14/3/19

اخترالایمان کے کلام میں ماضی کا رنگ مضمون نگار:۔ نیہا اقبال




اخترالایمان کے کلام میں ماضی کا رنگ

نیہا اقبال

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اردو نظم نے ایک نئی سمت کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا جس کا اہم سبب اس دور کا منتشر سماجی اور سیاسی ماحول تھا۔ اس وقت اردو ادب میں وہ اصناف مقبول ہو رہی تھیں جن میں اس دور کی بھر پور عکاسی بآسانی کی جاسکے اسی لیے غزل جیسی صنف نقادوں کی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔لہٰذا بیشتر شعرا نظم کی جانب متوجہ ہوئے اور اس کے دامن کو وسیع کرنے کی کا میاب کوشش کرنے لگے۔نظم میں ہیئتی تجربے بھی اسی دورکی پیدا وار ہیں۔ یعنی معرا نظم، آزاد نظم اورنثری نظم وجود میں آئیں۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جونظم گو شعرا منظر عام پرآئے ان میں اخترالایمان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس زمانے میں جہاں ایک طرف ترقی پسند تحریک اپنے بامِ عروج پر تھی وہیں دوسری جانب حلقۂ ارباب ذوق بھی وجود میں آ چکا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا ایک طے شدہ نظریہ کے تحت شاعری کر رہے تھے۔وہیں حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ شعرا اپنی آزادہ روی کے مطابق شاعری کر رہے تھے۔ جہاں تک اخترالایمان کا تعلق ہے، وہ ان دونوں میں سے کسی تحریک سے بھی باقاعدہ طور پر وابستہ نہ تھے۔ البتہ وہ حلقۂ سے کچھ حد تک متا ثر ضرور نظر آتے ہیں۔
اخترالایمان کی شاعری کی کئی جہات ہیں۔ انھوں نے نئی روش اور منفرد انداز بیان اختیار کیا۔ اس بارے میں باقر مہدی کے خیالات ملاحظہ ہوں: 
’’اخترالایمان نے اپنی شاعری کی بنیاد عام اردو شاعروں کی طرح نہیں رکھی بلکہ بہت سے ترقی پسند اور جدید شعرا سے ہٹ کر نئی طرز فکرکی راہ اختیار کی اور ہمیں ان کی ابتدائی نظمیں پڑھتے ہوئے یہ با ر بار احساس ہوتا ہے کہ شاعر صرف نئی بات کہنے کے درپے نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنی انفرادیت کی تشکیل کے لیے ایک نئے لب و لہجہ کو جنم دے رہا ہے۔‘‘ 
باقر مہدی نے اپنے اس تحریر کردہ بیان میں اخترالایمان کی نئی طرز فکر اور نئے لب و لہجے کی بات کی ہے جو ترقی پسند اور جدید شعرا سے ہٹ کر ہے۔ اخترالایمان کی نظموں میں ہمیں ان کے معاصرین سے منفرد انداز بیان تو نظر آتا ہے مگر طرز فکر وہی ہے جو اس دور میں بیشترشعراء کی تھی۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ شاعر یا ادیب کے کلام میں اپنے عہد کے واقعات و حادثات کی مکمل تر جمانی ہوتی ہے کیونکہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اور زندگی کے واقعات سے ادب کا براہ راست تعلق ہے۔اسی نسبت سے اخترالایمان کی نظموں میں بھی اپنے عہد کے سماجی و سیاسی ماحول کی تر جمانی ان کی کوئی منفرد طرز فکر نہیں ہے۔ہاں اتنا کہہ سکتے ہیں کہ کسی شاعر کے یہاں وسیع پیمانے پر اور کسی کے یہاں وسیع تر پیمانے پر اپنے ماحول کی عکاسی ہوتی ہے۔ اخترالایمان کے کلام میں اپنے دور کے واقعات وحادثات کا خوبصورت استعاراتی بیان ہے۔ جدید دور کی بیشتر علامتوں کے ذریعے انھوں نے اپنی نظموں کو مزید تہہ داری بخشی ہے، جیسے ماضی کی مٹتی ہوئی اقدار، بے بسی و محرومی، اداسی و احساس بیگانگی وغیرہ کو انھوں نے اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔ ماضی ان کی بہت سی نظموں کاموضوع ہے۔ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے وہ اس کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہیں:
رنگوں کا چشمہ سا پھوٹا ماضی کے اندھے غاروں سے
سرگوشی کے گھنگرو کھنکے گرد و پیش کی دیواروں سے
یاد کے بوجھل پردے اٹّھے، کانوں میں جانی انجانی 
لوچ بھری آوازیں آئیں جیسے کوئی ایک کہانی 
دور پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا پھولوں سے کہتا ہو
جیسے جھرنا قطرہ قطرہ رس رس کر بہتا رہتا ہو
مدّت بیتی ان باتوں کو مضطر آج تلک رہتا ہے 
دشتِ ہویدا کا دیوانہ تند بگولوں سے کہتا ہے
آگ ہے میرے پاؤں کے نیچے دکھ سے چور مری نس نس ہے
ایک دفعہ دیکھا ہے اس کو ایک دفعہ کی اور ہوس ہے!
(شفقی)
اخترالایمان کے ذہن وقلب میں ماضی زندہ و تابندہ ہے۔ان کی شاعری میں یادوں کا سایہ ہے جو ان کو مسلسل اضطراب میں مبتلا رکھتا ہے۔ ان یادوں کے بارے میں اپنے مجموعہ ’یادیں‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’یادیں تلخ اور شیریں،یادیں ماضی کی اور ماضی بعید کی، یادیں ان کی جنھیں میں نے عزیز رکھا اور ان کی جنہوں نے مجھے عزیز رکھا۔ یادیں ان مذہبی اور سیاسی عقیدوں کی جنھوں نے انسان کو پر کاہ سے زیادہ نہیں سمجھا۔ یادیں اس معاشرے سے وابستہ جہاں اخلاقی قدروں میں ٹکراؤہے اور اعلے قدریں ایک دوسرے کی ضد ہیں یہ اور ایسی بہت سی یادیں میری زندگی ہیں اور میری زندگی میں ان اخلاقی اور معاشی قدروں کا عمل رد عمل میری شاعری ہے۔‘‘ 
یہ امر فطری ہے کہ جب انسان کا ماضی اس کے حال سے زیادہ خوشگوار ہوتا ہے تو وہ ماضی کی یادوں میں کھویا رہتا ہے اور اس کو پھر سے جینے کی تمنا رکھتاہے۔وہ ماضی کی بہترین یادوں کو ہی یاد رکھتا ہے اور حال میں اس کے پہلو بہ پہلو چلتا ہے۔ وقت ہر پل متحرک ہے،ہر لمحہ ہم اپنے ماضی کی جانب سفر کرتے ہیں اور مستقبل میں قدم رکھتے ہیں۔ اس طرح ہماراآج ہی کل ماضی میں تبدیل ہو جاتا ہے لہٰذا ہمارا ما ضی ہمارے آج پر منحصر ہے۔ماضی میں جو پیار، محبت، رشتوں کی اہمیت، انسان کی اہمیت، جذبات کی اہمیت، صداقت و خلوص تھا وہ حال کی اس بے رحم و بے وفا دنیا میں کھو سا گیا ہے۔شاعر اس کا بیان اس طرح کرتا ہے:
جب حنائی انگلیوں کی جنبشیں آتی ہیں یاد 
جذب کر لیتا ہوں آنکھوں میں لہو کی بوند بھی 
اب مگر ماضی کی ہر شے پر اندھریرا چھا گیا
اور ہی راہوں سے گزری جا رہی ہے زندگی 
ذہن میں ابھرے ہوئے ہیں چند بیجاں سے نقوش
اور ان میں نہیں ہے کوئی ربطہ باہمی 
(لغزش) 
اخترالایمان کی نظموں کا خاص موضوع اقدار ہے۔ موجودہ دور میں اقدار کی شکست کی بدولت زندگی کی ہر شے میں بے بسی و مایوسی پیدا ہوگئی ہے۔اس کو شاعر نے شدت سے محسوس کیا اور اپنی نظموں میں اس کو پیش بھی کیا۔ ’مسجد‘، ’موت‘،’پرانی فصیل‘،’قلوپطرہ،ایک لڑکا‘ وغیرہ ان کے ماضی پر لکھی گئی بہترین نظمیں ہیں۔ ان میں اخترالایمان نے ماضی کی مٹتی ہوئی اقدار کا بیان ایک مجبور و بے بس تماشائی کی طرح کیا ہے۔ جس کی بدولت ایک کرب جنم لے لیتا ہے۔اور یہ کرب ان کو مضطرب کئے رہتا ہے۔ ’نیا آہنگ‘ کے پیش لفظ میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میری شاعری کیا ہے، اگر ایک جملے میں کہنا چاہیں تو میں اسے انسان کی روح کا کرب کہوں گا... یہ کرب مختلف اوقات میں مختلف محرکات کے تحت الگ الگ لفظوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ‘‘ 
اخترالایمان اپنی شاعری کو روحِ انسانی کے کرب سے تعبیر کرتے ہیں۔اصل میں ان کی شاعری انسان کی داخلی کیفیت کا المیہ ہے،جو اس متبدل زمانے میں بے بسی و بے حسی کا شکار ہوچکا ہے۔ پرانی تہذیب اس جدید دور میں کہیں کھو سی گئی ہے۔قدیم تہذیب کے نقش شاعر اپنے زمانے میں ڈھونڈتا ہے کہ کاش وہ تہذیب پھر سے پیدا ہوجائے:
یہاں اسرار ہیں، سرگوشیاں ہیں، بے نیازی ہے
یہاں مفلوج تر ہیں تیز تر باز و ہواؤں کے 
یہاں بھٹکی ہوئی روحیں کبھی سر جوڑ لیتی ہیں
یہاں پر دفن ہیں گزری ہوئی تہذیب کے نقشے
(پرانی فصیل)
اخترالایمان کی شاعری دنیا کی بدلتی ہوئی سماجی و سیاسی اقدار کی غماز ہے۔ بلکہ یہ کہنے میں کیا تامل کیا جائے کہ انھوں نے اپنے ماحول کی بہترین عکاسی کی ہے،جس کی بدولت وہ معاصر شعرا میں ممتاز ہیں۔ مٹتی ہوئی سماجی اقدار پر ان کی عمدہ نظمیں مسجد، موت،پرانی فصیل وغیرہ ہیں جو ان کے پہلے مجموعہ کلام ’گرداب‘ میں شامل ہیں۔ نظم مسجد میں انھوں نے مسجد کو علامتی طور پر پیش کیا ہے۔ مسجد کی شکستہ حالت دیکھ کر انھیں دنیا کی بے ثباتی کا شدیداحساس ہوتا ہے انھوں نے خود مسجد کو مٹتی ہوئی تہذیب کا المیہ قرار دیا ہے۔ مسجد کی شکستہ حالی اصل میں اس دور کی شکستہ حالی اور شکستہ تہذیب کی علامت ہے۔ پوری نظم میں علامتی رنگ و آہنگ غالب ہے۔
اخترالایمان کے یہاں ماضی کی باز آفرینی مختلف اشکال میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ کہیں علامتی لب و لہجہ میں اور کہیں طنز یہ اسلوب میں۔
یہی سبب ہے کہ ماضی کی مٹتی ہوئی اقدار کو پیش کرتے ہوئے اخترالایمان کی نظموں میں طنز کا عنصر غالب آ جاتا ہے۔انھوں نے اپنے دور کے تضادات اور تلخی کو محسوس کیا ہے۔ لوگ اپنی زمین اور اپنوں کو چھوڑ کر بڑے شہروں کی پر فریب دنیا کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ اخترالایمان بڑے شہروں کی بے ثباتی کے ساتھ چھوٹے شہروں اور گاؤں کی معصوم و سادہ زندگی کو یاد کرتے ہیں۔ان بڑے شہروں میں انسان کی تنہائی، اجنبی ماحول اور افراتفری کو طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ نظم ’عروس البلاد‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو: 
وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے 
بسوں کے شور میں ریلوں کی گڑگڑاہٹ میں
چہل پہل میں بھڑوں جیسی بھنبھناہٹ میں 
کسی کو پکڑو سر راہ مار دو چاہے 
کسی عفیفہ کی عصمت اتار دو چاہے!
وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے!
(عروس البلاد)
اس افراتفری کے عالم میں جہاں انسان محض اپنے بارے میں سوچ رہا ہے۔اس کی تہذیب، اس کے اپنے اس سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ مگر جب کبھی اس کو ان کے ساتھ زندگی کے خوشگوار لمحوں کی یاد آتی ہے تو وہ ان لوگوں کو اس بے رحم دنیا میں ڈھونڈنے نکلتا ہے،جہاں صرف دھند کا سایہ رہ گیا ہے۔نظم ’یادیں‘ میں شاعر اپنوں سے دوری کا کرب اس طرح بیان کرتا ہے:
ساری ہے بے ربطہ کہانی دھندلے دھندلے ہیں اوراق 
کہاں ہیں وہ سب جن سے جب تھی پل بھر کی دوری بھی شاق
(یادیں)
اخترالایمان کی شاعری میں ماضی اور حال کا تصادم نظر آتا ہے۔ وہ ماضی کے خوشگوار لمحوں کو حال پر فوقیت دیتے ہیں۔ ماضی کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے اپنی نظموں میں گزرے ہوئے وقت کا تماشا دکھایا ہے۔جگہ جگہ شاعر نے ماضی کے گزر جانے کا المیہ اور مستقبل میں ماضی کی اقدار کو پھر سے قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ’نشاۃثانیہ ‘میں وہ ماضی کے خوبصورت لمحوں کاآ ئندہ نہ آنے کا افسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے علا وہ بھی اور بہت سی نظموں میں شاعر نے اپنی اسی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ماضی کی خوشگوار راہیں وہ حال کی تاریکی میں اس طرح ڈھنڈتے نظر آتے ہیں:
تاریکی میں ڈھنڈتا ہوں راہیں 
سورج کو ترس گئیں نگاہیں!
(واپسی)
اخترالایمان کا ماضی ان کی زندگی اور شاعری میں اس درجہ حاوی ہے کہ اگر وہ خود بھی اس کی زنجیروں کو توڑ نا چاہے تو نہیں توڑ سکتے۔ وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’گرداب کا شاعر ایک ایسے سنگم پر ایستادہ ہے، جہاں ایک طرف ماضی کی عمارت گر رہی ہے اور دوسری طرف مستقبل کے اندھیرے سے غیب کی آواز یں اسے مسلسل سنائی دے رہی ہیں۔ خودشاعر ماضی کی تباہی کا منظر دیکھ چکا ہے اور اس ماضی اور ماضی کے ساتھ وابستہ تصورات کے لیے اس کے پاس بجزایک جلتے ہوئے آنسو کے اور کچھ نہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ماضی کی زنجیریں اس سے بری طرح لپٹی ہوئی ہیں۔‘‘ 
حال میں جہاں ماضی کی اقدار ایک ایک کر کے پامال ہو رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں شاعر کو اس کا قوی امکان ہے کہ آئندہ زمانے میں محبت جیسا پاک و پاکیزہ جذبہ بھی اس بے مروت دنیا میں کہیں کھو جائے گا۔اس بات کو شاعر نے سہل ممتنع میں بہ حسن و خوبی پیش کیا ہے:
اور یہ میری محبت بھی تجھے جو ہے عزیز 
کل یہ ماضی کے گھنے بوجھ میں دب جائے گی
(موت)
وقت کے مسلسل بہاؤ کی بدولت دنیا کے ساتھ ساتھ ہر چیز بدل رہی ہے۔ یہاں تک کہ اب محبت کا بھی کوئی اعتبار نہیں کہ مستقبل میں رہے یا نہ رہے۔ تنہائی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ انسان قوتِ احساس بھی کھوتا جا رہا ہے۔ غم و نشاط میں اس کو کوئی فرق نظر نہیں آتا،نہ اب اس کو کسی چیز کی خوشی ہے نہ کسی کا غم۔اخترالایمان اس کا بیان کس شاندار انداز میں کرتے ہیں:
ساقی و بادہ بھی نہیں، بام و لب جو بھی نہیں 
تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں 
(جمود)
اخترالایمان کو جذبات، احساسات اور کیفیات کے ختم ہونے کا بے حد افسوس ہے۔ انھوں نے اپنی پوری شاعری میں اسی درد وغم کو استعاراتی اور علامتی انداز میں پیش کیا۔ گزرتے ہوئے وقت نے شاعرسے اس کے خوشگوار ماضی کے ساتھ اس کا سب کچھ چھین لیا ہے اب وہ تنہائی و بے بسی اور ماضی کی یادوں کے سہارے اپنی باقی زندگی گزار رہا ہے۔ الغرض اخترالایمان کی شاعری کا مختصر جائزہ لینے کے بعدان کی شاعری میں ماضی کا رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔

Neha Iqbal
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)








قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں