22/3/19

دکن میں نئی نظم کے ’نمایاں نام ‘ (1980کے بعد) مضمون نگار:۔ ستار ساحر



دکن میں نئی نظم کے ’نمایاں نام ‘
(1980کے بعد)

ستار ساحر

1857کے بعد سر سید کی علی گڑھ تحریک، ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق نے اردو شعرو ادب کو بہت متاثر کیا۔ 1939میں حلقۂ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مرکز صرف ادب ٹھہرا اور تخلیق کاروں کو پوری آزادی ملی۔ 
مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی اردو میں جدید نظم کے بانی ہیں لیکن جدید اردو نظم نے ان دونوں کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کر کے جلد ہی اپنا رُخ بدل لیا اور ما بعد جو نظم وجود میں آئی اس کی داغ بیل ڈالنے والوں میں میراجی ن۔ م۔ راشد ، اختر الایمان اور فیض جیسے شاعروں کے نام اہمیت کے حامل ہیں مذکورہ شعرانے ایک نئے راستے پر اپنے شعری سفر کو جاری رکھا۔ نتیجتاً نئی نظم کا رنگ روپ پرانی نظم سے قطعاً مختلف ہو گیا۔ پیچیدگی، رمزو ایما اور ابہام جیسے امتیازات نئی نظم کے نمایاں اوصاف ٹھہرے۔ اسی لیے نئی نظم ترسیل کی کوششوں میں کبھی کبھی ناکام رہ جاتی ہے ۔ یعنی شاعر کسی تجرید کو قاری تک پہنچانے سے قاصر رہ جاتا ہے بقول شخصے ۔
’’یہ چھوٹی چھوٹی نظمیں رنگ برنگی تتلیاں ہیں کہ ہماری گرفت میں آجاتی ہیں تو کبھی کتراکے نکل جاتی ہیں۔‘‘
اردو نظم کا قافلہ پیدائش سے لے کر آج تک رواں دواں ہے بلکہ عصر حاضر کی نظم ان تمام خوبیوں کی حامل ہے جس کی توقع کسی ترقی یافتہ زبان سے کی جاتی ہے ہر صنف کی اپنی ایک منطق ضرور ہوتی ہے جس کے مطابق تجربات کی جہت اور نوعیت خود بخود طے ہوتی چلی جاتی ہے نئی نظم میں انفرادی اختراعات زیادہ نظر آتے ہیں اور علاقائیت کے عنصر نے بھی ان کو تازگی بخشی ہے۔ 
دکن کے نمائندہ نظم گو شاعروں کی تخیلی فضا، ان کی تخلیقی فضا، ان کی تخلیقی مزاج کے عناصر ان کے تجربات و مشاہدات اور موضوعات ، اسلوب و ہیئت کے اعتبار سے ان کے کامیاب تجربے اور ان کے اندازِ بیاں کا تنوع دکن میں نئی نظم کا منظر نامہ ہے۔ 
شہر حیدر آباد، ارض دکن کا بہت بڑا ادبی مرکز ہے اردو کے اور مراکز کی طرح یہاں کے نظم گو شاعروں کی فہرست طویل ہے ان میں وحید اختر ایک نمایاں نام ہے ۔ موصوف کی نظموں کا سرمایہ قدرے زیادہ ہے حتیٰ کہ ان کی غزلیں بھی نظموں سے بہت متاثر نظر آتی ہیں ۔ وحید اختر کی نظموں کا وصف خاص یہ ہے کہ موصوف کی اکثر نظمیں فکر انگیز ہوتی ہیں ان کی نظموں میں غنائیت اور شعریت کی کمی محسوس ہوتی ہے نیز ایک روکھا اور سپاٹ پن بھی۔ اس کے باوجود ان کی نظموں کی معنویت بہت متاثر کرتی ہے ۔ وحیداختر کی نظم ’جھوٹی سچائی‘ کا پس منظر میلادِ مسیح ہے جس میں عصری زندگی کی تلخی ابھر کر سامنے آتی ہے نظم کے ابتدائی مصرعے ہیں :
چند آوارہ چرواہوں کو رات کے آسماں پر دکھائی دیا
نور کا ایک مولود نو، اک ستارہ نیا
ایک آواز نے بادلوں کی گرج، بجلیوں کی چمک میں کہا
اور صدیوں کی بیمار روحوں میں خوابیدہ امید نے یہ سنا
روح کے گھاؤ بھرنے کا وقت آ گیا۔
لیکن اقدار کے بدلتے ہی، زمانے کے انقلابات نے اس موڑ پر لا کر چھوڑ دیا کہ (نظم کے آخری مصرعے ہیں )
گلہ بانوں، کسانوں سے کوئی کہے
وہ خدا جس کی سچائی پر تم کو ایمان تھا
جھوٹ کے گندے ہونٹوں پہ مصلوب ہے
شفیق فاطمہ شعریٰ اردو نظم نگاروں میں بلاشبہ اپنے اسلوب، موضوعات، اپنی لفظیات نیز اپنے لہجے کے اعتبار سے ممتاز اور منفرد ہیں ۔ انھوں نے کلاسیکی روایات سے اپنے رشتہ کو استوار اور مستحکم کیا ہے۔ عام نظم گو شاعروں کو پڑھتے ہوئے فاطمہ شعریٰ کا مطالعہ کریں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک الگ دنیا میں آگئے ہیں۔ مذہب، اساطیر، معتقدات، روحانیت، تصوف ، روایات، تاریخ اور معاشرت کے حوالوں سے فاطمہ شعریٰ کی شاعری بھری پڑی ہے ۔ان کے مطالعہ میں وسعت ہے لہٰذا ان کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے لیے قاری کو بھی اس مطالعے سے گزرنا پڑے گا۔ ان کی شاعری فکر انگیز ہے۔ زمانے کی ٹیڑھی چال، استحصال، زبوں حالی، ابتری اور بحرانی کیفیت کی فاطمہ شعریٰ نے بہترین ترجمانی کی ہے۔ نظم ’اے کر مک شب تاب‘ کے یہ ابتدائی مصرعے ملاحظہ کیجیے : 
مقتدر اقوام اکثر سوچتی ہیں/ہائے یہ آزاد شہری
کوئی خوف اس کو نہ غم /کاش اس پر بھی پڑے تحدید کی ضرب
ضبط ہوں املاک و اموال/دیکھتے ہی دیکھتے رہ جائے ہو کر یہ بھی کنگال/ جیسے ہم۔
فاطمہ شعریٰ کے تین مجموعہ کلام ہیں۔ ’آفاق نوا، کرن کرن، یادداشت اور سلسلہ مکالمات (نظموں کا مجموعہ) ان کا مشاہدہ انتہائی گہرا ہے۔ انھوں نے مبہم علامتیں زیادہ استعمال کی ہیں۔ جنھیں سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ انھوں نے تاریخی موضوعات پر زیادہ توجہ دی ہے ۔ تلمیحات کے عمدہ استعمال سے ان کی نظموں میں دلکشی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے ہاں فارسی زبان و ادب کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ 
’فطانت‘
فطانت مجھے نام سچا سکھا دے ہر اک شئے کا
میرا ہر اک لفظ خود ہو وہی شئے
نئی تازہ دم میری فطرت سے جنمی ہوئی شئے
مرے واسطے جو اشیا کو سمجھے نہیں ہیں
وہ اشیا کو پا لیں
مرے واسطے جو اشیا کو بھولے ہوئے ہیں
وہ اشیا کو پا لیں 
مرے واسطے جو اشیا کی چاہت بھی رکھتے ہیں
وہ اشیا کو پا لیں 
فطانت مجھے نام سچا سکھا دے ہر اک شئے کا 
اس کی من و تو و ماوشما کا۔
راشد آذر حیدر آباد کے حوالہ سے جدید اردو شاعری کا انتہائی معتبر نام ہے۔ ہندوستان کے جدید نظم گو شعرا میں موصوف کافی مقبول ہیں۔ صدائے تیشہ، آبدیدہ، اندوختہ، قرضِ جاں اور نقدِ حیات وغیرہ، راشد آذر کے شعرے مجموعے ہیں۔
راشند آذر کی نظموں میں صوتی آہنگ اور فقروں کی گونج کا ایک منفرد سلیقہ نظر آتا ہے، جو قاری کو مانوس لگتا ہے، ان کی نظموں کے تجزیے سے ان کی تخلیقات کے اہم گوشے نمایاں ہیں۔ 
تجزیہ : 
دوستو آج بے سمت چلتے ہیں لوگ/تم بھی اس بھیڑ میں کھوکے رہ جاؤ گے
آؤ ماضی کی کھولیں کتاب عمل/اک نظر سر سری ہی سہی ڈال کر
دیکھ لیں اپنے سب کارناموں کا حشر/تجزیہ اپنی ناکامیوں کا کریں
اپنی محرومیوں پر ہنسیں خوب جی کھول کر/اور سوچیں کہ کیوں
شہر کے شور میں گم کراہوں کا نوحہ ہوا/ہم پہ کیوں بے دلی چھا گئی
امنگی زندگی کی بقا کے لیے /ہم نے کیوں اڑتے لمحوں کے پر کاٹ کررکھ دیے/
اک جبلت کی تسکین کے واسطے/کر ے سمجھوتہ اپنے ہی دشمن کے ساتھ/ولولے بیچ ڈالے حریفوں کے ہاتھ۔ 
جھوٹ سچ، میں راشد آذر نے لوگوں کے زاویۂ نگاہ کو قصور وار ٹھہرایا ہے اور انھوں نے جھوٹ اور سچ کے مابین ایک امتیازی خط بھی کھینچا ہے۔ اس نظم میں انھوں نے اسرا ہی استدلال سے کام لیا ہے :
یہ سچ اگر زاوبہ نہیں ہے نگاہ کا تو بتاؤ کیا ہے
کہ میں کھڑا ہوں جہاں، وہاں سے 
تمھارے چہرے کا ایک ہی رخ
عیاں ہے 
جیسے 
تم آدھے چہرے کے آدمی ہو۔
مصحف اقبال توصیفی جدیدیت سے بہت متاثر رہے ہیں ان کے کلام میں جدید علامتوں اور استعاروں کی بھرمار ہے ۔اس کے باوجود موصوف نے روایت سے انحراف نہیں کیا۔ انھوں نے روایتی موضوعات کو جدید لب و لہجہ کا پیرہن بخشا ہے اور یہی ان کی شاعری کا وصفِ خاص ہے ۔ موصوف کے شعری مجموعے ہیں۔ 
فائزہ، گماں کا صحرا اور دور کنارا
مصحف اقبال توصیفی کی شاعری کا لہجہ دھیما ہے موصوف کی شاعری میں خود کلامی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے سادہ آسان اور عام فہم زبان اور ہلکی پھلکی بحر میں استعمال کی ہیں ۔ موصوف نے اپنی نظموں میں رومانیت کے علاوہ زندگی کے وہ مسائل بھی پیش کیے ہیں، جن کا سامنا آج کا انسان کر رہا ہے۔ اقبال توصیفی نے اپنی نظموں میں زندگی کے سپاٹ پن، بے معنویت، لایعنیت ، سطحیت، ناپائیداری اور اخلاقی انحطاط کی ترجمانی خوب کی ہے۔ انھیں انسان کے رنج و غم کا بھی احساس ہے عراق اور گجرات کے سانحات پر موصوف کی نظمیں ان کی جاگتی عصری حسیت کی آئینہ دار ہیں۔ گجرات پر ان کی یہ نظم ’ذرا سوچا نہیں تھا‘ ملاحظہ فرمائیں : 
ذرا سوچا نہیں تھا / کبھی دن اس قدر تاریک ہوں گے
کہ راتیں سہم جائیں گی / زمیں پر گھور اندھیرا
آسمان پر سرخ بادل / ادھر ان کی سہ بارش
ادھر میری یہ ویراں خشک آنکھیں / اور ان آنکھوں کے دو ٹیومر
اور ان میں ایک ہی منظر / جو اخباروں میں ہر صبح
اک نئی سرخی میں چھپتا ہے / کبھی یہ سوچتا ہوں
(میں اک بد بخت انساں) / کاش میں کچھ اور ہوتا
بس اک چوہا ۔۔۔۔۔۔ اور اپنی بل میں رہتا ۔۔۔۔۔۔!
علی ظہیر کا شمار اردو کے ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے لہجہ کو رسمی اندازِ سخن سے بچا کر جدیدطرزِ احساس کا پیرہن عطا کیا۔ اپنی فکری جمالیات اور نفسیاتی طرزِ اظہار کے باوجود موصوف نے اپنی جداگانہ حیثیت کو ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ علی ظہیر کی شاعری کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ ساتھ جدید طرزِ اظہار سے عبارت ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات عشقیہ، سماجی، سیاسی و انقلابی اور مذہبی ہیں۔انھوں نے آزاد، معریٰ اور پابند نظموں کے علاوہ نثری نظموں کے تجربے بھی کیے ہیں۔ نادر تشبیہات اور استعارات کے علاوہ انوکھی اور جدید علامتیں و نیز عمدہ صنعتوں کا خوبصورت استعمال موصوف کی نظموں کے امتیازات ہیں ۔ رات کے ہزار ہاتھ، انگلیوں سے خون، دوسرا قدم، جب زمینوں سے شجر اگتے ہیں وغیرہ۔ علی ظہیر کے شعری مجموعے ہیں : 
شعور اور لاشعور سے متعلق علی ظہیر نے کئی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً: تمام جسم و جاں بنیں، رات کے ہزار ہاتھ، جب مرا لطفِ سخن چھینا گیا، قافلہ اور شہر وغیرہ۔ نظم ’شہر‘ میں شاعر نے ’اژدھا‘ کا لفظ خوف اور دہشت کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے جو شاعرکے لاشعور میں موجود ہے۔
شاعر کے لاشعور نے شہر کے شور شرابے کو ’اژدھا‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ شور شرابے میں بھی کمی واقع ہوتی ہے، لیکن شاعر کو شعوری طور پر یہ بات قابل قبول نہیں کہ شورو غل کبھی کم ہوگا اور نظم کا خاتمہ اسی نقطۂ نظر پر ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے : 
شہریوں جاگتا ہے / کوئی اژدھا جیسے
کنڈلی کھولتا ہو / گھوم کے دھیرے دھیرے
شہر پھنکار تا ہے / اپنے مکینوں کی طرف 
جیسے کھالے گا انھیں / شام کے آتے آتے
شام آتی ہے / تو آکاش سلگ جاتا ہے
اژدھا موم کی مانند پگھلتا ہے / تو اجسام بھی پانی کی طرح بہتے ہیں
ہر طرف نیلی فضا / زخموں کا مرہم بن کر 
شہر غم خوردہ کے اعصاب میں گھل جاتی ہے / اژدھا !
پھر وہی خوں خوار درندہ / سایہ 
شہر غم خوردہ کی تقدیر بنا رہتا ہے / موت کے زخم کی تصویر بنا رہتا ہے
علی ظہیر کی بعض نظمیں ازمید کے فارم میں ملتی ہیں جس کی بہترین مثال ان کی نظم ’یہ سورج ہی شقی ہے، کہی جا سکتی ہے۔ 
حیدر آباد میں نئی نظم کے طویل سفر کا یہ ایک اجمالی سا جائزہ ہے، اگر اس میں صلاح الدین نیر، مضطر مجاز، علی الدین نوید، رؤف خلش اور رؤف خیر جیسے نامی گرامی اور ممتاز شعرا کو بھی شامل کر لیا جائے تو خاص کر 1980کے بعد اردو نظم کا ایک روشن منظر نامہ ہمارے سامنے آئے گا۔ 
ریاست آندھرا پردیش (غیر منقسم) میں حیدر آباد کے بعد خطۂ رائلسیما کے بعض علاقوں کا شعرو ادب کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مستند قرار پاتا ہے۔ بالخصوص شہر کڑپہ علاقہ رائلسیما کا انتہائی زرخیز اور اہم ادبی مرکز ہے، جس نے اردو شاعری کو راہی فدائی، ساغر جیدی اور اقبال خسرو جیسے شعرا دیے۔ 
راہی فدائی اردو شعرو ادب کا ایک معتبر نام ہے، شاعری کے علاوہ تحقیق و تنقید میں بھی انھوں نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ نظم و نثر کی کئی تصانیف موصوف کے ادبی قد کی غماز ہیں۔ مثلاً: انامل، ترقیم، مصداق، بنراس، فبھا، استعجاب، کڈپہ میں اردو، جوئے شیر، اکستابِ نظر اور مدرکات وغیرہ۔ 
راہی فدائی نے غزل، نعت اور آزاد نظم جیسی اصناف پر ان کے فطری رچاؤ اور لب و لہجہ کو باقی رکھتے ہوئے قلم اٹھایا ہے۔ نتیجتاً موصوف اور ان کی شعری تخلیقات نے مقبولیت کی سرحدوں کو بآسانی پار کر لیا۔
راہی کی نظمیں شاعر کی شخصیت اور ماحول کی عکاس ہیں۔ انھوں نے اپنے دور کے حالات و واقعات ، زندگی کے تجربات و مشاہدات، محسوسات اور جذبات کو شعری پیکر عطا کیے ہیں۔ ’معجزہ‘ اور ’نقرئی ہڈیاں‘ جیسی نظموں میں سیاسی حالات بیان کیے گئے ہیں۔ نظم ’ماضی‘ میں زمانے کی کہانی اور ’خود غرضی‘ میں انسان کے کردار کو پیش کیا ہے۔ موصوف نے تاریخ معاشرت کو موضوع بنا کر نظم، عالم اصغر تحریر کی اور ان کی نظم ’ایڈز‘ جیسی صحبت ویسا انجام سے عبارت ہے۔ ان کی بعض نظموں میں معرفت کی علمی و روحانی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ذیل میں راہی فدائی کی دو مختصر نظمیں پیش کی جاتی ہیں : 
’معجزہ‘
ایک قاتل / مشک و عنبر میں لہو
حل کر رہا ہے !! / تاکہ دنیا
یہ گواہی دے سکے / اس نے جو کچھ
کر دکھایا / ’معجزہ‘ سے 
کم نہ تھا !! / 
’خود غرضی ‘
میں ا پنا گھر / بہ ہر قیمت
بلا سے پاک رکھوں گا / میں اپنے ہاں
غبارو گرد / جمنے ہی نہیں دوں گا
یہ گرد اڑ کر / پڑوسی کے درو دیوار کی
زینت بنے / میری بلا سے !
راہی نے اپنی نظموں سے علامتی و اشاراتی انداز اختیار کیا ہے، نیز کنایہ سے بھی کام لیا ہے ان کی ہر نظم نت نئے علائم کے زیورات سے لیس نظر آتی ہے۔ چند مثالیں :
خدشات کی آنکھ، مردہ احساس کی نقرئی ہڈیاں ’نظم : نقرئی ہڈیاں‘ نیلی بھوک، سوکھی خواہش ’نظم : نیرنگی‘
خنازیر وساوس’نظم : نگاہ معکوس‘
بے تابی کی برف، کرنوں کا فنکار ’نظم : المیہ‘
ساغر جیدی ایک قد آور شاعر ہیں ان کی تخلیقات میں اخلاص ہے ، عصری حسیت، جدت اور ندرت ان کے کلام کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ موصوف نے ہر صنف سخن میں اپنے شعری مجموعے شائع کیے ہیں۔ نعتوں، نظموں اور دوہوں پر انھوں نے خاص توجہ دی ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ’عماد‘ ادبی حلقوں میں مقبول ہے۔ ’عماد‘ عصر حاضر کی نظم کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ اس میں جذبے کی شدت اور جوش ہے ، شگفتگی اور تازگی بھی۔ اردو شاعروں میں ن۔ م۔ راشد کی طرح ساغر کی نظموں کے عنوانات سے اس کے آغاز و ارتقا اور انجام کا اندازہ نہیں ہوتا کیوں کہ ان کی نظم میں گہرائی اور پیچیدگی کا عنصر غالب ہے۔ مثلاً : نظم ’بارود کی بو‘ ملاحظہ فرمائیں : 
جتنے بھی خطرات ہیں / دائرے اپنے بنا کر گھومتے ہیں
ہم ان کے نرغے میں آجائیں تو ؟ / دندناتے مسئلے درپیش ہوں گے
کسمساتے حادثوں کی شکل میں / سرکشوں کا جہل بن کر
بوڑھی دھرتی کو جھنجھوڑ یں گے / سب پہاڑوں کے پھپھولے پھوٹ جائیں گے
خوف سے نیلے سمندر چیخ اٹھیں گے / کھولتے پانی کے غوغے
دور تک گونگے خلاؤں کو منانے جائیں گے / نہ صبحوں کا پتہ ہوگا
نہ شاموں کا نشاں ہوگا۔
ساغر جیدی نے اپنی بہت سی طویل ، مختصر اور مختصر ترین نظموں کو باقاعدہ کسی عنوان کے تحت تحریر نہ کر کے انھیں نیا رنگ و آہنگ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں تہہ داری پیدا کی ہے۔ موصوف کی نظم نگاری کی تکنیک معنی کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے میں مانع نظر آتی ہے تاہم انھیں عوام کا نہیں، دانشوروں کا شاعر کہنا چاہیے کیوں کہ ان کی نظمیں پڑھنے والوں سے غورو فکر کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ساغر جیدی ایک علامتی شاعر ہیں، ان کی نظمیں سیدھی لکیر پر چلتی نظر نہیں آتیں، وہ چاہے موضوع ہو یا مضامین ۔ مثلاً : 
نیم کے پیڑ پہ کٹھل آئے / بیری پہ آئی لوکی
آم کے پیڑ پہ لیمو آئے / سیب کے پیڑ پہ موز
ساغر اب کے کم بولیں گے / کوئل ، طوطا ، مور۔
اس نظم کا پس منظر دنیاوی معاملات کا نشیب و فراز کہا جا سکتا ہے، جس کے اظہار میں شاعر نے نئے علائم سے کام لیا ہے۔
شہر کڈپہ کے صاحب دیوان شاعر اقبال خسرو نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ نظم موصوف کی توجہ کا مرکز و محور رہی ہے۔ ’اورنگ، اسفار، سیمیا، یامنی اور جوانب ان کے شعری مجموعے ہیں، جن میں سیمیا اور یامنی ان کی نظموں کے مجموعے ہیں اقبال خسرو کی نظمیں بے باکی اور تجربوں سے عبارت ہیں اور بے باکی نئی نظم کا خاصہ ہے۔ 
تسمیا کی نظموں میں سماج کی ناہمواریوں پر طنز کے ساتھ ساتھ شاعر کے مزاج میں برہمی پیدا کرنے والے زندگی کے مختلف عناصر خاصی تعداد میں ہیں، مزاج کی برہمی سے شاعر پر تلخی، جھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا الزام لگ سکتا ہے، لیکن اقبال خسرو نے انتہائی خوش اسلوبی سے اپنا دامن بچاتے ہوئے، ’سیمیا‘ کی بیشتر نظموں کو جذبے کی شدت اور جوش تک محدود رکھا ہے۔ چند مثالیں ہیں : 
شاید :
میں جس زباں میں سوچتا ہوں / مجھ میں زندہ ہے
میرے اجداد میں تھی ! / میرے بچوں میں رہے گی ؟ 
اردو زبان کے ماضی، حال اور مستقبل کی داستان اس سے بہتر علامتی انداز میں ’شاید‘ ہی بیان کی جا سکے۔ ایک اور نظم ہے ’تزک اکبری‘۔
نجانے من گھڑت تھے، یا حقیقت تھی / کئی شاہی لطائف پڑھ کے
یوں محسوس ہوتا ہے / کہ جیسے ’مسخرے‘ نے 
’ماسٹر‘ کو ’رنگ‘ سے باہر نہیں پھینکا / تو یہ سب محض اس کی نیک نفسی، مہربانی اور شرافت تھی
ذہانت ، علم، دور اندیشوں کی مملکت پر / نو عدد شاطر دماغوں کی حکومت تھی ! 
تو پھر ظلِ الہیٰ بیچتے کیا تھے ؟ 
ساغر جیدی کے یہ الفاظ معنی خیز ہیں کہ ساغر جیدی اقبال خسرو قادری کی’سیمیا‘ کو دل سے نہیں دماغ سے چاہتا ہے، نیز یہ کہ شاعر سیمیا اردو کی فضائے مردنی میں زندگی کے انفاس ابدی بھرنے میں کوشاں ہے۔ 
اقبال خسرو کی نظموں کا ایک اور مجموعہ ’یامنی ‘ ہے ۔ موصوف کے شعری مجموعوں کے نام اردو کے خاص قاری کو بھی چونکا دیتے ہیں اور ان کے مضامین بھی، کیوں کہ وہ نئے شاعر ہیں اور نیا شاعر روایتی انداز سے ہمیشہ اپنا دامن بچاتا ہے۔ عشق و عاشقی اورفلسفہ و پیغام سے دور رہ کر اقبال خسرو نے اپنی نظموں میں زندگی کی محرومیوں، مایوسیوں اور کبھی کبھار حاصل ہونے والی چھوٹی بڑی خوشیوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ ’یامنی‘ کا انتساب اقبال خسرو کی والدۂ محترمہ ایک مرثیہ کا حصہ ہے، مرثیہ کا اختتام ان مصرعوں پر ہوتا ہے۔ 
مرے ان بے ہنر ہاتھوں نے جب سے / تین مٹھی خاک کا ہدیہ دیا ہے 
مرے ہاتھوں میں تیرے ہاتھ زندہ ہیں / تری بے نور ہوتی آنکھوں کی شمعیں
مرے جلتی ہوئی آنکھوں میں / میرے ساتھ زندہ ہیں۔ 
یامنی کی نظموں میں سپر بھات،نہایہ، کال چکر، مراقبہ، سیلف پورٹریٹ، دیمفراطیس، راندۂ درگہ دل وغیرہ کو عنوانات ، مضامین، لفظیات اور علائم کی بنا پر نئی نظم کی معراج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
خطۂ رائلسیما کے ایک ادبی مرکز سر زمین چند ربدن و مہیار کے معروف و مقبول شاعر ڈاکٹر کریم رومانی کی شاعری کا جاندار پہلو، عصری حسیت ہے۔ موصوف بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ’زخم زخم زندگی‘ میں نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ کریم رومانی کی بیشتر نظمیں، موضوع اور مواد کے اعتبار سے ناخن اور گوشت کی طرح ایک ہو کر رہ گئی ہیں۔ کریم رومانی نے اپنے اظہار کے لیے علامت نگاری کو منتخب کیا اور اس ضمن میں وہ قاری کے ذہن و دل کو تحریک دینے کے قائل رہے ہیں ۔ ایسی علامت نگاری جس سے ابہام کے تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ موصوف نے اس سے ہمیشہ ناخوشی ظاہر کی ہے۔ بقول شخصے : 
’’ایک عمدہ علامتی نظم کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تجربہ اور علامت کے مشترک اور متغائر پہلو گھل مل کر ایک جان ہو جائیں۔ 
مثال کے طور پر کریم رومانی کی نظم ’زہریلے ‘ پیش کی جا سکتی ہے۔
نیل کنٹھ : 
کاش اتنا کرم ہم پر ہوتا / چند بوندیں نہ گرتیں زمیں پر
سانپ بچھو اگرچہ یہ ہوتے / پر ندزہریلے انسان ہوتے !
نیل کنٹھ نے جب جامِ زہر نوش فرمایا تھا اس وقت چند بوندیں زمیں پر گریں، جس سے سانپ اور بچھو پیدا ہوئے، یہ نظم کا مشترک پہلو ہے لیکن زہریلے انسانوں کی پیدائش علامت کا متغائر پہلو ہے اور یہی اس نظم کی جان ہے ۔ موصوف کی کئی نظموں میں یہ وصف نمایاں ہے۔ 
عصری مسائل کے اظہار کے لیے کریم رومانی نے آر کی ٹائپ علامتیں بڑی عمدگی سے استعمال کی ہیں۔ دیومالائی علامتوں کا پس منظر بے حد وسیع ہوتا ہے ۔ زندگی کی رنگینیوں کے ساتھ ساتھ مانوس پیکروں کی بنا پر دیو مالائی علامتیں دلوں کو متاثر کرتی ہیں۔ سلیقہ شرطِ اولین ہے، جن پر کریم رومانی کی بیشتر نظمیں کھری اترتی ہیں۔ ان کی نظم ’خون کے دریا ‘ اور ’ تنکا‘ بطور مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ 
کریم رومانی نے ایک علامت کے مختلف پہلوؤں کو ابھارکر انھیں کئی معنوی جہتوں سے بھی ہمکنار کیا ہے۔ 
ادھر جنوب میں حیدر آباد کے بعد کڈپہ اور کدری کی طرح ضلع کرنول کے بعض علاقے اردو شعرو ادب کے اعتبار سے زرخیز کہلاتے ہیں، جن میں شہرِ کرنول اور ادونی کو اولیت حاصل ہے۔ ادونی کے ایک شاعر صدیق نقوی نے اپنا شعری مجموعہ ’برف کی چیخیں‘ شائع کر کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ موصوف نے اپنی آزاد نظموں سے انسان کے ضمیر کوجھنجھوڑ کر اسے خوابِ غفلت سے بیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ان کی بے نام مختصر نظمیں بہت متاثر کرتی ہیں۔ صدیق نقوی نے اپنی نظموں کو ایک طرف اثر انگیز انجام سے جوڑ دیا ہے تو دوسری طرف چونکا دینے والے آغاز سے نظم کی معنویت میں قدرے اضافہ کیا ہے۔ برف کی چیخیں، کی پہلی نظم ملاحظہ فرمائیں : 
آوازوں کے جنگل میں / ننگے پیڑ سے لٹکا ہوں میں
کتنے کالے من والے گزرے ہیں یہاں سے / پر کوئی مجھ کو اپنے ساتھ نہ لے جا ، پایا
کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ وہ سب کوّے تھے / کالی صدائیں، روح کوکھوکھلا کرنے لگی ہیں۔ 
اس نظم میں آواز، جنگل، ننگے پیڑ، کالے من، کالی صدائیں اور روح کو کھوکھلا کرنے کے عمل کو ثابت کرنے کے لیے شاعر نے ’کوّے ‘ کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔
صدیق نقوی کی نظموں کا امتیاز ان کی عصری حسیت ہے۔ پابند نظم کی روایت سے منحرف ہو کر انھوں نے اپنی نظموں کے اختتامی حصوں کو کافی جاندار بنا دیا ہے۔ موصوف کی اکثر نظمیں بے عنوان ہیں، تاہم فکر کا تسلسل اور کیفیت کو نظم کرنے میں موصوف کی فنی چابکدستی ان کی نظموں کا وصفِ خاص ہے ایک نظم کا اختتامیہ ملاحظہ کیجیے : 
زرد سورج : 
اطراف سے بھیانک قسم کا ایک جال تن رہا ہے / وہ جس کی آواز میں صداقت چھپی ہوئی ہے
وہ یارِ غار اب میں کھو چکا ہوں / بوجھ اٹھائے میں آج پل پل پگھل رہا ہوں
میں اپنے اندر سے جل رہا ہوں۔ 
آزاد نظم کی ہیئت میں شعر کہنے کا ہنر موصوف کو خوب آتا ہے اور نظموں کے دوران علامتیں تشکیل دے کر معنویت کی ہمہ گیری سے موصوف نے تفہیم کا حق ادا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 
رائلسیما میں نئی نظم کے شاعروں میں یوسف صفی، وحید کوثر اور سعید نظر وغیرہ کے بھی نام لیے جا سکتے ہیں۔ جنھوں نے اپنی بے باک نئی نظموں سے نہ صرف ایک زمانے کو متاثر کیا بلکہ دکن میں نئی نظم کے سفر کو جاری رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ 
کرناٹک کے نظم گو شعرا میں حمید سہروردی، خلیل مامون اور شائستہ یوسف نمایاں نام ہیں۔ حمید سہروردی ایک نامور افسانہ نگار اور منفرد شاعر ہیں۔ ’شش جہت آگ‘ موصوف کا مقبول شعری مجموعہ ہے، ان کی نظمیں تجریدی اور علامتی ہیں۔ اس لیے ان کی نظمیں قاری کی فکر کو مہمیز کرتی ہیں۔ حمید سہروردی نے آزاد نظم اور نثری نظم کے میلان کو فروغ دیا ہے۔
’شش جہت آگ‘ میں شامل تقریباً ساری نظمیں نثری ہیں، لیکن کچھ باوزن بھی ہیں۔ مثال کے طور پر فصاحت بلاغت تمھارے لیے ’بے خطر‘ ’بحرِ تقارب‘ تو ہے لیکن یہاں، تو سمندر ہوا ’بحر متدارک رک رک کے ذرا دیکھو، ’راستے جو جاتے ہیں‘ ’ بحرِ ہزج‘۔ حمید سہروری تجریدی رنگ کے نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کی نظموں میں جدید یت والی تجریدیت کا عمل دخل محسوس ہوتا ہے یہ کیفیت قاری کو خوشی سے زیادہ بصیرت اور کشمکش سے ہمکنار کرتی ہے۔ تاہم اس بصیرت کو حاصل کرنے کے لیے بھی قاری میں تجریدیت اور ابہام کے دبیز پردوں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت شرطِ لازم قرار پاتی ہے۔ 
کتنے چہرے / مل کے تیرے چہرے سے /پاش پاش ہوگئے/مدعا کہ لاحصول ہی رہا /جسم کے کنویں اندھیرے میں /چاند تارے ڈوبتے چلے گئے /دلوں میں رنگ پیار کا/چپ زباں ہو گیا/حال پوچھتے ہو کیا /آنکھیں رند ہو گئیں /دل کی دھڑکنیں تمام /تنہا تنہا ہو گئیں۔ 
حمید سہروردی کا شعری اظہار، داخلیت کا مرہون منت ہے۔ تاہم موصوف اپنے اطراف و اکناف کی دنیا ، معاشرت، سیاست اور افراد پر ان کے اثرات سے پوری طرح آگاہ نظر آتے ہیں اور ظاہر و باطن کا یہ ارتباطی عمل ان کی بہترین نظموں میں صاف نظر آتا ہے۔ مثلاً: ان کی نظم ’پرندہ دکھ کا نام نہیں، کا کلائمکس ، ملاحظہ کیجیے : 
غم تو نام ہے ایک جذبے کا /پھر کیوں روتا ہے پرندہ ؟
پرندہ دکھ کا نام نہیں
میر نے دل اور دلی کے لٹنے کی باتیں کیوں کیں ؟
گو تم نے اندرون اور بیرون کو ٹوٹتے ہوئے کیوں دیکھا
ایسا ہر سمئے ہر عہد میں ہوتا ہے /پھر ہم گو تم کبھی نہیں اور نہ ہی میر 
پھر کیوں ہمارے سر / جنگلوں کی طرف مراجعت کرنا چاہتے ہیں۔ 
میں کہ ایک لفظ ہوں، بے برگ اشجار، ریڈیو چیختا ہے۔’ اطلاع، بتاؤ ‘کہ تم کون ہو، رک رک کے ذرا دیکھ ، اس نوعیت کی کامیاب نظمیں کہی جا سکتی ہیں۔ 
’میں کہ ایک لفظ ہوں، حمید سہروردی کی ایک خوبصورت نظم ہے، جس کا اسلوب منفرد ہے اور اظہار کی جاذبیت انوکھی ہے، نظم کے چند ابتدائی مصرعے ہیں۔ 
میں کہ ایک لفظ ہوں / لغت سے جو نکل گیا / ورق ورق بکھر گیا / حرف حرف سلسلہ / لفظ لفظ فاصلہ /
لاف اور گزاف بھی /عظمتوں کی شان بھی/ اس میں ریزہ کاری بھی/ اور چیرہ دستی بھی/ جمود اور سکوت بھی/ حرکت و عمل کا یہ پیکر خیال بن / علامتوں کا روپ دھار کر/بے کراں سی وسعتوں میں /پھیلتا چلا گیا۔ 
علیم صبا نویدی کے الفاظ سے راقم کو بھر پور اتفاق ہے کہ ’حمید سہر وردی‘ کی جتنی بھی نظمیں ہیں، ان میں کسی نہ کسی حیثیت سے ایک مرکزی خیال کی علاماتی توضیح ملتی ہے۔ 
جنوب کے نظم گو شاعروں میں خلیل مامون انتہائی معتبر اور نمایاں نام ہے، جنھوں نے بالخصوص اپنی نثری نظموں سے الگ پہچان بنائی ہے ان کی نظموں کے مجموعے ’بن باس کا جھوٹ، کی اشاعت سنہ 2011میں عمل میں آئی۔ خلیل مامون کا شعری نظر یہ تمام پابندیوں سے بالکل آزاد ہے۔ حتیٰ کہ شعری آہنگ اور وزن بھی ان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن پائے۔ 
خلیل مامون کی نظمیں عصر حاضر کی برگشتگی کے خلاف اپنے رد عمل کو ظاہر کرتی ہیں۔ موصوف کی نظموں کے موضوعات میں کچھ کھو دینے اور کچھ حاصل کر کے گنوا دینے کا احساس زندگی کی حقیقتوں سے جھنجھلاہٹ کا احساس ، ذات اور معاشرے کے تصادم میں ذات سے باہر نکل آنے کی تلقین، نئی زندگی کے حسین خواب، طرزِ معاشرت پر طنز، روز مرہ زندگی کی بے حسی سے چڑ چڑاہٹ اور وہ سارے طور طریقے جو زندگی کو اپاہج بنا دیتے ہیں۔ ان پر اپنے غم و غصے کا اظہار شامل ہیں۔ 
اپنی ذات میں کھو کر کچھ کر گزرنے کی آرزو میں یہ ذاتی کرب دیکھیے : 
ایسی بارش میں کہاں سے لاؤں/جس میں /داغ دل کے دھوسکوں/راکھ ہوتی روح کے/کھلیان زندہ کر سکوں/مردہ جسم میں روح بھر سکوں/سرحد ادراک میں /داد کی سوغات کو کم کر سکوں/کھوئی ہوئی یادوں کی ٹھنڈی جھیل میں/اپنی آنکھیں نم کر سکوں۔ 
(اپنی آنکھیں نم کر سکوں)
ایک طرف ذات کا ایسا گہرا اظہار تو دوسری طرف معاشرہ کی زبوں حالی کی یہ تصویر : 
کہیں سے کوئی خبر نہیں/سوائے/شہہ نشین سے جھوٹی تقریروں کے /عوام کی فلاح کے لیے/الٹی سیدھی تدبیروں کے/ہمیشہ روتی اور بسورتی تقدیروں کے /کہیں سے کوئی خبر نہیں/خبر نہیں کہ آدمی سنور گیا/خبر نہیں کہ ہر خبیث مر گیا 
(کوئی خبر نہیں )
اس سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ خلیل مامون اپنی ذات کے توسط سے سماج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خلیل مامون نے اپنی نظموں میں جو تشبیہات و استعارات اور پیکر تراشے ہیں وہ موصوف کی قوتِ متخیلہ کا ثبوت مہیا کرتے ہیں، ان کی نظموں میں یہاں وہاں جو بے نظمی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، اس میں شعور کی روکا دخل محسوس ہوتا ہے، جو ان کی شعری پہچان بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ 
اپنی ذات کے اظہار کے لیے نظم کا دامن تھامنے والی شاعرات میں ایک اہم نام شائستہ یوسف ہے، انھوں نے خاص کر نثری نظم پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ موصوفہ اپنے ہم وطن شاعر خلیل مامون سے بہت متاثر ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی نظموں کے رو میں بہتی چلی جاتی ہیں ان کے ہاں اظہار میں بے تکلفی ہے اور یہ بے تکلفی کہیں کامیاب ترسیل کی ضامن بنتی ہے تو کہیں فن پارے کو کمزور کر دیتی ہے، لیکن ان کی نظموں کی امیجری مصنوعی نہیں ہے اوریہی Originalityان کی شاعرانہ شناخت قائم کرتی ہے ایک مثال : 
ادھ جلی ہوئی چوکھٹ /خوف سے لرزتی تھی/لمحہ لمحہ روتی تھی/چیختی چھتوں سے بھی/جھانکتی ہوئی آنکھیں/مجھ پہ وار کرتی تھیں ۔ 
(بند مٹھیوں میں پھر کچھ نئی لکیریں ہیں )
تین سو تیرہ خیموں میں جب/بصیرت کی شہنائیاں بجیں/مالِ غنیمت کے موتی/میرے احساس کی کھائی میں /خوشیوں کے آبشار/بن کر گرنے لگے ۔
(صحراؤں میں شرارت)
شائستہ یوسف کی نظموں کے بارے میں کسی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ انھوں نے Sunken Images کا استعمال بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ یہ نظم ملاحظہ کیجیے : 
تمھارے سرمائے میں /میری زندگی کے/حسین پل، جذبات ، واقعات/دھوپ، برساتیں، راتیں، محبتیں ، جھگڑے/ان کتابوں کے صفحات میں /برسوں سانسیں لیتے رہے/آج وقت کی کروٹ کے ساتھ/تم نے کتنی آسانی سے /سب کچھ کباڑی کو دے دیا۔ 
(ردّی)
اپنی ذات میں گم رہنا، داستانی فضاؤں سے مسرت حاصل کرنا اور قصہ سنانے کے انداز میں خود کا اظہار شائستہ یوسف کی نظموں کے امتیازات ہیں، جو انھیں جدیدیت کے رنگِ اظہار سے قریب کر دیتے ہیں۔ ریاستِ کرناٹک میں نئی نظم کے شاعروں میں کئی ناموں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 
جنوب میں شہرِ مدراس کے ایک شاعر نے اپنی تمام عمر اردو شاعری کی آبیاری میں لگادی جنھیں اردو دنیا علیم صبا نویدی کے نام سے جانتی ہے۔ موصوف ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں، جہاں تک نظم کا تعلق ہے۔ آپ نے مختلف ہئیتوں میں کامیاب تجربے کیے ہیں، جس کا ثبوت آپ کے شعری مجموعے، لمسِ اول، تشدید اور سمت ساز وغیرہ مہیا کرتے ہیں۔ 
علیم صبا نویدی اردو نظم کو ایک نیا لہجہ دینے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں، ان کی تخلیقات میں ذاتی تجربات کا دخل زیادہ ہے، ان کے محسوسات کا رنگ قدرے نمایاں ہے، لیکن ان سے معقولاتی اسرار و رموز تک رسائی ہوتی ہے۔ علیم صبا نے علمی و ثقافتی سرمایہ کے ساتھ ساتھ ماحول و حیات اور کائنات سے اکتساب کر کے اپنے انفرادی کردار کو روشن کیا ہے۔ 
لمسِ اول، میں علیم صبا نویدی نے مربع کی ہئیت میں نظمیں کہی ہیں ۔ ہر نظم میں تمام بند چار مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ پہلے تین مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہیں اور ہر بند کا چھ مصرع باقی ٹیپ کے مصرعوں سے ہم آہنگ ہے۔ لمسِ اول، ہئیت کے لحاظ سے ایک خاص چیز ہے اور بندوں میں ٹیپ کے مصرعے کا اہتمام کر کے موصوف نے ایک نیا پن پیدا کیا ہے۔ مثالیں :
کسے موت کہتے ہیں ؟ اور زندگی کیا ؟
ازل اور ابد کی یہ اُفتادگی کیا ؟
الم کس کو کہتے ہیں یہ سرخوشی کیا؟ 
نہ تم جانتے ہو ؟ نہ میں جانتا ہوں ؟ 
میں ہوں پیکر تراشِ غمزۂ غم
مرے اندر چھپا ہے ایک عالم
کہیں واضح کہیں اب بھی ہوں مبہم
میں جو کچھ ہوں وہی بہتر سمجھ لو ؟ 
گیان چند جین کے الفاظ میں ’صبا صاحب نے ایک راہ دکھائی ہے کہ نئی زندگی اور نئے انسان کے نفسیاتی مسائل کو ابہام کے بغیر بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ علامت نگاری کا یہ خوش گوار اور کامیاب تجربہ ہے۔
اپنی نظموں کے ایک مجموعے ’سمت ساز‘ میں علیم صبا نویدی نے ہیئت کا نیا تجربہ کرتے ہوئے تمام نظمیں، تین سطری، کہی ہیں لہجہ کے اعتبار سے یہ نظمیں افسانوی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔ گویا کہ موصوف نے اپنی کہانیوں کی زبان کو نظم کی شکل دے دی ہو۔ موصوف کی تین سطری نظموں کا دائرہ محدود ہونے کے باوجود فکر کی شمع روشن کرتی ہیں اس مجموعے کی تمام تخلیقات بے عنوان ہیں۔ چند مثالیں: 
آنکھ منور/منظر روشن/پتلیوں میں پنہاں کون ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحانی پرواز/آسمانوں سے پرے/زمین حیرت زدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راوی نے کہا : 
یہ دنیا ایک عجائب گھر ہے/آخری منزل نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابر آلود رشتے/تنہائی کے پھیکے موسم/سرد آہیں۔ 
علیم صبا نویدی کی طرح اس نوع کے جدید تجربے (ہیئتی) کرنے والے تمل ناڈو کے شاعروں میں عزیز تمنائی، فرحت کیفی اور حسن فیاض وغیرہ کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
ادبی دنیا کے نقشے میں دکن کی حیثیت ہر اعتبار سے نمایاں ہے۔ 1980کے بعد اس علاقے میں مختلف مکاتبِ فکر کے حامل شاعروں نے اپنے خاص موضوعات اور ڈکشن سے نئی نظم پر گہرے نقوش مرتب کیے ہیں، تاہم چند منتخب اور نمایاں شاعروں کے تذکرہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ 

Mr. Sattar Sahir
Department of Urdu
S. V. University, 
Tirupati - 517502, (AP)
Mob:9440167176




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں