8/3/19

سریندر پرکاش کا افسانہ ’آرٹ گیلری‘ مضمون نگار:۔ احسن ایوبی


سریندر پرکاش کا افسانہ ’آرٹ گیلری‘
احسن ایوبی
بے ربط مکالموں پر مبنی سریندر پرکاش کے اس افسانہ میں مختلف مزاج اور متنوع خیالات رکھنے والے کردار ایک ایسی جگہ جمع ہیں جہاں ہر دوسرے لمحے بھانت بھانت کے لوگ آتے رہتے ہیں۔افسانہ کاغائب راوی ان سے متعلق تمام تروقوعوں اور متضاد کیفیتوں کو معروضی انداز میں بیان کرتا ہے جس میں طنز کی آمیزش نظر آتی ہے۔یہی طنزیہ اسلوب اور کچھ علامتی پیکراس افسانے کو ایک نئی اسلوبیاتی جہت سے آشنا کرتے ہیں۔ جو مصنف کے دوسرے افسانوں سے مختلف ہے۔ ہمہ داں راوی کے علاوہ یہاں ایک اور شخص بیٹھا ہوا ہے جو اس کیفے میںآنے والے ہر فرد کی مصروفیت اور طرز زندگی سے واقف ہے۔صرف افراد ہی نہیں بلکہ اس مقام پر رونما ہونے والے وہ واقعات جو ماضی کا حصہ ہو چکے ہیں وہ سب اپنے تمام تر جزئیات کے ساتھ اس کے ذہن میں محفوظ ہیں۔اسی لیے موقع بہ موقع وہ ماضی کے واقعات حال کی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے اور لمحہ موجود سے ماضی کا موازنہ بھی کرتا ہے۔افسانے کے ابتدائی مناظر اس افسانے کو سیاسی احوال سے وابستہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں،افسانے کا پلاٹ ظلم و جبر کی فضا میں پروان چڑھنے والے نامسا عد حالات کے اردگرد گھومتا ہے۔واضح طور پر یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ افسانہ نگار نے حصول آزادی اور اظہار رائے کی پابندیوں سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کے جاں سوز احوال کو علامتی پیرائے میں بیان کیا ہے۔ کیفے کی سیڑھیوں پر ہمہ وقت بیٹھنے والا یہ شخص اپنے ارد گرد کے تمام وقوعوں کو ناقدانہ نظر سے دیکھ اور پرکھ رہا ہے۔لیکن لوگ بالکل بے ضرر سمجھ کراس پر توجہ نہیں دیتے۔ سڑک پر عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے جلوس کا نظر آنا اور پھر غائب ہو جانا اسے ماضی میں لے جاتا ہے کہ جس طرح پہلے کے جلوسوں سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔اسی طرح آ ج بھی وہ نعرے کہیں فضا میں موجود نہیں ہیں۔بلکہ اپنے وجود کا ماتم منا کر مظلوموں کے قبرستان کی سوکھی گھاس کے ساتھ جل گئے ہیں۔
راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیفے میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی آمد کا وہ منتظرہے۔ وہ لوگ بے نیازی سے کیفے میں داخل ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ راوی کا اشتراک اس افسانے میں برائے نام ہے وہ کسی بیان کے استعاراتی اور علامتی عنصر کی وضاحت نہیں کرتا محض ایک ناظر اور سامع کی حیثیت سے کرداروں کے عوامل اور گفتگو کو قاری تک منتقل کر تا رہتاہے۔مثلاً اس جملے کے ذریعہ:
’’ان کے چھاتوں سے ٹپکنے والی پانی کی بوندیں چکنے فرش پر ایک لکیر بناتی ہوئی پھیل گئیں انھوں نے اس کی طرف توجہ نہ دی ۔‘‘
داخل ہونے والوں کی سچویشن بتا کر راوی نے بڑی خوبصورتی سے ان کی محویت اور بے توجہی قاری پر واضح کر دی ہے۔کوشش کے باوجود وہ ان کی گفتگو سننے میں ناکام رہتا ہے سوائے اس جملے کے ’’یار زندگی سات بٹہ انیس ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘یہ غیر روایتی جملہ نہ صرف بے نام کو چو نکاتا ہے بلکہ قاری کو بھی تجسس میں ڈالتا ہے اور وہ آنے والے واقعات بغور پڑھنے لگتا ہے تاکہ اس جملے کے معنیاتی ابعاد تک پہنچ سکے۔
بے نام ان کی بے نیازی پر نالاں ہو کر سوچتا ہے کہ اگر ان لوگوں نے نظر انداز کیا ہے تو وہ کیوں ان کے پیچھے بھاگے۔جس طرح اب تک کی زندگی سیڑھیوں پر کٹ گئی باقی بھی کٹ جائے گی،لیکن اسے چائے کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ کیفے کے اندر جا کر کیفے کی خوبصورت مالکن کو غور سے دیکھتے ہوئے آنے والے لوگوں کے قریب کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر سب کے چہروں پر خوف کا رنگ اس طرح پھیل جاتا ہے گو یا انھوں نے بھوت دیکھ لیا ہو۔ان لوگوں کے رویے سے قاری کے اندر تجسس بیدار ہوتا ہے کہ اس عجیب و غریب شخص کا مسئلہ کیا ہے۔
بالواسطہ طنز اور علامتوں میں ملفوف مکالموں سے رفتہ رفتہ کھلتا ہے کہ یہ شخص ان آنے والوں کا شناساہوا کرتا تھا لیکن زندگی کے نشیب و فراز نے اسے لوگوں سے بیگانہ کر دیا اور سب اس سے کترانے لگے ہیں۔وہ کیفے کے اندر جاکر لوگوں کے درمیان بیٹھ جاتا ہے لیکن کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا وہ سب کی گفتگو سن کر ایک آدھ بار اپنا ردعمل بھی ظاہر کرتا ہے لیکن جب جب وہ منھ کھولتاہے اس کے بولنے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔کیفے کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں میں جو گفتگو ہوتی ہے وہ مبہم اور غیر مانوس ہے۔لیکن اتنا تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس دور کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام کی خستہ حالی پر طنزیہ پیرائے میں بات کہی جا رہی ہے۔انھیں میں سے ایک شخص جو آرٹسٹ ہے وہ کہتا ہے کہ ’’میں اب کی نمائش میں اپنی تصویروں کی قیمتیں ایک سو بارہ فیصد بڑھا رہا ہوں۔‘‘جس پر جواب ملتا ہے کہ روٹی تو کسی طور کمانی پڑے گی۔گویا کہ روٹی کمانے کے لیے کوئی نہ کوئی اقدام کرنا ہو گا خواہ وہ خریداروں کے لیے زحمت ہی کیوں نہ بنے۔
اس کے بعد کیفے میں موجود رتن نامی شخص کے بدلے ہوئے رویہ کے متعلق گفتگو ہوتی ہے کہ اس کا سرکش کردار ختم ہو گیا ہے۔وہ پہلے جس طرح جوش اور غصہ کا مرقع ہوا کرتا تھا اب نہیں رہ گیا۔اس کی سرکشی سے وابستہ ایک واقعہ پر بھی گفتگو ہوتی ہے اور پھر اس کے مفاہمانہ انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس نے مصنوعی دانت لگوالیے ہیں۔جو اس بات کا اشاریہ ہے کہ رتن جو پہلے خونخوار ہوا کرتا تھا اب وہ صرف بظاہر ایسا نظر آتا ہے،لیکن بہ باطن وہ موجودہ سیاسی پینتروں کواپنا چکا ہے اس لیے غلط چیزوں کی پردہ پوشی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔مصنوعی دانت لگوا لینا یا ایندھن کھانا ایسے منفرد اور نامانوس علامات ہیں جنھیں متن سے مربوط کر کے معنی اخذ کرنے میں دشواریاں در پیش ہیں۔بعض عمومی بیانات کے محل وقوع ایسے ہیں کہ روایتی مفہوم کے دائرۂ کار کو توڑ کر نئے تناظر تشکیل دیتے ہیں۔ مثلاًانھیں میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ صرف رتن ہی کیوں ہم میں سے بیشتر ساتھیوں نے مصنوعی دانت لگوا لیے ہیں جن میں سے کچھ تو مرگئے اور کچھ کو لقوہ مار گیا یا سانپ نے کاٹ لیا۔اس با ت پر آرٹسٹ کہتا ہے کہ اس نمائش میں شاید مجھے بھی سانپ کاٹ لے۔جس پر جواب ملتا ہے کہ پھر تو زندگی مزے میں کٹے گی۔کیوں کہ آدمی زندگی بھر سانپ کے کاٹنے کا انتظار کرتا ہے۔ حقیقی صورت حال سے متضاد یہ کیفیت نت نئی تعبیروں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور ان کی یہ گفتگو افسانے کے استعاراتی پہلوؤں کو مستحکم کرنے کے علاوہ تخیلی عنصر کو وسعت دیتی ہے۔ مصیبتوں اور اذیتوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش انسانی فطرت ہے لہٰذا یہ جملہ ’’انسان زندگی بھر سا نپ کے کاٹنے کا انتظار کرتا ہے ‘‘قول محال کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے اور معنیات کے نئے طرفوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
اس مبہم گفتگو سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان لوگوں میں سب کے سب زمانہ شناس اور باخبر لوگ ہیں اورمادی دور کی آلائشوں اور خود غرضیوں سے خوب واقف ہیں۔اس لیے انسان کے ظاہر و باطن کے درمیان کے فرق کو سمجھنے پر بھی قادر ہیں۔اور بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج کرنے اور ہندوستانی آئین کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کو استعمال میں لانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر ذاتی مفاد کی خاطر رتن جیسے کچھ افراد بے ضمیر وبے زبان ہو جاتے ہیں۔ظلم و جبر کے خلاف آواز تو اٹھاتے ہیں لیکن پھر معمولی مفاد کے لیے صاحب اقتدار اور حکمراں طبقے کے حمایتی بن جاتے ہیں۔جس طرح رتن کیفے میں آہستہ بولنے کی تاکید پر کیفے کے مالک پر بھڑک اٹھا تھا اور اپنی بات منوا لی تھی لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی بیٹی مالکن بنتی ہے تو اس سے دوستانہ رویہ برتنے لگتا ہے۔ اس جمہوری ملک میں ہونے والی سیاست اور سیاسی رہنماؤں کی طرح جو کسی عہدے یا اہم کام کے لیے ظالم حکمرانوں سے در پردہ سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح رتن اس ملک کے سیاسی رہنماؤں کا نمائندہ معلوم ہوتا ہے اور کیفے کی مالکن حکمراں طبقے کی علامت۔ رتن مالکن کے نمائندے کے طور پر وہاں پر بیٹھے لوگوں کو یقین دہانی کراتا ہے کہ کل سے مالکن چیزوں کی قیمت اکتیس فیصد کم کر رہی ہیں۔جو اس بات کا راست اظہار ہے کہ عوام مہنگائی سے تنگ آکر جب آواز اٹھاتی ہے تو حکومت کا کوئی مصلحت پسند نمائندہ پرفریب وعدوں اور یقین دہانیوں سے ان کی آوازدبا دیتا ہے۔عوام بھی بار بار ایک ہی وعدے سے تنگ آکر بآلاخر خاموش ہوجاتی ہے۔ کیفے کی مالکن کے حاکمانہ رویے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں بیٹھے لوگوں کی آپسی گفتگو میں آنے والے بعض مباحث پر وہ سخت اعتراض کرتی ہے اور جواب بھی طلب کرتی ہے۔جو اس بات کا اشاریہ ہے کہ صاحب اقتدا ر طبقہ بولنے کی آزادی پر بھی قدغن لگانے کے درپے ہے۔
وزیر نامی آرٹسٹ کے ذریعہ نیوڈ پینٹنگ کا منظر پیش کرکے افسانہ نگار نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے زوال کا نوحہ کیا ہے۔یعنی آرٹ اور کلچر جو قوموں کے تشخص اور معیار کا تعین کرتے ہیں اس میں اس قدر مادیت کا عمل دخل ہو گیا کہ فن کار عوام کے احساس جمال کو نظر انداز کر کے محض شہوانیت کو پیش کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جا سکے اور دوسرے یہ کہ اخلاقی اقدار اورجمالیاتی ذوق میں اس قدر گراوٹ آچکی ہے کہ انسان ننگے پن کو ہی اصل ذوق سمجھ بیٹھا ہے۔علوم و فنون میں غیر معیاری چیزوں کی پیشکش کی وجوہ دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ زندگی اتنی تنگ اور دشوار گزار ہو چکی ہے کہ انسان بیزار ہوکر ایسے اقدام کرنے پر مجبور ہے۔ کرداروں کی زبان سے اس جملے ’’زندگی سات بٹہ انیس ہوگئی ہے ‘‘کی تکرار پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی ریاضی کے لا ینحل فار مولے کی طرح ہوگئی ہے یا ان غیر منقسم ہندسوں کی طرح جامد ہو گئی ہے جو کاٹے نہیں کٹ رہی ہے۔
کیفے میں پیش آنے والے مناظر اس طرح معنی خیز انداز میں بیان کیے گئے ہیں کہ ہر منظر اپنے آپ میں مختلف زاویے رکھتا ہے لیکن اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح افسانہ کی تھیم سے ہے۔مثلاً کیفے میں تین لڑکیاں مردانہ لباسوں میں داخل ہوتی ہیں اور تنک مزاج مالکن ان سے خندہ پیشانی سے ملتی ہے۔کیفے میں بیٹھے لوگوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا مگرانھیں گفتگو کا ایک موضوع مل جاتا ہے۔ اور ان میں سے ایک شخص مزاحیہ لہجے میں آرٹسٹ وزیر سے کہتا ہے کہ وہ اپنی نیوڈ پینٹنگ کو یہ لباس پہنا دے۔ تو آرٹسٹ جواب دیتا ہے کہ مگر یہ لڑکیاں ننگی ہو جائیں گی اور کہیں نہیں جا پائیں گی۔ سیڑھیوں پر بیٹھنے والا بے نام شخص در اندازی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’انھیں بڑے سفید بالوں والا کتا پال لینا چاہیے جو ان کے اعضاء ڈھک سکے۔تشدد کے علامیے کے درمیان یہ واقعہ زمانہ حال کی تہذیب،آداب گفتگو اور رہن سہن کو متشکل کرنے کی غرض سے بیان کیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے غیرمربوط اور منتشر اشیا کے ذریعہ اس بے حسی کی توضیح کی ہے جو زمانہ حال کاخاصہ ہے۔نیوڈ پینٹنگ اور ننگی ہو جانے کے تلازمے کی توثیق افسانہ کے اختتامی حصہ سے ہوتی ہے۔واضح ہوتا ہے کہ پورے افسانے میں کو ئی بیان لایعنی اور مہمل نہیں ہے۔
باتوں ہی باتوں میں بے نام شخص بتاتا ہے کہ گاؤں سے چٹھی آئی ہے کہ سرکارنے ایک آدمی کوکمبل ڈال کر شیر مارنے پر ایک ہزار روپے کا انعام دیاہے۔جبکہ میرے باپ کو سرکار نے ایک سو ساٹھ روپیہ مہینے پر آدمی مارنے کے لیے رکھا ہواتھا اس وقت وہ فوج میں تھا۔اس بات سے صاف واضح ہے کہ انسان کی زندگی کس قدر ارزاں ہو چکی ہے۔اس بے نام شخص کوافسانہ نگار نے اس دانشور طبقہ کا نمائندہ بنا یا ہے جو علم و تدارک کے باوجود اس معاشرے میں مناسب جگہ حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتاہے اوراس کی جگہ کم علم اورصلاحیت سے عاری افراد مسند نشین ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ بیزار ہوکر سماج سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔قوت گویائی اور بینائی سے محروم افراد کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔بے نام بظاہر تو بیگانہ نظر آتا ہے لیکن وہ کیفے میں بیٹھے تمام لوگوں کے مقابلے زیادہ معاملہ فہم اور باخبر ہے۔ لوگوں کی کم ظر فی انھیں اجازت نہیں دیتی کہ اس شخص کی بصیرت کااعتراف کریں بلکہ وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’ارے یار اس سے بات کرنا فضول ہے۔یہ کوئی انٹلکچول تھوڑی ہے۔اسے تو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایندھن چاہیے اور سیڑھیوں پر کا سائبان جو اسے گرمیوں کی گرمی اور سر دیوں کی سردی سے بچائے رکھے۔‘‘وزیر نے کہا یہ ہماری پرابلم ہے جو رنگوں کے معنی جانتے ہیں۔اسی لیے تو اس بار میں نے نیوڈ پینٹ کیے ہیں۔یہ کیسے سمجھے گا اس کامطلب ؟‘‘
اس گفتگو میں خود مرکزیت اور خوش فہمی کا عنصر صاف واضح ہے۔ جدیددور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہرشخص اپنے آپ کو عقل و فہم میں دوسروں سے برتر اور اعلی سمجھتا ہے۔انکسار و مروت کا فقدان اس قدر ہے کہ انسان اپنے علاوہ ہر ایک کو احمق ثابت کرنے کے در پے ہے۔ کچھ لمحے توقف کے بعد بے نام شخص اپنے ایک خواب کا ذکر کرتا ہے جس کی تہہ تک پہنچے بغیر اور اس کی تعبیر پر غور کیے بغیر ہی ایک شخص کہتا ہے کہ یہ کیسا ایبسٹرڈ خواب ہے۔اس کے بعد کیفے کی مالکن بھی اسے متنبہ کرتی ہے کہ یہ ریستوران ہے بیڈ روم نہیں۔یہاں پر بھی مالکن کا انداز تحکمانہ ہوتا ہے۔جس طرح کوئی کلاس ٹیچر کلاس میں بیٹھے ہوئے بچے کو غیر ضروری بات پر سرزنش کرے اور تنبیہ کرے وہی لہجہ مالکن کا ہوتا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جس زمانے میں یہ افسانہ لکھا گیا اس وقت ملک کی سیاسی فضا میں عوام کا سانس لینا تک دشوار رہا ہوگا۔مالکن کے ٹو کنے کے بعد بے نام کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے تمام ساتھی جو اصل معنوں میں کچھ نہیں ایک ایک کرکے چلے گئے اور وہ بالکل تنہا ہے۔وہ کیفے سے نکل کر باہر سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہے۔تھوڑی دیر میں کیفے کے اندر بیٹھا ہوا ایک شخص کہتا ہے کہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر پتہ چلا کہ یہاں زندگی کتنی مختلف ہے۔بے نام مسکرا کرمعنی خیز جواب دیتا ہے۔’’سیڑھیوں پر بیٹھ کر زندگی کا اصلی مزہ اس وقت آتا ہے جب بے مکانی کا عالم ہو۔۔بے سرو سامانی کا احساس ہو اور ذہن میں خلا کا گہرا گڑھا ہو۔‘‘کیفے میں بیٹھ کر خواب بیا ن کرنے کی وجہ سے کیفے کی مالکن اس ڈر سے اس کا داخلہ بند کر دیتی ہے کہ کہیں اس کے خواب دوسرے گاہگوں کی بینائی پر اثر انداز نہ ہوں۔اس لیے وہ کیفے کے اندر جاتے لوگوں کو بیٹھا حسرت سے دیکھا کرتا ہے۔لیکن مالکن نے اتنی رعایت کر دی کہ اسے کھانا اورناشتہ سیڑھیوں پر بھیج دیا جاتا ہے۔مالکن کا گاہگو ں کے ساتھ اچھے اور برے تمام تر رویوں کا جائز ہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف کیفے کی مالکن ہے بلکہ ان سب کی زندگی اور ہر عمل پر اختیار رکھتی ہے۔کیفے میں ہونے والی سرگرمیوں پر مالکن کا ردعمل اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے کہ حکومتی اقتدار قومیت کے تحفظ کے پر دے میں لوگوں کو عوامی اختیارات سے محروم کر نے کی سازشیں کس طرح کرتاہے۔
تصویروں کی نمائش والے دن بے نام بھی آرٹ گیلری میں جاتا ہے اوروہاں کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔لیکن جیسے ہی اس کی نظر وزیر کی پینٹنگ پر پڑتی ہے وہ دم بخود رہ جاتا ہے۔کیوں کہ ’’وہاں کوئی بھی تصویر ایسی نہیں تھی جس کاسبجیکٹ انسان ہو۔ننگا نہ ڈھنپا ہوا۔کچھ جا نوروں کی تصویریں تھیں۔اورکچھ تصویریں ان لباسوں کی تھیں جو اس دن ان تین لڑکیوں نے پہن رکھے تھے۔۔اور ہر لباس کے ساتھ ایک ایک لمبے سفید بالوں والا ننھا سا کتا تھا۔‘‘اس تصویر کو دیکھ کر بے نام کا حیران ہونا بالکل فطری تھا کیوں کہ وہ انسان جس کے بولنے اور خواب بیان کرنے پر پابندی عائد کی جاتی ہو،جسے بے وقوف سمجھا جاتا ہو اور جسے دیکھ کر لوگوں پر خوف طاری ہوتا ہو اس کی دیے ہوئے اشارے پر تصویر پینٹ کرنا ایک حیران کن عمل نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے۔بین السطورسے نمو پانے والے مطالب پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بے نام شخص کی نگاہ پورے عصری افق پر ہے جس کے اندر انقلاب کی آوازیں پیچ و تا ب کھا رہی ہیں لیکن لوگ جبری قوتوں کے خوف سے اس کے ہم زبان ہونے سے قاصر ہیں اسی لیے ما فی الضمیر کوپینٹنگ کی صورت میں پیش کرنے پر مجبور ہیں۔بے نام ایک ایسا مستقبل شناس ہے جسے معلوم ہے کہ اس کی بے باکی کا انجام اذیت ناک ہوگا لیکن وہ اس خوف سے بے نیاز ہو چکا ہے۔
اس نمائش میں ایک پینٹنگ ایسی تھی جس کی نقاب کشائی چیف گیسٹ کو کرنی تھی اس لیے لوگ بے تابی سے چیف گیسٹ کے منتظرتھے۔چیف گیسٹ کے ہاتھوں تصویر کی نمائش ہوئی۔لوگ تالیاں بجاتے ہوئے فن کار کی تعریف کر نے لگے۔لیکن بے نام وہ تصویر دیکھ کر پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور شرم سے اس کی نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر آرٹ گیلری سے بھاگنا چاہتا ہے کیونکہ وہ بے نام کی ہی تصویر تھی جس میں وہ دونوں بازو پھیلائے ننگ دھڑنگ کھڑا تھا۔نمائش کے دوسرے روز جب صفائی کی گئی تو کچرے کے ڈھیر پر ایک لاش پڑی ملی جس کے سینے پر گہرازخم تھا اور انگلیاں خون میں لت پت تھیں۔شام میں جب آرٹ گیلری کا دروازہ کھلا تو اس تصویر کا پورا کینوس خالی تھا۔ اس میں پینٹ ہوا ننگا آدمی غائب تھا اور جگہ جگہ اس پر خون کی انگلیوں کے نشان تھے۔اس منظر میں موجود آئرنی قاری کو اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ آرٹ گیلری جو ذوق جمال کی تسکین کی جگہ تصور کی جاتی ہے اسے خوف اور دہشت کا مسکن بنا دیا گیا ہے۔ 
بے نام کی زندگی کا درد ناک انجام پیش کر کے افسانہ نگار نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ معاشرے کے وہ افراد جو آگہی کے عمل سے گزرتے ہوئے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی چالبازیوں کو سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں انھیں کس کس طرح اذیتیں پہنچا کر زندگی سے بیزار کر دیا جاتا ہے۔یاس و محرومی اور وجود کی بے وقعتی انھیں ذہنی خلفشار میں مبتلا کر دیتی ہے۔اس افسانے میں بعض مسائل تو ایسے ہیں جو ہرزمانے میں در پیش رہے ہیں۔ مثلاً مہنگائی اور کمزور عوام کا استحصال۔ لیکن بعض مسائل صرف اسی زمانے سے مخصوص ہیں جب ملک میں ایمرجنسی لگی تھی اور بر سر اقتدار طبقے کے ظلم و تشدد نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔افسانہ نگار نے علامتی انداز میں اس زمانے کے سیاست دانوں کی منافع خوری اور انسانیت سوز اقدامات پر گہرا طنز کیا ہے۔افسانے میں جو مناظر پیش کیے گئے ہیں بظاہر تو منتشر اور بکھرے ہوئے ہیں مگر ان سب کا تعلق افسانہ کے موضوع اور کرداروں کی مستور شخصیت کو سامنے لانے سے ہے۔ان چھوٹے چھوٹے مناظر کے ذریعے اقدار کی پامالی،معاشرے کی بے حسی، تنہائی کا کرب اور شکست خوردگی کا وہ المیہ سامنے آتا ہے جسے اس کیفے میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سوائے بے نام شخص کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔افسانے میں مختلف ڈرامائی وقوعات قاری کو حیرت زدہ ضرور کرتے ہیں مگر بے یقینی یا خواب آگیں کیفیت کے دلدل میں نہیں لے جاتے بلکہ غور کرنے پر ساری تصویریں پوری تابناکی سے نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں۔عدم انسانیت،سفاکی،جبر اور اقتدار طلبی کی ہوس جیسے عناصر اس افسانے کومقام اور وقت کی حد بندیوں سے آزاد کر دیتے ہیں۔

Ahsan Ayyubi
C-4/3, Suroor Apartment 
Sir Syed Nagar
Aligarh - 202002 (UP)
Mob.: 9616272524

ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...