مادری
زبان کی اہمیت
اور والدین کی ذمّہ داریاں
گلشن آرا
بقول داغ دہلوی
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
دنیا کی کوئی بھی زبان اس وقت تک مر نہیں سکتی جب تک اس زبان کے بولنے اور لکھنے والے افراد موجود ہوں۔ گویا زبان زندگی بھی ہے اور بندگی بھی۔ بندگی اس معنی و مفہوم میں کہ ہم سب مذہب کی اصل خوشبو اپنی مادری زبان ہی میں محسوس کرسکتے ہیں۔ ہر مقام و منزل پر ہم نیت تو اپنی زبان میں ہی ادا کرتے ہیں اور اللہ ربّ العزت ہر انسان کی نیت سے بخوبی واقف ہے۔ اردو زبان کی تاریخ بھی ایک زندہ روایت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ بے شمار لوگوں نے نہ صرف اردو زبان کو برسوں سینے سے لگایا بلکہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں عہد ساز علمی و ادبی کارنامے بھی انجام دیئے۔ اردو ایک زندہ و تابندہ اور عالمی زبان ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک کے حصّوں میں اردو بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے اور آج بھی اپنے وطن عزیز میں کشمیر سے کنیا کماری تک اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے سامنے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنی اس پیاری اور انمول زبان اردو کو زندہ رکھنے اور بعد کی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ ہوں۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اس زبان نے ہر عہد میں تاریخ ساز علمی و ادبی کارناموں کے ساتھ ساتھ ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اردو ہندوستان کی خوبصورت مشترکہ تہذیبی وراثت ہے، جسے ہمارے آبا ؤ اجداد نے ہمیں سجا سنوار کر ورثے میں دیا ہے۔ ہماری ذمّہ داری یہ ہے کہ ہم اس امانت کو پوری ایمان داری کے ساتھ اگلی نسلوں میں منتقل کریں۔ ہمیں اردو سے سچی اور عملی محبت کرنی چاہیے۔ بہار میں اردو سرکاری عوامی سطح پر نظر انداز ہورہی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے اور وقت پر اردو کتابیں مہیا نہیں کی جاتی ہیں۔
اردو آبادی کو چاہیے کہ اردو میں درخواست دیں۔اگروہ درخواست کم دیں گے یا نہیں دیں گے تو اردو ملازمین کی معنویت و اہمیت کم ہوتی جائے گی۔ ہمیں اس کمی کو دور کرنے کے لیے سیمینار منعقد کرنے چاہیے اور اس کے ساتھ اردو عمل گاہوں یعنی ورکشاپ کے انعقاد کے ذریعہ اردو ملازمین کو ان کی منصبی ذمہ داریوں کے تئیں بیدار کرنے کے ساتھ ان میں اردو کا کام کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرنا چاہیے۔
اردو ڈائرکٹوریٹ کو اردو کی ترقی اور ترجمہ کے کاموں میں بہتری لانے کے لیے سہ لسانی دفتری اصطلاحی لغت کی تدوین کرانے کی ضرورت ہے جو بہت ہی بنیادی اور اہم کام ہے ۔ اردو قارئین کی تعداد بڑھانے اور انھیں اردو پڑھنے کی ترغیب دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں میں اردو لائبریری قائم کی جائے اور اردو سیمینار میں مدارس اسلامیہ کی بھی نمائندگی ہونی چاہئے۔ مدرسوں میں زیادہ تر دیہی علاقے کے غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات پڑھتے ہیں۔ اس لیے انھیں مفت کتابوں کی فراہمی سے ان کی تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی امداد بھی ہوگی۔ طلباء و طالبات کو بہار ٹکسٹ بک کارپوریشن کے ذریعہ شائع شدہ کتابیں مفت مہیا کرائی جائیں تاکہ اردو زبان کے طلباء و طالبات کی تعلیمی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو کی ترقی و فروغ کی راہیں مزید ہموار ہوسکیں گی۔
میرے خیال میں بچوں کی ذہنی نشو و نما اور عملی تربیت کے لیے علمی و ادبی تقریبات میں خاص موضوعات پر انھیں بولنے کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں، جس سے بچوں کی ذہنی صلاحیت اور جوہر کو سامنے لایا جاسکے۔ چھوٹی بڑی ادبی نشست کا انعقاد کرکے ان کی ذہنی پرورش و پرداخت کی جاسکتی ہے۔ اساتذہ اپنی درس گاہوں میں شعر و ادب کی محفل آراستہ کرکے بچوں میں ذوق و شوق کو آسانی سے پروان چڑھا سکتے ہیں۔ یہ عہد سائنس و ٹیکنالوجی کا ہے اس سے بھی ہم بچوں کو بھرپور فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
اسکولوں کی طرح مدرسوں کے طلبا و طالبات کو بھی مفت کتابیں فراہم کرنے سے اردو آبادی کا حکومت پر اعتماد مضبوط ہوگا۔
اردود وسری سرکاری زبان ہے۔ سبھی ملی اور اردو اداروں میں اردو زبان میں کام ہونا چاہیے۔ آپسی مشورے اور تعاون سے اردو کی ہمہ جہت ترقی اور فروغ کی راہیں ہموار ہوں گی اور اردو ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور بلندی حاصل کرسکے گی۔دنیا کی بہت سی زبانیں اپنے محدود و مخصوص وسائل کے باوجود اپنی زبان میں اعلیٰ ادب تخلیق کررہی ہیں۔ اپنے وطن عزیز میں بھی بنگلہ، تمل، تیلگو، ملیالم زبانوں میں عالمی ادب تخلیق کیا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زبانوں میں عالمی ادب کا بھر پور ترجمہ کرکے اپنی زبان کو عالمی ادب کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو سے محبت کرنا سیکھیں۔
ثانوی سرکاری زبان اردو کے عملی نفاذ کے سلسلے میں کئی نوٹیفیکیشنس (Notifications) بھی جاری کیے گئے ہیں لیکن 1981ء میں ثانوی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود اردو ابھی اپنے آئینی حق سے محروم ہے، جب ایک اردو آبادی مادری زبان کے تئیں خود بیدار اور متحرک نہیں ہوگی، خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوگی تب تک اردو زبان فروغ نہیں پا سکے گی۔
اردو دیوس،5 1اگست، 26جنوری اور دیگر سرکاری تقریبات کے موقعوں پر دعوت ناموں اور ہورڈنگ وغیرہ میں اردو زبان کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے حالانکہ دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کو بھی سرکاری سطح پر مناسب جگہ ملنی چاہیے۔ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے ایک نگہداشت کمیٹی بنا کر مضبوط اردو تحریک شروع کرنے اور بچّوں کو اردو زبان کی تعلیم کی طرف والدین کو راغب کرنے کے لیے بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔
ہماچل پردیش، پنجاب اور اڑیسہ میں اردو کا امتحان پاس کرنے والے سرکاری ملازمین و افسران کو ایک سے زائد انکریمنٹ (Increment) دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا حکومت بہار کو بھی ثانوی سرکاری زبان اردو کی ترقی اور ترویج کے پیش نظر بہار میں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ عوام کے تعاون سے ہی اردو زبان کا عمل نفاذاور اس کی ترقی و ترویج ممکن ہوسکے گی۔
حکومت نیک نیتی کے ساتھ اردو زبان کی بہتری اور فروغ کے لیے بہت سارے منصوبے بناتی ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے اردو آبادی کو بیدار رہنا ہوگا۔ دلی، یوپی، جھارکھنڈ، بہار اور مغربی بنگال یعنی شمالی ہند کی دوسری سرکاری زبان اردو ہی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کا فروغ ہونا چاہیے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ ہمیں ایک منصوبہ بند، منظم اور مدت بند لائحہ عمل تیار کرکے اس پر عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے او رہم اب بھی فرسودہ روایات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بدلتے ہوئے مزاج و میلان او ر لسانی تبدیلیوں سے بھی ہم اپنے آنے والی نسلوں کو سیراب و فیضیاب کرسکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو گھر کی فضا میں مذہب کے ساتھ تھوڑا سا وقت اپنی مادری زبان سیکھنے اور سکھانے میں صرف کریں تو بہت ہی فائدہ ہوگا۔
اردو زبان کے سلسلے میں ایک اور بات قابلِ غور ہے۔ زبانیں ماں کی گود میں ہی پلتی ہیں اور تعلیم گاہوں میں سنورتی ہیں۔ تب جاکر یہ اہل زبان کے دلوں میں دھڑکتی ہیں۔ لہٰذا اردو زبان کی ترقی کے سلسلے میں کوشش کرتے ہوئے خواتین اور لڑکیوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ انھیں ترجیح دینا چاہیے۔ اردو پڑھی لکھی ماں کی گود میں پلنے والی اولاد ضرور اردو پڑھ لے گی۔ ایک خاتون کی اردو تعلیم خاندان میں اردو تعلیم کی ضمانت ہے۔
اردو ادب کے باشعور والدین حضرات سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں ضرور پڑھائیں لیکن اردو کی واجبی تعلیم کے لیے گھر پر مناسب انتظام ضرور کریں اور اپنی مادری زبان سے نئی نسل کو علاحدہ نہ ہونے دیں کیوں کہ اردو ہماری زبان ہی نہیں بلکہ ہماری شناخت اور پہچان بھی ہے۔
ماہرینِ لسانیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان اپنی مادری زبان کے وسیلے ہی سے دوسری تمام منزلوں اور مرحلوں کو بہ آسانی طے کرتے ہیں اور ترقیات اور فتوحات کے نئے دریچے کھولتے ہیں۔ کوئی بھی زبان ہو وہ بولنے، پڑھنے اور لکھنے سے ہی زندہ رہتی ہے۔ زبانیں دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں سے بھر پور استفادہ کرکے ادب میں بلند مقام و مرتبہ حاصل کرتی ہیں۔ اردو زبان ملک کی شیریں، دلکش اور سیکڑوں برسوں کی ریاضت اور محنت و محبت کی مشترکہ قومی وراثت اور امانت ہے۔ اس زبان کو تمام مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے لہو سے سینچا اور سنوارا ہے۔ اردو نے ملک کی آزادی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اردو کے نغموں اور نعروں نے ملک کی آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘، جیسے اردو کے لفظ کو ملک کی تمام زبانوں نے اپنے ادب میں جگہ دے کر اس زبان کی عظمت و اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ ہمارا فرضِ اولین ہے کہ ہم اپنے بچوں کو موجودہ جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں مگر اس کا بھی خیال رہے کہ آنے والی نسل اردو زبان سے ہرگز دو رنہ ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو گھر کی فضا اور ماحول میں دین کے ساتھ ساتھ اپنے اس قیمتی ورثہ اردو زبان کو بھی ہر حال میں زندہ رکھیں۔ مذہب کو سمجھنے اور برتنے کے لیے بھی ہمارا اردو جاننا اور پڑھنا بہت ضروری ہے۔ ا س لیے ہم سب اپنی زبان اردو کو روز مرہ کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنائیں اور بزرگوں کی اس امانت کو آگے کی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیں۔
C/o. Dr. M. M. Ansari
Madarsa Road, Maripur,
Muzaffarpur - 842001 (Bihar)
ماہنامہ خواتین دنیا، شمارہ مارچ 219
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں