14/3/19

اردو شاعری کی ماہِ تمام: پروین شاکر مضمون نگار:۔ نایاب حسن



اردو شاعری کی ماہِ تمام: پروین شاکر

نایاب حسن

حیران آنکھوں، شبنمی رخساروں، کشادہ پیشانی اور اداس مسکراہٹ والی ایک لڑکی نے محض 25سال کی عمر میں اردو شاعری کی دنیا میں اِس شکوہ کے ساتھ قدم رکھا کہ معاصر اہلِ ادب و شعر کی نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔ اردو ادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے، مگر شاعرات اور وہ بھی ایسی شاعرات، جن کے لب و لہجے نے، انداز و اسلوب نے، مضامینِ شعرنے، خیالات کی ندرت و جدت نے اور البیلے طرزِاظہار و ادا نے ایک دنیا کو مسحور کردیا ہو، کم ازکم اردوادب میں نایاب نہیں توکم یاب ضرور ہیں۔ پروین شاکر (24؍نومبر1952۔ 26؍دسمبر1996) سے پہلے اردو میں چند نامورخاتون شاعرات تھیں اور خودان کے دورمیں بھی اداجعفری، کشورناہید، فہمیدہ ریاض وغیرہ اعلیٰ پایے کی شاعرات موجودتھیں، جن کی قدرپروین شاکر بھی دل سے کرتی تھیں، مگر اس کے باوجود اردو شاعری کو جو لہجہ پروین نے دیا، وہ سب سے اچھوتا، انوکھا اور دل چسپ تھا، انھوں نے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں، انفرادی مشکلوں، معاشرتی جکڑبندیوں، حسن و عشق کی خاردارراہوں کی آبلہ پائیوں کا ذکر اپنی شاعری میں بڑے منفرداندازمیں کیا۔ پروین شاکر بلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوں سے بھی آراستہ تھیں، انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی، ہارورڈ یونیورسٹی اورٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوں نے اعلیٰ علمی ڈگریاں حاصل کی تھیں، شعور و آگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا، وہ آگہی، جس نے ان پر شہرِذات کے دروازے کھولے اورجس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردو شاعری کو مالامال کردیا۔ پروین شاکر نے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کو آشکار کرنے کے لیے ’ضمیرِمتکلم‘کا استعمال کیا، جس نے ان کے سامعین و قارئین کی توجہات کواپنی جانب مبذول کرنے میں غیرمعمولی مقناطیسی کرداراداکیا، جن مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے، ہوسکتاہے، وہ سارے مسائل خوداُنھیں درپیش نہ ہوئے ہوں، مگران کی شاعری کوپڑھنے، مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے میں اُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوں میں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیا ہے؛ شاید یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اردوشاعری میں اُن کا ظہورہوا، انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’خوشبو‘ 1976 میں منظرِعام پرآیااور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا۔پھریکے بعد دیگرے ’صدبرگ‘ (1980)، ’خودکلامی‘ (1980)، ’انکار‘ (1990) ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور سب کوبے پناہ مقبولیت، پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا، پروین شاکرکا پانچواں شعری مجموعہ ان کی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال’کفِ آئینہ ‘کے نام سے ان کی بڑی بہن نسرین شاکرکی نگرانی میں زیورِطبع سے آراستہ ہوا، اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور ’کفِ آئینہ‘ خودانہی کا تجویزکردہ نام ہے، ’ماہِ تمام‘کے نام سے ان کی مکمل کلیات دستیاب ہے۔پروین شاکرکی شاعرانہ عظمت و بلندقامتی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب ’خوشبو‘ پر ’آدم جی ایوارڈ‘سے سرفراز کیاگیا، جبکہ 1990 میں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز ’تمغۂ حسنِ کارکردگی ‘بھی انھیں تفویض کیاگیا، 1982ء میں جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں، تو اردو کے پرچے میں ایک سوال خود ان کی شاعری کے تعلق سے تھا، ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش، جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے۔ پروین شاکر کو متعدد ناقدین نے بیسویں صدی کی مشہورایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد(5؍جنوری 1935۔13؍فروری 1967) سے تشبیہ دی ہے اورواقعتاً دونوں کی خانگی و معاشرتی زندگی سے لے کر، شاعری کی تھیم اور جواں مرگی تک میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے، پروین شاکرکوفروغ سے ذہنی وابستگی بھی تھی، انھوں نے فروغ کے لیے ایک نظم بھی لکھی تھی، جوان کے شعری مجموعہ ’خودکلامی‘ میں شامل ہے:
مصاحبِ شاہ سے کہوکہ
فقیہِ اعظم بھی تصدیق کرگئے ہیں
کہ فصل پھرسے گناہ گاروں کی پک گئی ہے
حضورکی جنبشِ نظرکے
تمام جلادمنتظرہیں
کہ کون سی حد جناب جاری کریں....
پروین شاکرکی ممتازشاعرانہ خصوصیت جذبے کی صداقت ہے، وہ اپنے خیال و فکرکوپوری وضاحت، دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں، چاہے معاملاتِ عشق ہوںیاکاروبارِ معاشرت و سیاست، کسی بھی پہلوپرجب وہ گویاہوتی ہیں، توکسی قسم کا ابہام، اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں، لطافت، شوخی، خیال کا جمال اوراحساس کی نازُکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکرکے یہاں جلوہ گرہیں، بارش، شبنم، نور، روشنی، رنگ، دھوپ، جنگل، آندھی، ہوا، گلاب، تتلی، سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں، جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکروتدبرسے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے، خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ، استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طورسے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکرکی شاعری میں کمال کی حد تک پایاجاتاہے، ذیل کے کچھ اشعارسے پروین شاکرکی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے:
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی
نوید ہو کہ بدن سے پرانے خواب اترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں
مثالِ قطرۂ شبنم ترا جواب اترے

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہواکے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا

جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھر تیرے تصورکے کسی لمحے میں
تیری تصویر پہ لب رکھ دیے آہستہ سے

چہرہ میرا تھا، نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں، شامیں اس کی
دور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مجھ کو تھامے ہوئے بانہیں اس کی

کھلی آنکھوں میں سپنا جاگتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
میں اس کی دست رس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

تجھ کو کھوکربھی رہوں خلوتِ جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ
پروین شاکرنے محبوب کی بے رخی، بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کوبھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہے، مگر یہاں بھی وہ طرزِادامیں دیگرشعراسے ممتاز ہیں، اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی، مگرملتجیانہ اورپرامید بھی ہے، وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں، مگردرپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:
اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتابھی نہیں
اب کس امیدپہ دروازے سے جھانکے کوئی

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی توہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے، توکچھ بھی نہ بتانے آئے

کوئی توہو، جو مرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روزاِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے توایک بات کی، اس نے کمال کردیا!

ہمیں خبر ہے ہوا کا مزاج رکھتے ہو
مگریہ کیا کہ ذرا دیر کو رکے بھی نہیں!

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اُلجھ جاتی ہیں
پروین شاکرکی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے، جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحۂ وصال کی تعبیروترجمانی میں انھوں نے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیاہے اورسرشاری، وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیاہے، خاص طورسے’خوشبو‘کی غزلوں کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہارہے، ایک غزل:
سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازووں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا
گرمیِ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پرشرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم دھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہرجائیں، ٹھہرجائیں ذرا!
معاملاتِ حسن وعشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری، استحصالی سسٹم، چہار سمت بکھرے ہوئے خوف، زیردستوں کے تئیں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی پروین شاکرکی شاعری میں متعدد مقامات پردیکھنے کو ملتا ہے:
میرا سر حاضرہے، لیکن میرا منصف دیکھ لے
کررہا ہے میری فردِ جرم کو تحریر کون
میری چادر توچھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون

وہ خوف ہے کہ سرِ شام گھرسے چلتے وقت
گلی کا دور تلک جائزہ ضروری ہے

لہو جمنے سے پہلے خوں بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑاہے
کسی بستی میں ہوگی سچ کی حرمت
ہمارے شہر میں باطل بڑا ہے
انھوں نے معاشرے کے دبے کچلے، مزدوروکامگار طبقے کے مختلف کرداروں پر بھی شاعری کی ہے اوران لوگوں کی طرف حمایت کا ہاتھ بڑھایاہے، جن کی شب و روزکی جفاکشی سے دوسرے لوگ توخوب فیضیاب ہوتے ہیں، مگروہ بے چارے ساری زندگی تہی مایہ و بے سروساماں ہی رہتے ہیں۔ ’انکار‘کی نثری نظموں کابیشترحصہ ایسے ہی کرداروں کومنسوب ہے۔
پروین شاکرکاایک اوراہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مخصوص شعری صنف ’نثری نظم‘ کو نئی بلندیوں اور مقبولیت کی نئی منزلوں تک پہنچایا، ان کے دورمیں اور ان سے پہلے بھی کئی بڑے شاعروں نے اس صنف کواختیار کیا تھا، مگرپروین شاکرکی بدولت اس صنفِ شاعری کا جغرافیہ مزیدوسیع و عریض ہوگیا۔
پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردوکے لفظیاتی ذخیرے اورتعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ، لطیف وحسین تعبیروں سے آشنا کیا، انھوں نے اپنے خیال کو الفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوں کی ایسی تراکیبِ نوتراشیں، جن سے اردوادب کوایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے، انھوں نے اپنی پوری شاعری میں جونئی اورانوکھی تعبیریں استعمال کیں، ان کی صحیح تعدادکئی سو ہوسکتی ہے۔ مگر اپنی رسائی کے بقدرراقم ان کی شاعری کا مطالعہ کرکے جنھیں اکٹھا کرسکاہے، وہ یہ ہیں:شیشہ رُو، بنفشی ہاتھ، دریچۂ گل، موجۂ گل، سایۂ گل، پایۂ گل، چشمِ گل، قامتِ شعر، سروبدن، قریۂ جاں، خانہ بجاں، شجرِ جاں، حجلۂ جاں، نقدِ جاں، جاں گزارنا، رخشِ جاں، پیشِ جاں، عرصۂ جاں، آتشِ جاں، کلبۂ جاں، طائرِ جاں، شیشۂ جاں، خیمۂ جاں، تہہ خانۂ جاں، عکسِ خوشبو، حرفِ سادہ، موجِ ہوا، ذہین نگاہ، دستِ صبا، پہاڑ دن، اُجاڑ رات، زبانِ رنگ، لمسِ مرگ، گلابی دھوپ، سانپ راتیں، اُلوہی لمحے، قباے خاک، دل زدہ، پھول بدن، شہرِ ناسپاس، اُجلی خواہش، سحاب لہجہ، خزاں زاد، نایافت شہریت، خواب آسا سکوت، بے چہرہ وجود، قرطاسِ بدن، ہوابردہوجانا، شبنم بدست، شب گزیدہ، خوش بدن، درِکم باز، زَردائی ہوئی رُت، شہرِ سخن فروشگاں، مادرزاد منافق، شہرِ صدآئینہ، شبنم رنگ پیشانی، گلابی لذت، لمسِ گریزاں، نرم فامی، لالہ فامی، سبک نام، چھاؤں اُگانا، موسمِ بے اختیاری، چہرہ اُگانا، دست بستہ شہر، بے فیض بدن، بھوکی آنکھ، جلتا فقرہ، شب زاد، موجۂ خواب، سہم ناکی، عنکبوتی ہنر، کوفۂ عشق، سورج خور، شاخِ گریہ، خوابِ یکتائی، لمحۂ جمال، حرفِ اندمال، ناخنِ وصال، گونگے سناٹے، خوش چشم، دلِ شب زاد، تہی زاد، جمشید کُلاہی، خنجرِ گل فام، شہرِ رسن بستہ، کلاہِ زخم زدہ، سفاک لمحے، نشاطِ حسن بازی، کنارۂ روح، شہادت گہہِ وفا، حرفِ سبز، صاعقہ مزاج، بدن گیرغراہٹ، ستارہ ساز ہاتھ، زمزمہ آثار، ہوانژاد، کفِ گلاب، آئینہ نژاد، فصیلِ شوق، آئینے کی آنکھ، دیدۂ بے خواب، اصل شناس، افراطِ خواہش، تفریطِ وقت، درہمِ خودداری، دینارِ عزتِ نفس، منسوخ شدہ قدریں، آدابِ مسافرداری، صلیبِ خوں آشام، صیغۂ عقد، ہوامزاج، ستارہ سوار، قیمتِ شگفت، نیم بیدار منظر، بیضوی موڑ، شاخِ بدن، خوش لمس ہوا، زندگی کمانا، تیرِ شناسائی، سنسان زندگی، ہجومِ ہم خوابگاں، بنجر ذہنوں میں پھول اگانا، ناخنِ ملال، تہہ خانۂ غم، دیوارِ خواہش، بدن کے موسم، ذہن افگن مسئلہ، فصیلِ جسم، آوارگانِ شب، طائرِ امید، آسماں جناب، سوچ سے خوشبوبنانا، یرقانی سوچ، گرگ زاد غم خواری، دل کی آبروریزی، ہمہ تن چشم، بساطِ زیست، زمیں زاد، نشتر بدست شہر، فرشِ فلک، عہدِ مہرباں، دہلیزِ سماعت، فضاے حرف و صوت، توازن گر طبیعت، خانۂ آئینہ ساماں، گلابی خوشبو، حدِّبصارت، جنتِ خاشاک نہاد، عظمتِ یک لحظہ، وقت کی ہم گامی، نصابِ تملُّق، کوے جفا، عذابِ دربدی، سفیدپوشیِ دیوارودر، خرقۂ غم، پوشش رسوائی، چادرِ دل داری، حصارِ دعا، جگنوسی زمیں، کفِ آسماں، قباے شجر، دیارِ عزال چشماں، شب پیمائی، موسمِ بے چہرگی، آئینہ بردوش، عکسِ بے منظر، پرندِ خوش خبر، مداراتِ الم، سبزۂ بیگانہ، ریشمیں فرصت، شعلہ رُو، فرش خوابی، ہواے شہرِ ستم، قباے سخن، مجاورینِ ادب، طائرِ خوں بستہ، بوسیدہ بیوی، جہنمی درجۂ حرارت، محبت کی کلینکل موت، نوخیز خوشبو، منصبِ دلبری، نرم روشنی، وعدہ گہہِ ہستی، صبح چہر، آوازکاچہرہ چھونا، جنوں خیز خوشبو، موسمِ عنبرفشاں۔
پروین شاکرکاآبائی وطن ہندوستان کے شہردربھنگہ سے متصل ایک بستی ’’چندن پٹی‘‘تھا، 1947ء میں ان کے والد کراچی ہجرت کرگئے تھے اورپروین شاکرکی پیدایش ونشوونماوہیں ہوئی، مگراس کے باوجودانھیں ہندوستانیت سے گہری وابستگی تھی اوراسی نسبت سے یہاں کی ہندی زبان اور ہندوستانی تہذیب سے بھی وہ آگاہ تھیں، انھوں نے اپنی شاعری میں بعض خالص ہندی الفاظ کوجس چابک دستی و ہنرمندی سے برتااور استعمال کیاہے، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ہندی زبان و ادب پر بھی دستگاہ رکھتی تھیں، ان کے یہاں دیوتا، مدُھر، سنگیت، سمے، سنسار، پریم، روپ، من موہن، سَکھی، سُر، اَنگ، رُت، سنگم، دیس، بَن، جنم، سندیس، ساگر، آدرش، گمبھیر، راج کماری، بھور، سنگ، ساجن، گوری، مُکھ، نین، مُسکانا، سہاگن، سندرتا، جَگ، پرویَّا، پجاری، سادھو، منتر، بن باس لینا، ریکھا، وِیر، مہکار، سیندور، کجرا، ہِردے، چتا، داسی، درشن، امرِت، شریر، کومل سر، پوتر، چر ن، بھوَن، بھیتر، سنجوگ، پتی، آکاش، چندرما، آتما، چھایا، راجا، بدھائی، جل، بِنتی، سینتنا، سانجھ سویرے، سمبندھ، سمان، راج رتھ، آرتی اتارنا، آڑھت، آشا، پُرش، بھاگ، اپمان، بلیدان، سمپورن، شبد، ادھیکار، دان کرناجیسے الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انھوں نے کئی غزلوں میں مذہبی علامتوں مثلاً دیوالی، مندر، گنگا، کرشن، گھنشیام جیسے کرداروں کوبھی مضامینِ غزل کے طورپراستعمال کیاہے۔
الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل، ہمہ جہت اور کامیاب ترین شاعرہ ہیں، جن کی شاعری دلوں کے تار چھیڑتی اوراحساساتِ دروں کی سچی ترجمانی کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کو ایک عرصہ گزر گیا، مگر ہنوز ان کا نام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا(ان شاء اللہ)، خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا، سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:
مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

Nayab Hasan
A/22, Seema Apartment
St No.7, Batla House
New Delhi - 110025
nh912823@gmail.com






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں