عورتوں کے مسائل اور ہمارا معاشرہ
نسرین بیگم (علیگ)
اردو شاعری میں عورت زلف و رخسار، ناز و ادا، قد و قامت، دست حنائی، نازکی اور نرمی سے عبارت ہے۔ مثنوی سحر البیان میں بدر منیر جس طرح گھٹ گھٹ کر ہجر کی کیفیت بیان کرتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عورت کی سماجی حالت کیا تھی اور معاشرے میں اس کا کیا مقام تھا۔ آگے چل کر1857 کے انقلاب نے کافی تبدیلی پیدا کی۔ عورت کی آزادی سے متعلق مسائل کی طرف بھی لوگوں نے غور کیا۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے عورت کی خوبیوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا:
اے ماؤ بہنو بیٹیو، دنیا کی زینت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمھیں، قوموں کی عزت تم سے ہے
مونس ہو خاوندوں کی تم، غم خوار فرزندوں کی تم
تم بن ہے گھر ویران سب ، گھر بھر کی برکت تم سے ہے
اختر شیرانی اور عظمت اللہ خاں نے عورت کو اپنی شاعری میں مرکزی حیثیت دی ہے۔ عورت کو عذرا اور سلمیٰ کہہ کر مخاطب کیا۔1936 میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو نیا ادب لکھا جانے لگا اور اردو شاعری کی نئی ، زندہ اور توانا تاریخ مرتب کرنے والے شاعروں میں اسرار الحق مجاز روحانی اور انقلابی آہنگ لے کر سامنے آئے۔ ترقی پسند تحریک کا یہ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے عورت کی اپنی شناخت اور اس کے حقوق کی بات کرتا ہے ، عورت کو اپنے ہر مسائل اور حالات میں ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے اور عورت کو ملک کی آزادی کی جدوجہد میں بھی اپنے ساتھ کھڑا پاتا ہے۔ نظم’ نوجوان خاتون سے‘ مخاطب ہو کر مجاز نے کہا تھا :
سنائیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
مجاز نے ضمیر کی سچائیوں اور حالات کی ستم ظریفیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ عورت کو برابری کا درجہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ عورت کے بغیر گھر ویران ہے ، خاوند کی وہ مونس ہے اور دنیا کی زینت اسی کے دم سے ہے۔ اپنے فرزندوں کی وہ غم خوار ہے گھر کی برکت بھی اسی سے ہے۔’ مجھے حیران کر دیتی ہے نکتہ دانیاں اس کی‘ ان باتوں سے دنیا کا کوئی بھی شخص آج تک انکار نہیں کر سکا۔ پھر اکیسویں صدی میں سب سے زیادہ مسائل کے بیچ میں رہ کر عورت زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہے؟ ہمارے معاشرے کے سامنے یہ بہت بڑا سوال ہے اور ہر سوال جواب چاہتا ہے۔ اس کا جواب ہمیں خود ہی تلاش کرنا ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ رضیہ سلطان کو التمش نے اپنا ولی عہد اور جانشیں مقرر کیا تھا۔ وہ ہندوستانی تاریخ کی اولین خاتون تاجدار تھیں۔ بیگم حضرت محل آزادی کے جس مقصد کو لے کر چلیں تھیں اسے ہر لمحہ پیش نظر رکھا۔ مولانا حسرت موہانی کی بیوی نشاط النساء بیگم ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں حسرت موہانی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی بیوی زلیخا بیگم ہندوستان کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے آزاد کے بار بار جیل جانے کو خوشی سے برداشت کرتی رہیں۔ چاند بی بی، مہارانی لکشمی بائی، عزیزن بائی، صغرا بی بی ، بھگوان دیوی، جھلکاری بائی، اونتی بائی، اودا بائی، بیگم حضرت محل جیسی خواتین کا نام تاریخ میں روشن باب ہے جس کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔ تحریک آزادی سے آج تک خواتین نے ہر میدان میں ترقی کی ہے۔ 2018 میں بین الاقوامی یوم خواتین کے پورے ایک سو آٹھ سال(1910-2018) مکمل ہو چکے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ خواتین کے حقوق کی لڑائی پورے ایک سو آٹھ سال سے لڑی جا رہی ہے مگر ہم اس لڑائی میں کہاں تک کامیاب ہوئے آج ہمیں اس پر غور کرنا ہے کہ عورتوں کو جو اختیارات دیے گئے ہیں ان میں قانونی برابری، جنسی بنیاد پر غیر امتیازی سلوک، ملازمت میں برابری اور برابر اجرت، کام کے لیے بہتر حالات مہیا کرانا، پنچایتوں اور میونسپلٹیوں میں ریزرویشن کے لیے عورتوں کو اختیارات دیا جانا شامل ہے۔ عورتوں کے لیے آمدنی والی اسکیمیں اور گرانٹس بھی کم ہیں اور عورتوں کے ساتھ تشدد کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ چاہے وہ قومی ایشیائی کمیشن ہو یا پھر نیشنل کمیشن فار وومن جو عدالتوں کے لیے پالیسی بناتا ہے لیکن زمینی سچائی تو یہ ہے کہ کتنی بھی سفارشات اور ریزویشن ہو جائے عورت کی حالت آج بھی نہیں بدلی ہے۔ پوری دنیا میں صرف10فیصدی حصہ انھیں ملتا ہے۔UNO کی رپورٹ کے مطابق وہ ، 10فیصد جائیداد کی مالک ہے۔ عورتوں اور مردوں کے درمیان برابری کے معاملے میں یونائٹیڈ نیشن نے ہندوستان کو108ویں نمبر پر رکھا ہے۔ آج بھی ہندوستان میں عورتوں کو دوئم درجے کا شہر ی مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پیٹ پالنے کے لیے مختلف قسم کے خطرناک کارخانوں میں کام کرتی ہیں اور بچے کی پیدائش کے وقت اپنی جان گنوا دیتی ہیں۔ نیشنل کرائم رکارڈ بیورو(N.C.R.B) کے مطابق1998 میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 439-A شادی شدہ عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے تحت عدالتوں میں قریب127,691 معاملے درج ہیں۔ ان میں صرف13.2 کی سنوائی ہو سکی ہے۔ جبکہ صرف2.6 فیصدی معاملوں کی سنوائی پوری ہو کر مجرموں کو سزا مل پائی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو 84فیصد معاملے اب بھی عدالت میں چل رہے ہیں۔ سنٹر فار وومن ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق جہیز کی وجہ سے روزانہ12اور اس سے زیادہ عورتیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ جبکہ40فیصد عورتیں اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ذریعے جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ 50فیصد عورتوں کو اس وقت مارا پیٹا جاتا ہے جب وہ حاملہ ہوتی ہیں۔ گھریلو جھگڑوں میں خواتین کی موت زیادہ ہوتی ہے۔ ان معاملوں میں رپورٹ بھی نہیں کی جاتی۔498-A کے تحت درج معاملے میں قریب40فیصد عورتیں خودکشی، حادثہ یا قتل کے سبب اپنی جان تک گنوا دیتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں قانون کا سہارا تبھی لیتی ہیں جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ زنا بالجبر کی شکار عورتیں معاشرے کی بدنامی کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایسی عورتیں دوہری مار کا شکار ہوتی ہیں۔
دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ اتر پردیش تعلیم کے میدان میں بہت پس ماندہ ہے۔ عورتوں کی تعلیم پر توجہ کم ہے۔ کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات، خاندانی منصوبہ بندی کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش میں پانچ کروڑ میں سے تین کروڑ بچے ہی اسکول جاتے ہیں۔ یہاں کے1,24,000گاؤں جس میں سے تقریباً40ہزار گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول نہیں ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم 41.6 فیصد ہے جو اوسط سے 17سال پیچھے ہے۔ سرکاری شرح کے مطابق عورتوں کی تعلیم کافیصد 45-52 ہے جبکہ اصلیت میں 40فیصد سے بھی کم ہے۔ دیہی علاقوں میں عورتوں کی تعلیم کافیصد19.2 ہے۔ اتر پردیش میں55فیصد لڑکیوں کے مقابلے27فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے نواب سلطان جہاں بیگم نے کہا تھا:
’تعلیم میرے نزدیک ایک عورت کا سب سے اچھا زیور ہے۔ ہم نے شاید یہ بات بھلا دی ہے کہ عورتیں بھی ملت کا نصف ہیں اور حقیقی ترقی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملت کے اس اہم شعبے کی تعلیمی ضروریات ہماری غفلت شعاری کا شکار رہیں گی‘۔2
خواتین ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جس کے بغیر کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی ناممکن ہے۔ ناخواندہ ہونے کی وجہ سے عورتیں زیادہ تر مزدوری کرتی ہیں اور انھیں اجرت بھی کم دی جاتی ہے۔ بنائی کے کام میں عورتیں10-12گھنٹے تک جھک کر کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ کمر کے درد کا شکار ہیں۔ آگرہ کی بنکر عورتوں کی حالت کافی خراب ہے۔ فتح پور سیکری، دگینز، فتح آباد میں غالیچے بنانے کا کام کرتی ہیں۔ مگر ان کی اجرت بہت کم ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان تمام مسائل کو لے کر جب تک عورتیں بیدار نہیں ہوں گی تب تک کتنے بھی قانون بن جائیں کچھ بھی نہیں ہونے والا ہے۔ عورتوں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے:
یہ تیرا زرد رخ یہ خشک لب یہ وہم یہ وحشت
تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا
آج عورت اپنے گھر اورسسرال میں طرح طرح کے مظالم سہتی ہے۔ مارپیٹ، کسی بھی طرح کی جسمانی چوٹ پہچانا، بے عزت کرنا، نوکری کرنے سے روکنا اپنی تنخواہ کا استعمال نہ کرنے دینا وغیرہ ان تمام بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لیے26اکتوبر 2006 میں گھریلو تشدد سے خواتین کی حفاظت کے لیے حکومت کی جانب سے اس سمت قدم اٹھایا گیا مگر گھریلو تشدد مخالف قانون کتنا کار آمد کتنا با اثر ہے یہ جواب آج بارہ(12)سال گزرنے کے بعد دینا بے حد مشکل ہے۔ گھریلو تشدد میں بجائے کمی کے اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جہیز لینے اور دینے کا رواج عام ہے۔ یہ کسی ناسور سے کم نہیں ہے۔ جہیز کے لین دین سے متعلق قانون ممانعت جہیز ایکٹ 1961ہے۔ جہیز سماج میں ایک بڑا جرم ہے اور یہ جرم بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اس جرم کو روکنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا اور اپنی بیٹی کے ساتھ یکسانیت کا برتاؤ کرنا ضروری ہے۔ گاندھی جی نے کہا تھا:
’ مرد عورتوں کو اپنا غلام یا کنیز سمجھنے کے بجائے دوست، ساتھی اور ہمدرد سمجھیں اور ان کو برابر کے حقوق دیں تاکہ ان کی ذہنی اور دماغی قوتیں پوری طرح سے اجاگر ہو سکیں اور وہ بھی مردوں کے ساتھ ملک کی ترقی کی جدوجہد میں برابر شریک ہو سکیں ۔‘ 4
آج ہمارے معاشرے میں ایک خطرناک جرم ایسڈ اٹیک یا تیزاب سے جڑے حملے ہیں۔ ان کی وجہ ملزم کا چھوٹ جانا، تیزاب کے فروخت پر سخت قانون نہ ہونا ہے اور یہ بے حد افسوسناک ہے۔ (Section 326 A IPC) اس خطرناک اور دل دہلا دینے والے جرائم کے علاوہ ہمارے ملک میں بیوہ عورتیں بے سہارا ہیں اور اکیلی رہنے پر مجبو رہیں۔ ان کی حالت بہت افسوسناک ہے اور بے سہارا عورتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ شہری اور دیہاتی دونوں علاقوں میں یہ حالت ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ عورتیں ہیں جن کے شوہروں نے انھیں چھوڑ دیا ہے۔ یہ عورتیں یا تو بھیک مانگتی ہیں یا ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نئے سماجی قوانین سے بہت سی عورتیں اب بھی نا واقف ہیں۔ ان کی اس حالت کو بدلنے کی ذمہ داری، ریاست اور سماج کی ہے۔عورتوں میں اپنے قانونی حقوق کا زیادہ سے زیادہ شعور پیدا ہو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔2001 کے اعداد و شمار کے مطابق 9 فیصد عورتیں بیوہ ہیں اور موجودہ دور میں ہندوستان میں بیوہ عورتوں کی تعداد تین کروڑ چالیس لاکھ ہے ۔ اس ضمن میں بھی ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ بیوہ عورتوں کے ساتھ عصمت دری اور جسم فروشی جیسے واقعات سامنے آتے ہیں :
اس طرح سیوا داسی، پرتھا کا عام رواج ہے۔ ان بے سہارا عورتوں کے لیے کچھ راجیوں میں نام کے لیے بیوہ اور بے سہارا پینشن کا منصوبہ بنایا ہے۔ مگر اس کا فائدہ انھیں نہیں ملتا۔ اس پر سرکار کو توجہ دینے کی سخت صرورت ہے۔‘5
مگر بات یہیں نہیں رکتی خواتین کے جنسی اور دوسرے جرائم بھی بہت تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(NCRB) 2014 کے اعداد و شمار کچھ اس طرح ہیں جو چونکا دینے والے ہیں:
عورتوں کے خلاف کل تشدد
اتر پردیش
38467
قومی
3,37,922
عصمت دری
اتر پردیش
3,476
قومی
36,735
تشدد کی شکار عورت ملزم کو پہنچانتی تھی
1,111 معاملوں میں
کسٹوڈین عصمت دری محافظ ، نگراں، رکھوالا،Custodicin
پولیس تھانہ، ہسپتال
قانونی حراست
189
اتردیش میں سب سے زیادہ
عصمت دری کی کوشش
324
4,234
اغوا جنسی تشدد
10,623
8,605
37,111
82,235
جہیز کے لیے قتل
2,469اتر پردیش میں سب سے زیادہ کل جرائم کا 29.2فیصد
چھیڑ خانی
4,435
21,978
اس رپورٹ سے یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ جہیز ایکٹ ہو یا دوسرے قانون اپنے مقصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہیں۔ جنسی تشدد، معاشی تشدد، زبانی اور جذباتی تشدد، خود کشی کی دھمکی دینا، تیزابی حملے کا تیزی سے بڑھنا ہمارے معاشرے کے لیے بے حد تشویش ناک بات ہے۔ گھریلو تشدد مخالف قانون کے ساتھ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ خواتین کے تئیں اس نظریہ کو سماجی منظوری دلائی جائے کہ خواتین بھی مردوں کی طرح ہی انسانی حقوق اور اعزاز حاصل کرنے کی حقدار ہیں۔ انھیں یہ حق ملنا ہی چاہیے۔ خواتین کے حق کی آواز بلند کرنے والی ڈاکٹر رشید جہاں جنھوں نے خواتین کے مسائل کو اپنے قلم کا موضوع بنایا اور ایک نئے دور کا آغاز کیا۔1931 میں سجاد ظہیر کی ادارت میں ’ انگارے‘ کی اشاعت ہوئی تو اس میں رشید جہاں کا افسانہ ’پردے کے پیچھے‘ اور ’ دلی کی سیر‘ شائع ہوا۔پھر کیا تھا رشید جہاں کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا اور اس کی کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔ اسی انگارے والی کے بارے میں مشہور سماجی کارکن سبھاشنی علی نے کہا تھا:
’ انگارے والی کے خلاف فتویٰ دینے والوں کی نفسیات والے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ان کی یاد میں کسی طرح کا پروگرام کرنا تو بہت ہی خطرناک ثابت ہو جائے گا۔ لوگوں کے ہاتھ پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعد ہی کچھ ہمت رکھنے والی عورتیں و مردوں نے کامیاب پروگرام کیا۔ دنیا بھر سے لوگ آئے اس سے ہمیں یہ حوصلہ ملتا ہے کہ جس لڑائی کا رشید جہاں اور ان کے ساتھیوں نے آغاز کیا تھا اسے بہت آگے لے جانا باقی ہے‘۔7
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ عورتوں کے مسائل کے بارے میں کتنا حساس ہے اور آج جب ہم حقوقِ نسواں کی بات کرتے ہیں تو عورتوں کے مسائل میں ہمیں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی بحالی کی لوگ بات کرتے ہیں۔ لوگ یہ بھی جاننے لگے ہیں کہ ملک اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا ہے جب تک اس کی نصف آبادی تعلیم، کام اور فیصلہ سازی کے حق سے محروم ہے۔ عصمت دری کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں میزورم اور سکم تیسرے نمبر پر ہیں، جہاں خواتین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش کا نمبر آتا ہے۔
دسمبر2012 میں دہلی میں ایک لڑکی کے ساتھ عصمت دری اور اس کی موت کے نتیجے نے پورے ملک کو ہلا دیا اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہمیں خواتین کی آزادی اور تحفظ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے؟ اس کے بعد ملک میں سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ لیکن عمومی رائے کے مطابق یہ قوانین واقعات روکنے میں ناکام رہے۔ہندوستان میں تازہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق2015کے مقابلے میں گزشتہ برس جرائم کی تعداد میں2.6فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جرائم کے سب سے زیادہ واقعات اتر پردیش میں رونما ہوئے۔ یہاں سب سے زیادہ 9.5 فیصد جرائم درج کیے گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ خواتین کے تحفظ اور احترام کو یقینی بنانا چاہتا ہے؟ اور ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ1914 میں ہی اینی بسنٹ نے ہندوستان کے لوگوں سے کہہ دیا تھا:
’اگر وہ اپنی اور اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں تو انھیں عورتوں کی حالت کی اصلاح کرنی چاہیے‘۔8
ہمیں اس قول سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ1914 میں جس بات کی طرف اینی بسنٹ نے اشارہ کیا تھا آج 2018 میں اس بات کی ضرورت اور اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ خواتین کے اس سال کا تھیم تھا ’تبدیلی کے لیے بہادر بنیں‘ 'Be bold for change'۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے سامنے مسائل ہی مسائل ہیں اور ان میں بیشتر مسائل خواتین کے ہیں۔ آج عورتوں کو جائز مقام حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت مرحلے طے کرنے باقی ہیں۔ عورتیں اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں۔ مفلسی اور غریبی میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔وہ اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ انھیں ان کا کھویا ہوا وقار کیسے حاصل ہو۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
بقول ڈاکٹر سید مبین زہرا:
’ صرف اعداد و شمار کی بات نہیں، یہ ایک ایسے سماج کی تصویر دکھا رہی ہے جو اخلاقی طور پر گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور اس کا گرنا اب بھی جاری ہے۔ کم آمدنی والے طبقات کی 64فیصد خواتین اس کا شکار زیادہ دکھائی دیتی ہیں، وہیں چھیڑ چھاڑ کی وارداتوں کی شکار خواتین میں متوسط طبقے کی تعداد80 فی صد ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اٹھارہ سال سے پچیس برس کے درمیان کے زیادہ تر ملزمین آبرو ریزی اور چھیڑ چھاڑ میں زیادہ ملوث ہیں۔ اس کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے ، اس پر ضرور ہمارے سماج کو غور کرنا ہوگا۔‘9
یہ مہینہ مارچ کا ہے اور8مارچ جو ہمارے لیے بے حد اہم ہے جسے1910 میں معروف سماجی کارکن کلورا جیٹکن، الیکز ینڈرا کالنٹائی نے بین الاقوامی فورم میں سفارش کی کہ8مارچ1907 میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جائے۔ مگر 108سال پرانی تحریک کے باوجود بھی عورتوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے اور آج عورتوں کی مختاریت(Empowerment) بھی بحث کا موضوع بن چکی ہے۔ عورتوں کو جو حق دیے گئے ہیں ان میں قانونی برابری، نوکری میں برابری اور برابر اجرت ، بہتر حالات، پنچایتوں اور میونسپلٹیوں میں ریزرویشن کے ذریعے عورتوں کو حق دیا جانا شامل ہے۔ خواتین کے لیے آمدنی والی اسکیمیں اور گرانٹس کم ہیں۔ عورتوں کے خلاف تشدد بڑھتا جا رہا ہے چاہے وہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن ہو یا پھر نیشنل کمیشن فار وومن جو عورتوں کے لیے پالیسی بناتا ہے۔ لیکن زمینی سچائی تو یہ ہے کہ کتنی بھی سفارشات اور ریزرویشن پاس ہو جائیں جب تک وہ اپنے حقوق کے تئیں بیدار نہیں ہوگی اس کے مسائل کم نہیں ہوں گے۔ 8مارچ عالمی یوم خواتین کے طور پر ہم اس لیے نہیں مناتے کہ ہم اسے محض سالانہ تقریب کی حد تک محدود رکھیں بلکہ ہمارا معاشرہ جو بے حد حساس ہونا چاہیے وہ خواتین کے مسائل حل کرنا اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے اور خواتین پر ہو رہے جرائم کے معاملے میں سخت کاروائی کی جائے۔ ان کو ان کے حقوق فراہم کرنا ہی خواتین کی مکمل آزادی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو جرائم تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں ان میں جہیز کے خلاف قانون، رحم مادر میں جنین کی جنس PCPNDT-Act 1994 غیر قانونی اور جرم ہے۔ مگر یہ کام بے روک ٹوک جاری ہے۔ اس معاملے میں ملزم کی پہچان کرنے کے لیے(F)فارموں کی جانچ کی جانی چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قانون، باپ کی جائداد میں بیٹیوں کی حصہ داری کا قانون، گھریلو تشدد کے خلاف قانون، بال وواہ اور ستی پرتھا کے خلاف قانون اور جرائم قانون بل(Amended 2013) کا جب تک سختی سے نفاز نہیں ہوگا عورتوں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور عورتوں کے لیے چلائی جا رہی اسکیمیں ان تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس کے لیے سرکاری، غیر سرکاری طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ جب تک لوگوں کی سوچ نہیں بدلے گی، عورتوں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ساحر لدھیانی نے کہا تھا :
لوگ عورت کی ہر چیخ کو نغمہ سمجھیں
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو، کہ شہروں کا رواج
جبر سے نسل بڑھے، ظلم سے تن میل کرے
یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اگر غور کیا جائے تو عورتوں سے متعلق سارے جرائم ساحر لدھیانوی کی اس بات کو سچ ثابت کرتے ہیں ۔ آج کی حساس خواتین اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ہمیں خود اپنے حالات بدلنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ زمانہ تو آگے بڑھ چکا ہے مگر اپنے مسائل کا حل ہمیں خود نکالنا ہوگا، تبھی معاشرہ بھی بدلے گا۔ کنارے کنارے چلنے سے منزل نہیں مل سکتی:
بھنور سے لڑو، تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلوگے کنارے کنارے
8مارچ سال میں ایک بار نہیں بلکہ ہر دن ہمارے لیے8مارچ ہو۔ ہمارے اندر جو صلاحتیں پوشیدہ ہیں انھیں پہچاننے کی سخت ضرورت ہے۔ اب دنیا کو ایک متوازن خود اعتمادی سے بھر پور عورت کی ضرورت ہے۔
علامہ اقبال نے یہ شعر بھی خواتین کے بارے میں بہت غور و فکر کے بعد ہی کہا ہوگا
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
حواشی:
(1)National Crime Records- NCRB-IPC
Bureau Indian Penal Code (IPC)
(2)لڑکیو ں کی تعلیم کے لیے بیگمات بھوپال کی خدمت۔ گوری شری واستو، مترجم عارف حسن کاظمی،NCERT،2011،ص:54
(3)ماہنامہ خواتین دنیا، فروری2018جلد2شمارہ:2
خواتین کے خلاف خانگی تشدد کے خاتمے کا قانون، خواجہ عبد المنتقم (The Dowry Prohibition Act)ایکٹ نمبر28بابت1961، ص:24-25
(4)شمیم نکہت آزادی نسواں کی جدوجہد، آج کل،ص:10-11
(5) سامیا، مدیر کالندی دیش پانڈے، جنوری تامارچ2008، ص:27-28
(6)دسواں اتر پردیش کنونشن، اکھل بھارتیہ جنوادی مہیلا سمیتی ،28-29 اگست2016، آگرہ ،ص:7
(7)عام عورت کا سچ، سبھاشنی علی سہگل، ایڈوا پرکاشن، نئی دہلی،2007، ص:41-42
(8) شمیم نکہت، آزادی نسواں کی جدوجہد، آج کل،ص:9
(9)انقلاب،21نومبر2014، مضمون نگار تاریخ داں، مصنف اور سماجی تجزیہ نگار ہیں۔
(10)اکھل بھارتیہ جنوادی مہیلا سمیتی۔ ساتویں قومی کانفرنس کی رپورٹII
2001-2004،ص:26
(10.A) Pre- Conception and Pre-Natal Diagnostic Techniques Act (PCNDT), 1994
ہندوستان میں عورت کی حیثیت، مترجم: صغرا مہدی، قومی کونلس برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،1998
Head Dept. of Urdu
Baikunthi Devi Girls (P.G) College
Agra-282001 (U.P)
ماہنامہ خواتین دنیا، شمارہ مارچ 219
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں