26/3/19

شوق نیموی کی غزل گوئی مضمون نگار:۔ ثاقب فریدی


شوق نیموی کی غزل گوئی

ثاقب فریدی
شوق نیموی 1278ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ظہیراحسن، کنیت ابوالخیر، مادۂ تاریخ ولادت ظہیرالاسلام ہے۔ دیوان شوق کے مرتب نور الہدی نیموی نے دیوان شوق کے دوسرے صفحے پر شوق کی تاریخ وفات1322ھ درج کی ہے۔ اس طرح شوق کی عمر 44 سال ہوتی ہے۔شوق نے بطور ایک لغت نگاربھی اپنی شناخت قائم کی ہے۔ لغت کے علاوہ جلاء العین، رد السکین، مجلی، جامع الآثار، لامع الانوار، مقالہ کاملہ، ازاحۃ الاغلاط، اصلاح، ایضاح، سرمۂ تحقیق، یادگار وطن اور سیر بنگال وغیرہ شوق کی تصنیفات ہیں۔ شاعری شوق کا ذیلی یا ضمنی مسئلہ نہیں تھا بلکہ شوق نے شاعری پر باضابطہ توجہ کی۔عظیم آباد اور لکھنؤ میں مشاعرے پڑھے۔ شمشاد لکھنوی اور امیر اللہ تسلیم سے اصلاح سخن لی۔ ان کی مختلف تصنیفات میں جگہ جگہ غزلوں کا اندراج شاعری کے تئیں ان کی رغبت کا اظہارہی تو ہے۔ دیوان شوق میں غزلوں کے علاوہ قصائدورباعیات اور قطعۂ تاریخ بھی ہیں۔شوق کی شاعری کلاسیکی رنگ کی ہے۔ عاشق کی کیفیات،اس کا جذبۂ عشق، معشوق کا حسن، اس کا جوروجفا، نازوادا غیروں سے التفات، اور ان وجوہات کی بنا پر عاشق کا دلِ مغموم اور آہ و گریہ جیسے شوق کی غزلوں کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان کی غزلوں میں عشق حقیقی کے مضامین بھی نظر آجاتے ہیں لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہے۔ شوق کا دیوان بہت زیادہ ضخیم نہیں ہے۔ تقریباً سو اسو صفحات پر یہ دیوان مشتمل ہے۔ اس میں غزلوں کی تعداد92 ہے۔ تمام ردیفوں میں سب سے زیادہ غزلیں ردیف یائے تحتانی میں ہیں۔ اس کی تعداد34 تک پہنچتی ہے۔ اس کے بعد ردیف الف میں غزلوں کی تعداد 20ہے۔ ردیف نون میں 9 غزلیں اور ردیف واؤ میں 7 غزلیں ہیں۔ اس کے علاوہ باقی ردیفوں میں ایک دو یا تین ہی غزلیں موجود ہیں۔ د، ذ، ز، س، ش، ص، ض،ط، ظ، ع، غ، ف کی ردیفیں غزل سے خالی ہیں اور ردیف قاف میں صرف دو ہی اشعار موجود ہیں۔شوق نے بعض غزلیں سخت زمینوں میں کہی ہیں۔اس میں ایک زمین تو میر تقی میر کی ہے جس کا مشہور مقطع یہ ہے۔
روشن ہے یہ کہ خوف ہے اس غصہ ور کا میر
نکلے ہے صبح کانپتا جو تھر تھر آفتاب
یہ غزل میر کے دیوان ششم میں درج ہے۔ میر نے اپنے معشوق کے تئیں اس غزل میں جو مضامین باندھے ہیں ان میں تنوع بھی ہے اور معانی کی جہتیں بھی۔ میر کی اس غزل کے تمام اشعار کار شتہ براہ راست معشوق کی ذات سے ہے۔ میر نے اس زمین کو جہاں پہنچا دیا اسے برت لینا اور ان مضامین میں رخنہ ڈال کر کوئی نیا پہلو پیدا کر لینا آسان نہیں ہے۔ شوق نے جس طرح اس زمین کو برتا ہے۔ اس میں اگر چہ میر کا سا حسن نہیں لیکن بعض اشعار واقعتا قابل تعریف ہیں :
داغ دل کے آگے کیا اے چرخ اخضر آفتاب
میری آہ پر شرر کا ہے اک اخگر آفتاب
عشق عارض نے اثر اپنا دکھایا بعد مرگ
شامیانہ بن گیا میری لحد پر آفتاب
شوق کے یہاں اس غزل میں 7 اشعار ہیں۔پہلے شعر میں داغ دل کا رشتہ آفتاب سے ہے۔ یعنی عاشق کے داغ دل میں بے شمار چنگاریاں موجود ہیں اور آفتاب انھیں چنگاریوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ بنیادی طور پر اس شعر کا مضمون آہ وگریہ ہے۔ جس میں داغ، آہ پر شرر اور اخضر کا رشتہ دل سے قائم ہو جاتا ہے۔ آہ پر شرر کی مناسبت سے آفتاب کو ایک اخگر تصور کرلینابہت خوب ہے۔ دوسرے شعر میں عارضِ معشوق آفتاب کی طرح ہی روشن ہے۔ حیات میں توکبھی معشوق نے عاشق کے چہر ے پر اپنے عارض روشن کو شامیانہ نہیں بنایا اور عاشق اسی حسرت میں مر گیا۔چونکہ عشق ایک روشن عارضِ معشوق سے تھا لہذااس مناسبت سے بعدِ مرگ آفتاب لحدِعاشق پرشامیانہ بن گیا ہے۔ اس شعر میں گویا لفظِ عارض کے ساتھ ’ روشن‘ کی صفت پوشیدہ ہے۔ اس صفت روشن کارشتہ آفتاب سے قائم ہوا ہے۔ یہاں عارض، شامیانہ، لحداور آفتاب جیسے الفاظ نے ہی شعر کو بامعنی بنایا ہے۔اس غزل کے علاوہ شوق نے دھوپ کی ردیف میں غزل کہی ہے۔ پاپوش، روپوش، بیہوش، بلانوش، سردوش اور فراموش وغیرہ اس غزل کے قافیے ہیں۔ یہ زمین بنیادی طور پر ناسخ کی ہے۔ناسخ کی غزل میں گیارہ ۱شعار ہیں۔ اسی زمین میں شاد عظم آبادی اور اثر نے بھی غزل کہی ہے۔اثر کی غزل میں گیارہ اشعار ہیں جبکہ شوق کی غزل چودہ اشعار پر مشتمل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تینوں کی غزل کے اشعار بعض اوقات مضمون بند ی کی سطح پر مماثل نظرآتے ہیں اورصاف محسوس ہوتا ہے کہ ناسخ کی زمین میں اثر اور شوق نے نہ صرف مضمون آفرینی کی ہے بلکہ نئے پہلو بھی پیدا کیے ہیں۔
شوق
چمکی جو تری صبح بنا گوش ہوئی دھوپ
ٹانکی جو کرن صدقۂ پاپوش ہوئی دھوپ
کچھ سایۂ گیسو ہے توکچھ عکسِ رخِ یار
ہمراہ شبِ تار سردوش ہوئی دھوپ
آخر کو گری عالم بالا سے زمیں پر
نظارۂ جاناں سے جو بیہوش ہوئی دھوپ

امداد امام اثر
عکس روح روشن سے کرن پھول جو چمکے
آئینہ صفت گرد بناگوش ہوئی دھوپ
جوڑے کے جواہر کی جو شانوں پہ پڑی چوٹ
ہمراہ شب تار سردوش ہوئی دھوپ
غش کھا کے سرخاک گری صورتِ موسیٰ
نورِ رخِ روشن سے جو بیہوش ہوئی دھوپ
(1) شوق نیموی کے شعر میں کرن ٹانکنے کا عمل بہت خوبصورت ہے۔اس میں ایک نیاپہلو یہ ہے کہ آفتاب کی شعاؤں کی بجائے معشوق کے رخِ روشن سے کرنیں پھوٹ کر معشوق کے صدقۂ پاپوش ہوئی ہیں۔جبکہ اثر کے شعر میں رخِ روشن سے کرن پھول چمکنے کی بات ہے۔ اثر کے شعر میں عکس رخ روشن سے کرن پھول کے چمکنے کا عمل اور دھوپ کا آئینے کی طرح بناگوش کے گرد پھیل جانے کی کیفیت رخِ روشن،بنا گوش اور دھوپ تینوں کی الگ الگ تصویریں قائم کرتی ہے اور یہ امیجری بہت دلکش معلوم ہوتی ہے۔
(2) اس میں شوق اور اثر دونوں کے یہاں شعر کا دوسرا مصرع یکساں ہے۔جبکہ مصرعِ اول میں شوق نے سایۂ گیسو اور عکسِ رخِ یار کی تراکیب استعمال کی ہیں اور اثر نے جوڑے اور شانوں کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جوڑے تو گیسو کی ہی بندھی ہوئی ایک شکل ہے اور اس کی رنگت سیاہ ہے جو کہ شبِ تاریک کے مماثل ہے لیکن جوڑے میں جواہر کی روشنی اسے دھوپ کے مماثل کر دیتی ہے۔ اس طرح جوڑے کی تاریکی اور جواہر کی روشنی دونوں مل کر جب شانوں پر پڑتی ہیں تو روشنی اور تاریکی کی ایک ساتھ تصویر بنتی ہے۔ شوق کے شعر میں سایۂ گیسو اور عکس رخِ یار سے یہی تصویر ابھرتی ہے لیکن اثر کے شعر میں جوڑے کا شانوں پر چوٹ کرنا بہت خوبصورت ہے۔
(3) یہاں دونوں اشعار تھوڑے فرق کے ساتھ متحد المضمون ہیں۔شوق کے مقابلے میں اثر کا مصرع اولیٰ تلمیح کی وجہ سے بہت دلکش ہو گیاہے۔یہاں موسیٰ کی مناسبت سے ’ غش کھا کر گرنے‘ کا فقرہ بہت با معنی ہے۔اس میں دھوپ کے بیہوش ہو کر گرنے کو موسیٰ کے غش کھا کر گرنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔جبکہ شوق کے مصرع اولیٰ میں’آخر کو گری‘ کا فقرہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ نظارۂ جاناں اور دھوپ کے ما بین نظر لڑی تھی اوردھوپ بالآخر تاب نہ لاکر بیہوش ہوئی اور عالم بالا سے زمین پر گر پڑی۔ شوق اور اثر دونوں کے یہاں دوسرے مصرعے میں فقط نظارۂ جاناں اور نورِ رخِ روشن کی ترکیب کا فرق ہے۔ 
شوق
اللہ رے کیا حشر میں پر جوش ہوئی دھوپ 
چمکے جو مرے داغ تو روپوش ہوئی دھوپ
جب دفن ہوا عاشقِ خورشیدِ رخِ یار 
کس پیار سے تربت کی ہم آغوش ہوئی دھوپ
جلوہ جو ترے چاند سے رخسار کا چمکا
مل جل کے قیامت کی صفا پوش ہوئی دھوپ
ناسخ
تاریک ہوا دن مرے رونے کے اثر سے 
جس طرح چھپا دیتی ہے ساون کی جھڑی دھوپ
ہے تیرے تصور سے مری قبر بھی روشن
اے مہرِ جہاں تاب مرے ساتھ گڑی دھوپ
کیا پردے سے باہر نکل آیا ہے وہ خورشید
خلقت جلی جاتی ہے بڑی آج پڑی دھوپ
(1) شوق کے شعر میں داغ چمکنے کی وجہ سے دھوپ روپوش ہوئی ہے اور ناسخ کے یہاں رونے کی وجہ سے دن سیاہ ہوا اور دھوپ سیاہ پوش ہوئی۔داغِ دل کا چمکنا اور مسلسل رونا دونوں داخلی کیفیت کا اظہار ہے۔ناسخ نے دھوپ کے روپوش ہونے کی تصویر بہت خوب بنائی ہے اور اس تصویر کا انحصار شعر کے دوسرے مصرعے پرہے۔ بارش سے قبل بادل کا گھرآنا،دھوپ روپوش ہوجانا ہے۔ رونے کے بعد بھی طبیعت پر افسردگی چھا جاتی ہے اور دن اداس لگنے لگتا ہے۔اس طرح دن کی اداسی دن کی تاریکی بھی ہے۔لہذا شعرمحض مبالغے پر محمول نہیں کیا جائے گا بلکہ رونے اور بارش کی مناسبت سے دن کا تاریک ہوجانا قرین قیاس ہے۔شوق کے پہلے مصرعے میں دھوپ کا پر جوش ہونادر اصل داغِ دل کا چمکنا ہے۔گویا داغِ دل سے جو روشنی اور تپش باہر نکلی وہ پر جوش دھوپ کے مثل تھی۔ یہاں تک کہ آفتاب سے نکلنے والی دھوپ بھی اس کے سامنے ماند پڑ گئی۔ 
(2) شوق کے شعر میں عاشق خورشید رخ یار کی ترکیب بہت خوب ہے اور خورشیدِ رخِ یار کی مناسبت سے تربت پہ دھوپ کی ہم آغوشی بامعنی ہو جاتی ہے۔جبکہ ناسخ کے یہاں مہرِ جہاں تاب کی ترکیب ذرا مبہم ہے۔اس میں آفتاب اور معشوق دونوں کا احتمال ہے۔ناسخ کے شعر میں تصور معشوق بھی دھوپ سے کم روشن نہیں ہے۔گویا عاشق کے ساتھ دھوپ بھی دفن ہوئی اور پھر’گڑی دھوپ‘ کا قافیہ نہایت برجستہ اور دلچسپ ہے۔
(3) شوق نے اپنے معشوق کے لیے چاند کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ ناسخ نے خورشید کا لفظ۔ دونوں جگہ حسنِ معشوق کی تابناکی ہے۔شوق کے یہاں رخسارِ معشوق اور دھوپ کا مل جل کر چمکنا کسی قیامت سے کم نہیں ہے اور ناسخ کے شعر میں خلقت کا جل جانا بھی دھوپ کی اسی تیزی اور شدت کا اظہار ہے۔
ٹلتا ہی نہیں ہجر کا دن کیا ہے اُڑی دھوپ
خورشید قیامت نے مرے گھر میں جڑی دھوپ
ناسخ
آگے ترے خورشید قیامت کو گئے بھول
وہ محو ہوئے ہم کہ فراموش ہوئی دھوپ
اثر
لایا یہ سیہ نامۂ اعمال مرا رنگ
خورشید قیامت کی بھی روپوش ہوئی دھوپ
شوق
ان تینوں اشعار میں مضمون اگر چہ علاحدہ ہے لیکن اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ خورشید قیامت کی ترکیب تینوں جگہ مختلف معانی کی حامل ہے اور تینوں شعر کا حسن قابل تعریف ہے۔ دھوپ کی زمین کے علاوہ اثر نے ایک غزل کہی ہے جس کا مطلع یہ ہے۔ 

کس طرح لاؤں شب فرقت میں جوئے شیر صبح
کوہکن سے پوچھ آؤ ہمدموں تدبیر صبح
اس غزل میں اثر نے پے در پے پانچ مطلع کہے ہیں۔ اثر نے بہت خوبصورتی اور سلیقہ مندی کے ساتھ تمام قافیوں کو نبھایا ہے۔تعزیرِ صبح، توقیرِصبح، شمشیرِصبح،جاگیرِصبح، دامن گیرِ صبح، دارو گیرِ صبح، نخچیرِ صبح، تقصیرِ صبح اور تحریرِ صبح جیسے قوافی استعمال کر لینا آسان نہیں ہے۔ قافیوں کا آخری حرف مع اضافت ردیف کاحصہ ہے لہٰذا اس زمین میں قافیے کی بندش اور بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ اثر کے بعد شوق نے اسی زمین میں ایک غزل کہی ہے۔ اس میں 17 اشعار دو مطلعوں کے ساتھ ہیں۔ پہلا مطلع اس طرح ہے۔
دل سے نکلی ہے جو میری آہ پر تاثیر صبح
دیکھیے کیا رنگ لاتا ہے یہ میرا تیر صبح
اس زمین میں شوق کی غزل بھی خوب ہے اور بعض مضامین دونوں کے یہاں مشترک ہیں۔بعض جگہ اثر کی ترکیب اور قافیے اچھے لگتے ہیں اور بعض اوقات شوق کا شعر زیادہ پسند آتا ہے۔ میں نے یہاں شوق اور اثر دونوں کے متحد المضمون اشعار پیش کیے ہیں۔
شوق
ہائے وہ رخصت طلب ہونا دم تکبیرصبح 
مدتوں مجھ کو نہ بھولی یار کی تقریر صبح
کاتب قدرت نے لکھا ہے یہ و صف حسن یار
ہے جو لوح آسماں پر خوشنما تحریر صبح
آفتابِ داغ دل اپنا دکھا دوں گا اگر 
رنگِ رخ اُڑ جائے گا مٹ جائے گی تصویرِ صبح
کوئی دم میں وصل کی شب اے فلک کٹ جائے گی
حسرتوں کا خون کردے گی تری شمشیرِ صبح
اثر
ہر گھڑی رنگ سخن ان کا بدلتا ہے اثر
شام کی تقریر سے ملتی نہیں تقریر صبح
منشیِ گردوں نے بھیجا دفترِ گوہر نگار
جب ہوئی لوحِ زبرجد پر عیاں تحریرِ صبح
رنگ اپنا فق نہ ہو کیوں کر شبِ وصلِ صنم
شام ہی سے پھررہی ہے آنکھ میں تصویرِ صبح
ہے شفق خون شبِ وصلِ غریباں کی دلیل
ہر کرن مہرِ درخشاں کی ہے اک شمشیرِ صبح
اس زمین میں شوق اور اثر کی غزل موضوع کی سطح پر بھی بہت مماثل ہو گئی ہے۔شوق نے بعض اشعارمیں نئی اور جدید تشبیہیں استعمال کی ہیں اور نئے معانی بھی پیدا کیے ہیں۔
شکلِ آہو یہ بھی کیا وحشی کسی کا ہوگیا
گردنِ خورشید میں ہے حلقۂ زنجیرِ صبح
آفتابِ روئے جاناں پر جو کی کچھ بدنگاہ
پنجۂ خورشید خود نکلا گریباں گیرِصبح
اس پری وش کی صباحت پر جو دیوانی ہوئی
ہر شعاعِ مہرِ انور بن گئی زنجیرِ صبح
یہ اشعار خیال بندی کے ضمن میں رکھے جاسکتے ہیں۔ شوق کو باضابطہ طور پر شاہ نصیر، ناسخ اور غالب کی طرح خیال بند شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن خیال بندی بھی ان کی شاعری کا ایک وصف ہے۔ خیال بندی ایسی مضمون آفرینی ہے جسے دور دراز تخیلات اور غیر متعلق اشیاء سے تعلق ہوتا ہے۔گردن خورشید میں حلقۂ زنجیر صبح تصور کرنا، آفتاب کی شعاؤں کو شمشیر اور پنجۂ خورشید سے تعبیر کرنا ہی خیال بندی ہے۔ اثرکی اس زمین کے علاوہ شوق نے شاد کی ایک زمین میں بھی غزل کہی ہے۔شاد کی زمین میں شوق کی یہ غزل خالص عاشقانہ نوعیت کی ہے۔ اس میں معشوق کے حسن وجمال، سراپا، قدوقامت اور نازوادا سے سروکار ہے۔جبکہ شاد عظیم آبادی کی غزل میں مضمون کا تنوع ہے۔ اس زمین میں شوق ؔ عاشقانہ شاعری کے اعتبار سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح محبوب کے حسن و جمال کی امیجری کی ہے وہ نہایت برجستہ اور قابل تحسین ہے :
کچھ کچھ کسی کی قامت موزوں کا ہے جواب
سرو چمن کو دیکھ لیا سر سے پاؤں تک
پابوسی حنائے کف پا کے شوق میں
آئی ہے ان کی زلف رسا سر سے پاؤں تک
یہ بھی تھی اک ادا کہ وہ آئے کسی کے پاس
اوڑھے ہوئے ردائے حیا سرسے پاؤں تک
شوق کی یہ غزل سادہ بیانی کی نہایت خوبصورت مثال ہے۔ اس میں لفظوں کی چاشنی بھی ہے اور تراکیب کا حسن بھی، ناز و ادا کے مرقعے بھی ہیں اور حسن و جمال کی تصویر کشی بھی۔
شوق کی غزل میں عاشق کا کردار عموماً عشق میں خود سپردگی کا جذبہ رکھتا ہے لیکن بعض اوقات اس کے مزاج میں انانیت، کجکلاہی اور بانکپن کی صفت بھی نظرآتی ہے۔
تمھارے ہی تصور کا یہ گھر ہے
سمجھ کر دل مرا برباد کرنا
آفتاب داغ دل اپنا دکھا دوں گا اگر
رنگ رخ اڑجائے گا مٹ جائے گی تصویر صبح
جو پامال اس کو کرتے ہو کرو لیکن سمجھ رکھو
تمھارے ہی تو ارماں آج کل اس دل میں رہتے ہیں
شوق کی غزل میں عاشق کے اس رویے کی حیثیت ثانوی ہے اور عمومی طور پر اس کے رویوں سے عاشقانہ بانکپن اور کجکلاہی کا اظہار کم کم ہی ہوتا ہے۔اس کے دل میں جذبۂ عشق کی گھلاوٹ،اس کی نشتریت اور دلسوزی کی کیفیت غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل میں رونے اور آہ و گریہ کرنے کے مضامین کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ رونا اور آہ و گریہ کرنا ہماری کلاسیکی غزل میں کثرت کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن اصل دیکھنے کی چیزیہ ہے کہ شوق ان مضامین کو کس انداز سے برتا ہے :
روئے دل شکستہ کو ہم پھوٹ پھوٹ کر 
شیشہ جو کوئی راہ میں ٹوٹا پڑا ملا
شوق
نہ جانے یاد کر روتا ہے کس کے دل کے صدمے کو
کہیں ٹکڑا جو سودا کو نظرآتا ہے شیشے کا
سودا
شوق نیموی کا یہ شعر سودا کے شعر سے مضمون بندی کی سطح پر مطابقت رکھتا ہے۔ شوق کے یہاں دل شکستہ کے لیے پھوٹ پھوٹ کی تکرار شعر کے حسن میں اضافہ کررہی ہے۔ جبکہ سودا کے شعر میں یہ تکرار نہیں ہے۔ سودا کے شعر میں ایک طرح کا ابہام بھی ہے۔ ’نہ جانے‘ کا فقرہ اسی ابہام کی طرف اشارہ ہے۔اس ابہام کی وجہ سے سودا کا شعر بہت بامعنی ہوگیا ہے۔ دونوں جگہ دل شکستہ کی رعایت شیشے کے ٹکڑے سے قائم ہوئی ہے۔ یہ رعایت کلاسیکی شاعری میں خاص کر میرکے یہاں بہت خوبصورت انداز میں استعمال کی گئی ہے۔ خودسودا کے یہاںیہی رعایت کئی جگہ موجود ہے:
آتی ہے اس گلی سے پریشاں صدائے آہ
شاید کسی کا شیشۂ دل چور ہوگیا
سودا
شاید کسی کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چور ہوگیا
میر
سودا کے مقابلے میر نے شیشۂ دل کی ترکیب کا رشتہ خارج کے بجائے اندرون ذات سے قائم کیا ہے۔ جبکہ سودا کے دونوں اشعار میں شیشے کا رشتہ اندرون ذات سے سروکار نہیں رکھتا۔ اب شوق کے شعر میں عشق کی گھلاوٹ خارج پر کچھ اس طور سے اثر انداز ہوتی ہے کہ اسے اپنے داخل کا مظہر بنالیتی ہے۔ راستے میں ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑے کو دیکھ کر اپنی دل کی شکستگی یاد کرنا اپنی اسی داخلی کیفیات کا اظہار ہے۔ شوق کی شاعری عاشقانہ معاملات اور عشق کی گھلاوٹ کا اظہار ہے۔ اس میں گریہ و زاری کی مختلف صورتیں مل جاتی ہیں۔
ہائے کیا وقت ہے تھمتے نہیں آنسو اپنے
اور وہ کہتے ہیں حال دل مضطر کہیے
سینے میں ہوک اٹھتی ہے پہلو ہے داغ داغ
دل دے کے آپ کو مجھے اچھا صلا ملا
دن کٹا آج آہ و نالہ میں
رہے آنکھوں سے اشک جاری رات
عمر بھر روئے مگر رونا نہ اپنا کم ہوا
نوح کا طوفان گویا تہہ نشیں آنکھوں میں ہے
تجھ سے اے آہ بہلتی ہے طبیعت میری
تو کہاں چھوڑ چلی ہے شب تنہائی میں
آنسو کا مسلسل بہنا اور سینے میں ہوک کا اٹھنا عشق میں ناکامی کے بعد شدت غم کا اظہار ہے۔ اس میں معشوق سے شکایت کا عنصر بھی شامل ہے۔ ’دل دے کے آپ کو مجھے اچھا صلہ ملا‘ والے مصرع میں شکایت برائے شکایت نہیں بلکہ اس میں ندامت کا بھی ایک عنصر ہے لیکن یہ ندامت ناکامی عشق کی ہے جذبۂ عشق کی نہیں۔رات بھر رونے کا عمل، اس کا بھاری پن اس کرب کا نچوڑ ہے جسے رات دلِ معشوق پر مسلط کرتی ہے۔ طوفان نوح سے زندگی بھر رونے کے تسلسل کی رعایت قائم کرنا مبالغہ آرائی بھی ہے اور تلمیح بھی۔ آخری شعر میں خصوصاً شوق نے آہ سے طبیعت بہلنے کا جو مضمون باندھا ہے۔ آہ ایک مجرد شے ہے۔ اسے باضابطہ مخاطب کرنا تجرید کی تجسیم ہے۔ اس طور سے شوق کے شعر میں آہ و فغاں سے طبیعت کو بہلانا بہت بامعنی ہو جاتا ہے۔ آہ وگریہ کا ختم ہوجانا زندگی کا پھر اسی پرانے ٹھہراؤ پر آجانا بھی ہے۔ آہ و نالہ کے دلِ معشوق پر اثر انداز ہونے میں تاخیر نہیں لگتی۔ اردو غزل میں آہ کے تعلق سے جس نوع کے مضامین باندھے گئے ہیں ان میں آہ رسا کے اتنے خوبصورت اور اثر انداز مرقعے کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اردو غزل کا معشوق آہ ونالہ کے اثر سے بھی عموماً بے نیاز نظر آتا ہے۔ عاشق کی آہ اتنی پر قوت نظر نہیں آتی جس سے معشوق کی بے التفاتی میں کمی آسکے۔ شوق نے اپنی غزل میں عاشق کی آہ کو بہت پر قوت استعمال کیا ہے بعض جگہ آہِ رسا کی ترکیب استعمال کی ہے۔
نہ کر آہ کا قصد گھبرا کے اے دل
کچھ اچھا نہیں دل دکھانا کسی کا
اپنی آہوں نے دکھایا یہ اثر
آج کچھ بیتاب انھیں پاتے ہیں ہم
چین سے محفل اغیار میں وہ بیٹھے ہیں
جی میں آتا ہے کہ ہم آہ رسا کر دیکھیں
اثر سے تیرے باز آئے ہم اے آہ
وہ پہروں سے دبائے ہیں جگر کو
آہِ رسا کی وجہ سے معشوق کا دل تھامے ہوئے آنا۔ آہ کی وجہ سے معشوق کا دل دکھ جانا، آہ کی وجہ سے معشوق کا بیتاب ہوجانا، آہِ رسا کا دلِ معشوق میں گھر کرنا اور آہ کی وجہ سے پہروں جگر کو دبا کر بیٹھنا آہ کے اثر انداز اور پر قوت ہونے کی دلیل ہے۔ معشوق کو محفل اغیار میں دیکھ آہِ رسا کی خواہش کر نا اپنی آہِ رسا پرخود اعتمادی کا علامیہ ہے۔ آخری شعر میں معشوق کا اثرِ آہ سے پہروں جگر کو داب کر بیٹھنابہت دلچسپ ہے۔آہ کے تئیں اتنا پر اعتماد رویہ عاشق کے کردار کو بھی پرقوت بناتا ہے اور اس کے عشق میں جو گھلاوٹ ہے وہ بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ عاشق اس ماحول سے نکل کر ایک نئی فضا میں سانس لیتا ہے۔ عاشق کا یہ رویہ گریہ کرنے،غم و اندوہ میں اوقات بسر کرنے اور مستقل دل کو گھلانے کے بعد زندگی کی طرف مراجعت بھی ہے۔ شوق کی غزل میں جہاں معشوق کے جور و ستم کا تذکرہ ہے وہاں عاشق کا دلِ مغموم نظر نہیں آتا۔ معشوقِِ ستم شیوہ کی جفا عاشق کے لیے باعث حزن و ملال ثابت نہیں ہوتی۔بلکہ معشوق کے ان ظالمانہ رویوں سے لطف اندوزی اس کی طبیعت میں سرشاری پیدا کرتی ہے۔ وہ معشوق کی ستم شعاری کو نازوادا پر محمول کرتا ہے۔ اس کی شوخیوں اور غمزوں کے قصیدے پڑھتا ہے:
وہ کیا تسکینِ خاطر کی کوئی صورت نکالیں گے
وہ جب شوخی سے تڑپاتے ہیں اپنے بے قراروں کو
تمھیں میرا دلِ بیتاب تڑپاتے ہو پہلو میں
تمھیں پھر مجھ سے کہتے ہو کہ سرگرمِ فغاں کیوں ہو
ادا و ناز و غمزہ سب ہیں آفت
کرے کس کس بلا کا سامنا دل
بال کھولے ہوئے او ناز سے چلنے والے
دل ہزاروں کے ہیں قابو سے نکلنے والے
ان ا شعار کے مضامین نئے اور اچھوتے نہیں ہیں لیکن شوق نے انہی مضامین میں کچھ نئے یا پھر کم کم استعمال ہونے والے الفاظ استعمال کیے، کچھ نئی رعایتیں قائم کی، لفظوں کی بندش میں ایک طرح کا نیاپن پیدا کیا ہے۔ شوق کی اسی فنکار انہ چابکدستی نے پامال مضامین میں بھی دلچسپی پیدا کی ہے۔ شوق کے اس آخری شعر کے بالمقابل میر کا ایک شعرہے:
وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال جو گیا
سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا
میر کے شعر کا مضمون معشوق کی زلف کی تعریف ہے۔سنبل کا مفت میں پامال ہوجانا زلفِ معشوق کا گرویدہ ہوجانا ہے۔ اس شدت کے ساتھ گرویدہ ہونے کی وجہ زلفِ معشوق کی سیاہی، دراز ی، خوشبو سب کچھ ہے لہٰذا اگر یہاں سنبل کے علاوہ کسی اور عاشق وغیرہ کے پامال ہونے کی بات ہوتی تو شعر میں اس نوع کی تاثیر پیدا نہ ہوتی جو کہ ہے۔ میر کے اس شعر کی شدت محض اس وجہ سے ہے کیونکہ سنبل بھی صفاتِ زلفِ معشوق سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ شوق کے شعر میں بھی معشوق کے بال کھولنے کا تذکرہ ہے۔ میر نے معشوق کے انداز خرام کے لیے ایک روش کا استعمال کیا ہے۔ جبکہ شوق کے شعر میں ’اوناز سے چلنے والے‘ کا فقرہ کم دلچسپ نہیں۔ دوسرے مصرع میں شوق کے یہاں سنبل کی جگہ قابو کی رعایت قائم کی گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ دل کے بے قابو ہونے کی کیفیت اور دلِ عاشق کے قابو میں نہ رہنے کی حالت کے مابین ایک طرح کا رشتہ قائم ہوگیا ہے۔ یہی رشتہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے ذوق پر اثرا نداز ہوتا ہے۔ 
شوق نے معشوق کے ناز وادا کے ساتھ ساتھ اس کے حسن کے مرقعے، جسم کی رنگت، قدوقامت،اس کا سنگار اور یہاں تک کہ اس کی انگڑائی کی بھی بڑی دلکش تصویر کھینچی ہے۔ شوق کی غزل معشوق کی سراپا نگاری میں اس قدر ثروت مند ہے کہ بہت کم شاعروں کے یہاں معشوق کے حسن کے مرقعوں کا اتنا تنوع نظر آتاہے :
گری بجلی غضب کی پرتوِ رخسارِ روشن سے
جو وہ پردہ نشیں گل روزنِ دیوار سے جھانکا
پھیلی ہوئی ہے آج قیامت کی روشنی
تم جھانکتے ہو یا پسِ روزن ہے آفتاب
دن کو کوٹھے پر نہ جاؤ ورنہ فرط شرم سے
گر پڑے گا منہ کے بل روئے زمیں پر آفتاب
گلوں کا جوش بہارِ چمن نہ پھر یاد آئے
جو دیکھ لے کہیں بلبل ترے بدن کا رنگ
شوق کے ان اشعار کی قرأت کے بعد بے ساختہ میر، سودا اور دوسرے کلاسیکی شعراء کی غزل کے معشوق کا حسن یاد آتا ہے۔ معشوق کا روزن دیوار سے جھانکنا،پس روزن رخ معشوق کو آفتاب خیال کرنااور معشوق کے بدن کے رنگ کوگل و بہار چمن سے برتر قرار دینا کلاسیکی غزل کی بازگشت ہے:
حشر سے تو جو ڈراتا ہے ڈرا یوں واعظ
کہ قیامت بھی ہے اس شوخ کی قامت کی طرح
خرام ناز سے پامال کر دو چل کے گلشن میں
بہت سرو و صنوبر اپنی قامت پر اکڑتے ہیں
آخری شعر میں معشوق کی قامت کی رعایت سے سرو و صنوبر کا اپنی قامت پر اکڑنا قابلِ لحاظ ہے۔ سر وو صنوبر چونکہ طوالت میں بالکل سیدھے کھڑے رہتے ہیں اس لیے ان کا سیدھا پن ان کی اکڑ بھی ہے۔ اور پھر معشوق کے خرامِ ناز میں جو بلاکی اکڑ ہے سرو و صنوبر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ الغرض ایک اکڑ کو توڑنے کے لیے دوسری اکڑ کا التزام ہی در اصل شعر کا حسن ہے۔شوق نے جس طرح معشوق کے خرامِ ناز سے سرو وصنوبر کی اکڑ توڑنے کا مضمون باندھا ہے وہ بہت خوبصورت ہے:
اللہ رے نازکی کہ وہ زلفوں سے کہتے ہیں
تم تھام لو کمر کو ہمیں قصد خرام ہے
اس شعر میں خرام کمر کی نزاکت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ زلفوں کا کمر کو تھامنا بھی خوب ہے:
نازکی کہتی ہےِ للہ سنبھالو اس کو
ہار پھولوں کے جو وہ زیبِ کمر کرتے ہیں
بل کھاتی ہے رہ رہ کے کمر آج کسی کی
سایہ مگر اس پر بھی پڑا زلف رسا کا
آخری شعر میں سایے کی مناسبت سے بل کھانے کاعمل بہت بامعنی ہے۔ دراز زلف تو کمر تک آتی ہی ہے لیکن اس شعر میں زلف کی رعایت سے سائے اور بل کھانے کا لفظ دلچسپ ہے۔ انسان جب سحرزدہ ہوجائے تو جھومنے اور بل کھانے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ زلف کے تعلق سے بھی شوق کی غزل میں مضامین موجود ہے:
مثل سنبل ایک الجھن میں پڑا رہتا ہوں میں
جب سے میرا دل اسیرِ کاکلِ ژولیدہ ہے 
چڑھا ہے زہر جن جن پر تمہارے مار گیسو کا
نہیں کچھ بھی سمجھتے وہ کالے ناگ کے بس کو
سنبل چوں کہ چوٹی کی مانندگندھی ہوئی گھاس ہے لہٰذا اسے الجھن تعبیر کرنا بہت خوب ہے۔ کاکل معشوق کے آگے کی جانب لٹکے ہوئے بال ہیں لہٰذا ان کے دام میں پھنس کر دل کا اسیر ہونا زیادہ قرینِ قیاس بھی ہے۔ آخری شعر میں گیسو کے لیے مار اور کالے ناگ کا استعارہ بہت بامعنی ہے :
معشوق کے لب
لبوں پر مل کے مِسّی کیا کروگے مات نیلم کو
نظرآنے لگا کندن کا ڈاک اپنی نگاہوں پر
کروگے پان کھا کر خون کیا لعل بدخشاں کا 
کسی کے لعل لب پر رنگ چمکا جب تبسم کا
مژگاں، ابرو اور آنکھیں
ہزاروں قتل ہوے جب بل آئے ابرو پر 
ستم کے تیر وہ بانکی کمان والے ہیں 
معشوق کے زیورات
ہوئے آویزۂ گوشِ بتاں یاقوت کے بندے
خدا کی شان ہے چمکی عجب تقدیر پتھر کی 
نہ کیوں اے غیرتِ گل بجلیاں غم کی گریں مجھ پر
کہ میں ترسا کروں اور سرگوشیاں کرے جھمکا
سنہرا گوکھرو اس شوخ نے کنٹھے میں ٹانکا ہے 
نہیں دیکھی ہو جس نے دیکھ لے شمشیر سونے کی
اے غیرت انجم ہیں یہ کس شان کے موتی
ہیں عرش کے تارے کہ ترے کان کے موتی
ہم سمجھے کہ پہلو میں ہے یہ خوشۂ پرویں
چمکے جو شبِ وصل ترے کان کے موتی
جو کی زیب گلو اس شوخ نے زنجیر چاندی کی
ہوئی کندن سے بھی بڑھ کر کہیں توقیر چاندی کی
شوق کے یہاں مسی سے نیلم کا رشتہ اور پان سے لعل بدخشاں کا رشتہ بہت خوبصورت ہے۔ معشوق کے لبوں پر چمکتے ہوئے تبسم کو کندن کے ڈاک سے تشبیہ دینا نیرنگی بھی ہے اور ایک دلکش پیرایۂ اظہار بھی۔ معشوق کی مژگان و ابرو کے تعلق سے شوقؔ نے جو شعر کہا ہے اس میں ابرو کے لیے کمان اور مژگاں کے لیے تیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ابرو کے ساتھ بانکی کی صفت لاجواب ہے۔ شعر کا سارا حسن اسی صفت کی وجہ سے ہے۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ بانکی کی صفت میں معشوق کے مزاج کی کجکلاہی بھی شامل ہے۔ ابرو کی شکل تو بانکی ہوتی ہی ہے اس طرح ’بانکی کمان والے‘ کا فقرہ بہت بامعنی ہوجاتا ہے۔ معشوق کے جھمکوں کا سر گوشیاں کرنا، سنہرا گو کھرو کنٹھے میں ٹانکنا اور معشوق کے کان کے موتیوں کو خوشۂ پرویں سے تعبیر کرنا بہت اچھوتی مثالیں ہیں۔

Saqib Fareedi
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia, New Delhi- 110025
Mob.: 9911234158







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں