8/3/19

سیتا ہرن کی سیتا مضمون نگار:۔ ذکیہ مشہدی





سیتا ہرن کی سیتا
ذکیہ مشہدی
قرۃالعین حیدر اردو کی ایسی مایۂ ناز فکشن نگار ہیں جن پر بہت کچھ لکھا گیا پھربھی بہت کچھ باقی ہے۔ ان کے فن کے متعلق کچھ کہنا ہو تو ذہن میں یہ خیال نہیں آتاکہ اب رہ کیا گیاہے لکھنے کے لیے۔ راقم الحروف نے ان کی کئی تخلیقات کو بار بار پڑھا پھربھی ان کی تازگی، شگفتگی اور معنویت میں کوئی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ ان میں ’آگ کا دریا‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’سیتاہرن‘ اور ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجؤ‘ خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘ اور ’جلاوطن‘ نہایت دلدوز افسانے ہیں۔ اور یوں تو ان کی سبھی تحریریں تادیر غور کرتے رہنے اور سردھننے والی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔
مذکورہ بالا تخلیقات میں ان کے ناولٹ ’سیتاہرن‘ کا مرکزی کردار سیتا الم ناک ہونے کے ساتھ نہایت پیچیدہ بھی ہے۔ اسے آسانی سے سمجھنا دشوار ہے۔ ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘ کی ثریا زندگی کے اُتارچڑھاؤ سے مفاہمت پیدا نہ کرپانے کے سبب حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرلیتی ہے۔ یہ بھی بڑا تہہ دار اور دلدوز کردار ہے لیکن پیچیدہ نہیں۔ اونچے آدرش لے کر کھڑے ہونے والے بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہوا کے اُلٹے رُخ نہیں چل پاتے اور ہار مان لیتے ہیں۔ 
یہاں ثریا کے ذکر کا مطلب صرف یہ ہے کہ بہت سے کردار اپنی تہہ داری اور گہری معنویت کے باوجود ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے تعلق سے اختلاف رائے کی گنجایش کم ہوتی ہے، لیکن سیتا ایک پیچیدہ کردار ہے۔ راقم الحروف کو کثیرالمطالعہ ہونے کا دعویٰ نہیں پھربھی محترمہ حیدر پر کئی مضامین اور کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ سیتاہرن پر سیرحاصل گفتگو نہیں مل سکی۔ اعجازالرحمن صاحب کی تصنیف ’تانیثیت اور قرۃالعین حیدر کے نسوانی کردار‘ میں سیتاہرن پر کچھ تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے لیکن وہ بھی نہ صرف تشنہ ہے بلکہ اس میں چندنکات ایسے ہیں جو فاضل مصنف کے ذہن کی اُپج ہیں مثلاً ’’سیتا میرچندانی کا دوسرے مذہب کے مردجمیل سے شادی کرنا جہاں اس کی روشن خیالی کا ثبوت ہے وہیں اپنے آبائی مذہب سے اس کی نفرت کا اشاریہ بھی ہے جس نے عورتوں کو محتاجی و ماتحتی کے سوا کچھ نہیں دیا۔‘‘ (صفحہ88) کہیں بھی ایسا اشارہ نہیں ہے کہ سیتا کو اپنے آبائی مذہب سے نفرت تھی۔ وہ سرے سے کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتی تھی یہ کئی جگہ واضح ہے۔ جمیل سے شادی اس نے بے اختیارانہ محبت کے تحت کی۔ اس بحث کو آگے بڑھانا مقصد نہیں ہے لیکن جمیل سے اسے جو کچھ ملتاہے وہ بھی محتاجی اور ماتحتی کے علاوہ کچھ نہیں اور جمیل کے برتاؤ نے ہی اسے ذہنی و جذباتی طورپر برباد کیاہے۔
دوسری جگہ فاضل مصنف نے کہاہے کہ ’’ریفیوجی کیمپوں میں ایک عورت کو ایک لڑکی کی حیثیت سے جو غیرانسانی سلوک جھیلنے پڑے ہیں اس کی وجہ سے اس کے رہے سہے آدرش بھی کھوگئے...‘‘ (صفحہ87) ناولٹ میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ سیتا کو غیرانسانی سلوک جھیلنے پڑے ہیں۔ بے شک کنبہ لُٹا پٹا پہنچتا ہے لیکن سیتاکی عصمت پر کہیں آنچ نہیںآئی ہے۔ غرضیکہ یہ تجزیہ سطحی اور کچھ حدتک تجزیہ کار کے اپنے تخیل پر مبنی ہے۔
کوئی دس سال یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرا کہ پٹنہ میں خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری میں ایک سمینار منعقد ہوا تھا۔ اس وقت بہار کے معروف ناقد و دانش ور جناب وہاب اشرفی مرحوم حیات و سمینار میں شریک تھے، اور بھی مقتدر ادبی ہستیاں تھیں۔ سیتاہرن کا بہت ہی سرسری تذکرہ کسی نے کیا تو وہاب اشرفی مرحوم نے فرمایاکہ یہ کردار ایسا بے ہودہ ہے کہ اس ناولٹ کو شریف گھروں میں پڑھا بھی نہیں جانا چاہیے۔ اس وقت پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو نے بھی جو خود بھی نقاد ہیں، اس خیال کی کم و بیش حمایت کی تھی اور سیتاکو ایک آوارہ اور بدکردار لڑکی ٹھہرایا تھا۔
ہمایوں اشرف صاحب نے اپنی تصنیف ’فکشن کی بازیافت‘ میں محترمہ قرۃالعین کے فن کا بحیثیت مجموعی خاصا سیرحاصل جائزہ لیاہے لیکن سیتاہرن پر انھوں نے بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔ سیتا کے متعلق ان کا کہناہے کہ سیتا ایک ایسی لڑکی ہے جو جنگل میں جنگل کا قانون اپناکر زندگی گزار سکتی ہے۔ انسانی قوانین وہاں بے معنی ہیں۔ اس سیتا کو آج کا راون ہر لے گیا۔ 
(فکشن کی بازیافت: مصنفہ ہمایوں اشرف، ص94)
ایک کردار اساس ناولٹ کے مرکزی کردار پر انھوں نے بس اتنا کہنا کافی سمجھا۔ 
جنگل میں جنگل کے قانون کے مطابق زندگی گزارنے والی سیتا کو بادی النظر میں گمراہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن باریک بینی سے ناولٹ کا مطالعہ نہ کیا جائے اور سیتا کے تعلق سے مصنفہ کے کلیدی جملوں پر غور نہ کیا جائے تو یہ اس مظلوم لڑکی کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا جس کا واسطہ صرف ایک نہیں کئی راونوں سے پڑتا ہے اور جس کی پشت پناہی کے لیے (اگنی پریکشا کے بعد سہی) کوئی رام موجود نہیں ہے۔
راقم الحروف کو قطعی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اس مضمون کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہوگی یا یہ کہ یہ تجزیہ سقم سے پاک ہوگا لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ جو کچھ کہا جائے گا وہ اوریجنل متن سے اخذ کردہ ہوگا اور ایک انسانی (Humanitarian) نقطۂ نظر کے ساتھ۔
تقسیم کے المیے نے سبھی حساس ذہنوں پر بے پناہ اثر ڈالا۔ یہ المیہ محترمہ حیدر کے یہاں باربار نمودار ہوتا ہے۔ سیتاہرن کے پس منظر میں بھی تقسیم ہند ہے گرچہ وہ بیانیہ پر حاوی نہیں ہے۔ بے حد اختصار کے ساتھ ناولٹ کے بنیادی پلاٹ کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ اس سے سیتا کے کردار کے تجزیے میں آسانی ہوگی۔ ساتھ ہی جن قارئین کو متن کا علم نہیں ہے وہ بھی اسے سمجھ سکیں گے۔
سیتا ایک خوب صورت سندھی ہندو لڑکی ہے۔ اس کا خاندان تقسیم کے وقت جہاز کے ذریعے کاٹھیاواڑ آگیا تھا پھر گھومتا گھامتا دلّی آکر قیام پذیر ہوا۔ وطن میں یہ اعلیٰ ذات (عامل) کنبہ نہایت خوش حال تھا لیکن اب قرول باغ کے چھوٹے سے مکان میں عسرت زدہ زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ سیتا کو اس کے خوش حال، لاولد ماموں ۔ممانی امریکہ بلالیتے ہیں وہاں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہے۔ وہیں اس کی ملاقات ہندوستان کے مشرقی یوپی کے باشندے جمیل سے ہوتی ہے۔ یہ ملاقات محبت اور پھر شادی میں بدل جاتی ہے۔ کچھ دن سب کچھ اچھا رہتاہے، ایک بچہ، راہل بھی ہوجاتاہے لیکن جمیل زیادہ تر وقت باہر گزارتا اور بے حد پینے لگتاہے۔ تنہائی، بوریت اور شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوکر سیتا جمیل کے ایک دوست قمرالاسلام چودھری کے قریب آتی اور جنسی طورپر بھی ملوث ہوجاتی ہے۔ پتہ لگنے پر جمیل سیتا کو مار پیٹ کر رات کے وقت گھر سے نکال کر بچہ خود رکھ لیتاہے۔ قمرالاسلام سیتا کی کوئی مدد نہیں کرتا بلکہ دودھ کی مکھی کی طرح زندگی سے نکال باہر کرتاہے۔ سیتا ایک بار پھر دہلی واپس لوٹ آتی ہے جہاں اس کے سسرالی عزیز بھی ہیں۔
یہ عزیز اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے اور جمیل کی حرکت سے شرمندہ ہیں۔ ان عزیزوں کی معرفت اسے پاکستان جانے کا موقع ملتاہے جو دراصل سیتا کا وطن تھا۔ وہاں وہ عرفان سے ملتی ہے۔ دوبارہ عرفان سے اس کی ملاقات بوجہ سری لنکا، کولمبو میں ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے متاثر ہیں لیکن اسی دوران وہ ایک امریکن ٹورسٹ لزلی مارش کے ساتھ بھی نکل لیتی ہے۔ لزلی مارش کے ساتھ اس کے بہت مختصر لیکن قابلِ اعتراض تعلق کے باوجود عرفان سیتا سے محبت کرتاہے۔ اور شاید جمیل کے بعد وہ پہلا شخص ہے جس کے ساتھ وقتی دوستی کے ذریعے اپنی اذیت بھلانے کی بجاے اسے سنجیدگی سے پسند کرتی اور اس کے ساتھ باقی زندگی ایک مستحکم رشتے میں بندھنے کی خواہش مند ہے۔ چوں کہ جمیل نے اسے ابھی تک طلاق نہیں دی ہے اس لیے وہ قانونی طورپر کسی سے شادی نہیں کرسکتی۔ پیرس جاکر وہ عرفان کے ساتھ بطور مسٹریس رہنے لگتی ہے اور نہایت گھریلو ہاؤس وائف ثابت ہوتی ہے۔ باپ کے انتقال کی خبر سن کر وہ ہندوستان واپس آجاتی ہے۔ ایک اذیت ناک انتظار کرتی رہتی ہے کہ جمیل اس کی طلاق کی درخواست منظور کرلے۔ طویل عرصہ گزر جاتاہے۔ عرفان کے خطوط پہلے باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں پھروہ کم ہوتے جاتے ہیں۔ شدید تنہائی اور مایوسی کے عالم میں وہ ایک مشہور، معمّر آرٹسٹ پروجیش چودھری کے بازوؤں میں سما جاتی ہے جس سے وہ پہلے سے متعارف تھی۔ تبھی جمیل اسے طلاق نامہ اور بچے سے ملنے کی اجازت بھیجتاہے۔ یکایک وہ خوش ہوجاتی ہے اور اب عرفان کے ساتھ قانونی طورپر بندھ کر ایک نارمل، پُرسکون زندگی کا خواب دیکھتی ہوئی پیرس روانہ ہوجاتی ہے جہاں پہنچ کر معلوم ہوتاہے کہ عرفان تو حال میں ایک نوعمر فرانسیسی حسینہ سے شادی کرکے ہنی مون منانے چلا گیاہے اور گھر ایک ادھیڑعمر فرانسیسی کے حوالے کرگیاہے جو سیتا کے خود کو مادام عرفان کہہ کر متعارف کرانے سے ہکّابکّا رہ جاتاہے۔
اس ناولٹ میں محترمہ حیدر کے سارے پسندیدہ موضوعات موجود ہیں۔ تقسیم وطن، تاریخ، ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت، تقسیم کے الم ناک سماجی، معاشی و انفرادی اثرات۔ ہندو صحیفے، مذہب کی عوام میں گہری پَیٹھ۔ بہت کچھ جلاوطن، ہاؤسنگ سوسائٹی، گردش رنگ چمن، آگ کا دریا۔ ان سب بے پناہ تخلیقات میں ملتاہے لیکن کہیں یک رنگی نہیں ہے۔ ان عوامل کی اتنی جہتیں ہیں کہ ان کو ایک ہی جگہ برت لینا ممکن بھی نہیں۔ سیتاہرن، مرکزی کردار، سیتا پر مرتکز ہے اور سیتا کسی باکمال ہاتھوں سے بُنی ٹپسٹیری (Tapestry) کی طرح ان حالات اور عوامل میں پیوست ہے۔ ناول میں کئی کردار ہیں لیکن وہ معاون کردار ہیں، واقعات ہیں جن میں وہ فعال ہیں لیکن سیتا ان کے ساتھ ہوکر بھی یوں نمایاں ہے جیسے گروپ ڈانس میں معاون رقاصوں کے ساتھ ہیروئن۔ یوں یہ ایک کردار اساس ناولٹ ہے۔
سیتا کا متمول خاندان ہندوستان آکر عسرت زدہ زندگی بسر کرنے لگتاہے۔ باز آبادکاری کے کارکنان اس کی ماں کے لیے سندھی کڑہت کی ساڑیاں بنانے کا کام مہیا کراتے ہیں۔ شدید احساس کم تری، محرومی، ذلت اور ان کے علاوہ تنگ دستی سے پیدا جسمانی تکلیفوں کا امتزاج سیتا میں گہرا احساس عدم تحفظ (Insecurity) پیدا کرتا ہے۔ اس کے بیش تر اعمال و افعال، بیش تر ردعمل اسی کے نتیجے میں ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ لیکن کیا تقسیم ہند کے نتائج، جنھیں ہندوستان کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے نے جھیلا، اس طرح کا کردار (Behaviour) پیدا کرسکتے ہیں کہ ایک شریف خاندانی عورت ایک مرد سے دوسرے کی آغوش میں جاتی رہے؟
بادی النظر میں یہ ناممکنات میں نہیں تو عمومی بھی نہیں۔ پھر سیتا کے کردار کا کیا جواز ہے جو اسے آوارہ قرار نہ دے کر ایک عقوبت زدہ روح قرار دے؟ وہ ہماری نفرت کی نہیں بلکہ ہمدردی کی مستحق ہو؟
مشہور ماہر نفسیات رابرٹ ڈبلیو وہائٹ (Robert W. White) نے اپنی کتاب ’دی ابنارمل پرسنالٹی‘ (The Abnormal Personality) میں بے روزگاری کے تئیں پیدا ہونے والے ردعمل کا ذکر کیاہے جو مختلف لوگوں میں مختلف ہوسکتاہے۔ ایک شخص بہادری سے اس کا مقابلہ کرکے کسی بھی کام کو عار نہ سمجھتے ہوئے کہیں سے بھی تھوڑا بہت پیسہ کمانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ (تقسیم کے وقت دیکھا گیا تھاکہ اچھے پڑھے لکھے لوگوں نے سموسے بیچنے یا گھر پر قلفی جماکر گھر گھر پہنچانے کا کام کیاتھا) ایک اور شخص ہاتھ پیر ڈال کر قسمت کو کوستا گھر میں پڑا رہ سکتاہے، ایک تیسرا شخص ہروقت غصے اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا رہ سکتاہے، لیکن رابرٹ وہائٹ نے تو ایک انتہائی نوعیت کا ردعمل بھی درج فہرست کیاہے۔ دیکھیے یہ بھی ہوسکتاہے:
1932میں امریکہ شدید کسادبازاری کا شکار تھا۔ بے روزگاری بہت بڑھ گئی تھی۔ اسی سال صدر کا انتخاب بھی ہوا تھا۔ ایک شخص نے شدید فرسٹریشن کے تحت نومنتخب صدر پر گولی چلادی۔ وہ تو بچ گئے لیکن ان کے ساتھ کھڑے لوگوں میں سے ایک شخص مارا گیا۔
تو دیکھیے ایک ہی سچویشن کے مختلف النوع نتائج ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہوسکتے ہیں۔ پیمانے (Quantum) کے دو انتہائی سروں پر محیط، سخت محنت اور معمولی ترین کام کرلینے سے لے کر فتنہ فساد کرنے کے انتہائی نکتوں کے درمیان۔
سیتا کے اوپر تقسیم یا اس کے آگے آنے والے حالات کا جو اثر پڑا اس میں اس کی افتادِطبع کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ایک مرتبہ جب کچھ لوگوں نے اس کی مدد کرنی چاہی تو ’’اس وقت یہ محسوس کرکے کہ وہ مفلس اور قابلِ رحم شرنارتھی ہے، اس کا سارا بدن کانپنے لگاتھا۔‘‘
اور: ’’یہ اس کے ساتھ کیسی مصیبت تھی کہ دردمندی اور اخلاص کی ایک ایک، ذرا ذرا بات اس کے دل پر لکھی جاتی تھی۔‘‘
دہلی کے ایک متمول اور بارسوخ خاندان سے اس کی شناسائی ہوئی تھی۔ وہاں کے متعلق اس کی سوچ دیکھیے:
’’یہ گھر اب بھی بندرگاہ میں ٹھہرا ہوا ایک محفوظ خاموش جہاز تھا جس میں کبھی کبھی آکر وہ یہاں کے سکون سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی تھی.... نیچے بل کھاتی ہوئی طویل خاموش سڑک کے پرے جمناجی اسی سکون سے بہہ رہی تھیں۔ کیا واقعی اتنا سکون ممکن ہوسکتا ہے؟‘‘
سیتا کے اندر جو رولا مچا ہوا ہے اس کے تحت وہ سوچتی ہے کہ کیا واقعی اتنا سکون ممکن بھی ہوسکتاہے؟ کہاں ہے اس کے حصے کا سکون؟ یہ احساس کچھ ایسا ہی ہے جیسے ایک غریب انسان امیر مالک یا پڑوسی کے یہاں کی فراوانی دیکھ کر سوچے کہ کیا اتنا کچھ میسر ہونا ممکن ہوسکتاہے؟
1968 میں مجھے کچھ عرصہ لکھنؤ وائی.ڈبلیو.سی.اے میں رہنے کا موقع ملاتھا۔ وہاں کی معمّرسکریٹری مس راج موہنی رلیا رام نے دوسری جنگ عظیم کے دوران لندن میں متاثرین کے ایک کیمپ میں بطور سماجی کارکن کام کیا تھا۔ اکثر وہ اپنے تجربات بڑے مؤثر اور دلچسپ انداز میں بیان کیا کرتی تھیں۔ انھوں نے بتایاکہ جنگ ختم ہونے کے بعد ایک کیمپ میں ’وافر‘ خوراک آگئی تھی۔ ہرپناہ گزین کے لیے 20 گرام مکھن اور 20 گرام جام کی ننھی ننھی پلاسٹک کی ڈبیاں دستیاب تھیں۔ ایک بچی کے ہاتھ میں ڈبل روٹی کے چار سلائس اور یہ دو ڈبیاں تھمائی گئیں تو اس نے بار بار حیرت سے پوچھا ’’یہ سارا کچھ میرے لیے ہے؟ صرف میرے لیے۔‘‘ 20گرام مکھن اور 20 گرام جام بہ یک وقت مل جانا اس کے لیے اتنا حیران کن تھاکہ اس نے وہ سامان سامنے رکھ کر بے یقینی کے عالم میں کئی بار کہا، اتنا سارا مکھن؟ اتنا سارا جام؟ کہاں سے مل رہاہے اتنا کچھ؟
کھانے کی میز پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں آب دیدہ ہوگئیں۔
یہی غیریقینی سیتا کی بھی ہے۔ ’’اتنا سکون؟ اتنا سکون کہاں ملتاہے، کہاں پایا جاتاہے؟‘‘
’’وہ باہر آگئی۔ بے معنی، بے معنی۔ زندگی کس قدر بے معنی تھی۔‘‘
سیتا کی ذہنی کیفیت کے عکاس یہ چند الفاظ اس کی شخصیت کے ریگ زار میں اڑتے بگولوں کے عکاس ہیں۔
ایک معاون خاتون کردار کے متعلق قرۃالعین کہتی ہیں: ’’وہ مذہبی یا غیرمذہبی کچھ بھی نہیں تھی، ایک نارمل قسم کی لڑکی تھی۔‘‘ اور پھر وہ سیتا کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’یہ تو سیتا کے ہی دماغ میں فتور تھاکہ وہ مذہب، سیاست، زندگی، موت۔ دنیا بھر کی ہرچیز کے متعلق سوچ سوچ کر دیوانی ہوئی جاتی تھی۔‘‘ اور اس کے شناسا کنبے کے افراد:
’’یہ اس قدر شائستہ، مہذب، نستعلیق، وضع دار اور غیرسیاسی قسم کے لوگ تھے کہ سیتا کو حیرت ہوتی تھی۔ اتنا بڑا ہنگامہ آکر گزر گیا، دنیا تہہ و بالا ہوگئی مگر یہ لوگ اسی سکون سے ان کولٹیوں میں بیٹھے رہے۔ (وہ خود بے خانماں ہوکر ہندوستان کے مختلف ریفیوجی کیمپوں سے ہوتی ہوئی 1948 میں دلّی آئی تھی۔)
زندگی کا دوسرا طوفان جس نے اس کی شخصیت کو تہہ و بالا کیا وہ اس کی پسند کی شادی کا الم ناک انجام تھا گرچہ ابتدا میں اس نے کسی بھی ہندوستانی لڑکی کی طرح شوہر کے ساتھ محبت بھری مفاہمت کی پوری کوشش کی تھی۔ وہ بتاتی ہے:
’’جمیل سے ملنے کے بعد میں نے اردو میں دلچسپی لینا شروع کی کیوں کہ وہ لٹریچر کے بہت شائق تھے اور ان سے باتیں کرنے کے لیے میرے لیے لازم تھاکہ میں خود کو ان کا ہم مذاق بناؤں اور وہی باتیں سوچوں اور کروں جو اُن کو پسند تھیں۔‘‘
وہی باتیں سوچنے اور کرنے کا جذبہ جو شوہر کو پسند ہو ایک ہندوستانی عورت کی لچک دار افتادِطبع کا خاصہ ہے۔ شراب بھی اس نے اس لیے پینی شروع کی تھی کہ شام کو شوہر کا ساتھ دے تاکہ وہ باہر نہ جائے لیکن شوہر شادی کے کچھ عرصہ بعد اسے بُری طرح نظرانداز کرنے لگتاہے۔ وہ شراب میں غرق رہتا اور عموماً دیر سے گھر لوٹتا۔ کھانا بھی اکثر باہر ہی کھا لیتاتھا۔ سیتا جب کھانا لے کر بیٹھی اس کا انتظار کرتی ہوتی، جمیل کا ایک دوست قمرالاسلام چودھری اکثر آکر بیٹھا رہتا۔ تنہائی، بوریت اور اضمحلال کے عالم میں سیتا اس کی طرف مائل ہوتی اور پھر پوری طرح اس کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے جس میں جنسی تعلق بھی ہے۔ اس رشتے کے بارے میں خود قمرالاسلام جمیل کو بتا دیتاہے۔ جمیل پہلے تو اس کی ٹھکائی کرتا ہے پھر گھر آکر سیتا کو مارپیٹ کر گھر سے نکال دیتاہے۔ بچہ اپنے پاس رکھ لیتاہے۔
’’جس وقت جمیل نے مجھے گھر سے نکالا میں بہت دیر باہر بارش میں سائڈواک پر کھڑی رہی۔ اگر اس وقت وہ ایک مرتبہ بھی دروازہ کھول کر صرف اتنا کہہ دیتے کہ سیتا بارش میں مت بھیگو، اندر آجاؤ تو میں واپس جاکر ان کے قدموں سے لپٹ جاتی، پھر عمربھر ان کو دھوکہ نہ دیتی۔ مگر دروازہ اسی طرح بند رہا۔‘‘
عورت کے لیے ناقابل معافی جرم مرد کے لیے معمولی بات قرار پاتاہے۔ اگر جمیل ایسا کرتا تو بے شک سیتا کو تکلیف ہوتی، وہ لڑتی جھگڑتی، روٹھتی لیکن گھر سے نکالنے کا تصور نہیں کرسکتی تھی۔ عورت ہوم میکر (Home maker) کہلاتی ہے، گھر اس سے ہوتاہے لیکن اس کا نہیں ہوتا۔ الّا ان استثنائی صورتوں کے جب وہ اس کے نام ہو۔ کبھی کبھی تو اس صورت میں بھی وہ نکال باہر کی جاتی ہے۔ اکلوتے، ننھے بیٹے کی جدائی اور ایک بار پھر خانماں برباد ہونے کی صورت حال کسی بھی عورت کے ذہن پر کتنے گہرے منفی اثرات ڈال سکتی اور شخصیت کو مسخ کرسکتی ہے، اس کے لیے نفسیات جاننے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک عورت151 یا یوں کہیے ایک انسان ہونا کافی ہے۔
تحفظ، طمانیت اور تھوڑی سی خوشی کی تلاش میں بھٹکتی سیتا ایک مرد سے دوسرے مرد کی طرف مائل ہوتی رہتی ہے۔ دو مضبوط بازوؤں کا سہارا اس کے لیے بہت ضروری ہے۔ حالات نے اسے ایک شکست خوردہ عورت میں تبدیل کردیا ہے جس کی عزت نفس پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ذہنی خلفشار انتہا کو پہنچتا ہے تو وہ نہایت عارضی جنسی تعلق بنانے سے نہیں جھجکتی۔ اس مرد اساس دنیا کو دیکھیے۔ قمرالاسلام چودھری سیتا کو ورغلانے کے بعد بیچ منجدھار میں چھوڑ گیا۔ اپنی پسند کی لڑکی سے بیاہ کرنے کے بعد خوش و خرم و کامیاب زندگی گزارنے لگا۔ جمیل بھی سیتا کو طلاق نہ دینے کے باوجود آرام سے کچھ دنوں کے اندر ہی ایک اسپنیش لڑکی سے شادی کرلیتا ہے۔ سیتا کو اس کے بچے سے ملنے تک نہیں دیتاکہ وہ ایک آوارہ اور بدکردار ماں ہے جس سے ملنا بچے کے اخلاق پر خراب اثر ڈالے گا۔ اس مرد کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہتا جو بیوی کو، اپنے بچے کی ماں کو بُری طرح پیٹنے کے بعد آدھی رات کے وقت موسلادھار بارش میں گھر سے نکال باہر کرتاہے۔ معافی مانگنے یا صفائی میں کچھ کہنے کا موقع تک نہیں دیتا۔ شرافت اور اعلیٰ کردار کے ان دوہرے پیمانوں کے درمیان:
’’رات، رات سیتا مہارانی کے بال ہیں۔ رات رگھورائے کا سانولا بدن ہے، کالی کا چہرہ ہے۔ تخلیق سے پہلے کی تاریکی۔ ہم سب ہروقت اسی تخلیق سے پہلے کی تاریکی میں مقید ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا ایوولیوشن (Evolution) ہوگیا۔ سیاہ، سیاہ، سیاہ رات!‘‘
اور:
’’قرول باغ میں اکثر وہ راتوں کو جگ کر راہل کے لیے چپکے چپکے رویا کرتی تھی اور صبح صبح آنگن میں لگے ہوئے نلکے پر جاکر آنکھوں پر خوب اچھی طرح چھپکے مارتی تھی تاکہ اس کے باپ کو اس کے الم کا پتہ نہ چلنے پائے۔‘‘
اور جب وہ سری لنکا میں تھی:
’’دن بڑا اجاڑ تھا، سارا ماؤنٹ لیونیا، سارا کولمبو۔ ساری دنیا اجاڑ تھی۔ اجاڑ۔ اجاڑ۔ اجاڑ۔‘‘
یہ لامتناہی اذیت ہے جس سے سیتا گزر رہی ہے۔ یہ اذیت اسے لمحاتی سکون، تحفظ اور کچھ راحت کے حصول کے لیے مردوں کی طرف مائل کرتی ہے، شاید اس کے لیے یہی ایک ذریعہ بچاہے۔ کبھی کبھی ضمیر ڈنک مارتاہے اور وہ ایک مزید تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے وہ ہے پچھتاوا۔ ایک جگہ وہ سوچتی ہے کہ کیوں نہیں زمین پھٹتی کہ میں اس میں سما جاؤں۔ سری لنکا میں ایک جرنلسٹ، جے سوریہ اسے غور سے دیکھتا اور سوچتاہے151 ’’... اس بے چاری کے اعصاب ضرورت سے زیادہ کمزور ہیں...‘‘ کافی پیوگی۔ وہ پوچھتاہے۔ ’’نہیں شکریہ۔ سیتا کو اپنے سارے وجود سے اتھاہ نفرت محسوس ہوئی۔ میں یہاں کیوں آئی...‘‘
جمیل سے انتہائی اذیت ناک علیٰحدگی کے بعد سیتا نے کسی کو دل سے پسند کیا تو وہ عرفان تھا۔ اس کے ساتھ وہ ایک مستحکم رشتے اور ایک نارمل سی ہندوستانی زندگی کی متمنی تھی۔ وہی جو اس نے جمیل کے ساتھ چاہی تھی۔ لیکن یہاں بھی حالات اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ چونکہ جمیل نے اسے طلاق نہیں دی ہے اس لیے وہ قانوناً کسی کی بیوی نہیں بن سکتی۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ جمیل دوبارہ شادی کرکے آرام سے ہے۔ اس پر شرعی طور سے کوئی پابندی نہیں۔ بچہ بھی اس کے پاس ہے۔ اس کا گھر ہے۔ گھر جو بیوی اور اولاد سے بنتاہے، دیواروں سے نہیں۔ سیتا ہی ہے جو ’بے گھر‘ ہے۔ سراب اس کا پیچھا کرتے ہیں اور وہ سرابوں کا۔
’’...لحظہ۔ حال۔ لحظہ موجود ہے جو تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اسے تھامے رکھو۔ مضبوطی سے تھامے رکھو کیونکہ دن اور رات تیزی سے سرکتے جارہے ہیں۔ وقت عنقریب ختم ہونے والا ہے...‘‘
یہ ٹوٹی بکھری عورت لمحاتی خوشیاں سمیٹتی پھرتی ہے کہ وقت عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ عرفان کے ساتھ دوبارہ زندگی بسر کرنے کی خواہش کے باوجود کہیں دل کے کسی مقفل دروازے کے پیچھے جمیل کو وہ اب بھی بسائے بیٹھی ہے کہ وہ اس کی پہلی محبت اور اس کے بیٹے کا باپ ہے۔ عرفان کسی موقعے پر کہتا ہے کہ ’’تم نے کس کریک سے شادی کی تھی‘‘ تو سیتا کو بُرا لگتاہے۔ ’’وہ بالکل کریک نہیں ہیں۔ لٹریری آدمی ہیں۔ آپ جیسے ٹھس لوگ رامائن اور پدماوت کیا جانیں۔‘‘ اس کا ردعمل فوری اور تیکھا ہے۔ اس نے جمیل کے خلاف تلخی کو راہ نہیں دی ہے۔ خود کو ہی، جو کچھ ہوا، اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
ایک عرصہ گزرنے کے بعد اس نے پیرس جاکر عرفان کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ عرفان اسے چاہتا اور اس کا ماضی بھلاکر اس کے ساتھ گھر بسانے کا خواہش مند ہے۔ سیتا کو طلاق نہ ملنے کی وجہ سے (جو جمیل اسے سزا دیتے رہنے کے لیے نہیں دے رہا ہے) وہ قانوناً شادی نہیں کرسکتے۔ اس لیے سیتا یوں ہی رہنے تو لگتی ہے لیکن کہیں رہ رہ کر اس کے زخموں میں ٹیسیں اُٹھتی رہتی ہیں۔ اوپر سے پُرسکون سطح آب کے اندر جو ہلچل ہے اسے مصنفہ نے بڑی چابک دستی سے واضح کیاہے:
ایک مرتبہ عرفان اس سے کہتاہے ’’تم سے ماورا ایک اور تم ہو۔ جب تم دفعتاً چپ ہوجاتی ہو میں پھر اکیلا رہ جاتا ہوں۔ تم مجھ سے ہزاروں میل دور چلی جاتی ہو۔‘‘
عرفان کے ساتھ بطور مسٹریس رہنے، جمیل کے طلاق نہ دینے، بچے کی صورت تک نہ دیکھنے دینے نے اس کے اندر ایک طوفان برپا کر رکھاہے۔ پھر باپ کی موت کی اطلاع ملنے پر وہ ہندوستان آجاتی ہے۔
کافی عرصہ اور گزرتا ہے۔ عرفان وہاں دل برداشتہ ہونے لگتاہے۔ اس کے خطوں کا درمیانی وقفہ بڑھنے لگتاہے۔ پھر تقریباً خط آنے بند ہوجاتے ہیں۔ اب سیتا اسی شدت سے عرفان کے خط کا انتظار کرتی ہے جس طرح وہ جمیل کی جانب سے طلاق نامے کا انتظار کرتی تھی۔
’’اس رات کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا تھا۔ کھانے کے بعد نلکے پر ہاتھ دھوتے ہوئے اچانک اسے خیال آیاکہ کوئی اس کا دوست نہیں۔ اتنی بڑی دنیا میں، اتنے بڑے عظیم الشان جگمگاتے ہوئے دارالسلطنت میں، شناساؤں کے اتنے بڑے ہجوم میں کوئی اس کا ہمدرد نہیں، کیوں نہیں۔ اس نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔‘‘
چھ مہینے اور نکل گئے۔
دل کے زخموں پر پھاہے رکھنے کو بہت عارضی طورپر وہ ایک معمّرآرٹسٹ پروجیش چودھری کے ساتھ تعلق پیدا کرتی ہے جسے وہ پہلے سے جانتی تھی۔
عرفان کو اس کی اس دوستی کی خبر لگ جاتی ہے اور ادھر ایک طویل سزا کے بعد جمیل اس کی گلوخلاصی کرتا اور اسے طلاق نامہ بھیج دیتاہے۔ سیتا خوش ہوجاتی ہے اور عرفان سے بیاہ کرکے اپنی پائدار، پُرسکون دنیا بسانے کے خیال سے سب سے رخصت ہوکر پیرس پہنچ جاتی ہے۔ وہاں معلوم ہوتاہے کہ عرفان تو شادی کرکے ہنی مون منانے نکل گیاہے اور گھر ایک ادھیڑعمر فرانسیسی کے حوالے کرگیاہے۔ وہ شخص سیتا کے خود کو ’مادام عرفان‘ بتانے پر حیرت زدہ رہ جاتاہے۔ پھر شادی کی اطلاع دے کر کہتاہے اندر آجائیے یہاں ہوا بے حد تیز ہے سورج کئی دن سے نہیں نکلا۔
کہانی کا آخری جملہ ہے ’’ہوا کے جھونکے نے دروازہ زور سے بند کردیا۔‘‘
یہ واضح نہیں ہے کہ سیتا اندر چلی گئی تھی یا نہیں۔ لیکن اعجازالرحمن صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ اندر چلی گئی تھی۔ اس ابہام کے باوجود سیتا کے ایک قطعی اجنبی کے ساتھ گھرمیں داخل ہوجانے کا یقین اس عصبیت کا مظہر ہے جو اس کے کردار کی وجہ سے مرد اساس معاشرے میں راہ پاتی ہے۔ بہرکیف کئی مردوں سے اس کے عارضی اختلاط کے باوجود سیتا کے کردار پر ہمدردی کے ساتھ غور کیا جائے کہیں بھی اس سے نفرت پیدا نہیں ہوتی نہ اسے بدکردار سمجھا جاسکتاہے۔ ایسا کوئی جذبہ سطحی قرأت کی وجہ سے پیدا ہوسکتا ہے۔ شاید ایک بہادر عورت سے ہم حالات کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرنے کی امید کرسکتے تھے لیکن تقسیم وطن کے بعد جس کس مپرسی سے اس کا کنبہ گزرا اس نے اور پھر جمیل کے رویے نے اس کی ساری ہمت اور صلاحیتیں سلب کرلی ہیں۔ یہ سیتا ایک نہیں، کئی راونوں کا شکار ہوئی ہے۔ جنگل میں جنگل کے قانون کے مطابق مرد زندگی گزار سکتا ہے، عورت نہیں۔

Ms. Zakia Mashhadi
F-1, Grand Pallavi Court 
Judges Court Road
Patna - 800004 (Bihar)


ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں