14/3/19

منفرد رَدیفوں کا شاعر:جون ایلیا مضمون نگار:۔ مستجاب شیلی



منفرد رَدیفوں کا شاعر:جون ایلیا
مستجاب شیلی

اُردو شعریات میں قوافی اور ردیفوں کے ذریعہ خوبصورتی و بانکپن پیدا کرنے والے متعدد، مقبول و ممتاز شعراء پہلے بھی تھے اور آج بھی بہت ہیں۔ پرانے زمانے کے شعراء میں بھی اس سلسلے میں حسن و اسلوب کی کمی نہیں رہی۔ غزل کی ابتدا سے اب تک یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں کہ زبان و بیان کی روانی و بیباکی، محاوراتی طرز بیان، استعارے، علامتیں، فلسفیانہ سوچ و فکر اور دیگر ان گنت خوبصورتیوں کے ساتھ ہی ردیفوں اور قوانی کے حسن سے اشعار کے بنیادی تخیلات میں چارچاند لگ جاتے ہیں اور مضامین ان سب کی مدد سے جیسے سیدھے دل میں پیوست ہوتے ہیں۔ 
اس ضمن میں موجودہ دور کے کتنے ہی شعرا قابل ذکر اور قابل صدستائش ہیں جیسے فیض احمد فیض، احمد فراز، ناصر کاظمی، ندافاضلی، راحت اندوری وغیرہ اور بھی کتنے ہی نام۔۔۔
اُردو شاعری میں اُسلوب کی تقلید اور پیروی کرنے والے شعراء اور انھیں پسند کرنے والے شائقین بھی ہر دور میں موجود ہوتے ہیں، لیکن جون ایلیا کی اپنی منفرد و مخصوص شخصیت ہے۔ ان کی کتنی ہی غزلوں میں بالخصوص ردیفوں کا حسن تو بس دیکھتے، سمجھتے اور محسوس کرتے ہی بنتا ہے اوران کی طرز اپنی الگ ہی شناخت بھی کراتی ہے، اور بعد میں بھی وہ ردیفیں ذہن میں رس گھولتی رہتی ہیں۔ ایسے اکثر اشعار تو سنتے یا پڑھتے ہی جیسے فوراً یادداشت سے لپٹ کر جبراً حفظ ہوجاتے ہیں۔ علاقائی، وطنی الفاظ اور مخصوص محاوروں والی زبان اشعار میں عجیب و غریب آویزش سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی غزلوں کی یہ خوبصورتی بس پڑھتے، سنتے جائیے اور مسحور کن کیفیات سے دوچار ہوتے رہیے۔
جون ایلیا کے یہاں رومانیت، جمالیاتی و تخلیقی انداز، فرقت کے درد و سوز اور ایک بے ساختہ دیوانہ پن، یہ سب کچھ اپنے الگ ہی رنگوں میں ہیں۔ کہیں ایسا لگتا ہے جیسے رومانیت ایک سرسری ساجذبہ ہے۔ کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رومانیت ابدیت میں تبدیل ہوکر سارے کائناتی جذبوں پر چھاگئی ہے۔ اسی طرح فرقت کے موضوعات بھی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ فرقت تمام انسانی احساسات کی روح میں اتر گئی ہے اور اس سے جو دیوانگی پیدا ہوئی ہے وہی زندگی کا حاصل و مقصود ہے۔مگر باوجود اس شدت کے ہر جگہ دور کہیں روشنی کی ایک کرن بھی پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔ رومانیت، وصلت و فرقت اور دیوانگی سے لبریزچند مطلعے ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا؟
زمانہ بھر سے وعدہ کر لیا کیا؟

نظر حیران، دل ویران، میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان، میرا جی نہیں لگتا

اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار، آنکلو
شروعِ شب کی محفل ہے، میری سرکار آنکلو

ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

عذابِ ہجر بڑھا لوں، اگر اجازت ہو
اک اور زخم میں کھا لوں، اگر اجازت ہو

دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
جون ایلیا کی شاعری میں وطن کی یاد ایسی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ہے کہ سنیے یا پڑھیے بہرحال رقت طاری ہونے کی کیفیت سے گزرنا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو پہاڑی علاقوں میں جیسے بارش نہ ہونے پر بھی بادل جسم کو گیلا کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں، ویسے ہی جون ایلیا کے یہ اشعار آنکھوں میں نمی ضرور پیدا کر دیتے ہیں۔ ہجرت کا درد بھی ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ ہے اور ہر لمحہ دل کو چھوتا ہوا گزرتا ہے ۔ اس ضمن میں کچھ مطلعے حاضر ہیں:
زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں، مگر خیریت سے ہیں

بد دلی میں بے قراری کو قرار آیا تو کیا
پاپیادہ ہوکے کوئی شہ سوار آیا تو کیا

طلسمی سرزمیں ہے، جانے کیا ہو؟
یہاں کچھ بھی نہیں ہے، جانے کیا ہو؟

نویدِ عشرتِ فردا، کسے مبارک ہو؟
خیالِ انجمن آرا، کسے مبارک ہو؟

آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے، یادگار تھے ہم تو
بے کیفی، بے یقینی اور احتجاج کی فلسفیانہ طرزِ نگارش کے مدنظر جون ایلیا کی شعریات جس اذیت اور جن ذہنی تکالیف کے تجربات سے بھی گزرتی ہو یا پھر شاعری کے لیے ان کی اپنے وجود کی سپردگی اور ہر قسم کے انسانی احساسات میں پوری طرح اُتر کر وہ اپنے فلسفیانہ اندازِ فکر کو ظاہر کرتے ہوں، یہ سب قاری اور سامع کو عجیب سے جہانوں کی سیر کراتے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان کی اپنی ہی سیدھے دل میں اتر جانے والی زبان و طرز ہیں، ملاحظہ کریں چند اشعار:
ہے فصیلیں اُٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں

میں بے حسابِ سود و زیاں، کیا کروں بھلا
کوئی یقین ہے نہ گماں، کیا کروں بھلا

عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے 
دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے
جون ایلیا نے نہ صرف یہ کہ رباعیات سے ملتے جلتے اوزان میں بھی بڑی تعداد میں غزلیں کہیں، بلکہ وہ طرح طرح کی نت نئی ردیفوں کے استعمال اس میں بھی ویسی ہی چابک دستی سے عمل میں لاتے رہے ہیں۔ ردیفوں کے حسن نے یہاں بھی اسی طرح مزہ دیا۔ ساتھ ساتھ جمالی، فنی کیفیات نے بھی وہی جوہر دکھائے جیسے کہ عام غزلوں میں۔ رومانی فضاؤں اور فراق کی کیفیات سے مرصع کچھ مطلعے حاضر ہیں:
خاموشیِ بام بڑھ رہی ہے
تاریکیِ شام بڑھ رہی ہے

وحشت کو سوا نہ کیجیو اب
تم ذکرِ وفا نہ کیجیو اب

یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں میں
سینے میں عذاب رکھ رہا ہوں میں
فلسفیانہ سوچ اور اس کا اظہارِ خیال وہ بھی ردیفوں کے انفرادی حسن کے ساتھ فکر کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اس مزاج کے چند مطلعے پیش ہیں:
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
میں کام نہ کرکے تھک گیا ہوں
جون ایلیا نے مشہور زمانہ ایرانی شاعرہ قرۃالعین طاہرہ (فاطمہ زرّیں تاج)کے حسین وجمیل کلام کے اندازمیں بھی طبع آزمائی کی جو ان کی شعریات میں علیحدہ ہی ایک نمونہ بن گئی۔وہ غزل الگ ہی اپنا حسن رکھتی ہے۔ اس غزل کے دو اشعار، مطلع و مقطع حاضر ہیں:
بخششِ نرگسِ صنم، دور بہ دور، دم بہ دم
مینا بہ مینا، مے بہ مے، جام بہ جام، جم بہ جم
ورثہ عجب شبیہہ کا، جون تمھیں دیا گیا
آہ بہ آہ، اُف بہ اُف، غزوہ بہ غزوہ، غم بہ غم
عشق وطن اور وطن سے دُوری کا درد اُن کی شاعری میں، ان کے شہر کی ندیوں، درگاہوں، محلوں اور گلیوں تک کے ناموں کی یاد کی صورت میں بھی ملتے ہیں، ملاحظہ کریں:
جاؤ قرارِ بے دلاں! شام بخیر، شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں، شام بخیر، شب بخیر

ہم جان و دل سے یار تھے، ہم کون تھے، ہم کون تھے
ہم میں سے کچھ دلدار تھے، ہم کون تھے، ہم کون تھے

جو بھی ہے یاں ہے یادگار، آخرِ شب ہے دوستاں
ہے شبِ آخرِ بہار، آخرِ شب ہے دوستاں

مت پوچھو کتنا غمگین ہوں، گنگا جی اور جمنا جی
میں جو تھا اب میں وہ نہیں ہوں، گنگا جی اور جمنا جی

ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
فلسفیانہ اظہارِ خیال، تلمیحات اور بعض افعالی کیفیات و علاقائی مثالیں جون ایلیا کی شاعری میں دُور تک اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہیں:
شمشیر میری، میری سپر کس کے پاس ہے؟
دو میرا خود، پر مرا سر، کس کے پاس ہے؟

منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
جون ایلیا کی غزلوں میں بہت سی ردیفیں تو منفرد ہونے کے ساتھ ہی اتنی عجائبات میں سے ہیں کہ وہ اُن کی بالکل ہی الگ پہچان ومقام کے لیے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اسلوب، بیان،تخیل کی بلندی، زبان کا فطری محاوراتی استعمال، بے ساختگی اور کتنی ہی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایسی بے مثال ردیفیں، یہ سب قاری کو ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو اسے جون ایلیا کا گرویدہ اور ان کی غزلوں کا عاشق بناتی ہیں۔ 
اظہارِ عشق کا الگ اپنا انداز، اور مایوسیوں سے مسلسل گزرتا عشق، امتیازی حیثیت کا حامل ہونے کے ساتھ ہی وقت کی نزاکتوں کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے:
یہ غم کیا دل کی حالت ہے، نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے، نہیں تو

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

گاہے گاہے بس یہی ہو کیا؟
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا؟

کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو ، پر نہ رہیو

کیا یقیں اور کیا گماں، چپ رہ
شام کا وقت ہے میاں، چپ رہ

اپنے گھر کی یاد اور اس کے چھوٹ جانے کا غم اور اُس پر پردیس میں بیگانے پن کا احساس، اپنوں کی چھوٹی سے چھوٹی خوبیاں، کمیاں، بے کیفیوں کے احساسات ان کے یہاں خوب تر ہیں:
ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے، اماں کے تھے ہی نہیں

دل نے کیا ہے قصدِ سفر، گھر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے، منظر سمیٹ لو

یہاں تابِ سخن ہے، کچھ نہ کہیو
بڑا بے گانہ پن ہے، کچھ نہ کہیو
زندگی جینے کا اپنا فلسفہ اور دماغ میں سرایت کرتا ہوا دکھوں کا انبار اور شکایات کے ذکر بھی اچھوتے اندازِ بیان کے مظہر ہیں:
جانے یہاں ہوں، میں یا میں
اپنا گماں ہوں، میں یا میں

ہر نفس پیچ و تاب ہے، تا حال
ہوسِ انقلاب ہے، تاحال

میرے مطلوب و مدعا! تو جا
تجھ سے مطلب نہیں ہے جا، تو جا

بخشش ہوا یقین، گماں بے لباس ہے
ہے آگ جامہ زیب، دھواں بے لباس ہے

Mustajab Ahmad Siddiqui
105, Begum Sarai Khurd
Amroha - 244221 (UP)
Mob.: 9897103834
E-mail: shelle.mustajab@gmail.com







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں