22/3/19

نئی نظم کا پس منظر مضمون نگار:۔ شیخ محبوب


نئی نظم کا پس منظر
شیخ محبوب
زندگی ہر پل تغیر و تبدل سے عبارت ہے ۔ادب زندگی کا حافظہ ہے۔اس میں پل پل ،لمحہ لمحہ،ہر آن زندگی محفوظ ہوتی جارہی ہے ۔ ادب نے زندگی کے ہر واقعے کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ جب کوئی حادثہ ،کوئی واقعہ ،کوئی تجربہ یا کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو فن کار اسے کسی ادبی صنف کے پیمانے میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ادب کی مختلف اصناف میں سے ایک اہم ، کارآمد اور ہر دور عزیز صنف سخن ہونے کا اعزاز ’ نظم ‘کو حاصل ہے۔ 
لفظ ’نظم‘ اپنے اندر بڑی معنوی وسعت رکھتا ہے‘ کان میں پڑتے ہی ہمارے خیالات میں ترتیب ، تزئین ، تنظیم،انصرام ،انتظام ، اہتمام ، قاعدہ ، اُصول ، ضابطہ ، بندش جیسے الفاظ گونجنے لگتے ہیں کیونکہ ادبی اصطلاح میں جس صنف کا رنگ سخن درج بالا الفاظ کی ترجمانی کرتا ہے ا سے ’ نظم ‘کہتے ہیں۔نظم ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں حیات و کائنات کے کسی حادثے، خیال ، مشاہدے،یا تجربے کو تسلسل کے ساتھ اس انداز میں پیش کیاجاتا ہے کہ قاری کے ذہن پر ایک تاثر قائم ہوجاتا ہے وہ تھوڑی دیر کے لیے شاعر کا ہم نوا ہوکرشاعر کی خلق کردہ فضا میں کھوسا جاتا ہے۔ نظم کا ہر مصرعہ دوسرے مصرعوں سے کسی مالا کے موتیوں کی مانند منسلک ہوتا ہے جس کا گہرا تعلق اپنے عنوان سے ہوتا ہے ۔ایک کامیاب نظم میں خیال اور ارتقائے خیال کا ہونالازمی ہے۔ نظم میں خیال کی ابتدا ارتقاء اور انتہا ء کا وجود اس کی کامیابی کی روشن دلیل ہے۔ جب ہم نظم کا نام لیتے ہیں تو اس کا ایک خاص پیکر ہمارے خیال میں واضح ہوتا ہے۔ یہ شاعر کے انکشاف ذات کے عمل کو جنبش دیتا ہے اور جذبہ وفکر کے پوشیدہ پہلو ؤں کو منظر عام پر لانے میں کارگر ہوتا ہے۔نظم کے پیکر کی خصوصیت اس کی اکائی ہوتی ہے اور نظم کا ہر مصرعہ نظم کے مرکزی خیال کی توسیع و تکمیل میں معاون ہوتا ہے اس کی اپنی انفرادیت نہیں ہوتی ۔
نئی نظم کے آغاز سے قبل ، قلی قطب شاہ ،برہان الدین جانم ،افضل جھن جھانوی ،جعفر زٹلی فائز دہلوی ‘ حاتم‘ آبرو، مظہر جان جاناں‘ خان آرزو اور نظیر اکبر آبادی وغیرہ نے اس صنف کو اظہار کا وسیلہ بنایا ۔اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کی نظموں میں موضوعات کا تنوع بھر پور نظرآتا ہے ۔ا ن کی نظموں میں موسموں ‘ریت رواجوں ‘تہواروں ‘ عمارتوں ‘ شاعر کی محبوباؤں کے ذکر کے علاوہ ہندوستانی پھلوں ‘ پھولوں ‘ چرند پرند رسم و رواج ، کی تفصیلات کا بھی تذکرہ اور حیات انسانی کی ساری سرمستیاں ،رعنائیاں ،اور دل فریبیاں قلی قطب شاہ کی نظموں میں صاف جھلکتی ہیں۔ نظیر اکبر آبادی اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے روایت سے ہٹ کر شاعری کی اور صنف نظم کو اپنے خیالات و تجربات کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔ نظیر کے مشاہدے میں غیر معمولی گہرائی تھی۔ انھوں نے قوم و ملک کی زبوں حالی اور بر گشتگی کا ذکر اپنی نظموں میں کیا ہے یہ ایک باشعور اور حساس شاعر کی مثال ہے ۔ملک میں مسلسل خانہ جنگی ،لوٹ مار ،قتل عام ،شہروں کی ویرانی و بربادی ،فصلوں کی تباہی ، اور اخلاق سوز حادثات کی بہتات وغیرہ میں ان کی شاعری پروان چڑھی، یہی ان کی نظموں کا پس منظر ہے۔ 1830 میں نظیر کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد 1865 تک نظم کی دنیا ویران اور خاموش رہی۔ دراصل اس دور میں غزل سب سے زیادہ محبوب صنف سخن رہی ہے ، پھر آزاد اور حالی نے نظم کے گلشن کو گلزار بنا دیا۔ لیکن نظیر کے زمانے تک کی نظم نگاری کے سفر کی روداد یہی کہتی ہے کہ روایتی نظم کے ان شعرا نے کسی با ضابطہ یا طے شدہ منصوبے کے تحت نظم نگاری کو فروغ دینے یا اس کی ترقی کی کوشش میں نظمیں نہیں لکھیں ‘ بلکہ تسکین ذوق ان کا منشا رہا ہے۔دوسرے یہ کہ قلی قطب شاہ سے لے کر نظیر اکبر آبادی تک کی نظم نگاری کا مطالعہ کیجیے تویہ بات بلا شبہ کہی جاسکتی ہے کہ اردو نظم میں ابتدا ہی سے موضوعات کا زبردست تنوع پایا جاتا ہے ۔ 
انیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں نظم کے روایتی معنی و مفہوم نے کروٹ بدلی۔ نتیجے میں’ نئی نظم ‘کا جنم ہوا ۔ہمارے شعرا نے اس کے روایتی سانچے کو ہی بڑے پیمانے پرنہیں بدلہ بلکہ روایتی اسلوب ‘ہیئت اور اندازوآہنگ ‘مزاج و مذاق‘ لب و لہجہ ‘طریقۂ کاراور فضا کو بھی تبدیل کیا۔ اس نئی نظم کے آہنگ،اسلوب ، ہیئت ،رویے،مزاج،لب و لہجہ،طریقہ کاراور فضامیں کسی نہ کسی اعتبار سے تازگی کا احساس ہوتا ہے، جس سے نئی نظم کا ایک نکھرا ہوا اور نیا روپ سامنے آیا اور جسے اس عہد کے تقریباََ تمام شعرا نے پسند کیا۔ نظم کے اس نئے سانچے میں اپنے تجربات و مشاہدات اور خیالات کی ترسیل کی کوشش کرتے رہے ‘ان میں سے بعض کو کامیابی ملی اور بعض ناکام رہے ۔
نئی نظم کو لے کر ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نئی نظم سے کیا مراد لی جارہی ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانے کا ادب اپنے زمانے میں نیا ہوتا ہے لیکن نئی نظم میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے اسے’ نئی نظم‘ کہا گیا ۔دراصل نئی نظم سے مراد وہ نظم ہے جس کے آئینے میں اپنے زمانے کے جذباتی اور ذہنی زندگی کے تمام خد و خال اور نئے مسائل کا عکس نمایاں طور پر نظر آئے‘ جو کسی انقلابی انداز سے اپنے زمانے کے بدلتے ہوئے ماحول کی حقیقی تصویر کشی کرے‘جس میں اپنے زمانے کی فرسودہ اور پامال روایات سے بغاوت نظر آئے‘ جس میں نئے تجربات کی آنچ سلگتی نظر آئے‘جو ماضی کی ڈگر سے تھوڑا سا ہٹ کر چلے‘جس میں نئے زمانے کے بدلے ہوئے احساس ،تقاضے اور شعور کی چنگاری نظر آئے‘جس میں سوچنے کا نیا انداز ہو، غور و فکر کا نیا آہنگ ہو‘جس میں نئے تصورات اور نئے خیالات کے چراغ روشن ہوں ‘حیات و کائنات کو دیکھنے کا نیا نقطۂ نظر ہو‘زندگی کے نئے معیار اور نئی اقدار کی تلا ش ہو ،جسے پڑھ کر یوں لگے کہ نظم کا قافلہ زندگی کی نئی اور صحت مند راہ پر گامزن ہے اسی کو ’نئی نظم ‘ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
نئی نظم کے پس منظر کا مطالعہ کیجیے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اردو میں نئی نظم کی تشکیل و تعمیر میں جن عوامل یا واقعات کی کارفرمائی نظر آتی ہے وہ یہ ہیں: (1) 1957 کی ناکام جنگ آزادی (2) انجمن پنجاب لاہور کا قیام (3) مغربی نظموں کے اردو تراجم (4)مغربی نظموں کے اردو پر اثرات ۔(5) اردو نظم میں ہیئت کے تجربے۔ 
نئی نظم کے پس منظر کی دیدہ وری کے لیے ہمیں ماضی کے سمندر میں غوطہ زن ہونا ہوگا ۔ 1857 ہماری تاریخ کا سب سے زیادہ ناقابل فراموش برس ہے کیوں کہ اسی سال ہماری آزادی چھین لی گئی تھی اورہم غلامی کی زنجیروں میں قید کردیے گئے تھے ۔ہمارے نئے حاکم انگریز تھے ۔انگریزی زبان کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی ۔حالات نے انقلابی کروٹ لی تھی۔ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی آئی تھی ،ادبی اصناف بھی اس سے متاثر ہوئیں۔اب تک اردو نے عربی اور فارسی کے علاوہ ملک کی دوسری زبانوں سے ہی استفادہ کیا تھا لیکن اب انگریزی زبان و ادب نے بھی اردو پر اثرات مرتسم کرنے شروع کر دیے تھے۔ ہمارے بعض شعرا ،ادبا ،ناقدین اور ماہرین نے انگریزی زبان کے اثرات قبول کیے اس کے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد انھیں اپنے دور کا اردو ادب پست ، سطحی اور کمزور نظر آنے لگا ۔انگریزی ادب کی چکا چوند نے ہمارے علمائے ادب کی آنکھوں کو خیرہ کردیا اور وہ اپنے ادب کو ترقی کے دھارے میں لانے کے لیے کوشاں ہوئے ۔ان میں سر سید احمد خان،مولا نا محمد حسین آزاد،خواجہ الطاف حسین حالی کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
سر سید شاعر نہیں تھے لیکن شعر فہمی کا بڑا شعور رکھتے تھے۔زرخیز ذہن کے مالک تھے ۔ انھوں نے نثرکو اپنا وسیلۂ اظہار ضرور بنایا لیکن وہ ادب کے شعری و نثری دونوں ایوانوں کو اہمیت دیتے تھے۔ انھوں نے 1857 کے قیامت خیز حادثے کے بعد اپنی مردہ دل ،پامال اور بے وقار ،قوم کو با وقار، سربلند اور زندہ دل بنانے نیز ان میں خود اعتمادی کا جذبہ جگانے کے لیے اردو ادب سے مدد لی ۔وہ جانتے تھے کہ کسی قوم کی تعمیر و تشکیل میں ادب نہایت کار گر ثابت ہوسکتا ہے لیکن چونکہ اردو شاعری میں اس وقت بڑی تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت تھی۔ اس اہم ضرورت کو سرسید نے محسوس کرلیا تھا اور اس کی اصلاح کے لیے کمر بستہ ہوئے تھے ۔سرسید پہلے شخص تھے جنھوں نے اردو ادب کی تصحیح کے تعلق سے اظہار خیال کیا۔ آزاد،حالی اور شبلی کی ذہنی و فکری نشوونما میں سر سید کا نمایاں کردار رہاہے۔
نئی نظم کی ابتدامیں انجمن پنجاب لاہور کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ نئی نظم کا ہیولہ لاہور کی مٹی سے بنا ۔اس کی فضا میں لاہور کی مٹی کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔ اسی سرزمین پر آزاد نے ناظم تعلیمات میجر فُلر کی مدد سے 21 جنوری 1865 کو پنڈت من پھول کی صدارت میں ’ انجمن پنجاب ‘ کی بنیاد رکھی۔ پنڈت من پھول کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر جی۔ ڈبلیو۔لیٹنر نے انجمن کی صدارتی ذمے داری قبول کی۔ جس وقت انجمن کی بنیاد رکھی گئی اس وقت اس کا نام ’انجمنِ اشاعت مطالبِ مفیدہ‘ رکھا گیا۔بعد میں اسے انجمن پنجاب کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ آگے چل کر کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی انجمن کو حاصل ہوئی تو اس نے زبردست ترقی کی ‘کسی انجمن کا قیام اچانک عمل میں نہیں آسکتا۔ اس کے قیام سے قبل اس کی بنیاد رکھنے سے متعلق ماحول بنایا جاتا ہے،منصوبہ ترتیب دیا جاتا ہے اور اس منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے مختلف تدابیر سے کام لینا پڑتا ہے ۔انجمن پنجاب کے قیام کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہو آزاد نے انجمن کے قیام کا منصوبہ1864 میں ہی بنالیا تھا۔بقول ڈاکٹر صغیر افراہیم :
’’ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ نظم جدید کے فروغ کے لیے آزاد نے 1864سے ہی راہیں ہموار کرنی شروع کردی تھیںیعنی اس وقت سے جب وہ پنجاب میں سررشتۂ تعلیم میں تراجم پر نظرثانی اور دُرستی کے لیے مامور ہوئے تھے۔‘‘ 1
یعنی انجمن پنجاب کے قیام سے قبل ہی آزاد کے ذہن میں اس کے بیج بوئے جاچکے تھے لیکن اس منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے انھیں بڑی جد وجہد کرنی پڑی۔ آخرکارانھیں کامیابی ملی اور21 جنوری 1865 میں انجمن کا قیام عمل میں آیا ۔انجمن پنجاب تو قائم ہوگئی لیکن ابتدا میں اسے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔چونکہ آزاد انگریزی سرکار کے ملازم تھے اور سر سید کے رفیق خاص بھی، اس لیے لوگوں نے آزاد کی اس کاوش کو ابتدا میں مشکوک نگاہ سے دیکھا، اس کی مخالفت میں اتر آئے۔ لیکن آزادکی ذہن سازی جس مرد مجاہد نے کی تھی اس کا نام سر سید احمد خان تھا۔ سر سید اور ان کے رفقا آزاد کے اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کی پشت پناہی کرتے رہے ۔یہاں تک کہ آزاد کی کشش حالی کو لاہور تک کھینچ لائی۔1870 میں حالی لاہور آئے انھوں نے انجمن کی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی لی اور انجمن کو ترقی کی راہ پر لا کھڑا کیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اردو میں ’نئی نظم‘ کی ابتدا کا سہرا آزاد کے سر جاتا ہے ۔انھیں اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ ملک میں نئی تہذیب اور نئے علوم و فنون سارے اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔حالات تیزی سے بدل رہے ہیں بدلتے ہوئے حالات نے نئی نظم کا تصور آزاد کے ذہن میں قائم کر دیا ۔سب سے پہلے انھوں نے ہی اردو میں نئی نظم کے خدو خال ، مواد اور موضوعات کی طرف ہمارے شعرا کی توجہ مبذول کراتی ۔ ان کی نظم’ شب قدر ‘ اس سلسلے کی پہلی نظم تھی جو1867 میں منعقدہ انجمن کے پہلے مشاعرے میں پڑھی گئی ۔اس نظم میں آزاد نے اس کی ہیئت میں تو کوئی تجربہ نہیں کیا البتہ اس میں موضوع اور مواد ،رنگ و آہنگ، لب و لہجہ اور فکر و احساس کی تازگی و نیا پن ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس کے بعد آزاد نے 1883 میں ’ جغرافیہ طبیعی کی پہیلی ‘ کے نام سے ایک نظم لکھی جو اردو کی پہلی معرا نظم کہی جاسکتی ہے۔اس سلسلے میں آزاد کے ایک شاگرد معشوق حسین خان کے حوالے سے پروفیسر حنیف کیفی کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:
’’ جغرافیۂ طبعی کی پہیلی ‘ پر ایک نظم انھوں (آزاد) نے بحر غیر مقفا میں جسے انگریزی میں بلینک ورس کہتے ہیں لکھی ہے۔اس بحر میں نہ قافیہ نہ ردیف صرف وزن ہی وزن ہوتا ہے ۔اس نظم کا دائرہ اس قدر وسیع ہوجاتا ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ خیالات نہایت آسانی سے ظاہر ہو سکتے ہیں اور عمدہ اور فلسفیانہ مضامین نہایت آسانی سے آسکتے ہیں ۔یہ وہ بحر ہے جس میں انگریزی میں ملٹن اور شکسپیر نے لکھا ہے ۔‘‘2
آزاد نے اس نظم کے ساتھ اس مشاعرے میں ’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات ‘ کے عنوان سے ایک لکچر دیااس لکچر میں آزاد نے قدیم اور نئی شاعری کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی اور انگریزی شاعری کی ندرت ،تازگی ،معنویت، صداقت اور تنوع کا احساس دلاتے ہوئے ،ہمارے شعرا کو اس سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ نئی نظم کے متعلق آزاد کے خیالات پنجاب کے ایک اخبار ’ آفتاب پنجاب ‘ میں شائع ہوئے تو اسے پڑھ کر ہمارے شعرا میں ایک نیا جوش ، ایک نئی امنگ ،ایک نیا حوصلہ جاگ اٹھا اور وہ مغربی نظموں کے تراجم سے استفادہ کرنے لگے ‘نتیجہ یہ ہوا کہ اردو میں انگریزی نظموں کے تراجم بڑے پیمانے پر ہونے لگے۔ 
انجمن پنجاب کے مشاعروں کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس میں مصرعہ طرح کے بجائے کوئی عنوان دیا جاتا تھا اور شعرائے کرام سے اس موضوع پر نظمیں لکھنے کی درخواست کی جاتی تھی ۔اس طرح اردو شاعری میں ایک نیا اور اپنی قسم کا ایک الگ تجربہ بھی ہوا اور یہ تجربہ کامیاب بھی ہوا۔یہیں سے اردو شاعری میں نئے طرز کے مشاعرے کا آغاز بھی ہوتاہے جسے ’ مناظمہ ‘ کا نام دیا گیا ۔مناظمہ اس مشاعرے کو کہتے ہیں جس میں صرف نظمیں پڑھی جاتی ہیں۔ 
اس طرح آزاد ،حالی اور دیگر شعرا کی مساعی رنگ لائی اور اردو میں نئی نظم کا آغاز تو ہوا لیکن نئی نظم کی نئی ہیئت کو لے کر آزاد کے علاوہ ان میں سے کسی شاعر نے ابتدا میں کوئی تجربہ نہیں کیا ۔ حالی نے انجمن کے مشاعروں میں چار نظمیں پڑھیں جن کے عناوین ہیں: برکھا رت ‘ مناظر�ۂ رحم و انصاف ،نشاط امید، اور ’حب وطن‘۔یہ نظم کی قدیم ہیئت میں ہیں۔لیکن یہ نیچرل شاعری کی مثال بنیں، ان میں سادگی و اصلیت کے ساتھ نیا آہنگ و احساس بھی پایا جاتا ہے۔
نئی نظم کے اسی ابتدائی دور میں ہیئت کے نئے تجربے بھی کیے گئے۔ یہاں اس تعلق سے مختصراََ اظہار خیال کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ نئی نظم ایک طرح سے ایک نیا شعری پیکر یا ایک نیا شعری فارم بھی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر نئی چیز کو فوری طور پر قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوتا ۔آہستہ آہستہ قبول عام ملتا ہے۔نظم میں ہیئت کے تجربوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ بقول خلیل الرحمن اعظمی:
’’ فنی سانچوں میں شکست و ریخت کی کوششیں اس دورمیں بھی ہوئیں لیکن اس کا ادبی مزاج بہت دیرتک ان تبدیلیوں سے مانوس نہ ہوسکا ۔‘‘3
نئی نظم میں ہیئت کے تجربوں کا آغاز مغربی نظموں کے تراجم سے ہوا۔مغربی نظموں کے تراجم نے نئی نظم کے لیے راہ ہموار کی اس سلسلے میں سب سے پہلے ترجمہ کرنے والے شاعر غلام مولاقلق میرٹھی ہیں۔قلق میرٹھی شاعر تھے، انھوں نے طبع زاد نظمیں بہت کم لکھیں۔ لیکن ان کے تراجم بہت مقبول ہوئے ۔انھوں نے جن مغربی نظموں کے تراجم کیے وہ ’جواہر منظوم ‘ کے نام سے 1864 میں شائع ہوکر منظر عام پر آئے۔اس مجموعے کو اردو کا پہلا منظوم ترجمہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کیوں کہ اس سے قبل ایسا کوئی مجموعہ نظر نہیں آتا ہے۔جواہر منظوم کی نظموں کی فہرست اس طرح ہے:
1۔اوصاف اخلاق، 2۔بیان کرمک 3۔حکایت پسرناخدا 4۔بیان جنت 5۔میرا باپ کشتی بان ہے، 6۔ بیان ہندوستاں، 7۔داستان اندھے لڑکے کی، 8۔ داستان شاہ کین یوٹ کی، 9۔ قصہ ویم ٹیل، 10۔خواہش طفل، 11۔عرضی موش محبوس 12۔لڑکپن کی پہلی مصیبت 13۔دربان تمیز حق و باطل، 14۔ذکر ابا بیل بدیسی کا، 15۔ سادگی طبیعت کی خواہش۔
قلق کے بعد ترجمہ نگاری میں اہم نام نظم طباطبائی کا ہے ۔انھوں نے ٹامس گرے کی نظم ’ ایلجی‘(elegy)کا اردو ترجمہ ’گور غریباں ‘ کے نام سے کیا جسے اردو میں بہت پسند کیا گیا ۔نظم طباطبائی پہلے شاعر تھے جنھوں نے نئی نظم کے فنی سانچے میں تبدیلی کی۔ حالانکہ یہ تبدیلی ترجمے کی شکل میں ہمارے سامنے آئی، یہیں سے اردو نظم میں ہیئت کے تجربے کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ ’گور غریباں ‘ میں بند کا نیا تصور ملتا ہے ۔یہ ترکیب بند ،ترجیع بند یا مخمس و مسدس کے بند سے مختلف ہے ۔عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’دل گداز ‘ میں اس نظم کو شائع کیا اور اس پر اپنا مختصر تاثر بھی لکھا کہ اردو میں اسٹینزا فارم اسی نظم سے شروع ہوتا ہے لیکن یہ فارم بھی اگرچہ چار چار مصرعوں کے قطعے کی ہی ایک صورت تھی ‘اردو میں بہت دنوں تک نامانوس رہا اور اسے بھی بہت دنوں بعد قبول عام نصیب ہوا ۔اس کے علاوہ شرر نے ایک اور نیا تجربہ کیا۔ انھوں نے اردو میں نظم معریٰ اور آزاد نظم کو رواج دینے کی کوشش کی ۔شرر نے خود بھی اس طرح کے ترجموں کی ہمت افزائی کی دوسروں کو بھی اس جانب راغب کیا۔ سر عبدلقادر نے ’مخزن ‘ میں اس پر خاص توجہ دی۔ پھر اس دور کے دوسرے رسائل میں بھی منظوم ترجمے شائع ہونے لگے۔ لیکن یہ منظوم تراجم زیادہ تر انگریزی شاعری کے رومانی شعرا کی نظموں کے ہیں۔اس زمانے کے نئے اور پرانے سبھی اردو شعرا نے ترجمہ نگاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آزاد ،ظفرعلی خاں ،عزیز لکھنوی ، حسرت موہانی ،غلام بھیک نیرنگ،سرور جہاں آبادی ،احسن لکھنوی ،ضامن کنتوری ، محمود خان شیرانی،آصف علی بیرسٹر،تلوک چند محروم ،پنڈت دتاتریہ کیفی،طالب بنارسی،اظہر علی آزاد کاکوروی،اوج گیاوی میر نذیر حسین انبالوی وغیرہ جیسے کئی شعرا نے اس طرف توجہ دی ۔
انگریزی نظموں کے ان تراجم سے یہ تو ہوا کہ اردو نظم کی فضا اور اس کا منظر نامہ آہستہ آہستہ بدلنے لگا لیکن اس دور کی نئی نظموں کا مطالعہ کیجیے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے انگریزی نظموں کو بھی اردونظم کے مزاج و مذاق کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ۔البتہ اس دور میں نادر کاکوروی ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے اردو نظم کو ایک نیا ذائقہ دیا۔ لیکن ان کی اس کوشش کے سبب ان کے فن کے امکانات بروئے کار نہ آسکے۔انگریزی نظموں کے تراجم سے اخذ و استفادے کے اس دور میں سب سے زیادہ جس شاعر نے متاثر کیا وہ اقبال ہیں جنھوں نے نئی نظم کی تشکیل و تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔اقبال نے ایسی نظم کو فروغ دیا جو حالی ،شبلی اور اکبرکے رنگ سخن سے بالکل مختلف اور الگ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ان کی نظموں میں ہیئت کا کوئی بڑا انحراف نہیں ملتا لیکن نئی نظم کانیا رنگ و آہنگ اور احساس ان کی نظموں میں ضرورپایا جاتا ہے۔
اقبال کے ہم عصروں میں سیماب اکبر آبادی ،علی اختر حیدر آبادی ،حفیظ جالندھری ،ساغر نظامی ، روش صدیقی ، جمیل مظہری ،حامد اللہ افسر ، جوش ملیح آبادی ،احسان دانش، اخترشیرانی ، اور مسعود ذوقی وغیرہ نے اس طرح کی نظم نگاری کی طرف خاص توجہ دی ۔ نئی نظم کی ہیئت اور اسلوب کے تجربے کے سلسلے میں جن شعرا نے اس عہد میں اہم کارنامے انجام دیے ان میں عظمت اللہ خاں کا نام سر فہرست ہے ۔وہ غزل کے سخت مخالف تھے اور اس کی گردن بے تکلف ماردینے کا مشورہ دیتے ہیں ۔وہ نظم میں بحروں کو ہندوستانی موسیقی میں ڈھال کر انھیں لچک دار بنانے کے خواہش مند تھے۔ وہ نظم کے مزاج، اس کی زبان او ر اسلوب میں ہندوستانیت پیدا کر نا چاہتے تھے گوکہ ان کے تجربے ہماری شاعری پر زیادہ اثر نہیں ڈال سکے لیکن ان کی نظموں کی زبان و مزاج اور ان کی نرمی سے آگے چل کر میراجی نے آزاد نظم کے سلسلے میں بہت فائدہ اٹھایا ۔
نئی نظم اپنی ہیئت کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہے۔ اس کی جو مشہور ہیئتیں ہیں وہ یہ ہیں نظم معرا،آزاد نظم اور نثری نظم اور ان کے علاوہ سانیٹ،ثلاثی ،ماہیا وغیرہ ہیں۔ ان میں سے بھی اردو میں سب سے زیادہ نظم آزاد کو فروغ حاصل ہوا ۔
نظم معرا میں تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں لیکن قافیہ نہیں ہوتا ۔بس یہی اس کی اہم شناخت ہے ۔نظم معریٰ ہماری شاعری میں انگریزی شاعری کے توسط سے داخل ہوئی۔ انگریزی میں اسے بلینک ورس کا نام دیا گیا ۔اس میں قافیے کی پابندی نہیں کی جاتی ۔اس لیے شاعر کو آزادی ہوتی ہے ۔ انگریزی میں اس کے لیے ایک خاص وزن مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن اردو میں اس کی پابندی نہیں کی گئی کیونکہ یہ شرط اردو شاعری کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔اس لیے ہمارے شعرا نے اس کے لیے الگ الگ اوزان اختیار کیے ۔اخترا لایمان کی ایک معرا نظم ’ کل کی ایک بات ‘بطور مثال حاضر ہے: 
ا یسے بیٹھے تھے ادھربھیا تھے دائیں جانب 

ان کے نزدیک بڑی آپا شبانہ کو لیے 
اپنی سسرال کے کچھ قصے ‘لطیفے ‘ باتیں

یوں سناتی تھیں ہنسے پڑتے تھے سب 
سامنے اماں وہیں کھولے پٹاری اپنی 

منھ بھرے پان سے سمدھن کی انہی باتوں پر 
جھنجھلا تی تھیں کبھی طنز سے کچھ کہتی تھیں

ہم کو گھیرے ہوئے بیٹھی تھیں ‘نعیمہ ‘ شہناز
وقفے وقفے سے کبھی دونوں میں چشمک ہوتی 

حسب معمول سنبھالے ہوئے خانہ داری
منجھلی آپا کبھی آتی تھیں کبھی جا تی تھیں

ہم سے دور ابا اسی کمرے کے اک کونے میں 
کاغذات اپنی اراضی کے لیے بیٹھے تھے 

یک بیک شور ہوا ‘ ملک نیا ‘ ملک بنا
اور اک آن میں محفل ہوئی درہم برہم 

آنکھ جو کھولی تو دیکھا کہ زمیں لال ہے سب 
تقویت ذہن نے دی ‘ ٹھہرو‘ نہیں خون نہیں

پان کی پیک ہے یہ اماں نے تھوکی ہوگی
آزاد نظم اپنے اسلوب کی وجہ سے پابند نظم اورنظم معرا سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں اراکین بحر کی تعداد بھی کم و بیش ہوسکتی ہے لیکن اس میں ایک بحر ہوتی ہے ۔آزاد نظم بھی ہماری شاعری میں مغرب کے اثر سے آئی ہے ۔اردو میں نظم کی اس ہیئت کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ۔اس میں نہ قافیے کی پابندی ضروری ہے نہ ردیف کو لازم سمجھا جاتا ہے، نہ ہی بحر کو اپنانے کی کوئی شرط روا ہے لیکن ہمارے شعرا نے اس باب میں بھی اپنی شاعری کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی ہیئت میں ہلکی سی تبدیلی کی۔ اس میں بحر کو لازمی سمجھا ۔اس لیے اردو کی آزاد نظم میں بحر ہوتی ہے ،اراکین بحر اور اس کی صوتی بندشوں کی پابندی ہوتی ہے۔ البتہ جس طرح نظم معریٰ میں بحر کے مقررہ اوزان کا پایا جانا ضروری ہے ، اس طرح کی کوئی قید آزاد نظم میں روا نہیں رکھی جاتی ہے۔ لیکن کسی ایک بحر کے کم و بیش اراکین کا ہونا لازمی ہے یہ اراکین بحر کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے مصرعے چھوٹے یا بڑے ہوسکتے ہیں مثلا کسی نظم کے پہلے مصرعے میں جو بحر استعمال کی گئی ہو وہی بحر آخر تک اس نظم میں استعمال کی جاتی ہے۔اردو شعرا نے نظم آزاد میں ان اراکین بحر کا استعمال کسی مصرعے میں کم ازکم ایک بار اور اس سے زیادہ چھ بار بھی کیا ہے جیسے مخدوم کی ایک معروف نظم ’سناٹا ‘ ہے جس میں چار مرتبہ رکن فاعلن کی تکرار ہوئی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں :
کوئی دھڑکن /نہ کوئی چاپ
نہ سنچل/نہ کوئی موج
نہ ہلچل /نہ کسی سانس کی گرمی 
نہ بدن/ایسے سناٹے میں اک آدھ توپتاّکھڑکے 
کوئی پگھلا ہوا موتی /کوئی آنسو
کوئی دل /کچھ بھی نہیں 
کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر/کوئی رخسار تو چمکے‘ کوئی بجلی تو گرے۔
(’سناٹا‘ مخدوم محی ا لدین)
اردو میں نئی نظم کے ہیئتی تجربوں کے نتیجے میں نثری نظم کا بھی ظہور ہوا ہے ۔ حالانکہ اردو شاعری میں نئی نظم کی اس ہیئت کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ۔یہ بھی انگریزی شاعری کے توسط سے ہماری شاعری میں داخل ہوئی اس میں نہ قافیہ لازمی ہے نہ ردیف کی پابندی کی جاتی ہے نہ بحر کو اہم گردانا جاتا ہے ناہی وزن کو روا رکھا جاتا ہے۔ اگر اس میں کوئی لازمی شے ہے تو وہ ہے آہنگ۔بس یہی آہنگ ہے جو اسے نثر کے دائرے سے نکال کر نظم کے احاطے میں کھینچ لاتا ہے ۔نثری نظم میں شعریت اور غنائیت کا پا یا جا نا بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے ۔ پروفیسر صادق کے مطابق اردو میں نثری نظم کے آغاز کا سہرا منٹو کے سر جاتاہے انھوں نے اپنے ایک مضمون ’اردو کی اولین نثری نظم اور منٹو ‘ میں منٹو کی ایک نثری نظم کو بطور نمونہ پیش کیا ہے اور کہا کہ:
’’ منٹو نے یہ نظم ’ زندگی ‘ نامی ایک فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے قلم بند کی تھی یہ تبصرہ منٹو کے مضامین کے عنوان شائع شدہ کتاب میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو1942 میں پہلی بار ہوئی تھی۔‘‘4
نثری نظم میں آہنگ کی اہمیت سے انکا ر ممکن نہیں ‘یہاں اخترالایمان کی ایک نثری نظم جس میں آہنگ اور شعریت کے ساتھ ساتھ غنائیت بھی ہے بطور نمونہ پیش کی جاتی ہے:
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشمِ نم ہو ‘ یہاں اب سے کچھ سال پہلے 
مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی‘جسے میں نے اپنی آغوش میں لے کے پوچھا تھا بیٹی !
یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو‘ مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر 
وہ کہنے لگی : میرا ساتھی ‘ اُدھر ‘ اس نے انگلی اٹھاکر بتایا‘ اُدھر ‘ اس طرف ہی ۔۔۔
جدھر اوٗنچے محلوں کے گنبد ‘ مِلوں کی سیہ چمنیاں آسمان کی طرف سر اُٹھائے کھڑی ہیں،
یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی!
(’عہد وفا ‘،اختر الایمان )
غرض نظم میں ہیئت کے ان تجربوں کا خاص اثر معرا نظم اورآزاد نظم پر نظر آتا ہے ۔معرا نظم کے مقابلے آزاد نظم کو ہمارے شعرا نے زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا۔
اردو نظم میں ترجمہ نگاری اور ہیئتی تجربات کے اس دور کے بعد نئی نظم میں طبع آزمائی کرنے اور ترجمے کے ذریعے اس کے فروغ میں اہم کردار اد اکرنے والے شعرا میں تاجور نجیب آبادی ،میاں بشیر احمد ،منصور احمد ،حامد علی خان،عبدالرحمن بجنوری ،سید ہاشمی فرید آبادی ، اختر جوناگڑھی اور اختر شیرانی پیش پیش نظر آتے ہیں ۔
تاجور نجیب آبادی ’مخزن‘ اور’ ہمایوں ‘ان معروف رسائل کے مدیر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں انھوں نے اپنے دور میں ان رسائل توسط سے نظم معرا کو فروغ دینے میں زیادہ توجہ صرف کی ۔شاعری کے سخت قوانین کے خلاف تھے۔ ان میں لچک پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے عظمت اللہ کی طرح عروض کی سخت گیری پر اعتراض کیا۔ وہ نظم اور اس زبان اور امیجری کو ہندوستانی مزاج سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے، مگر چونکہ وہ خود ایک کم صلاحیت شاعر تھے، اس لیے ان کا زیادہ اثر نہیں لیا گیا، پھر بھی ان کی کوشش بے کار نہیں گئی ۔میاں بشیر احمد اور حامد علی خاں نے نظموں میں ترجمہ نگاری کی روایت کو مستحکم کیا۔ ان کے ترجمے ’ مخزن‘ اور’ ہمایوں ‘ میں شائع ہوتے تھے ۔ان کے ترجمے اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ یہ اردو کی مثنوی یا قصیدے کے طرز پر نہیں کیے گئے بلکہ ان میں ہیئت اور اسلوب کی جدتیں بھی پائی جاتی ہیں ۔ 
انجم پنجاب کے قیام کے بعد نئی نظم کا رواج آہستہ آہستہ عام ہوتا گیا۔ لیکن1936 تک نظم میں ہیئت اور اسلوب کے ان تجربوں کی بدولت نئی نظم کا چہرہ واضح نہیں ہوا تھا ‘اس کی صحیح شکل و صورت اور اس کا مکمل نکھرا ہوا چہرہ اردو میں ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے رجحان کی ابتدا کے بعد سامنے آیا ۔ 
نئی نظم مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی ہمارے عہد تک پہنچی ہے ۔ا س کا پہلا دور 1864سے1936 تک ،دوسرا دور 1936 سے 1955 تک، تیسرا دور 1955 سے 1980 تک اور چوتھا دور1980 سے آج تک کو محیط ہے ۔آج بھی اس کا سفر جاری ہے ۔اردو میں نئی نظم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ1936 کے بعد روشن ہوئی ۔ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے رجحان کے آغاز کے بعد جن نظموں میں نئی نظم کا واضح، صاف و شفاف چہرہ نظر آتا ہے ان میں سے چند اہم نام اور ان کی ایک ایک نظم کے عنوان یہاں پیش کیے جاتے ہیں :اسرارالحق مجاز ’آوارہ‘ ن۔م۔راشد ’ سباویراں ‘فیض ’ تنہائی ‘ میراجی ’سمندر کا بلاوا ‘ مخدوم’چاند تاروں کا بن‘ جاں نثار اختر ’ آخری ملاقات ‘ احمد ندیم قاسمی ’ ریستوراں‘ یوسف ظفر ’ وادیِ نیل‘ قیوم نظر ’ اکیلا ‘ سلام مچھلی شہری ’ ڈرائنگ روم ‘ اخترالایمان ’ تبدیلی ‘ مجید امجد ’ آٹو گراف ‘ ضیا جالندھری ’جادۂ جاوداں ‘ ساحر لدھیانوی ’ مرے عہد کے حسینو!‘ کیفی اعظمی ’ ایک لمحہ‘ گوپال متل ’ ہیرو ‘ عزیز حامد مدنی ’ شہر کی صبح ‘ خورشید الاسلام ’ پیاس ‘کمال احمد صدیقی ’ باد بان ‘ منظر سلیم ’ ذہن کے تجربے ‘ وزیر آغا ’ کوہِ ندا ‘ منیر نیازی ’ میرے دشمن کی موت ‘ بلراج کو مل ’ کا غذ کی ناؤ ‘ خلیل الرحمن اعظمی ’ میں گوتم نہیں ہوں، حمایت علی شاعر ’ تضاد ‘ شاذ تمکنت ’ رتجگا ‘ وحید اختر ’ کھنڈر آسیب اور پھول ‘ شفیق فاطمہ شعریٰ ’ رت مالا ‘ حمید سہر وردی ’ایک نئی بات‘سلیم محی الدین ’اے غزہ کے بچو!‘ وغیرہ ۔
نئی نظم کی دنیا بھی مختلف و متضاد کیفیات سے معمور ہے۔ اس میں عشق کا نیازہے،حسن کا انداز ہے ، دنیا کی بے ثباتی ہے اور رنگینیِ دہر کا ذکر بھی۔ اس میں مے ہے ،مینا ہے، رندی ہے ، پارسائی ہے ،فلسفہ ہے ، تصوف ہے، کون سی بات، کون سامسئلہ ،کون سا حادثہ ،کون سا واقعہ اور کون سا موضوع ہے جو اس کے پیمانے میں نہیں سماسکتا ؟ غرض کہ ہر چیز کو نئی نظم نے اپنے دامن خیال میں جگہ دی ہے۔ اس نے زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کیا۔ حیات و کائنات کے ہر موضوع کو اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صنف سخن کبھی زوال پذیری کے دور سے نہیں گزری۔
غرض نئی نظم کا سفر( 150 ) برس پر محیط ہے اس عرصے میں اس نے غزل کے قدم بہ قدم ترقی کی۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس نے غزل کو بھی پیچھے کردیا تھا۔یہ دور آزاد،حالی اور عظمت اللہ خان وغیرہ کا دور تھا لیکن غزل کی ہر دل عزیزی اور محبوبیت نے اسے اول مقام پر زیادہ دن رہنے نہیں دیا۔ آج غزل کے بعد اردو کی سب سے زیادہ پسندیدہ صنف سخن ’نئی نظم‘ ہے ۔کل بھی اس کی اہمیت مسلم تھی آج بھی ہے اور آگے بھی اس کے امکانات روشن ہیں ۔ 
حواشی
.1 ڈاکٹر صغیر افراہیم ،اردو شاعری تنقید و تجزیہ، ناشر علی ہیریٹیج پبلی کیشن،علی گڑھ، 2013 ، ص۔205
.2اردو میں نظم معرا اور آزاد نظم ،پروفیسر حنیف کیفی ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،2003 
ص ۔264,265 
.3 ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی، نئی نظم کا سفر ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،2011 ص۔ 9)
.4اردو کی اولین نثری نظم اور منٹو ‘پروفیسر صادق‘ منٹو عصر حاضر کے آئینے میں ‘ مرتبہ محمد حسین پرکار، ہندوستانی پرچار سبھا ،ممبئی2013 ص۔27

Mr. Shaikh Maheboob 
Assistant Professor, Department of Urdu
Shivaji Mahavidyalaya, Udgir-413517, (MS)
Mob:- 07588977543




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے:

  1. مضمون بہت محنت اور لگن سے لکھا گیا ہے۔اسلوب نگارش سادہ اور سلیس ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مضمون کی پسندیدگی کے لیے شکریہ آج کی اس ادبی کساد بازاری میں بہت کم احباب اپنے تاثرات دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ کے تاثرات سے حوصلہ ملا ۔۔۔شکریہ

      حذف کریں