22/3/19

نئی نظم میں رومانیت کے ارضی رشتے (تانیثیت کے حوالے سے) مضمون نگار:۔ اشہد کریم الفت



نئی نظم  میں رومانیت کے ارضی رشتے 
(تانیثیت کے حوالے سے)

اشہد کریم الفت
قدیم ترین اور جدید ترین ادب میں ایک بنیادی فرق ماورائیت اور ارضیت کا ہے۔ آج ادب براہِ راست زندگی سے جڑکر زمینی حقیقت کو پیش کرنے میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے ۔ آج کی زندگی جہاں سائنسی کرشموں و ایجادات سے فیض اٹھا رہی ہے وہیں مشینی دور نے انسانی قدروں میں بہت ساری دراڑیں پیدا کی ہیں اور نت نئے مسائل کے ساتھ زیست کی پیچیدگیاں بھی بڑھائی ہیں ۔ اساطیری ادب میں رومانی تصور بڑے پر اسرار طریقے سے پیش ہوئے ہیں جب کہ آج کے سائنسی ادب میں رومانیت کی تصویر بالکل واضح ہوکر ایک صاف شیشے میں ابھرتی ڈوبتی ہے۔
رومانیت کے گل بوٹے قدیم ترین ادب میں بھی ملتے ہیں مگر باقاعدہ طور پر یہ ایک مغربی تحریک ہے جو اٹھارہویں صدی میں مغربی ادب میں ابھری اور اس تحریک نے اپنا الگ تاثر قائم کیا۔ بقول شارب ردولوی ’رومانی تحریک نفسیاتی رجحانات سے پہلے وجود میں آئی اور رومانی نظریات ہی نے وسعت پاکر ادب میں نفسیاتی نظریے کو جنم دیا ‘۔1 وہ آگے ویلک (Wellek) کے حوالے سے رومانیت کی تاریخ و تفہیم یوں واضح کرتے ہیں۔
’’..........وسیع مفہوم میں یہ نو کلا سیکیت کے خلاف ایک بغاوت تھی جس کا مطلب لاطینی روایات کو ترک کرکے شاعری میں ان نظریوں کو لانا تھا جن پر تاثرات اور جذبات کی ترجمانی کی بنیاد ہو۔ یہ 18ویں صدی میں شروع ہوئی اور ایک عظیم سیلاب کی طرح مغرب کے تمام ملکوں میں پھیل گئی ‘‘۔2
رومانی تحریک در اصل کلاسیکی تحریک کی ضد ہے اس لیے اس میں جدت کے رنگ زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ انور سدید اس کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ذہنی تلاطم کے دور میں جو تحریک وجود میں آتی ہے اس میں حرکت اور عمل کا عنصر نسبتاً زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ آگے کی طرف لپکتے اور فردکے بپھرے ہوئے جذبات کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ تنوع حرکت اور خوابناک کیفیت کے اس زاویے سے تحریک کے پیش نظر مستقبل زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ اس لیے اسے بالعموم رومانی تحریک کا نام دیا جاتا ہے ۔‘‘3
کلاسیکی تحریک میں اس کے بر عکس ایک خیال کو سورنگ میں باندھ کر پیش کیا جاتا ہے جس میں وحدت اور تنظیم کا عنصر زیاہ ہوتا ہے انور سدید بتاتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ادب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے تحریک کی معنویت سمجھی جاسکتی ہے ۔
انور سدید نے روسو کو رومانیت کا مطلع اول قرار دیتے ہوئے اس کے خیالات کی وضاحت بھی کی ہے۔جو اس طرح ہے۔
’’رومانیت کی ابتدا بالعموم ایک ایسے شخص سے منسوب ہوتی ہے جس کی ذہانت کو اس کے عہد نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کا نام روسو (Rouseau)ہے۔ اس عہد کے ایک اور مفکر والٹئیر(Voltaire) نے کائنات کوروزن زنداں سے دیکھا تھا روسو نے کائنات کو زنداں تصور کیا اور آزادی کا مرجع دل کو بنایا جس میں انسان کا آزاد تخیل خارج کے جبر سے آزاد تھا۔ روسوکا خیال تھا کہ علم انسان کو بہتر بنانے کے بجاے ہشیار بنادیتا ہے فلسفہ اخلاقی طور پر بیمار اور شعور محرومی کے احساس سے دوچار کرتا ہے ۔لہذا تخیل کی قوت عقل پرہر لحاظ فوقیت رکھتی ہے۔ روسو کے یہ خیالات انقلابی تھے اور اس کی یہ منفرد آواز کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو پابہ زنجیر ہے ‘‘بلند ہوئی تو اسے رومانیت کا مطلع اول قرار دیا گیا ‘‘۔4
وہ رومانیت کی تحریک کو چار حصوں میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں جو مغرب کی چار بڑی تحریک سے وابستہ ہے ۔پہلی تحریک چوتھی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ یونان سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں دیو مالا میں جو تخلیقی لپک ہے وہ رومانی ہے ۔ دوسری بڑی تحریک پہلی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ رونما ہوئی لونجائنس (Longinus)نے ادب کو غیر ارضی چیز شمار کیا ۔ رومانیت کی تیسری تحریک روسو کے نظریات سے پیدا ہوئی اور رومانیت کی چوتھی تحریک انیسویں صدی کے ربع آخر میں مشینی زندگی کے خلاف فرد کی صدائے احتجاج سے پیدا ہوئی ۔مغرب میں رومانیت کی ترجمانی کرنے والوں میں ورڈ زورتھ ، کیٹس(Keats)، کالرج وغیرہ کا نمائندہ رومانی شعرا میں شمارہوتا ہے ۔مگر اردو ادب میں رومانیت مغربی تحریک کی طرح نہیں پیدا ہوئی، یہاں کچھ اور حقیقت سامنے آتی ہے ۔ اسلوب احمد انصاری کا خیال ہے کہ:
’’اردو ادب میں رومانیت کسی باقاعدہ تحریک کی شکل میں پروان نہیں چڑھی نہ جہاں اس مصنوعی کلاسیکیت Pesudo Classicismکا کوئی پس منظر موجود تھا ۔ جیسا کہ اٹھارہویں صدی کے انگلستان میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکا تھا اور جس کا لازمی نتیجہ رومانیت کی وہ موج پرخروش تھی جو انیسویں صدی کے آغاز میں ابھری اور جس نے کلاسیکیت کا جامۂ پارینہ کو تار تار کردیا ۔ لیکن اگر رومانیت کسی دور ، مکتب خیال یا گروہ سے مختص ہونے کے بجائے ایک انداز فکر کے مترادف ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس انداز فکر کے گہرے ہلکے نقوش ان تمام نگارشات کا طرہ امتیاز ہیں جو رومانی نثر کہلائی جاسکتی ہیں‘‘۔5
شارب ردولوی رومانیت کے ابتدائی نقوش اردو ادب کے حوالے سے یوں پیش کرتے ہیں۔
’’جہاں تک اردو ..........کے رومانی ادیبوں اور شاعروں اور ناقدوں کا تعلق ہے ان میں اقبال ، ابوا لکلام آزاد، سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری، مہدی افادی ، سجاد انصاری، قاضی عبدالغفار، اختر شیرانی، عبدالرحمن بجنوری کے نام سب سے اہم ہیں ‘‘۔6
انور سدید بھی اقبال کو اردو شاعر ی کا اولین اہم رومانی شاعر مانتے ہیں وہ لکھتے ہیں ۔
’’اردو شاعری میں اقبال نے انسانی احساسات کو فطرت کے پر اسرار عمل سے پہلی مرتبہ روشناس کرایا اور اس کی تنہائیوں میں کھو جانے کے بجائے فطرت کی منہ زور قوت سے زندگی کو تحرک اور تازگی عطا کردی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کو رومانی تحریک کا اولین اہم شاعر شمار کیا جاتا ہے ‘‘۔7
اس طرح دیکھا جائے تو اردو نظم نگاری میں رومانیت کی ابتدا اقبال سے ہوئی ہے اور اسی عہد میں اختر شیرانی ، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، عظمت اللہ خاں وغیرہ اس روایت کو مزید پروان چڑھاتے ہیں۔ مگر اردو میں نئی نظم کی شروعات نظیر اکبر آبادی سے ہوتی ہے ۔ ان کے یہاں بھی رومانیت کے عنصر پائے جاتے ہیں ۔ نظیر کی نظموں میں رومانیت کے جوہر تلاش کرنے سے پہلے اردو کی کلاسیکی نظموں کا ایک مختصرجائزہ یہاں پیش کرنا ضروری ہے تاکہ اردو شاعر ی میں رومانیت کی تفہیم کچھ آسان ہوجائے ۔
فخر الدین نظامی کی مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ کو اگر اردو کی پہلی باقاعدہ نظم مان لیا جائے تو نظم کا آغاز865ھ کے آس پاس ہوجاتا ہے ۔ یہ مثنوی اساطیری گرفت میں ہوتے ہوئے بھی توہمات کا بھرم توڑنے اور دلت ادب کا بیج بونے (یا اس کی ایک جھلک پیش کرنے) میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پھر اس کے اندر عورت کی تمام بے وقوفی کے بعد جو اس کی چھٹی حس ملتی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے ۔ اس کے بعد نظامی سے لے کر ملا وجہی تک دکنی ادب میں بے شمار مثنویوں کو پھولنے پھلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ دبستان لکھنؤ جب آباد ہوتا ہے تو یہاں میر حسن کی مثنوی سحر البیان میں بے نظیر اور بدر منیر اینٹی ہیرو ہیروئن کا کردار پیش کرتے ہیں ۔ گلزار نسیم میں پریوں کی بھر مار بھی لکھنوی تہذیب کی عکاس ہے مگر ’زہر عشق‘کی ’مہہ جبین‘ میں ایک ایسا تانیثی کردار ملتا ہے جس کے آنسو پتھر کو بھی پگھلا دیتے ہیں۔ محبت کی یہ ارضی معصومیت اب بھی بے رحم جلادوں کی سفاکی کا شکار ہے ۔ مثنوی کے علاوہ اردو کے کلاسیکی ادب کی نظموں میں قصیدہ ، مرثیہ ، رباعی ، مسدس، مخمس، شہر آشوب وغیرہ ملتے ہیں۔ رومانیت کے لحاظ سے سودا کے قصیدے میں بھی چند رومان پرور عناصر شاید مل جائیں ۔ مرثیہ نگاری میں میر انیس اور مرزا دبیر کے یہاں بھی رومانی اثرات ہیں ان کے کردار وں میں مثالیت کے بہترین نمونے ملتے ہیں ۔ رباعی میں فراق اور جوش کے یہاں رومانی اثرات زیادہ پائے جاتے ہیں۔
اردو شاعری میں غزل کا سکہ رائج الوقت رہا ہے اتفاق سے غزل گوئی کو اردو میں وقار بخشنے والے شاعر بھی ولی محمد (ولی دکنی 1650-1707) ہیں اور جدید نظم نگار ی کی بنیاد رکھنے والے شاعر نظیر اکبر آبادی کا نام بھی ولی محمد (نظیر 1740-1830) ہی ہے ۔ ولی دکنی نے اردو غزل کی راہ ہموار کی تو میراور غالب پیدا ہوئے جب کہ نظیر نے نظم نگاری کی فضا بنائی تو حالی، اکبراور اقبال پیدا ہوئے ۔
’نظم جدید کی کروٹیں‘میں وزیرآغا نے میرا جی کی شاعری کے متعلق لکھتے ہوئے تمہیدی گفتگو میں نظیر سے اقبال تک اردو نظموں کی ارضیت پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’اردو نظم میں ارض ، وطن ........اس کے مظاہر رسوم اور اساطیر سے وابستگی اور لگاؤ کی متعدد مثالیں موجود ہیں مثلا نظیر اکبر آبادی کے یہاں ملکی تہواروں بالخصوص ہولی ، دیوالی بسنت وغیرہ کے ہنگاموں سے تحصیل مسرت کا ر جحان بڑا واضح ہے اور نظیر نے ایک صحت مند لڑکے کی طرح ان مختلف تہواروں میں شرکت کی ہے۔ تاہم نظیرکی یہ وابستگی ایک بڑی حد تک سطحی ہے ۔اس دور کی بعض منظوم کہانیوں مثلا مثنوی سحر البیان یا گلزار نسیم میں اگرچہ بعض ملکی رسوم اور عقائد سے آشنائی کے شواہد ملتے ہیں .........غدر کے بعد کے دور میں آزاد، حالی اور اسماعیل میرٹھی کی مساعی سے مظاہر فطرت میں دلچسپی لینے کا رجحان ابھرتا ہے اور ملک کے پہاڑوں ، میدانوں اور مر غزاروں اور ملکی موسم کے بعض نمایا ں مظاہر مثلاً برسات ، گرمی وغیرہ کو نظم کا موضوع بنانے کی روش بھی وجود میں آتی ہے مگر یہ ساری تحریک ایک بڑی حد تک مغربی شاعری کے بعض رجحانات کی تقلید میں ظاہر ہوتی ہے ۔ دوسرے ارض وطن سے اس کی وابستگی بھی بڑی حد تک سطحی ہے ........چکبست کے ہاں پہلی بار ملکی روایات سے ایک گہری وابستگی ظاہر ہوتی ہے جب کہ وہ رام اور سیتا کی کہانی کو نظم کرتے ہیں۔ تاہم چکبست کی یہ کاوش بھی اول تو انیس اور دبیر کے تتبع میں ہے دوم یہ بھی محض کہانی مختلف کڑیوں کا احاطہ کرنے تک محدودہے۔ اسی دوران میں غیرملکی حکومت کے استبداد کے خلاف جو رد عمل وجود میں آیا .........بہت سے نظم گو شعرا نے حب الوطنی کے جذبات کا اظہار کیا محروم ، اقبال اور راشد کے ہاں با لخصوص یہ رجحان بہت قوی تھا......اقبال جو شروع شروع میں وطن دوستی کے ایک بہت بڑے علمبردار تھے جب نظریاتی تصادم میں مبتلا ہوئے تو وطن دوستی کی بجائے ملت پرستی کی طرف مائل ہوگئے اور ان کے ہاں ہمالہ ، جنگل اور کٹیا کی بجائے صحرا، کارواں اور خیمے کی علامتیں ابھرتی چلی آئیں‘‘۔8
وزیر آغا کے خیال سے اختلاف کی صورتیں موجود ہیں خاص کر اقبال کی وطن دوستی اور ملت پرستی میں ان کا نظریاتی تصادم نہیں تھا بلکہ ان کے فہم وادراک کا وہ بالغ شعور تھا جہاں سرحدیں ٹوٹ رہی تھیں۔ اقبال کی زندگی کے مطالعے سے ان کے مذہبی رجحان کی گہری وابستگی بچپن ہی سے ملتی ہے ۔ شاید اسی لیے داغ کی شاگردی کے باوجود ان کا رنگ نہ اپنا سکے ۔ انھیں جن خیالات کی ترجمانی کرنی تھی وہ داغ کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا تھا ۔ صحرا، کارواں اور خیمے کی علامتیں بھی ان کے ابتدائی دور کی شاعری میں ملتی ہیں یہ اور بات ہے کہ بعد میں ا ن کے نقوش بڑے گہرے نظر آتے ہیں۔ صحرا، کارواں اور خیمے کے علامتی نمونے اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری سے پیش ہیں۔
اے آب رودگنگا ! وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
(ترانۂ ہندی)
محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی
جرس بھی ، کارواں بھی، راہبربھی ، راہزن بھی ہے
(تصویر درد)
نظیر اکبر آبادی کی رومانیت کا ارضی تصور بھی پیش ہے۔
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
کیا نظیر کی یہ وابستگی سطحی ہے ؟ روٹی کے اندر چاند، سورج دیکھنے کی جمالیاتی حس ،حسن کا معیار تبدیل نہیں کرتی ہے ؟ پہلے بند میں سینے اپر ہاتھ چلانا بھی اور روٹیوں میں سارے مزے پانا جنسیاتی آسودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے بعد میں’ حلقہ ارباب ذوق ‘کے رہنماؤں نے اپنی شاعری کالا زمی جزو بنایا۔
وزیر آغا در اصل میراجی کی ’دھرتی پوجا‘ سے متاثر ہیں اس لیے وہ نظیر سے اقبال تک تمام ارضی رشتے کو رد کرتے جاتے ہیں اور اپنی رائے میراجی کے متعلق یوں پیش کرتے ہیں:
’’اردونظم میں میراجی وہ پہلا شاعر ہے جس نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم، عقائد اور مظاہرسے وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے رد عمل کے طور پر اپنے وطن کے گن گائے ‘‘۔9
حقیقت تو یہ ہے اس اساطیری اور طلسماتی محبت میں ’میر اسین‘ کا عمل دخل ہے جس نے ثناء اللہ کو میراجی بنا دیا ۔ عشق نہ دیکھے ذات پات تو ہمارے یہاں رائج ہی ہے ۔ میراجی عشق کی وادی میں قدم رکھ کر اپنے آبا واجداد کو بھی آریہ نسل 10سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی ذہانت ، حافظہ اور طبیعت سب کچھ نسل درنسل قدیم ہندوستان کی تاریخ میں موجود ہیں۔ جہاں کرشن اور رادھا کی محبت اور شیو اور کالی کا میل ملاپ انگڑائیاں لیتا ہے ۔ اردو شاعری میں عورت کے مختلف روپ ملتے ہیں اقبال وجود زن سے تصویر کائنات کو رنگین دیکھتے ہیں ۔ عورت کا ماورائی روپ اپسرا، پری ،شہزادی اور حور جیسے کرداروں میں ملتا ہے مگر اقبال، جوش، اخترشیرانی اور میراجی نے اسے ارضی بناکر پیش کیا ہے۔اس ارضیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے اس ماورائی کردار کو اپنی نظموں میں گوشت پوست کی زمینی مخلوق بنا کر پیش کرنے کی سعی کی ہے اس کے نمونے پیش ہیں۔
تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھادی کس نے ؟
رمز آغاز محبت کی بتادی کس نے ؟
ہر ادا سے تیری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
دیکھتی ہے کبھی ان کو کبھی شرماتی ہے
کبھی اٹھتی ہے کبھی لیٹ کے سوجاتی ہے
آنکھ تیری صفت آئنہ حیران ہے کیا؟
نور آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا؟
مارتی ہے انہیں پہونچوں سے عجب نازہے یہ ؟
چڑھ ہے یا غصہ ؟ یا پیار کا انداز ہے یہ ؟
(.....کی گود میں بلی دیکھ کر ۔علامہ اقبال)
یہ ابلتی عورتیں اس چلچلاتی دھوپ میں
سنگ اسود کی چٹانیں آدمی کے روپ میں
واہ کیا کہنا ترا اے حسن ارض آفتاب
یہ برشتہ رنگ یہ تپتے ہوئے رنگیں شباب
........................................
.............................................
یہ جواب چہرے پہ چہروں میں ہے برنائی کا جوش
تو کہے آہن میں کھودے ہیں کسی نے چشم و گوش
جسم ہیں کچھ اس قدر ٹھوس الحفیظ والاماں
لیجیے چٹکی تو چھل جائیں خود اپنی انگلیاں
دید کے قابل ہے ان کافربتوں کا رنگ روپ
کھپ چکی ہے جس میں بارش ڈس چکی جس کو دھوپ
ان نبات کوہ کی کڑیل جوانی الاماں
پتھروں کا دودھ پی پی کر ہوئی ہیں جوجواں
(کہستان دکن کی عورتیں ۔ جوش)
ان چاندستاروں کے بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضر حسیں لے چل!اے عشق کہیں لے چل
یہ درد بھری دنیا بستی ہے گناہوں کی
دل چاک امیدوں کی سفاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی آہوں کی کراہوں کی
اے عشق کہیں لے چل،
(اختر شیرانی)
قدرت کے پرانے بھیدوں میں بھید چھپاے چھپ نہ سکے
اس بھید کی تو رکھوالی ہے
اپنے جیون کے سہارے کو اس جگ میں اپنا کرنہ سکی
یہ کم ہے کوئی دن آئے گا وہ نقش بنانے والی ہے
جو پہلے پھول ہے کیاری کا
پھر پھلواری ہے مالی کی
غیروں کے بنائے بن نہ سکے
اپنوں کے مٹائے مٹ نہ سکے
جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے
اس بھید کی تو رکھوالی ہے
یہ سکھ ہے دکھ کا گیت نہیں
کوئی ہار نہیں کوئی جیت نہیں
جو گود بھری تو مانگ بھری
جیون کی کھیتی ہوگی ہری
(حرامی، میراجی)
یہاں درج بالا جن چار نظموں کے اشعار پیش کیے گئے ہیں ان میں جو تلازمے بنتے ہیں اس میں ارضی عورت کی تصویر ابھرتی ہے حسن مجازی کے یہ رنگ اردو شاعری میں ایک نئے احساس کا جادو جگاتے ہیں۔ اقبال کے ڈکشن میں دزدیدہ نگاہی ، رمز آغازمحبت ، نیلی آنکھیں ، ذکاوت، دیکھنا، شرمانا ، اٹھنا، لیٹنا ، سوجانا، آنکھ آئینہ صفت ہونا ، نور آگاہی ، پہونچیں مارنا ، چڑھ،غصہ، ناز وغیرہ میں پیار کا انداز ہونا ایک ایسی مجازی امیجری ہے جس سے ہم آپ سب بخوبی واقف ہیں حسن مجازی کا یہ خدو خا ل اردو شاعری میں پہلی بارنہ سہی لیکن یہ طریقۂ اظہار چونکاتا ضرور ہے۔ حسن کے بیان میں یہ زمینی حقیقت ایک نیا رنگ بھرتی ہے وہ بھی ایک ایسے شاعرسے جس کی شاعری مذہب و ملت کے فلسفے میں ڈوبی ہوئی ہو۔ کیا اقبال کا یہ رومانی اظہاراجتہاد نہیں ہے؟ جوش تو لفظیات کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں کئی رومانی نظمیں ملتی ہیں بدلی کا چاند، جنگل کی شہزادی ، فتنۂ خانقاہ، کہستان دکن کی عورتیں قابل ذکر ہیں۔ ان میں کہستان دکن کی عورتیں ایک ایسی نظم ہے جس میں پہلی بار مزدور طبقے کی مضبوط عورتوں کے حسن کا ذکر ہوا ہے جس طرح منشی پریم چند نے اردو ناول میں ہوری جیسے کسان کی بیوی ’دھنیا‘کو ہیروئن بناکر دلت سماج کے زندگی کی عکاسی کی اور حسن کا معیار تبدیل کیا۔ ٹھیک اسی طرح ’کہستان دکن کی عورتیں میں جوش نے ان عورتوں کے حسن و جمال کو پیش کیا جن کا وجودادب میں خال خال نظر آتا ہے۔ابلتی عورتیں، چلچلاتی دھوپ، سنگ اسود کی چٹانیں ، حسن ارض آفتاب ، رنگیں شباب چہروں میں برنائی کا جوش، آہن میں چشم وگوش کھدا ہونا ، ٹھوس جسم ، چٹکی لینے سے عاشق کی انگلیاں چھل جائیں ۔ بارش کا کھپنا ، دھوپ کا ڈسنا ، کڑیل جوانی، نبات کوہ ،پتھر کا دودھ پی پی کر جوان ہونا ایسی لفظیات ہیں جن میں نچلے طبقے کی عورتوں کے حسن و جمال کی پیکر طرازیاں ملتی ہیں۔ اور یہ پیکر ہمیں زندگی کی زمینی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں اور یہ رنگ اتنے پختہ ہیں کہ انھیں زمانے کی سختی نہیں مٹاسکتی ۔
اختر شیرانی کا ذکر ہی شاعر رومان کے طور پر ہوتا ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام صبح بہار اختر ستان ، لالۂ طور ، طیورآوارہ ، شہناز، شہر و نغمۂ حر م میں بے شمار رومانی نظمیں ملتی ہیں انھوں نے حسن کی ہر تصویر میں رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ’اے عشق کہیں لے چل ‘ان کی مشہور رومانی نظم ہے۔ اس کا ڈکشن دیکھیے ۔ چاند ستاروں کا بکھرا ہوا شہر ، نور کے کرنوں کی ٹھہری ہوئی لہر ۔ ٹھہری ہوئی نہروں میں سوئی ہوئی لہر ، خضر حسیں ، درد بھری دنیا ، گناہوں کی بستی ، ظلموں جفاؤں آہوں کراہوں کی بستی ، قدرت کی حمایت قسمت کی ہمدردی، سلمیٰ کی محبت ہر شے سے فراغت ، طفل حسیں ان سب میں ایسی امیجز بنتی ہیں جو راہ فرار کی طرف لے جاتی ہیں۔ مگر آرزوؤں اور ارمانوں کے خون زمین کی سنگدلی سے جوڑے رکھتے ہیں اور نغمگی کے سرور ان پر مرحم رکھتے ہیں۔
میراجی عورت سے آسودگی حاصل کرتے ہیں ۔ وہ صرف چھیڑ چھاڑ ہی کے قائل نہیں ہیں اور اس عمل میں وہ جائز ناجائز کے بھی قائل نہیں ہیں بلکہ وہ عورت کو مرد کے بھید کی رکھوالی کرنے والا کردار بتاتے ہیں پیش کردہ نظم سے ان کی لفظیات کی امیجری دیکھیے۔ قدرت کے پرانے بھید جیون کے سہارے ، بھید کی رکھوالی ، نقش بنانے والی، کیاری کا پھول، مالی کی پھلواری ، بھید چھپائے چھپ نہ سکے، سکھ دکھ کا گیت نہیں ، ہار نہیں جیت نہیں ، گودبھری، مانگ بھری، جیون کھیتی ہوگی ہری، یعنی عورت نسل انسانی کو فروغ دینے والی شے ہے ۔ میراجی عورت اور مرد کے تعلق کو ہندوستانی اساطیر سے جوڑ کر رادھا اور کرشن ، شیو اور کالی کے روپ میں دیکھتے ہیں جہاں جنسیاتی عمل صرف عورت اور مرد کی چاہت میں پوشیدہ ہے رشتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔رشتہ ہے تو صرف مرد اور عورت کا۔
حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھنے والوں میں میراجی کے علاوہ اس کے روح رواں ن۔م راشد کا نام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے وہ بھی میراجی کی طرح جنسیاتی آسودگی کے قائل ہیں۔
ان کے شعری مجموعہ’ ماورا ‘، ’ایران میں اجنبی‘، لا= انسان اور’ گمان کا ممکن‘ بڑی شہرت رکھتے ہیں ان کی نظموں میں بیکراں رات کے سناٹے ، اتفاقات، دریچے کے قریب ، رقص ، انتقام ، اجنبی عورت حیلہ ساز، داشتہ نمرود کی خدائی کو لازوال نظموں میں گردانا جاتا ہے ۔ راشد محبت کی مادی کیفیات پر یقین رکھتے ہیں۔
آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آسی خاک کو ہم جلو گہہ راز کریں
روحیں مل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں
آ اسی لذت جاوید کا آغاز کریں
صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے
اس کے بوسوں سے ہو مدہوش سمن اور گلاب
شبنمی گھاس یہ دو پیکر یخ بستہ ملیں
اور خدا ہے تو پشیماں ہوجائے
(اتفاقات)
میراجی اور راشد کی اس جنسیاتی لپک اور اس کی آسودگی کو سلیم احمد ’پورے آدمی کے روپ‘ میں دیکھتے ہیں اور لکھتے ہیں۔
’’.......راشد اپنی محبوبہ کی اصلیت بھی جانتا ہے اور محبت کی بھی۔ اسے معلوم ہے کہ محبت صرف گل بھیاں کرنے کا نام نہیں ہے نہ دامن میں پھول ، چاند ، ستارے وغیرہ لے کر محبوبہ کو پیش کرنے کا ۔ وہ جانتا ہے کہ محبت کا معاملہ دامن کے نیچے تک جاتا ہے ‘‘۔11
راشد کا جو لہجہ ہے اس کے بر عکس ساحر کا ترقی پسندی والا اسلوب دیکھیے جس میں طنز کے نشتر بہت تیز ملتے ہیں اور آواز میں ایک گھن گرج بھی ہے جو خطیبانہ اسلوب ہے۔
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
نظم ’چکلے ‘کے یہ بند طوائف کی بے بسی کے وہ منظر ہیں جہاں سماجی برائی اور بناوٹی شرافت سے نفرت اور طوائف سے ہمدردی کا جذبہ پیداکرتے ہیں 1936 میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوتا ہے جس کے زیر اثر تمام نمایاں شاعروں نے نظم نگاری کو فروغ دیا ہے۔ نمائندہ شعرا میں فیض، مجاز، مخدوم،سردارجعفری ، جاں نثاراختر ، کیفی اعظمی ، ساحرلدھیانوی، احمد ندیم قاسمی،پرویزشاہدی وغیرہ کا شمار ہوتا ہے ان شعرا کے یہاں رومان اور انقلاب کا تصور گھل مل کر ملتا ہے ۔ فیض، مخدوم اور مجازکے تانیثی کردار کے نمونے پیش ہیں ۔
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
(پہلی سی محبت ۔ فیض)
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدامیں نے
یہیں کی جرأت اظہار حرف مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشو ے ناز و انداز حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
دلوں میں ازدھام آرزو لب بند رہتے تھے
نظر سے گفتگو ہوتی تھی دم الفت کا بھرتے تھے
نہ ماتھے پر شکن ہوتی نہ جب تیور بدلتے تھے
خدابھی مسکرادیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
(طور ۔مخدوم)
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے
مری تخئیل کے بازو بھی اس کو چھو نہیں سکتے
مجھے حیران کردیتی ہیں نکتہ دانیاں اس کی
(کس سے محبت ہے ۔ مجاز)
فیض، مخدوم، مجاز کے یہاں ان نظموں کے علاوہ اور بہت ساری رومانی نظمیں بھی ملتی ہیں جن میں تانیثی کردار کے مختلف رنگ روپ ابھرے ہیں یہاں رومانی نظموں کی فہرست سازی نہیں کرنی ہے بلکہ صرف تانیثی کرداروں کی ایک جھلک مقصود ہے جس سے شاعر کی انفرادیت کا پتہ چل جائے فیض اپنے ملک کی آزادی کے لیے وصل کی راحت کو قربان کرنا چاہتے ہیں مخدوم اپنے پیار پر خدا کو بھی مسکراتے ہوئے دیکھتے ہیں مجاز عورت کو نکتہ داں بتاتے ہیں ۔ جاں نثار اختر کی ایک نظم ’آخری ملاقات ‘ جو انھوں نے اپنی بیوی صفیہ کے انتقال پر لکھی ہے بہت خوبصورت نظم ہے پروفیسر عقیل احمد صدیقی لکھتے ہیں ’یہ نظم شخصی واردات کے براہ راست اظہار کی کامیاب مثال ہے نظم کی خوبی ان اشیا کی کیٹلاگنگ میں ہے جن سے فن کار اور اس کی بیوی کی یاد وابستہ ہے ‘‘۔12 ’آخری ملاقات‘کے نمونے بھی پیش ہیں۔
’’السائی ہوئی رت ساون کی /کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی
اک ٹوٹی رسی جھولے کی/ اک چوٹ کسکتی کولہے کی
سلگی سی انگیٹھی جاڑوں میں/اک چہرہ کتنی آڑوں میں
کچھ چاندنی راتیں گرمی کی/ اک لب پر باتیں نرمی کی
کچھ روپ حسیں کاشانوں کا /کچھ رنگ ہرے میدانوں کا
کچھ ہار مہکتی کلیوں کے /کچھ نام وطن کی گلیوں کے
کچھ چاند چمکتے گالوں کے /کچھ بھونرے کا لے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی/ کچھ نرم لکیریں کاجل کی
اک کھوئی ردا افسانوں کی/ دو آنکھیں روشن دانوں کی
اک سرخ دلائی گوٹ لگی /کیا جانے کب کی چوٹ لگی
اک چھلاپھیکی رنگت کا /اک لوکٹ دل کی صورت کا
رومال کئی ریشم سے کڑھے/ وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے۔
(آخری ملاقات، جاں نثار اختر)
اس نظم کی پیشکش دیکھیے کس طرح تہذیبی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں جدت کی فضا ملتی ہے۔ علی سردار جعفری نے بھی کئی رومانی نظمیں لکھی ہیں ان میں ’اودھ کی خاک حسیں‘اپنے حقیقت پسندانہ افکار کی ترجمان ہے۔ رومانی نظموں میں احمد ندیم قاسمی کی نظم’ عنفوان شباب‘ بھی اپنے تمثیلی انداز کے لیے قابل ذکر ہے۔
حلقۂ ارباب ذوق کی نظموں اور ترقی پسند وں کی نظموں میں تہذیبی مزاج کا تضاد بھی نظر آتا ہے۔ میراجی اس تہذیب کے دلدادہ ہیں جب انسان جنگلوں میں ننگے پھرا کرتا تھا اور اسے جنسی آزادی جانوروں کی طرح حاصل تھی۔ ترقی پسند نظموں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان جب بے لباسی کو لباس دے کر جینے کے ڈھنگ سیکھ گیا تو اس میں روٹی کپڑے اور مکان کی تقسیم میں انصاف کا فقدان نظر آیا اس لیے ان کی نظمیں انصاف کا مطالبہ کرتی ہیں۔
حلقۂ ارباب ذوق 1939 میں نصیر احمد جامعی کے ذریعے وجود پاتا ہے ۔ پہلے افسانے تک محدود تھا مگر یوسف ظفر کی شمولیت نے اس کا رخ شاعری کی طرف کردیا ۔ میراجی کی شمولیت نے حلقے میں اجتہادی قدم بڑھایا ۔ اس کے نمائندہ شاعروں میں میراجی ،ن۔م۔ راشد ، یوسف ظفر ، قیوم نظر ، ضیا جالندھری وغیرہ ہیں۔ اختر الایمان اور مجید امجد دو ایسے شاعر ہیں جن پر حلقے کے اثرات تو ہیں لیکن ان کا واسطہ حلقۂ ارباب ذوق سے نہیں رہا ہے بلکہ ان کے یہاں ترقی پسند ی کے بھی اثرات ہیں اور وہ ان سے بھی الگ ہیں۔ اختر الایمان علامتی شاعر ہیں ’یادیں اور بنت لمحات ان کے شعری مجموعے ہیں ان کی نظمیں غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہیں دیکھے وہ کس طرح فنکاری کے ساتھ کرداروں کو اپنی نظموں میں بنتے ہیں۔
’’یہی شاخ جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو یہاں اب سے کچھ سال پہلے /
مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملتی تھی جسے میں نے آغوش میں لے کے پوچھا تھا بیٹی!/
یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو؟مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے /
دکھا کر وہ کہنے لگی /میرا ساتھی ادھر /اس نے انگلی اٹھاکر بتایا/ادھر اس طرف ہی /
جدھرا ونچے محلوں کے گنبدملوں کی سیہ چمنیاں ۔ آسماں کی طرف سر اٹھائے کھڑی / ہیںیہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے تیرے واسطے لینے جاتا ہوں رامی!‘‘
(عہد وفا :اختر الایمان )
1955-60 کے آس پاس جدیدیت کی لہر اٹھی، جو ترقی پسند ی کی ضد اور حلقہ ارباب ذوق سے کسی حد تک متاثر تھی۔ اس کے نمائندہ شاعر وں میں شہر یار، منیر نیازی ، خلیل الرحمن اعظمی، عمیق حنفی، شمس الرحمن فاروقی، ساقی فاروقی، بلراج کومل ، محمد علوی، عادل منصوری ، منیب الرحمن ، کمار پاشی ، مظہر امام، وحید اختر ، احمد ہمیش، فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے۔ان شاعروں نے علامتی اسلوب کو اپنایا ۔تحریک1970 کے آس پاس پہنچتے ہی یہ اپنے مرکز سے بھٹک گئی اور اس میں جنسی ہیجان انگریزی نے راہ پکڑلی ۔ اس کے چند نمونے پیش ہیں ۔
گرم کمروں میں تڑپتی /شہوتوں کی لال آنکھیں /کھڑکیوں سے /شاہراہوں پر گزرتی لڑکیوں کی نیم عریاں /چھاتیوں پر رینگتی ہیں۔ (رات آدھی۔ محمد علوی)
حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹاہوں/سر اور پیر تصادم میں ہیں/تاریکی کے پیچھے بھاگ رہاہوں سراور پیر تصادم میں /حق زوجیت ماتھا پر /بیل ہوں پتھریلی کھیتی میں ہانپ گیا ہوں /ہل ٹیڑھا ہے / خصی بیلوں کی سب جوڑیاں /پتھر یلے کھیتوں میں ہانپ چکی ہیں /بیج بکھیرنے کے آسن بھی بدل چکے ہیں /جائے پیدائش کا لمحہ کب آئے گا۔
(ہل ٹیڑھا ہے ۔ عباس اطہر )
وہ کیسے بستر ہیں جن پر کبھی عورتیں نہیں سوئیں/جن کی تربیت محض ایک کھونٹی ہے /جن پر دماغ اور جسم ہی ٹنگے ہیں۔ (تجدید(1) احمد ہمیش)
یہ کیسی لذت سے جسم شل ہورہا ہے میرا /یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل/یہ کیف کیا کہ سانس رک رک کے آرہا ہے /یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اتر رہے ہیں/یہ آبنوسی بدن پہ بازو کشادہ سینہ/مرے لہو میں سمٹتا سیال ایک نقطہ بہ آگیا ہے /مری نسیں آنے والے لمحے کے دھیان سے کھینچ کے رہ گئیں ہیں/بس اب تو سرکادورخ پہ چادر/دیے بجھادو ۔ (ابد۔ فہمیدہ ریاض)
مجھے پانی کے جوہڑوں میں نہاتی/وہ عورتیں اور بطخیں اچھی لگتی ہیں/جنھیں کسی حرف آشنا نے پاکیزہ نہیں کیا ہے ۔ (کشور ناہید)
اس جنسی ہیجان کو عقیل احمد صدیقی وقت کا تقاضہ بتاتے ہیں۔
’’کچھ لوگ اس رجحان کو ‘اشتہار بازی ‘ یا مریضانہ فعل‘ قرار دیں گے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ یہ اظہار جہاں جذباتی کتھارسس کا وسیلہ ہے وہیں خود شناسی کا بھی۔ نئے شاعروں نے جبلت کے اس نوع کے اظہار میں بے باکی سے کام لیا ہے جس کا سبب سماجی اور نفسیاتی دونوں ہیں ‘‘۔13
مگر 1980کے بعد کی جونسل آتی ہے جسے گوپی چند نارنگ ما بعد جدیدیت سے تعبیر کرتے ہیں اس نے کم از کم اس جنسی رویے کے اظہار کے لیے سنبھل کر قدم اٹھایا ہے ۔ جدیدیت سے اس کی راہ کچھ الگ تھلگ دکھائی دیتی ہے ۔
یہ لڑکیاں ہیں/جنہیں چاندنی راتوں میں نظر آتی ہیں /اپنی کو کھ میں تیرتی وحشی پر چھائیاں /اور وہ بند کرلیتی ہیں آنکھیں /ٖڈر جاتی ہیں پورے چاند کی اکیلی رات میں ۔
(لڑکیاں۔ نعمان شوق)
وہ لڑکی گوری چٹی سی /ذرا بس قد میں چھوٹی ہے /غضب کے ناک نقشے ہیں /بدن روئی کا گالا ہے /میں اس کو جب بھی چھوتا ہوں/مجھے محسوس ہوتا ہے مرے چھونے سے میلی ہوگئی ہے دودھیا چادر۔ (رات کے روپ بہت۔ سرور ساجد)
تیرے نرم لہجے کی ساری کلیاں/میں اپنے دل میں اتار لوں گی/عقیدتوں کی تمام کلیاں /میں تیرے اوپر سے وا ر دوں گی /میں تیری آنکھوں کی چاہتوں سے /میں تیرے لفظوں کی نکہتوں سے /تراش بیٹھی ہوں کتنے پیکر/عجب نشہ ہے یہ تجھ سے مل کر /میں تیری انجان آہٹوں کو /نہ جانے کیوں گن رہی ہوں پل پل۔
(عجیب جذبے۔ سنجیدہ عنبری)
دھوپ ایسی تو نہیں تھی پہلے /یہ ہر اک چہرے کو دمکاتی تھی/اپنی کاوش پہ یہ مسکاتی تھی۔ اتراتی تھی۔ (دھوپ ایسی تو نہیں تھی پہلے:راشد انور )
خوبصورت نرم و نازک /اک کلی کی گود میں/خوشبو نے جب آوازدی/ رنگیں کلی /فرط مسرت سے ہنسی دل کھول کر۔ (خمیازہ ۔پروین شیر)
درج بالااشعار سترّ کی دہائی والی شاعری سے الگ ہیں اور ان نوجوا ن شعراکی شاعری جو نسل 1980 کے بعد ابھری ہے یقیناًان کے رومانی انداز میں فرق پائیں گے ۔ ستر کے آس پاس جدید شاعروں کے رومانی اظہار میں جو برہنگی آئی تھی وہ وقتی ثابت ہوئی اور بعد کی نسل نے اسے رد کردیا ۔ بعد کی نسل نے اپنے رومانی اظہار میں کم از کم اس حیاداری یا اس تہذیب کو رکھا ہے جو ہماری بے لباسی پر ایک چادر ضرور ڈالتی ہے ۔
ایسا نہیں کہ جدید شاعر ی کے اندر صرف تانیثی کرداروں کے ذکر میں جنسی ہیجان انگیز ی ہی بیان ہوتی ہے ۔ جنسیات کے ہنگامے صرف نئے فیشن کے طور پر ابھرے ورنہ وہاں بھی رومانی اظہار کے بہتر نمونے موجود ہیں۔
دیکھو بھی تھا اس کو شادی کا /خوش بھی ہے وہ دیکھ کتنی
(زندگی کی رنگارنگی /منیر نیازی)
مائل بہ کرم ہیں راتیں /آنکھوں سے کہو اب مانگیں /خوابوں کے سوا جو چاہیں۔
(شہر یار)
وہ مری روح کی شہزادی /مرے شوق وارماں کا مرکز نہیں /رات کے چند بے کیف لمحات کو چھوڑ کر /میرا اور اس کا رشتہ /نہیں ہے کوئی /پھر بھی وہ میرے انفاس کی آمد و شد کا حصہ /مر ے خون کی راز داں ہے۔
(تمھار ے لیے ایک نظم ۔ مظہر امام)
شاہد احمد شعیب اور علیم اللہ حالی کا تعلق بھی 60کی دہائی سے ابھرنے والے شاعروں میں ہوتا ہے اور یہ دونوں خالص نظموں کے شاعر ہیں مگر ان کا ذکر بہت کم نظموں کے حوالے سے ہوتا ہے۔ شاہد احمد، شعیب کے شعری مجموعے ’لے سانس بھی آہستہ‘اور’ نازک ہے بہت کام ‘ ہیں۔ علیم اللہ حالی کے شعری مجموعے سفر جلتے دنوں کا اور’ نخل جنوں‘منظر عام پر آچکے ہیں ان کی کئی نظمیں ہر اعتبار سے کافی اہم ہیں پھر بھی ان کی تخلیقی پذیرائی ویسی نہیں ہوئی جیسی شعری کاوش تھی ۔ موضوع کی مناسبت سے ان کے بھی رومانی تیور کا انداز دیکھیے ۔
تحرک /زندگی/رفتار کا چہرہ/دل تسکین طلب کی گرمیِ اظہار کا چہرہ/مسرت /سرخوشی /آرام کی صورت /توازن، خامشی اسرار جوش انجام کی صورت /سکون رشتہ دل بھی جمال ربط بھی تم سے /علاج درد بھی تم سے کمال ضبط بھی تم سے ۔
(شبد: شاہد احمد شعیب)
وہ کیا ہے جو تنہائیوں میں خلل ڈالتا ہے/کبھی جسم بن کر /مجھے لمس کا ذائقہ بخشتا /کبھی موت بن کر /سماعت میں رس گھولتا ہے /کبھی سات رنگی دھنک سے /مجھے جھانکتا ہے /کبھی خوشبوؤں کے تھپیڑوں سے/ میری تھکی مضمحل نیم خوابیدہ /ہستی کو بیدار کرتا ہے .............لیکن /میں جب اپنی مشتاق نظروں سے دیکھوں /نظر بھی نہ آئے ۔
(شکست تنہائی ۔ علیم اللہ حالی)
پیش کردہ دونوں نظموں کی لفظیاتی ترنگ دیکھیے اس میں جو پیکر طرازی کی گئی ہے رومانیت کے جذبے آج کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں ۔ تحرک ، زندگی ، رفتار کا چہرہ ہمیں دل کی تسکین اور طلب کی گرمی اظہار کے ساتھ مسرت سرخوشی ، آرام ، توازن ، خاموشی کے ساتھ جوش انجام تک جمال ربط اور کمال ضبط کی منزل تک پہنچاتے ہیں ۔ اسی طرح شکست تنہا ئی میں علیم اللہ حالی کا ڈکشن بھی عجیب و غریب تجسس والی صورتیں پیدا کرتا ہے۔ وہ کیا ، تنہائیوں میں خلل ، جسم بن کر لمس کا ذائقہ ،موت بن کر سماعت میں رس گھولنا ، سات رنگی دھنک سے جھانکنا ، خوشبوؤں کے تھپیڑوں سے تھکی اور مضمحل نیم خوابیدہ ہستی کو بیدار کرنے کا عمل ایک مسرت بھرا لمحہ عطا کرتا ہے جس میں آرزوؤں اور خواہشوں کے پر پنکھ نکلتے ہیں اور یہی کیف زا لمحے زندگی کو تحرک عطا کرتے ہیں۔
اب جب کہ یہ مضمون اپنے خاتمے کی طرف ہے تو موضوع کی مناسبت سے اردو ادب میں بے شمار شعرا رومانیت کے پرچم اٹھائے ہوئے ملیں گے یا جن کے یہاں رومانی فضا کے ضرور کچھ نہ کچھ نقش موجود ہیں ان کا ذکر ہونا چاہیے تھا لیکن مجبوراً نہیں ہوسکا مثلا حامد اللہ افسر ، اسماعیل میرٹھی ، ساغر نظامی، احسان دانش ، الطاف مشہدی ، اختر انصاری ، علی اختر حیدر آبادی ، روش صدیقی وغیرہ جنھیں اردو کی رومانی تحریک سے وابستگی کا شرف حاصل ہے یا ان کے یہاں اقبال ، جوش اور اخترشیرانی کے گہرے اثرات موجود ہیں اسی طرح ترقی پسند شعرا اور حلقہ ارباب ذوق او ر جدیدیت کے بھی چند ہی شعرا کی نظمیں موضوع بحث بن سکی ہیں۔ جدیدیت کے بعد کی اور ما بعد جدیدیت سے کچھ پہلے کی نسل میں بھی چند اچھے شعرا رہ گئے ہیں مثلا رفعت سروش ، زبیر رضوی ،پروین شاکر، صلاح الدین پرویز ، عبدالاحد ساز ، عین تابش ، رونق شہری کے یہاں اچھی اچھی نظمیں موجود ہیں ان کا شمار اچھے نظم نگاروں میں ہوتا ہے1980 کے بعد کے بھی شعرا کی اچھی خاصی تعداد ہے ان کی فہرست سازی یہاں مقصود نہیں۔ کئی لوگوں کے کئی شعری مجموعے منظر عا م پر آکر دانشور حضرات سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں ایک ایسے شاعر کا ذکر چاہتاہوں جنھوں نے کئی اچھی نظمیں لکھیں ہیں وہ تقریباً تیس برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے شاعری کررہے ہیں۔ اردو کے تمام معتبر رسالوں میں چھپتے رہتے ہیں مگر ان کا اب تک کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہ آسکا ہے۔ انھیں غزلوں اور نظموں دونوں میں قدرت حاصل ہے ان کے یہاں نئی شاعری کے تمام امکانات روشن ہیں ۔’زبان و ادب ‘پٹنہ اکتوبر 2012 میں ان کی ایک نظم ’خواب دیکھنا برا نہیں ‘ شائع ہوئی ہے اس کی رومانیت کے رنگ دیکھیے ۔
’’نہ وہ کلی ، نہ اس کا وہ لباس تھی/نسیم سے گلوں کی گفتگو/محض فریب تھی/نہ انتظار کی چمکتی کہکشاں /نہ وہ فضا بہار کی /اجاڑ دل میں رہ گئی /وصال رت کی آرزو/مگر وصال رت کا خواب دیکھنا برا نہیں/چلو پتہ لگائیں ہم /یہ کون محو خواب تھا۔
اس نظم کو شاعر کی زندگی یعنی سنامی حادثے سے جوڑ کر دیکھیے اس کی ارضیت کا حسن نکھر جاتا ہے۔ اس میں جو پیکر ابھر ے ہیں اور آرزوؤں کے رنگا رنگ خونی چھینٹے بکھرے نظرآئے ہیں اور پھریہ کہنا کہ خواب دیکھنا برا نہیں امید کی ایک مسکراتی ہوئی صبح کا خیر مقدم ہے۔ جہاں سے زندگی روشن ہوجاتی ہے۔میری مراد شاہد اختر سے ہے جن کی نظم خواب دیکھنا برا نہیں اچھے مستقبل کی ایک علامتی نظم ہے جس کی سریت میں ماضی کا دکھ درد بھی کافور ہوگیا ہے۔
نئی نظم میں رومانیت کے موضوع کو تانیثی کردار وں نے بہت اہم بنادیا ہے، جس کی وجہ سے اردو شاعری کا دامن بہت وسیع نظر آتا ہے ۔ اس کے اندر انسان کی آرزو ،امید ، خواہش ، حسرت ، یاس ، طلب ، ہوس، وصال، ہجر ، تڑپ، خلش ، خواب ، تنہائی، امنگیں ، جوش ، ولولہ ، آسودگی ، محرومی ، غم اور خوشی جیسے موضوعات میں بے انتہا رنگینیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ دیکھا جائے تو انسانی زندگی انھیں بنیادوں پر اپنا کارواں آگے بڑھاتی ہے ۔ میرے خیال سے رومانیت کا وجود قصۂ آدم سے جڑا ہوا ہے ۔ جیسے جیسے آدم کی زندگی بے جان پتلے سے جان دار جسم کی طرف سفر کرتی ہے رومانیت ویسے ویسے انگڑائیاں لینا شروع کرتی ہے۔ تنہائیوں کے کرب نے بابا آدم کو ماں حوا کے وصال کی مسرت بخشی پھردانہ گندم نے دنیا کی سیر کرائی،۔ آدمی آباد ہوا تو جنگل سے بستی تک کے سفر میں اس نے اپنے دماغ سے ہزاروں گل بوٹے کھلائے ۔ نہ جانے کتنی صدیاں اور کتنی تہذیبوں کے پہاڑ دریا اور جنگل عبور کرتے ہوئے آج انسان بستی اور بستی سے شہر تک پہنچا ۔رومانیت ہمیں ہر نئی دنیا سے متعارف کراتی ہے ۔ جب سائنس حواس خمسہ کی قائل ہو تی ہمارے یہاں نسوانی کردار بھی اسی طرح کے برتے جانے لگے جو ہماری دنیا کے ہیں ۔ ماورائی علامتیں رفتہ رفتہ کم ہونے لگیں۔ پریوں ، شہزادیوں ، حوروں اور اپسراؤں کی جگہ عام لڑکیوں کی معصومیت اور عورتوں کی محبوبیت نے لے لی ۔ رومانیت کبھی ختم نہ ہونے والی شے ہے کیونکہ جب تک مرد اور عورت رہیں گے ان کے رشتے قائم ہوتے رہیں گے اور ایک نئی دنیا آباد ہوتی رہے گی۔ نئی نظم کی رومانیت کا یہ ارضی رشتہ ابھی بے شمار حیرت واستعجاب کے امکان سے آباد نظر آتا ہے ۔
حواشی
.1 جدید اردو تنقید اصول و نظریات : شارب ردولوی کتاب پبلشرز لکھنؤ 1968 ۔ ص۔155
.2 ’’ ’’ ص۔156 A History of Modern criticism by Wellek VOL-2 Pages 3
.3 اردو ادب کی تحریکیں :انور سدیدکتابی دنیا دہلی 2008 ، ص۔50/51
.4 ’’ ’’ 85
.5 جدید اردو تنقید اصول و نظریات: شارب ردولوی کتاب پبلشرز ، لکھنؤ،1968، ص۔159
(I) ’’ ’’ ’’
(II) علی گڑھ اور رومانی نثر کے معما ر: اسلوب احمد انصاری، علی گڑھ نمبر،ص۔123
.6 جدید اردو تنقید اصول و نظریات : شارب ردولوی ، ص۔160
.7 اردو ادب کی تحریکیں :انور سدیدکتابی دنیا دہلی ،2008،ص۔444
.8 نظم جدید کی کروٹیں : وزیر آغاایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،ص۔48/49
.9 ’’ ’’ ص۔49
.10 ’’ ’’ ص۔51
.11 نئی نظم اور آدمی ، سلیم احمد صفحہ۔34، اور جدید اردو تنقید ، شارب ردولوی ،ص۔238
.12 جدید اردو نظم ،نظر و عمل : عقیل احمد صدیقی ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ2012 دوسرا ایڈیشن ص۔136
.13جدید اردو نظم: نظر یہ و عمل:عقیل احمد صدیقی، ص۔447

Mr. Ashhad Karim Ulfat
Deartment of Urdu, K. S. Saket, P. G. College,
Ayodhya, Faizabad, (UP) - 224123
Mob:-09580931903



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ: