8/3/19

فلم میکنگ اور ڈراما مضمون نگار:۔ مزمل سرکھوت




فلم میکنگ اور ڈراما
مزمل سرکھوت
علامہ اقبال نے کسی خاص نقطہ نظر کے تحت کہا ہے مگر یہ بات تو تقریباً ہر شعبہ حیات پرصادق آتی ہے کہ ؂
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
فلم میکنگ کا شعبہ یوں تو غلامی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا مگر اس شعر کے پہلے مصرعے کی بات اس شعبہ پر صد فی صد درست ثابت ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے میں فلم بندی یا عکس بندی کا تصور شروع ہی سے مبہم رہا ہے۔ ایک طبقہ اس کی مخالفت پر کمربستہ ہے اور اسے مذہبی طور پر ممنوع قرار دیتا آرہا ہے۔ دوسرا طبقہ اس کے استعمال بلکہ اس میں اپنی کارکردگی (مظاہرے)تک کو جائز سمجھتا رہاہے۔ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک اور طبقہ موجود رہا ہے جو بوقتِ ضرورت فلم میکنگ کو جائز سمجھتا رہا ہے۔
فلم میکنگ ہے کیا؟ سب سے پہلے اسے سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوتی ہیں، اداکاری کرتے ہوئے کردار ہوتے ہیں۔ان تصویروں یا ان کرداروں کے ذریعے فلم کار کسی سماجی، سیاسی یا معاشی اور تفریحی موضوع کو لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ کسی اہم پیغام کو عام کرنے کا بھی یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ کسی موضوع کی فلم بندی کی نمائش کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ کم وقت میں دنیا بھر میں اپنی بات کی ترسیل ہو جاتی ہے۔ فلم میکنگ میں ارادہ، منصوبہ بندی، جدید تکنالوجی سے واقفیت، دنیا کے حالات پر نظر ضروری اجزاقرار پاتے ہیں۔ہمارے یہاں جو طبقہ فلم میکنگ یا کسی بھی قسم کی عکس بندی کا مخالف رہا ہے وہ بھی اب اس کی اہمیت کا طرفدار ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دن بہ دن وجود میں آنے والی تکنالوجی نے آسانیاں پیدا کردی ہیں وہیں پر ہمیں آسائشوں میں بھی مبتلا کرنے کا کام کیا ہے۔ ہماری خواہشات بھی بے لگام ہوتی جارہی ہیں۔خود شناسی کے جراثیم بھی ہم میں سرایت کرتے جارہے ہیں۔شادی بیاہ کے موقعوں پر جس طرح پہلے شوٹنگ کے لیے نارضامندی نظر آتی تھی اب وہ کم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ باگ اپنی مرضی سے شادی بیاہ کی ویڈیو گرافی کرتے ہیں۔ اور اسے یادگار کے طور پر محفوظ کرلیتے ہیں۔ اس طبقے کے لوگ جو شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی شوٹنگ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوتے تھے ان میں بھی اب خودنمائی کا ذوق ابھر رہاہے۔ تاہم اس بات کے قبول کرنے میں بھی کسی قسم کی جھجھک نہیں ہونی چاہیے کہ کچھ لوگ آج بھی تصویرکشی اور فلم میکنگ کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جہاں وہ بدعت اور مردود عمل ٹھہرائے جاتے ہیں۔لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ نئی تکنالوجی کا یہ تیز رفتار گھوڑا (فلم میکنگ)بغیر اجازت اور خواہش کے بھی زندگی میں دخیل ہوا جارہا ہے۔دنیا کے غیر محفوظ ہونے اور زندگی کے خطرے میں گھرے رہنے کی وجہ سے نئی دریافت کی طلب دنیا کے ہر معاشرے میں بڑھی ہوئی ہے۔ وہ نئی دریافت سی سی ٹی وی کیمرے ہیں۔ یہ کیمرے صرف آپ کی تصویر نہیں اتارتے بلکہ وہ شوٹنگ بھی کرتے ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپ اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ سنیما گھروں میں، بڑے بڑے ہسپتالوں میں، شاپنگ مالس میں تقریباً ہر جگہ انھوں نے اپنا وجود لازم کر لیا ہے۔ کئی ذرائع سے فلم میکنگ ہماری زندگی میں سرایت کرگئی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی جہاں تک گفتگو ہوگی، اس میں شوٹنگ کے لیے پہلے سے کسی قسم کی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی فلم میکر، سرمایہ دار، کردار، مناظر وغیرہ کی حد بندی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیمرہ غیر محسوس طور پر آپ کی حرکتیں قید کرتا جاتا ہے اور اہم موقع پر یاضرورت پڑنے پر اس کی نمائش بھی کرتا رہتاہے۔
فلم میکنگ کو فلم کرافٹ اور فلم پروڈکشن کاشعبہ بھی کہا جاتا ہے۔ فلم میکنگ کے لیے ایک جامع تصور، ایک پلاٹ، ایک کہانی، کردار،مکالمے، شوٹنگ، ترتیب، فلم بندی جیسے عناصر ضروری قرار پاتے ہیں۔ فلم میکنگ کے مختلف مراحل ہوتے ہیں، ان میں اول کہانی کا تانابانا بنا جاتا ہے، اس پر مالی تخمینہ طے کیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلہ میں کردار اور شوٹنگ کی جگہوں اور تاریخوں کا تعین ہوتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں مقررہ منصوبے کے مطابق تمام کام انجام دیے جاتے ہیں۔ چوتھا مرحلہ شوٹنگ (عکس بندی یا فلم بندی) کی ترتیب وادارت پر صرف کیا جاتا ہے، کہ جو فلم بنی ہے یا جو شوٹنگ ہوئی ہے، اس میں کتنے مناظر، کتنے مکالمے یا کتنے کرداروں کے غیر اہم حصوں کو حذف کرنا ہے یا اس شوٹنگ میں کسی قسم کی کمی رہ گئی ہو تو اس کی تکمیل پر توجہ دی جاتی ہے۔ یعنی فلم کی نوک پلک درست کرنے کا اہم کام اس مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد فلم نمائش کے لیے بازار میں پیش کی جاتی ہے۔ تقسیم کار فلم کو مختلف سنیما گھروں میں پہنچا دیتے ہیں۔ فلم میکنگ کا شعبہ مکمل طور پر منحصر ہوتا ہے فلم میکر پر۔فلم تین طرح کی بنائی جاتی ہیں۔فیچر فلم، دستاویزی فلم اور اشتہاری فلم۔ ان اقسام میں وقفہ ایک واضح امتیاز پیدا کرتا ہے۔ فیچر فلموں کا دورانیہ دو سے تین گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے، دستاویزی فلموں کے دورانیہ کی پیمائش ذرا مشکل ہے مگر رائج تصور کے لحاظ سے اس کا وقفہ ایک سے دو گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے، اشتہاری فلموں کا دورانیہ سیکنڈوں کا ہوتا ہے۔ تینوں اقسام میں جو بات مشترک ہے وہ فلم میکنگ ہے اور فلم میکر ہے۔ 
فلم میکر: فلم میکنگ کے شعبے میں یہ سب سے اہم کردار ہے۔ کسی واقعہ، کسی خبر، کسی پالیسی کے متعلق کوئی پروجیکٹ عوام کے سامنے لانے کی ساری ذمہ داری فلم میکر کی ہوتی ہے۔ اسے سوتر دھار کہتے ہیں۔ فلم میکر عوامی تقاضے، حکومتی اعلانات، روزمرہ کے واقعات سے واقفیت رکھتا ہے۔ فلم میکر اپنے موضوعات زندگی کے کسی بھی شعبے سے منتخب کرنے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔فلم میکنگ کا شعبہ آزاد خیالی کا متقاضی ہے۔ کوئی فلم میکر اپنی ذاتی پسند یا اپنی جذباتی وابستگی کی بنا پر کسی پروجیکٹ کی تکمیل کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ(کہانی) کو لے کرعوامی سطح پر مقبولیت یا پسندیدگی کی ضمانت یا امید کیا ہوگی۔فلم میکر نہ صرف اپنی خالص سوچ کو منظر عام پر لانے کے لیے جتن کرتا ہے بلکہ اس کی نگاہ میں عوام کی پسند ناپسند کا گراف بھی ہوتا ہے، وہ اپنے پروجیکٹ کو اس انداز میں مشتہر کرتا ہے کہ لوگوں میں تجسس کی لہر پیدا ہوجائے، انتظار نمائش کے لیے لوگوں میں بے قراری نظر آئے اور نمائش پر اس کی باتیں یا اس کا مطمح نظر کھل کر سامنے آجائے۔ 
کہانی کے انتخاب کے بعد فلم میکر کرداروں کی تلاش شروع کردیتا ہے۔اس تعلق سے کئی طرح کے قطع وبرید کے بعد، کئی امتحانی مراحل سے گزر کر، کئی باریکیوں کی چھان پھٹک کے بعدفلم میکر یہ مرحلہ طے کرتا ہے۔ کرداروں کے تعین کے وقت فلم میکر پروڈیوسر یعنی جو فلم میں سرمایہ لگائے گااس کی مرضی کو بھی شامل کرتا ہے۔ اور دونوں کی رضامندی سے یہ معرکہ سر کرلیا جاتا ہے۔ پروڈیوسر پورے پروجیکٹ کے لیے ایک متعین رقم مختص کرلیتا ہے۔ اور فلم میکر اس میں سے کرداروں، مناظروں، کرداروں کے لوازمات، شوٹنگ کے لوازمات، قانونی پیچیدگیوں کے لیے لگنے والی ساری مالی ضابطگیوں کو خوش اسلوبی سے پوری کرتا ہے۔فلم میکرکرداروں کی فہرست سازی کے بعد مناظر کے تعلق سے بھی اسی پسند ناپسند اور اسی تحقیق و تجسس کو مد نظر رکھتا ہے اور کہانی نویس یا منظر نگار کی منشا اور کہانی کی ضرورت کے مطابق جگہوں کا انتخاب کرتا ہے۔ جس طرح کرداروں سے ملاقات کے بعد اپنا اطمینان کرلینا فلم میکر اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے اسی طرح مناظر کے متعلق بھی اسے اپنا اطمینان کرلینا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ وہ کہانی نویس یا مکالمہ نگار یا منظر نویس کے ساتھ بذاتِ خود کہانی کے متقاضی مناظر کی سیر کرتا ہے۔ شوٹنگ کے مخصوص مقامات کے لیے اپنا ذہن بناتا ہے۔ کہانی، سرمایہ،کردار، مناظر، شوٹنگ کے لوازمات اور مقامات کے تعین کے بعد فلم کی شوٹنگ شروع کی جاتی ہے۔ یہ سارا عمل فلم میکنگ سے پہلے منصوبہ بندی کے مراحل میں طے ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ شوٹنگ کا ہوتا ہے۔ شروع سے آخر تک فلم میکر اس پورے عمل کا حصہ ہوتا ہے۔ کردار بدلتے رہتے ہیں، مناظر بدلتے رہتے ہیں، پروڈیوسر بھی نہ سابقہ بنارہتا ہے اور نہ ہی لاحقہ کی صورت وہ شوٹنگ کے عمل میں موجود ہوتا ہے۔ وہ صرف اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ کب فلم کی شوٹنگ ختم ہو ؟ کب فلم سنیما گھروں کی زینت بنے اور کب اس کا سرمایہ سود سمیت واپس مل جائے۔ فلم میکر اس کی دولت فلم کے بنانے میں مناسب طریقے سے استعمال کرتا ہے۔فلم میکر کے ساتھ شوٹنگ کے مراحل میں مکالمہ نویس، شوٹنگ کے لوازمات کے ذمہ داران، کاسٹیوم ڈیزائنر،اگر گانے کا وقت ہوتو کوریو گرافر، لوکیشن مینجر، ساؤنڈ ڈیزائنرکی موجودگی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ فلم میکر شوٹنگ کی شیڈول کا بہت سارا کام اپنے اسسٹنٹ کے سپرد بھی کرتا ہے۔ اسے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کہا جاتا ہے۔ یہ کردار بھی شوٹنگ کے خاتمے تک فلم میکر کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ 
فلم کی شوٹنگ مکمل ہوجانے کے بعد فلم میکر اپنے ایڈیٹر کے ساتھ فلم کی ترتیب میں جٹ جاتا ہے۔ فلم کے وقفہ کا تعین بھی اسی مرحلے میں ہوتا ہے۔ فلم تین گھنٹے کی ہوگی یا دو گھنٹے کی۔ شوٹنگ کے دوران کئی غیر ضروری مناظر کی عکس بندی ہوگئی تھی تو اسے اصل ریل یا فلم سے الگ کرنا، کرداروں اور مکالموں کی غیر اہم کارگزاریوں کو ریل سے نکال دینا، اگر کسی وجہ سے کوئی اہم منظر غیر اطمینان بخش طریقے سے شوٹ ہوا ہو تو اس کی دوبارہ شوٹنگ کر کے مکمل فلم سے اپنااطمینا ن کرلینافلم میکر کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ایڈیٹنگ کا مرحلہ سب سے زیادہ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ عمل خام بنے ہوئے مال کو پختہ اور دلکش بنا کے بازار میں پیش کرنے کا چیلنج ہوتا ہے۔ایڈیٹنگ کے بعد فلم نمائش کے لیے سینما گھروں میں پیش کی جاتی ہے۔
فلم میکنگ ذرائع ابلاغ و ترسیل میں ایک اہم اور ناقابلِ نظر انداز عنصر کی اہمیت رکھتا ہے۔
ڈراما: فلم میکنگ کی طرح ڈرامابھی ماس میڈیا کا اہم جز تصور کیا جاتا ہے۔ڈراما اور فلم میکنگ میں کئی اجزا مشترک ہیں۔ کہانی، کردار، مکالمے، مناظروغیرہ۔ ڈرامے کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوٹ بھی ہو۔ کردار صرف اسے ادا کرتے ہیں اور ناظرین یا تماش بین اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ڈرامے تین قسم کے ہوتے ہیں، اسٹیج ڈرامے، ریڈیو ڈرامے اور نکڑ ڈرامے جنھیں نکڑ ناٹک کہتے ہیں۔ 
ہمارے معاشرے میں ڈرامے کی ابتدائی قبولیت یا عدم قبولیت کی وہی کہانی ہے جو فلم میکنگ کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔ شروعات میں ڈرامے کو ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔اس میں کام کرنا معیوب گردانا جاتا تھا۔ اسے دیکھنا آوارگی کا متبادل تھا۔ اردو میں ڈرامے کی شروعات واجد علی شاہ بلکہ ایک تحقیق کے مطابق ان سے پہلے ممبئی میں مراٹھی کے ناٹک کار وشنو پنت بھاوے کے ہندوستانی ڈرامے ’راجا گوپی چند جالندھر‘ سے ہوئی۔ واجد علی شاہ کے رہس اور امانت کے ’اندرسبھا‘ نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ امانت کا ’ اندرسبھا‘ اردو کا سب سے پہلا باضابطہ ڈراما کہلاتا ہے۔ جو بھی ہو، یہ ساری باتیں 1850-55 کے درمیان کی ہیں۔ اسی دوران اردو ڈرامے کا ورود ہوتا ہے۔ ممبئی کے پارسی اردو تھیٹر نے اردو ڈرامے کی ترقی میں نمایاں کردارادا کیا ہے۔ یہاں کئی ڈراما نگار اردو کے دامن میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ مہروان جی آرام، افسوں مراد آبادی، رونق بنارسی، حسینی میاں ظریف، طالب بنارسی، بیتاب بنارسی، آرزو لکھنوی، سید مہدی حسن احسن لکھنوی، نازاں دہلوی، آغا حشر کاشمیری، محشر انبالوی وغیرہ کئی ڈراما نگار پارسی تھیٹر سے جڑے ہوئے تھے۔ ان ڈراما نگاروں میں جو شہرت آغا حشر کاشمیری کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ اس دور میں ڈراماصرف تفریح کے لیے کھیلا جاتا تھا، اسٹیج کیا جاتا تھا۔ آغا حشر نے اسے خواب و خیال کی دنیا سے نکال کر اصلیت کی جانب ملتفت کیا۔ انھوں نے نہ صرف خود حقیقی موضوعات پر ڈرامے لکھے بلکہ پارسی مالکان کو بھی اسی روش پر چلنے پر مجبور کیا۔ اسیرِ حرص، سفید خون، خوبصورت بلا، رستم وسہراب جیسے کئی ڈرامے ان کی یادگار ہیں۔ 
آغا حشر اور ان کے معاصرین نے اسٹیج ڈرامے کو عروج عطا کیا۔ سید امتیاز علی تاج اپنا مایہ ناز ڈراما ’انارکلی‘ لکھتے ہیں۔ پارسی مالکان امتیاز علی تاج کے ڈرامے کو اسٹیج کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس میں کئی طرح کی تبدیلیو ں کے خواہاں بھی تھے۔ ’انارکلی ‘ کے لیے دراصل ڈرامے کا اسٹیج غیر موزوں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈراما نگار کے تخلیق کردہ جنگوں کے مناظر، اس کے سازو سامان، دربارِ اکبری اور اس کے لوازمات کو اسٹیج پر خاطر خواہ انداز میں پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔اس کے لیے اسٹیج کا کینوس محدود تھا۔تاہم اس ڈرامے نے تحریرکی شکل میں اپنی موجودگی اور مقبولیت کے کئی ریکارڈ بنائے۔یہ ڈراما اردو کی ادبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس پر بالی ووڈ میں فلم بھی بنائی گئی اور آج بھی یہ ڈراما تحریر میں موجود ہے اور قارئین کی دلچسپی کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ یہ ڈراما کبھی اسٹیج کی زینت نہیں بن سکا۔اردو میں ڈراما نگاری کا سلسلہ جاری رہا۔ حکیم احمد شجاع، منشی جوالا پرشاد برق، نورالٰہی و محمد عمر، سید عابد علی عابد، عشرت رحمانی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر اشتیاق حسین قریشی، بادشاہ حسین حیدر آبادی،ساغر سرحدی، حبیب تنویر، آغا شمس الدین، رفعت شمیم، اقبال نیازی، اسلم پرویزوغیرہ کئی ڈراما نگاروں کے نام اس زنجیر سے جڑے ہوئے ہیں۔اردو میں ترقی پسند تحریک کے دور میں اسٹیج کی طرف بھی ترقی پسند قلم کاروں نے توجہ کی۔انڈین پیپلس تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) کا قیام اسی دور کی یادگار ہے۔ اپٹا کے زیرِ اہتمام کئی ڈرامے اسٹیج ہوئے۔ممبئی میں آئیڈیا، ایک جٹ، رنگ شیلا، کردار ڈراما گروپ وغیرہ کئی ادارے اردو اور دوسری زبانوں کے ڈراموں کو اسٹیج کرتے رہے ہیں۔ 
پارسی تھیٹر کے آخری دور میں فلم اور ریڈیو کی آمد نے تھیٹر اور اسٹیج کی جگمگاہٹ کو کسی قدر دھندلادیا اور ذرائع ابلاغ وترسیل کی دنیا میں بھی انقلاب آیا۔ اسٹیج کے ڈراموں سے وہی لوگ لطف اندوز ہوسکتے تھے جو اس وقت وہاں موجود ہوں، مگر ریڈیو نے ڈرامے کی ترسیل کی وسعت میں اضافہ کیا۔ اس نے کئی ڈرامے نشر کیے۔ جن کو دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے بھی سنا اور ان سے محظوظ ہوئے۔ ان کی معلومات میں اضافہ ہوا، ان کے ذوق کو جلا ملی اور انھوں نے بھی اپنے آپ کو دنیا سے روبرو پایا۔ریڈیو ڈراما دیکھنے کی نہیں سننے کی چیز ہے۔ یہاں اسٹیج ڈرامے کی سی آزادی نہیں ہے۔ صوتی اثرات پر خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے، مکالموں کی چستی اور ان کے انداز بیان میں ضروری لچک و روانی ہوتی ہے۔ یہاں مناظر کی بولتی تصاویر، کرداروں کی بولتی تصاویر ہوتی ہیں۔ اختصار ریڈیو ڈرامے کی خوبی ہے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات اور واقعات بیان کرنا ڈراما نگار کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ رفیع پیرزادہ، شوکت تھانوی، سعادت حسن منٹو، یوسف ظفر، ابو سعید قریشی، ممتاز مفتی، انور جلال وغیرہ کئی ڈراما نگاروں نے ریڈیائی ڈرامے تحریر بھی کیے اور انھیں نشر بھی کیا۔ 
نکڑ ناٹک ہندوستانی مزاج سے ہم آہنگ ڈرامے کی ایک قسم ہے۔ اس کی جڑیں ہمیں گشتی تبلیغی منڈلیوں میں ملتی ہیں۔ ان میں ہوتا یہ تھا کہ کوئی منڈلی مذہبی اساطیری کہانیوں اور داستانوں کو گاؤں گاؤں جا کر گلیوں میں اور نکڑوں پر منظوم طرز میں پیش کیا کرتی تھی۔ مراٹھی ڈرامے کی شروعات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ترقی پسندوں نے اس قدیمی اندازِ اظہار یعنی نکڑ سبھا یا نکڑ ناٹک کو خاطر خواہ استعمال کیا۔ آزادی کے بعد سے تاحال اردو اور ہندوستان کی دیگر زبانوں میں نکڑ ناٹک ہزاروں کی تعداد میں کھیلے گئے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ نکڑ ناٹک موضوعات کے تنوع اور جدت کی وجہ سے زیادہ اثردار اور پسندیدہ ہیں۔کالج گروپس یا پیشہ ورانہ ڈراما گروپس بھی نکڑ ناٹک نئے نئے اور حساس موضوعا ت پر کھیلتے رہے ہیں، عوام کو موضوعات کی اہمیت اور ان کے اثرات سے روشناس کراتے رہے ہیں۔

Dr. Muzammil Sirkhot
Dept of Urdu
Mumbai University, Ranaday Bhawan
Kalina Campus, Santa Cruz (W)
Mumbai - 400098 (MS)


ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں