15/3/19

رباعی کا فن اور سعید سرمد کی رباعی گوئی مضمون نگار:۔ نیلوفر حفیظ




رباعی کا فن اور سعید سرمد کی رباعی گوئی

نیلوفر حفیظ



تلخیص 
رباعی عربی زبان کا لفظ ہے،رباعی اس صنف کو کہتے ہیں جس میں شاعر صرف چار مصرعوں میں مکمل مضمون کی ادائیگی کرتاہے۔ رباعی کے کل چوبیس اوزان ہیں جن کا استخراج روایتی اعتبارسے بحرحزج سے کیا جاتا ہے ان میں بارہ شجرۂ اخرب اور بارہ شجرۂ اخرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ شواہد کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ اس صنف شعری کی باقاعدہ شروعات ایران میں ہوئی اور آہستہ آہستہ دوسری زبانوں میں الگ الگ ناموں کے ساتھ رائج ہوئی۔ فارسی میں اس صنف نے غیر معمولی مقبولیت اورشہرت حاصل کی اس کی اہمیت وافادیت کے لیے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ فارسی زبان کے تقریباً تمام بزرگ شعراء نے رباعیات کہیں ہیں لیکن فارسی ادب میں ایک بہترین رباعی گو شاعر کی حیثیت سے خیام نیشاپوری کے بعد جس شاعر کو سب سے زیادہ ناموری حاصل ہوئی وہ سعید سرمد ہیں یہ حقیقت شناس، ذی علم،حلیم الطبع شخصیت اورنگ زیب عالمگیر کے ہم عصر اور داراشکوہ کے پیرومرشد تھے وہ اپنے دورکے مجذوب تھے،قوم کے یہودی تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ داراشکوہ کے قتل کے بعد سرمد کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اورنگ زیب عالمگیر کے درباری لوگوں کو گراں گزری لہٰذا انھوں نے مختلف سازشوں کے تحت سرمد کوکافر قراردیتے ہوئے واجب القتل ٹھہرایالیکن سرمد پراس سزا کا کوئی اثر نہیں پڑا انھوں نے پوری ثابت قدمی کے ساتھ خود کو موت کے حوالے کردیا۔وہ قلعے سے قتل گاہ تک اپنی رباعیات پڑھتا ہوا آیا۔ بعد میں اس کی یہ رباعیاں اس کی شہرت دائمی اور حیات سرمدی کا سب سے بڑا سبب بن گئیں،سرمد کی رباعیاں سادہ،سلیس اور عام فہم فارسی زبان میں ہیں ان کی یہ رباعیاں حقیقت ،معارفت اور شریعت کے اسرار ورموز کو جاننے کا بیش بہا خزینہ ہیں ،ان کے یہاں دنیا کی بے ثباتی وناپائداری،تصوف کی لالہ کاری ودلپذیری اور کردار کی پختگی وعظمت وغیرہ جیسے موضوعات پر رباعیات کہی گئیں ہے ان کے بعد جتنی بھی صوفیانہ رباعیات کہیں گئیں وہ سب سرمد ہی کی خوشہ چین معلوم ہوتی ہیں،رباعیات کی شکل میں موجود ان کا یہ حسین گلدستہ جس پر گردش ایام کے سرد وگرم کا کوئی اثر نہیں پڑ ا ہے یہ سرسبز وشاداب گلدستہ ہمیشہ اذہان وقلوب کو معطر ومترنم کرتا رہاہے اور کرتا رہے گا،اس سیاسی ومعاشی بحرانی صورت حال میں جب کہ بہترین اخلاقی اقداراور اعلیٰ انسانی کردار کی کوئی اہمیت ووقعت باقی نہیں بچی ہے سرمد کا کلام روح کو شادمانی بخشتا رہے گا، اس عہدروح فرسا میں جبکہ اخلاقی اعتبار سے ہم لوگ پستی کی آخری حدودمیں داخل ہوگئے ہیں اس بات کی شدیدضرورت ہے کہ ان صوفی بزرگ کی اخلاقی تعلیمات کو عام کیا جائے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں نہ صرف اپنے اجداد کے قیمتی سرمایہ کی ارزشمندی کو سمجھیں اور دیگر اقوام کی دی ہوئی وقتی اورعارضی خوشی کے پیچھے چھپی ہوئی تباہ کاری کا محاسبہ ومشاہدہ بھی کرسکیں اور ساتھ ہی اپنے بزرگوں کے اس خزینہ ہائے گرانقدر کی حفاظت ونگہداشت کی طرف اپنی توجہ بھی مبذول کر سکیں۔ 

کلیدی الفاظ
دوبیتی،رباعی، چوپائی، ابوشکور بلخی، سعید سرمد، عشق حقیقی، داراشکوہ، اخلاق، تصوف، خیام، غزلیں، متاعِ دنیا، قناعت، وحدۃوالوجود، جبر و قدر، توحید و معرفت

ایک ایرانی الاصل صنف ہے یعنی فن رباعی کے اوزان وبحور کا تعین و تنظیم ا ورباقاعدہ آغاز وارتقاء سب سے پہلے کشور ایران ہی میں ہوا اور اس کے بعد یہ صنف شعری دیگر زبانوں میں رائج ہوئی رباعی مختلف زبانوں میں پائی جاتی ہے اور مختلف ناموں سے مشہور ہے مثلاً ’سنسکرت ‘میں چارچرن، ’ہندی ‘ میں چوپائی ’پشتو‘ میں ’چار بیتہ‘ اور ’ انگریزی‘ میں ’کواٹرین‘Quartrain وغیرہ جیسے ناموں سے موسوم ہے رباعی عربی زبان کا لفظ ہے عربی زبان میں ’رباع ‘کے معانی چار چار کے ہیں رباعی میں چونکہ یائے نسبتی بھی موجود ہے اس لیے اس کے معنی چار والے ہیں ابتدائی مراحل میں یہ چاربیتی کی شکل میں لکھی جاتی تھی جس کے چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے تھے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس کو رباعی کہا جانے لگااس کی وجہ تسمیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صاحب تذکرۃ الشعرا لکھتے ہیں:
’’تافضلا لفظ دوبیتی را نکو نہ دیدند،گفتند چہار مصراع است رباعی می شاید گفتن‘‘ 1؂
رباعی گوئی کے اس فن کی ابتدا وارتقا باقاعدہ طور پر کب اور کیسے ہوئی اس کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ مخصوص بحر واوزان کے ساتھ رباعی گوئی کی باقاعدہ شروعات چوتھی صدی کے اوائل سے ہی ہو چکی تھی فارسی رباعی گو شعراء کی فہرست میں ہم کو سب سے پہلا نام ابوشکوربلخی کا ملتا ہے جس نے فن رباعی کے اوزان وبحورکی قید کو پیش نظر رکھتے ہوئے رباعیات کہی ہیں صاحب’لباب الالباب‘نے ابو شکور کی ایک خوبصورت رباعی بھی اپنے تذکرے میں نقل کی ہے جو فن رباعی کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہے ؂
ای گشتہ من از غم فراوان توپست
شد قامت من ز درد ہجران تو شست
وی شستہ من از فریب و دستان تو دست
خود ہیچ بسیرت وشان تو ہست 2؂
’’ترجمہ: اے وہ ذات کہ جس کے غم کی شدت کی وجہ سے میں پست ہو چکا ہوں، تیرے ہجر کے دردکی وجہ سے میری قامت کوتاہ ہو چکی ہے تیرے فریب نے مجھ کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑامیرے سارے اپنے چلے گئے لیکن پھر بھی تیری شان وشوکت اسی طرح باقی رہے۔‘‘
رباعی کسی شخصی ایجاد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مسلسل ارتقا و ترویج کی ایک شکل ہے جس نے صدیوں پر محیط و قفے کے بعد موجو دہ ہیئت وصورت اختیار کی ہے عروضی اعتبار سے اس کی بحر مقرر کی گئی ہے یہ ہمیشہ بحر ہزج میں ہوتی ہے بحر ہزج کی ایک سالم اور مزاحف صورتوں کے مختلف تال میل سے چوبیس اوزان برآمد ہوتے ہیں اور انھیں اوزان کے مطابق رباعی پیش کی جاتی ہے لہٰذا ان چوبیس اوزان کے علاوہ کسی اور وزن میں کہی گئی رباعیات بہت مستحسن قرار نہیں پاتیں ہیں حالانکہ ان اوزان کا التزام کیے بغیربھی بعض شعراء نے رباعیات کہی ہیں لیکن اہل دانش ان کو رباعیات کے زمرہ سے خارج مانتے ہیں عروض سیفی میں فن رباعی کے وزن اور اس کی ابتد اکے بارے میں لکھا ہے :
’’بدانکہ وزن رباعی کہ آن را دو بیتی و ترانہ نیز گویند از ھزج بیرون می آید و آن را عجم پیدا کردہ اند و بر بست وچہار نو آوردہ ‘‘3؂
ادب کی دنیا میں رباعی ایک مقبول و مشہو ر صنف سخن ہے اور اس کی مقبولیت و شہرت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مختصر ہونے کے با وجود یہ خود میں معنویت اور جامعیت کا ایک وسیع جہان پوشید ہ کیے ہوتی ہے یعنی شاعر صرف دو شعروں میں خیال کی پوری وحدت کو کما حقہ بیان کر دیتا ہے رباعی کے پہلے مصرعے میں شاعر کسی ایک خیال یا مضمون کو متعارف کر اتا ہے دوسرے مصرعے میں اس خیال یا مضمون کا ارتقا ہوتا ہے تیسرے مصرعے میں اس کی بیان کردہ بات کلائمکس کو پہنچتی ہے اور آخری مصرعے میں شاعر کہ کہی ہوئی پوری کی پوری بات قاری کے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ یعنی رباعی میں موضوع کا ارتقا کچھ اس انوکھے اوردلچسپ انداز میں ہوتا ہے کہ دوسرا مصرع پہلے مصرعے سے تیسرا مصرع دوسرے مصرعے سے اور چوتھا تیسرے مصرعے سے برابر چڑھتے ہوئے سروں کی مانند بلند، نمایاں، دلکش اور پرتاثیر ہوتا چلا جاتا ہے اس سلسلے میں مجنو ں گورکھپور ی بھی اپنی رائے دیتے ہوئے یہی کہتے ہیں:
’’رباعی میں بتدریج کلام کی نوک پلک بڑھتی چلی جاتی ہے ‘‘4؂
رباعی ایک مشکل فن ہے یہی وجہ ہے کہ صدیوں پر محیط اس عرصے میں ہم کو بہت ہی کم ایسے شاعر نظر آئیں گے جو اس فن میں یکتائے روزگار کہے جاسکیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تمام شاعروں کو رباعی گوئی کے اس فن میں عروج دوام ملا ہو یا نہ ملا ہو لیکن تقریباً تمام فارسی کے بزرگ و عالی مرتبت شعرا نے اس فن میں طبع آزمائی ضرور کی ہے لیکن معدود چند کے سوا کسی کو بہت زیادہ کامیابی نہ حاصل ہوسکی۔ فارسی شعر وادب میں صوفیانہ افکارو نظریات کو رباعی کی صنف میں پیش کرنے والے اولین فارسی شاعر شیخ ابو سعید ابی الخیر ہیں۔ ان کے علاوہ خواجہ عبد اللہ انصاری ،شیخ فرید الدین عطار اور بابا افضل کو ہی وغیرہ نے بھی متصوفانہ اسرارو رموزکے بیان کرنے کے لیے اسی صنف شعری کواپنے مطمح نظر رکھا اور نکات عارفانہ کو اسی خوبصورت صنف کے ذریعہ روشناس کرایا ہند وستا ن میں فارسی رباعی کو حیات دوام بخشنے والے سرمد شہید ہیں۔ ان کی رباعیات ایسے بیش قیمت نگینوں کی مانند ہیں جن سے معانی صوفیانہ، نکات اخلاقی اور مفہوم عارفانہ سے لبریز شعائیں نمو دار ہو کر نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہیں اورمنتشر وپراگندہ اذہان کو جلا بخشتی ہیں اور ’ہر لحظہ و ہر ساعت دنیای دیگر دارد‘کی مصداق ہیں اس بزرگ عالی نے تمام اصناف شاعری کو نظراندازکرکے رباعی کو اپنے جذبۂ دروں کی ترجمانی کا ذریعہ بنایااور اپنے تمام تر سوز دل کو اس کے حوالے کرکے گویا اپنا پیغام عارفانہ بڑی ہی عاجزی وانکساری کے ساتھ ہر خاص وعام تک پہنچادیا اور نہ صرف معاصرین بلکہ آئندگان کے لیے بھی قیمتی سرمایہ فکر چھوڑ گئے۔
سعید سرمد نے عشق حقیقی کی کیفیات کو بڑے ہی جالب اور اثر آفرین انداز میں بیان کیا ہے سرمد کی تمام رباعیات میں عشق حقیقی کی جو سچی والہانہ اور مجذوبانہ ترجمانی ملتی ہے اس کی نظیر کسی دوسرے صوفی شاعر کے یہاں بہ مشکل ہی نظر آتی ہے ان کا عشق عقلیت کے خلاف روحانی و اردات کو ادراک معرفت و حقیقت کا ذریعہ مانتا ہے عشق حقیقی ہی وہ جذبہ صادق ہے جو اصل کائنات آئین کائنات ، اور وسیلہ معرفت ہے اور یہی انسان کی دائمی خوشی اورابدی راحت کاذریعہ ہے جس کے لیے اگر جاں نثاری بھی کرنا پڑے تویہ کوئی نقصان کا سودانہیں ہے مولانا آزادنے سرمدکے دل میں موجزن جذبہ عشق کی تشریح کرتے ہوئے بالکل درست لکھا ہے: 
’’عشق کی شورش انگیزیاں ہر جگہ یکساں ہیں ہر عاشق گو قیس نہ ہو مگر مجنوں ضرور ہوتا ہے اور جب عشق آتا ہے تو عقل وحواس سے کہتا ہے کہ میرے لیے جگہ خالی کر دو سرمد پر بھی یہی حالت طاری ہوئی اور جذب وجنوں اس طرح چھایا کہ ہوش وحواس کے ساتھ مال ومتاع تجارت بھی غارت کر دیا دنیا وی تعلقات میں جسم پوشی کی بیڑی باقی رہ گئی تھی بالآخراس بوجھ سے پاؤں ہلکہ ہو گیا کہ یہ پابندیاں تو مدعیان ہشیاری کے لیے ہیں ‘‘ 5؂
محمدسعید سرمدکی رباعیات پر اظہار خیال کرنے سے پہلے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حیات سے متعلق کچھ مختصر گفتگو کر لی جائے سعید سرمد کی تاریخ ولادت کا درست علم نہیں ہو سکا ہے وہ ایران کے ارمنی خاندان سے تعلق رکھتے تھے مذہبی اعتبار سے یہودی یا مسیحی تھے لیکن آغاز جوانی میں مذہب اسلام کی تعلیمات اور کشش نے ان کو مشرف بہ اسلام کیا تحصیل علم کے بارے میں بھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ علم وفضل میں درجہ کمال پر پہنچے ہوئے تھے اور اسلام قبول کر لینے کے بعد ان کے ہنر وکمال میں مزید اضافہ ہوا اور وہ اپنے وقت کے ایک بر گزیدہ عالم دین کی حیثیت سے متعارف تھے ان کا ابتدائی پیشہ تجارت تھا اس دوران اکثر ایرانی سیاح تجارت کی غرض سے سندھ کے راستے ہوکر ہندوستان آتے تھے چنانچہ سرمد بھی اسی راستے سے ہندوستان پہنچے اور دربہ در کی ٹھوکریں کھاتے اور زمانے کے نشیب و فراز کوعبور کرتے ہوئے شاہجہاں آباد یعنی دہلی پہنچے اور شہزادہ دارا شکوہ کی نظر التفات کے سبب عوام الناس میں خصوصی قدرو منزلت حاصل کی۔ کہتے ہیں دارا شکوہ ان کوبہت عزیز رکھتا تھا اور ان کی بیان کردہ ہر بات پر صد فی صدیقین رکھتا تھا۔ سرمد کے بارے میں صاحب ریاض الشعرا رقم طراز ہیں :
’’از یہودان کاشان است کہ بہ شرف اسلام مشرف شدہ بود در او ایل حال بہ تجارت اشتغال داشتہ، در بندر صورت جذبہ ای از جذبات حق بہ وی رسیدہ او را از وی در بوداسباب و اموال خودر ابالتمام بہ غارت دادہ ،عریان گردیدہ سر بہ صحرا گذاشت، مدتی در بیابان ھای گردید آخر گزارش بہ شاہ جہاں آباد افتاد محمد دارا شکوہ کہ ولد ارشد و ولی عہد شاہ جہاں پادشاہ بود، نہایت رسوخ اعتقاد بہ وی داشت و وی را نیز نظر التفات بہ احوال شاہزادہ بود ‘‘ 6؂
سرمد دار اشکوہ کی خدمت میں رہنے لگے۔ بے نیازی، استغراق اور بے خبر ی کا ان کی طبیعت پر اس قدر غلبہ تھا کہ ان کو ان سیاسی خونریزیوں کا احساس ہی نہ ہو سکا جس نے دہلی کی سلطنت کو زوال کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ دار ا شکوہ اور سرمد شہید کی بے پناہ قربت اور نگزیب عالمگیر کے ندیمان خاص کو ایک آنکھ نہ بھائی وہ طرح طرح کے حیلے اور بہانوں سے بادشاہ کو سرمد کی طرف سے بدظن کرنے لگے اور علما کی جانب سے ان پر کفر کے فتوے لگائے جانے لگے اوراس کا نتیجہ سرمد کی شہادت کی شکل میں نمودار ہوا جس کی تفصیل اس دور کی تاریخ کی کتابوں میں بھی بہت ہی کم ملتی ہے یہاں تک کہ ان کی شہادت سے متعلق بھی تذکرہ نگاران متفق الرائے نہیں ہیں ’تذکرۃ الخیال‘ کے مولف نے ان کی شہادت کے متعلق وجہ بیان کرتے ہوئے ان کی ایک رباعی نقل کی ہے جس میں سرمد نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپؐ افلاک پر نہیں گئے بلکہ خودافلاک آپ کے سینے میں سما گیاتھا ؂
ہر کس کہ سرحقیقتش باور شد 
او پہن تر از سپہر پنہاں ور شد 
ملا گوید کہ بر فلک شد احمد 
سرمد گوید فلک بہ احمد در شد 
’’ترجمہ: ہر وہ شخص جس نے حقیقت کی جھلک کو حاصل کر لیا ہے یعنی سچائی کو پا لیا ہے، وہ وسیع فلک سے بھی زیادہ وسیع ہو گیا یعنی اس کی نظروں میں فلک کی پہناوری ہیچ ہو گئی ہے ،ملا یہ کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم افلاک پر گئے جبکہ سرمد یہ کہتا ہے کہ فلک احمد کے پاس آگیا۔‘‘
علمائے دین کے مزاج پران کا یہ خیال سخت گراں گزرا اور انہوں نے فتویٰ جاری کیا کہ سر مد کا خیال معراج جسمانی کے خلاف اور کفر کے مترادف ہے لہٰذا ایسے انسان کو دارپر چڑھا دیاجائے جبکہ صاحب ’ریاض الشعرا‘ میں ان کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں ملا قوی نام کا ایک شخص عہد عالمگیری میں قاضی القضاۃ تھا انہیں سرمد کے پاس بھیجا گیا تاکہ وہ ان کی برہنگی کی وجہ دریافت کریں چنانچہ انہوں نے سرمد سے با وجو عالم فاضل ہونے کے مکثوف العورہ رہنے کا سبب پوچھنا چاہا توسرمد نے کہا کیا کروں شیطان قوی ہے فی البدیہہ یہ رباعی پڑھی ؂
خوش بالای کرد ہ چنین پست مرا
چشمی بدو جام بردہ دست مرا 
او در بغل من ست و من در طلبش
دردی عجبی برہنہ کردست مرا 
’’ترجمہ: خوش بالائی ہی میری پستی کا سب سے بڑا سبب ہے،میں مست ہو گیا ہوں ان نشیلی آنکھوں کے جام نے مجھے مست کر دیا ہے وہ میری بغل میں یعنی دسترس میں مو جود ہے اور میں اسی کی طلب میں سرگرداں ہوں،ایک دزد نے مجھ کو برہنہ کر دیا ہے۔‘‘
ملا قوی سرمد کے اس جواب سے سخت ناراض ہوئے اور ان کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا لیکن ان کو ان کی زندگی سے محروم کردینے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں تھی لہٰذا سرمد کو دربار میں طلب کیا گیا اور نگ زیب عالمگیر ان سے مخاطب ہوا اور پوچھا کہ سرمد نے تو دارا شکوہ کو مژدۂ سلطنت دیا تھا کیا وہ صحیح تھا سرمد نے جواب دیا ہاں وہ درست تھا دارا کو ابدی سلطنت کی بادشاہت نصیب ہوئی ہے اس جواب کے بعد ان کو لباس پہننے کی تاکید کی گئی لیکن وہ مسموع نہیں ہوئی۔ علماء نے بادشاہ سے کہا کہ سرمد کو کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے کیونکہ سرمد کبھی لا الہ سے زیادہ کلمہ نہیں پڑھتے تھے لہٰذا جب علما نے سرمدکو کلمہ پڑھنے کو کہا تو عادت کے مطابق صرف لا الہ پڑھا اور جب پورا کلمہ پڑھنے کو کہا گیا تو سرمد نے جواب دیا کہ میں ابھی تو عالم نفی میں ہی مستغرق ہوں مرتبہ اثبات تک نہیں پہنچا ہوں اور اگر الا اللہ کہوں گا تو جھوٹ ہوگا۔ علما نے کہا اگر سرمد توبہ نہ کریں تو قتل کے مستحق ہیں اور بلا تامل قتل کا فتویٰ صاد ر کیا گیا اور جب جلاد تلوار لے کر آگے بڑھا تو مسکرا کر خیر مقدم کیا سرمد نے موت کا استقبال کس جوانمردی اور خندہ پیشانی کے ساتھ کیا ہے اس سلسلے میں والہ داغستانی رقم طراز ہیں:
’’فرمودندکہ فدای تو شوم ،بیابیا کہ بہ ہر صورت بیای ترامی شناسم از جماعہ ای کہ ثقہ بودند مسموع شد کہ بعد از آن کہ سر او از بدن جد ا گردید، متکلم بہ کلمہ طیبہ و حمد الٰہی بود راقم حروف از شاہ اسد اللہ کہ مرد عزیز درو یش منز وی بود شنیدم کہ می فرمودہ کہ من باسرمد کمال خصوصیت داشتم روزی بہ وی گفتم کہ بغیر در وضع خود اگر بدہند، نظر بہ سماعت خلق ظاہر ہ،دور از صلاح نہ باشد، در جواب من این بیت را خواند ؂
عمریست کہ آوازہ منصور کہن شد
من از سر نو جلوہ دہم دار ورسن را‘‘7؂
’’ترجمہ: ایک عمر گزر گئی یعنی طویل وقت گزر گیا قصہ منصور کہن ہو چکا ہے میں دار ورسن کو نئے سرے سے آباد کروں گا۔‘‘
سرمد کی شہادت کا یہ واقعہ 1069میں اورنگ زیب عالم گیر کی تخت نشینی کے تقریباً تین سال بعد وقوع میں آیا ان کا مزار مبارک دہلی کی جامع کے مشرق کی جانب واقع ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سرمد کا مدفن مشہد میں ہے لیکن یہ درست نہیں مانا جاسکتاہے کیونکہ تقریباً تمام ارباب خرد اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مزار شریف مشہد میں نہیں بلکہ دہلی میں ہے اور یہی درست بھی ہے کیونکہ ان کی شہادت کا واقعہ دہلی میں پیش آیا تھااوران کی تدفین بھی یہیں عمل میں آئی۔
سعید سرمد بنیادی طور پر ایک صوفی انسان تھے لہٰذا ان کی بیشتر رباعیات ان کے صوفیانہ عقائدو نظریات کی نمائندہ ہیں ان رباعیات میں حکمت ومعرفت، عشق ومحبت، اخلاق وکرداراورذہنی و روحانی نعمتوں کے جو اسرار رمو ز پوشیدہ ہیں ان سے اہل دل اور صاحب نظر ہمیشہ حظ ولذت اٹھاتے رہے ہیں ان کے یہاں جو دین سے وارفتگی، مذہبی جذبات کی صداقت، عقیدت کی چاشنی اور علمی تجربہ ملتا ہے وہ کسی دوسرے رباعی گو شاعر کے یہاں اتنی شدت اور صداقت کے ساتھ موجودنہیں ہے اور ان کی انھیں خصوصیات نے ان کودرجہ اول کا رباعی گو شاعر ہونے کا درجہ بخشاہے۔
سرمد کی رباعیات کا تما م تر دار ومدار اخلاق پر ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف کی بنیاد اخلاق پر ہی رکھی گئی ہے لہٰذا تصوف و اخلاق ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کی رباعیات میں اخلاقی تعلیمات کا ایک بیش قیمت سرمایہ نظر آتا ہے لیکن ان کی یہ تعلیمات پندو نصائح کا طومارنابرداشتہ اور تادیب و تہدید کا تصدیق نامہ ہرگز نہیں بلکہ ایک غم گسار و ہمدرد دوست کا مشور ہ اور مخلص و بے ریا عزیز کی دل جوئی و دل سوزی سے عبارت ہے وہ ایک رفیق بے غرض کی طرح انسان کو اس کی عظمت واہمیت کا احساس اس طرح دلاتے ہیں ؂
ای بی خبر ز ہستی خود ہم چوں کتاب 
در جلد تو آیات الٰہی بہ حجاب
یعنی ز تو حق پدید و تو از اثرش
آگاہ نہ جو شیشہ از بوی گلاب8؂
’’ترجمہ: اے وہ جو کہ ایک کتاب کی طرح اپنی ہستی سے بے خبر ہے ،آیات الٰہی کا تو خود ہی حجاب بنا ہو اہے یعنی اللہ اور بندے کے درمیان خود بندے کی ذات ہی سب سے بڑا پردہ ہے،تجھ میں تو خود ہی حق پوشیدہ ہے لیکن تو آگاہ نہیں ہے ٹھیک اسی طرح جیسے شیشہ کو خبر نہیں ہوتی کہ مجھ میں گلاب ہے یعنی انسان اپنی ہستی کی اہمیت سے خود ہی انجان بنا ہوا ہے۔‘‘
سرمد انسان کو باربار اس بات کی تلقین وتنبیہ کرتے ہیں کہ انسان کو اپنی اہمیت وعظمت کا اندازہ ہونا چاہیے کیونکہ خود آگہی وخود شناسی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو ذرہ سے آفتاب اورپتھرکوالماس بنا دیتاہے لیکن اس عالی مرتبہ کو حاصل کرنے کے لیے انسان کودنیاوی آرام وآسائش سے کنارہ کشی اور حب مال ومنال سے پرہیز کرنا لازم ہے کیو نکہ دنیاوی حرص وہوس کو چھوڑ نے کے بعد ہی اس پر عظمت انسانی کا رازمنکشف ہو سکتا ہے ؂
’’با ترک تعلق نفسی یار بشو
زین بار گران ولی سبکسار بشو
تا چشم کنی باز وہم باز کنی
ای بی خبراز خویش خبردار بشو‘‘9؂
’’ترجمہ: سب سے تعلق ترک کر دے اور اپنے معشوق کی مرضی اور خواہش کے مطابق خو د کو ڈھال لے اس گراں بوجھ مراد دنیا کی خواہشات کے بوجھ کو پھینک کر سبکسار ہو جااگر تو دیدۂ بینا سے دیکھے گا تو تجھ کو سوائے وہم کے یہ دنیا کچھ اور نظر نہیں آئے گی اے بے خبر تو کم از کم خود سے تو باخبر ہو جا۔‘‘
سرمد اپنی متعدد رباعیات میں انسانی اہمیت وافادیت کا احساس کراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایاگیا ہے اوراس کائنات کی تمام چیزوں کوصرف اورصرف انسان کے لیے ہی مسخر کیاگیاہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ حضرت انسان کو اپنی صحیح قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں ہے نافرمانی، سرکشی ،خودبینی اورتکبروغیرہ جیسی بیہودہ عادات نے اس کو پستی کی انتہائی حدودمیں پہونچادیاہے اگر حضرت انسان غرور وتکبر اور رعونت وسرکشی کو چھوڑ دے تو یقیناً اس کے درجات اتنے بلند ہیں جس کا کہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن افسوس اپنے متعلق بے خبری نے اس کو دنیا ومافیہا سے بیگانہ کردیاہے لہٰذا وہ کہتے ہیں ؂
افسوس کہ غافل تو ز ہستی ہستی
پیوستہ زصہبای رعونت مستی
بہ چند شوی بلند چون شعلہ خس
ازشامت سرکشی درآخر پستی
’’ترجمہ: افسوس کی بات ہے کہ تو اپنی ہستی سے بے خبر ہے اور رعونت یا تکبر کی دائمی شراب سے بدمست ہو گیاہے ،کوئی فرق نہیں پڑتا ہے خس وخاشاک کا یہ شعلہ کتنا ہی اوپر کیوں نہ چلا جائے یعنی یہ انسان فانی کتنی ہی ترقی اور عروج کیوں نہ حاصل کر لے لیکن سرکشی اور تکبر کا انجام آخر میں پستی ہی ہوتاہے۔‘‘
رباعیات سرمد کے مطالعے سے جو اہم بات مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ رباعی گوئی میں سرمد خیام کی تقلید و پیروی کرتے نظر آتے ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک رباعی میں بھی کیا ہے کہ و ہ غزل میں حافظ اور رباعی گوئی میں خیام کے مقلد ین میں سے ہیں اور ان کو اپنی اس تقلید پر فخر وخوشی کا احساس ہوتا ہے لہٰذا کہتے ہیں ؂
بافکر و خیال کس نہ باشد کارم
در طور غزل طریق حافظ دارم 
اما بہ رباعی ام مرید خیام 
نہ جر عہ کش بادہ او بسیارم 
’’ترجمہ: میں کسی کی فکر اور خیال سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ہوں۔ غزل گوئی میں ،میں نے روش حافظ کو اختیار کیا ہے لیکن رباعی گوئی میں ۔میں خیام کا مرید ہوں۔ میں اس فن میں خیام پر فوقیت نہیں رکھتا ہوں۔‘‘
مندرجہ بالا رباعی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمد نے رباعیات کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں ان کی غزلوں کا کوئی مجموعہ نہیں ملتا البتہ غزلوں کے چند اشعار بعض تذکروں میں ضرور ملتے ہیں لیکن ان کی غزلوں کے ان جستہ جستہ اشعار سے ان کی غزل گوئی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی سرمد کے مجموعہ رباعیات میں متعدد ایسی رباعیاں نظر آتی ہیں جو خیام کی تقلید کی نمائندگی کرتی ہیں مثلاً خیام کی ایک بہت مشہور رباعی ہے ؂
من بندہ عاصیم رضای تو کجا است
تاریک دلم نور و ضیای تو کجا است 
مار ا تو بہشت اگر بطاعت بخشی
این بیع بود لطف و عطای تو کجا است 
’’میں تیرا گناہ گار بندہ ہوں ،تیری رضا کہاں ہے میرا دل تاریک ہو گیا ہے گناہوں کی وجہ سے تیرے نور کی ضیا کہاں ہے اگر تو نے ہماری اطاعت گزاری کے عوض ہم کو جنت بخشی تو یہ سودے بازی ہے تیرا لطف اور تیری عطا کہاں ہے ۔‘‘
سرمد سعیدنے بھی خیام کے اس مضمون کو اپنے مخصوص لب ولہجہ میں اداکیاہے۔ خیام اور ان کے یہاں تھوڑا سا فرق صرف یہ ہے کہ خیام کا طرز بیان ظریفانہ اورشوخیانہ ہے جبکہ سرمد کے لب ولہجہ میں بڑی عاجزی ،انکساری اورسنجیدگی پائی جاتی ہے لیکن مضمون کی دلکشی ورعنائی میں کوئی کلام نہیں ہے سرمد کہتے ہیں ؂
یا رب ز کرم بخشش تقصیر مرا
مقبول من نالہ شب گیر مرا
پیری و گناہ ماجرا یست عجیب
لطف تو کند چارہ تدبیر مرا12؂
’’ترجمہ : اے میرے پروردگار اپنے کرم سے میری خطاؤں کو معاف فرما دے،میری راتوں کی گریہ زاری کو مقبولیت عطا کردے یہ بڑھاپا اور گناہ عجیب ماجرا ہے لطف تو کرتا ہے اور تدبیر میری ہوتی ہے ۔‘‘
عمرخیام کے اسی مضمون کو وہ اپنی ایک اور رباعی میں اور بھی زیادہ واضح اور دلنشین انداز میں پیش کرتے ہوئے سرمد سعیدکہتے ہیں ؂
از کردہ خویش منفعل بسیارم
عمریست کہ یابند دریں آزارم 
چیزی کہ بیاید نشود از من شد 
بر فضل نظر کنی نہ کہ بر کر دارم13؂
’’ترجمہ : میں اپنے کیے ہوئے کاموں پر بہت پشیمان ہوں ایک طویل عمر میں نے اسی آزار میں یعنی دنیاوی خرافات میں ضائع کردی ہے جو کچھ بھی ظہور پذیرہوتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوتا یعنی میرے عمل میں میری نہیں تیری رضا شامل ہوتی ہے ،اے پروردگار تو میرے کردار کو نہ دیکھ بلکہ اپنے فضل وکرم پر نگاہ کر یعنی اپنے کرم کی دولت سے مجھ گناہ گار کو بخش دے۔‘‘
سرمد شہید اپنی ایک اور رباعی میں اسی خیال کو اور بھی زیادہ جالب وجاذب انداز میں کہتے ہیں ؂
این باعث دل خستیگم چیست بگو
تا چند بہ محنت بکنم زیست بگو 
ہر چند بدم از کرم خویش بہ بخش 
غیر از تو بہ من رحم کند کیست بگو14؂
’’ترجمہ : میں اپنے دل کی خستگی یا تھکن کا راز کس کو بتاؤں۔ آخر کب تک میں اس زندگی کے لیے محنت کروں یعنی مشکلات اور تکالیف لامتناہی کا سامنا کروں ہر چند کہ میں بہت گناہ گار بندہ ہوں لیکن مجھ کو بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ کون ہے جو مجھ پر رحم کرے ،یہ مجھ کو بتا دے۔‘‘
سرمد کے یہاں عشق حقیقی کاذکر بڑے ہی والہانہ انداز میں کیا گیا ہے کیونکہ عشق ہی وہ ہمہ گیر احساس ہے جو تمام کائنات کو جلوہ گہہ معشوق بنا دیتا ہے اور کائنات کے ہر ذرے میں جلوۂ معشوق کی کار فرمائی نظر آتی ہے گو کہ عشق کا راستہ بہت مشکل، دشوار اور پیچیدہ ہے اگر کسی کو یہ دولت میسر آجاتی ہے تو عاشق کائنات کی تمام اشیاء سے بے نیاز اور بے خبر ہو جاتا ہے اس کو کسی کی ضرور ت نہیں رہتی عشق کی دولت اس کو دنیا کی تمام نعمتوں وآسائشوں سے بے نیاز کر دیتی ہے ؂
از منصب عشق سر فراز م کردند 
و زمنت خلق بی نیازم کردند
چوں شمع دریں بزم گدازم کردند
از سوختگی محرم رازم کردند15؂
’’ترجمہ : مجھ کو منصب عشق سے سرفراز کردیا گیااور مخلوق کی منت وسماجت کی شرمساری سے بے نیاز کر دیا گیا شمع کی طرح مجھ کو اس محفل یعنی دنیا میں پگھلایا گیااور پھر اسی سوختگی کے سبب مجھ کو محرم راز بنا دیا گیا۔‘‘
وہ عشق میں گزرنے والی کیفیات کو کماحقہ بیان کر نے سے تو قاصر بلکہ بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ یہ کیفیت جس پر بھی طاری ہوتی ہے وہ چاہ کر بھی اس کو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ عشق ،عاشق کے لبوں پرمہر لگا دیتا ہے یہی سبب ہے کہ سرمد بھی ان کیفیات عشق کو بیان نہیں کر پا رہے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ دولت عشق کی بے پناہ اہمیت وافادیت کو بڑے پرشکوہ انداز میں بیان کرتے ہیں اوراس راستے میں آنے والے مشکل مراحل کا بڑی خوبصورتی سے ذکر کرتے ہیں مثلاًوہ اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں ؂
در مسلک عشق جز نکو را نکشند
لاغر صفتان و زشت خود برا نکشند
گر عاشق صادقی زکشتن مگریز 
مردار بود ہر آن کہ او را نہ کشند16؂
’’ترجمہ: مسلک عشق میں وہی لوگ شہید ہوتے ہیں جو نیک صفت اورمبارک ہوتے ہیں۔ بد اطوار یا کم ہمت لوگوں کو نہیں پوچھا جاتا ہے،تو اگر ایک سچا عاشق ہے تو قتل ہونے سے مت ڈر کیونکہ اس دنیا میں مردار پر تلوار نہیں چلائی جاتی ہے یعنی اس دنیا میں مصائب وتکالیف کا سامنا اعلیٰ ظرف لوگوں کو ہی کرنا پڑتاہے۔‘‘
سرمد کے یہاں عشق کی سچی لگن اور تڑپ دونوں موجود ہے وہ سر تا پا اس عشق میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں ہر جگہ اور ہر چیز میں صرف اور صر ف معشوق حقیقی کا جلوہ نظر آتا ہے مگر عشق حقیقی کی یہ شراب ہر کسی کو میسر نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیںیعنی کچھ خاص تقاضے یا شرائط ہوتی ہیں جن کو پوراکرنے کے بعد ہی ایک عاشق کو اس دولت دائمی سے نوازا جاتا ہے لہٰذا کہتے ہیں ؂
تا نیست نگر دی رہ ہستت ندہند 
این مرتبہ باہمت پستت ندہند
چوں شمع قرار سوختن تا ندہی 
سر رشتۂ روشنی بدستت ندہند17؂
’’ترجمہ: جب تک نیست نہیں ہے تب تک ہست نہیں ہو سکتا ہے یہ وہ درجہ ہے جو کبھی پست ہمت کو نصیب نہیں ہو سکتاجب تک تو شمع سوزاں کی طرح خود کو جلائے گا نہیں اس وقت تک باطن کی روشنی تیری ہم دست نہیں ہو سکتی یعنی جب تک تومشکلات کا مردانہ وار مقابلہ نہیں کرے گا اس وقت تک تجھ کو کوئی مقام ومرتبہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔‘‘
یہ ان کا پسندیدہ موضوع ہے اور وہ اس کو مختلف انداز میں بار بار بیان کرتے ہیں مثلاان کی ایک اور رباعی دیکھیے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ عشق کی دائمی دولت کو حاصل کرنے کے لیے بڑے دشوار گزار مراحل سے سابقہ پڑتا ہے تب کہیں جا کر ایک عاشق صادق کو وصال یار نصیب ہوتا ہے اور جو شخص ہمت وجرأت اورصبر وضبط کا مظاہرہ کرسکتا ہے اسی کو یہ دولت عطا کی جاتی ہے لہٰذا کہتے ہیں ہر کس وناکس عشق کے اس امتحان میں کامرانی حاصل نہیں کر سکتا ؂
سرمد غم عشق بوالہوس را نہ دھند
سوز دل پروانہ مگس را نہ دہند
عمری باید کہ یار آید بہ کنار
این دولت سرمد ہمہ کس را نہ دہند18؂
’’سرمد عشق کا غم کسی بوالہوس کو نہیں دیتے ہیں ،پروانے کے دل کی سوزش کسی مکھی کو نہیں دیتے ہیں وصال یار کی دولت کو حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عمر درکار ہوتی ہے،یہ سرمدی یا دائمی دولت ہر کسی کو نہیں دیتے ہیں۔‘‘
سرمد کو مکر وفریب ،خوشامد وتملق،جبیں سائی و ناصیہ فرسائی سے شدید بغض ہے وہ کہتے ہیں اگر حیلہ سازی یا بہانے بازی سے کوئی چیز حاصل ہوتی ما سوائے اللہ کے کسی اور سے کوئی چیز طلب کرنا خود فریبی اور ذلت کا باعث ہے خود آگہی یا عزت و توقیرکا نہیں لہٰذا حتی الامکان اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ سر کو کسی کے آگے جھکانا نہ پڑے کیونکہ عزت وقناعت کے ساتھ زندگی گزارنے میں جو لطف ہے وہ کسی کے سامنے دست سوال درازکرنے میں نہیں ہے وہ کہتے ہیں ؂
سرمد تو زہیچ خلق یاری مطلب
از شاخ برہنہ سایہ داری مطلب
عزت ز قناعت ست و خواری زطمع
با عزت خویش باش و یاری مطلب19؂
’’ترجمہ: سرمد! تو مخلوق سے ہمدردی یا وفا کی امید مت رکھ،ایک برہنہ شاخ یعنی بے برگ شجر سے سایہ داری کی امید مت رکھ ، قناعت اختیار کرنے سے عزت حاصل ہوتی ہے اور لالچ وطمع سے انسان خوار ہوتا ہے اپنی عزت نفس کے ساتھ رہ خواری کو طلب مت کر۔‘‘
سرمد کا یہ خیال ان سے پہلے بھی متعدد شعرا نظم کر چکے تھے مثلاً امیر خسرو دہلوی اس مضمون کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ؂
از خلق جہاں و فا مجویید کہ نیست
و زاہل زماں مجویید کہ نیست 
سر چشمہ فیض ہا خدا باشد وبس
از غیر خدا وفا مجویید کہ نیست 
’’ترجمہ: مخلوق جہاں میں وفا تلاش مت کر وفاداری دنیا کے لوگوں میں نہیں ہے اس کو اہل جہاں کے درمیان تلاش مت کر،فیض وکرم کے سرچشمہ یعنی اللہ سے رجوع کر لے اور غیر از خداوفاداری کے لیے سرگرداں مت ہو کہ وہ موجود ہی نہیں ہے یعنی اپنے تمام معاملات میں صرف اور صرف ذات واحد کی رضا اور خوشنودی حاصل کرو۔‘‘
مولانا جامی فرماتے ہیں ؂
ای دل طلب کمال در مدرسہ چند
تکمیل اصول و حکمت و ہندسہ چند
ہر فکر کہ بر ذکر خدا وسوسہ است
شرم زخدا بدارین وسوسہ چند 
’’ترجمہ: اے دل آخر کب تک مدرسہ میں کمال کو حاصل کرنے کی خواہش میں لگا رہے گااور اصول وحکمت وہندسہ کے علوم میں دسترس حاصل کر لینے کی خواہش میں پریشان رہے گا ہر وہ فکر جواللہ کے ذکر کے علاوہ ہے وہ صرف اور صرف وسوسہ یعنی وہم ہے خدا سے شرم کر کب تک خود کو وسوسے میں مبتلا رکھے گا۔‘‘
سرمد شہید بھی جاہ ومرتبہ اورمال ومتاع دنیا کو پندار اور وہم تصور کرتے ہیں اورجہاں تک ممکن ہو سکے اس سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں ؂
اندیشہ جاہ و مال دنیا غلط ست
این وہم و خیال فکر بیجا غلط ست 
در خانہ تن وطن نسازی ہرگز 
از بہر دو روز این تمنا غلط ست20؂
’’ترجمہ: اس دنیا کی فکر کرنا اور جاہ ومال کے لیے پریشان ہونا غلط ہے یہ دنیا وہم اور فکر بے جا ہے جو کہ غلط ہے،یہ جان ہمیشہ اس جسم میں باقی نہیں رہے گی چنانچہ دو دن کی زندگی کی خاطر اس کی یعنی دنیا کی فکر کرنا غلط اور بے جا ہے۔‘‘
وہ انسان کو قناعت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے ہیں کیوں کہ دنیاوی مال و اسباب کی چاہ میں سوائے حیرت ،پریشانی اور تکالیف کے کچھ اور ہاتھ نہیں آ سکتا اس لیے حیات جاوداں کے خواہش مند ہو تو دنیاوی حرص وہوس کو اپنے دل سے نکال کر باہرکر دو ؂
تا چند در اندیشہ دنیا باشی 
آوارہ دشت و کوہ و صحرا باشی 
دامان قناعت ست بیار وسیع
از دست بدہ دریں جہاں تا باشی21؂
’’ترجمہ: تو کب تک دنیا کی فکر میں مبتلا رہے گا آخر کب تک، تو کب تک دشت وصحرا میں آوارہ یعنی بے کا ر بنا گھومتا رہے گا قناعت کا دامن بہت وسیع ہوتا ہے تو کب تک اس دامن سے کنارہ اختیار کیے رہے گا یعنی تجھ کو چاہیے کہ تواس دنیا میں سکون سے رہنے کے لیے قناعت کے دامن کو تھام لے تاکہ تجھ کو سچی راحت ومسرت حاصل ہو جائے۔‘‘
سعید سرمد کے یہاں بہت سی ایسی رباعیات ملتی ہیں جن کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں اور اس بارے میں ان کے نظریات وہی ہیں جو دوسرے صوفی شعرا کے یہاں نظر آتے ہیں انھوں نے متعدد رباعیات میں عقیدۂ توحید کی بڑی واضح تشریح پیش کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں وحدۃ الوجود سے متعلق جو بھی خیالا ت ادا کیے گئے ہیں اسلوب و طریقہ تعبیر (ادائیگی الفاظ )تو ایک دوسرے سے مختلف لیکن فکر ایک ہے اس سلسلے کی صر ف دو رباعیاں نقل کرنے پر اکتفا کریں گے ؂
ہر چند کہ صد دوست بمن دشمن شد
از دوستی یقین دلم ایمن شد 
وحدت بگذیدیم از کثرت رستیم 
آخر من از و شدم و اواز من شد22؂
’’ترجمہ: ہر چند کہ سو دوست دشمن بن جائیں ،ایک دوست کے فیضان سے دل امان میں ہے یعنی اگر سیکڑوں دوست بھی دشمن بن جائیں اپنے محبوب کی رضاکے لیے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا،کثرت سے گزر کر ہم وحدت کی جانب آگئے آخر میں اس سے ہو گیا اور وہ میرا ہو گیا یعنی فرق دوئی مٹ گیا اور ہر جگہ ذات واحد کا ہی جلوہ نظر آنے لگا۔‘‘
چون معنی و لفظ ما و او را بنگر
چون چشم و نگہ جدا و یکجا بنگر 
یکدم زکسی جد ا نیابی ہرگز
مانند گل و پوست تماشہ بنگر23؂
’’ترجمہ: لفظ اور معنی دیکھو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،آنکھیں اور نگاہ جدا ہیں لیکن ان کو ایک جگہ دیکھ ایک لمحہ کی بھی جدائی ممکن نہیں ہے دیکھو ہم پھول اور خوشبو کی طرح ایک ہیں یعنی کائنات کے ہر ذرے میں صرف اورصرف اس ذات واحد کی ہی کارفرمائی ہے۔‘‘
صوفیاکے یہاں جبرواختیار کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی مورد بحث رہا ہے کچھ صوفیا نے حضرت انسان کو مجبورمحض ماناہے تو کچھ کے نزدیک انسان بااختیاراور قادر ہے۔ سرمد شہید نے اس بحث لامتناہی میں الجھنے کے بجائے درمیانی راستہ اختیارکیاہے یعنی انھوں نے جبر وقدر دونوں کو ملا کرصوفی ادب میں ایک قابل قدراور فکری اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے ان کے نزدیک انسان کوبااختیارتوضروربنایا گیا ہے مگرخالق حقیقی کے سامنے اس کے اختیارکی کوئی اہمیت یا قیمت نہیں ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام اختیارات کو مختار کل کے حوالے کر دے اور اپنی قوت و اہمیت پر قطعی نازان اور مغرورہونے کے بجائے راضی برضا ہوجائے یہی اس کی کامیابی اور رضائے حق ہے چنانچہ کہتے ہیں ؂
افسوس بہ تدبیر نبردیم پناہ
زاندیشہ وتدبر شد احوال تباہ
مغرور مشو بقدرت وقدرت خویش
لاحول ولاقوت الا باﷲ24؂
’’ترجمہ: افسوس کہ ہماری تدبیر کبھی ہم کوپناہ نہیں بخشتی یعنی ہماری تمام تر احتیاط کے باوجودتقدیر اپناکام کرتی ہے،اس تدبیر سے احوال تباہ ہو گیا ہے اپنی طاقت پر مغرورمت ہو،لاحول ولا قوت الا بااللہ۔‘‘
سرمد سعید نے بیشماررباعیات کہی ہیں اوراکثران کے یہاں مضامین کی تکرارپائی جاتی ہے مثلاً بے ثباتی وناپائیداری دہر،توحید ومعرفت، جبروقدر،امیدرضا بالقضا،حرص وہوس اور شراب غفلت وغیرہ جیسے مضامین کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے مگر ان کا وصف خاص یہ ہے کہ محدود مضامین کی تکرار کے باوجودبھی ان کی رباعیات کا ایک ایک لفظ اہل دل کے نزدیک جان سے پیارااور عزیز ہے ان کی تمام رباعیات حقیقی ومجازی بیخودی کی کیفیات سے لبریز ہیں ان کے یہاں جدت،ندرت اورشدت بڑے پیمانے پرموجودہے فرسودہ وکہنہ مضمون بھی ان کے جالب وجاذب اسلوب بیان کے سبب نیا اورانوکھا محسوس ہونے لگتاہے مثلاًدنیاوی مال ومنال اورجاہ وحشمت حاصل کرنے کی طلب اس کو تباہ وبرباد کردیتی ہے انھوں نے اس مضمون کو اپنی رباعیات میں بار ہااداکیاہے اورہر بار ان کا خوبصورت انداز بیان قاری کو ان کا گردیدہ بنا دیتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں ؂
ای دل تو درین زمانہ گمراہ شدی
پابند ہواؤحرص جانکاہ شدی
زین دام بلا اگر نہ جستی آخر
سرتا بقدم درد وغم وآہ شدی25؂
’’ترجمہ: اے دل تو اس غم دہر سے گم راہ ہو گیا ہے ،تو حرص وہوس کے لیے کب تک اپنی جان کو پریشان کرتا رہے گا تجھ کو اس دام وفا یعنی دنیا سے اس قدر محبت کیوں ہے، تو،تو درد،رنج اور آہ ہو گیا ہے یعنی دنیاوی مصائب ومسائل نے تجھ کو تباہ حال کر دیا ہے۔‘‘
اسی مضمون کو اپنی ایک اور رباعی میں اور بھی زیادہ خوبصورت ودلنشین انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
با دام ہوا ؤ حرص تا ہم نفسی
پابند خودی شام وسحر در قفسی
آزاد چو سرو باش در گلشن دہر
گر سنبل ونسرینی وخور وخسی26؂
’’ترجمہ: تیری ایک سانس بھی ہوا وحرص سے خالی نہیں ہے، تیری خودی تیرے ایک قفس بند ہوگئی ہے یعنی تو خودی کی طاقت کو بروئے کار لانے کے بجائے اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں سرگردان ہے،تو چمن مراد دنیا میں سرو کی طرح زندگی گزار یعنی خود کو بندشوں میں نہ جکڑ لے تو،تو سنبل ونسرین ہے خار وخس نہیں۔‘‘
حرص کس طرح انسان کے لیے ندامت وشرمندگی کا باعث بنتی ہے اور کس طرح اس کو کشمکش ومصائب میں گرفتار رکھتی ہے اور وہ کس کرب اور اذیت میں گزارتاہے اس مضمون کو سرمدنے جالب اندازمیں پیش کیا ہے ملاحظہ کیجیے کہ کس خوبصورت ودلکش انداز میں یہ عظیم شاعر ہم کو نصیحت کرتا ہے کہ سننے یا پڑھنے والا ہمہ تن گوش ہو جاتاہے ؂
خواہی کہ رسی بکام تلخی نچشی
آسودہ شوی بار ندامت نکشی
باصبر بسازبا قناعت خو کن
از دست ہواؤحرص در کشمکشی25؂
’’ترجمہ: اگر تو اس بات کا خواہش مند ہے کہ زمانے کی تلخی کو نہ چکھے ،آسودہ یعنی خوشحال رہے اور ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے تو صبر کے ساتھ رہ اورقناعت کو اپنی عادت بنا لے تیرادل حرص کی کشمکش میں کب تک مبتلا رہے گایعنی یہ لازم ہے کہ تو اپنی راحت اور خوشی کے لیے قناعت کو اختیار کر اورلالچ وہوس کو اپنے دل سے رخصت کر دے۔‘‘
سرمد کی رباعیات کے سلسلے میں مختصراًیہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے انداز بیان میں ایک ساحرانہ کشش اور جذب کی کیفیت پائی جاتی ہے جو قلوب پریشان اور اذہان منتشر کو یک گونہ سکون و راحت اور فرحت و مسر ت کا جانفزا وروح پرور احساس بخشتی ہے انھوں نے حکمت و معرفت عشق ومحبت اور مشغولی باطن و روحانی نعمتوں کا جو حیات آفریں جام پیش کیا ہے اس جام کے ذریعہ نہ جانے کتنے مردہ قلوب کو نوید زندگی حاصل ہوئی ہے ان کی عارفانہ اور متصوفانہ سرور آمیز اخلاقی تعلیمات از اول تا دورِ حاضر نہ جانے کتنے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست کی طرف کھینچ کر لاتی رہی ہیں اور لاتی رہیں گی سرمد کے بعد جو بھی صوفیانہ شاعری منظر عام پر آئی وہ سب کی سب سرمد کی خوشہ چین معلوم ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری ایک پاک سرشت منکسر المزاج صوفی خصلت اور بے ریا شخص کی شاعری ہے جس کا مقصد لوگوں کو رضائے الٰہی کے لیے تیار کرنا اور ایک صحت مند زندگی کی ترغیب دلانا ہے اور یہ وجہ ہے کہ تمامتر ستم ظریفی زمانہ اور نامساعدی حالات کے باوجود ان کی عظمت اورہر دل عزیزی میں کوئی فرق نہیں آیاہے ؂
یک لحظہ اگر دل حزنیت بدہند 
آسودگی روی زمینت بدہند
گر نام خدا است نقش بر خاتم د ل
عالم ہمہ در زیر نگینت بدہند27؂
’’ترجمہ: اگر تجھ کو تھوڑی دیر کے لیے قلب حزین مل جائے اور تیری زمین کو مراد تیری زندگی کو راحت وآسودگی دے دی جائے،اگر دل کی انگوٹھی پر خدا کی مہر لگ جائے تو پھر سارا جہان تیرے زیر نگین آ جائے گا یعنی اگر اللہ کی رضا حاصل ہو جائے تو پھر ساری دنیا قدموں میں آجاتی ہے۔‘‘
مآخذ ومنابع
1۔ تذکرۃ الشعراء ،دولت شاہ سمرقندی، تصحیح محمد عباسی،ص89،کتاب فروشی بارانی تہران ،1337ھ
2۔ لباب الالباب،محمدعوفی تصحیحات وتعلیقات سعید نفیسی،ص 259،کتابخانہ ابن سینا حاج علی علمی،1335ھ
3۔ عروض سیفی، ص896،ایشیاٹک سوسائٹی بنگال1872
4۔ غالب شخص اور شاعر،مجنوں گورکھپوری،ص 29،ناشر علی گڑھ ڈپوشمشاد مارکیٹ،1976
5۔ حیات سرمد،ابوکلام آزاد،ص15،تنویر پبلشرز باغ گونگے نواب لکھنؤ، 1910
6۔ ریاض الشعراء،والہ داغستانی تصحیح وترتیب شریف حسین قاسمی،314،کتابخانہ رضا رامپور، 2001
7۔ ریاض الشعراء،والہ داغستانی تصحیح وترتیب شریف حسین قاسمی،ص315-16،کتابخانہ رضا رامپور 2001
8۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص8،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہو ،ر1920
9۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص8،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
10۔ رباعیات سرمد،سرمد جمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص8،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
11۔ معارف مضمون سرمد اوراس کی رباعیات ،مضمون نگارمولوی مجیب اﷲ،ص354،شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ
12۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص5،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور،1920
13۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص75،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور،1920
14۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص101،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
15۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص38،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور،1920
16۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص39،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
17۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص24،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور ، 1920
18۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص11،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور ، 1920
19۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص14،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
20۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص119،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور،1920
21۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص31،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
22۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص45،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
23۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص108،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور،1920
24۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص129،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور ، 1920
25۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص149،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1920
26۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص123،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور 1920
27۔ رباعیات سرمد،سرمدجمع وتدوین عبدالطیف منشی،ص133،راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور 1920

Dr. Neelofar Hafeez
Asst. Prof. Dept of Arabi wa Farsi
Danishgah, Allahabad
Allahabad (UP)
Mob.: 7500984444

سہ ماہی فکر و تحقیق   شمارہ جنوری تا مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں