25/3/19

اخبارالاصلاح: حریت پسندی کا جلی عنوان مضمون نگار:۔ خان محمد رضوان



اخبارالاصلاح: حریت پسندی کا جلی عنوان
خان محمد رضوان


اخبار الاصلاح انیسویں صدی میں حریت پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یہ اپنے عہد کاواحد ایسا اخبارتھا ، جس نے غریبوں ، مزدوروں اور انسانوں پر ہور ہے معاشی وسیاسی ظلم و استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ مولوی برکت اللہ کا اس اخبار کے پیچھے اصل محرک یہ تھا کہ انگریز ہندوستان کا خون چوس رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بھک مری چھا گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ہماری قدیم ہندوستانی تہذیب کو بھی انھوں نے بری طرح متأثر کیا ہے۔ لہٰذ ا وہ چاہتے تھے کہ عوام ان مسائل کے حل کے لیے آ گے آئیں اور ملک کو معاشی تنگی اور سیاسی بحران سے آزاد کرانے کے لیے پر امن طریقے سے دھرنا دیں۔ وہ یہ بھی پیغام دینا چاہتے تھے کہ تمام غریب اور مزدورمل کر اتحادکے ساتھ حکومت وقت سے اس کے لیے مطالبہ کریں اور اپیل کریں کہ وہ ہمیں ہمارے ملک کی کھلی فضا میں سانس لینے کی اجازت دے اور مزدوروں کے لیے ہر طرح کی آزادی کا اعلان کرے۔ بغیر اس کے ملک کی بھک مری ختم نہیں ہوسکتی۔ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے مولوی برکت اللہ نے مزدوروں کی ایک لیگ بنائی جس کا نام ’فریڈم آف انڈیا‘ تھا۔
مولوی برکت اللہ 17 جولائی 1859 میں بھوپال کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کو فطرت نے انقلابی ذہن وفکر دے کر بھیجا تھا بیسویں صدی کی ابتدا میں جو سر فروش و جاں باز بر صغیر کے عوام کو آزادی کا نعرۂ مستانہ سنارہے تھے ان میں مو لوی برکت اللہ کا شمار صف اول میں ہوتا ہے اور ملک کے وہ سر کردہ علما و دانش ور جو غلام ہندستان کو غلامی کے طوق سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،شاہ عبد العزیز ،سید احمد شہید، شیخ الہند محمود الحسن ، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے اکابر ایک دھاگے میں موتی کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب بلا کے ذہین تھے ،وہ بچپن سے ہی کچھ کر گزر نے کی اہلیت ر کھتے تھے۔ ان کی افتاد طبع کا بین ثبوت اس وقت ملا جب وہ روایتی مذہبی تعلیم کے حصول کے دوران 1883 میں گھر والوں کو کہے بغیر روپوش ہوگئے اور بھوپال سے بھاگ کر جبل پور کے ایک عیسائی مشنری اسکول میں داخلہ لے لیا ، پھر ممبئی گئے، وہاں سے اعلی تعلیم کے حصول کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آپ انگلستان چلے گئے مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ، یہاں ان کی ملاقات کچھ ایسے جیالوں سے ہوئی جو انھیں نظری غذا فراہم کر سکتے تھے ، ان میں مجاہد آزادی گوپال کرشن گوکھلے اور معروف انقلابی رہنما شیام جی کرشن ورما قابل ذکر ہیں۔ 1899 میں مولوی بر کت اللہ انگلستان سے نیویارک پہنچے۔ 1905 میں قائد تحریک شیخ الھند مولانا محمودالحسن کی ہدایت پر ایک وفد کے ہمراہ جاپان گئے۔ یہاں چند سال ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد فرانس ،جرمنی اور ترکی کا سفر طے کیا۔ 1918 میں مولانا محمودالحسن کی ہدایت پر پھرایک وفد کے ہمراہ افغانستان گئے ،جہاں انھوں نے افغان حکمراں ا میر حبیب اللہ کو اپنی تحریک کا حامی بنا نا چاہا مگر کامیابی نہیں ملی۔ 
یہاں یہ بات بھی خاطر نشاں رہے کہ جب یکم دسمبر1915کو آزاد ہندستان کی پہلی ’جلا وطن حکومت‘ کاقیام عمل میں آیا تو اس کے صدر راجہ مہندر پر تاپ بنائے گئے اور وزیر اعظم مولوی برکت اللہ کو مولوی برکت اللہ کی سیاسی سوجھ بوجھ کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انھوں نے انگلستان اور جاپان کے دوران قیام سیاسی بصیرت پر حکمراں طبقے کے درمیان ہلچل مچادی ،پھر غدر پارٹی کی تشکیل کے روح رواں رہے اور جلا وطن حکومت کے بانی کی حیثیت سے اہم کارنامہ انجام دیا ، یہی نہیں بلکہ انھوں نے ہندستان کی جدو جہد آزادی کا دائرہ سویت یونین سے امریکہ تک اور ترکی سے ایران تک پھیلا دیا اور بنفس نفیس چین ، جرمنی اور برطانیہ کا سفر کرتے رہے ، گویا کہ انھوں نے جس انقلاب کا خواب عنفوان شباب میں دیکھا تھا اب پیری میں اس کے عملی نتائج دیکھ رہے ہوں۔ مولا نا کی زندگی کا بیشتر حصہ حصول آزدی کی خاطر مشقت جھیلنے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرا جس سے ان کی صحت بھی خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ آخر کار بائیس سال غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد احباب کی طرف سے وطن واپسی پر اصرار نیز اپنی ناگفتہ بہ حالت کے باوجودانھوں نے پردیس میں موت کو گلے لگا نا پسند کیا اور امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں جہاں وہ غدر پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے 27 دسمبر 1927کو جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
اس بیچ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عظیم انقلابی رہنما اور پان اسلام ازم کے سر پر ست سید جما ل الدین افغانی کی صحبت اور شاہ ولی اللہ کی تحریروں نے ان کے جذبہ حریت کو دو آتشہ کردیا تھا۔ ایک لمحہ کو ہمیں یہا ں پر رک کر غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سی چیز تھی جس نے مولانا کو فرنگیوں سے اس قدر متنفر کر دیا تھا اور مزدوروں کا غمگسار بنا دیا تھا۔ مولانا کا واحد مقصد یہ تھا کہ بیرونی فوجی مدد اور داخلی اتحاد کے ذریعے ہندستان سے بر طانوی ظلم واستبداد ں کا خاتمہ ہو۔ مولوی برکت اللہ راسخ العقیدہ اور باعمل عالم دین تھے۔ وہ شیخ الھند کی حیات میں بھی اوران کی وفات کے بعد بھی تحریک آزادی کے سر براہ کی حیثیت سے سر گرم عمل رہے اور کوشش کرتے رہے کہ اس تحریک کو پوری دنیا کی حمایت حاصل ہو، اسی کوشش میں وہ تا عمر مختلف ممالک کا دورہ کرتے رہے۔ مولانا مذہب سے گہری وابستگی کے باوجود جدید خیالات ونظر یات کے علم بردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے ، انھیں سامراجی شکنجے سے نجات دلانے ،تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے اور قدیم ذہنی سانچے سے باہر نکلنے کا درس دیا۔ اسی سبب سے عمر کا قیمتی لمحہ انقلاب کے میدان میں صرف کردیا۔ اس کا واحد مقصد ہندستانی عوام بالخصوص مسلمانوں کی ترقی ، ملک کی آزادی اور خو ش حا لی تھا مگر ان کے نزدیک یہ تبھی ممکن تھا جب ہمیں فرنگیوں سے آزادی ملے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ مو لا نا کی سیاسی، دینی اور سماجی بصیرت کا اندازہ اتنی آسانی سے لگانا مشکل ہے کیوں کی مولانا کی نظر مستقبل پر تھی وہ حال پر ماتم کناں تھے۔ انھوں نے سیاسی اتھل پتھل کا بغور مطالعہ کیا تھا اور انھوں نے اپنی نظر سے زار روس کا زوال، مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ہوتے اور خلافت کو ختم ہوتے دیکھا تھا۔ اسی کے ساتھ انھوں نے افغانستان اورروس کے انقلاب کے ساتھ ہی عربوں کی قومیت کے نئے دور کے آغاز کا بھی بہ چشم خود مشاہدہ کیا تھا، لہٰذا وہ ملک وملت کے عظیم رہبر ورہنما تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس و قت سیکولر نظامِ حکومت کا تصور پیش کیا تھا جب فرنگیوں کے ذریعے زبان بندی کی تحریک زوروں پر تھی۔ یہ مولا نا مر حوم کی ہو ش مندی، دانش مندی اور سیاسی سوجھ بوجھ اور فکری بصیرت کی ایک نمایاں مثال ہے۔ 
الاصلاح میں شائع ہونے والے مضامین میں بالخصوص ان باتوں پر توجہ دی جاتی تھی کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کس طرح قائم ہو، خلافت بادشاہت میں کیسے تبدیل ہوسکتی ہے اور حج افیئر میں اور دی مکہ کانفرنس و غیرہ کے ذریعے اس کی کوشش کی جاتی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اخبار مدیر کی حریت پسندی کا نمائندہ تھا اور مدیر یہ چاہتے تھے کہ ملک اور بیرون ملک کا پڑھا لکھا طبقہ ان باتوں پر غور کرے اور ملک کوجو شدید خطرات انگریزی حکومت سے لا حق ہیں ان کے ازالے کے لیے آگے آئے۔ 
الاصلاح کے شمارہ نمبر 3 جولائی 1936 اور برطانوی سراغرساں ادارے کی جانب سے محکمہ داخلہ کو بھیجی گئی رپورٹ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولوی برکت اللہ صاحب ہندوستان کے ایک مشہور انقلابی رہنما تھے جو کہ جرمنی میں قیام پذیر تھے اور وہیں سے پورے یورپ میں اپنی انقلابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے جرمنی کے شہر برلن سے ایک ماہوار تجارتی وعلمی رسالہ ’الاصلاح‘ جاری کیا تھا۔ الاصلاح عربی ، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں اپنے مشمولات پیش کرتا تھا، الاصلاح کے مندرجات پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ برکت اللہ صاحب ’ الاصلاح‘ کے ذریعے مسلمانوں کے اتحاد کے حق میں اور برطانوی استعماریت کے خلاف اپنے افکار وخیالات کو برصغیر ہندو پاک ، مشرق وسطیٰ اور ایران کے پڑھے لکھے افراد میں پھیلانا چاہتے تھے۔ وہ اپنے مضمون’ہندو، سکھ، مسلمان اتحاد‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں کے اکثر باشندے کنگال ہیں ، جن کو نہ کھانے کو پیٹ بھر روٹی ،نہ پہننے کو کافی کپڑا اور نہ رہنے کو ستھرا گھر میسر ہے۔ اول تو نو اب اور راجہ تین سو میلوں میں تین سو سے کچھ زیادہ ہیں، باہر دیکھنے کو بہت کچھ رنگ وروپ مگر اندر سب کھوکھلے ہیں۔ زمیندار وں اور سودا گروں کی بھی یہی حالت ہے۔ آخر بھوکے ، ننگے اور بے گھر لوگوں سے جوکیڑے مکوڑوں کی طرح بے شمار ہوں کیا مدنیت کو ترقی کی امید ہوسکتی ہے اور انھیں کب دم لینے کی فرصت ہے کہ باقی اور قوم کی حالت کو درست کرنے کی فکر کریں؟ ‘‘
در اصل مولوی برکت اللہ کو جو دلی تکلیف تھی وہ یہ کہ انگریز ہمارے ملک کے غریب مزدوروں کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ جگ ظاہر ہے، اس کے ساتھ ہمارے ملک کو بھی لوٹ رہے ہیں، اس طرح ملک ہندوستان دنیا کے جغرافیائی نقشے پر ہمیشہ ہمیش کے لیے ایک غریب ملک اور مزدوروں کا ملک قرار پائے گا جب کہ ملک ہندوستان دنیا کے نقشے پر مال ومنال کے اعتبار سے وہ خوش نصیب ملک ہے جہاں انگریز آکر خود ہمارے خام مال کو سستے داموں میں خرید کر یورپ کی منڈی میں اچھی قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور پھر ہماری ہی اشیا کو ہم سے اچھی قیمت پر فروخت کر کے روپیہ کما تے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان سدا سے ایسا نہ تھا۔ دوسو سال کے پہلے تک ہندوستان اپنے باشندوں کی زندگی کی ضروری اشیا اور آرایش کے اسباب پیدا کرتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندوستان کی زراعت و صناعت تجارت کی بھر پور تھی اور ساری زمین ہندوستانیوں کے ہاتھ میں تھی اور سارے کارخانوں پیشوں اور حرفوں کے وہ مالک تھے اور تمام اندرونی اوربیرونی تجارت وہی کرتے تھے۔ اس وجہ سے ہر ایک آدمی کو روٹی ، کپڑا ، گھر میسر تھا۔ ایسے ملک کو علم اقتصاد میں آزاد ملک کہتے ہیں۔‘‘
مگر جب انگریز ی سلطنت کی بنیاد ڈیڑہ سو سال پہلے ہندوستان میں پڑی تو انھوں نے قانون بنائے جس سے ہندوستان کے کارخانوں کی ساختہ چیزیں انگلستان میں محصول اور انگلستان کی ساختہ چیزیں ہندوستان میں بلا محصول بکیں۔ اس اندھا دھندہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانی مصنوعات کا تھوڑے دنوں میں نہ دیس میں اور نہ بدیس میں کوئی خریدار رہا اورانگلستان کے کل کارخانوں کی بنی ہوئی چیزیں ہندوستان میں بکنے لگیں اور ہندوستانی کارخانے آہستہ آہستہ مٹ گئے اور حالت یہ ہوگئی کہ سوئی، تاگا، قینچی، چو، چھری، کپڑا ، جوتا ، رکابی، پیالہ، کھلونے ، دیا سلائی کوئی چیز ایسی نہیں جو پردیس سے نہ آتی ہو بلکہ مصنوعی شکر اور ساختہ گھی بھی دوسرے ملکوں سے آتاہے۔ ان کارخانوں اور پیشوں کے مٹ جانے سے قوم کے آدھے سے زیادہ لوگوں کی روٹی ماری گئی۔ ‘‘
ماہنامہ الاصلاح میں ہندو، مسلم، سکھ اتحاد کے نام سے شائع ایک مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’آزادی ہندوستان لیگ ‘ کے نام سے ایک تحریک بھی برپا کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کسانوں، مزدوروں اور طلبہ کو انگریزی استعماریت کے خلاف متحد ہونے اور ہندوستانی زمین کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
عربی زبان میں دیے گئے ایک اشتہار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ’الخلاف‘ کے نام سے انگریزی زبان میں ایک کتاب تالیف کی تھی جس میں مسئلہ خلافت کے تعلق سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنا چاہتے تھے اور خلافت کو وہ مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد تصور کرتے تھے۔اشتہار میں لوگوں سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ ’الاصلاح ‘کی اعانت بھی ہو اور خلافت کے تعلق سے لوگوں میں بیداری پیدا ہو۔
مولوی برکت اللہ صاحب قرآن مجید کے علوم ومعارف کو یورپ میں عام کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے برلن کی ایک مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
الاصلاح میں شائع ایک اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی علوم ومعارف کی تبلیغ کے لیے انھوں نے ایک انجمن بھی قائم کی تھی۔ اشتہار میں جمعیت کے لیے ایک پریس اور چند ایسے مبلغین کی ضروت کا اعلان شائع کیا گیا ہے جو قرآن کے علوم ومعارف پر لکچر دے سکیں۔
برکت اللہ صاحب کے اخبار ’ الاصلاح ‘ کی تین کا پیاں ہندوستان میں ملیں۔ محکمہ سراغرسانی کے افسر کی رپورٹ میں الاصلاح کے ہندوستان میں داخلے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ رسالہ انگریز حکومت کے خلاف عوام کو برانگیختہ کر رہاہے۔ اس رسالے میں عوام سے حکومت کو لگان نہ دینے کی بات بھی کہی گئی ہے ، اس لیے اس پر پابندی لگنی چاہیے۔
انگریز ی حکومت کے خلاف ’’آزادی ہندوستان لیگ‘‘ کے نام سے جس تحریک کی دعوت دی گئی ہے اس کے حسب ذیل مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ افسروں کے بقول قابل گرفت ہیں: 
1۔ ہندوستان کی سیاسی واقتصادی پوری آزادی۔
2۔ حکومت اجنبی کی نوکری عار اور غلامی کا پیسہ مردار۔
3۔ زراعت وصناعت وتجارت تعلیم یافتہ لوگوں کا ذریعہ معاش۔
4۔ فوجی نوکری سے کنارہ۔
5۔ نئے علوم وفنون جو آج تہذیب یافتہ قوموں میں جاری ہیں تمام قوم میں پھیلانا۔
6۔ قانوناََ کسانوں کا لگان کم کرانا اور مزدوروں کی اجرت کو فراخی رزق کا ذریعہ بنانا۔
7۔ قانوناََوطنی کارخانوں کو مدد دینا اور پردیسی بنی ہوئی چیزوں کو ہندوستان میں آنے سے روکنا۔
8۔ ہرعاقل بالغ کو حق انتخاب اعضا ئے مجلس قانونی ومجلس شوریٰ۔
9۔ زمین ملکیت قوم اور نہ ملکیت حکومت اجنبی۔

Mohd Rizwan Khan
D-307, MMIP, Abul Fazal Enclave
New Delhi - 110025
Mob.: 9810862283
ماہنامہ اردو دنیا ، جولائی 2017






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں