22/3/19

اردو مرثیے کے ہیئتی مباحث مضمون نگار:۔ سید جعفر رضا



اردو مرثیے کے ہیئتی مباحث

سید جعفر رضا

اردو مرثیہ حق کی فتحِ مبین کا اعلامیہ ہے، جس سے جبر و تشدد کے سر نگوں ہونے اورظلم و استبداد کے نا پاک عزائم سے نجات پا نے کی بشارت حاصل ہو تی ہے۔ سال بہ سال اردو مراثی کی خوانندگی سے اس کا پیغام جاری و ساری ہے اور اس کے اثرات ہمہ گیر ہیں۔
اردو مرثیہ حقوقِ انسانی کی باز یافت کااعلان نامہ ہے، جس میں حصولِ مقاصد کے لیے مسلسل جدو جہد کی دعوت ہوتی ہے ، جد و جہد اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ بغاوت ختم نہ ہو جائے۔ انسانی حقوق کی بحالی اردو مر ثیے کا ایسا پیغام ہے جس میں رنگ و نسل، صنف و سال اور ملک و قوم کی تفریق نہیں ہو سکتی۔ نتیجے میں اردو مر ثیہ کے کارواں میں مختلف طبقات کے لوگ شامل رہے ہیں۔
اردو مر ثیہ انسانی رشتوں کا امانت دار ہے، جس میں مختلف رشتوں کی پا کیزگی و تقدس، ارتبا ط باہمی اور دل آویزی کی ایسی رنگا رنگ چلتی پھر تی تصویریں ملتی ہیں ، جن کی مثالیں اردو شعر وادب کے کسی دیگر شعبے سے نہیں پیش کی جا سکتیں۔ 
اردو مرثیہ تہذیب و تمدن کے ان اقدار کا ترجمان ہے، جس میں اخلاقیات کی دائمی قدریں محفوظ ہیں۔اس کے بہترین اخلاقی نظم ہونے پر تمام اہل نظر اتفاق کر تے ہیں۔تہذیبی زندگی کے بننے اور بکھرنے کے عمل اور رد عمل کے مطالعے و تجزیے میں اردومر اثی سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔
اردو مر ثیہ جمالیاتی احساس کے منازل کی نشان دہی کر تا ہے، جس میں مر ثیہ نگاروں کے وڑن کی کرشمہ سازی میں لمسِ حیات کی ارتعاشی کیفیت،لذت ابدی اور مشامِ جان کے تعطر کی مسرت کو شعور و تحت الشعور کی مختلف سطحوں پر پیش ہو تی ہے کہ دل بھی محظوظ ہوں، رقت بھی ہو، تعریف بھی ہو !
اردو مر ثیہ عالمی ادبیات میں اپنی منفرد شناخت کا حامل ہے، اس کے مد مقابل عربی و فارسی مراثی ہی نہیں،عالمی ادبیات میں دیگر کوئی زبان بھی مثال پیش کر نے سے قاصر ہے، جو اردو مر ثیہ جیسی متنوع خصوصیات کی صنفِ شاعری پر مبنی ہو اور تقابلی مطالعے کے لیے پیش کی جا سکتی ہو۔
اردو مر ثیے کی ان کیفیات سے ہم آہنگ ہونے اور ان سے اکتساب کے لیے ہمیں ایک طویل ادبی وعلمی سفر میں جا نا ہو گا۔ چلیے، اپنے پْرشوق قاری کے ساتھ سفر کا آغاز کر تے ہیں !
اردو مرثیہ کی تعریف :
اصطلاح میں مرثیہ ایسی صنفِ سخن کو کہتے ہیں ، جس میں کسی کی وفات یا شہادت کا ذکر کیا جائے اور اس کے دنیا سے رخصت ہونے پر رنج و غم کا اظہار ہو۔ اس طرح اردو میں جو مرثیے لکھے گئے ہیں ، ان کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک، جو واقعات کر بلا سے متعلق ہیں اور دوسرے ،جو دوسروں کے لیے لکھے گئے۔اردو میں واقعات کر بلا سے متعلق مر ثیے اتنی تعدادمیں لکھے گئے ہیں کہ اردو تاریخ و تنقید میں جب لفظ ’ مر ثیہ، کا استعمال کیا جا ئے تو اس سے وہی مر ثیے مراد ہو تے ہیں جو واقعاتِ کر بلا سے متعلق ہیں اور جن کی ایک الگ ادبی حیثیت ہے۔ووسروں کے لیے لکھے گئے تعزیتی کلام کو تعزیتی نظم کہنا زیادہ درست ہے ، البتہ بعضے شخصی مر ثیہ بھی کہہ دیتے ہیں۔
اتنی واضح تعریف کے باوجوداردو مرثیہ کی تعریف و ہیئت کے متعلق اکثر متضاد بیانات نظر آتے ہیں، جس کا سبب افہام و تفہیم کی کمی کے علاوہ ایک اساسی غلط فہمی ہے۔ مناسب ہوگاکہ اس کا تجزیہ کر لیا جائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ لفظ ’ مر ثیہ ‘ زبانِ عر بی کے لفظ رَثَا سے مشتق ہے: رَثَا یَر ثْو رثواً ورَثیٰ یَرثی، رثیا ورَثاَ رِثاءً ومَرثاَ ومَرثیاً۔ المیّتَ۔ میت پر رونا اور اس کی خوبیاں گنانا، مر ثیے میں اشعار نظم کر نا۔1 اصطلاح میں مرثیہ ایسی صنف کو کہتے ہیں جس میں کسی کی وفات یا شہادت کا ذکر کیا جائے اور اس کے دنیا سے رخصت ہو نے پر رنج و غم کا اظہار ہو۔ 
عربی میں رثا قصیدہ کی ایک نوع ہے۔ اگر کسی شخص کی موت پر تعریف و توصیف میں اشعار کہے جاتے تو انھیں رثا قرار دے کر قصیدہ کی ایک نوع سمجھا جاتا تھا۔2اس لیے ابتداََ اردو میں بھی مرثیہ کورثاء کے معنوں میں سمجھا گیا۔حالاں کہ محض رثاء کے معانی ومفاہیم کی روشنی میں مرثیہ کے، بحیثیت صنف سخن، حدود اربعہ مقر ر نہیں کیے جا سکتے۔
اردو مراثی میں جذبات رنج و الم کی ترجمانی کے علاوہ بہت کچھ ایساہے، جن سے عکاسی غم و الم کی نفی ہوتی ہے۔اردومرثیے میں اسلامیات، تاریخیات، فلسفہ جات،سماجیات وغیرہ سے متعلق بیانات کے علاوہ قاری کی سطح پر کردار نگاری ، منظر نگاری،محاکات، بہار، ساقی نامہ ، وغیرہ موضوعات کا براہ راست رشتہ جذبات رنج والم سے نہیں ہوتا لیکن ان کو صرفِ نظر کر کے اردو مراثی کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔
اگر غور کیا جائے تو اردو میں کوئی صنف سخن اپنے نام کے لغوی معانی و مفاہیم کی پابند نہیں رہی۔ اگر غزل محض بہ معنی ’عورتوں کے ساتھ بات چیت،جوانی اور ہم صحبتی کا ذکر،3۔اورقصیدہ بہ معنی،ٹھوس اور بھرا ہوا دماغ سِطَبر،4۔اور مثنوی، منسوب بہ مثنیٰ دو دو کیا ہوا ،5۔ہوتی تو اردو مرثیہ بھی رثا کے تعلق سے میت پر رونے تک محدود ہوسکتا تھا۔ اس غلط فہمی کی بنا پر عربی و فارسی سے مستعار اصناف سخن کے طرز پر بعضوں نے ایسی نظم جس میں کسی پر اظہارِ غم و الم کیا گیا ہو، مرثیہ کہہ دیا۔ عرف عام میں مشہور ہو گیا کہ زندوں کی مدح کو قصیدہ اور مردوں کی مدح کو مرثیہ کہتے ہیں۔ اس خیال کو با وقار بنانے کے لیے عربی مراثی کی روایت کو بنیاد بنایاگیا۔ سند پیش کی گئی کہ عربی میں متمم بن نویرہ اور خنسا کی دل دوز نظمیں ، جو انھوں نے اپنے بھائیوں کی وفات پر لکھیں، عربی ادبیات میں مرثیہ کہلاتی ہیں۔ پھر فارسی میں بھی یہی روایت رہی ہے کہ کسی کی موت پر اظہار رنج والم کے طور پر لکھے گئے اشعار مرثیہ کہلاتے ہیں۔اس تصور کے حامی دلیل کے طور پر اردو سے مثالیں پیش کرتے ہیں کہ غالب کا ’مرثیہ عارف ، حالی کا ’مرثیہ غالب ‘ اور ’ مرثیہ دہلی ، چکبست کا ’مرثیہ تلک، اور علامہ اقبال کا ’ مرثیہ داغ‘ وغیرہ بھی مرثیہ ہی کہلاتے ہیں۔ پھر ہمیں ان کو مرثیہ کہنے میں کون سا فقہی مسئلہ در پیش آگیا ہے۔ دوسری جانب مرثیہ میں بیان واقعاتِ کربلا کی تخصیص کے قائل ناقدین کرام میں سید مسعود حسن رضوی ادیب، مسیح الزماں، رشید موسوی اور بعض دیگر محققین ’شہادت نامہ ‘کو سوادِ مرثیہ میں داخل کرنے کو تیار نہیں، بلکہ اسے الگ صنف سخن قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ شہادت ناموں میں بھی واقعات کربلا بیان کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح مرثیہ کی ہیئت کے تعین کی بحث میں بھی ناقدین کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردومرثیہ کے متعلق ان بنیادی ساخت پر ایک بار پھر غور کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ اردو مرثیہ، نام رکھوانے کی حد تک عربی شاعری کا ممنون کرم ہے۔ علامہ شبلی سے مستعار الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ زمانے کی بد اخلاقی اتنی بڑھی کہ اردو مرثیے کو عربی و فارسی مراثی کے ہم پلہ معانی و مفاہیم میں شمار کیا گیا۔
اردو مراثی بر صغیر ہندو پاک کی پیدا وار ہیں۔ ان کانام ضرورعربی ہے( جیسا کہ ان ممالک کے اکثرمسلمانوں کا ہوتا ہے) لیکن ان کے لباس و کردار اور فکر و عمل میں اس دھرتی کی بو باس شامل ہے۔ اردو مرثیے اس طرح سر زمین ہند کی پیداوار ہیں، جس طرح تعزیہ و دیگر تبرکات عزا۔ان کی نوعیت کی بنا پر غلط فہمی ہوتی ہے کہ اہل عرب و ایران کی تاسی میں لکھے گئے ہوں گے۔حالاں کہ حقیقت یکسر مختلف و متضاد ہے کہ ہندوستانی باشندوں نے انھیں ملکو ں عرب(کم از کم عراق و شام کی حد تک) 
اور ایران میں رواج دیا۔ ان کے مراثی کو معیار قرار نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ اسے سر زمین ہند کی انفرادی پیدا وار کی حیثیت سے قبول کرنا چاہیے۔ اس سے انکار نہیں کہ ابتداً عربی مراثی پیش نظر رہے ہوں گے، بعض فارسی مرثیہ گویوں میں ملا محتشم کاشانی، مقبل، شیخ آذری وغیرہ کے قائل رہے ہوں گے، جن کے اثرات اردو کے ابتدائی مراثی پر نظر آتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اردو مراثی کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے ہندی تشخص سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو مراثی کے انفرادی تشخص کا ادراک نہ ہونے کی بنا پر بعض معتبر ادبی شخصیتں بھی غلط فہمی کا شکار ہو گئیں۔ انھوں نے دیگر اردو اصناف سخن کی طرح مرثیے کو عربی فارسی سے مستعار سمجھ لیا اور اپنی تعزیتی نظموں کو مرثیے کا نام دے دیا۔ ان میں غالب ، حالی، چکبست اور اقبال کی طرح بلند و بالا شخصیت شامل ہیں۔ نتیجہ نکلا کہ ’پیراں نہ می پرند مریداں می پرانند، کے مصداق اردو ناقدوں کی ایک جماعت مراثی کو دو انواع میں تقسیم کرنے پر اصرار کرنے لگی،شخصی مرثیہ اور کربلا ئی مرثیہ۔اس مضحک تقسیم کے حامیوں سے پوچھیے کہ اگر حالی کا مرثیہ دہلی، مرثیہ ہے تو اردو میں شہر آشوب کے تمام سرمایے کو مرثیہ کیوں نہ کہا جائے۔ ان میں بھی اظہار رنج و غم ہے۔ پھر غزل کے بیشتر سرمایے میں اظہار کرب و الم ہی نہیں، بیکسی کی موت کا بیان بھی ہوتا ہے ، مرثیہ کیوں نہیں ہے۔ اردو مثنویوں پر نظر ڈالیے کہ موت کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔ انھیں بھی مرثیہ ہی کہا کیجیے۔ حقیقتاً انھیں مرثیہ کہنا اردو مرثیے کے ساتھ زبر دست بے انصافی ہے۔ یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ اردو مراثی واقعہ کربلا تک محدود ہیں۔ ان میں بیان واقعۂ کربلا کے علاوہ حضرت رسا لت مآب ،حضرت فاطمہ زہرا، ائمہ معصومین وغیرہ کے حال میں بھی مرثیے ملتے ہیں۔ اگر اردو مرثیے کو بیان واقعہ کر بلا تک محدود کر دیا جائے تو ان مراثی کوکس خانے میں رکھا جائے گا۔ اس سے ہمارے ناقدین کرام کی روح مرثیہ سے ناواقفیت اور ظاہر ہوتی ہے۔
ہمارے نزدیک کسی شخص کی موت پر لکھی گئی انفرادی نظموں کو مراثی کے زمرے میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو شخصیت سے متعلق تعزیتی نظم قرار دینا زیادہ درست ہے۔ اسی طرح اردو مراثی کو محض واقعہ کربلا تک محدود کر دینا بھی خلاف واقعہ ہے۔ یقیناًاردو مراثی پر بیان واقعہ کر بلا حاوی ہے، اور بیشتر اردو مراثی موضوع واقعہ کربلا ہے۔ لیکن ان کے پہلوبہ پہلو اردو کے مقتدر ترین مرثیہ نگاروں نے بھی واقعہ کربلا کے علاوہ حضرت مر سل اعظم ، حضرت فاطمہ زہرا، ائمہ معصومین اور ان کے دیگر متعلقین پر مرثیے لکھے ہیں، جن کو اردو مراثی کی تاریخ میں مرثیہ اطلاق ہیئت کی بجائے موضوع کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس طرح اردو مرثیہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ اردو میں نظمیں جن میں محمدو آل محمد اور ان کے متعلقین کے مصائب و آلام بیان کیے جائیں ، اردو مرثیہ کہلاتی ہیں۔ لیکن اردو میں واقعاتِ کر بلا سے متعلق مر ثیے اتنی بڑی تعداد میں لکھے گئے ہیں کہ اکثر اردو تاریخ و تنقید میں جب ’ مرثیہ، کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد وہی مر ثیے ہو تے ہیں جو واقعاتِ کر بلا سے متعلق ہیں اور جن کی ایک الگ ادبی و تہذیبی حیثیت ہے۔اسی تعریف کو دیگر ماہرین مر ثیہ بھی مستند مانتے ہیں۔6
اردو مرثیہ کے عناصر :
اردو مرثیہ کے عناصر کو عناصر اربعہ ( خاک، باد، آب ، آتش)کے مماثل لازمی نہیں سمجھنا چاہیے، جن کا ہونا انسانی وجود کے لیے لازمی ہے۔ ان میں سے کسی ایک عنصر کی عدم مو جودگی میں وجود ممکن ہی نہیں۔ اردو مرثیہ کے عناصر اس کی افہام و تفہیم میں سہولت پیدا کر نے کے لیے معین کیے گئے ہیں۔ ہر مرثیہ میں ان کا تمام و کمال موجود ہو نا لازمی نہیں لیکن اکثر و بیشتر ان کا وجود پا یا جا تا ہے۔قدیم مراثی میں ا ن کا وجود ہے لیکن منتشر ہے اور باہمی ربط بھی کم ہی ہے لیکن تعمیرِ فن کے عصری تقاضوں کے اعتبار سے ان میں ہم آہنگی آتی گئی۔ حتیٰ کہ اردو مر ثیہ کے دور عروج ( دورِ انیس و دبیر) اور اس کے بعد سے زیادہ ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔
اردو مرثیہ کے عناصر کیا ہو سکتے ہیں ؟ یہ مسئلہ پہلے بھی غور و فکر کا موضوع رہا ہے۔ غالباََ سب سے پہلے علامہ شبلی نے میر ضمیرکو ان کے ’طرزِ نوی ‘ کے دعوے کی غلط فہمی میں جدید مر ثیے کا موجد قرار دیتے ہوئے اردو مرثیہ کے عناصر ا ن کی جا نب موسوم کر دیے۔ اس مسئلے پر یہاں بحث کی گنجائش نہیں ہوسکتی، سردست اتنا عرض کر دینا کا فی ہو گا کہ اس وقت شبلی نے عناصر میں رزمیہ، سراپا، واقعہ نگاری ، گھوڑے، تلوار ، اسلحہ جنگ کے اوصاف وغیرہ قرار دیے تھے۔7بعد میں ماہر انیسیات سید مسعود حسن رضوی ادیب نے مراثی انیس کو معیار قرار دے کراردو مر ثیے کے ’ اجزائے ترکیبی ، قرار دیے ، جن کے نام ہیں __ چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت اور بین۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد کیا :
’’ انیس کے مر ثیوں میں بالعموم یہ اجزا پائے جاتے ہیں۔لیکن یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر مر ثیے میں کل اجزا ہوں اور بالکل اسی تر تیب سے ہوں۔‘‘8
اس اعتراف کے بعد کہ انیس کے تمام مراثی پر ان کا اطلاق نہیں ہو سکتا، دیگرمر ثیہ نگاروں کے بارے میں کو ئی دعویٰ کر نا عبث ہوگا۔ اس طرح ان محدودمفروضات کواردو مر ثیے پر مسلط کر نا درست نہیں ہو سکتا۔استاذی مسیح الزماں نے مر ثیے کی داخلی ساخت ، پر فکر انگیز گفتگو کی ہے اورعناصر ترکیبی کی نشان دہی کی ہے۔ صنف ڈراما سے ان کے فطری ذوق نے اس سے اکتساب کی جانب مائل کیا اور اس نتیجے پر پہنچے : 
’’ غیرمحسوس طور پر اس میں المیہ کے کچھ خصوصیات پیدا ہو گئے۔تشویش ، عمل اور تصادم جو المیہ کے عناصر ترکیبی ہیں مر ثیہ میں بھی آئے۔ جب مر ثیہ کے موضوع کو امام حسین کے کل کارناموں کے بجائے ایک ایک شہید پر محدود کر دیا گیا تو موضوع سمٹ کر قابو میں آگیا او شاعروں نے اس میں تخئیل اور مشاہدے کی جو لانی دکھانی شروع کی۔ ایک ایک شہید کی شہادت جو اصل موضوع تھی, انجام ، قرار پائی۔ اس کے پہلے جنگ، جنگ سے پہلے رخصت،رخصت سے پہلے تمہیدجس میں اس شہید کا ناظرین سے تعارف کرایا جا تا تھا، اس طرح ابتدا، عروج اور خاتمہ جو ایک قصے کی بنیادی ساخت ہے، مر ثیے میں آگئی۔ اب مر ثیہ ایک کر دار کی جنگ اور شہادت پر ختم ہو نے لگا۔، ،9
مذکورہ بالامباحث کااحاطہ کر تے ہوئے ،مطالعے کی سہو لیت کے لیے اردو مرثیہ کے عناصر ترکیبی کو موضوع، تمہید، احوال، مصائب اور خاتمہ میں تقسیم کرنے کی سفارش کی جا سکتی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ موضوع : اردو مرثیے کا عام موضوع واقعہ کر بلا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ مرسل اعظم اور ان کے عترت و اہل بیت سے متعلق مراثی بھی ملتے ہیں۔ واقعہ کر بلا کے دوران اور اس کے بعد کے واقعات بھی موضوع بنتے ہیں۔ موضوعات میں مختلف و متنوع واقعات بیان کر نے کے لا محدود امکانات ہوتے ہیں۔ ان کا انتخاب مر ثیہ نگار کی صواب دید پر منحصر ہو سکتا ہے۔
.2تمہید: اردو مرثیہ میں تمہید انتہائی مختصر ہو سکتی ہے اور طولانی بھی۔ فقط ایک لفظ اور کبھی ایک مصرعے میں پوری تمہید مضمر ہو سکتی ہے۔ مثلاََ جب، جس دم،ناگاہ ، کیا وغیرہ۔ ان میں ’جب ‘ سب سے زیادہ عام رہا۔ ’جب حرم قلعۂ شیریں کے برابر آئے ‘ اسیروں کے لیے شیریں کی میزبانی کی تمہید۔ ’گھرسے جب بہرسفر سیدِ عالم نکلے ‘ سفر کی روانگی کی تمہید۔ ’ جس دم شرف افروزِ شہادت ہو ئے عباس ‘ یا تخاطب کے الفاظ اے مومنو، اے اہل عزا وغیرہ۔ اگر تمہیدطولانی ہے تو اس میں حمد، نعت ، منقبت، مناظرِ فطرت، حالات حاضرہ، جدائی، فراق سب کا بیان ہو سکتا ہے۔ جدید مراثی میں عنوان سے متعلق بیان تمہید کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔تمہید کے مختلف امکانات ہو تے ہیں۔
.3احوال : مراثی میں کسی واقعے کا تفصیلی بیانِ احوال ہے۔ اس کا دائرۂ عمل بہت وسیع ہو تا ہے۔ واقعۂ شہادت کی تفصیل، کسی شخصیت کے خاص پہلووؤں کا ذکر، رزم نگاری ، شجاعت آفرینی ،تلواروں کی رد و بدل، جنگ میں رہوارکی کار گزاری ، دشمن کی بد کر داری، ریا کاری اور بزدلی کے بیان سے مجلس میں فرحت نا کی پیدا کرنا وغیرہ کتنے ہی پہلووؤں سے احوال کا بیان ہو تا ہے۔
.4 مصائب : بیانِ مصائب کو مآلِ مجلس مانا جاتا ہے۔ ماجرے میں کوئی بھی بیان ہو لیکن وہ مصائب کے احساس پرحاوی نہیں ہو سکتا، بلکہ بیانِ احوال کو مصائب کی اثر آفرینی میں اضافہ کر تے رہنا چاہیے۔ ہنسی کے ساتھ یا ں رونا ہے ، مثلِ قلقلِ مینا !مرثیہ نگار انتہائی فر حت ناک بیان کر تے ہوئے درمیان میں ایک ایسا نکتہ پیدا کر دیتا ہے کہ سامعین کا ذہن واقعۂ کربلا کی جانب منتقل ہو جائے۔ انیس نے چار مصرعوں میں بہار کی ایسی فضا آفرینی کی ہے کہ سامعین مدہوش ہو جائیں لیکن بیت ایسی کہی کہ ذہن اہل بیتِ رسول کے مصائب سے غیر متعلق نہ ہو نے پا ئے : 
خواہاں تھے زہر گلشنِ زہرا جو آب کے 
شبنم نے بھر دئیے تھے کٹورے گلاب کے 
دبیر کا مقبول ترین مرثیہ ’ جب حرم قلعۂ شیریں کے برابر آئے، پورے کا پورا فنی پیش کش کا شاہکار ہے۔ چار مصرعوں میں حسینی قافلے کی آمد کی خبر سے شیریں خوشی سے پھولے نہیں سماتی، مہمانوں کے استقبال میں طرح طرح کے اہتمام کر تی ہے۔چار مصرعوں میں اس کا نہایت اثر آفریں بیان ہے اور بیت میں مصائب کی جانب ذہن کو اس طرح متوجہ کر تے ہیں کہ سامعین دل تھام کے رہ جا تے ہیں۔ 
5۔ خاتمہ : مرثیہ میں خاتمہ کے لیے کوئی مقررہ اصول نہیں ہے۔ بسا اوقات بیانِ مصائب کو ایک خاص نہج پر کسی پر تاثیربیت کے ساتھ تمام کر دیتے ہیں۔ مختلف طرز کے مر ثیہ خواں منتخب بند پیش کر تے ہیں اور مجلس کے رجحان کے اعتبار سے بھی خود خاتمہ بنا لیتے تھے۔ ان کے مکتوبہ مخطوطے ہی ہماری تحقیق کی بنیاد بنتے ہیں، جن کا ثقہ و معیاری ہونا مشکوک ہو تا ہے۔ ایسے مر ثیے بھی کم نہیں ہیں ، جن کے خاتمے میں مر ثیہ نگار نے اپنا تخلص نظم کیا ہے اور اہل مجلس ، صاحب مجلس، کسی امیر یا رئیس یا خود اپنے لیے دعا کی ہو۔ اس دعاؤں میں عصری زندگی کے کوائف کے بلیغ اشارے بھی پو شیدہ ہیں لیکن کسی مورخ کی نظریں ابھی ادھر نہیں گئی ہیں۔
اردو مراثی کی عروضی ہیئت : بحور و اوزان کے مسائل و مباحث علمِ عروض، علوم بدیع، قافیہ اور نحو کی طرح ہے، جس کے متعلق ماہرین و حکما کا اتفاق ہے کہ یہ ادبی علوم ہیں، جو مختلف ادوار میں پختہ سے پختہ تر ہوتے رہے ہیں اورہنوز مکمل طور پر پختہ ہو چکے ہیں۔لہٰذا، ان میں کوئی تبدیلی لانا درست نہیں ہو سکتا۔۱لبتہ علوم معانی، بیان اور تفسیر ، جن کو مختلف ادوار میں پختہ سے پختہ تر کر نے کی کو شش ہوتی رہی ہے لیکن ہنوز مکمل طور پر پختہ نہیں ہوئے ہیں ، لہٰذا ،ان میں علمی و فکری تجربے کیے جا سکتے ہیں10۔ ا س طرح علمِ عروض پر پابندی بحور و اوزان میں کسی نئے تجربے کی اجازت نہیں دیتی۔
علمِ عروض پر پابندی بحورو اوزان میں کسی نئے تجربے کی راہ مسدود کر دی ہے۔ قدیم عروضیوں نے اس کی راہیں مزید دشوار کر نے میں کو ئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھاتھا، مگر عصر حاضر میں علمِ عروض کو سہل الحصول بنانے کی قابل قدر کو ششیں ہوئی ہیں۔پھر بھی بحورمیں ایسے متحرک و پیچیدہ گرداب ہیں کہ اچھے بھلے ماہرین بھی غوطہ کھا جا تے ہیں۔ 
اردو مراثی کے افہام و تفہیم میں عروضی مسائل و مباحث گفتگو کا موضوع بنتے رہتے ہیں لیکن اردو مرثیہ کی تنقید میں عروض کو کلیدی اہمیت حاصل نہ ہو سکی، جس کی و ہ مستحق تھی۔ کہہ لیجیے، اس کو بھاری پتھر سمجھا اور چْوم کر چھوڑ دیا۔بعضوں نے اظہارِ تفوق علمی کے طور پر یہاں وہاں کچھ لکھا۔ انھیں بھی عروضیوں کاخوف دامن گیر رہا۔ وہ بھلا کہا ں چھوڑیں گے۔ بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شغل ہے۔ اس منجدھار میں ہم اپنی کشتی پانی میں اتار نے کی جرأت کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہیں سے اردو مرثیے میں عروضی مسائل و مباحث پر معنی خیز گفتگو کاآغاز ہو سکے۔ ہماری کوشش آئندہ کے لیے پیش دستہ ہو نے تک محدود ہے۔ 
اردو مر ثیے کی تنقید میں عروض کو جتنا بھی نظر انداز کیا گیا ہو، اردو مر ثیہ نگار تخلیقی معیاروں پر مذکورہ بالا پابندیوں کے باوجود، بحور و اوزان کے تعین میں مختلف ادوار میں متنوع تجربات کر تا رہا۔ ان میں کئی طرح کے بحورو اوزان رائج بھی ہوئے۔ جن میں چند بحورو اوزان مراثی کے لیے مخصوص ہوگئے، باقی ترک ہو گئے۔ شمال کے ابتدائی دور میں ’ہندی پنگل، کی بنیاد پر مراثی ملتے ہیں ، لیکن ان کا عام رواج نہیں ہو سکا۔ حالاں کہ اس میں بہت سے امکانات تھے اور ہیں۔ زیادہ تر مرثیے عربی و فارسی بحور و اوزان تک محدود رہے۔ 
دکن کے اوّلین مراثی : (1340-1540) : اردو کااولین مرثیہ دکن میں شہادت نامہ کی شکل میں ملتا ہے۔ اولین مر ثیہ گو شاہ اشرف بیابانی کا شہادت نامہ ’نو سرہار، (ت: 909 ھ/ 1503) بحرمتقارب مثمن کی ایک شکل میں ہے، جو15ویں سے 18ویں صدی تک مقبولِ عام رہی۔ اس بحر کا استعمال میران جی،جانم اور شاہ داودنے کیا ہے۔ اس میں مذہبی نوعیت کی متعددمنظومات ملتی ہیں۔ شاہ اشرف نے بھی اسی مقبول ترین بحر کا استعمال کیا ہے: 
بازاں کیتی ہندوی میں قصہ مقتل شاہ حسین
(فعلن فعلن فعل فَعَل فعل فعولن فعلن فع)
دکنی مرثیہ گوئی کے مختلف ادوارکو اجمالی طور پر اس طرح سمجھا جا سکتا ہے ... (1)بہمنی دور 1347-1526(2) عادل شاہی دور 1490-1510 (3) نظام شاہی دور 1479-1509(4) قطب شاہی دور 1528-43 ۔مجموعی اعتبار سے دکنی مرثیہ گوئی کادور 1343-1543قرار دیا جا سکتا ہے۔ان ادوارکے مر ثیہ گو یوں کا ذکر آئندہ سطروں میں مثالوں کے ساتھ کیا جائے گا۔ 
عروضی زاویۂ نظر سے مطالعہ کریں تو دکنی مرثیہ گوئی کے ادوار1343-1543میںآٹھ بحور مستعمل ہوئیں.__ہزج، مضارع، رجز، رمل، متقارب، خفیف، متدارک اورمنسرح۔ ان میں ہزج سب سے زیادہ مقبول رہی، پھر مضارع اور رجز۔ان کے بعد رمل اور متقارب۔ خفیف اور متدارک میں کم ہی مرثیے کہے گئے اورمنسرح میں سب سے کم۔ ذیل میں تفصیل پیش کی جاتی ہے: 11
1۔ بحر ہزج :
(1) مثمن سالم: 
ٍ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن 


محرم چندر پھر کھن پولے ماتم ہوا پیدا
جانم

محرم چاند ساقی ہو جو غم کا مے پلا یا ہے 
امین

حسین ابن علی کے دکھ بدل تن کو گلانا ہے
عادل شاہ ثانی شاہی

حسین ابن علی کا دل میں منجہ گر یاد نہ ہوتا
سرور

نبی آویں گیں محشر کوں یو تحفہ کو لے جانا ہے
مرزا

نیا ظلم و بلاسب فاطمہ خاطر ملایا ہے
قطب شہ

محرم دہاد ماتم کا علم زو راں آچایا ہے
عبد اللہ قطب شہ

امیراں او گئے دکھ سوں نہ عالم تلملائے کیوں
غواصی

محرم جگ میں پھر آیا یاراں آہ واویلا
غواصی

محرم چاند ماتم کا کماں ہو جگ پو دبایا ہے
قطبی

محرم چاند ماتم کا فلک پر جگ ہو آیا ہے
طبعی

محرم کے چند رکوں دیکھ ماتم سوں ملک سارے
عابد

کرو زاری عیاں ہو چندر آیا محرم کا
افضل

دیکھو یوماہ ساقی ہو چندر پیالا لے آیا ہے
نوری

عزیزاں ہے عزا بھاری محمد کے پیارے کا
احمد

ٹٹے جگ کے ولاں میں غم کے بھالاں آہ واویلا
عشقی

چلے معراج کو پیارے تمارے یا رسو ل اللہ
شیخ داؤد

عزیزاں شہ کے ماتم سوں جگر پر غم کا آرا ہے 
طالب

حسین کا رن کیتے دیکھو فقیر ہو شہ کا آیا ہوں 
صادق
(2)مثمن اخرب مکفوف مقصور:مفعول مفاعیل مفاعیل 

فرزند نبیؐ کے ہوئے مظلوم الک ہائے
عادل شاہ ثانی شاہی
(3)مثمن اخرب مکفوف محذوف: مفاعیل مفاعیل مفاعیل فعولن

یو ماہ محرم دیکھو کیا بھیس لیا ہے 
عادل شاہ ثانی شاہی
(4)مسدس محذوف: مفاعیلن مفاعیلن فعولن 

چند رپر سوز آئے سوں نکل کر
عابد
(5) مسدس اخرب مقبوض : مفعول فاعلن فعولن

دیکھویو چندر بھی پھر کے آیا
ادل شاہ ثانی شاہی
2۔ بحرمضارع: 
(1) مثمن اخرب سالم: مفعول فاع لاتن مفعول فاع لاتن

سورج چند رستارے روئے ملک گگن میں
ملک خو شنود

دلبند مصطفیٰ کا تابوت لے چلے ہیں
ہاشمی

رستا نہیں کروں کیا اوبھان کر بلا کا 
غواصی

جب دشت کربلا میں شہ پر بلا کھڑی ہے
عابد

جب تے حسین کا غم جگ میں نشر ہوا
افضل

صلوٰت بر محمد صلوٰت بر محمد 
احد
(2)مثمن اخرب مکفوف محذوف: مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن

جب نے دھریا امام چرن کر بلا منے 
عادل شاہ ثانی شاہی

شامی نبی ؐ کی آل پر کیسی بلا کیے 
عبداللہ قطب شہ

دو جگ کوں غم سوں شاہ کے یاراں نجات ہے
عابد

اے اہل درد اشک سوں انکھیاں کوتر کرو 
غلام علی لطیف

کائیانبی ؐکے دل کے چمن کو نہال کوں
احمد

کیوں کر نبی کے جتو کے پارے حسین کون
عشقی

کیوں باغ مصطفی کے دیکھو یاسمن کے تئیں
حیرت
(3)مثمن اخرب مکفوف محذوف /مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل

آیا ہے پھر کو ماہ چندر ہائے ہائے ہائے 
علی

جب تے توں کربلا میں کیا ٹھار یا حسین 
غواصی

ہے سکھ سوں دوستان علی کوں کنار آج
احمد

اس دن بدل نثار میں رو رو ٹمپے گلاب
شیخ داؤد
3۔ بحررجز: 
(1)مثمن سالم :
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن


نکلیا محرم چندر دو جگ کوں غم حاصل ہوا
امین

ماتم محرم کا ابر پھر جگ منے آیا عجب
ملک خوشنود

لیا یا سوکتے گھر آں امت یہ سب بخشش کیا 
نصرتی

ماہ محرم دیکھ کر سب دھرتی لوہو میں بھری 
ہاشمی

آیا محرم دہاوں کر جب یا علی موسیٰ رضا 
مرتضیٰ

پھر چاند کھن پر خم ہوآے شہ ترے یو ناگ سوں
حسینی

کالی نہ گوری چبر بندی میٹھی ہے جوں کالندری 
وجہی

سلگی ہے پھر تج غم کی آگ دل میں ہمارے یا حسین
غواصی

اے نور چشم مصطفیٰ کیوں جا بسایا کر بلا 
محب

ہیہات شہ کا درد ہے اس غم سوں عالم گرد ہے
فائز

اے شمعِ بزم مرتضیٰ گھر آج آئے کیوں نہیں
ذوقی

بیداد اماماں پر دیکھو کیوں چرخ زنگاری کیا 
عشقی
(2)مثمن سالم مذال :
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلان


دس دن کروں زاری یو میں تج غم تے رو رو یا امام 
علی عادل شاہ ثانی شاہی

چندر محرم دیک رویا ہوں روؤں گا ہنوز
مشتاق

دو جگ اماماں دکھ تے سب جیو کر تے زاری ہائے ہائے
قطب شہ

اے بے حیا شمر لعین کیا ظلم کی تا ہائے ہائے
محب

دو جگ کے ہادی رہنماؤں کا خلاصہ یا رسول
دردی
4۔ بحر رمل : 
(1) مثمن مقصور:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان


تج فراقوں سو رو رستا اندھارا یا حسین
عادل شاہ ثانی شاہی

شہ کے غم سوں دل ہے نالاں ہائے ہائے
عادل شاہ ثانی شاہی

غم زدہ ہو کھن پو نکلیاغم کا چندر ہائے ہائے
شاہ راجو

آہ نیں تھا کربلا میں کوئی غم خوار حسین
عابد
(2) مثمن محذوف:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن 


آج محرم کا چندا سب لہو منے نہائیا
مرتضیٰ
(3) مسدس مقصور:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن


کیا سینے میں آ بھر یا غم ہا ئے ہا ئے
عابد

نیں رہیا طاقت ہمن یا حسین 
احمد

گل محمد کے چمن کا یا حسین
عشقی
(4)مسدس محذوف:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن


آج غم کا ابر جگ پر چھائیا
عبدل

مرحبا اے شاہ سرور مرحبا
مشتاق

مرحبا اے جانِ حیدر مرحبا
روحی
5۔ بحر متقارب : 
(1) مثمن سالم :
فعولن فعولن فعولن فعولن 


ترے حکم پرسر دیا ہے خدایا 
علی عادل شاہ ثانی شاہی

حسینا کے ماتم سوں آل حرم پر 
شا ہ راجو 
(2) مثمن مقصور :
فعولن فعولن فعولن فعول


چھوئیا عرق جیوں شہ کے تن تے گلاب 
شاہ ملک

دسیا چاند غم کا گگن میں حسین 
شرف النسا
(3) مثمن محذوف :
فعولن فعولن فعولن فعل


تھی یک آنکھ دولن اپر شاہ کی 
دردی
(4)مثمن اثرم مقبوص:
فعل فعولن فعل فعولن 


ہے آج غوغا نگر ے نگر میں 
عشقی
(5)مثمن مقبوص اثرم:
فعول فعلن فعول فعلن 


حسین کا غم کرو عزیزاں
وجہی
(6)مثمن مقبوص اثرم :(شانزدہ رکنی)فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن

سنو محبّاں تمام ملکے ملک دلی ہور دکھن میں ماتم
عبداللہ قطب شاہ
(7)مثمن اثرم : (دوازدہ رکنی)فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعول فعل

ہائے غریب یتیم نمائے عابد تیری زاری ہے
شاہ قلی خاں شاہی

دکھ سوں ملائک سا تو گگن کے ہاروتے


عرش کے صحن میں ماتم میں 
شیخ داؤد
6۔ بحر خفیف :
(1) مسد س مخبون محذوف: فاعلاتن مفاع لن فعلن

آہ جگ سوں گئے او سرور آج 
امین

سکھ دکھایا چند رگگن سوں نکل 
مقیمی

قتل سید خدا ہے واویلا
مومن

دکھ تے سرور کے جب چلیانجھو
عابد

شہ کے غم کا ہے غم پیمبر پر
نوری

آج غم ناک ہیں چمن کے گل
روحی
(2) مسدس مخبون مقصور مسکن: فاعلاتن مفاع لن فَعَلن

یو عزیزاں دسیا محرم چاند
مرتضیٰ
7۔ بحرمتدارک: 
(1) مثمن مخبون :
فعلن فعلن فعلن فعلن


بسم اللہ دل سوں ٹر ٹر سب
شیخ داؤد

پوت نبی ؐکے اتھے پیارے
علی عادل شاہ ثانی شاہی
(2) مخبون(دوازہ دہ رکنی) فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

ہائے ہائے غم سرور کا مرے من میں
شیخ داؤد
(3) مخبون (شانز دہ رکنی) فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

آؤ مل کر ماتمیاں سب اس غماں تھے لہو روئیں
قطب شہ

آیا محرم بھاگ میں چندر گل اچایا ہے
عبد العزیز

بالک حسین کے پیارے ملّو،ہائے شاہ اصغر
ندیم
8۔ بحرمنسرح : 
(1) مثمن مطوی مکشوف: مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن

آہے فلک کیا کیا (آہ) فلک کیا کیا (اللہ)
ملک خوشنود

دیکھ محرم کا چاند سکھ کوں بسارو تمام
علی عادل شاہ ثانی شاہی
شمال کے اوّلین مراثی : (1650-1700) 
شمالی ہند میں اردو مراثی کے اولین دور میں انھیں آٹھوں بحر وں میں مرثیے کہے گئے، جن کا اوپر کی سطروں میں ذکر کیا گیا، یعنی ہزج، مضارع، رمل، متقارب، خفیف، منسرح، مجتث،۔ ان میں ہزج ، مضارع اور رمل زیادہ مقبول رہیں، باقی بحور میں کم ہی مرثیے کہے گئے۔ ذیل میں ان کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں: 
1۔ بحر ہزج :
(1) مثمن سالم :
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


پیارا فاطمہ کا رن چلا ہے آہ واویلا
صلاح

جنازہ آج شاہاں کا بنایا ،یا رسول اللہ
غلام سرور
(2) مثمن سالم (شانز دہ رکنی) مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

حسین ابن علی پیا سا کھڑا در کربلا ،ہیہات صد ہیہات ہے
کلیم
(3) مسدس محذوف: 
مفاعلین مفاعلین فعولن


امام دیں سدھارا ہائے ہے ہے 
صلاح

حسن کا دلبر و دلدار قاسم
محمد افضل
2۔ بحر رجز: 
(1) مثمن سالم: 
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن


لایا محرم درد و غم و احسرتا و احسر تا
صلاح

بیداد ہے اے مومناں، آیا عزائے شاہ دیں
قاسم

درماتم خورشید دیں ہفت آسماں بر ہم پڑا
صادق

افسوس ہے اے مومناں ،دیں کا پیارا چل بسا
حیدر
3۔ بحرمضارع : 
(1)مثمن اخرب سالم :
مفعول فاع لاتن مفعول فاع لاتن


ظاہر ہوا فلک پر غم کا ہلال دردا
صلاح

رو رو کہیں دریغا ہر خاص و عام قاسم
سعید

مارا گیا امام عالی تبار دردا محب


جس وقت شہ گرا تھا بے تاب کربلا موں
صادق
(2) اخرب مکفوف :
مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن


ہے ہے ہوا شہید پسر بو تراب کا
صلاح

مارا گیا حسین علیہ السلام حیف
قربان

غم کی اگنی جلی کوں تسلی کا آب دے
سعید

جنت میں فاطمہ کہیں میرا جگر حسین
موسیٰ
4۔ بحررمل : 
(1) مثمن محذوف: 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن


ظلم شدید بر آل یٰسین الغیاث و الغیاث
صلاح

از غمت ہیں خاک بر سر درستداراں، یا حسین
قربان علی

آہ حیف اے دوستاں ،سلطان دیں کا چل بسا
ہدایت

با تنِ خونیں کفن محشر کو آوے گا حسین
شبر علی

در صف کرب و بلا بس دکھ سہا دردا حسین
محمد رضا

آہ دنیا سوں حسن با چہرۂ اخضر گیا 
خادم
(2)مثمن مخبوں محذوف مقطوع: فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

آمدہ ماہ محرم بہ جہاں واویلا
صلاح
(3)مسد س محذوف/ مقصور:فاعلاتن، فاعلاتن فاعلات/فاعلن

اے محبان از غم آل عبا
صلاح

رفتہ سبط احمد مختار آہ 
قربان علی

آہ در فوج ستم گر ہے حسین
سعید

اے دریغا ظلم بر سلطاں ہوا
محب
5۔ بحرمتقارب:
مثمن مقصور: 
فعولن فعولن فعولن فعول


کرو غم سوں اے دین داراں خروش
صلاح

محباں صد افسوس در کربلا
خادم
6۔ بحرخفیف : 
مسدس مخبون محذوف: 
فاعلاتن مفاعلن فعلن


ایں چہ ظلم است ایں چہ بیدا داست
صلاح
7۔ بحر منسرح : 
(1)مثمن مطوی مکفوف: 
مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن


ماہ محرم رسید، و احسن و ا حسین
صلاح

رفت ز دنیا امام خستہ جگر تشنہ کام
خادم
(2) مثمن مطوی مکفوف
مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن 


آہ دگر بار ایں چہ فتنہ و شو راست 
صلاح
(3)مثمن محذوف : 
مفتعلن مفتعلن فاعلن


با ز پڑا ہے بہ جہاں شور و شین
صلاح

باز اٹھا نالہ زخلق زمن 
کلیم
8۔ بحرمجتث: 
(1)مثمن محذوف / مقصور: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن /فعلات

کرو زدیدہ خوں بار جیب و داماں سرخ 
صلاح

گیا بہ دردو الم شاہ کر بلا افسوس 
صلاح
(2) مثمن مخبون:
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلیان


گیا امام دیں وسرور زماں غم ناک 
صلاح
متذکرہ بالا بحور و اوزان کے شرح تکویر(Frequency Rate ) کا اندازہ کر نے کے لیے ضروری معلوم ہو تا ہے کہ دکنی مراثی اور شمالی ہند کے ابتدائی مراثی کے بحور و اوزان کا تقابلی مطالعہ کر لیا جائے تاکہ صحیح نتائج تک رہنمائی ہو سکے۔ ذیل میں گوشوار ہ بحور و اوزان کے ذریعے وضاحت کی جا تی ہے۔ 
گوشوارہ بحور اوزان
درجہ بندی 
دکنی مراثی کے بحور و اوزان
شمالی ہند کے ابتدائی مراثی کے بحور و اوزان
تقابلی مطالعہ
ا وّل :
ہز ج مثمن سالم
ہزج اخرب مکفوف 
ہزج مسدس اخرب
ہزج مسدس اخرب

رمل مثمن محذوف
رمل مثمن مخبون محذوف
رمل مسدس مقصور
رمل مسدس مخذوف
دکنی مراثی اور شمالی ہند کے اوّلین مراثی کی ترجیحات میں اختلاف ہے۔ دکن میں ہزج اور شمال میں رمل پر زور تھا لیکن ان دونوں میں مثمن کے اوزان یکساں مقبول تھے۔
دوم : 
مضارع اخرب سالم
مضارع اخرب محذوف 
مضارع مثمن اخرب مقصور
مضارع مثمن اخرب سالم 
مضارع اخرب مکفوف 
مضارع مثمن اخرب مکفوف 
دکن اور شمال دونوں مقامات میں دوسری ترجیح پر مضار ع تھا۔اس میں مثمن اخرب کے اوزان زیادہ مقبول رہے۔ 
سوم :
رجز مثمن سالم
رجز مثمن سالم مذال
ہزج مثمن سالم 
ہزج مثمن سالم شانزدہ رکنی 
دکن اور شمال کے بحور میں اختلاف ہے۔لیکن اوزان میں مثمن سالم ہزج مسدس محذو ف یکساں مقبول رہا۔
چہارم:

رمل مثمن مقصور 
رمل مثمن محذوف 
رمل مسدس مقصور
رجز مثمن سالم
رمل مسدس محذوف
دکن میں رمل کے مختلف اوزان میں مرثیے دستیاب ہیں۔ لیکن شمال میں رجز مثمن سالم میں ہی مرثیے کہے گئے
پنجم :
متقارب سالم 
متقارب مثمن مقصور 
متقارب مثمن محذوف 
متقارب مثمن اثلم مقبوص
متقارب مثمن دوازدہ رکنی 
متقارب مثمن شانزدہ رکنی 
منسرح مثمن مطوی مکفوف
منسرح مطوی مکفوف
منسرح مثمن محذوف
دکن میں متقارب کے مختلف اوزان اورشمال میں منسرح کے مختلف اوزان 
بر تے گئے۔
ششم :
خفیف مسدس مخبون محذوف
خفیف مسدس مخبون مقصور
مجتث مثمن محذوف 
مجتث مثمن مقصور
مجتث مثمن اثرم 
دکن میں خفیف کو مقبولیت ملی لیکن شمال میں مجتث کا استعمال ہوا ،جو دکن میں رائج نہیں تھا۔بعدکے ادوارمیں مجتث کو شمال میں بھی خصوصی مقبولیت حاصل ہوئی۔
ہفتم :
متدارک مخبون 
متدارک مخبون دوازدہ رکنی 
متدارک مخبون شانزدہ رکنی
متقارب مثمن مقصور 
دکن میں متدارک کو خفیف کے تقریباَبرابر مقبولیت حاصل رہی لیکن شمال میں متقارب کا استعمال شاذ ہی ہوا۔
ہشتم :
منسرح مثمن مطوی مکفوف
خفیف مسدس مخبون محذوف 
دکن میں منسرح اور شمال میں خفیف بھی کبھی کبھار استعمال کیے گئے۔ 
مندرجہ بالا حقائق کے تجزیے سے درج ذیل نتائج بر آمد کیے جا سکتے ہیں :
اولاََ،اگر درجہ بندی کے پیش نظر تجزیہ کیا جائے تو دکن اور شمال میں دونوں جگہ ، چند مستثنیات سے قطع نظر، درج ذیل بحور یکساں مستعمل رہے : 
.1 ہزج، مثمن سالم زیادہ مقبول رہی۔ 
.2 رمل ، مثمن سالم زیادہ مقبول رہی۔ اس کے بعد مسدس بھی رائج رہی۔ 
.3 مضارع،اخرب سالم مکفوف زیادہ مقبول رہی۔ 
.4 رجز ، مثمن سالم مقبول رہی۔ (5) متقارب ، مثمن مقصور مقبول رہی۔ (6) منسرح،مثمن مطوی مکفوف مقبول رہا۔(7) خفیف مسدس مخبون و مخذوف مقبول رہا۔
ثانیاََ ،شمالی مراثی میں متدارک کا رواج نہیں رہا اور دکن میں مجتث اور ہندستانی بحروں کا استعمال نہیں ہوا۔ مجتث کو بعد کے ادوار میں خصوصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 
ثالثاََ،شمالی ہند میں با لترتیب رمل، مضارع، ہزج، رجز، منسرح، مجتث، متقارب، خفیف، اور ہندستانی بحروں کا رواج رہا جن میں آخر الذکر چاربحروں کا استعمال برائے نام ہی تھا۔ 
رابعاََ، روشن علی سہارن پوری کا ’ عاشور نامہ، جس کو بعضے شمالی ہند کا پہلا مر ثیہ قرار دیتے ہیں ، مروجہ بحرمتقارب مثمن مقصورمیں ہے: 
سبھی مرسلاں میں تو ہے تاج سر : فعولن فعولن فعولن فعول۔
شمال میں اردومراثی کی نشو و نما : (1700-1750) : شمالی ہند میں اردو مراثی کے دیگر مر ثیہ گو یوں میں فضلی علی فضلی، ان کے چھوٹے بھائی کرم علی کے علاوہ صوفی اور ہوشدار کا ذکر اسپر نگر نے کیا ہے۔ لیکن اس دور کے سب سے اہم مرثیہ گو میر عبد اللہ مسکین اور ان کے بھائی غمگین اور حزیں ہیں۔ مسکین کا ذکر مرزا سودا نے بھی کیا ہے۔ علاوہ بریں پھلوا ری شریف (بہار) کے صوفیائے کرام کے مراثی تاریخ مر ثیہ کی نئی جہات کی جانب متوجہ کر تے ہیں ، جن کی اہمیت کم نہیں ہے۔ اس دور میں مرثیہ نگاری کو عمومی مقبولیت حاصل تھی، جس کا ثبوت مصطفی خاں یکرنگ ، قیام الدین قائم، محمد تقی، عاصمی اور اشرف الدولہ کے مراثی ہیں۔ ان کے مراثی دور اولین کی بحورمیں ملتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
فضل علی فضلی:
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن :مفاع لن فعلاتن مفاع لن فعلن

فلک جفا سیتی اپنے نہ باز آتا ہے 

رمل مسدس محذوف 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات


کربلا میں کیا پڑا گھمسان ہے 

خفیف مسدس مخبون: فاعلاتن مفاعلن فعلن

شہ کے جب حلق پر چلا خنجر

متقارب مثمن سالم 
فعولن فعولن فعولن فعولن


میں کاٹی تھی تجھ سائے نیچے رنڈاپا 

منسرح مسدس مطوی: 
مفتعلن فاعلات مفتعلن


آنکھوں سے آنسو چلے جاتے تھے زار 

صوفی : 


رمل مثمن مخبوں محذوف : 
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن


یا رسول عربی آج نواسے کا گلا

ہوشدار :


ہزج مثمن مقصور:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن 


بدن پر زخم ستم رن میں جو اْٹھائے حسین 

مسکین :


متقارب مثمن سالم: 
فعولن فعولن فعولن فعول


اجاڑرہے گھر سب نہ خواری و زاری

متدارک مثمن مخبون مسکن:
فعلن فعلن فعلن فعلن


گردن سوں چل دونوں طرف خون کی نالی

خفیف مسدس مخبون مسکن :
فاعلاتن مفاعلن فعلن


تھا مصلیٰ بچھایا جس جا پر 

متدارک مثمن مخبون مسکن :
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن 


جب کہ قاسم نے پہن گلے میں شہانہ باگا

متدارک مثمن شا نزدہ رکنی :
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن


باپ سے اپنے اکبر شہ نے رن کی جو رخصت پائی ہے 

مذکورہ بالاآخری دو مرثیوں کے متعلق مسکین نے ان کی راگنیاں بھی بتائی ہیں۔ دوازدہ رکنی کے لیے ،مقام پوربی ‘اور شانزدہ رکنی کے لیے ’در راگنی پرچ، درج کیاہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسکین فن موسیقی میں درک رکھتے تھے اور اپنے کمالِ فن کا استعمال مر ثیہ گوئی میں بھی کر تے تھے۔ اکثرسوز خواں بھی فن موسیقی کے رموز شناس ہوتے تھے اور سامعین میں ایسے اہل نظر ہوتے تھے، جو اْ ن کے کمالِ فن کو نقد داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ 
شاہ محمدآ یت اللہ مذاقی : 
شاہ مذاقی کے تین مرثیے دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں دو مرثیوں کے متعلق مشہور ہے کہ ہندستانی بحروں میں ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں۔
ان کے علاوہ ان کا ایک مرثیہ مسد س میں ملتا ہے: 
مضارع مثمن اخرب سالم :مفعول فاع لاتن مفعول فاع لاتن
جس کا پدر کٹا ہوا نہ روئے تو کیا کرے۔
اب تک کی تلاش کے اعتبار سے یہ مرثیوں میں قدیم تر ین مسدس ہو سکتی ہے۔
شاہ غلام مخدوم ثروت :
شاہ غلام مخدوم ثرو ت نے بھی اپنے مرشد شاہ مذاقی کی پیروی میں مذکورہ بالا بحر میں ایک مرثیہ لکھا: کوفی کی مکر چالی ہے ہے یہ کیا بلا ہے۔
اردو مراثی کی نشو ونما کے زیر نظردورمیں وہ شعرا بھی شامل ہیں ، جو دہلی سے ترک وطن کر کے پہلے فیض آباد پھر لکھنؤ میں سکونت پذیر ہوئے۔دہلی کی ادبی وتہذیبی زندگی میں ان کے تخلیقی مزاج و کردار کی تشکیل ہی نہیں، تکمیل بھی ہو چکی تھی۔ لیکن اودھ کے مقامی اثرات سے بے نیاز نہیں رہ سکے۔ ان میں سودا، میر،جرأت، مصحفی، ضاحک، میر حسن اور میرا فسوس اہم ہیں۔ ان کے علاوہ سودا کے شاگردوں میں مہربان بھی تھے جو بعد میں ہجرت کر کے لکھنؤ آئے اور سودا کی فنی روایات کے پاسدار تھے۔ انھیں اسی حلقہ میں شامل سمجھنا چاہیے۔ ان مر ثیہ گو یوں کے مراثی میں مروجہ آٹھوں فارسی بحروں ( ہزج، رمل، مضارع، رجز، متقارب، مجتث، خفیف اور منسرح) میں مرثیے ملتے ہیں۔ اختصار کے خیال سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
مرزا محمد رفیع سودا : 
بحرمتقارب مثمن ابتر: فعلن فعلن فعلن فع 
ماں اصغر کی دن اور رین
بحرہزج مثمن اخرب : مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
میں ایک نصاریٰ سے ہوا، زراہ نادانی 
مہربان : 
بحررمل مثمن مخبون مقطوع : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن 
کس سے اے چرخ کہوں جا کے تیری بیدادی
لاش قاسم کی پڑی دیکھ کے پہچان بنی
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع : مفاعلن فعلاتن مفاعلن فع لن
کہا اساڑھ سے یوں جیٹھ کے مہینے نے 
میر تقی میر: 
بحرمتدارک مثمن مخبوں محذوف:فعلن فعلن فعلن فع
قتل سبط پیغمبر ہے کل
بحر متقارب مثمن مقصور : فعولن فعولن فعولن فعول
محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال
بحر ہزج مثمن اخرب : مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن 
خیمے کو جلاتے تھے آشوب اٹھاتے تھے
جرأت :
بحر متدارک مثمن مخبون : فعلن فعلن فعلن فعلن 
کرتی ہے زہر ا شیون و شین 
بحررمل: مثمن مخبون مقطوع 
جا کے دریا پہ جو دی حضرت عباس نے جان
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع : مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن 
حسین وہ کہ جو سبط نبی ہے ابن علی 
مصحفی :
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف : مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن 
بولو تو کوئی روح پیمبر کے واسطے
میر حسن :
بحر رمل مثمن محذوف : فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن 
جب سکینہ نے سنا گھر میں کہ وہ سرور گیا
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف : مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
جب دشت میں شبیر کا لشکر گیا مارا
میر شیر علی افسوس :
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف : مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن فعلان 
آمادہ سفر ہوئے جب حضرت حسین
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف : مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
زینب نے جسد بھائی کا ٹکڑے جوں ہی دیکھا
اردو مراثی کی تاریخ میں سکندر ، حیدری، گدا، احسان، افسردہ، ناظم اور مقبل کا دور (1750-1800) کلیدی اہمیت کا مالک ہے۔ حالاں کہ ان کے مراثی میں بھی مروجہ آٹھوں فارسی بحروں ( ہزج، رمل، مضارع، رجز، متقارب، مجتث، خفیف اور منسرح) اور ہندوستانی بحریں ملتی ہیں۔ لیکن اسی دور سے مر ثیے میں مسدس کی مثالیں ملتی ہیں کہ ان میں کو ن سی بحریں مسدس کے لیے موزوں ہیں یا نہیں۔ ابھی حتمی طور پر کہنا دشوار ہے کہ پہلی بار مسدس میں مر ثیہ کس نے کہا۔ لیکن سکندر اور حیدری دونوں اسی دور کے مرثیہ گو ہیں ، جن کے مسدس دستیاب ہیں۔اس رجحان نے بعد کے ادوار میں حتمی شکل اختیار کر لی۔ 
یہاں مختصراََ بحور کی چند مثالیں پیش کر نے پر اکتفا کی جائے گی۔ 
سکندر : 
بحر رمل مثمن مخبون مقطوع : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن 
ہے روایت شتر اسوار کسی کا تھا رسول
بحرمتدارک مثمن مخبوں شانزدہ رکنی:فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
سر پیٹ کے زینب روت ہے اب ٹوٹ گئی سن کی آسا
بن کر بل ما با نو دکھیا نینن نیر بہاوت ہے 
حیدری : 
حیدری کی پسندیدہ بحر رمل ہے، جس میں انھوں نے زیادہ تر مرثیے لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزج میں بھی مرثیے ملتے ہیں۔ منسرح کی مثالیں شاذ ہیں :
بحررمل مثمن مقصور: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
جب نبوت کے چمن کے کٹ گئے سب نو نہال
بحرہزج مثمن سالم:مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن 
عزیزو آج ناموس نبی پر آفت آئی ہے 
بحر منسرح مثمن مطوی مکشوف: مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن
جب ہوئی گردن قلم سید مظلوم کی 
افسردہ : 
عام طور پر مندرجہ ذیل بحروں میں مرثیے ملتے ہیں: 
بحررجز مثمن سالم : مستعلن مستعلن مستعلن مستعلن 
راضی رضا پر ہوگئے جب ابن امیر المومنیں
بحرہزج مثمن اخرب: مفعول مفاعلین مفعول مفاعلین 
جب رن سے گیا گھر میں مظلوم علی اکبر
بحرمتقارب مثمن مضاعت مقبوض اثلم: فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن
محرم آیا ہلال پر خوں، اشارے کر تا ہے اپنے خم کی 
بحر رمل مثمن محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
مومنو شبیر کی جو تعزیہ داری کرے
گدا : 
عام طور پر مندرجہ ذیل بحروں میں مرثیے ملتے ہیں : 
رمل مثمن محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
جس نے کانوں سے سکینہ کی تھی چھینی بالیاں 
ہزج مثمن اخرب: مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن 
جب مادر قاسم نے بنا قاسم کو دیکھا
احسان:
احسان کے زیادہ تر مر ثیے چاربحور (رمل، ہزج، مضارع، مجتث) میں ملتے ہیں لیکن ذیل کے بحور کا استعمال بھی ہوا ہے: 
بحرمنسرح مثمن مطوی مکشوف : مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن
جس گھڑی عباس نے شہ کا اٹھایا علم 
بحر متدارک مخبون ( شانزدہ رکنی) : فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلان
بانو کہتی ہیں اصغر جانی کب تم گھر میں آؤ گے
اردو مر ثیے کا دورِ عروج (1800-1900 )
اردو مر ثیے کا دورِ عروج میر ضمیر اور ان کے نامور معاصرین سے شروع ہوتا ہے جس میں ان کے علاوہ میر خلیق، میاں دلگیر اور مرزا فصیح شامل ہیں۔ اس دور میں ہیئتی تخصیص کا رجحان فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہو جا تا ہے۔ قبل میں کسی نہ کسی صورت میں مروجہ آٹھوں فارسی بحروں ( ہزج، رمل، مضارع، رجز متقارب، مجتث، خفیف اور منسرح) کی مثالیں ملتی تھیں لیکن اس دور کے مراثی مذکورہ بالاچاربحور (رمل، ہزج، مضارع، مجتث) میں ہی ملتے ہیں ، البتہ مرزا فصیح کے مراثی میں ان کے علاوہ یہ بحریں بھی ملتی ہیں:
بحررجز مثمن سالم : مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
جب مشک بھر کرنہرسے عباس غازی گھر چلے 
بحرکامل مثمن سالم: متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن 
کہا رو کے باپ نے اے پسرتو امام زادہ ہے صبر کر
اس کے بعد اردو مرثیہ کے معراج فن کا دور آتا ہے، دبستانِ لکھنؤ کے مرزا دبیر،میر انیس، میرعشق اور ان کے دبستانوں کے با کمالوں سے عبارت ہے۔ ذیل میں بحروں کے متعلق ان کے رویوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ 
مرزا دبیر : ماہر دبیر یات سید افضل حسین ثابت لکھنوی (م 1941)نے لکھا ہے :
"جناب مرزا صاحب کی طبع نے اکثر حسب ذیل بحروں میں غواصی کی ہے ۔۔۔
1۔ بحر ہزج :مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن :اے دبدبۂ نظم دوعالم کو ہلا دے
2۔ بحر مضارع :مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن :کس کا علم حسین کے منبر کی زیب ہے
3۔ بحر رمل: فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن :جب ہوئی ظہر تلک قتل سپاہ شبیر
4۔ بحر مجتث:مفاعلن فعلاتن مفا علن فعلن :روانہ نہرِ لبن کو جو شیر خوار ہوا " 12
ثابت نے ان بحور کے نام اور اوزان کی تخصیص نہیں کی ہے۔ یہ اس طرح ہے :
1۔بحر ہزج مثمن اخرب محذوف / مقصور
2۔بحر مضارع مثمن اخرب محذوف / مقصور
3۔بحر رمل مثمن مخبون محذوف / مقصور
4۔بحر مجتث مثمن محذو ف / مقصور
سید افضل حسین ثابت لکھنوی مزید تحریر فرماتے ہیں :
’’ان بحروں (مذکورہ بالا چاروں بحروں) میں وہ شخص جو بالطبع موزوں ہو، بغیر علم عروض پڑھے ہوئے بھی مرثیہ کہہ سکتا ہے۔ دوسری بحروں میں یہ بات مشکل ہے۔ اب جبکہ مرزا صاحب کی شہرتِ کمال ہوئی اور سوزخواں پرانے مر ثیہ پڑھتے پڑھتے اْکتاگئے تو انھوں نے مر زا صاحب کوآگھیرا اور مختلف راگ راگنیوں کے اتار چڑھاؤ کے لحاظ سے مختلف بحروں میں مرثیے چاہے۔مرزا صاحب ایک توقدرتی شاعر، دوسرے علم عروض کے بخوبی ماہر تھے۔ (چنانچہ وہ خوداس کا فخریہ اشارہ ایک مرثیہ میں کرتے ہیں : 
’ہر بحر میں ہے بحرِ طبیعت کی روانی،) اس لیے مختلف بحروں میں بھی سوز خوانوں کو مرثیے کہہ دیے۔ چنانچہ چار معروف بحروں کے علاوہ حسب ذیل مرثیے مختلف بحروں میں(مرزاصاحب) کے ہیں :
1۔روز دہم کا یہ ماجرا ہے (دفتر ماتم ج 3)
2۔عزیزو آج پہلی رات ہے ماہِ محرم کی ( دفتر ماتم ج3)
3۔جب رہے میدان میں تنہا حسین (دفتر ماتم ج 4)
4۔جعفر صادق کا رتبہ خلق میں مشہور ہے (دفتر ماتم ج8)
5۔جب شب عاشورہ سے نور سحر پیدا ہوا (ایضاً)
6۔جب اہل بیت آئے لاشوں پہ اقربا کے (ایضاً)
7۔جب صف آرائی کی میداں میں سپاہ شام نے ( دفتر ماتم، ج21)‘‘13
موصوف نے مرزا دبیرکے مرثیوں کے سات مصر عے درج کیے ہیں لیکن ان کے بحور اور اوزان درج نہیں کیے۔ذیل میں ہم ان مصرعوں کے بحور اور اوزان بھی درج کرتے ہیں: 
بحر ہزج مثمن سالم: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن :
عزیزو آج پہلی رات ہے ماہِ محرم کی
بحرمتقارب مثمن اثلم: فعلن فعولن فعلن فعولن :
روز دہم کا یہ ماجرا ہے
بحر رمل مثمن محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن 
جعفر صادق کا رتبہ خلق میں مشہور ہے :
جب شب عاشورہ سے نور سحر پیدا ہوا
جب صف آرائی کی میداں میں سپاہ شام نے
بحر مضارع مثمن اخرب سالم: مفعول فاع لاتن مفعول فاع لاتن
جب اہل بیت آئے لاشوں پہ اقربا کے۔
مذکورہ بالا مصرعوں کے متعلق ذاکر حسین فاروقی نے بغیر زحمت تحقیق کے فیصلہ صادرکیا ہے، جو حقیقت سے دورہے :
’’ ( مرزا دبیر) اپنے اجتہاد سے کام لیتے ایجاد و ختراع کے پھول کھلاتے رہے ۔۔۔ مقررہ اوزان و بحور کے علاوہ دوسرے اوزان و بحور میں بھی مرثیے اور اپنی قادرالکلامی کی بدولت کامیاب رہے۔ 14
ان کی تائید میں کاظم علی خا160ں سے بھی تسا مح ہوا۔15حالاں کہ صحیح صورت حال یہ ہے کہ ان ساتوں مصرعوں میں کسی نئی بحرکا استعمال نہیں ہے۔ بلکہ قدیم سے مر ثیہ نگار مذکورہ بحور اور متعدد دیگر بحور برتتے رہے ہیں۔ ذیل میں ا ن مصرعوں کے بحور اور اوزان کی قدما سے مثالیں درج کی جاتی ہیں: 
بحر ہزج مثمن سالم: مفاعلین مفاعلین مفاعلین مفاعلین
محرم کا چندر پھر کھن پولے ماتم ہوا پیدا جانم
بحر رمل مثمن محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
آج محرم کا چندا سب لہو منے نہائیا مر تضیٰ
بحر رمل مسدس مقصور: فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
نیں رہیا طاقت ہمن میں یا حسین احمد
بحر مضارع مثمن اخرب سالم: مفعول فاع لاتن مفعول فاع لاتن 
دلبند مصطفیٰ کا تا بوت لے چلے ہیں غواصی
دیگربحور کی مثالیں سرِ دست ہمیں قدیم مراثی میں دستیاب نہیں ہو سکیں لیکن قیاسِ غالب ہے کہ مزید تلاش و جستجو سے متعدد مراثی مل سکتے ہیں۔
میر انیس :
مراثی انیس میں مذکورہ بالا چاروں مروجہ بحورکے علاوہ ’ رمل مثمن مقصور الآخر : فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ‘ کے استعمال کی بھی مثال ملتی ہے۔
ذیل میں تفصیل درج کی جا تی ہے: 
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن فاع لات:
جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے 
بحر ہزج مثمن اخرب محذوف/مقصور: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن مفاعیل : 
جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
بحر مجتث مثمن مخبون مخذوف/مقصور: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فع لن/فع لات :
بشر کے جسم سے رنج فراق جاں پوچھو
بحر رمل مثمن محذوف/مقصور: فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن/فعلات:
نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری
رمل مثمن مقصور : فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان:
کربلا میں جب زوال خسرو خاور ہوا

میر عشق :
میر عشق اور ان کے دبستان کے مرثیہ گویوں نے عموماً مذکورہ بالاچاروں معروف بحور کی پابندی کی ہے لیکن میر عشق کے مراثی میں مزید دو بحروں کا استعمال ملتا ہے، لیکن ان کی جدت نہیں ہے بلکہ قدما میں مروج تھا : 
بحرمتقارب مثمن سالم : فعولن فعولن فعولن فعول
ترے حکم پر سر دیا ہے خدایا شاہی 
ستاروں کی آمد ہے کالی گھٹا میں میر عشق
بحرخفیف مسدس مخبون مقصور: فاعلاتن مفاع لن فَعَلان :
مکھ دکھایا چندر گگن سوں نکل مقیمی
عشق تاجِ سرِ فصاحت ہے میر عشق 
میر تعشق :
اسی طرح تعشق کا ایک مرثیہ بھی ’ بحر خفیف مسدس مخبون مقصور(فاعلاتن مفاع لن فَعَلان) میں نظر آتا ہے ، جس کا مطلع درج ذیل ہے: 
ماں سے اصغر وداع ہوتے ہیں
جیسا کہ ہم دیکھ چکے،یہ بحر بھی قدما میں ملتی ہے: 
یو عزیزاں دسیا محرم چاند مومن ( دکنی)
مرزا اوج : بحر ہزج مثمن اخرب محذوف/مقصور: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن /مفاعیل : 
خوں بار سرِ لوح وقلم کس کے لیے ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف : مفاعلن فعلاتن مفاع لن فعلن
سروشِ غیب ہے گویا زبانِ160حمد خدا
صفیر بلگرامی : بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/ فاع لات :
اے بحرِ طبع جوش میں آنے کا وقت ہے۔
شاد عظیم آبادی : بحر مضارع مثمن اخرب محذوف / مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن / فاع لات : 
اے دست فکر کھول مرقع خیال کا
اے طبع خسروانِ سخن سے خراج لے
بحر رمل مثمن مخبون مقطوع : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن : 
دوستی بھی عجب اک رحمتِ ربّانی ہے
معاصر مر ثیہ نگاری 1900 تا حال :
تحریکِ جدید مر ثیہ نگاری کے خدو خال جوش ملیح آبادی کے مر ثیوں سے مرتب ہوتے ہیں۔دیگر اہم نام ہیں؛ جمیل مظہری، نجم آفندی،آل رضااور نسیم امروہوی۔تقسیم ملک کے نتیجے میں اردو مر ثیہ جن دو ممالک کی ثقافتی زندگی کے اعتبار سے تقسیم ہوگیا، ہندوستانی اور پاکستانی مر ثیے۔ ان سے متعلق تفصیلی گفتگوکی گنجائش نہیں ہو سکتی یہاں مذکورہ بالا تینوں مابعد ادوار کے مراحل پر بحور واوزان کے تناظر میں اجمالی تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا ادواراپنے تخلیقی و نامیاتی تجر بات سے پہچانے جاتے ہیں،جن میں تشکیلِ فن کی روایت کو نئے ابعاد حاصل ہوئے ہیں لیکن اس کو بحور واوزان کے تناظر میں دیکھیں تو شدید ناآسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ قبل کے مرثیہ نگاروں کے وسیع و متنوع بحور واوزان میں ترقی کی نئی راہیں کشادہ کر نے کی بات کہاں، مرثیہ نگاری کو سمیٹ کر زیادہ تر بحر رمل اور بحر مضارع تک محدودکر دیا۔ زیادہ تر انھیں دو بحروں میں مر ثیے کہے گئے۔ بتدریج کم مرثیے بحر ہزج، بحر مجتث اور بحر رجز میں کہے گئے۔ 
ہمیں تلاشِ بسیار کے باوجود عصر حاضر کے مراثی میں جدت طرازی کی تنہامثال کے طور پر صادقین امروہوی کا مر ثیہ ’لاریب کہ اللہ تعا لیٰ تو نے‘ ہی دستیاب ہو سکا۔جو رباعی کی بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف مجبوب(مفعول فاعلن مفاعیل مفاعیل فعل ) میں ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں کسی اور محقق کی تلاش زیادہ بار آور ہو سکے۔ سرِ دست اس تنہا مثال کے علاوہ شاذ ہی کسی نے انحراف کیا ہو گا۔ 
عصر حاضر کے مراثی کی بحور و اوزان کے اجمالی جائزہ کے لیے چند مثالیں دیکھیے: 
جوش ملیح آبادی :
جوش ملیح آبادی کے 9 مرثیے دستیا ب ہیں۔ ان میں بحر رمل اور بحر مضارع میں چار چار اور بحررجز میں ایک مرثیہ ہے۔ بحروں کے انتخاب میں کسی طرح کی جدت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ تفصیلات درج ذیل ہیں :
بحر رمل مثمن محذوف : فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ہاں انا ہے وہ دبیرِ نفس و دانائے حیات
مسکرا کر جب ہوئی طالع تمدّن کی سحر
آگ یعنی سوزِ خلوت پرور و جلوت نواز
بحر رمل مثمن محذوف / مقصور: فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن / فعلات :
اے قلم چوبِ خضر، حبلِ متینِ ارشاد 
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/فاع لات:
ہمراز یہ فسانۂ آہ و فغاں نہ پوچھ
اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
جب چہرۂ افق سے اْٹھا سرمئی نقاب
ہاں اے صبا ح تارِ شبِ تار سے نکل
بحررجز مسدس مطوی مکفوف: مفتعلن مفتعلن مفتعلن 
کیوں نہ کروں شکرِ خدائے دو جہاں
فیض احمد فیض :
فیض سے کسی انقلابی اقدام کی توقع کی جا سکتی تھی لیکن انھوں نے میر انیس کے مشہور مرثیہ ’ آج شبیر پر کیا عالم تنہائی ہے ‘ (بحر رمل مثمن مخبون مقطوع : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن) کو سامنے رکھ کر ایک مرثیہ،رات آئی ہے، شبیر پہ یلغارِ بلا ہے ‘ ( بحر ہزج مثمن اخرب مکفو ف محذوف : مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ) لکھا اور اپنے جوہر دکھانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ہاتھی کے منھ سے گنّا چھیننا بڑا جوکھم بھراکا م ہوتا ہے۔ غالب نے ا عترافِ عجز کرکے اپنی عظمت قائم رکھی تھی لیکن فیض کا عجز بزبانِ حال عیاں ہے۔
جمیل مظہری : 
جمیل مظہر ی نے جوش کے حریف کی طرح جدید مرثیہ نگاری میں قدم رکھا تھا۔ لیکن جوش کے حلیف کی حیثیت سے شہرت ملی۔ جوش نے پسندیدہ بحور رمل اور مضارع میں مرثیے لکھے :
بحر رمل مثمن مخبون محذوف : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
آدمی غم سے نہ گھبرائے شجاعت ہے یہی 
صبر احساس کو کس طرح جگا جا تاہے
جن کے سینے سے چھلکتا رہا حکمت کا ایاغ
شاعری اس پہ حقیقت کا تبسم ہے جمیل
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/فاع لات:
منزل ادھر سکوں کی ، ادھر راہِ ابتلا
مضرابِ آخری کا بھی اب سن لو ماجرا، (آل رضا)
بحر رمل مثمن مخبون محذوف : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
کلمہ حق کی ہے تحریر دلِ فطرت میں
قافلہ آلِ محمد کا سوئے شام چلا
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/فاع لات :
اسلام دینِ عظمتِ انساں ہے دوستو 
نسیم امروہوی : 
بحر رمل مثمن مخبون محذوف : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
شمع افروز حیاتِ ابدی ہے شاعر
قید میں یوسفِ زہرا کا ثنا خواں ہوں میں
بادۂ شوق سے لبریز ہے پیمانۂ دل
غم ہے تحریکِ عمل، غم ہے سرانجامِ عمل
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/فاع لات :
جنت کی آرزو ہے، نہ خوفِ سقر مجھے
دل میں ہے عزمِ منقبتِ مر تضیٰ علی
کیا باوفا رفیقِ شہ ذوالفقار تھے
اے انقلاب مژدہ عزم و عمل ہے تو
مسند نشینِ بزمِ طہارت ہے فاطمہ
اے کلک تو مصّورِ معجز نگار ہے 
شمعِ حریمِ معرفتِ کبریا ہے علم
بحرکامل مثمن سالم: متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن 
شہِ دیں کے مونس و اقرباہوئے جب شہیدِ رہ وفا
بحر ہزج مثمن اخرب محذوف/مقصور: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن/مفاعیل 
کیا حمد ہو اس کی، جو نہاں ہے ، نہ عیاں ہے
آئینۂ حق، جوہرِ اوّ ل ہے محمد
بحر مجتث مثمن مخبون مخذوف/مقصور: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فع لن/فع لات:
سیاستِ علوی،حکمتِ الٰہی تھی
شہیدِ معرکۂ جہد وارتقا ہے حسین نسیمِ رحمتِ ربِّ قدیر آتی ہے

نجم آفندی :
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/فاع لات:
جب لے لیا حسین نے میدانِ کر بلا 
صورت گرِ جلالتِ اسلام ہے حسین دنیا کی ہر روش کا ہے انجام انقلاب
وحید اختر :
بحر رمل مثمن مخبون محذوف : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
قلعے تعمیر کیے دستِ ہوس کاری نے
رات یہ حق کے چراغوں پہ بہت بھاری ہے 
بحر رمل مثمن محذوف : فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
کربلا اے کر بلا اے کر بلا اے کر بلا
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف/مقصور : مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن/فاع لات:
اے ساقیِ حیات و مسیحائے کائنات
مریم سے بھی سوا ہے فضیلت بتول کی
یا رب مری زباں کو جرأت بیاں کی دے
بحر ہزج مثمن اخرب محذوف/مقصور: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن /مفاعیل
بر سیں ہیں نغموں کی گھٹائیں کئی دن سے 
ہے قافلہ جرأتِ رفتار سفر میں
خامہ مرا حکمِ قلمِ حق سے رواں ہے
باقر اما نت خوانی :
بحر رمل مثمن مخبون مقطوع : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
کھینچا نقاش نے جس وقت نَفس کا خاکہ
پیام اعظمی :
بحر رمل مثمن مخبون محذوف: فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
یہ نہ ہوتی تو بشر ظلم کا پیکر ہو تا
عظیم امروہوی : 
بحر مضارع مثمن اخرب محذوف مقصور : مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن فاعلات:
واجب ہو ا کہ اب کوئی ایسی کتاب آئے
تمکین امروہوی :
بحرکامل مثمن سالم: متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن : 
جو امام ابن امام ہے وہ اسیر فوج یزید ہے
اردو مراثی میں اختصاص :
اردومراثی کی تاریخ میں ہیئتی اختصاص (Specialization) کارجحان پہلی بار سکندر اور حیدری کے دور (1700-50 ) میں کلیدی اہمیت حاصل کر تا ہے۔ پھر اس کو حتمی شکل میرضمیر اور میر خلیق کے دور (1800-50 ) میں ملتی ہے ،اس ہیئتی اختصاص کے دو پہلو ہیں۔ بحور کے انتخاب میں تر جیحات کا میلان یعنی مروجہ آٹھوں فارسی بحروں ( ہزج، رمل، مضارع، رجز، متقارب، مجتث، خفیف اور منسرح) کی بجائے فقط چاربحور (رمل، ہزج، مضارع، مجتث) کا استعمال اوراقسام شعر میں قدیم سے اردو مراثی منفردہ، مستزاد، مثلث، مربع، مخمس ،مسدس، مسبع، مثمن، منسبع، معشر وغیرہ میں لکھے جا تے تھے لیکن ہیئتی اختصاص میں مسدس کو مرثیہ کے لیے لازمی مان لیاگیا۔ اس مسئلہ پر غورکر نے کی ضرورت ہے۔ 
بادی النظر میں یہ بات عجیب لگتی ہے کہ اردو مرثیہ اپنے دورِ عروج (18-19 ویں صدی)میں فنی و تکنیکی معیاروں پر بلند سے بلند تر ہوگیا لیکن مروجہ بحور استعمال میں تعداد کے اعتبار سے محدود سے محدود ترہوتی گئیں۔ بقول مہذب لکھنوی مراثی عموماً چار بحروں ،رمل، ہزج، مضارع، اورمجتث تک محدود ہوگئے۔16گیان چند جین کا خیال ہے کہ اصلاََ یہ بحور چار نہیں تین ہی ہیں : 
’’انیس و دبیر کے مرثیے ذیل کے بحروں کے ذیل کے اوزان میں ہی ملتے ہیں: 
(1) مضارع اخرب مکفوف محذوف یامقصور :
مفعو ل فاع لات، مفاعیل فاع لات یا فاع لن
(2) ہزج اخرب مکفوف یا مقصور:
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل یافعولن
(3) (بہت شاذ) رمل مثمن مخبون مقصور یا محذوف وغیرہ :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلان یا فعلن۔
90 فی صد یا95فی صدمندرجہ بالا اوزان میں اور چند تیسرے وزن میں ہوتے ہیں۔ خلیق وضمیر سے پہلے کے دور میں مرثیے کے لیے کوئی بحر یا وزن مخصوص نہیں تھا۔ جن اوزان میں دوسری نظمیں لکھی جاتی تھیں، ان سب میں مرثیے بھی لکھے جاتے تھے۔‘‘ 17
اردو مراثی کے بحور میں کمی کے علل واسباب پر غور کیا جائے تو کئی سوالات پیدا ہو تے ہیں۔اس کو ترک کرنے کے کیا وجوہ تھے۔ کسی واحدمر ثیہ گو کی پسند یا ناپسند کا سوال نہیں، بلکہ سب کا رویہ یکساں رہا۔ کیا اس کوعروضی تقاضوں سے ان کی بے پروائی کہی جا سکتی ہے یااس کے زیادہ عمیق و نا گزیر اسباب تھے، جس کا وقوع پذیر ہونا فطرت کے تقاضوں کے اعتبار سے تھا۔ اس کے عواقب و اثرات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ 
پہلی اہم بات جس پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ چندبحور کی تخصیص اور اقسام شعر میں مسدس کے انتخاب کا مسئلہ براہ راست مر ثیہ کی خوانند گی سے وابستہ ہے۔ بعضوں کا خیال ہے کہ نسبتاً طویل بحروں کا انتخاب اس لیے کیا گیا، کیوں کہ چھوٹی بحروں میں اعلیٰ مضامین پیش کر نا دشوار تھا۔ مثنویوں کی چھوٹی بحروں میں کیا کیا اعلیٰ حکیمانہ مباحث بیان کیے کہ،ہست قرآن، کا لقب حاصل کر لیا۔اسی طرح قصائد میں شوکت زبان و بیان کے دریا رواں ہیں۔ بعض چھوٹی بحور کے مر اثی بھی کسی طرح کم تر نہیں ہیں بلکہ بہتر ہیں۔
اگر اس نکتے پر نظر رکھی جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مر ثیے کی تخلیق مر ثیہ گو کی اپنی ذات تک محدود رکھنے کے لیے نہیں کی جا تی ہے۔ اس کو کسی مجلس میں سامعین کے درمیان پیش کر نا ہوتا ہے۔اسی سے وابستہ دوسری اہم بات خوانندگی کی ہوتی ہے۔ خوانندگی کے کئی مر حلے ہیں۔ تحت اللفظ یا سوز خوانی۔تحت کی خوانندگی او ر فوق کی خوانندگی میں زمین آسمان کا فرق ہو تا ہے۔ منبر سے مر ثیہ پڑھنے کے تقاضے اور ہیں۔ زیر منبرسے ہم نواؤں کے ساتھ مر ثیہ پڑھا جا تا ہے۔ بالائے مر ثیہ خواں اپنے کمالِ فن سے شرکائے مجلس کو مبہوت کر دیتا ہے۔ یہ بحور محدود کیوں کر دی گئیں، اس کا بنیادی نکتہ خوانندگی سے وابستہ ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ 
18 ویں صدی میں دہلی سے مرثیہ پڑھنے کا طریقہ روضہ خوانی کی شکل میں رائج ہوا۔ ایک شخص بلند آواز میں پڑھتا، درمیان میں اشعار لحن میں پڑھتا،قریب میں بیٹھے ہوئے لوگ اشعار کو لحن میں دہراتے۔ یہ اشعارنظموں، غزلوںیا مستزاد میں ہو تے۔ منبر پر بیٹھ کر تحت اللفظ پڑھنے کا رواج ہوا تو مر ثیہ پڑھنے میں آواز کے اتار چڑھاؤ اور چشم و ابرو سے بیانات کی تصویر پیش کی جا نے لگی۔ اس لیے مراثی میں چند زیادہ کار آمد بحور کا انتخاب نا گزیر ہو گیا۔ 
مسدس کی بنیادی خصوصیت ہے کہ اس کا ہر بند ایک مکمل اکائی ہو تاہے اوریہی اس کا حسن ہے۔ہر بند میں کوئی ایک بات یا اس کا کوئی پہلو ہو تا ہے۔ اگلے بند میں کوئی دوسری بات یا اس کا کوئی دوسرا پہلو ہو تا ہے۔ اس طرح بات سے بات آگے بڑھتی ہے۔ یوں کہیے، مسدس کا ہر بند تسبیح کے دانے کی طرح ہو تا ہے، ایک دوسرے سے مر بوط اورمکمل اکائی! 
مر ثیہ میں مسدس کے ہر بند کا ایک مکمل اکائی ہو نا،ہر بند کی بیت میں بات کو قطعیت سے مکمل کر دینا، پھر بات کو آگے بڑھاتے رہنا،مر ثیہ گویوں کامعجزہ نہ کہیے تو سحرِ حلال ہے۔ بیانیہ شاعری میں پہلے مثنوی بہتر مانی گئی تھی، اس میں بات کوقطعیت سے مکمل کر دینا ، پھر آگے بڑھاتے رہنے کی خوبی کہاں تھی۔مر ثیہ میں مسدس کی مذکورہ بالاخصوصیات پسندید گیِ عام کا سبب بنیں۔ اسی شکل میں مر ثیہ اپنے معراجِ کمال تک پہنچا اور اب مر ثیہ کے لیے مسدس لازمی شرط ہو گئی ہے۔ مسدس ہی مرثیہ کی پہچان ہے۔ مسد س میں مر ثیہ کی فنی ہیئت اور موضوع بیان کا حسین امتزاج ہو گیا ہے ،جس میں اس کے ادبی و تخلیقی اسلوب اور مواد کا بہترین توازن ہے۔
ہندی بحور کا مسئلہ :
اردو شعریا ت کے تعلق سے شکایت کی جاتی رہی ہے کہ اہل اردو ہندستانی علم عروض سے بے تعلق رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردوشعریات کی ساخت و ہیئت پر ہندستانی زبانوں کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اردو مرثیہ کو استثنا حاصل نہیں ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اردو مراثی میں،ہندی چھند ، کے تجربات سے عروضی نظام کو نئی جہتیں حاصل ہوسکتی تھیں۔لیکن مجموعی طور پر اور مرثیہ گویوں نے ان سے کم ہی فیض حاصل کیا۔حالاں کہ مرثیہ گو یوں نے ہیئت اور مواد دونوں کی تشکیل میں عربی و فارسی مرثیہ کی تاسی کی بجائے اپنی راہیں الگ سے استوار کی تھیں اور متقدمین مرثیہ گویوں نے بعض مقامی گیتوں کے وزن و آہنگ میں مرثیے لکھے تھے لیکن عروضی میدان عمل میں جہاں اجتہاد کی ضرورت تھی، وہاں ان کے پاؤں ٹھٹک گئے۔مراثی کی ہیئت و ساخت جن مختلف و متنوع تجربات کی متقاضی تھی، مرثیہ گو پورا کرنے سے رہ گئے۔ بحروں اور چھندوں کے مماثل اوزان کی ایک جدول سمیع اللہ اشرفی نے دی ہے، جس میں مروجہ بحور میں سے متقارب کی22، متدارکی کی 13،ہزج کی12،رجز کی 6، رمل کی 13،کامل کی 4 ، مضارع کی22 یعنی مجموعی طور پر72 بحورکے اوزان ہندی چھندوں کے مماثل ہیں۔18 کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر مر ثیہ گو یوں نے ان سے استفادہ کیا ہوتا تو مرثیے میں بحور کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔
استثنائی طور پر جن بحور کا استعمال کیا، انھیں، ہندستانی بحر، کہا گیا19۔مرثیے میں قدیم ترین مثال ہے : 
آیا جگ ہوں باز محرم ہائے حسینیا وائے حسین صلاح
اصلاً یہ بحر متقارب کی ایک غیر معروف شکل ہے جو معاصرتحقیق کے مطابق پہلی بار صلاح کے مرثیہ میں نظرآتی ہے۔ صلاح کے متعلق زیادہ معلو م نہیں لیکن ذخیرہ ادیب ( مولانا آزاد لائبریری، علی گڑھ) میں اس کے68 مراثی ہیں ، جومراثیِ ریختہ ،کہے جا تے ہیں۔ ادیب نے ان کی قدامت17 ’ویں صدی کے نصفِ آخر‘ سے قائم کی ہے اور یہ’ مر ثیے شمالی ہند کی قدیم ترین اردو نظمیں ہیں۔20
مذکورہ بالا بحر کے مماثل بحور میں دیگر مراثی بھی ملتے ہیں ، جن کودور از کار ہونے کی بنا پر
سہل انگاری میں ہندستانی بحر کہہ دیا جا تا ہے۔ ذیل میں ان کی نشان دہی کی جا تی ہے : 
شاہ محمدآ یت اللہ مذاقی کے درج ذیل دو مرثیوں کے متعلق مشہور ہے کہ ہندستانی بحروں میں ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں۔ صحیح صورتِ 160حال درج کی جا تی ہے : 
(1) آل نبی نہیں جینے پایا اے حسین بدیسی پنتھی
بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض اثلم مضاعف : فعل فعول فعولن فعلن فعل فعول فعولن فعلن
(2) لوٹ لیو بنجارہ بن میں
بحر متقارب مثمن اثرم اثلم :160فعل فعولن فعلن فعلن
مہر بان کا درج ذیل مر ثیہ مسدس میں ہونے کی بنا پر اہم ہے۔ اس کو بھی ہندستانی بحر میں بتاتے ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں :
جاؤ گھرکو بنڑے قاسم تیری بنڑی گھر میں روئے
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن 
بحر متقارب مثمن اثلم مضاعف بحرمتدارک مثمن مقطوع مضاعف
مرزاسودا کے درج ذیل مر ثیہ بھی ہندستانی بحر میں بتایا جاتاہے،جو درست نہیں : 
نئی یہ شادی بیاہ کے کس کی تونے فلک اٹھائی ہے
فعول فعلن فعول فعلن فعل فعل فعل فعولن فع
بحر متقارب مثمن مقبوض اثلم محذوف اثرم ابتر مضاعف
اردو مر ثیے کی تاریخ میں مرزا محمد رفیع سودا کو امتیاز حاصل ہے کہ انھوں کو مر ثیے کو ادبی صنف کی حیثیت سے استحکام دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔’لازم ہے کہ مر تبہ در نظر رکھ کر مر ثیہ کہے‘۔21سود اکی ہمہ گیر طبیعت نے صنف مر ثیہ کو ادبی حیثیت دلانے کے ساتھ ہی اس کومختلف راستوں سے آگے بڑھانے کے امکانات پر غور کیا۔ انھوں نے مر ثیہ دوازدہ مصرع دوہرہ کہا :
عابد کہتے ہیں یہ سب سے روتاہوں میں جگ میں تب سے
سودا کے مراثی میں دوہوں ( دوہروں) کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً مر ثیہ مسدس د وہرہ بند،مرثیۂ مفردہ دوہرہ بند، مر ثیۂ مسدس زبان پوربی آمیز دوہرا بند وغیرہ۔22 اختصار کے خیال سے مثالیں درج نہیں کی جا رہی ہیں۔
شعری ہیئت : 
اردو مراثی کی ابتدا دکنی مراثی سے ہوئی، لہٰذامر ثیے کی شعری ہیئت کے مطالعے کی شروعات بھی وہیں سے کر نا ہوگی۔ ان کی انفرادی خصوصیات اردو مراثی میں اقسام شعر کے تعین میں صحیح نتائج تک رسائی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں، جن کا شمالی ہند کے ابتدائی مراثی سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ دکنی مراثی کے ابتدائی مراثی میں ہیئتی اعتبار سے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں تھی۔ اردو مراثی منفردہ،مستزاد، مثلث، مربع، مخمس ،مسدس، مسبع، مثمن، منسبع، معشر،ترکیب بند، ترجیع بند وغیرہ میں لکھے جا تے تھے۔ شمالی ہند کے ابتدائی مراثی کی نو عیت دکنی مراثی سے مختلف نہیں تھی۔ وہاں بھی مختلف النوع ہیئت میں مر ثیے کہے گئے۔مسدس کی ہیئت کا تعین بعد کے ادوار میں ہوا۔
شعری ہیئت کے قاعدوں کا تعین کر نے میں اردو مر ثیہ نگارعربی و فارسی کے علم بدیع کے پوری طرح پابند نہیں تھے بلکہ حسب منشا ترمیم و تنسیخ روا رکھتے تھے۔اس کا اطلاق اردو مر ثیے میں مثلث، مربع اور مخمس میں ہوا، جس سے اردو مراثی میں نئے سرے سے فنی تشکیل ہوئی ، جس کے لیے چند اساسی باتوں کو ذہن نشین رکھنا مناسب ہوگا۔
اردو شاعری میں مسدس بھی منفردہ،مستزاد، مثلث، مربع، مخمس، مسبع، مثمن، منسبع اورمعشرکی طرح اقسام شعر میں سے ہے۔بقول سید احمد دہلوی مسدس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے : 
’’ایک قسم کی نظم جس میں اصل بیت پر چار مصرعے اور بڑھا دیے جاتے ہیں یا یوں کہو کہ وہ نظم جس کے چار مصرعے ہم قافیہ اور اخیر کی بیت بطور گرہ نئے قافیہ کے ساتھ ہو۔جیسے مسدس حالی کا بند۔ ‘‘23 
مہذب لکھنوی نے مزید وضاحت کے طور پر میر عشق کی سند پیش کی ہے : 
مخمس کو گویا مسدس کیا تھا سرِ کافرِ ہفتمی بھی جدا تھا24 
اردومر ثیہ کا ہیئتی معراجِ کمال مسدس ہے۔اردو مرثیہ کی ہیئت گزشتہ دو صدیوں سے مسدس قرار پا گئی ہے۔ اب مراثی مسدس میں ہی لکھے جاتے ہیں لیکن اردو مرثیہ میں مسدس کی ہیئت عربی فارسی علم شعر سے مختلف ہے بلکہ اس میں اس حد تک ترمیم و تنسیخ روا رکھی گئی ہے کہ اردو مرثیہ کی انفرادی پہچان ہو گئی ہے۔اس کو ،مسدس ، کی بجائے ، مر ثیہ ،کہا جاسکتا ہے۔ عربی میں مسدس کے پہلے بند کے چھوں (6) مصرعے ہم قافیہ ہو تے ہیں اور باقی بندوں میںآخری مصرعے پہلے بند کے قافیہ کے تابع ہوتے ہیں۔25 
اردو مر ثیہ میں مسدس کے مطلع میں ہر مصرعہ مردّف ہو تا ہے، جس کی پابندی کے طور پرمر ثیہ کی تخلیق مسدس ترکیب بند کے طور پر ہو تی ہے۔اس سے ایک غلط فہمی عام ہو گئی ہے کہ بعضے ہر مسدس ترکیب بند کو بطرز مر ثیہ سمجھنے لگے ہیں ، حالاں کہ مر ثیہ کے لیے مسدس ترکیب بند طرح مطلع کے ہر مصرعہ میں ردیف ہو نا لازمی ہے ، اس طرح کی تخصیص نہیں ہے۔ چوں کہ بیشتر مراثی مسدس تر کیب بند میں لکھے گئے ، لہٰذا مسدس ترکیب بند کی بجائے اس قسم کے شعر کا نام ہی مر ثیہ ہو گیا۔
مرثیہ نگاری کے اپنے ضوابط و آداب ہیں ، جن کی پابندی ہر مر ثیہ گو کے لیے ضروری سمجھی جا تی ہے۔ مر ثیہ میں بندوں کی تعداد معین نہیں ہے لیکن ہر بند کے لیے اصول مقر رہیں ۔
بند کے پہلے چار مصرعوں کے بعد کے دو مصرعوں کو بیت یا ٹیپ کہتے ہیں۔ اس میں ردیف ہو نا لازمی ہے۔بیت اتنی زور دار ہو کہ پہلے چار مصرعوں پر حاوی نظر آئے۔ چناں چہ مراثی میں ہر بند کی بیت یا ٹیپ بھی بغیر ردیف کے نہیں ہو سکتی۔ مر ثیہ میں مطلع کے علاوہ دیگر تمام بندوں کے ابتدائی دو شعروں میں ردیف لانا ضروری نہیں ہے۔
مرثیوں میں ضرورت کے اعتبار سے بندوں کی تعداد مقرر کی جا سکتی ہے۔ عام طور پر خوانندگی کی ضرورت کے اعتبار سے بندوں کی تعداد مقر رہوتی ہے۔ اب تک کے دستیاب مراثی میں سب سے طویل مرثیہ میر عشق کا مرثیہ یک ہزار بند ہے۔ ’ ہے قصد وصف جعفر طیار کیجیے ‘ ۔26 
مرثیوں کی طوالت اور خوانندگی کی ضرورت کے مطابق درمیان میں ایک سے زائدمطلعے رکھے جا سکتے ہیں۔ بعد کے مطلع کا قبل کے مطلع سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
ان کے علاوہ دیگر شرائط بھی بعض مرثیہ گویوں نے عائد کیے، جن کی پیروی وہ خود یا ان کے دبستان کے دیگر مرثیہ گو کم ہی کرتے رہے ہیں۔ چوں کہ انھیں عام قبولیت نہیں حاصل ہوئی۔ اس لیے ان کا ذکر یہاں نہیں کیا جا رہا ہے۔ 
اردو مراثی کے بر عکس عربی و فارسی میں مسدس کو المْسَمَّط کی نوع میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا اساسی قاعدہ ہے کہ پہلے بند کے تمام چھہ مصرعے ہم قافیہ ہوں اور بعد کے بندوں میں بیت کے مصرعے پہلے بند کاپہلے بند کے آخری مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا،اردو میں یہ ایک داستان پا رینہ ہے۔تقابلی مطالعے کے لیے عربی و فارسی میں مسدس کی نوعیت معلوم کر لینا مفید ہوگا۔ 
المْسَمَّطْ مِنَ الشَعرایسا شعرجو عْروضی اجزا پر منقسم ہو اور قافیہ کی روی پر نہ ہو27 ۔ المْسَمَّطْ،وہ بیت ہے جس میں تین یا چار جگہ ایک قسم کا قافیہ ہو۔عربی اصطلاح علم عروض۔28 اصطلاحاً اس نظم کو کہتے ہیں جو اپنی ہیئت کے اعتبار سے مختلف بندوں پر مشتمل ہو۔المْسَمَّط عربی لفظ ہے جس کا مادۂ اشتقاق سَ مَ طَ، جس سے تَسمِیطَ مروج ہو ا۔ اس کے معنی موتیوں کی لڑی کا پرونایا کسی چیز کا فتراک زمین سے باندھناہو تا ہے۔ سَمَّطَ الشَاعرشاعر کامْسَمّط اشعار نظم کر نا۔ سَمَّطَ قَصِیدُ فلان کسی کے اشعار میں ہر شعر کے مصرعوں میں ایک مصرع اپنی جانب سے ختم کر نا۔29 
اس کے تشکیل نظام میں ہر بند کے تمام مصرعے ہم قافیہ ہونا لازمی ہے۔حالاں کہ مختلف بندوں کے قافیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے آخری مصرعے پہلے بند کے آخری مصرعے ہم قافیہ ہونے کی بنا پر تمام بند ایک رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ جس سے پوری نظم ہی ایک رشتے میں پروئی نظر آتی ہے۔ اس سے معنوی ربط و ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔
مْسَمَّط کی مختلف ہیئتوں کا اثر انداز ہو نے کے نتیجے میں بیان احوال کے امکانات میں ربط و تسلسل کی گنجائش پیدا ہو ئی۔مر ثیہ میں کر دار نگاری کی جھلک دکھائی دے۔ اس میں امام حسین، حضرت زینب ، حضرت عباس اور دیگر اہم شخصیات کے بارے میں ذکر کیا گیا۔ نئے فنی تجربے بھی کیے گئے اورجدت طرازی کی کوشش کی گئی۔
بیجا پور کے مرتضیٰ نے مْسَمَّط کا ایک تجربہ پیش کیا کہ مر ثیے کا پہلا مصرع الگ بحر میں ہو لیکن قافیہ و ردیف کی پا بندی ہو۔ مزید یہ کہ ہر شعر میں صنعت ترصیع کا التزام ہو :
یوں عزیزاں دسیا محرم چاند 
سب دلاں کوغم سوں رکھیا ہے چاند
یو فلک پر شفق نہیں جانو
لہو میں کسوت آپس رنگیا ہے چاند
سب جہاں کو رلانے خاطریو 
پھر جگت میانے یو دسیا ہے چاند
ان اشعار میں ’رکھیا‘،’ رنگیا‘، ’دسیا، قافیہ اور, ہے چاند، ردیف ہے۔ اسی جدت کا ایک اور مرثیہ احمد نے بھی لکھا : 
السلام اے شہ سواراں ،السلام اے شہ سواراں
کیتے ملک قطاراں السلام اے شہ سواراں
اردو مر ثیہ گویوں میں مسدس کی ایجاد کا شرف کس کو حاصل ہے، حتمی طور پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اتنی بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ18ویں صدی کے مسکین اورمحب کے مر ثیوں میں مسدس کی ابتدا ہو چکی تھی۔ماہردکنیات محی الدین زور نے برہان پور کے ا حمدکے سات مراثی کا ذکر کیاہے جس میں ایک مر ثیہ مسدس میں بھی ہے۔ 30احمدکے بارے میں زیادہ معلوم نہیں لیکن اگر اس کی تحقیق ہو سکی تو ممکن ہے کہ احمدہی مسدس میں پہلا مر ثیہ گو ہو۔مثال کے طور پر اس کا ایک بند ملاحظہ ہو : 
حیف گھائل حسین تن تیرا جسم پر خوں ہے پیرہن تیرا
تو کہاں ہور کیدھر تن تیرا کیوں بسیرا ہوا ہے رن تیرا
نئیں ملتا بوند کس کتیں پانی سخت طفلاں کے یو حیرانی
اردو مراثی میں مسدس کے لیے مذکورہ بالا قواعد و ضوابط کی پابندی کی گئی ہے۔ مرثیہ گویوں نے کئی کئی سو بند کے مرثیے لکھے، جس میں درمیان میں کئی جگہ نئی شان سے مطلعے نظم کیے کہ اگر اس مطلع سے کوئی الگ سے مرثیہ پڑھنا چاہے تو مرثیہ میں نقص نہ پیدا ہو اور ہر مطلع سے دوسرامرثیہ ا پنے آپ میں مکمل نظر آئے۔ لیکن ان درمیانی مطلعوں کی بنا پر بعض اوقات محققین مرثیہ نے زبردست ٹھوکریں کھائی ہیں۔ انھوں نے درمیانی مطلع کو دیکھا اور اس کو زیر مطالعہ و تحقیق مرثیہ نگار کے مراثی سے تقابل کر کے دیکھا تو یکسر نیا مرثیہ نظر آیا اور انھوں نے اپنی تلا ش و دریافت قرار دے کر اسے غیر مطبوعہ مرثیہ کی سند عطا کر دی حالاں کہ وہ درمیانی مطلع کسی مطبوعہ مرثیے میں شامل ہوتا ہے۔ ایک دوسری دلچسپ صورت حال بھی ہے کہ بسا اوقات مرثیہ خواں اپنی پسند کے چند بند ایک مر ثیہ سے اور دیگر مر ثیوں سے لے کر حسب منشا ایک مر ثیہ بنا لیتے تھے اور اپنی خوانندگی کے ہنر سے کامیاب بھی ہو تے تھے۔ اس طرح مراثی کو اصطلاحاً ,پیوندی مرثیہ، کہاجا تا ہے۔ان کوبھی بعض سہل انگارمحققین نے اپنی تلا ش و دریافت قرار دے کر غیر مطبوعہ مرثیے کی سند عطا کر دی ہے ، جس سے مرثیہ کی تحقیق کا مسئلہ پیچیدہ تر ہو گیا ہے۔
حواشی : 
.1 المنجد،ص :369، ( اضافہ شدہ جدید ایڈیشن ، دہلی)
.2 لغات تاج العروس: الزیبہ(مصر 1188ھ)
.3 فرہنگِ آصفیہ: سید احمد دہلوی، ج۔2 ، ص۔1394 ( دہلی1990 )
.4 فرہنگِ آصفیہ ج۔2ص۔1475 
.5 فرہنگِ آصفیہ، ج۔3ص۔2046
.6 مہذب اللغات : مہذب لکھنو ی ،ج۔12 ص75-78( لکھنو1981 )
روح انیس : سید مسعود حسن رضوی ادیب ,ص16-17( لکھنو1981 )
مراثی ریختہ : سید مسعود حسن رضوی ادیب ،ص۔17( لکھنو1984 )
اردو مر ثیے کا ارتقا :مسیح الزماں، ( لکھنو1992 )
اودھ میں اردو مر ثیے کا ارتقا : ا کبر حیدری، ص۔67 ( لکھنو1981 )
مر ثیہ اور مرثیہ نگار : شارب رودلوی ،ص۔24( دہلی2006 ) 
.7 موازنہ انیس و دبیر : شبلی نعمانی، ص۔13 (لکھنو1924 )
.8 روح انیس : سید مسعود حسن رضوی ادیب ،ص۔17 (لکھنو1981 )
.9 اردو مر ثیے کا ارتقا : مسیح الزماں ، ( لکھنو1983 )
.10 اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، ج۔6 ص۔ 515
.11 اردو مرثیے کا ا رتقا: محمد چراغ علی ،ص210-216(حیدرآباد1973)
.12 حیات د بیر :سید افضل حسین ثابت لکھنوی، ( لاہور1913)
.13 حیات دبیر: ثابت لکھنوی، ج۔1 ص 268-69 
.14 دبستان دبیر: ذاکر حسین فاروقی ص162(لکھنؤ،مئی 1966) 
.15 تلاش دبیر :کاظم علی خاں: ص42-43(لکھنؤ،دسمبر1979 ) 
.16 دو رِ تعشق : مہذب لکھنوی، ص۔107 
.17 گیان چند جین کا مکتوب ، راقم کے نام
.18 اردو شاعری میں دوہے کی روایت : سمیع اللہ اشرفی ( علی گڑھ1990 )
.19 یہ بحر کلامِ میر میں بھی نظر آتی ہے۔ اس کو شمس الرحمٰن فاروقی نے درج ذیل مصرعوں کی بنیاد پر، بحرِمیر، کا نام دیاہے: 
پتہ پتہ بو ٹا بوٹا حال ہمارا جا نے ہے 
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
(شعر شور انگیز : شمس الرحمٰن فاروقی، ج۔ 1ص175-87 (نئی دہلی،1990 )
.20 مراثی ریختہ : سید مسعود حسن رضوی، ادیب۔ ص۔ 25
.21 کلیات سودا ، مقدمہ مصنف مرتبہ، محمد حسن، جلد 2، ص۔24 (نئی دہلی 1984)
.22 کلیات سودا،مرتبہ ۔ محمد حسن،جلد 2،ص۔234-36
.23 فر ہنگ آصفیہ ،ج۔3 ص۔2105
.24 مہذب اللغات
.25 بحر الفصاحت : نجم الغنی، ص۔98
.26 دبستانِ عشق کی مر ثیہ گوئی : جعفر رضا ،ص۔172 (الہ آباد2014)
.27 المنجد،ص 491
.28 نور اللغات :نور الحسن نیر، ج۔4، ص۔571
.29 المنجد،ص۔491 
.30 اردوشہ پارے، محی الدین قادری زور، ص۔142

Mr. Saiyed Jafar Reza
Shabistan, 786
Shahganj, Allahabad
Distt. Allahabad-Pin-211003,(UP





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں