اردو زبان و ادب اور عالمی
امن
شاہد اقبال
معروف امریکی ماہر لسانیات ونفر ڈپی نے دنیا کی تمام زبانوں کو سات لسانی خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہند یورپی ان تمام خاندانوں میں سب سے بڑا لسانی خاندان ہے۔اردو زبان کا تعلق بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اسی لسانی خاندان سے ہے اور یہ زبان اپنی شائستگی، شگفتگی، سلاست اور روانی جیسی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنے سحر طراز لب و لہجہ کی وجہ سے پوری دنیا کو خلوص ومحبت اور امن و اتحاد کا پیغام دیتی ہے۔ عصر حاضر میں عالمی امن کا موضوع کافی نازک اور پیچیدہ ہو چکا ہے کیونکہ دنیا کے تمام ممالک میں امن اور خوشخالی کا فقدان ہے ہر طرف انتشار اور افرا تفری کا بازار گرم ہے۔جہاں تک زبان و ادب کا تعلق ہے تو دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جو امن و اتحاد کا پیغام نہیں دیتی۔یہ ایک فطری اصول ہے کہ کسی بھی زبان کا شاعر یا ادیب اپنے گرد و نواح جو کچھ دیکھتا ہے اسے اپنی تخلیقات میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی و اخلاقی اقدار کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔زبان بنیادی طور پر ایک وسیلہ اظہار ہے لیکن جب وہ کسی مخصوص علاقے، ریاست یا ملک کی نمائندگی کرتی ہے تو وہ اس علاقے یا ملک کی سیاسی و سماجی او ر تہذیبی و ثقافتی سر گرمیوں کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے۔
کسی ملک میں امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب اس کی بنیادیں مضبوط و مستحکم اور اعلیٰ سماجی و اخلاقی اقدار پرقائم ہوں اور باشندگان ملک بھی ان اقدار پر روبہ عمل ہوں اور اس کے بعد ہی اس ملک کا ادب امن و اتحاد کو فروغ دے سکتا ہے ۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ روز اول تا حال عالمی سطح پر کبھی مکمل طور پر امن قائم نہیں ہوا لیکن زبان و ادب نے ہمیشہ انتشار و انحطاط کے خلاف آواز بلند کی اور غیر اخلاقی سماجی رویوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان نے بھی قومی یکجہتی کو بر قرار رکھنے میں کار ہاے نمایاں انجام دیے ہیں۔
اردو زبان ربط اور اتحادپیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے اور اپنی اسی انفرادیت کی بنا پر یہ زبان گنگا جمنی تہذیب کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔ اردو زبان کے اسی مخلصانہ اور دل افروز ر ویے سے متاثر ہو کر خواجہ الطاف حسین حالی نے کیا خوب فرمایا ہے ملاحظہ کیجیے
شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی قومی زبان اگر چہ ہندی ہے لیکن عام بول چال میں اردو زبان ہی مستعمل ہے یہاں اردو اور ہندی کا تقابل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اردو زبان کے اس مخصوص اور ہر دلعزیز لب و لہجے کی طرف اشارہ کیا ہے جو بلا تفریق مذہب و ملت عوام الناس میں سرایت کر چکا ہے۔ اس حقیقت سے ہندوستان کا ہر شہری آشنا ہے اور ہندوستان میں بنائی جانے والی فلمیں اس کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہیں لیکن زبانوں کو ہم نے مذہب و ملت کا لبادہ پہنا دیا ہے اس لیے مذکورہ حقیقت کو قبول کرنا عوام کے لیے مشکل ترین کام بن گیا ہے۔ اردو زبان کی مرکزیت و انفرادیت کا اعتراف کرتے ہوئے اردو کے نامور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ ہندوستان کے نمائندہ انگریزی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں اسے ہندوستان کا لسانی تاج محل قرار دیتے ہیں اس حوالے سے وہ یوں رقمطراز ہیں
''Urdu belongs niether to muslim nor hindu,it will survive so long as india remains multicultural, urdu's sophistication and charm captivate everyone that's why i call urdu india's linguistic taj mahal''
گوپی چند نارنگ کے اس خیال کی وضاحت قیصر شمیم کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے
میرا مذہب عشق کا مذہب جس میں کوئی تفریق نہیں
میرے حلقے میں آتے ہیں تلسی بھی اور جامی بھی
زبان چاہے کوئی بھی ہو اس کا تعلق کسی مخصوص جماعت، مذہب یا گروہ سے نہیں ہوتا بلکہ سماجی ضروریات کی بنا پر اس کا وجود عمل میں آتا ہے اور جب اس کے بولنے اور سمجھنے والے کثیرالتعداد ہو جاتے ہیں تو اس میں ادب تخلیق کیا جانے لگتاہے جو مذہب و ملت کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے تمام بنیادی مسائل کومنظرعام پر لاتاہے۔
اسی طرح اردو زبان نے ابتدا تا حال کسی ایک مخصوص طبقے کی نمائندگی نہیں کی بلکہ اس کی دور بین اور دور رس نگاہ ہمیشہ عالم انسانیت پر رہی ہے۔اردو زبان کے اسی غیر جانبدارانہ کردار کی نمائندگی ہندو،مسلم،سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ تمام شعرا ء اور ادبا کرتے ہیں جنھوں نے ذریعہ اظہار کے لیے اردو زبان ہی کا انتخاب کیا۔عصر حاضر میں پوری دنیا جنگ و جدل، قتل و غارت، انتشار، بد امنی اور بے شمار نفرت انگیز لڑائی جھگڑوں سے دوچار ہے۔اردو شعرو ادب نے ان تمام نامساعد حالات اور نفرتوں کے خلاف احتجاج درج کیا اور نفرتوں کے اس ماحول میں خلوص و محبت کا چراغ روشن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔یہ شعر ملاحظہ کیجیے
کیسا اس نفرت کے سناٹے میں گھبراتا ہے دل
اے محبت کیا تیرے ہنگامہ آرا سو گئے
یہ شعر محض کسی ایک ملک یا شہر کے پر آشوب ماحول کی داستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں آج نفرتوں کا جو بازار گرم ہے اسے جڑ سے اکھاڑنے اور ایک جذبہ محبت پیدا کرنے میں محو نظر آتا ہے۔کسی بھی اخلاقی یا غیر اخلاقی نظریے کا آغاز دراصل سماج سے ہوتا ہے اور پھر سماج کے اراکین وقتاٌ فوقتاٌان نظریات پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گھر کے افراد آپس میں دشمنی اور رنجش کی تمام حدود سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔اولاد اپنے والدین کو بھول جاتی ہے،بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، میاں بیوی کی لڑائی فوراٌ طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور اسی طرح ایک متحداور خوشحال گھرانہ دشمنی،رنجش اور سازشوں کی بنا پر تقسیم ہو جاتا ہے اردو زبان نے معاشرے کے اس المیے کو بھی بے نقاب کیاہے اس حوالے سے مخمور سعیدی کا یہ شعر غور طلب ہے
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیان
گھر کہیں گم ہو گیا دیوار و در کے درمیان
اردو زبان کو جب ہم عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں تو کہیں جارج فلیکس،مورس جان،ڈاکٹر مسیح یوسف یاد جیسے ادیب نظر آتے ہیں اور کہیں میر، درد، سودا، غالب، اقبال، نسیم، چکبست اور فراق محفل سخن آراستہ کیے بیٹھے ہیں اور کہیں منشی پریم چند، منٹو، بیدی،کرشن چندر، عصمت چغتائی،قرۃالعین حیدر اور انتظار حسین شر پسند عناصر کے خلاف احتجاج اور ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے میں سر گرم نظر آتے ہیں۔ اگر چہ کہ اردو زبان کا آغاز ہندوستان میں ہوا لیکن اردو زبان و ادب نے پوری دنیا میں امن و اتحاد کا پیغام دیا۔ابتدائی ایام کے اردو ادب پر مذہبی نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس دور کے ادب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہندو اور مسلم تصوف کا حسین ترین امتزاج نظر آتا ہے اس طرح ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان اپنے آغاز سے ہی قومی یکجہتی کی ترجمان رہی ہے۔اس دور کی اردو شاعری پر اگر چہ کہ تصوف کا رنگ غالب ہے لیکن تصوف کے اس مخصوص رنگ میں بھی وہ پیار و محبت کا پیغام دے کر اپنی بوقلمونی کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔تصوف کے اس رحجان کے بعد اردو شاعری جب ادب برائے زندگی کی نمائندگی کرنے لگی تو اس نے سماج کو غیر اخلاقی عناصر سے مبرا کرنے میں کار ہائے نماں انجام دیے اور ہمیشہ خلوص و محبت کا درس دیتی آئی ہے۔ آفاق صدیقی اردو زبان کے اس مخلصانہ پیغام کو اردو شاعری میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں ان کے اشعار ملاحظہ کیجیے
دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں
ایک احساس محبت کے سوا
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں
متذکرہ بالا اشعار کو کسی مخصوص علاقے یا سماج تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان میں عالم انسانیت کو بھائی چارے اور انسان دوستی کا بیش قیمتی پیغام دیا ہے عالمی سیاست میں آج جو ہنگامہ برپا ہے اردو شاعری نے اس کی مذمت کرتے ہوئے انسان کو انسانیت کی بنیاد پر متحد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر قابل داد ہے
ملانا چاہا ہے انساں کو جب بھی انساں سے
تو سارا کام سیاست بگاڑ دیتی ہے
اردو کے شعرا جب مذہب و ملت کے نام پر قتل و غارت کا سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو وہ اس تفریق کو جڑ سے ختم کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔اس ضمن میں اکبر الہ آبادی کا یہ شعرملاحظہ کیجیے
کہتے ہیں کہ اگر مذہب خلل ہے ملکی مقاصد میں
تو شیخ و برہمن پنہاں رہیں دیر و مساجد میں
مذہب و ملت کی یہ تفریق جب انسانوں میں فاصلے بڑھا کر انھیں سرحدوں تک محدودکرنے لگتی ہے تو اردو کے شعرا اور ادبا بلا تفریق مذہب و ملت ان فاصلوں کو مٹانے اور انسان دوستی کادرس دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کی وضاحت کنول ضیائی کے اس شعر سے ہوتی ہے
ہمارا خون کا رشتہ ہے سر حدوں کا نہیں
ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی
آج پوری دنیا میں جو ہنگامہ بھر پا ہے انسان خود اس کے لیے ذمہ دار ہے اور اس کے مادہ پرست ذہن نے انسانیت کو مادیت، مذہب،قوم،ملک اور شہر کی بنیادوں پر بانٹا اور اب انسان ان برے اعمال کے خوفناک نتائج دیکھتاہے اور ان کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امن و شانتی قائم رکھنے کے لیے کئی قومی اور بین الاقوامی ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں ان اداروں میں اولاٌ تو عدل و انصاف کا فقدان ہے اور اگران میں سے کوئی انسانی مساوات کی بات کرے بھی تو اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا۔اس طرح انسان نے دنیا کو ایک تماشا گاہ بنا رکھا ہے۔ اس حوالے سے مجتبیٰ حسین کے ایک طنزیہ مضمون ’ہو ٹل شبانہ‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے
’’دنیا کا بڑے سے بڑا مسئلہ اس ہوٹل میں پہنچ کرچھوٹا ہو جاتا ہے کئی پیچیدہ بین الاقوامی مسائل کے بارے میں یہاں کٹھا کھٹ فیصلے صادر کئے جاتے ہیں یہ اور بات ہے ان فیصلوں پر عمل کوئی نہیں کرتا۔مرزا کہتے تھے کہ جب دنیا اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عمل نہیں کرتی تو ہوٹل شبانہ کے فیصلوں کو کون سنے گا۔‘‘
اردو زبان کے ادیبوں نے ادب کے ذریعے انسان کو ہمیشہ ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے اور امن و انصاف پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی اور خوش حالی کا انحصار اس کی سیاست اور حکومت کے اراکین پر ہوتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قومی ترقی میں سب سے اہم اور متحرک کردار ملک کے عام شہری کا ہوتا ہے۔اردو زبان و ادب نے انسان کو خودشناس اور خود دار بنانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی فلاح کے لیے از خود فکر مند بنانے میں مرکزی رول ادا کیا ہے جس کی وضاحت سرسید احمد خان کے ایک مضمون ’ اپنی مدد آپ‘ کے اس اقتباس سے ہوتی ہے :
’’ترقی مجموعہ ہے شخصی محنت،شخصی عزت،شخصی ایمانداری، شخصی ہمدردی کا اسی طرح قومی تنزل مجموعہ ہے شخصی سستی،شخصی بے عزتی،شخصی بے ایمانی شخصی خود غرضی اور شخصی برائیوں کا۔‘‘
میں اپنے مقالے کا اختتام اردو زبان کے اس اعلیٰ اخلاقی پیغام پر کرتا ہوں جس میں مولانہ الطاف حسین حالی فرماتے ہیں
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آے دنیا میں انساں کے انساں
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
ماہنامہ اردو دنیا شمارہ مارچ 2019
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں