے بعد) یہ مضمون اسّی کے بعد افق ادب پر ابھرنے والی شاعرات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ یوں تو ابتدائی دور کو قلم زدکرتے ہوئے اردو شاعرات کی تاریخ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔بعدازاں بالخصوص اسّی کے بعد اردو نظم نگاری میں جو کروٹیں نمو پذیر ہوئی ہیں، وہ اردو ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ جدیدیت کے بعد فن کار کے پاس تخلیقی آزادی بھی تھی، بت ہزار شیوہ کا نظریہ بھی تھا اور جڑوں کی تلاش کا مسئلہ بھی تھا۔ اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مضمون بعنوان اردو نظم نگاری میں خواتین کا حصہ قلم بند کیا گیا ہے۔ جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ادب جس طریقے سے کروٹیں لے رہا تھا ان میں بالخصوص خواتین کا کنٹری بیوشن کیا تھا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اسّی کے بعد جس طرح کی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس میں تانیثیت کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔اس مضمون سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری شاعرات ادب میں کس طرح کے موضوعات پیش کر رہی تھیں اور ان کے یہاں تخلیق کا تنوع کس طرح جنم لے رہا تھا نیز سماج و معاشرے پر ان کی کتنی گہری نظر تھی اور وہ اپنی نظموں میں عصری حسیت و تقاضوں کو کیسے برت رہی تھیں۔یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ہر فنکار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ اپنے اطراف واکناف میں دیکھتا ہے اور گردونواح کا مشاہدہ کرتا ہے نیز وقوع پذیر حالات و حادثات پر عمیق نظر رکھتا ہے اور پھر اپنے میکانکی آخذات سے مہیج وصول کرتا ہے گو اپنے توجہ و احساس و ادراک کے مثلث زاویے سے تخلیقی عمل کو صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے۔ کچھ ایسا ہی تخلیقی عمل سنہ اسّی کے بعد ابھرنے والی شاعر ات نے بھی کیا ہے۔ ان میں خاص طور پر، پروین شاکر،کشور ناہید، رفیعہ شبنم عابدی، عشرت آفرین، شائستہ یوسف، ترنم ریاض، شاہین مفتی، فاطمہ حسن، شہناز نبی، حمیرا راحت، کہکشاں تبسم، فاخرہ بتول، تسنیم کوثر، ہاجرہ رحمان، فرزانہ فرح، وغیرہ خواتین کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ ان متذکرہ شاعرات میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی شاعرات کی نظموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح ان خواتین کی نظموں سے دونوں ملکوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی و اقتصادی حالات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ان شاعرات نے اپنے تخلیقی عمل سے نہ صرف مرد سماج کے ذہنوں پر ایک دستک دی بلکہ اپنے نظریات وخیالات اور استعاراتی وتمثیلاتی انداز سے اردو ادب کو ایک سمت و رفتار بھی عطا کی۔چنانچہ ان شاعرات کے یہاں مشرقی روایت کی پاسداری بھی ہے، تہذیبی اقدار بھی ہیں، شوہر پرستی کا جذبہ بھی ہے، محبت کے نغمے بھی ہیں،دل کے مچلتے ہوئے جذبات بھی ہیں، رومانی فضا بھی ہے، تخیل کی آمیزش بھی ہے اور حقیقت کا پرتو بھی ہے لیکن جہاں ان خواتین کی نظموں میں اس طرح کی انفرادیت نظر آتی ہے تو اس کے برعکس ان کی نظموں میں پدری سماج کابائیکاٹ اور اپنے وجود کے تئیں وہ جذبہ بھی کار فرما ہے جسے بغاوت، احتجاج یا عورت کی آزادی سے منسوب کیا جاتا ہے۔مختصر طور پر ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم اسّی کے بعد کی نظموں کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ اسّی کے بعد نمو پذیر شاعر ات نے اپنی شاعری میں ان تمام جذبات و احساسات اور حالات و حادثات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جن کا وہ مشاہدہ کر رہی تھیں اور کر رہی ہیں۔ آپ کو اس مضمون میں عورت کے بہت سے رنگوں سے اور پہلوؤں سے واقفیت حاصل ہوگی۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی جاتی ہے کہ اس مضمون میں انہیں شعری مجموعوں کو اساس بنایا گیا ہے جو اسّی کے بعد منظرعام پر آئے اور انھیں کی روشنی میں خواتین نظم نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔


جب ہم اردو ادب میں خواتین کے حصے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلا نام ’ امیر النسا‘ کا ملتا ہے جن کا تعلق دکن کی سرزمین سے رہا اور یہ پندرہویں سولہویں صدی کا زمانہ تھا۔ شمالی ہندوستان میں بھی بہت سے ایسے نام پائے جاتے جنھوں نے باقاعدہ طور پر شاعری کی نوک پلک سنواری۔ اس فہرست میں مغل شہزادیوں کے نام شامل ہیں اورنگ زیب کی دختر نیک ’ زیب النسا‘ خو د ایک اچھی شاعرہ تھی۔ زیب النسا سے اردو شاعرات کا نقطۂ آغاز تسلیم کیاجاتا ہے۔ اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ لطف النسا نے چھے ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی ’ گلشنِ شعرأ‘ تحریر کی۔ میر تقی میر کی بیٹی’ بیگم‘ بھی شعر گوئی میں دلچسپی ہی نہیں لیتی تھی بلکہ معیاری شعر کہتی تھی۔ بیگم نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ؂
کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی 
ہاں یار کے رخسار پر رخسار تو رکھا
نواب واجد علی شاہ کی بیگم نواب بیگم حجاب کا یہ شعر بھی ضرب المَثَل کی حیثیت رکھتا ہے ؂
کچھ خوفِ خدا کیجیے اس طرح نہ چلیے 
سو بار تو اس چال پہ تلوار چلی ہے 
چندا بائی ماہ لقا بھی اردو شاعرات میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ لیکن تذکرہ نگاروں نے شاعرات کا بہت کم ذکر کیا ہے۔ آہستہ آہستہ مغل سلطنت کا زوال ہوتا گیا اور برطانوی حکومت اپنا تسلط قائم کرتی چلی گئی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہی 1857کا دور ہندوستان کے لیے نشأۃ الثانیہ ثابت ہوا اور دیکھتے دیکھتے نہ صرف سیاست اور صنعت و حرفت میں ہی انقلاب آیا بلکہ ادب بھی پورے طور پر متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
اردو ادب انیسویں صدی سے اپنا سفر طے کرتا ہو ابیسویں صدی اور آج اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے۔ اس صدی کو انٹرنیٹ اور تکنیکی دور کی صدی کہا جاتا ہے۔ اسّی کے بعد کا زمانہ نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ نہ اب کوئی فنکار کسی نظریے کا قائل ہے اور نہ کسی تحریک کا مقلد۔ بلکہ وہ تخلیقی آزادی کے تحت اپنا ادبی سفر طے کر رہا ہے۔ جس طرح سماج کا چہرہ بدلا ہے، حیرت انگیز تبدیلیاں ہوئی ہیں، نئے نئے مسائل پید اہوئے ہیں تو انسان کی سائیکی و ذہنیت نے بھی کر وٹ لی ہے۔ جہاں پوری دنیا عالمی گاؤں میں سمٹ گئی ہے تو تہذیبیں اور ثقافتیں بھی ایک دوسرے سے متأثر ہوئی ہیں بلکہ اگر یوں کہہ دیا جائے کہ ایک دوسرے میں اس طرح خلط ملط ہورہی ہیں کہ آپس میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ ان سب باتوں کا اثر ادب پر بھی پڑنا واجب ہے۔ آج جو مسائل ہمارے سامنے ہیں واجبی طور پر ان کا دخل ادب میں بھی ہوناہے۔ انسان نے جہاں دنیا پر فتح حاصل کی ہے، وہ چاند پر بھی پہنچ گیا ہے۔ انگلی کے ہلکے سے اشارے سے وہ پوری دنیا کی جانکاری حاصل کر لیتا ہے۔ چنانچہ انسان کو جہاں ہر طرح کی آزادی میسر ہوئی وہیں اس نے بہت کچھ کھو بھی دیا ہے۔ آج رشتوں کی شکست و ریخت، قدروں کا زوال، اور اقتصادی و معاشی ایسے بہت سے مسائل نے جنم لے لیا جس کے باعث انسان مختلف قسم کی بیماریوں جیسے ڈپریشن، افسردگی، تشویش، التباس، مالیخولیا، مراق وغیرہ کا شکار ہے۔ آج بنیادی طورپر اسّی فیصد سماج نفسیاتی مریض ہے۔بہت کم ایسے خاندان ہیں جن کی خانگی زندگی خوشگوار ہو، میاں بیوی میں باہمی مناسبت وتوازن قائم ہو، تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی رشتوں میں نہ جانے مٹھاس کہاں چلی گئی ہے۔ سب کے سامنے انا کامسئلہ کھڑا ہواہے نیز انا کے آپسی تصادم نے زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنیادی وجہ پروفیشنل تعلیم ہوگئی جو علم نہ ہو کر صرف ہنررہ گیا ہے۔ سنسکار کہاں سے جنم لیں گے، ایک طرف مشترکہ سماج کا زوال دوسری طرف اخلاقی تعلیم کا فقدان۔ فقدان کیا بلکہ سرے سے ہی غائب ہو گئی ہے۔ لہٰذا یہ تمام عناصر ہم آج کی شاعری میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ جس طرح کا ماحول چاروں جانب پیدا ہو رہا ہے، اس سے انسان مختلف قسم کے فوبیاز میں گرفتار ہوگیا ہے اور ان سب کیفیتوں اور پہلوؤں کی عکاسی ہماری شاعرات اپنی نظموں میں بخوبی کر رہی ہیں۔ اب ہم یہاں اُن شاعرات کا ذکر کریں گے جو 1980 کے بعد اُفقِ ادب پر نمودار ہوئیں اور 2000 تک آتے آتے اپنی شناخت مستحکم کر چکی ہیں اور دوسری وہ شاعرات ہیں جو 2000کے بعد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ 
یہ امر بھی واضح ہے کہ اسّی کے بعد ابھرنے والی شاعرات نے کچھ زیادہ ہی باغیانہ رویے اور تیور اختیار کیے۔ کچھ نے اپنے دلی جذبات کی ترجمانی دائرہ میں رہ کر کی اور کچھ نے بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ روایت سے انحراف اور پدری نظام کا بائیکاٹ شاعرات نے اپنی نظموں میں خوب کیاہے۔ لیکن کچھ شاعرات کے یہاں اس قدر شدت در آئی کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ عورت کی آزادی و حقوق کی مانگ نہیں کر رہی ہیں بلکہ اپنے اندر کے دبے ہوئے آتشی سیال کو باہر نکا ل رہی ہیں
کچھ شاعرات نے اچھی پیش رفت بھی کی اور اپنے حق کی مانگ اس تناظر میں کی جو متوازی و معتدل ہے۔ تانیثی تحریک یا عورتوں کے جذبات کا بھی وہی مقصد ہونا چاہیے جس سے بہتر معاشرہ کی تشکیل ہو۔ سنہ اسّی کے بعد بے شمار شاعرات نے اپنے وجود کا احساس کرایا اور کچھ نے اپنی انفرادیت کے جھنڈے بھی گاڑے۔ زیادہ تر شاعرات نے غزل گوئی میں طبع آزمائی کی مگر نظموں کی طرف بھی اپنی توجہ مُنعطف کی۔ ان میں زیادہ تر نثری نظمیں شامل ہیں۔ اسّی کے بعد پروین شاکر اور کشور ناہید اردو نظم نگاری کی دو بڑی آوازیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ بعد ازاں رفیعہ شبنم عابدی، فہمیدہ ریاض، ترنم ریاض، فرخندہ نسرین، بلقیس ظفیر الحسن، عذرا پروین، زہرا نگاہ، عشرت آفرین، نسیم سید، شائستہ پوسف، شاہین مفتی، فاطمہ حسن، شہناز نبی، شبنم عشائی، حمُیرا راحت، کہکشاں تبسم، ملکہ نسیم، فاخرہ بتول، تسنیم کوثر، نگار سجاد ظہیر، ثروت زہرا، ہاجرہ رحمٰن، فرزانہ فرح، رخسانہ صدیقی، فریدہ کول، روبینہ شبنم، فاطمہ شاہین، نصرت مہدی، مینا نقوی، روبینہ میر، اندو شبنم اندو، وندنا پشپیندر یادو، روپا صبا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، جنھوں نے اپنی نظموں کے توسل سے اردو نظم نگاری میں ایک الگ نسائی لب و لہجہ کا احساس کرایا ہے۔
پروین شاکر کا پہلا مجموعہ ’ خوشبو‘ 1976 میں منظرِ عام پر آیا، یہاں ہم ان کی نظم نگاری کا ذکر مجموعہ ’خود کلامی‘ جو 1990 سے آراستہ ہوا، کی روشنی میں کریں گے۔ مجموعہ ہٰذامیں شامل نظمیں زیادہ تر علامتی و استعاراتی انداز میں تحریر کی گئی ہیں۔ علامات و استعارات کے توسل سے بڑے پتے کی باتیں کہہ جاتی ہیں اور قاری انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔ ان کے فن کا ابعادِ ثلاثہ قاری پر سحر بن کر اس طرح طاری ہوتا ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے۔ زندگی کا کڑوا سچ اُن کے یہاں ایک طاقتور جذبہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ پروین شاکر کی نظموں کو پڑھ کر یہ احسا س بخوبی ہو جاتا ہے کہ اُن کا فن اُن کی ذات کا آئینہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نظموں کا صوتی آہنگ جلد ہی احتجاج میں بدل جاتا ہے۔ وہ ایک جدلیاتی عمل اور نفسی کشمکش سے دو چار نظر آتی ہیں۔ ان کی نظموں میں ذاتی غم بھی ہیں، سیاسی و سماجی سروکار بھی ہیں اور عورت کی وہ گھٹن،بپتااور کرب ودرد بھی شامل ہے جسے وہ برس ہا برس سے برداشت کر رہی ہیں۔انھیں جہاں سماج و معاشرہ سے گلہ ہے تو اپنے شریک حیات سے بھی شکایت ہے۔ شاعرہ کی نظموں کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے دردِنہاں کو نظموں کے قالب میں انڈیل کر رکھ دیا ہے۔ کچھ نظموں میں انھوں نے جانوروں کوبھی بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔ نظم ’بھٹ‘ کایہ حصہ دیکھیے ؂
بھیڑیے کے آنے سے / ایک دو گھڑی پہلے/ ایک سنسناتی بو / بن میں پھیل جاتی ہے/ آج میرے گھر میں بھی / میری تیسری حس نے کوئی بات دیکھی ہے / اتنی دیر میں، مےَں نے/ تیسری کہ چھوتھی بار / گھر کے کونے کونے میں/ پھر گلاب چھڑ کا ہے/ پھر گلاب کی ڈھالیں/ کیا مجھے بچا لیں گی
کشور ناہید کے لب و لہجہ میں تیکھا پن بھی ہے، طنز بھی ہے بلکہ یہ دونوں عنصر مل کر دو آتشہ کا ایسا کام کرتے ہیں کہ کڑواہٹ کا جنم ہوتا ہے اور یہی کڑواہٹ بغاوت میں بدل جاتی ہے۔ اگر چہ موصوفہ کے یہاں باغیانہ رویے ہوتے ہیں مگر ان رویوں میں سچائی کا وصف بھی سر ابھارے کھڑا رہتا ہے۔ نیز ان کی تیز دھار کا رویہ اُن کے ہم عصروں کوبھی چونکا تا ہے اور قاری کی آنکھیں بھی وا کرتا ہے۔ وہ عورت ذات سے اس طرح مخاطب ہوتی ہیں کہ اس میں نصیحت، انقلابی و اصلاحی پہلو کم اور باغیانہ رویہ زیادہ کار فرما ہوتا ہے۔ساتھ ہی وہ پدری سماج پر یورش بھی کرتی ہیں اور اس یورش میں پنہاں ہوتے ہیں وہ تلخ تجربات و مشاہدات جن سے کشور ناہید زندگی بھر خود نبرد آزما ہوتی رہیں۔ وہ پدری سماج کا ایسانفسیاتی تجزیہ کرتی ہیں کہ جس میں ایسی حقیقت شامل ہوتی کہ جس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی ایک نظم ’ جتوئی میں میری بیٹی‘ میں کشور ناہید مرد سماج پر ایسی سخت یورش کرتی ہیں جو مرد کے منہ پر کسی طمانچہ سے کم نہیں۔ وہ ماں ہونے کے ناطے اپنی تمام بیٹیوں کو مرد کی گھناؤنی حرکت سے آگاہی حاصل کرانا چاہتی ہیں، انھیں ہوشیار و بیدار کرانا چاہتی ہیں۔ نظم کے چند ٹکڑے دیکھیے ؂
کون کم بخت ہوگا /جو تمھارے کنول کی پتی جیسے جسم کو/ مسلنا نہیں چاہے گا/ تمھیں پتہ نہ تھا کہ مرد کی جوانی/ جانوروں کو بھی نہیں چھوڑتی / تم تو نازک کلی تھیں 
’شریعت کونسل‘ بھی کشور ناہید کی ایک ایسی ہی نظم ہے۔ جس میں عورت مردوں سے اس طرح مخاطب ہے کہ جیسے زخم پر نمک چھڑک دیا گیا ہو۔ زخم پر نمک چھڑکنا بھی ایک سچائی ہے۔جہاں اس نظم میں وہ مرد سماج سے مخاطب ہیں تو دوسری جانب وہ اپنے عورت ہونے کا بھی احساس کراتی ہیں۔ اب آپ نظم کی کچھ سطریں ملاحظہ فرمائیں ؂
کھانستے ہوئے بھی تمھیں عورت دکھائی دیتی ہے /اور سوتے میں تم عورت کے ساتھ/ وہ کچھ کر لیتے ہو/جس کے تمنائی ہوتے ہو/مگر عورتیں بھی ہوشیار ہو گئی ہیں/ سوکن کا نام سنتے ہی/اُن کے ہاتھ تلوار بن جاتے ہیں/ تمھارا ستم زماں بننے کا خواب / ادھورا رہ جائے گا/ تم بے شک عورت کے خلاف/ بیان دیتے رہو 
رفیعہ شبنم عابدی اردو نظم نگاری کی ایک معتبر آواز ہے۔ ان کے بیانہ میں نہ غصہ کا اظہار ہے اور نہ کسی قسم کی یلغار۔ بلکہ اُن کے یہاں وہ نسائی گفتنی ہے جہاں تعمیر کا پہلو شامل رہتا ہے۔ وہ عورت پر ہونے والے ظلم و جبر سے متعلق صرف مردسماج کو ہی قصور وار نہیں گر دانتی بلکہ وہ کہیں نہ کہیں عورت کو بھی قصوروار ٹھہراتی ہیں۔ رفیعہ شبنم اساطیری پہلوؤں، علامتی و استعاراتی انداز سے اپنی بات کو بڑی حسن و خوبی کے ساتھ کہہ جاتی ہیں۔ وہ عورتوں کے مسائل کو اپنی نظموں میں بڑی ایمانداری، احساسِ تناسب اور فہم و ادراک کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ نہ انھیں پروین شاکر بننے کا شوق ہے اور نہ ہی کشور ناہید۔ وہ عورتوں کو حقوق دلانا چاہتی ہیں مگر حقوق دلانے او رحقوق کی بات کرنے سے قبل دونوں فریق کا محاسبہ و تجزیہ کرتی ہیں۔ وہ عورت کو بھی اس کی غلطیوں کا احساس دلاتی ہیں اور مرد ذات کی غلطیوں کو بھی محصور کرتی ہیں۔ اگر مرد نے عورت کو فریب دیا، اسے لونڈی بنا کر رکھا، اسے زرخرید ملکیت سمجھا تو کسی نہ کسی زاویے سے عورت بھی اُس ظلم میں شامل رہی۔ جیساکہ اپنی نظم ’ نئی گھٹائیں اُتر رہی ہیں ‘ میں رفیعہ شبنم اسی نقطۂ نگاہ کے تحت مخاطب ہیں ؂
یہ تم نہ کہنا /تمھیں کسی سے محبت نہیں رہی ہے /تمھاری آنکھوں نے ایک شب بھی/ نہ کوئی قربت کا خواب دیکھا/ یہ تم نہ کہنا تمھارے احساس کی زمیں سے /کوئی نہ گزرا/ ہتھیلیوں میں نہ چاند اترا/ نہ انگلیوں میں شرارے پھوٹے/ جو تم کہو تو بس اتنا کہنا / تمھاری آنکھوں کے آنگنوں میں/ نئی گھٹائیں اتر رہی ہیں/اسی لیے تو/ پرانے موسم کا/ کوئی منظر بچا نہیں ہے !!
رفیعہ شبنم یہ بھی بھلی بھانتی جانتی ہیں کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے لیے خدا نے پید اکیے ہیں۔ تضاد سے ہی یہ دنیا خوبصورت ہے۔ جب تضاد ہی نہیں رہے گا تو دنیا بھی بد نما ہو جائے گی۔ عورت و مرد دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ایک کا تصور دوسرے کے لیے محال ہے۔ محترمہ تنہائی کی قائل نہیں ہیں۔ انھیں اس چیز کا بخوبی احساس ہے کہ مرد نے ہزاروں برسوں سے عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے مگر وہ مرد کے ساتھ رہ کر ہی لڑائی لڑنا چاہتی ہیں، اپنا حق منوانا چاہتی ہیں نیز مرد کو اپنے وجود کا احساس کرانا چاہتی ہیں۔ اُس عظمت سے آگاہی حاصل کرانا چاہتی ہیں جو عظمت ا ﷲنے عورت کو بخشی ہے اور جن حقوق کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ لہٰذا ان کے یہاں سمجھوتہ والا تصور نہیں ہے بلکہ مشرقی قدروں کا نبھاؤ ہے۔ ازدواجی زندگی کو سمجھنے کا باریک و عمیق نظریہ ہے جہاں سے خواتین کے لیے نئی راہیں منور ہوتی ہیں۔نصف بہتر، آخری خواہش، جو نہ ہونا تھا وغیرہ نظمیں رفیعہ شبنم کے انہی معتدل رویوں کی غماز ہیں۔’ نصف بہتر ‘ نظم کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیں:
کچھ اختلاف نظر نے بھی دل کو دکھایا تھا / کچھ اضطراب کا باعث بنا سلوک اُس کا / خیال دل میں توآیا کہ چھوڑ جاؤں یہ در/سوال یہ تھا کہ دہلیز کیسے پار کروں/ ہزار مسئلے گھیرے ہوئے تھے گھر میں اسے / محاسبے کے طلب گار تھے سوال کئی/ شریکِ درد کوئی تھا نہ غم گسار کوئی/وہ احتساب کے گرداب میں اکیلا تھا/ اسی لیے تو قدم اُٹھ نہیں سکے شاید / مےَں جانتی تھی کہ اُس کو مری ضرورت ہے !!
عشرت آفرین نسائی ادب کی ایک مضبوط آواز ہے۔ ان کے یہاں بھی کشور ناہید کی طرح باغیانہ تیور پائے جاتے ہیں۔ مگر عشرت کی آواز ناہید کی آواز سے قدرے مختلف ہے۔ ان کے یہاں بغاوت کا عنصر تو ہے مگر اُس میں اس قدرترشی نہیں جس قدر کشور ناہید کے یہاں ہے۔ بشارت، نقارہ، سونمبر، میرے پرکھوں کی پہلی دعا،اور ’ میں مطمئن ہوں ‘ ان کی نمائندہ نظموں میں گنی جاسکتی ہیں۔ ’ بشارت ‘ نظم میں وہ عورت کے وجود کو جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں نیز عورت کو اُس خول سے باہر آنے پر متحرک کرتی ہیں جس خول میں وہ صدیوں سے گھُٹ گھُٹ کر مر رہی ہے، جہاں اُس کی کوئی حیثیت نہیں، اُس کا کوئی وقار نہیں، زندگی اُس کے لیے اجیرن کے سوا کچھ اورنہیں۔ عشرت صاحبہ عورت کو نئی بشارت سے آگاہ کر رہی ہیں۔ چنانچہ اب نیا موسم اُس کا خیر مقدم کر رہا ہے، بس ضرورت ہے اسے لبادۂ کہن اتار پھینکنے کی اور نئی رُت میں ڈھلنے کی۔ نظم کی کچھ سطریں پیش کی جاتی ہیں ؂
باغی لڑکی اپنی کھوہ سے باہر آ / پشت سے پتھر لڑھکانے کا موسم بیتا/سبز رتوں نے دہقانوں کے ہاتھوں پر بیعت کرلی ہے/ سورما / اپنی بنائی حویلی کے ملبے میں دبا چلّاتا ہے/ سر سے اونچا پانی باہر ناچ رہا ہے/سارا قبیلہ گونج رہا ہے/باغی لڑکی اپنی کھوہ سے باہر آ/ اور جاتی رُت کے نزع کا عالم دیکھ!!
’ میرے پرکھوں کی پہلی دعا‘ بھی عشرت آفرین کی اچھی نظم ہے۔ اس نظم میں اُن جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے کہ جب پہلی بار موصوفہ نے دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور جب گھر والوں کو لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو وہ سکتہ کے عالم میں آ جاتے ہیں۔ گھر والوں کے منہ سے ’ آہ ‘ لفظ کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ عشرت آفرین اُس ’آہ ‘ لفظ کوبھی دعا سے ہی تعبیر کرتی ہیں اور اُس ’آہ‘ لفظ سے پورے سماج پر ایک شیریں طنز کرتی ہیں مگر شیریں طنز میں بھی موصوفہ کا اندرونی کرب پوشیدہ ہے جو تمام عمر آفرین صاحبہ کے لاشعوری خلیات (UnConcious Cells)اور اعصابی نظام(Nervous System) سے نکلنے کا نام نہیں لیتا ہے۔ نظم کا چند حصہ، غور فرمائیں ؂
رات کی کوکھ سے /صبح کی ایک ننھی کرن نے جنم یوں لیا/آہٹوں اور سر گوشیوں میں کسی نے کہا/ آہ...... لڑکی ہے یہ!/اتنی افسردہ آواز میرے خدا/میری پہلی سماعت پہ لکھی گئی /میری پہلی ہی سانسوں میں گھولا گیا/ اُن شکستہ سے لہجوں کا زہریلا پن /آہ..... لڑکی ہے یہ! / لڑکی ہے / لڑکی ہے یہ !! / اب بھی میری سماعت پہ لکھی ہے وہ / میرے پرکھوں کی پہلی دعا.....!! 
شائستہ یوسف کی نظموں میں خود کلامی کا لب و لہجہ یاسیت میں بھی داخل ہوجاتا ہے اور کبھی ذرا سی جست کے ساتھ باغیانہ زاویہ بھی اختیار کر لیتا ہے نیز کبھی کبھی اُن کے یہاں مکمل سکوت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جہاں پیکر ابھرتے ہوئے بھی معدوم ہوجاتے ہیں یعنی ان کے یہاں طلوع و غروب کا ایک عجیب سا عالم ہے اور اسی عالم میں پنہاں ہیں وہ بنیادی حقوق بھی جس کی آج کی عورت متقاضی ہے۔ مگر شائستہ یوسف کے تقاضے اور مانگ میں بے بسی و لاچاری بھی شامل رہتی ہے۔ وہ مرد ذات و سماج سے اپنا حق تو مانگتی ہیں مگر جلد ہی سمجھوتہ بھی کرلیتی ہیں یعنی اُن کے یہاں ایک طرح کی شکل پذیری (Plasticity) والاپہلو بھی پایا جاتا جو انھیں کہیں کہیں کمزور بنا دیتا ہے۔ ’حق‘ اُن کی اسی نوع کی نظم ہے جسے منظوم افسانے سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب محترمہ کے باطن (Introvert Muscles) میں شکست و ریخت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ایک جدلیاتی عمل اور نفسیاتی کشمکش سے وہ نبرد آزما رہتی ہیں اور اسی نفسیاتی کشاکش (Psycho Confilict) کے مابین کبھی کبھی وہ تصوف کی راہ بھی اختیار کر لیتی ہیں جس میں ایک ایساجذبہ جنم لیتا ہے جس میں تقدس ہوتا ہے،علمیت ہوتی ہے، عرفانِ ذات ہوتا ہے، تزکیۂ نفس کی بات ہوتی ہے اور روحانیت کے وہ عناصر تحلیل ہوتے ہیں جو ہمیں صراطِ مستقیم کی طرف لے جاتے ہیں۔ ’ تم کیا جانو‘ نظم ایسے ہی تارو پود سے بافندہ ہے۔ جس میں مراقبے کی کیفیت میں محترمہ خدا سے ہم کلام ہے۔ وہ ایسی سحر گاہی حاصل کر رہی ہیں جو انھیں عالم صغریٰ سے عالمِ شہود کی طرف لے جار ہی ہے۔ نظم کی چند سطریں پیشِ خدمت ہیں ؂
سنو مےَں تم سے/ایک راز کی بات بتانا چاہتی ہوں/ مےَں نے اسے دیکھا ہے/ وہ مری آنکھوں میں نور بن کر/ چمکتا ہے /میرے دل کی دھڑکن نے/ اپنی آواز میں / اسے شامل کیا ہے/مےَں نے اُس سے لگاتار/ بے انتہاباتیں کی ہیں/لیکن تم اُسے کیا پہچانو گے /تم نے تو کبھی/ اپنے اندر جھانک کر دیکھا ہی نہیں 
ترنم ریاض افسانہ نگار بھی ہیں، ناول نگار بھی اور شاعری بھی کرتی ہیں۔ پابند نظمیں بھی کہتی ہیں اور آزاد نظمیں بھی لکھتی ہیں۔ اُن کی نظموں میں کشمیریت کی بھی عکاسی ہے اور اپنی ذات کا عرفان بھی۔ ترنم ریاض اپنی نظموں میں نازکی سے کام لیتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قدرتی اشیا و مناظر کی دلدادہ ہیں۔ اُن کے جذبات و احساسات میں ایک الگ قسم کی گدازی اور نازک مزاجی کا عنصر قاری کو سحر انگیزی میں لے جاتا ہے۔ کبھی کبھی اُن کے جذبات میں ہلکی سی اُداسی بھی پائی جاتی ہے نیز ایک سکوتیت اور ہو کا عالم بھی اُن کی نظموں کا حصہ ہے جس میں کہیں کہیں چبھن بھی شامل ہوتی ہے۔ ان کے یہاں انحراف و اعتراف دونوں پہلو ایک ساتھ چلتے ہیں اگر ترنم صاحبہ کو قدرتی مناظر کی دلکشی اپنی طرف مائل کرتی ہے تو وہیں اُن کے لیے یہ قدرتی مناظر بے معنی و مجہول بھی ثابت ہوتے ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی زاویہ سے زندگی کے معمولات سے بے زار سی ہو گئی ہیں۔ ’ نسبت ‘ نظم سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے ؂
مسکرانا، گھومنا، پھرنا/شہر سے دور جانا/چند دن فرصت میں پھولوں کو نظر بھر دیکھ لینا/ کچھ پرندوں کی بھی سننا/آسماں کی وسعتوں کے سائے میں ہلکی چہل قدمی / پہاڑوں پر چمکتی چاندنی کی مہکی خاموشی / درختوں میں وہ پُر اسرار جھینگر کی بولی اور/ بغیر آلودگی کا آسماں/ تاروں بھری راتیں !/ یہ سب جینے کی ہیں باتیں /میرے شانوں پہ ذمہ داریوں کا بوجھ ہے اتنا/کہ مرنے کی نہیں فرصت/مجھے پھولوں، پرندوں سے/ ستاروں سے کہاں نسبت!
شاہین مفتی کی نظموں میں ایک بے چینی و بیقراری پائی جاتی ہے۔ اس بے چینی و بیقراری میں ایک خفیف سی ماورایت بھی ہے، اداسی بھی اور گھٹن بھی پیوست ہے۔ اُن کی نظموں کو پڑھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اُن کا دل ڈوبا ہوا سا رہتا ہے جیساکہ طمانیت اُن سے دور بھاگتی ہے۔ اندرونی طور پر وہ زندگی سے بے زار ہیں۔ اُن کے باطن (Introvert Muscles) اور اعصابی نظام (Nervous System) میں شکست و ریخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اپنے اطراف واکناف میں پھیلی ہوئی جمالیات سے بھی شاہین مفتی کی،ترنم ریاض کی طرح کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب فنکار کی ایسی کیفیت ہوگی تو وہ نفسیاتی مرض میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس میں رجائیت بھی معدوم ہو جائے گی چنانچہ زندگی اس کے لیے اجیرن بن جائے گی۔ شاہین مفتی کا فنی کمال یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو بڑی جامعیت کے ساتھ شعری سانچے میں ڈھال دیتی ہیں جنھیں پڑھ کر قاری بھی اپنے آپ کو اسی ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے، جن حالات و حادثات سے شاہین مفتی دو چار ہوتی ہیں۔ نیز ان کی نظموں کے کینوس پر ایسا ملگجا، ایسافوگ چھایا رہتا ہے جس میں روشنی چھن چھن کر بھی آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی بلکہ اسی ملگجے اور کہرے میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ ’ ضد نہیں کیجیے ‘ نظم کا حصہ ملاحظہ کیجیے ؂
زندگی کی دعائیں نہیں دیجیے/ضد نہیں کیجیے/ساحلوں پر کوئی بھی ہمارا نہ ہو/ آسمانوں پہ کوئی ستارہ نہ ہو/کشتیِ عمر کو بادبانوں کا کوئی سہارا نہ ہو/ حلقۂ موج میں کوئی آواز جو/ آکے پیچھا کرے / مڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو/اس سمندر کا کوئی کنارا نہ ہو/اب ہمارا تعاقب نہیں کیجیے / ڈوبنے دیجیے / ضد نہیں کیجیے
فاطمہ حسن کے نسائی لب ولہجہ میں ایک خوشگواری پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں مسرت ہے، سرمستی ہے،زندگی کا سلیقہ و قرینہ ہے۔ رجائیت کا پہلو ہر سو بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ زندگی کو جینا جانتی ہیں۔ شاہین مفتی کی طرح اُن کے یہاں گھٹن اور حبس نہیں اور نہ ہی بے زاری ہے۔ وہ اپنے گرد و نواح میں موجود قدرت کی صناعی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ اُن کے کلام میں زندہ دلی کا عنصر ہے۔ انھیں ہر زاویے سے زندگی گزارنااچھا لگتا ہے۔ انہی پہلوؤں کے ساتھ موصوفہ کو اپنی وراثت سے بھی بے پناہ لگاؤ اور جڑاؤ ہے۔ وہ قدروں کی قدرداں ہیں اور انھیں ہر حالت میں نبھانا چاہتی ہیں۔ ان کے لیے وراثت و اقدار ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ زندگی ان کے لیے حسین تحفہ ہے۔ تبھی تو ان کی نظموں میں خوبصورت احساسات و جذبات کی عکاسی ملتی ہے اور اسی لیے اُن کے یہاں متوازی و متناسِب زاویے پائے جاتے ہیں۔ جن میں منفیت نام کو بھی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ لہٰذا فن پارہ ابعادِ ثلاثہ کے لحاظ سے مزید معنی خیز ہوتا چلا جاتا ہے۔’ ایک دوست کے گھر میں انجیر کا پیڑ دیکھ کر‘ اور ’مصروفیت ‘ نظم کے کچھ حصے پیشِ خدمت ہیں ؂
مےَں اپنے بچوں کی یادیں/رکھنا چاہتی ہوں / اُن ناموں سے جو پیڑوں اور رشتوں/ کے ہیں/اُن پرندوں کی آواز سے جو /موسم کے ساتھ آتے ہیں / تم اپنے آنگن کے پھلدار پیڑوں سے/ خالی نہ کرنا/پرندے اور بچے کہیں بھی جائیں / لوٹ آتے ہیں اُن کی طرف(انجیر کا پیڑ دیکھ کر)
دروازے کی چولیں ہلتی رہتی ہیں/دیواروں سے مٹی جھڑتی رہتی ہے /ڈرتی ہوں/تیز ہوا کا کوئی جھونکا/دیواروں کو ڈھا دے گا / رشتوں کو بکھرا دے گا/ان کی حفاظت/ گھر کی وراثت ساتھ ملی ہے/سو مےَں دن بھر/دروازے کی چولیں کستی رہتی ہوں/ دیواروں کے درزے بھرتی رہتی ہوں ( مصروفیت)
شہناز نبی کے کلام میں تجربے کی تیز دھار ہے اور جب کلام میں ایسی کیفیت ہوگی تو یقینی بات ہے کہ وہاں تلخی بھی ہوگی، طنز بھی ہوگا اور ایسی یلغار بھی ہوگی جو فرسودہ و بے ربط نظام کودِگرگوں کر دینا چاہتی ہے۔ شہناز نبی کو یہ فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ کس طرح نو آبادیات اور انسان کی خود غرضی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کا توازن و تناسب متزلزل ہو رہا ہے۔ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے سب کچھ در ہم برہم ہوتا جا رہا ہے۔ سائنس کے نئے نئے تجربات کی وجہ سے ہر روز منفی نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں، نئے نئے مسائل اپنے پیر پسار رہے ہیں یعنی پورا ماحولیاتی نظام چر مرا گیا ہے۔ اس ضمن میں ’ دریا کے آس پاس ‘ نظم کا حصہ ملاحظہ فرمائیں ؂
ترازو کے پلڑے / اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں / اس تول مول میں / آنکھیں کھلی قبر کا روپ اختیار کر لیتی ہیں/ ان قبروں کو بھرنے والی مٹی بک چکی ہے /ان میں لپکنے والے سوالات یوں ہی لپکتے رہیں/جواب دینے کی کوئی جلدی نہیں/ اگلی نسل کے لیے ایک بہانہ محفوظ رکھ لیا گیا ہے 
شہناز نبی کے یہاں دوسری طرح کی وہ بھی نظمیں ہیں جن میں ان کے باغیانہ تیور کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ’بے شرمی ‘اور ’محبت سے انحراف ‘ ایسی ہی نظمیں ہیں جن میں شہناز نبی اُن اصول و قوانین او ررسم و رواج سے انحراف کرتی نظر آتی ہیں جو پدری سماج کے تخلیق کردہ ہیں۔ اُن کی لغت میں محبت لفظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے یہاں شکوہ بھی ہے اور یلغار بھی۔ ’ محبت ‘ لفظ کے تئیں ان کی زیریں لہروں میں ایک تصادم ہے، ایک ہیجان ہے۔ انہی امور کے ساتھ وہ کنایتی انداز اپناتے ہوئے ایسا حربہ استعمال کرتی ہیں جس میں مردو ں کو لاجواب کر دیتی ہیں۔ اگر موصوفہ کے یہاں احتجاج ہے تو اس میں حقائق کے پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ ’ محبت سے انحراف ‘ نظم کا کچھ حصہ آپ کی نذر ہے ؂
ایمان لانے کو مےَں بھی لے لائی/لیکن بعد میں انگنت سوالوں میں اُ لجھ گئی/زمین و آسمان کے سارے طبق/مجھے مصنوعی معلوم ہونے لگے/ ہوائیں جیسے زہر آلود/ میر ادم گھُٹ نہ جائے کہیں/ وہ جس نے میری دنیا تخلیق کی تھی/ وہ کہاں ہے /کوئی ہے / جس نے نا محرم کی طرف نہ دیکھا ہو/ بس وہی مجھے سنگسار کر نے کا حق رکھتا ہے 
حمیراراحت کا نسوانی لب و لہجہ ذرا انوکھا بھی ہے اور دلکش بھی۔ وہ اپنے آپ سے خود کلامی کرتی ہیں، سوال اُٹھاتی ہیں اور پھر جواب بھی تلاش کرتی ہیں او ر’ کاش‘ لفظ کے ساتھ ایک لمبی آہ بھر کر بھی رہ جاتی ہیں۔ ان کے یہاں محبت کا فلسفہ بھی ہے اور عصریت کی غمازی بھی۔ خد اسے خطاب بھی ہے اور اس خطاب میں حمیرا راحت ہلکا ساشکوہ تو کرتی ہیں جو انسان کا فطری خاصہ ہے مگر وہ لادین یا باغی نظر نہیں آتی ہیں۔ اپنے شکوہ میں بھی وہ صبر سے کام لیتی ہیں اور خدا وحدہٗ لاشریک سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ صنفِ نازک کو کمزور اور ڈری ہوئی تصور نہیں کرتی ہیں بلکہ نفسیاتی رو سے عورت کی کمزوری کے پسِ پردہ وہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں کہ بچپن سے ہی اسے بتا یا جاتا ہے کہ وہ ایسے رہے، ویسے رہے اور اس کے اندر آہستہ آہستہ خوف داخل ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس باعث عورت خود کو کمزور سمجھنے لگتی ہے۔ ’ ڈر‘ حمیرا راحت کی ایک ایسی ہی نظم ہے۔ معجزۂ عشق، کہا تھا ناں، اگر میں رات ہوتی، یہ موصوفہ کی ایسی نظمیں ہیں جن میں ان کی خود کلامی کو ایک نئے زاویے کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ ان نظموں میں تخیلات کی دنیا میں غوطہ زن ہیں ایسامحسو س ہوتا ہے کہ وہ تصوراتی کشتی پر سوار ماورائیت کا سفر طے کر رہی ہیں۔ نظموں کا اندازِ بیان اور الفاط و استعارات کا استنباطی عمل دل کو چھو لینے والا ہے۔ 
کہکشاں تبسم کا تجربہ و مشاہدہ بڑ اعمیق ہے۔ وہ اپنے گرد و نواح اور اطراف و اکناف پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتی ہیں، غور و فکر کرتی ہیں، نتائج اخذ کرتی ہیں اور تب کہیں جاکر موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں۔ ان کی نظموں میں عصری حسیت وعصری مسائل ایک نئے جہان کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں ایسے پہلوؤں سے نقاب کشائی کرتی ہیں کہ جن میں تجدیدیت ہوتی ہے۔ اسی کے باعث ان کی نظموں میں کہی گئی تحدیث مرد سماج پر ضرب کاری کا کام کرتی ہے۔ کہکشاں تبسم پدری سماج سے کسی طور پر مطمئن نظر نہیں آتی ہیں۔ انھیں مؤرخ سے بھی شکایت ہے اور مفسر سے بھی گلہ ہے۔ کیونکہ مؤرخ بھی اپنے مطابق تاریخ رقم کر رہا ہے۔ کہکشاں تبسم کہتی ہیں مؤرخ جو لکھ رہا ہے اس میں وہی سازشیں اور لغزشیں شامل ہیں جو سدا سے عورت کے تئیں ہوتی آرہی ہیں۔ ’ سودا گری ‘ نظم موصوف کے انہی خیالات و جذبات کی ترجمان ہے۔ ’ فنا کی دستک ‘ بھی اسی قبیل کی نظم ہے جس میں وہ مفسرین پر یلغار کررہی ہیں کہ وہ اپنی اپنی مرضی سے تاویلات گھڑ رہے ہیں۔ رقصِ جنوں، مصور سوچتا ہے، وغیرہ نظموں میں ان کی ژرف نگاہی اور فہم وادراک کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ 
فاخرہ بتول کے لب ولہجہ میں نسائیت اس طور پر نمودار ہوتی ہے کہ اس میں دبی دبی نفسی خواہشیں اور تقاضے موجود رہتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں مچلتے ہوئے جذبات و احساسات بھی ہیں اور تصوراتی و خیالاتی دنیا بھی خلق ہوتی ہے اور اس تصوراتی و خیالاتی دنیا میں وہ جمالیاتی و رومانی استعارے موجود ہوتے ہیں جن کا تعلق تصورات سے ہوتا ہوا بھی حقیقت سے بعید نہیں ہوتا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فاخرہ بتول کی نظمیہ شاعری حقیقت و تخیل کا حسین امتزاج ہے اور اسی امتزاج میں مقصدیت بھی پنہاں ہوتی ہے۔ ’ ہو اسے بات کرنے دو ‘ محترمہ کی ایسی نظم ہے جس میں وہ ’ ہوا ‘ سے مخاطب ہیں۔ جس طرح فاخرہ بتول نے ہوا کے توسل سے الفاظ کا انتخاب کیا ہے اس سے کلام میں ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں ایک ساتھ زندگی سے متعلق کئی پہلو ایک محور پر آکر مجتمع ہوگئے ہیں۔ جیسے نظم میں شور بھی ہے، سنسنی بھی ہے، وحدتِ تأثر بھی ہے، رمزیت بھی ہے اور کہیں کہیں سکوت بھی ہے۔ ہوا کے چاروں جانب بہنے سے جو سماعی پیکر ابھر رہے ہیں اس سے فنکارہ کے اعصابی نظام (Nervous System) میں مہیج (Stimulus) کے ذریعہ تمام جسم میں ہلچل برپا ہے، چاند نے بادل اوڑھ لیا، گڑیا آج بھی اندھی ہے، کل سے کالج بند تمہارا، کہانی اوڑھ لی میں نے، اور ’ فیصلہ ‘ اچھی نظموں میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ ’ فیصلہ‘ نظم میں جہاں شاعرہ کی دور اندیشی دکھائی دیتی ہے تو اُس دور اندیشی میں نفسی تقاضے بھی تحلیل ہیں۔ 
تسنیم کوثر کی نظموں کے غائر مطالعے سے یہ ا ندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ وہ ماضی سے چھٹکارا تو پانا چاہتی ہیں مگر ماضی ان کا تعاقب ہر قدم پر کرتا رہتا ہے اور اس ماضی میں محبت کی داستان بھی ہے، بے وفائی بھی ہے، محبوب سے شکوہ بھی ہے اور دردِ نہاں بھی ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو تسنیم کوثر نے شعوری سطح سے کھرچ کر برسوں پہلے لاشعور ی نہاں خانوں میں پھینک دیا تھا لیکن نہ جانے کیوں جب مختلف اشیا وجزئیات، راہوں یا قدرتی مناظر سے ان کا واسطہ پڑتا ہے تو رہ رہ کر گزری ہوئی وہ تمام باتیں ایک ایک کرکے قبل شعور سے ہوتی ہوئی شعوری سطح پر آنے لگتی ہیں۔ وہ ذہن سے اُن یادوں کو جھٹکنا چاہتی ہیں مگر ایساکرنے میں وہ ناکام رہتی ہیں۔ ایک واہمہ(Delusion)، ایک خبط(Mania)، محترمہ کا تعاقب کرتا رہتا ہے اورایک جانی انجانی سی صدا تسنیم کوثر کے دل پر دستک دیتی رہتی ہے۔ خوش گمانی، سر گوشی، دستک، یادوں کے پلو، او ر’واہمہ ‘ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ 
ہاجرہ رحمن کی نظموں میں وہ درد پنہاں ہے بلکہ مکمل طور پر موجود ہے جو انھیں پدری سماج سے ملا ہے، اپنے شوہرسے ملا ہے۔ جسے وہ اپنا ناخدا سمجھتی ہیں، جسم و جان کا مالک مانتی ہیں۔ انھیں اپنے شوہر سے حد درجہ شکایت ہے۔ اُن کی نظموں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اندرونی طور پر مجروح ہیں۔ اُن کی خلیوں (Cells) پر ایسی ضربیں پڑی ہیں کہ جن کامداوا نہیں ہے۔ وہ ظلم و جبر سہتے ہوئے ٹوٹ چکی ہیں تبھی تو وہ اپنے مجازی خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں ’تمھارے لفظوں کے تیر، مےَں اپنے بدن کے مَسام سے نکالتے نکالتے تھک چکی ہوں ‘۔ اسی لیے انھیں کوئی منزل دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ہاجرہ رحمن کی سطحِ ذہن پر وہ نقوش ابھی بھی قائم ہیں جو انھیں، مرد سماج نے دیے ہیں۔ مگر ہاجرہ رحمن یہ سب سہنے کے بعد اب خاموش بیٹھنے والی نہیں ہیں لہٰذا اُن کا لب و لہجہ وہ نہج اختیار کر لیتا ہے جس میں اپنے حقوق کی مانگ ہے۔ چنانچہ وہ ان لفظوں کے ساتھ گویا ہوتی ہیں ’’ مگر میں.....مےَں ہوں، ماں کے عہد میں، اپنے عہد میں سانسیں لیتی عورت، میں چھین لینا چاہتی ہوں، اپنا حق!!‘‘۔ اسی کے ساتھ وہ گھائل شیرنی کی طرح دہاڑتی ہیں اور یوں حملہ آور ہوتی ہیں ’’تلملاتا ہوا تمہارا وجود، لہولہان دل کو، روح کو، سکون بخشتا ہے مجھے !!۔‘‘
فرزانہ فرح کا بنیادی محور عشق و محبت ہے۔ اُن کے نزدیک عشق ایک پاک جذبہ ہے۔ انھیں مرد ذات سے کوئی گلہ نہیں۔ نہ وہ پدری سماج کے ظلم و جبر کا ذکر کرتی ہیں اور نا ہی اس کی بے وفائی کا رونا روتی ہیں۔ اُن کی نظموں کو پڑھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ فرزانہ فرح کی زندگی میں خوشیوں کی بہار ہے۔ زندگی ان کی حسین وخوشنما ہے۔ وہ اپنے محبوب سے اس طرح مخاطب ہیں کہ جس میں ایک جمالیاتی جذبہ کارفرما ہے۔ انھیں ہر ایک کے چہرے میں اپنے محبوب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اب یہ محبوب ان کا حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور مجازی بھی۔ محبوب کا نام سنتے ہی موصوفہ کے لبوں پر مسکراہٹ کی حسین تتلی ٹھہر جاتی ہے اور بدن میں پھول کھلنے لگتے ہیں۔وہ رومانی فضامیں اس قدر غوطہ زن ہیں کہ وہ اپنے محبوب کا نام ہواؤں پہ، گھٹاؤں پہ، زمین پہ ستاروں پہ، کجلائی سی شام پہ، لرزتی شمع کی لو پہ، حسین تتلی کے رنگوں پہ، لکھنا چاہتی ہیں۔ اور دل پر اس لیے لکھنانھیں چاہتی ہیں کہ وہ تو شاعرہ کے دل پر پہلے ہی سے نوشتہ ہے۔ بہرکیف فرزانہ فرح کی نظموں میں کہیں بھی مردوں کے تئیں بوکھلاہٹ اور یلغار نظر نہیں آتی ہے۔
علاوہ ازیں بھی بہت سی خواتین اچھی نظمیں لکھ رہی ہیں جن میں فریدہ کول، رخسانہ صدیقی، ثروت زہرا، نگار سجاد ظہیر، ملکہ نسیم، بلقیس ظفیر الحسن، اندو شبنم، روپا صبا، نسرین نقاش، شبنم عشائی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ان سب کے یہاں مختلف نظر یات و خیالات، احساسات و جذبات کی کار فرمائی ہے۔ مختلف سوچ ہے، مختلف مسائل و مراحل ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ امر بھی مسلم ہے کہ زیادہ تر خواتین کے یہاں وہ احساسات و جذبات ہیں جن میں پدری سماج کے تئیں باغیانہ تیور تحلیل ہیں۔ اپنے حقوق کی وکالت کرنا، اس کے لیے لڑائی لڑنا اچھی بات ہے مگر ادب میں گالی کی حد تک جانا یہ زیبا نہیں دیتا ہے۔ اس میں شک و شبہ نہیں کہ صدیوں سے عورت ظلم و جبر کا شکا ر رہی،اُسے غلام بنا کر رکھا گیا۔ آج اُسے آزادی ہے مگر اس آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ شرافت کی تمام حدود کو عبور کر دے۔ وہ لڑائی لڑیں اور مضبوطی کے ساتھ لڑیں، تانیثی تحریک کو سرگرم کریں مگر اُن الفاظ سے گریز کریں جو غیر معیاری ہیں۔ چنانچہ اس بات میں بھی دورائے نہیں کہ آج بھی مرد سماج عورت کا استحصال کرنے سے چوکتا نہیں ہے۔ وہ آج بھی عورت کو پھولوں کی سیج سے ہی تعبیر کرتا ہے۔یہ تو وقت کی کروٹ کا تقاضا ہے کہ وہ عورت کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔ ایسے بہت کم مرد ہوں گے جو واقعی عورت کی دل سے عزت کر تے ہیں، اس کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ 
بہرکیف نظم نگاری میں جن خواتین نے اپنے جذبات و احساسا ت کا اظہار کیا ہے اُن میں اگر چہ پدری سماج کے خلاف احتجاج پیوست ہے مگر یہ بھی حقیقت عیاں ہے کہ ان نظموں میں شاعرات نے زندگی سے متعلق علامتوں، استعاروں اور دیو مالائی عناصر کے ذریعہ ایسی بہت سی پتے کی باتیں اور نکات و پہلو بیان کیے ہیں کہ جن میں سماج و معاشرہ کی سچائی ایک طاقتور جذبہ کے ساتھ نمودار ہوتی ہے جسے پدری سماج نے صدیوں سے دبارکھا تھا۔ مجموعی طور پر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اب خواتین حضرات نہ صرف غزل گوئی، افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں ہی اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں بلکہ وہ نظم نگاری میں بھی اپنی صلاحیتوں اور لیاقتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اد اجعفری، پروین شاکر سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ مسلسل آ گے بڑھ رہا ہے او رشب و روز اس میں بہتر پیش رفت ہو رہی ہے۔ خواتین کی نظم گوئی کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں اردو دب میں خواتین نظم نگاری کے حوالے سے بیش بہا اضافے ہوں گے، نئے نکات و پہلو سامنے آئیں گے اور نئے معرکے سر ہوں گے۔ 
حوالہ جات 
l ’صدبرگ‘ از پروین شاکر شان ، ناشر:ہند پبلی کیشنز فلیٹ نمبر8 ،انصاری مارکیٹ دریا گنج نئی دہلی ،سنہ اشاعت : 1980
l رسالہ’ کسوٹی جدید ‘مدیر انور شمیم ،سمستی پور ،اپریل تا ستمبر 2014 (نسائی ادب نمبر)
l ’نئی گھٹائیں اتر رہی ہیں‘ از رفیعہ شبنم عابدی ،ناشر:کاسنی پرنٹرز ممبئی ،سنہ اشاعت :2010
l ’پرانی کتابوں کی خوشبو‘ از ترنم ریاض،ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نئی دہلی، سنہ اشاعت :2005
l زیر سبزہ محو خواب از ترنم ریاض ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سنہ اشاعت 2015
l ’اگلے پڑاؤ سے پہلے‘ از شہناز نبی :ناشر:رہروانِ ادب پبلی کیشن کولکاتا، سنہ اشاعت: 2001
l ’شرار جستہ‘ شہناز نبی،ناشر: رہروانِ ادب پبلی کیشن کولکاتا ،سنہ اشاعت: 2013
l ’اکیلی‘ از شبنم عشائی ،ناشر:ذہن جدید پبلشر نئی دہلی ،سنہ اشاعت :1993 
l ’میں سوچتی ہوں‘ از شبنم عشائی،ناشر: ذہن جدید پبلشر نئی دہلی ،سنہ اشاعت: 2000
l ’من پانی‘ از شبنم عشائی،ناشر: استعارہ پبلشر، ذاکر باغ، اوکھلا روڈ نئی دہلی ،سنہ اشاعت :2002
l ’کیتھارسس ‘ از شبنم عشائی،ناشر: استعارہ پبلشر، ذاکر باغ، اوکھلا روڈ نئی دہلی،سنہ اشاعت: 2008
l ’گیلا ایندھن ‘از بلقیس ظفیر الحسن،ناشر: مکتبہ جامعہ نگر نئی دہلی25 ،سنہ اشاعت: 1996
l ’شعلوں کے درمیان‘ از بلقیس ظفیر الحسن،ناشر: معیار پبلی کیشن، گیتا کالونی ،نئی دہلی ،سنہ اشاعت: 2004
l ’دشت تنہائی‘ از نسرین نقاش،ناشر: فکروفن پبلی کیشن ممبئی ،سنہ اشاعت:1994
v
Dr. Mohd Mustamir
Haryana Urdu Akademi
IP-16, Sec-14, Panchkula- 134113
Mob.: 902346092
Email: mohdmustamir@gmail.com

سہ ماہی فکر و تحقیق   شمارہ جنوری تا مارچ 2019






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں