22/3/19

بنگال کے نظم گو شعرا مضمون نگار:۔ ایم نصر اللہ نصر



بنگال کے نظم گو شعرا

ایم نصر اللہ نصر

آغاز شاعری میں نظم نگاری کو غزل کے حصار میں رکھا گیا تھا۔ اسی کے پیٹرن یا شکل میں نظمیں بھی کہی جاتی تھیں اور روایتی شاعری کا پورا خیال رکھا جاتا تھا۔لیکن بعد ازاں یہ روایتی شاعری کے دائرے کو توڑکر باہر آگئی۔ایسا اس لیے ہوا کہ مغربی انداز سخن نے شعرا کے اذہان کو آہستہ آہستہ متاثر کرنا شروع کیا۔ان کے اندازِ پیشکش اور موضوع و مضامین کی نظم بندی شعرا کے ذہن وفکر میں نقش ہونے لگی۔وہ اس طرز کے اسیر ہونے لگے۔ اس لیے انھوں نے ان کی نظموں کے ترجمے کرنے شروع کردیے۔کوثر مظہری کی تحقیق کے مطابق شعرائے ہند نے غدر ‘انقلاب اور پہلی جنگِ آزادی کو اپنا موضوعِ سخن بنایا۔انگریزوں کے مظالم اور ہندستانیوں کی زبوں حالی وپریشان حالی کا تذکرہ عام ہوا۔ جس میں غالب ‘منیر شکوہ آبادی ‘الطاف حسین حالی‘ قلق میرٹھی اور نظم طبا طبائی کے اسمِ گرامی قابلِ ذکر ہیں۔مغرب کی پاسداری کرنے والے شعرا میں محمد حسین آزاد ‘ظفر علی خاں‘عزیز لکھنوی‘ نادر کاکوروی‘ سرور جہان آبادی‘ حسرت موہانی‘ احسن لکھنوی ‘تلوک چند محروم‘ طالب بنارسی ‘ اوج گیاوی اور بہت سے دیگر شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ (ماخذ ’جدید نظم :حالی سے میرا جی تک۔ کوثر مظہری )۔وطن سے محبت ‘ تاروں بھری راتیں‘ ٹھنڈی ہوائیں‘لہلہاتے کھیت اور گنگناتے دریا ان کے موضوعات تھے۔یہ تبدیلیاں اچانک نہیں آئیں۔ پہلے پابند نظمیں لکھنے کا چلن ہوا پھر معرّیٰ ‘آزاد اور نثری نظموں کا دور شروع ہوا۔ اس طرح نظم نگاری کو ردیف و قوافی نیز بحر و وزن کی پابندیوں سے آزادی مل گئی اور شاعری کا کینوس بھی بدل گیا بلکہ وسیع تر ہوگیا۔
نظم نگاری کا آغاز : ( تحقیق کے مطابق )دکن میں قلی قطب شاہ کے عہد میں ہوا، جس کے عناصر خود ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔شمالی ہند میں اس کا چلن بعد میں ہوا۔افضل جھنجھانوی اور جعفر جٹلی کی شاعری میں نظم گوئی کے آثار ملتے ہیں۔ان کے علاوہ فائز دہلوی‘حاتم‘ آ برو‘شاکر ناجی اور میر و سوداکے یہاں بھی اس کی جھلک ملتی ہے مگر ان کی نظم نگاری میں زیادہ تر مخمس‘شہر آشوب‘مثنوی اور ہجو کی مثالیں مو جود ہیں۔
نظم گوئی کو در حقیقت جس شاعر نے تنوع اور ترقی عطا کی اس کا نام نظیر اکبر آبادی ہے۔ نظیر نے خصوصی طور پر اس فن کو اپنا وسیلۂ اظہار سخن بنایا اور ایسی ایسی نظمیں خلق کیں جو ان کے زمانے میں تو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھی گئیں مگر بعد کے زمانے میں جو شہرت انھیں حاصل ہوئی دوسروں کے حصے میں کم آئی۔ان کی نظموں میں ہندستانی تہذیب کی روحانی جھلک چھلکے پڑتی ہے۔جن میں وطن کی مٹی کی خوشبو اور وطن سے محبت کا خوب خوب اظہار ہوا ہے۔ان کی نظمیں آدمی نامہ ‘ بنجارہ نامہ‘ روٹیاں‘ شہر آشوب ‘ ہولی ‘شبِ برات‘ عید‘ راکھی اور برسات وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
نظیر کے بعد جن شعرا نے نظم گوئی کو بامِ عروج پر پہنچایاان میں محمد حسین آزاد‘ حالی اور شبلی کے علا وہ چند ایک نام اور لیے جا سکتے ہیں۔مذکورہ شعرا نے نظم گوئی کو ایک خاص مقام عطا کیا۔حالی’برکھا رت‘مرثیۂ دلی‘قرض لے کر حج کو جانے کی ضرورت‘چکبست ’رامائن کا ایک سین‘آوازۂ قوم‘کشمیر ‘ قوم کے سورماؤں کو الوداع‘سرور جہان آبادی’بے ثباتیِ دنیا‘یادِ طفلی‘گنگا‘ مادرِ وطن ‘پدمنی‘نے اس چراغ میں تیل ڈالنے کا کام کیااور اس کی آبیاری میں خون جگر صرف کیا۔اکبر الہ آبادی ’فرضی لطیفہ ‘پیرو مرشد نے کیا‘وہ ہوا نہ رہی‘ مستقبل ‘نے اسے طنز و مزاح کا ایک نیا رنگ عطا کیا۔ اقبال ’ہمالہ‘ ایک آرزو‘نیاشوالہ ‘ شعاع امید‘ساقی نامہ‘خضرِراہ‘ مسجدِ قرطبہ‘ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ‘نے اپنی گراں قدر نظمیں تخلیق کر کے اس کے وقار کو اور بلند کیا۔
جوش ملیح آبادی : ’صبح و شام‘برسات‘چاندنی رات ‘میکدے کی رات‘بدلی کا چاند‘کسان‘ مولوی‘ نقاد‘فاختہ کی آواز‘‘نظم طبا طبائی’گورِ غریباں‘ اس طرح وطن کی خیر مناتے ہیں‘ شوق قدوائی اورصفی لکھنوی نے اس کارواں کو آگے بڑھایا اور دور تک لے گئے۔اکبر الہ آبادی نے طنز و مزاح کی صورت نظمیں لکھ کر اس کی مقبولیت میں اور اضافہ کردیا۔ترقی پسند تحریک نے بھی اسے خوب جلا بخشی۔ترقی پسندی کا دور اردو نظم نگاری کا سنہرا دور رہا۔فیض ’نثار میں تیری گلیوں پہ‘ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ یاد‘ تنہائی‘ صبح آزادی‘مجھ سے پہلی سی محبت‘ہم لوگ‘فراق‘مجروح‘ جمیل مظہری‘اخترا لایمان ‘احسان دانش‘ ساحر‘ جا ں نثار اختر‘ علی سردار جعفری ‘مجاز‘مخدوم محی الدین حامد اللہ افسر‘حسرت موہانی اور خلیل الرحمن نے اردو نظم گوئی کے وقار کو کافی بلند کیا۔نیزتاج محل‘خاکِ دل ‘ایک لڑکا‘ان ہاتھوں کی تعظیم کرواور موسمِ بہار کا آخری پھول جیسی نظمیں لکھ کر اردو نظم گوئی میں چار چاند لگا دیا۔لیکن جدیدیت کے دور میں اس کی شکل اور ہیئت میں ایسی تبدیلی آئی کہ عام قاری دم بخود رہ گیا۔ انوکھی علامتیں‘تشبیہات اور استعارات نے اس کی ایسی شکل بنائی کہ اس کی پہچان مشکل ہوگئی اور قاری ایسی شاعری سے پناہ مانگنے لگا۔
ایسے نظم نگاروں میں ن م راشد‘ میراجی‘نذیر احمد ناجی‘ مجید امجد ‘کمار پاشی‘ بلراج مینرا‘عمیق حنفی بلراج کومل، حمایت علی شاعراور وزیر آغا کے نام شامل ہیں۔ مگر ان کی تخلیقات ایسی نہیں تھیں جو اہلِ علم ودانش کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔ ان کی تخلیقات کو بھی ادبا و شعرا نے احترام کی نظروں سے دیکھا‘سمجھا اور پرکھا بھی ۔لیکن اس تحریک کے بعد نظم گوئی کا رجحان پھر بدلا۔ 
پابند نظموں کے بعد معریٰ نظموں کا دور آیا جو ردیف اور قافیے کی پابندیوں سے آزاد تھیں۔پھر آزاد نظمیں لکھی جانے لگیں جو ردیف ‘قافیہ کے ساتھ ساتھ بحر اور وزن سے بھی آزاد ہو گئیں۔دراصل یہ پابند نظموں یا مصرعوں کو توڑ پھوڑ کر بنائی جانے لگیں۔اس کے علم برداروں میں میرا جی پیش پیش رہے۔اس سے بھی جی نہیں بھرا تو نثری نظمیں حصارِ تحریر میں آنے لگیں۔ 
نثری نظم کے پرستاروں میں سجاد ظہیر‘ میرا جی ‘ بلراج کومل‘ خورشیدالاسلام ‘ندا فاضلی‘ قاضی سلیم‘ ابر رضوی‘ عادل منصوری‘ باقر مہدی‘خلیل الرحمن اعظمی‘احمد ندیم قاسمی اور کشور ناہید کے نام شامل ہیں۔
مغربی بنگال کی سرزمین بھی شعرو ادب کے لیے آغاز سے ہی کافی زرخیز رہی ہے۔ یہاں بھی اردو ادب کا ذخیرہ ناقابلِ شمار ہے ۔جس کی اہمیت و افادیت نیز مقبولیت و شہرت عام ہے۔یہ سرزمین غزل گوئی کے علاوہ نظم نگاری کے لیے بھی ہمیشہ سازگار رہی۔ابتدا میں یہاں کی شعری فضا کو روایت پسندی سے زیادہ مانوس رہی ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہاں کے شعرا کو بھی عصری حسّیت اور وقت کی ضرورت کا احساس ہوا ۔ان کا بھی سفر روایت اور ترقی پسندی سے نکلتے ہوئے جدیدیت کے مرحلے سے بھی متعارف ہوا۔یہاں کے شعرا بھی کسی سے کم نہیں رہے اور کاروانِ شعرو سخن کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ایسا بھی ہوا کہ بنگال کے شعرا غزلیں اور نظمیں یہاں کہتے اور ان کی دھمک دلی تک سنائی پڑتی۔ان کی فکری جہات کبھی سست نہیں ہوئی۔ یہاں نظم گو شعرا کی کبھی کمی نہیں رہی۔بلکہ یہاں کے نظم گو شعرا کی شناخت ملکی سطح سے نکل کر عالمی سطح تک پہنچ چکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کبھی اس کا مدلل محاسبہ نہیں کیا گیا ۔چند صفحات کے مضامین میں سب کچھ سمیٹنے کی کوشش کی گئی۔اس طرح اس کا پورا چہرہ ادبی آئینے کے روبہ رو عکس ریز نہ ہو سکا۔ یہ مضمون بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔ جو شاید اس کی توسیع ہو۔دراصل اس پر مفصل کام ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ورک شاپ کی بھی ضرورت ہے۔ناچیز کی تحقیق و مطالعے میں بنگال کے جو شعرا دستیاب ہوئے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔:
بدرالزماں بدر کلکتوی :(1876-1934 )نام بدرالزماں تخلص بدرکلکتہ کے نظم گو شعرا میں سرِ فہرست نظر آتے ہیں۔یہ ایک کہنہ مشق شاعر تھے ۔غزلیں بھی کہتے تھے اور نظمیں بھی۔ان کے دو شعری مجموعے خالص نظموں کے منظرِ عام پر آئے اور کافی مقبول ہوئے۔ پہلا مجموعہ’ لمعات بدر‘ 1912 میں اور دوسرا ’ ضیائے بدر‘1914 میں شائع ہوا۔شاید ان سے پہلے کسی نے نظمیں کہی ہوں مگر اب تک کی تحقیق تک کسی دوسرے کا انکشاف نہیں ہوسکا ۔ ہو سکتا ہے شعرا میں نظم گوئی کا رجحان کم رہاہو۔مذکورہ دونوں کتابیں نایاب ہیں لیکن(بقول پروفیسر یوسف تقی مذکورہ دونوں کتابیں نیشنل لائبریری کلکتہ میں موجود ہیں) مگر اتنا ضرور ہے کہ بدر صاحب فنِ شاعری سے بخوبی واقف تھے ۔ ان کی نظموں میں وہ بیشتر خوبیاں موجود تھیں جو نظم نگاری کے تقاضے ہیں۔وہ ناول نگار بھی تھے۔ان کے ناول کا نام ’احسن ‘ ہے جو اب تک غیر مطبوعہ ہے۔وہ شمس کلکتوی سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔بنگال میں نظم اور ناول نگاری میں ان کو اولیت حاصل ہے۔اس لیے کہ ان سے پیشتر یہاں کے شعرا وادبا کے یہاں ان اصناف سے بیزاری یا عدم توجہی کا رجحان ملتا ہے۔
وحشت کلکتوی :(1881-1956)نام سید رضا علی اور تخلص وحشت۔شمس کلکتوی کے شاگردِ عزیز تھے۔نظم و نثر دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ان کی شخصیت ضوفشاں چراغ سخن کی تھی جس سے نہ جانے کتنے چراغ روشن ہوئے۔وہ اپنے عہد کے لیے پیغامِ انسانیت‘پیغامِ محبت اور انسانی رواداری کا سبق لائے تھے۔وہ بنگال کے واحد شاعر تھے جنھوں نے بدر کے فروزاں چراغ کی لو کو تیز ترکیا۔وحشت کلکتوی کے یہاں جدید طرز کی نظمیں ملتی ہیں۔ان کی معروف نظموں میں دست گیریِ عشق‘کبھی کی یاد‘ماتمِ آرزو‘غالب اور میرکے علاوہ زبانِ اردو شامل ہیں۔جن میں کبھی کی یاد اور ماتمِ آرزومعرّا نظمیں ہیں۔باقی تین نظمیں مسدس کے پیرہن میں ہیں۔جن میں ہنگامی حالات اور تقاضے کے عناصر زیادہ ہیں۔نیز داخلی احساسات و جذبات کو خصوصی طور پر پرویا گیا ہے۔
آرزو سہارن پوری : (1899-1983)اصل نام سادھو رام بقول ڈاکٹرالف۔ انصاری سید شاہ رشید علی اورقلمی نام آرزو سہارن پوری۔جائے پیدائش کلکتہ۔ایک مشہور و معتبر شاعر تھے۔ غزل اورنظم دونوں اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔بنگال کے نظم گو شعرا میں ان کا نام بھی ادب سے لیا جاتا ہے۔ان کی نظموں میں لکھنوی انداز ‘محاورات و ٹکسالی زبان کی جھلک دکھائی پڑتی ہے۔موصوف نے بھی حرماں نصیبی ‘ معذرت و لاچاری ‘عصری منافرت و مخاصمت ‘انقلاب و حریت کو اپنا موضوع بحث بنایا ہے۔ان کی مشہور نظموں میں ساز حقیقت ‘نغمۂ حریت ‘نوجوانِ انقلاب ‘افکارِ نو‘میرا مذہب شامل ہیں۔ نے و نغمہ ‘ الہام سحر ‘ ظہور قدسی‘ حدیث آرزو ‘شعاع بغداد‘ اور بہارستان اولیا آپ کی شعری تصنیفات میں شامل ہیں۔ 
جمیل مظہری : (1905- 1980)اصل نام سید میر کاظم علی ۔پیدائش 1905 اور وفات 23 جولائی 1980 کو ہوئی۔جمیل مظہری کا رشتہ بنگال سے اٹوٹ رہا ہے۔ ہر چند کہ وہ یہاں مختصر قیام کے بعد چلے گئے تھے لیکن وہ اکثر اپنے بھائی رضا مظہری کے یہاں آیا کرتے تھے۔اس لیے انھیں بھی بنگال کے نظم گوشعرا میں شامل سمجھا جانا چاہیے۔جمیل مظہری غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی اچھے شاعر تھے۔ان کی غزلیں جس تیور کی ہیں نظمیں بھی اسی رنگ اور مزاج کی ہیں۔ان کی نظموں میں مشاہدات حیات و کائنات اور بو قلموں کیفیات کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔حب الوطنی کی جھلک بھی موجود ہے۔ان کی قابلِ ذکر نظموں میں نالۂ جرس ’ نوائے جرس‘ آدمِ نو کا ترانۂ سفر‘حقیقت‘اپنی خواہش ‘ اس کی مسیت‘پیام اور فسانۂ آدم شامل ہیں۔
اشک امرتسری : (1900-1956) اصل نام محمد امین‘قلمی نام اشک امرتسری۔پیدائش 1900 اور وفات 20اگست 1956۔ترقی پسند شاعری کے امین ‘غزل سے زیادہ نظم گوئی میں مقبول تھے۔بقول ڈاکٹر معصوم شرقی ’بظاہر ان کا کلام نظیر اکبر آبادی کی فکری روایت کا زائیدہ معلوم ہوتا ہے لیکن ان کی جودتِ طبع نے اپنے وقت اور ماحول کی مطابقت سے کچھ اختراعی جدت سے کام لیا اور زمانے کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس سے رو گردانی نہیں کی۔‘(شعرائے بنگالہ حصہ اول)
کشمکش حیات کا منظر نامہ اگر دیکھنا ہو تو ان کی نظموں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ان کی شاعری میں عوام کی باتیں ہیں ۔ عوام کا دکھ درد ہے۔ عوامی کرب سے ان کی نظمیہ شاعری لبریز ہے۔’سیلِ اشک ‘ان کا واحد شعری مجموعہ ہے۔ان کی مشہور نظموں میں بنجارہ نامہ‘ ہلہ آتا ہے فقیر کی صدا‘ ڈھول‘ آدمی‘امن کا پیغام‘تب دیکھ بہارِ کلکتہ‘پیسہ‘روٹیاں‘ٹن ٹن ٹن وغیرہ شامل ہیں۔ 
رضا مظہری : (پ1908 - ) اصل نام سید امیر رضا کاظمی۔بنگال کے نظم گو شعرا میں رضا مظہری کا نام بھی شامل ہے۔وہ ایک خوش فکر شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نظم نگار بھی تھے۔ان کا شعری مجموعہ ’خار و خس‘1977 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ان کی نظموں میں غمِ جاناں اور غمِ دوارں کا تذکرہ عام ہے۔ ان کے یہاں رومان کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کی مشہور نظموں میں الزام‘اجتناب‘آخری التجا قابلِ تحسین ہیں۔
پرویز شاہدی : (1910-1968 ) اصل نام سید اکرام حسین۔ پیدائش 1910 اور وفات 5مئی 1968 ۔ بنگال میں صنف نظم نگاری کی لو کو تیز کرنے میں پرویز شاہدی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔بنگال میں نظم گوئی کو فروغ دینے میں پرویز شاہدی کا بڑا ہاتھ ہے ۔ ہر چند کہ آغاز میں انھوں نے رومانی شاعری کی مگرترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی شاعری میں عصری حالات کے عناصر بکثرت در آئے۔ وہ اشتراکی نظریات سے بھی جڑے اور سماجی و اقتصادی مسائل کی ترجمانی بھی اپنی نظموں میں خوب کی۔ انقلابی دور میں داخل ہونے کے بعد ان کے رخش خامہ کی رفتار اور تیز ہوگئی۔ان کی خوش کلامی میں اور اضافہ ہوا۔موضوعات حیات کی تشریح کو وسعت ملی۔ایک مخصوص نظریے سے منسلک ہونے کے باوجود فکرو نظر کا دائرہ تنگ نہیں ہوا۔ ان کی تخلیقات کے ترجمے بنگلہ زبان میں بھی ہونے لگے۔رقص حیات اور تثلیث حیات کی اشاعت کے بعدان کی شہرت میں چار چاند لگ گیا۔وہ بنگال میں ترقی پسند تحریک کے میرِ کارواں اور اشتراکی نظریات کے روحِ رواں تھے۔ جدیدیت کا رنگ بھی ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔
عباس علی خاں بیخود: (1906- 1969) عباس علی خاں بیخودعلامہ وحشت کے شاگرد تھے۔ غزل گوئی میں مہارت رکھتے تھے مگر نظمیں بھی لکھتے تھے۔ ان کی پیدائش فیض آباد میں ہوئی تھی، ان کا دیوان ’جام بیخود‘ 1945میں چھپا۔ 
حسن نجمی : (1913- 1990)اصل نام محمد حسن خان ۔بقول قیصر شمیم’حسن نجمی کی ابتدائی شاعری کا دور ہندستان میں ترقی پسند شاعری کے عروج کا دور تھا۔بنگلہ میں قاضی نذرالاسلام اور اردو میں جوش ملیح آبادی کی ولولہ انگیز نظموں کی دھوم مچی ہوئی تھی۔بنگال میں پرویز شاہدی مطلعِ ادب پر نمودار ہو کر اپنی روشنی بکھیر رہے تھے۔بنگال کے عطا کیے ہوئے سیاسی اور سماجی شعور نے نجمی صاحب کو اسی کارواں کا ایک فرد بنا دیا۔اور وہ شانہ بشانہ چلتے ہوئے اپنے بعض ہم سفروں کا اثر قبول کرتے رہے۔‘‘ ’شعرائے بنگالہ حصہ اول ۔ص۔241‘۔
موصوف نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظم نگاری بھی کی ہے۔ان کی دو کتابیں ’شبِ چراغ ‘ اور ’ کسک ‘ ادبی حلقے میں کافی مقبول ہوئیں۔
سالک لکھنوی : (1913- 2012) اصل نام شوکت ریاض کپور،ادبی نام سالک لکھنوی۔ پیدائش 1913 اور وفات 16 دسمبر 2012 ۔’کثیرالجہات شخصیت کے مالک اور بنیادی طور پر نظم گو شاعر تھے۔‘لیکن غزل اور نظم دونوں اصناف میں استادانہ صلاحیت کے مالک تھے۔پسِ شعر اور بے سروپا‘ ان کے نثری مضامین کے مجموعے ہیں۔’کلام ‘ ان کا شعری مجموعہ ہے۔ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے ان کو رغبت تھی۔ان کی غزلوں میں جہاں جمالیات کا رنگ نمایاں ہے وہیں ان کی نظموں میں بھی عصر ی آگہی کی کرنیں نمایاں ہیں۔ان کی مشہور نظموں میں ویت نام‘برائے زندگی ‘تصویر ‘بنیاد کی اینٹیں‘خونی جشن آزادی ‘ابھی کچھ رات باقی ہے۔‘لوحِ تربت‘ویرانے‘ کو ہساروں کی بستی‘جاگ اٹھا بنگلہ دیش‘سورج کی تھالی اور خوابِ آزادی شامل ہیں۔
ابراہیم ہوش : (1918-1988) نام محمد ابراہیم اور قلمی نام ابراہیم ہوش ۔پیدائش 1918 اور رحلت 17 اگست 1988 ۔آپ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی۔آپ کی شاعری میں قوتِ ارادی کو بڑا دخل تھا۔نیز کھرا پن بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔حق گوئی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ آپ نے اپنی شاعری میں خوب کیا ہے۔آپ کی شاعری کے کلیدی استعارے پیس اور صحرا ہیں ۔آپ کی خود اعتمادی اور اعتبار قابلِ ذکر ہیں۔آپ کی نظموں میں حالات حاضرہ اور عصری آگہی کی جھلکیاں اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ 
واحد آروی : (پ1922-) اصل نام عبدالواحد‘قلمی نام واحد آروی کا تعلق ہوڑہ سے تھا۔ شاعر بڑے ضرور تھے مگر غریبی کی وجہ سے ان کا قد چھوٹا تھا۔ان کے تین شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے۔ پہلا’اپیل‘’1975 ‘ دوسرا ’رپورٹ‘1977 اور تیسرا ’آدمی‘ 1980‘۔غربت اور افلاس کا مارا یہ شاعر علم و حکمت کا دھنی ضرور تھا۔مگر قسمت کے آگے مجبور تھا۔واحد آروی کی شاعری میں زندگی کے تلخ تجربات و مشاہدات کے عکس ریزے جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔دردو غم موصوف نے بھی جمع کیا تو دیوان کیا۔آہ و کراہ کے نقوش ایک ایک شعر اور نظم میں سلگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کی نظموں میں اپیل‘ خون تہذیب کا ‘ میرا اعلان‘حصار ‘ جھلسا درخت‘پل‘تھوڑی چائے‘رات کے دو بجے‘شیرا نام کی‘ بیرنگ خط ‘آدھی ساری‘ یہ ہوڑہ ہے‘ننگی لڑکی ‘سوچ‘ بے چینی‘ ساٹھ روپیے کیا کروں ‘میں جھوٹا ہوں‘اور منے کی سالگرہ غیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
احسان دربھنگوی : (1922-1998)اصل نام احسان الرحمن خان‘ادبی نام احسان دربھنگوی‘ پیدائش 1922 اور وفات 28 جولائی1998 ‘بنگال کے نظم گو شعرا میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔جہاں انھوں نے غزلیں معیاری اور منفرد کہی ہیں نظمیں بھی اپنی شناخت الگ رکھتی ہیں۔ریزہ ریزہ خواب کو اپنی نظموں میں سجانے والا کوئی اور نہیں بلکہ احسان دربھنگوی ہی ہیں۔وہ روایت پسند بھی تھے اور ترقی پسند بھی۔ان کی طبیعت میں رومان کا عنصر بھی شامل تھا۔اس لیے اس کی عکس ریزی ان کی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ شہرِ آرزو‘ 1985میں منظرِ عام پر آیا تھا ‘جس کی مقبولیت اور خراجِ تحسین سے ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔وہ علامہ جمیل مظہری کے شاگرد تھے۔استاد کے رنگ کا اثر بھی ان کی شاعری میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔بقول جمال اویسی’ان کی شاعری کا دوسرا پہلو نظم کا ہے جہاں ان کی افتاد طبع بھی اپنا کچھ رنگ پیدا کرتی ہے۔ان کی نظموں میں ان کی غزلوں کی طرح فکر اور کیفیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔’کلامِ احسان ‘میں ان کی تقریباً29 نظمیں شامل ہیں جو اپنی اہمیت و افادیت رکھتی ہیں۔‘ ان کی اچھی اور متاثر کن نظموں میں سوزِدروں‘حقیقتِ عریاں‘فسانۂ آدم ‘ پیسہ‘ تلخ حقیقت‘ تشکیل نو‘ملاؤں سے خطاب‘ ماتمِ آرزو‘ایک سوال اور آشفتگی کے علاوہ بھی نظمیں قابلِ تحسین ہیں۔
اس عہد کے دیگر نظم گو شعرا میں منی لال جواں(فریاد جوابِ فریاد1959) ‘ناظرالحسینی‘ (1927-1973) نکہت و نغمہ1959‘رئیس الدین فریدی ‘کنول سیالکوٹی‘مضطر حیدری ((1920-14/5/1975 (جامِ جم 1967)‘میر محمود طرزی‘رابعہ سلطانہ ناشاد’ناسور اور طوفانِ غم‘ ارمان شام نگری نظام الدین نظام’مینارۂ نور1965 اوربرقِ شرر1971‘سعید قدرت’تجدیدِ مرگ1977‘ اور حسن اثر بھی ایسے شعرا تھے جنھوں نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظم نگاری بھی کی ہے اور قابلِ پسند نظمیں لکھی ہیں۔رئیس الدین فریدی کی نظموں کا مجموعہ ’سبزہ وگل‘ ہے جس میں سبھاش زندہ باد‘لکشمی بائی‘وطن ہمارااور قربانی اچھی اور قابلِ داد نظمیں ہیں۔کنول سیالکوٹی کی قابلِ ستائش نظموں میں قومی ترانہ‘ بھگوان رام‘نیا سال‘اور راز حیات شامل ہیں۔
حرمت الاکرام : (1927-1983) اصل نام انصار حسین اور قلمی نام حرمت الاکرام اردوکے ادبی رسائل میں تواتر سے چھپنے والے شعرا میں ان کا نام نمایاں ہے۔ڈاکٹر محمد حسین نے ان کو سرِ فہرست غزل گو شعرا میں شمار کیا ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے انھیں غیر مشروط ذہن کے تین بانیوں میں جگہ دی ہے۔نہایت ہی شریف اور منکسر المزاج انسان تھے۔موصوف نے غزل کے علاوہ نظم گوئی کو بھی اپنی شعری کائنات میں شامل کیا ہے۔ان کی نظموں میں تازہ کاری ‘شادابی ‘اور خوبصورت اسلوب نگاری دیکھنے کو ملتی ہے۔’کلکتہ ایک رباب‘1966 ان کی ایک شاہکار نظم ہے۔جس کے بارے میں پرو فیسر کرامت علی کرامت لکھتے ہیں:’حرمت الاکرام کو شاعری میں مینا کاری کا فن بھی معلوم ہے اور تعمیرِ عبارت کا فن بھی ۔حالانکہ دونوں صنفوں کا یکجا ہونا آسان بات نہیں۔چناں چہ ان کی طویل نظم ’کلکتہ ایک رباب‘ایک ایسے تاج محل کی حیثیت رکھتی ہے جس میں دونوں طرح کے فنون عروج پر ملتے ہیں ‘اب اس کے آگے کچھ کہنا فضول گوئی کے سوا کچھ نہیں۔ان کی نظموں کے مجموعے میں ’اجالوں کے گیت۔1957‘کھیل کھلونے۔بچوں کینظمیں1972‘شہپر1973 اورجلوۂ نمو 1977 شامل ہیں جن میں سوز و گداز ‘درد و الم اورکرب وکراہ کا رنگ نمایاں ہے۔
ناظم سلطان پوری : (1927- 2011)اصل نام محمود خان اور قلمی نام ناظم سلطان پوری۔جائے پیدائش سلطان پور۔وفات 19 اکتوبر 2011 کلکتہ ۔شعری مجموعے’ حرف آگہی‘1977‘’آیاتِ نظر ‘ 1989 اور تیسرا ’میراث غزل2002 ‘ابتدائی دور میں وہ نثر نگاری کی طرف مائل تھے ۔ بعد ازاں غزل گوئی سے رشتہ منسوب کرلیااور صنف غزل کو خوبصورت غزلیں عطا کیں جو مشاہداتی بھی ہیں اور تجرباتی بھی۔انھوں نے نظمیں بھی رقم کی ہیں جن میں زمانے کی سچائی اور زمین کی حقیقت نگاری کا شائبہ صاف نظر آتا ہے۔ان کی نظموں میں ایک خاص رچاؤ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔لفظوں کی آرائش اور جذبوں کی گہرائی بھی قابلِ تحسین ہے۔
مظرب بلیاوی : (پ1929-) اصل نام نواب حسین ‘قلمی نام مطرب بلیاوی ۔ ہوڑ ہ کے خوش گو اور خوش فکر شاعروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کے کلام میں غضب کی کشش اور رچاؤ ہے۔ نظمیں تو اتنی پُر اثر کہتے ہیں کہ اختتام کے بعد قاری کسی عجیب کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایک عجیب سا احساس اسے اپنی گرفت میں تا دیر مقید رکھتا ہے۔ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام ’[شجرِ درد کے پھول‘ ہے جو 1988 میں منظرِ عام پر آیا تھا اور دوسرا مجموعہ ان کی وفات کے بعد 2011 میں ’کلامِ مطرب ‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ دونوں کی پذیرائی اہلِ سخن میں خوب ہورہی ہے۔ان کی خوبصورت نظموں میں غیب کی آواز ‘تکبّر‘ایک نظم ‘اعتراف ‘ وعدہ ‘وعد ے کی شب‘ٹوٹی ہوئی قدروں کا المیہ اور ہلالِ عید شامل ہیں۔ 
علقمہ شبلی : 1930-(پ1930 - )اصل نام ابو علقمہ محمد شبلی اور قلمی نام علقمہ شبلی۔بنگال کے شعری و نثری ادب میں علقمہ شبلی کا نام کافی شہرت کا حامل ہے۔ان کی ہر تخلیق لائقِ صد احترام اورقابلِ قدر ہے۔ان کے اذہانِ اعلیٰ اور ادراکِ بالا سے کسی کو انکار نہیں۔جلتے ہوئے مسائل اور حالاتِ حاضرہ پر فوری قلم اٹھانے اور خامہ فرسائی کرنے میں وہ پیش پیش رہتے ہیں۔وہ بنگال کے شعرو ادب کی آبرو ہیں۔
علقمہ شبلی ایک اچھے انسان اور مشفق استاد ہیں۔شرافتِ نفسی اور منکسر المزاجی ان کے ایک ایک عمل سے جھلکتی ہے۔ادبی لحاظ سے وہ ہر فن میں مشاق ہیں۔مسائلِ حیات اور دلی جذبات کو اشعار کے پیکر میں برتنے میں وہ ماہر ہیں۔وہ کلاسکی مزاج رکھتے ہوئے بھی جدت طرازی کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ان کی تخلیقات میں ادبی چاشنی اور تہہ داری نمایاں ہے۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’دھوپ دھوپ سفر‘2002 میں منظرِ عام پر آیا تھا، جس کی ادبا وشعرا کے علاوہ اردو حلقے میں کا فی پذیرائی ہوئی۔ موصوف کی نظم نگاری میں جہدِ مسلسل کی ترغیب‘تعمیری جذبات ‘ندرت آگیں تشبیہات و استعارات اور ظلم و استحصال کے خلاف کھلے عام احتجاج ملتا ہے۔مواد اور موضوع کی برجستگی کے علاوہ اسلوب کی تازہ کاری اور جدت نگاری کے قمقمے بھی روشن نظر آتے ہیں۔ان کی قابلِ تحسین نظموں میں تخلیق‘ خوشۂ گندم ‘ کلکتہ‘ لفظ و معنی کا رشتہ‘انتظار‘دھوپ دھوپ سفر‘چراغِ آفریدم‘وہ لڑکی ‘میں کی تلاش اورروح کا درپن شامل ہیں ۔ 
مظہرا مام : (پ1930- )پورا نام سید مظہر امام قلمی نام مظہر امام۔خالص غزلوں کے شاعر رہے مگر نظمیں بھی لکھی ہیں۔جو اہلِ علم و فن کی نگاہ میں مقبول ہوئیں اورتحسین بھی ہوئی ۔ان کی نظموں میں ’درد وغم ‘کرب و کراہ اور سوز و ساز کی کیفیتیں خصو صی طور پر ملتی ہیں۔انھوں نے نثر نگاری بھی کی ہے ’آتی جاتی لہریں ‘ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔غزلوں کے بھی ان کے کئی مجموعے شائع ہو کر مقبولیت کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ کلکتہ میں گزرا ہے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہونے کے سبب ان کو ہندستان کے مختلف حصوں میں جانا پڑا۔ آخری ایام دہلی میں گزارے اور وہیں انتقال بھی کیا۔
مظہر امام نے ڈھیر ساری نظمیں کہی ہیں جن میں ان کا رنگ و آہنگ اور افکارو خیال رقصاں ہیں۔ ان کی قابلِ تحسین نظموں میں کھویا ہوا چہرہ‘ کنگال آدرش‘راستے کی تلاش‘اکھڑتے خیموں کا درد اور رشتہ گونگے سفر کا شامل ہے۔
رونق نعیم : (1932-2014) اصل نام محمد ابوالقاسم صدیقی اور ادبی نام رونق نعیم۔پیدائش 1932 رانی گنج ‘آسنسول۔بحیثیت شاعر بنگال کے علاوہ ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی مقبول رہے۔ادبی رسائل کی زینت بھی بنے۔مشاعرں کے مقبول شاعر بھی رہے۔ان کی شاعری میں پختگی اور پائداری بھی ہے اور شگفتگی اور شائستگی بھی۔معراج احمد معراج نے انھیں شعرو ادب کا کالا ہیرا کہا ہے جو تراشیدہ اور نور فشاں ہے۔اور جن کی کرنوں سے مغربی بنگال کی شاعری کا دامن منور ہوا ہے۔ان کی نظموں میں تازہ کاری کی مثالیں جا بجا ملتی ہیں۔۔جدیدیت اور روایت کا امتزاج ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔نظمیں وہ تواتر سے کہتے تھے۔ جن میں نئے نئے موضوعات کو زیرِ بحث لائے ہیں اور امکانات کے چراغ روشن کیے ہیں۔جن میں وطن پرستی اور مناظرِ فطرت کی عکس ریزی و ترقی پسندی کی علامت نمایاں ہے۔
محمد سمیع اللہ اسد: (پ (1933- اصل نام محمد سمیع اللہ اور تخلص اسد۔وہ بہت ہی پختہ مزاج اور خوش فکر شاعر تھے۔زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں کا ان کی شاعری میں خاصا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔وہ عربی و فارسی سے بخوبی واقف تھے۔بہت ہی انا پرست انسان بھی تھے۔کاسۂ گدائی کی طرف کبھی دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔قناعت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ان کا کلام لغویات اور لایعنی جدیدیت سے پاک ہے۔ان کی نظمیں حالات حاضرہ کی عکاس ہیں۔غبارِ خاطر۔(غزلوں کا مجموعہ1997) اورجستہ جستہ 2004 ان کے دو شعری مجموعے ہیں۔وہ نظم گوئی میں اچھی شہرت رکھتے تھے۔ شاعری کے گلیاروں میں وہ نظم گو شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ان کی مشہور نظموں میں ’میں شاعر ہوں ‘ فریبِ عہد‘ خوابِ سحر ‘شامِ ہلال عہد‘چہرہ چہرہ رنگ رنگ ‘دو تہذیبوں کا ملاپ ‘وغیرہ شامل ہیں۔
حشم الرمضان :( 1934-2013)اصل نام محمد حشم الدین اور ادبی نام حشم الرمضان۔پیدائش 17 فروری 1934 ‘گارولیہ شمالی چوبیس پرگنہ اور وفات5 مارچ 2013 ۔نہایت ہی خوش مزاج اور درد مند انسان تھے ۔فنِ سخنوری میں مہارت رکھتے تھے۔سماج و معاشرے کی منظرکشی میں کمال رکھتے تھے۔وہ معاشرے کے مزاج داں بھی تھے۔وہ حسن اور جمالیا ت کے گرویدہ تھے ۔ان کی نظموں میں نشاط انگیز لمحات اور کیفیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔عورتوں کی بے بسی اور کرب انگیز زندگی کامحاسبہ ان کی نظموں میں جابجا ملتا ہے۔’طوائف ‘اور ’طوائف کی بیٹی‘ ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔ان کی دیگر نظموں میں نہرو‘ اندرا گاندھی ‘ذوالفقارعلی بھٹوکی ذات گرامی کے علاوہ ’مروڑ دو چینیوں کے پنجے‘ترانۂ امن‘برابر کے شریک ‘اور دیپ جلے دیوالی‘شامل ہیں۔
نور بھارتی : (پ1934-)اصل نام نور محمد انصاری اور ادبی نام نور بھارتی‘14دسمبر1934 کو ہوڑہ میں پیدا ہوئے۔نور بھارتی بھی کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں ۔کہانیاں بھی لکھتے ہیں اور مضامین بھی۔ غزلیں بھی کہتے ہیں اور نظمیں بھی ۔بلکہ صنفِ سخن کی دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔آئے دن ان کی تخلیقات اکثراخبار و رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ان کی نظموں میں اچھوتا پن بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔وہ بڑی مرصع نظمیں کہتے ہیں۔ 
اعزاز افضل : (1936- 2005 )اصل نام سیدابوالا عزازافضل پیدائش 20 جولائی 1936 کو کلکتہ میں ہوئی اوروفات یکم جنوری2005 کو ۔پہلا شعری مجموعہ ’زخمِ صدا‘1974 دوسرا ’ان پڑھ آندھی 1980 میں منظرِ عام پر آیا۔نہایت ہی بلند قامت اور قابلِ محتر م شخصیت بھی تھے اور شاعر بھی۔غزلوں کے شاہِ بے تاج اور نظموں کے ماہرِ فن تھے۔انھوں نے اچھی اور معیاری نظمیں کہی ہیں۔ان کی نظموں میں نئے خیالات اور افکار کی شمعیں فروزاں ہیں۔محمد حسن نے ان کو کلکتہ کے سب سے چہیتے شاعر کہا ہے اور یہ بھی کہاہے کہ ان کی شاعری میں تھکن نہیں تازگی ہے۔ان کی معروف نظموں میں’تشویش‘اندھیرے سے نہ ڈر‘تقسیمِ درد ‘سوال ‘روپوش‘انگارے ‘مجاہد کی موت‘ آواز کا سفر‘شام و سحر‘ دل دردِ دل‘اور آزردہ بہاریں شامل ہیں۔
قیصر شمیم : (پ936- 1) اصل نام عبدالقیوم خان اور ادبی دنیا میں شہرت پائی قیصر شمیم کے نام سے۔پیدائش 02اپریل 1936 کو انگس ’چاپدانی ‘میں ہوئی۔ہوڑہ وطن ثانی قرار پایا۔بنگال کے استادالشعرا میں شمار ہوتا ہے۔صنف ادب کے ہر میدان کے کھلاڑی ہیں۔ان کے نگار خانے میں ہر طرح کی شمعیں فروزاں ہیں۔ ساعتوں کا سمندر ‘ سانس کی دھار اور پہاڑ کاٹتے ہوئے ان کے تین نایاب شعری مجموعے ہیں۔ جس میں سرورِزندگی ‘آلامِ حیات‘عکسِ کائنات سب کچھ موجود ہے۔ان کی قابلِ ذکر نظمیں ایک صبح ہگلی کے کنارے‘ملن‘ تہذیب کا زندانی‘ آج کا انسان‘سرِراہ‘ سمندر بیکراں ہے‘نئے کوہ قاف کی کھوج‘کل آج اور کل ‘مجھے چھوڑو‘مجھے دکھ ہے‘درد آنسو اور مسکان‘ تنہائی‘ سنگِ ناتراشیدہ وغیرہ شامل ہیں۔
حامی گورکھپوری :(1936 - 1999) اصل نام عبدالحئی اور قلمی نام حامی گورکھپوری۔ 06 جنوری 1936کو زیراسو تحصیل سلیم پور ضلع دیوریا میں پیدا ہوئے اور11مارچ1999 کو بمبئی میں انتقال ہوا ۔ 1954-55 سے شاعری کا آغاز کیااور خوب نام کمایا۔بڑے کشادہ دل اور فیاض صفت انسان تھے۔ہوڑہ کی شعری فضا کو خوشگوار اور کامیاب بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے وہ استاد شاعر تھے۔ ان کے شاگردوں کی خاصی تعداد آج بھی موجود ہے۔ان کی شاعری کا رنگ اپنا ہے۔وہ اپنے ہمعصروں کی بھیڑ میں منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔خالص ترقی پسندی ان کی شاعری کا حصہ ہے۔وقت اور حالات کے مشاہدات سے ان کی شاعری بھری پڑی ہے۔ان کی شاعری میں ایک الگ رچاؤ ہے۔غریب مزدوراور محنت کش انسان کی مجبوریاں اور مایوسیاں ان کے کلام کا مظہر ہیں۔غزل کے ساتھ ساتھ ان کو نظم نگاری پر بھی عبور حاصل تھا۔ان کی نظموں میں انسانیت سوز واقعات و حادثات کاا ظہار زیادہ ہے۔بے ساختہ اور برجستہ نظمیں کہا کرتے تھے۔ان کی نظموں میں شاخِ زیتون‘ سرخ شعلے کی روشنی‘ہاتھ کی سازش‘زخم خوردہ فاختہ‘جہاں ہم لوگ رہتے ہیں‘شمشیر‘ ایکتا کا شجر‘اور ہوا بھی ہے لہو لہو قابلِ تحسین نظمیں ہیں۔
نصر غزالی : (1938-2012)اصل نام ابو نصرہے اور قلمی نام نصر غزالی۔1938 میں پیدائش ہوئی اور4دسمبر2012کو اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔بنگال کے جدیدشاعروں کی فہرست میں صفِ اول کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ پوری شاعری جدیدیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے جن میں اضطرابی کیفیت نمایاں ہے۔’لہو کا درد‘ اور ’اونچائیوں سے اترتی صدا‘ ان کے دو شعری مجموعے ہیں جو اہلِ علم و فن سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں ۔ان کی نظموں کے موضوعات سلگتے مسائل اورسسکتے حالات رہے ہیں۔ان کی نظموں کی دنیا ایک الگ جہانِ تخیل ہے، جس میں ندرت الفاظ اور قدرتِ بیان کی جھلک نمایاں ہے۔یقین و امکان کی یافت و بازیافت انھوں نے خوب کی ہے۔ 
شہود عالم آفاقی: (پ1940-) دشتِ بیکراں 2000 کے خالق اور شہود کے مدیر اچھے غزل گو اور نظم نگار بھی رہے ہیں۔نہایت ہی سچے اور کھرے انسان تھے سہلِ ممتنع کے ماہر اور خوبصورت غزلوں کے خالق تھے۔سیدھے سادھے سہل انداز میں شعر کہا کرتے تھے۔ جن میں ثقالت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔مشاعرے کی جان اور نہایت ہی مشفق انسان تھے۔ لا گ لپٹ سے دوراپنی دنیا میں مست رہنے والے قلندر صفت انسان تھے۔ان کے اشعار کی گہرائیاں اور گیرائیاں قابلِ تحسین اور داد طلب ہیں۔ ان کی نظموں میں ’تضاد‘ اور سبز پتے ‘اچھی نظمیں ہیں۔
عین رشید : (1942 - 2000)اصل نام عبدالرشید خان اور ادبی نام عین رشید۔پیدائش 1942 میں اور وفات 10 ستمبر2000 کو۔نظموں کے شاعر تھے۔ وہ بھی بالکل آزاد لب و لہجے کا ۔ فنِ سخنوری سے کوئی خاص لگاؤ تو نہیں تھا مگر شعر گوئی کا شوق خوب رکھتے تھے۔ آزاد ‘معرا اور نثری نظمیں کہنے کی کوشش کرتے تھے۔ فن پر دسترس نہ ہونے کے سبب ساری چیزیں آپس میں مل کر ایک الگ رنگ ڈھنگ اور آہنگ اختیار کر لیتیں۔ان کی نظموں کا تجزیہ ایک مشکل امر ضرور ہے مگر فکر اور خیال عمدہ ہیں۔کہنے کا انداز بھی منفرد ہے۔
’آبنوسی خیال‘ان کا شعری مجموعہ ہے جس کی اشاعت 2001 میں ہوئی تھی جو ان کی جہد مسلسل کا ایک گراں قدر ثمرہ ہے۔جس میں تقریباً 35 نظمیں شامل ہیں۔ان کی انفرادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ان میں آبنوسی خیال ‘میرے بعد آ‘بیڑیاں‘ عینی بیٹی‘ زرد پتے ‘سمندر کا خیال ‘ہم سفر‘ بیمار گڑیا‘ کون ہے تو؟‘سر کش‘ پہلا دائرہ ‘وآخری نظم وغیرہ قابلِ داد نظمیں ہیں۔
نور پیکر : (پ1942-) اصل نام محمد نور عالم۔ نور پیکر کے نام سے ادبی دنیا میں شناخت ہوئی۔فنی اعتبار سے مختلف الجہات شخصیت کے مالک ہیں ۔نثر بھی لکھتے ہیں اور شاعری بھی خوب کرتے ہیں ۔ غزل میں اپنی پہچان بنانے کے بعد نظم نگاری میں بھی کافی شہرت کمائی ہے۔ان کی نظمیں اچھوتے خیال کا بڑے سلیقے سے احاطہ کرتی ہیں۔ان کی نظموں کے کلائمکس بڑے دلکش اور دلچسپ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف تقی : (پ1943-) اصل نام یوسف رئیس تقی‘پیدائش 15اگست 1943۔ نظمیہ شاعری کا منفرد مزاج داں۔غزل اورنظم دونوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ان کی شاعری میں تہہ داری اور فنکاری دونوں دیکھنے کو ملتی ہے۔نیز تازہ کاری و گل کاری بھی۔انھوں نے آزاد اور نثری دونوں اقسام کی نظمیں لکھی ہیں۔’خشک ٹہنی زرد پتے ‘ ان کا شعری مجموعہ ہے۔جس میں منفی و مثبت دونوں افکار ونظریات کا محاسبہ کیا گیا ہے۔ان نظمیں اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں جن میں اچھوتے مضامین کے علاوہ اسلوب نگارش کی دلکشی بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ان کی قابلِ تحسین نظموں میں میں جینا چاہتا ہوں مگر ‘بختِ آدم‘خود رو خاردار جھاڑیاں‘اعتراف‘ خواہش‘خود فریبی ‘ تجزیہ ‘آخری فیصلہ ‘واہمہ‘ابھی سورج ڈوبا نہیں ہے‘اور انتباہ ‘شامل ہیں۔
انجم عظیم آبادی : (پ1944- ) اصل نام نعیم الدین۔انھوں نے بھی نظمیں کہی ہیں ۔ غزلیں بھی کہتے ہیں لیکن سب سے زیادہ انھوں نے قطعات لکھے ہیں جو روزانہ آبشار کے صفحات پر چھپتے ہیں۔ وہ کافی مصروف انسان ہیں اور صحافتی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں لیکن جب جب فرصت ملتی ہے نظمیں غزلیں بھی کہہ لیتے ہیں۔ان کی نظموں میں رشتۂ خون ‘محور ‘خیالِ ہم سفر وغیرہ اچھی نظمیں ہیں۔
ایم۔ کے۔ اثر :(پ1945-) تاریخی نام محمد خدا دین اور قلمی نام ایم کے اثربنگال کے آزاد اور نثری نظمیں کہنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ان کی نظموں کا انداز دوسروں سے جدا ہوتا ہے۔وہ زیادہ تر نثری نظمیں کہتے ہیں مگر صاف ستھری اور سمجھ میں آنے والی۔ان کی نظموں میں معنیٰ و مفاہیم اپنے پیکر کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں جن میں انوکھا پن اور بانکپن کے ذائقے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ان کی خاص نظموں میں ’ارتعاش‘اعتراف‘اور سلسلہ قابلِ ذکر ہیں۔
اسماعیل پرواز : (پ1945- ) اچھے شاعر ‘ادیب اور نظم نگار بھی ہیں ۔ادبی رسائل و اخبارات میں تواتر کے ساتھ چھپتے ہیں۔ ان کی غزلیں اور دیگر تخلیقات جس قدر قابلِ تعریف و تحسین ہیں ان کی نظمیں بھی وہی تیور رکھتی ہیں۔موصوف نے بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔ نہایت ہی خوش خلق اور خوش فکر شاعر اور انسان ہیں ۔ ان کی نظم’ محو سفر‘دیکھیں:
ایم ۔علی‘ہوڑہ : ) پ 1946-)اصل نام محمد علی‘ شہرت ایم۔ علی کے نام سے ملی۔ لفظ لفظ میں شاعری کرتے ہیں۔ہمیشہ خیال و فکر میں گم رہتے ہیں ۔بات کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے الفاظ کی گہر باری ہورہی ہے۔یاد داشت بہت اچھی۔ پوری پوری غزل یا نظم زبانی سناتے ہیں۔ مصرعے ایسے جڑتے ہیں جن سے الفاظ کی مرصع سازی صاف نظر آتی ہے۔ بقول شمس افتخاری :
ایم علی کی شاعری میں فصاحت اور بلاغت کا خوبصورت اہتمام و انصرام ہے۔ان کی غزلیں جس قدر پائدار اور مستحکم و مرصع ہوتی ہیں نظمیں بھی اپنی انفرادیت میں یکتا ہیں۔ ان کی نظموں میں ایک خاص قسم کا رچاؤ اور کشش ہوتی ہے۔ 
شمیم انور : (پ1947- )ایسے نظم گو شاعر ہیں جن کی نظموں میں ایک الگ صدائے بیکراں کا احساس ہوتا ہے۔جن کا فکری اور نظریاتی انداز دوسروں سے منفرد ہے۔ان کے اپنے تجربات و مشاہدات نیز احساسات و جذبات اوروں سے میل نہیں کھاتے۔ان کے شعری مجموعے کا نام ’اجنبی خدا ‘ ہے۔جس کی اشاعت ہنگامہ خیز رہی۔جس کی سلگتی ہوئی نظمیں قاری کو ایک دوسرا ہی احساس دلاتی ہیں۔ 
خالق عبداللہ: (پ1947- ) خالق عبداللہ کی نظم گوئی میں باغیانہ رویے کا اظہار نمایاں ہے۔اسلوب منفرد اور دلکش ہے۔ان کی نظموں میں کشش اور کھنچاؤ زیادہ ہے۔ 
ف س اعجاز : (پ1948- )اصل نام فیروز سلطان۔قلمی نام ف۔س۔اعجاز۔پیدائش 2مئی 1948۔موصوف کا ادبی کینوس کا فی وسیع ہے۔نظم و نثر دونوں میدان کے ماہر کھلاڑی ہیں۔بہت زود گو اور بسیار خامہ ہیں۔سفرنامہ‘مضامیں‘ کہانیاں‘ افسانے ‘نیز صنف سخن کی بیشتر اصناف پر طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ان کے یہاں چھن چھن کے مضامین آتے ہیں جن کو وہ حصار تحریر میں لانے سے گریز نہیں کرتے۔ان کی نظموں میں کرب و کراہ روز گارِ الم‘عصری آگہی اور ذات و کائنات کا مکمل احاطہ ملتا ہے۔جن میں عرفان و آگہی ‘جدت و ندرت اور زبان کی چاشنی و چٹخارے سبھی کچھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔نئے مسائل پر قلم اٹھانے والوں میں ان کا بھی نام شامل ہے۔ان کی تصنیفات میں مالکِ یوم الدین1986 ‘لاشریک 1989 ‘صاحب فن 2000 اور چاند پر دیا کے علاوہ سیریا میں دس روز‘ منعکس وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر معصوم شرقی: (پ1948- ) اصل نام عبدالغفار انصاری۔ادبی دنیا میں ڈاکٹر معصوم شرقی کے نام سے معترف ہیں۔ان کی شخصیت بھی کثیر الجہات ہے۔ شاعر ‘ادیب ‘محقق‘اور ناقد بھی ہیں۔ عکس تاب 2009(مجموعہ غزلیات ) اورتحقیقی مقالہ ’اشک امرتسری ۔تعارف ‘تنقید اور تدوینِ کلام۔ 2012 ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔ابھی ڈھیر ساری تصنیفات منتظرِ اشاعت ہیں۔ان کی غزلیں جتنی معیاری ہوتی ہیں نظمیں بھی اپنے اندر وہی تاثر رکھتی ہیں۔ان کی نظموں میں گلکاری کے علاوہ تازہ کاری بھی خوب ہے۔وہ بلا جھجک اپنے خیالات صفحات کے پنوں پر بکھیر دیتے ہیں جن کی رنگت اور نکہت قابلِ دید ہوتی ہے۔ 
موصوف نے مشاہیر شعرا کی غزلوں پر اتنی خوبصورت تضمین لکھی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
مذکورہ شعرا کے تمام تعاون کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بنگال میں اردو نظم نگاری کا میدان آغاز سے ہی کشادہ اور وسیع رہا ہے۔آج بھی اس کے پھیلاؤ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

Mr. Md. Nasrullah Nasar
Shalimar Apartment, 3A, Satyen Bose Road
Danish SK. Lane, Bakultala, Howrah (WB)- 711109
Mob:- 09339976034



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. بنگال کے نظم گو شعراء کے عنوان سے یہ مقالہ ادھورا ہے۔ بنگال کے عنوان کے باوجود مرشد آباد' ہگلی اور دیگر علاقوں کے شعراء کو نظر انداز کیا گیا ہے۔نیز بنگال کے عہد بہ عہد شعراء کا تجزیہ ندارد ہے۔ایسا لگتا ہے کہ الف- انصاری کی کتاب کی تلخیص ہے۔شکریہ

    جواب دیںحذف کریں