8/3/19

جاں نثار اختر کی فلسفۂ مارکسزم پر تخلیقات مضمون نگار:۔ وقار صدیقی





جاں نثار اختر کی فلسفۂ مارکسزم پر تخلیقات

وقار صدیقی

جاں نثار اختر نے 8 فروری 1914 کو گوالیار میں افتخار حسین مضطرخیرآبادی جیسے قادرالکلام، ذی علم اور استاد شاعر کے یہاں آنکھیں کھو لیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی اور یہاں کے وکٹوریہ کالچیٹ ہائی اسکول (موجودہ نام گورنمنٹ ہری سنگھ درشن سنگھ ہائر سکنڈری اسکول) سے 1930 میں میٹرک پاس کیا۔ 31 مارچ 1972 کو مضطرخیرآبادی کا انتقال ہوجانے سے اختر کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے وہ علی گڑھ چلے گئے۔ 1939 میں اردو میں ایم اے کیا۔ 1940 میں ’اردو میں ناول نویسی‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا کام نامکمل چھوڑ کر گوالیار واپس آگئے اور وکٹوریہ کالج (موجودہ نام ایم ایل بی آرٹس اینڈ کامرس کالج) میں اردو کے لیکچرار ہوگئے۔

علی گڑھ کا ماحول جاں نثار اختر کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے لیے سازگار ثابت ہوا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں ذہین اور باغی نوجوانوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ ان میں مجاز، سبط حسن، احمد عباس، اختر حسین رائے پوری، حیات اللہ انصاری، سردار جعفری، سعادت حسن منٹو، معین احسن جذبی، شاہد لطیف اور اخترالایمان وغیرہ شامل تھے۔ جاں نثار اختر نے اس انجمن میں خود کو اجنبی محسوس نہیں کیا بلکہ وہ اس میں خوب رچ بس گئے۔ اس وقت کے ملکی اور عالمی حالات نے ہر باشعور انسان کو متاثر کیا۔ وہ زمانہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انقلابی عمل کا تھا۔ ہندوستانی عوام برطانوی حکومت سے سمجھوتہ نہ کرنے پر زور دے رہے تھے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ تھے۔ یورپ میں اقتصادی بدحالی اور بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے اشتراکیت کی جانب مائل ہونے کا رجحان بڑھ رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ فاشزم کا بڑھتا ہوا خطرہ اور دوسری جنگ عظیم کے منڈلاتے ہوئے سائے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اکتوبر انقلاب اور سوشلزم کی کامیابیاں ایک عوامی اور سماجی انقلاب کی نشاندہی کررہے تھے۔ ان حالات نے ادیبوں اور شاعروں میں ایک باغیانہ آن بان پیدا کردی تھی۔ اسی ماحول میں جاں نثار احتر کا سیاسی، سماجی، اور ادبی شعور پروان چڑھا اور ان کا شمار ان کے زمانۂ طالب علمی سے ہی مستند ترقی پسند شعرا میں ہونے لگا تھا۔ علی گڑھ کے زمانۂ قیام میں جاں نثار اختر نے مارکسزم کا مطالعہ بڑی سنجیدگی اور گہرائی سے کیا۔
1936 میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی تشکیل کے بعد ترقی پسند تحریک نے باقاعدہ ادیبوں کی ایک وسیع تحریک کی شکل اختیار کرلی، جس میں مختلف زبانوں اور نظریات کے حامل ادیب شامل ہوئے تھے۔ جاں نثار اختر اس تحریک کے ان معماروں میں سے ایک تھے جن کا مارکسزم میں اعتماد غیرمتزلزل رہا۔ دراصل مارکسزم کا سائنسی نظریہ اخترکی زندگی اور شعور کا جز بن گیا تھا۔ اہم بات یہ نہیں ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر وہ کبھی رہے یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مارکسزم پر ان کا یقین محض رسمی تھا یا حقیقی۔ اس کا ثبوت ان کی وہ طویل نظمیں ہیں جو انھوں نے تاریخ کا جدلیاتی تصور اور ریاست کے مارکسی نقطۂ نظر پر کہی ہیں اور جو ان کی انتخاب کلام ’خاکِ دل‘ میں ’طویل نظمیں‘ کے عنوان سے شامل ہیں۔ ان نظموں کے بارے میں سردار جعفری نے جاں نثار اختر کو لکھا تھا:
’’تم نے بعض ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جو کسی دوسرے ترقی پسند شاعر نے نہیں کہیں۔ میری مراد ان نظریاتی مثنویوں سے ہے جو جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کے بعض پہلو پیش کرتی ہیں۔‘‘ 1
اس اعتبار سے جاں نثار اختر اپنے ہم عصر ترقی پسندوں میں ایک نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اب اگر کوئی ان موضوعات کو شاعری کا موضوع تسلیم نہ کرے تو یہ ہٹ دھرمی نہیں تو او رکیا ہے۔ اس کا جواب سردار جعفری نے جاں نثار اختر کو تحریر کردہ اس خط میں دیا جو ’خاکِ دل‘ میں شامل ہے:
’’اگر قدیم شعرا کے یہاں مابعد الطبیعیات اور ہمہ اوست کے مسائل شعر کا موضوع بن سکتے ہیں تو جدید شاعر کے یہاں جدلی اور تاریخی مادیت شعر کا موضوع کیو ں نہیں بن سکتے ہیں۔‘‘ 2
سوال کرنے والے نے جعفری سے کہا کہ مابعدالطبیعات دل کا فلسفہ ہے اور جدلی اور تاریخی مادیت دماغ کا فلسفہ ہے۔ جعفری کا جواب تھا:
’’یہ تو تفریق صحیح نہیں ہے کیونکہ وجدان شعری کے بغیر دونوں میں سے کسی پر ایک مصرع بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘ 3
یعنی شاعری کے لیے وجدان شعری ضروری شرط ہے شاعر پر موضوع کی قید لگانا غیرشاعرانہ اور غیرجمہوری عمل ہے۔ موضوع کا انتخاب ہر شاعر کا تخلیقی اور جمہوری حق ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ اس نے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے یا نہیں اور وہ موضوع کو شاعری کے قالب میں ڈھالنے میں کامیاب ہے یا ناکام۔ اور یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جاں نثار اختر کی نظمیں ’مورخ سے‘، ’دانائے راز‘، ’پانچ تصویریں‘ اور ’ریاست‘ موضوع اور فن کے امتزاج کی کامیاب مثال ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان گنے چنے شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے مارکسزم کا مطالعہ بہت غور و فکر کے ساتھ کیا اور اس فلسفے کی باریکیوں کو بخوبی سمجھا تھا لہٰذا وہ تاریخی مادیت اور جدلی مادیت کے تصور پر ’مورخ سے‘، ’دانائے راز‘، ’پانچ تصویر‘ اور ’ریاست‘ کے مارکسی نقطہ نظر پر ’ریاست‘ جیسی کامیاب اور ہمہ گیر نظمیں کہہ سکے جن میں ایک رزمیہ شکوہ کو سلاست اور روانی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے جو مواد اور ہیئت کے باہمی توازن کی ایک اچھی مثال ہے۔
1940 سے 1950 تک گوالیار جہاں ایک طرف فرقہ وارانہ کشیدگی، نفرت اور تعصب کی آماجگاہ بنا رہا وہیں دوسری جانب مزدوروں ، کسانوں اور طالب علموں کی تحریکوں کا ابھرتا ہوا مینارہ بھی بنتا جارہا تھا۔ جاں نثار اختر جب 1940 میں علی گڑھ سے گوالیار واپس آئے تو کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آچکا تھا اور جے سی ملز (جیوا جی راؤ کاٹن مل) میں مزدوروں کی جدوجہد انقلابی تیور اختیار کررہی تھی۔ 1946 میں گوالیار میں سب سے بڑی اور مکمل ہڑتال ہوئی اور سامنتی پولس کی فائرنگ سے چار مزدور شہید اور بہت سے زخمی ہوگئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں مارکسزم سے جو ذہنی لگاؤ اور جڑاؤ انھیں حاصل ہوا تھا اس کی عملی شکل کا مشاہدہ وہ گوالیار میں کررہے تھے اور تحریک کے سرکردہ لیڈروں سے ان کا رابطہ تھا۔ 1970 میں جب میں سی آئی ٹی یو (سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین) کی کانفرنس کے دوران کامریڈ بی ٹی رندوے سے کلکتہ میں ملا تو انھوں نے گوالیار میں جاں نثار اختر سے ملاقات کا ذکر کیا۔ اس وقت مجھے بڑی مسرت کا احساس ہوا کہ ہمارے شاعر سے ملک کا ممتاز دانشور اور سرکردہ رہنما محض واقف ہی نہیں ہے بلکہ اس کی شاعری کا قدرداں بھی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مارکسزم کے فلسفے اور اصولوں پر ان کی متذکرہ چاروں نظمیں گوالیار کے دورانِ قیام 1944-45 کی تخلیق ہیں بلکہ ان حالات اور اس ماحول کی رہین منت بھی ہیں جو گوالیار میں اس وقت تھا۔
یوں تو ترقی پسند شاعروں نے مارکس کے فلسفے اور نظریات سے متاثر ہوکر بہت کچھ کہا ہے اور جاں نثار اختر کے شعری سرمایے کے ایک قابل لحاظ حصے میں بھی مارکس کے نظریات اور تصورات کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے لیکن متذکرہ وہ نظمیں جو مارکسزم کے تاریخی اور جدلیاتی مادیت کے اصول پر مبنی ہیں اختر کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو اردو کے قارئین کو اس مشکل اور پیچیدہ فلسفے کو آسانی سے سمجھنے میں مددگار ہوا ہے اور ان کے تاریخی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی، شعور کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کررہاہے اور کرتا رہے گا۔ اس لیے ہم اس مقالے کو ان چار نظموں تک ہی محدود رکھتے ہیں جو اپنے آپ میں اتنی وسعت اور ہمہ گیریت رکھتی ہیں کہ ایک طویل مقالہ تو کیا ایک مستقل تصنیف کا روپ اختیار کرسکتی ہے۔
جاں نثار اختر کی نظم ’مورخ سے‘
کارل مارکس نے اپنی مشہور کتاب ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں لکھا ہے کہ ’’آج تک تمام انسانی سماج کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔‘‘ یہ جملہ مارکس کا انسانی تاریخ کے نظریے کا لب لباب ہے۔ اس نظریہ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ہر تاریخی دور میں اقتصادی پیداوار اور اس سے لازمی طور پر پیدا ہونے والا سماجی ڈھانچہ اس دور کی سیاسی اور ذہنی تاریخ کے لیے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ ہر سماج کی تاریخ اس کی اقتصادی بنیاد میں تبدیلی کی وجہ سے بنتی اور بگڑتی ہے۔ اقتصادی بنیادیں بننے میں دو عوامل کا ہونا شرط ہے۔ پہلا پیداواری قوتیں اور دوسرا تعلقات پیداوار۔‘‘ قوت پیداواری اور تعلقات پیداواری سے مل کر ہی پیداوار ہوتی ہے، تب ایک وقت ایسا آتا ہے جب پیداواری قوتیں اور تعلقات پیداواری (سماجی رشتے) آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں یعنی معاشرے کے اندر تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ اس تضاد کا حل سماجی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پرانے سماجی رشتوں کی جگہ جو معاشرے کے پاؤں کی زنجیر بن گئے تھے نئے سماجی رشتے وجود میں آتے ہیں جو ترقی یافتہ پیداواری عناصر سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ کچھ مدت بعد جب پیداواری قوتیں اور زیادہ ترقی کرجاتی ہیں تو پھر وہی سماجی رشتے جو کل تک نئے تھے فرسودہ ہوجاتے ہیں اور معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں تب معاشرہ ان رکاوٹوں کو توڑنے پر مجبور ہوتا ہے۔ غرضیکہ پیداواری قوتوں کے ساتھ پیداواری رشتے بھی سماجی انقلاب کے ذریعے بدلتے رہتے ہیں۔‘‘4
تاریخ کی اس مادی بنیاد کو مورخین اب تک نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے تاریخ فقط نامور بادشاہوں اور فاتحوں کے کارناموں یا مذہبی جھگڑوں کی داستان بن کر رہ گئی ہے۔ جاں نثار اختر اپنی نظم میں ’مورخ سے‘ دریافت کرتے ہیں کہ کیا تاریخ محض اسمائے رجال کی فہرست ہے یا فقط تقویم پارینہ کا نام ہے اور پھرخود ہی جواب دیتے ہیں کہ تاریخی تغیرات کے محرکات معاشی اور سیاسی یعنی مادی ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ ان طبقاتی قوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انسانی سماج کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ تاریخ کی مادی اور طبقاتی کشمکش کی داستان کو بڑی فنکاری سے اشعار میں ڈھالنا جاں نثار اخترکا بڑا کارنامہ ہے انھیں الفاظ کے استعمال پر قدرت حاصل ہے اس لیے وہ تاریخ کی مادی حقیقت کو جمالیاتی آہنگ عطا کرنے میں کامیاب ہیں:
کیا فقط تاریخ ہے فہرستِ اسمائے رجال
کیا فقط تاریخ ہے تقویمِ پارینہ کا نام
اے کہ تو ناواقفِ رازِ درونِ انقلاب
آ بتاؤں میں تجھے تاریخ کا رازِ تمام
ایک واثق علم ہے فطرت کے اس آئین کا
حکم سے جس کے بدلتا ہے زمانے کا نظام
علم کی اُن روز افزوں قوتوں کی سرگزشت
عرصۂ فطرت میں جو پھیلا رہی ہیں اپنے دام
جن کے بل آئین پیداواری کی تبدیلیاں
ہاں یہی تبدیلیاں ہیں دورِ نو کا اہتمام
ہاں یہی تبدیلیاں ہیں فکر کو سامانِ نو
ہاں یہی تبدیلیاں ہیں ذہن کو تازہ پیام
مختلف طبقوں کے باہم کش مکش کی داستان
ایک کو شوقِ تگ و دَو، ایک کو فکرِ قیام
نور و ظلمت کی بہم آویزشوں کا ماجرا
زندگی کے ہر دوراہے پر جھگڑتی صبح و شام
مدہوش بلگرامی نے اختر کی دو نظموں ’مورخ سے‘ اور ’دانائے راز‘ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار اپنے مضمون ’مارکسی شاعر‘ میں اس طرح کیا ہے:
’’مورخ سے‘ اور ’دانائے راز‘ (جدلیاتی مادیت پر ان کی بڑی اہم نظمیں ہیں، ایسے مشکل اور پیچیدہ مگر اہم تصورات جن میں اس نظریے کے تمام سماجی، فلسفیانہ اور سیاسی پہلو بھی شامل ہوں نظم کرنا بجائے خود ایک کارنامہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نظم ’مورخ سے‘ مارکس ایناگلز کے کمیونسٹ مینی فسٹو کا ایک اقتباس ذہن میں ابھار دیتی ہے جو وہ اس لیے نقل کررہے ہیں کہ پڑھنے والو ں کو اس مواد کا اندازہ ہوسکے جسے جاں نثار اختر نے اس نظم میں برتا ہے۔‘‘5
اب تک کی موجودہ سوسائٹی کی تمام تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے آزاد انسان اور غلام، اعلیٰ و ادنیٰ، حاکم و محکوم، کارخانہ دار و کاریگر مختصراً ظالم اور مظلوم مستقلاً ایک دوسرے کے سامنے مخالف صف میں کھڑے ہوئے اس جنگ کو کبھی چھپے کبھی کھلے طور پر لڑتے رہے ہیں۔ اس جنگ کو جو کبھی سوسائٹی کی انقلابی تعمیر یا مقابلہ کرنے والے طبقوں کی مکمل تباہی پر ختم ہوتی ہے، تو وہ لوگ جو مندرجہ بالا اقتباس کی سیاسی اور تاریخی معنویت سے باخبر ہیں داددیں گے ان کی سلاست اور روانی کی جس کے ذریعے اختر نے ایک اہم تاریخی حقیقت کو اجاگر کیا ہے۔
نظم مختلف تاریخی ادوار میں طبقاتی کشمکش کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے یوں آگے بڑھتی ہے:
عصرِ نو کا زمزمہ، دورِ قدامت کا خروش
ایک گونجے ساز کا جیسے بدلتا ہو مقام
واقعاتِ زندگانی کے تسلسل کا پتہ
مختلف ادوار کے اسباب کی شرح تمام
مختلف فرقوں کے سادہ ابتدائی دور سے
کس طرح پیدا ہوئی تمیزِ آقا و غلام
کیوں ہوا دنیا میں سامنتی تمدن کا ظہور
کس لیے قائم ہوا سرمایہ داری کا نظام
کس طرح سرمایہ داری اپنی قوت کے لیے
خون سے مزدور کے پیتی رہی گلرنگ جام
کس طرح سرمایہ و زر کی برآمد بن گئی
بے خبر ملکوں کے گلشن میں شہنشاہی کا دام
رفتہ رفتہ محکوم قوموں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی اور وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ بھوک اور افلاس کی تاریک شب نے عوام کو بغاوت پر کمربستہ کردیا ہے اور اب وہ جاگ اٹھے ہیں:
کس لیے محکوم قومیں ہوگئیں بیدار آج
توڑنے اٹھے ہیں کیوں صدیوں کی زنجیریں غلام
بھوک اور افلاس کی تاریک شب میں کس لیے
چونک اٹھی ہے بغاوت، جاگ اٹھے ہیں عوام
زندگی کی ظلمتوں میں کس طرح مشعل لیے
سینۂ گیتی سے ابھرا آفتابِ لالہ فام
یہ تجسس، یہ تفکر، یہ بصیرت، یہ نظر
ذہن میں کرتی ہے وا تاریخ کے عقدے تمام
تاریخ کا مطالعہ جب جدلیاتی نقطۂ نظر سے کیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف تاریخ کے تمام راز افشا ہوجاتے ہیں بلکہ ان سے وہ محکم اصول بھی اخذ ہوسکتے ہیں جو نشوِ آدم کے لیے حکم دوام کا درجہ رکھتے ہیں۔کیوں کہ زندگی کے قوانینِ تغیر کا علم اور اس پر عبور حاصل کرکے ہی انسان زمانے کے نظام پر اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے اور اس طرح جاں نثار اختر کو مستقبل کے آئینے میں نوع انسانی کی حشمت اور زندگی کا احتشام نظر آتا ہے:
اخذ کرسکتی ہے دنیا ان سے وہ محکم اصول
نشوِ آدم کے لیے رکھتے ہوں جو حکمِ دوام
زندگی کے ان قوانینِ تغیر پر عبور
قبضۂ انساں میں دیتا ہے زمانے کا نظام
آئینے میں آج مستقبل کے آتی ہے نظر
نوعِ انسانی کی حشمت زندگی کا احتشام
اور انسان کی عظمت اور زندگی کے احتشام کو حاصل کرنے کے لیے زندگی کا کاروانِ تیزگام ایک شعوری کیف کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے:
اک شعوری کیف میں بڑھتا ہوا منزل کی سمت
لمحہ لمحہ زندگی کا کاروانِ تیزگام
نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے:
یہ بشارت ایک زریں عہدِ استقبال کی
کیا ہے خود تاریخِ انسانی کا اک روشن پیام
اس طرح نظم کی تعمیر تاریخ کے مادی اور سائنسی تصور اور تجزیے کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اپنے اختتام پر انسان کو ایک زریں عہدِ استقبال کی بشارت دیتی ہے۔
’دانائے راز‘
’مورخ سے‘ کی طرح جاں نثار اختر کی نظم ’دانائے راز‘ بھی جدلیاتی مادیت کے اصولوں اور ان کی اہمیت کی تفصیل سے وضاحت کرتی ہے۔ یوں تو فکر و عمل میں رابطے کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن مارکس نے فکر و عمل میں جو رشتہ بتایا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل نیا ہے اور یہی مخصوص نیاپن اسے اس کے دوسرے علمبرداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ مارکس کے نزدیک فکر و عمل سے رشتہ محض قائم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس رشتے کا ساکت و جامد ہونے کے بجائے متحرک اور ارتقائی ہونا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے فکر و عمل کے اس رشتے کے متحرک ہونے کے طریقۂ کار کو مارکسزم جدلیاتی مادیت کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ درحقیقت جدلیاتی مادیت، فلسفۂ مادیت سے علیحدہ نہیں ہے۔ بلکہ دونوں فکر و عمل کی طرح ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور یہ مارکسی فلسفے کے دو مربوط پہلو ہیں۔ گویا فلسفۂ مادیت فلسفہ ہے تو جدلیاتی مادیت اس کے عمل کا اصول ہے۔ چنانچہ مارکسزم کے نقطۂ نظر سے محض اتنا مان لینا کافی نہیں کہ فطرت کا تصور مادی ہونا چاہیے بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مادہ کی ماہیت، حقیقت کیا ہے اور یہ کس طرح متحرک اور ارتقائی ہے۔ اس حرکت اور ارتقا کے کیا اسباب ہیں ان باتوں کو چند اصولوں کے تحت سمجھا جاسکتا ہے جو مارکسی نقطۂ نظر سے جدلیات کے نام سے موسوم ہیں۔ دراصل جدلیت تحقیق اور نتائج پر مبنی عمل کا طریقۂ استدلال ہے۔ یہ اصول ہے فلسفہ نہیں جو فطرت اور سماج کو سمجھنے کا حقیقت پسندانہ طریقہ ہے۔
جاں نثار اختر کا بھی یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے جدلیاتی مادیت کو شاعری کا موضوع بنا کر اس میں ادبی حسن اور انقلابی شان پیدا کردی ہے۔
انھوں نے اپنی نظم ’دانائے راز‘ میں مکالماتی ٹکنیک اختیار کی ہے جس میں جویائے راز، دانائے راز سے فطرت، کائنات، مادہ و خیال، جمود و ارتقا، تاریخ، رشتۂ فکر و عمل، آئینِ پیداوار وغیرہ کی وضاحت کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔ دانائے راز، جدلیاتی مادیت کے اصولو ں کے تحت بڑے اعتماد سے ان سوالات کا جواب دیتا ہے۔ اس نظم میں اقبال کی نظم ’خضر راہ‘ کی بازگشت سنائی دیتی ہے لیکن اگر غور سے دیکھیں تو وہ اس میں اقبال کے عقائد کی تردید بہت واضح طور سے کرتے ہیں۔ اختر تاریخ کے مادی تصور پر زور دیتے ہیں جب کہ اقبال تاریخ کی مادی تعبیر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے خیالات عینیت اور تصوریت کے سلسلے سے جاملتے ہیں۔ ڈاکٹر قمر رئیس اس نظم کا محرک اس سرکش جذبے کو قرار دیتے ہیں جو احیائیت اور انفرادیت پسندانہ تصورات سے بیزار ہیں۔ وہ اختر اور اقبال کے تاریخ کے مادی تصور کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
’’شاید اس نظم کا محرک بھی وہی سرکش جذبہ رہا ہو جو ابتدا سے ہی احیائیت اور انفرادیت پسندانہ تصورات سے بیزار ہے۔ نظم میں دانائے راز ہر سوال کا جواب جدلیاتی اور تاریخی مادیت کے نقطۂ نگاہ سے دیتا ہے۔ اقبال مادہ اور خیال کی دوئی یا تضاد کو نہیں مانتے تھے لیکن تاریخ کی مادی تعبیر کو وہ قطعاً غلط قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے تصورات اسلام کے واسطے سے ایک خاص طرح کی عینیت تک ہی پہنچتے ہیں۔ خودی اور مرد کامل کے تصورات میں بھی انفرادیت پسندی کا رجحان غالب ہے۔ جاں نثار کا دانائے راز ہر موقعے پر ان خیالات کی تردید کرتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘ 6
کائنات کے بارے میں دانائے راز عالم خاکی کی اصلیت و حقیقت پر زور دیتا ہے اور مادے کو اس کے وجود کا باعث قرار دیتا ہے۔ کائنات کی ہر شے (جاندار اور بے جان) مادی ہے۔ مادہ انسانی دماغ سے الگ ہے لیکن اس کا عکس انسانی دماغ میں پایا جاتا ہے۔ اب دیکھیے اختر کس خوبی سے دانائے راز کے ذریعے مادے کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں:
عالم خاکی ہے اک اصلِ گراں
ہر تصور ہے فقط عکسِ جہاں
مادے سے ہے ہر اک شے کا وجود
اصلِ شاہد ہے یہی اصلِ شہود
مادے سے آب و آتش، خاک و باد
مادے سے جلوۂ بست و کشاد
مادے سے لالہ ہائے گلستاں
مادے سے شبنمِ گوہر فشاں
مادے سے رنگ و بو و نار و نور
مادے سے فکر و احساس و شعور
مادے سے ضوفگن شمعِ خیال
ذہنِ انسانی اِسی کا اک کمال
مادہ جامد و ساکت نہیں بلکہ متحرک ہوتا ہے۔ اس لیے دانائے راز کہتا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ بیقرار ہے۔ فطرت کے حوادت اور واقعات میں باہمی ربط کے باوجود تصادم ناگزیر ہے جو ارتقا کا ضامن ہے۔ متضاد طاقتوں کے باہم اتحاد و انتشار اور کشمکش سے فطرت اور زندگی ارتقاپذیر ہے:
ذرّہ ذرّہ ہے جہانِ بے قرار
اک مسلسل اضطراب و اضطرار
ذرّے ذرّے میں تصادم کی نمود
باہمی ربط و تقابل کا وجود
ذرّہ ذرّہ زندگی سے ہمکنار
ذرّہ ذرّہ ارتقا کا رازدار
ارتقا کا راز ہے راز تضاد
ہر کہیں ہے دو ضدوں کا اتحاد
دو ضدیں آپس میں ٹکراتی ہوئی
زندگی کی آگ بھڑکاتی ہوئی
جویائے راز کے دریافت کرنے پر دانائے راز جواب دیتا ہے کہ فطرت کا یہ آئین عالمگیر ہے اور ارتقا کو مظاہر کا مقدر قرار دیتاہے۔ جدلیت کا یہ اصول محض مظہرفطری کے ارتقا پر ہی عائد نہیں ہوتا بلکہ انسانی سماج اور اس کے ارتقا پر بھی صادق ہے۔ اس کی رو سے ہر سماجی تبدیلی کے اسباب اس کے گرد و پیش کے حالات میں پنہاں ہیں۔ لہٰذا جب سے سماج طبقوں میں تقسیم ہواہے ان کے درمیان طبقاتی جہاد بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا ہے۔ ہر چیز کا ایک مثبت اور ایک منفی پہلو ہوتا ہے۔ ہر چیز وجود میں آتی رہتی ہے اور فنا ہوتی رہتی ہے۔ ارتقائی عمل دراصل ان ہی متضاد کیفیتوں کی کشمکش اور جدوجہد کا مظاہرہ ہوتا ہے جو دفعتاً انقلابوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ اصول فطرت، انسان اور سماج سب پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اور یہی تاریخ کا قانون ہے:
فطرتی آئین عالم گیر ہے
کل مظاہر کی یہی تقدیر ہے
ہے وہی فطرت کا قانون تضاد
مختلف طبقات کا باہم جہاد
اجتماعی زندگی کا ہر نظام
آشنا تغیر سے ہے صبح و شام
کیف میں کم کا تبدل دفعتاً
بن گیا یاں انقلابوں کا چلن
نظم کا اختتام سازنو میں نغمۂ جمہور کی خوشخبری پر ہوتا ہے، جس میں زندگی آزادی اور خوشی سے ہمکنار ہے:
سازِ نو میں نغمۂ جمہور ہے
زندگی آزاد ہے مسرور ہے
پروفیسر آفاق حسین صدیقی نے اپنی کتاب جاں نثار اختر شخص اور شاعر میں اختر کی نظم ’دانائے راز‘ اور اقبال کی نظم ’خضرِراہ‘ کا شعری اعتبار سے امتیاز کا ذکر کچھ اس طرح سے کیا ہے:
’’شعری لحاظ سے خضرراہ کا شاعر اس سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے جب کہ ’دانائے راز‘ سے متاثر کرنے کے لیے مارکسی فلسفہ سے غیرمعمولی دلچسپی اور عقیدت ضروری ہے۔ قطع نظر ان اختلافات کے جہاں تک ’دانائے راز‘ میں شاعر کے اشتراکی نظریے سے والہانہ لگاؤ، مادی جدلیات سے گہری واقفیت اور اس کے خلوص اور انسان دوستی کا تعلق ہے، ان باتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ساتھ فلسفیانہ خیالات کو موثر پیش کش اور شعری نظم و ضبط، تسلسل و روانی او ربیان کی دلکشی و شگفتگی کے لحاظ سے دانائے راز خصوصیت کی حامل ہے۔‘‘ 7
مندرجہ بالا اقتباس کے بارے میں اتنا عرض کروں گا کہ اگر کسی تخلیق میں وہ تمام شعری محاسن موجود ہیں جن کا ذکر آفاق حسین صاحب نے ’دانائے راز‘ کے سلسلے میں کیا ہے تو وہ ہر باشعور قاری کو متاثر کرے گی، چاہے وہ کسی بھی نظریے کی حامل ہو۔ پھر چاہے وہ اسلامی فلسفہ ہو یا مارکسی فلسفہ۔
’ریاست‘
جاں نثار اختر نے ریاست کی مارکسی توجیہ اور تصور کو اپنی نظم ’ریاست‘ میں شاعرانہ حسن و وقار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نظم کا آغاز تاریخ کے اس دور سے ہوتا ہے جب لوگ چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتے تھے اور سماج آقاؤں اور غلاموں میں تقسیم نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں ریاست کا وجود نہ تھا ۔لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں مل جل کر پیدا کرتے تھے اور پھر آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس وقت لوگ مشترکہ طور پر ہر کام کرتے تھے۔ اپنی ضرورت کے لیے پتھر کے اوزار و آلات بناتے۔ شکار، کھیتی باڑی سب مل کر کرتے تھے۔ شاعری، مصوری، رقص و موسیقی سب ساتھ ساتھ کرتے تھے۔ کوئی ایک فن یا ہنر کسی کی انفرادی تخلیق نہیں ہوتی تھی بلکہ پورے معاشرے کے اجتماعی شعور، احساس اور تجربو ں کی پیداوار تسلیم کی جاتی تھی۔ معاشرے کے اس دور کو عمرانیات کی اصطلاح میں ابتدائی کمیونزم کا دور کہتے ہیں۔
جاں نثار اختر نے اس دو رکی سادگی، معصومیت، امن و عافیت اور اشتراکِ عمل کی کیسی خوبصورت اور پرکیف تصویرکشی کی ہے۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
کتنی معصوم تھی ابھی دنیا
کتنے بے لوث تھے یہ لیل و نہار
روحِ عالم تھی ناشناسِ الم
قلبِ گیتی تھا آشنائے قرار
چال تھی زندگی کی نستعلیق
سطح انسانیت کی تھی ہموار
مسکراتے وہ عافیت کے پھول
کھِلکھلاتا وہ امن کا گلزار
باہمی محنتوں کا کیف لیے
زندگی اپنے رنگ میں سرشار
جاں نثار اختر نے بجا طور سے ریاست کے قیام کو انسان کے دماغ میں ملکیت کے جنون کا بیدار ہونا قرار دیا ہے نیز جماعت کے قلب پر اقتصادی مفاد کی تلوار چلنے سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے اسے پرعناد طبقوں کی باہمی کشمکش کی پیداوار کہا ہے۔ کیونکہ ریاست طبقاتی نظام کے ظہور میں آنے کا نتیجہ ہے:
رفتہ رفتہ دماغِ انساں میں
ملکیت کا جنوں ہوا بیدار
چل گئی قلب پر جماعت کے
اقتصادی مفاد کی تلوار
ایک طاقت ضرورتاً ابھری
بن کے امن و اماں کی ذمے دار
ایسی طاقت وجود ہے جس کا
خود جماعت کے ضعف کا اظہار
مختلف پُرعناد طبقوں کی
باہمی کش مکش کی پیداوار
زلزلوں کی رکھی ہوئی تعمیر
آندھوں کی چُنی ہوئی دیوار
اختر نے ہر تاریخی دور میں ریاست کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔ وہ غلامی کا دور ہو یا جاگیرداری کا یا پھر سرمایہ داری کااور عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم، جبر و استبداد اور استحصال و عیاری کی تصاویر مختلف انداز سے پیش کی ہیں۔ مختلف ادوار کی دردناک داستانیں وہ بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔
اٹھارہویں صدی کے آخری دور اور انیسویں صدی کے دوران ساری دنیا میں انقلابات ہوئے۔ مغربی یورپ کے سارے ملکوں میں جاگیردارانہ نظام ختم کردیاگیا اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔ جہاں بورژوا طبقہ (یعنی جدید سرمایہ دار) برسراقتدار ہوتا ہے۔ اس کی ریاست میں عوام کو کچھ مراعات تو ضرور حاصل ہوتی ہیں لیکن اس جمہوری طرز حکومت میں محنت کش عوام کی معاشی بدحالی ختم نہیں ہوتی اور جمہوریت کے پس پردہ وہی سرمایہ دارانہ استحصال اور استبداد برقرار رہتا ہے۔ 
اینگلز نے جمہوری ریاست کے بارے میں اپنے نظریات کا اظہار اپنی انتہائی مقبول عام تصنیف ’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘ میں کچھ اس طرح کیا ہے:
’’ہر ریاست جس میں زمیں اور ذاتی ملکیت نجی ہے جہاں سرمایہ داری کا بول بالا ہے، وہ ریاست چاہے جتنی جمہوری کیو ں نہ ہو، سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ ایک مشینری ہے جس کو سرمایہ دار، مزدور طبقے اور غریب کسانوں کو محکوم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جب کہ عام رائے وہی دستور ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ محض ظاہری صورت، کاغذی پرونوٹ ہے، جن سے معاملے کا مافیہ نہیں بدلتا۔‘‘ 8
جاں نثار اختر نے جمہوری ریاست کی قلعی کھول کر اینگلز کے خیالات کی تائید ہی نہیں کی بلکہ اسے شاعری کے حقیقت پسندانہ زیور سے آراستہ بھی کیا ہے:
آمریت بھی اس کا ایک عمل
اس کا جمہوریت بھی اک کردار
آج جمہوریت کی چلمن میں
لاکھ بیٹھے یہ بن کے پردہ دار
باطنی طور پر وہی انداز
ظاہراً مختلف طریقۂ کار
وہی طبقہ نواز اس کی ادا
وہی اوروں سے بغض، ایک سے پیار
وہی رِستے غریب کے ناسور
وہی بہتی زمیں پہ خون کی دھار
اختر سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ظلم و ستم اور مکر و فریب کو بے نقاب کرنے کے بعد محنت کش عوام کی بیداری، اتحاد اور جدوجہد سے متاثر ہوکر شعر پر شعر کہتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب اقتصادی جدوجہد سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوجاتی ہے تو وہ انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتی ہے لینن کی قیادت میں روس میں اکتوبر 1917 کے کامیاب انقلاب کی مثال ان کے سامنے تھی۔
اس طرح دنیا میں پہلی بار سوشلسٹ ریاست کا وجود عمل میں آیا تھا۔ سوشلزم میں ہر فرد سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جاتا ہے جس کا معاوضہ اسے اس کی محنت کے تناسب سے دیا جاتا ہے لیکن یہ کمیونزم کی منزل پر پہنچنے کا ایک عبوری دور ہوتا ہے۔ جب اشیا کی پیداوار، ان کی تقسیم کا قانون اس طرح تبدیل ہوجائے گا کہ ہر فرد سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے جس کے عوض اس کی ساری ضروریات پوری کی جائیں گی۔ یہی سوشلسٹ ریاست کے ارتقا کی ایک بلند تر اور نئی منزل یعنی کمیونزم ہوگی۔ جس میں ریاست کا وجود رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا۔ اخترنے سوشلسٹ ریاست کے اس عبوری دور کو وقتی سیاست کا اہم کردار قرار دیا ہے اور اس کی اچھائیوں اورخوبیو ں کو کہیں براہِ راست تو کہیں تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔
جاں نثار اختر نے کمیونسٹ سماج کو ایک نئے دور کا آغاز اور زندگی کا نیا طریقہ کار کہا ہے۔ جس میں نہ طبقوں کی کشمکش ہوگی اور نہ ریاست کا وجود باقی رہے گا۔ اقتصادی زندگی میں بہتر تبدیلی کے اثرات عوام کی طرزِ زندگی اور افکار و خیالات پر لازمی طور سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا کمیونسٹ سماج کا یہ فرد سرمایہ دارانہ نظام کے فریب وریا اور استحصال کے شکار انسان سے بالکل مختلف ہوگا اور نہ کوئی آدمی سرکشی پر آمادہ ہوگا کیونکہ اس ریاست کی بنیاد اجتماعی طریقہ تقسیم اور اجتماعی نظام پیداوار پر قائم ہوگی جو ہر فرد کی ضروریات کی کفالت ہی نہیں کرے گی بلکہ ایک نئی تبدیلی کی ضامن ہوگی، جس میں انسان کی زندگی کی قدر محنت سے ہوگی اور اس کے باوقار ہونے کا ثبوت بھی اس کی محنت پر منحصر ہوگا۔ ایسے سماج میں انسان میں ایک دوسرے سے سچی ہمدردی اور مفاہمت کا جذبہ بیدار ہوگا اور وہ علیحدگی، غیریت اور بیگانگی محسوس نہیں کرے گا۔ اس ماحول میں ذہن آدمِ نو کو فرسودہ روایات اور خیالات سے نجات حاصل ہوگی اور اس کے بجائے جدید اور حسین و جمیل افکار و خیالات پروان چڑھیں گے۔ بقول اختر یہ آدمِ نو رسم و تہذیب کی نئی قدروں اور حسن اخلاق کے نئے معیار سے روشناس ہوگا۔ اس طرح وہ کمیونسٹ سماج کی برکتوں سے قاری کو باخبر کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔
جاں نثار اختر نے ’ریاست‘ جیسے موضوع کو شعری زبان عطا کرکے ایک بڑا کام انجام دیا ہے۔ نظم سادگی اور پرکاری کی اچھی مثال ہے۔ اخترکے حسنِ بیان اور زبان و بیان پر غیرمعمولی قدرت کے باعث نظم میں ایک عجیب دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ مارکس نے تاریخ کے ہر دور میں ریاست کے کردار کا جو تجزیہ پیش کیا ہے۔ جس طرح اس کی افادیت اور اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی اسی طرح جاں نثار اختر کی نظم ’ریاست‘ بھی اپنے مکمل شاعرانہ حسن و تجمل کے ساتھ ادب کے شہ پاروں میں شمار کی جاتی رہے گی۔



’پانچ تصویریں‘
مارکسی فلسفے میں مادہ انتہائی وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ مادہ محض وہ اجزا نہیں ہیں جن سے تمام چیزیں بنی ہیں بلکہ لاتعداد خارجی حقیقتیں ہیں جن کا وجود کائنات میں ہے۔ یہ خارجی حقیقتیں مثلاً چاند ستارے، پیڑ پودے، سمندر، دریا، آبشار، جنگل، بیابان، نظامِ شمسی غرضیکہ سارے طبیعاتی اور غیرطبیعاتی عناصر میں مادہ کا وجود ہے۔ دنیا کے حادثات و واقعات مادے کی حرکت کے قوانین کے مطابق رونما ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر مارکسزم دنیا کو مادی قرار دیتا ہے۔
جس طرح انسان کو قوانین فطرت کا علم ہے اسی طرح انسانی سماج کے ارتقا کے بھی کچھ قوانین ہیں جو خارجی حقیقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ہی قوانین کے مطابق انسانی تاریخ ارتقا کی منزلیں طے کرتی رہی ہے۔ جس کے مطابق سب سے پہلے قدیم قبائلی سماج، پھر غلامی کا دور، اس کے بعد جاگیردارانہ عہد او رپھر سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آیا۔ ابتدائی قبائلی دور کو چھوڑ کر ہر تاریخی دور میں سماج متضاد طبقوں میں بٹا رہاان کے درمیان ٹکراؤ اور کشمکش جاری رہی اور یہی جدوجہد سماجی ارتقا کا سبب بنی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی آج طبقاتی جنگ جاری ہے اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں سوشلزم کا ظہو رہوا۔ اس طرح مارکس اور اینگلز نے فکر و عمل کا جدلیاتی مادیت کا اصول وضع کرکے سماجی ارتقا کاقانون دریافت کیا۔ جاں نثار اختر کی نظم پانچ تصویریں سماجی ارتقا کے ان ہی اصولوں کی تفسیر ہے۔ نظم میں عالمی تاریخ کے پانچ ادوار کی تصویرکشی جس سادگی اور پرکاری کے ساتھ کی گئی ہے وہ ان کی مارکسزم کے فلسفے اور اس کے اصولوں سے گہری واقفیت اور فنکارانہ پختگی کی عمدہ مثال ہے۔ ان پانچوں ادوار میں انسان پر کیا کچھ گزرا اور اس نے کس طرح حالات، مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کیا، کبھی ہارا تو کبھی جیتا، ان سب کا حقیقت پسندانہ اظہار نظم میں پایا جاتا ہے۔
نظم کا آغاز دنیا کی تاریخ کے ابتدائی دور سے ہوتا ہے، جسے قدیم قبائلی دور کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں فطرت اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔ جاں نثار اختر نے نظم کی ابتدا فطرت کے لازوال حسن کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کرکے اسے مادی اور جمالیاتی جہت عطا کی، وہ انسان اور انسانی سماج کی مادی بنیاد کو فطرت کا ہی حصہ مانتے ہیں اور اس طرح فطرت اور انسان میں مادی بنیاد پر بھی ایک رشتہ استوار کرتے ہیں۔ یوں بھی مناظر فطرت انسان کے وجدان اور جمالیاتی شعور کی آبیاری کرتے ہیں اور شعری پیرایہ اظہار کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اختر ہر تاریخی دور سے پیشتر فطرت کے عظیم الشان مظاہر کو شعری پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔ وہ تاریخ کے پہلے دور کو، عالم کے نوآفریدہ شکوہ، سے تعبیر کرتے ہوئے مظاہر فطرت کی منظرنگاری اس انداز سے کرتے ہیں:
وہ دشت و جبل، وادی و کہسار
وہ فطرت کے سنگین نقش و نگار
پہاڑ اپنے بازو پسارے ہوئے
زمین اپنا سینہ اُبھارے ہوئے
کہیں سنگ پارے، کہیں سبزہ زار
چٹانوں پہ گرتے ہوئے آبشار
وہ چشموں سے پستے ہوئے سنگ و سل
درندوں سے آباد صحرا کا دل
امڈتی گھٹائیں وہ بالائے کوہ
وہ عالم کا نو آفریدہ شکوہ
وہ تاروں کے نغمے، سمندر کا راگ
ہوا سے بھڑکتی نیساں میں آگ
فطرت ابتدا میں انسان کو بالکل اجنبی، بیگانہ، قادرِ مطلق اور ناقابل تسخیر طاقت نظر آتی ہے۔ وہ نیچر سے درندوں کی طرح خوف کھاتا تھا کیونکہ اس وقت انسان نے نیچر کو اپنی ضرورت کے مطابق بدلنا اور ڈھالنا شروع نہیں کیا تھا۔ انسان کے شعور میں وسعت اور گہرائی، ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے محنت و مشقت کے عمل سے آئی۔ رفتہ رفتہ اس نے فطرت پر قابو پانا سیکھ لیا۔ اپنی زندگی کی بقا کے لیے اسے ایک ہوکر چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہنا پڑا تاکہ وہ درندوں سے محفوظ رہ سکے، بال بچوں کی پرورش کرسکے اور خوراک کا سامان فراہم کرسکے۔ اُس دور میں اور موجودہ انسانی سماج کے درمیان میں کئی ہزار سال کا فاصلہ ہے۔ اس زمانے کو ابتدائی کمیونزم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
گویا اس دو رکی بنیاد اشتراکِ عمل اور مساوات پر قائم تھی۔ اختر اس دور کی سادہ، جفاکش اور پرامن زندگی کویوں اشعار میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں:
صداؤں سے گونجی ہوئی وادیاں
وہ وحشی قبائل کی آبادیاں
رخوں پر مشقت کے سنگیں نشاں
وہ مضبوط شانوں پہ ڈالے کماں
بدن پر لپیٹے ہوئے برگ و پوست
وہ غیروں کے دشمن وہ اپنوں کے دوست
وہ سینوں میں حفظِ بقا کی امنگ
وہ فطرت سے انساں کی معصوم جنگ
وہ پتھر کے اوزار گھڑتے ہوئے
درندوں سے بے خوف لڑتے ہوئے
وہ مل جل کے اپنی غذا جوڑتے
درختوں پہ چڑھ چڑھ کے پھل توڑتے
ابتدائی دور میں محدود قوتِ پیداوار سے ہی انسان زندہ رہ سکتا تھا اس لیے غلام و آقا کا رشتہ قائم نہیں ہوا تھا لیکن دوسرے تاریخی دور میں قوت پیداوار پر کچھ لوگ حاوی ہوتے گئے تو غلام اور آقا کی ضرورت محسوس ہوئی۔ دو ہزار سال پہلے غلامی کا بول بالا تھا۔ سارا جدید مہذب یورپ اس منزل سے گزرا۔ اس زمانے میں دنیا کی بڑی اکثریت کو بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ہندوستان اور دنیا کی کم ترقی یافتہ قوموں میں غلامی کے نشانات آج بھی باقی ہیں۔ اس زمانے میں سماج مالک (آقا) اور غلام میں بٹ گیا تھا۔ پہلے گروہ کے لوگ نہ صرف تمام ذرائع پیداوار کے مالک ہوتے تھے (یعنی زمین اور آلات پیداوار کے خواہ وہ اس زمانے میں کتنے ہی ابتدائی اور ناقص کیو ں نہ رہے ہوں) بلکہ ان کی ملکیت آدمی (غلام) بھی تھے یہ گروہ غلاموں کا مالک یا آقا کہلاتا تھا۔ جبکہ جو لوگ محنت کرتے تھے اور دوسروں کے لیے کام کرتے تھے غلام کہلاتے تھے۔ یہ تھی پہلی اہم طبقاتی تقسیم۔
جاں نثار اختر نے تاریخ میں پہلی بار زمین کی تقسیم کو ملکیت کی ہوس کا نتیجہ قرار دیا ہے جس کے باعث سماج میں طبقے نمودار ہوئے انھوں نے آقاؤں کے ذریعے محنت کش غلاموں سے بڑی بے رحمی سے کام لینے، ان پر ظلم و تشدد ڈھانے اور ان کی خرید و فروخت کا بڑا دلدوز منظر پیش کیا ہے:
وہ محنت سے بازو غلاموں کے شل
وہ مٹی کے سینے پہ لوہے کا ہل
مشقت سے ہلکان ہوتے ہوئے
پسینے سے کھیتوں کو بوتے ہوئے
وہ کھاتے ہوئے گرم لوہے کے داغ
بدن پر وہ جلتے لہو کے چراغ
زمینوں کے ہمراہ بکتے غلام
وہ اٹھتے ہوئے آدمیت کے دام
وہ ذوق ہوس ملکیت آفریں
وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی زمیں
گراں بار طبقے ابھرتے ہوئے
زمیں پر وہ صدمے گزرتے ہوئے
نامور مورخ عرفان حبیب نے اپنی تصنیف ’مغل ہندوستان کا طریق زراعت‘ میں کہا ہے کہ کسان اپنی خستہ حالی کے باعث مال گزاری کی ادائیگی سے قاصر رہتے تو انھیں بے دردی کے ساتھ زدو کوب کیا جاتا اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ مالکان اور حکام کے ذریعے کسانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی داستان تاریخی حوالو ں کے ساتھ عرفان حبیب یوں پیش کرتے ہیں:
’’کسان اکثر مطالبۂ مالگزاری کو پورا کرنے کی غرض سے اپنی عورتوں، بچوں اور مویشیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوتے لیکن اس طرح ازخود اپنی عورتوں اور بچوں کو غلام بنانا اس قدر عام نہ تھا جس قدر کہ زبردستی غلام بنایا جاتا۔ ہماری اطلاع ہے کہ پیداوار کی کمی کے باعث اجارۂ مالگزاری کی پوری رقم ادا کرنے سے معذور رہنے والے مواضعات کو ان کے مالکان اور حکام گویا کہ مالِ غنیمت تصور کرتے ہیں اور بغاوت کے فرضی الزام میں عورتوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ انھیں (کسانوں کو) وزنی لوہے کی زنجیروں میں باندھ کر مختلف بازاروں اور میلوں میں (بغرض فروختگی) لے جاتے اور ان کی لاچار و غمگین عورتیں چھوٹے بچوں کو گود میں لیے ہوئے پیچھے پیچھے ان کی زبوں حالی پر ماتم کیا کرتیں۔‘‘ 9
دنیا کی تاریخ ان متواتر کوششوں سے بھری پڑی ہے جو مظلوم طبقوں نے جور و ظلم کو ختم کرنے کے لیے کی ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کا سارا دور کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان کشمکش سے عبارت ہے۔ جس نے وسیع پیمانے پر پھیل کر جاگیرداروں کے خلاف کسانوں کی خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ہندوستان میں بھی کسانوں کی سرکشی کے واقعات عام تھے۔ مظالم کے حد سے گزر جانے پر کسان فاقہ کشی یا غلامی اور مسلح مزاحمت کے درمیان اپنے لیے کوئی راہ منتخب کرنے پر مجبور ہوا کرتا تھا۔ اٹھارویں صدی میں شاہ ولی اللہ جیسے مذہبی صاحبِ قلم بھی مظالم کی زیادتی اور عوامی بغاوت کے درمیان پائے جانے والے رشتے سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اُن کے مطابق:
’’اس زمانے میں دیہاتوں (قصبوں) کی تباہی کا پہلا سبب سرکاری خزانہ سے کاہل الوجود لوگوں کے ایک بڑے طبقے کی کفالت تھی۔ اس کا دوسرا سبب کسانوں، تاجروں اور اہل حرفہ پر محصول کی گرانباری تھی اور اس کے بعد ان پر ڈھائے جانے والے مظالم تھے جن سے کمزور تو برباد اور طاقتور آمادہ بہ بغاوت ہوجاتے ہیں۔ بلاشک دیہات یا قصبہ میں امن محصول میں تخفیف ہی سے قائم ہوسکتا ہے۔‘‘ 10
مندرجہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاگیردارانہ سماج غلام سماج سے زیادہ پیچیدہ تھا۔ جاں نثار اختر نے عالمی اور ملکی سطح پر جاگیردارانہ نظام کی بنیاد کو پہچانا۔ انھوں نے ملکیت کی ہوس کو جاگیردارانہ نظام کے وجود میں آنے کا سبب قرار دیا، جس نے زمین کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور کسانوں کو ظالم اور مظلوم طبقوں میں بانٹ دیا۔ ان طبقوں کا ابھرنا زمانے میں تضاد کا موجب بنا جو طبقاتی کشمکش کا سبب ہوا۔ حالانکہ یہ عمل غلامانہ دور سے ہی شروع ہوگیا تھا:
وہ ذوقِ ہوس ملکیت آفریں
وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی زمیں
گراں بار طبقے ابھرتے ہوئے
زمیں پر وہ صدمے گزرتے ہوئے
زمانے کے دامن میں پلتے تضاد
وہ سوتے میں کروٹ بدلتے فساد
جاگیردارانہ نظام کی آمد سے دنیا میں کیا تبدیلی ہوئی اور ماحول کیسا پراگندہ ہوگیا ہے۔ اختر نے استعاراتی اور تمثیلی انداز میں اس دور کے جبرو استبداد کی فضا کے لیے زہر آمیز، زمین فتنہ انگیز، فضا حبس انگیز اور ظلمت دو چند جیسے استعارے استعمال کیے ہیں۔ اسی کے ساتھ انھوں نے بادشاہوں اور جاگیرداروں کے سنگین قلعوں، اونچے محلوں اور ایوان زر کار وغیرہ کے طمطراق کا منظر پیش کیا ہے جو حکمراں طبقے کے جاہ و جلال کے نشانات ہیں۔
جاں نثار اختر نے جاگیرداری دور کی طرز اور تضادات کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ اس کی تشبیہ اور استعارے ، اس کی مثالیں سب جاگیرداری دور کے ہیں۔ اسی طرح موضوع کو پھیلانے اور سمیٹنے کا شاعرانہ طریقہ ان جذبات سے ہم آہنگ ہے جو جاگیرداری دور کے طبقاتی تعلقات سے پیدا ہوئے تھے۔
سرمایہ داری نظام میں صنعتی ترقی کے باعث پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا جس کی وجہ سے عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ سرمایہ داروں کو خوب منافع ہوا اور ان کی ذاتی ملکیت تیزی سے بڑھتی گئی۔ لیکن اس نظام کے اپنے تضاد کے نتیجے میں اٹھارویں صدی کے وسط میں خود انگلستان کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے عوامل کارفرما ہوگئے جنھوں نے وہاں کے برسراقتدار طبقے کو مجبور کیا کہ تجارت کرنے کے بہانے وہ نئے نئے ملکوں میں انگلستان کا پرچم لہرائیں۔ لہٰذا اسی دوران انھوں نے ہندوستان کابھی رخ کیا اور ملک پر قابض ہوکر دو سو سال تک حکمرانی کی۔ صرف انگلینڈ ہی نہیں فرانس، جرمنی، ہالینڈ وغیرہ کو بھی سرمایہ دارانہ نظام کے محرکات سے ہی یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ سرمایہ داری کو فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ایسے غیرممالک میں پھیلا دیا جائے جو ابھی تک پسماندہ دور یعنی جاگیرداری نظام کے زیراثر تھے۔ سرمایہ داری کے اس فروغ کو مارکسزم کے نقطۂ نظر سے سامراجیت کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقا کے لیے اس قسم کے ایک نہیں بہت سے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔
جاں نثار اختر نے سرمایہ داری کی اس خاموش چال کو غیرملکوں میں سازشوں کا جال بچھانے سے تعبیر کیا ہے۔ بقول ان کے سرمایہ دار ذرائع پیداوار پر قابض ہوکر غریبوں اور محنت کشوں کی محنت کا ہی استحصال نہیں کرتا بلکہ ان پر بے حد مظالم بھی ڈھاتا ہے جو تصادم کا باعث ہوتے ہیں۔ کبھی سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع بنانے کی ہوس میں اشیا کو گوداموں میں بند کرکے فرضی یا مصنوعی کمی پیداوار کرتا ہے کبھی زائد اشیا کے ذخیرے جلا کر خاک کردیتا ہے تو کبھی سمندر میں غرق، کبھی فیکٹریوں کی پیداوار کم کردی جاتی ہے اور ہزاروں محنت کشوں کو بے روزگار کردیا جاتا ہے اس طرح اس نظام میں عام بد حالی پھیلتی ہے۔ خاص طور سے غریب اور محنت کش طبقے کے لوگ اس کے زیادہ شکار ہوتے ہیں گو کہ سرمایہ دار کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے اختر کہتے ہیں ’’وہ خود آگ گھر میں لگاتی ہوئی‘‘ وہ سرمایہ دار دور میں عالمی تجارت کی ترقی سرمایہ داروں کی سازشوں، غریبوں کے استحصال اور عام بدحالی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ اور اجارہ دارانہ نظام اپنے سامراجی دور میں سماج کو بہتر اور خوشحال بنانے کے بجائے معاشی بدحالی اور جنگ و جدل کی طرف بڑھتا ہے ۔ اس کی تازہ مثالیں افغانستان اور عراق وغیرہ ملکوں میں امریکہ کی جارحانہ کارروائیاں اور یورپ اور امریکہ میں اقتصادی بحران ہیں۔
جاں نثار اختر نے مزدوروں میں سماجی شعور کے پیدا ہونے کے عمل کو خوددار جذبو ں کے ابھرنے کا سبب قرار دیا ہے، جو انھیں ہڑتال پر آمادہ کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے جلوس ان کے جوش و خروش کی علامت ہیں۔ انھیں سارے محنت کش طبقے کے اتحاد اور جدوجہد کی قوت پر کامل اعتماد ہے، جو اپنے شانوں پر سرخ پرچم لیے ایک عزمِ مستحکم کے ساتھ بڑھا رہے ہیں۔ برسرِ اقتدار طبقہ ان کے اٹھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے تشدد پر اتر آیا ہے اور ان کے پرعزم سینوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر لہو کی ابلتی ہوئی ندیوں، میں تبدیل کررہا ہے۔ تاہم محنت کش طبقہ تڑکتی ہوئی گولیوں کا جواب گرجتے ہوئے نعرۂ انقلاب سے دے رہا ہے، اور نشۂ بغاوت سے سرشار ہوکر ایک سرخ طوفان کی مانند بڑھتا چلا آرہا ہے۔
جاں نثار اختر نے اس نظم میں ہر دور کا آغاز فطرت کے پس منظر میں انسان کی سماجی، تہذیبی اور اقتصادی زندگی کے حالات کے مطابق کیا ہے۔ مثلاً سوشلزم کے دور کی ابتدا کی تمہید میں انھوں نے مناظر قدرت کی دلکشی اور دلآویزی کا مرقع اس دور میں عام انسانوں (مزدوروں اور کسانوں) کی خوش حالی اور آسودگی کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔ جوہر قسم کے ظلم و استبداد سے آزاد ہوکر مسرت اور شادمانی کی زندگی جی رہے ہیں:
زمیں گل فزا آسماں لالہ تاب
ابھرتا ہوا سرخ رو آفتاب
برستے ہواؤں سے گل کے ورق
چھلکتی شرابور رنگیں شفق
وہ نورنگ جلوے مچلتے ہوئے
مسرت کے چشمے ابلتے ہوئے
فضا میں جوانی ابھرتی ہوئی
وہ انگڑائیاں سی بکھرتی ہوئی
خوشی سے دھڑکتا وہ ذرّوں کا دل
ابھرتا ہوا سینۂ آب و گِل
ڈاکٹر کشور سلطانہ نے اپنی تصنیف ’جاں نثار اختر: حیات و فن‘ میں اس نظم کی پانچویں تصویر کے بارے میں کہا ہے:
’’پانچویں تصویر شاعر کی قوتِ تخیل کی بلندی کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس تصویر میں اس دنیا کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں سرخ انقلاب آگیا ہے۔ کارل مارکس کی معاشی، اقتصادی اور سیاسی مساوات کے نظریات کے مطابق انسان ایک سماجی زندگی گزار رہا ہے۔‘‘ 11
جاں نثار کی نظم پانچ تصویریں، ان کے گہرے سماجی شعور اور تاریخی بصیرت کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی تشبیہ اور استعارے اس کی مثالیں ہر دور کے طرز زندگی اور طبقاتی جدوجہد کے مطابق ہیں۔ اسی طرح موضوع کو پھیلانے اور سمیٹنے کا شاعرانہ طریقہ ان جذبات و احساسات سے ہم آہنگ ہے،جو ہر تاریخی دور کے طبقاتی تعلقات سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کی تصویریں اختر نے شاعری کے رنگ و روغن سے تیار کی ہیں۔
مارکسی فلسفہ فکر کے مطابق کوئی نظریہ محض کسی فرد واحد کی ذہنی اپج نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی طبقۂ احساس اور فکر کاعنصر کارفرما رہتا ہے لیکن افسو س کہ خود کمیونسٹ ملکو ں کی سیاست اس کی نفی کرتی آئی ہے۔ اسٹالن سے بھی کچھ غلطیاں سرزد ہوئی تھیں اور اس کے بعد تو لگاتار یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مختصر یہ کہ اسٹالن کے بعد حکمراں نے ہر قسم کے گناہوں، غلطیوں اور کمزوریوں کی ذمے داری اسٹالن پر ڈال دی۔ اس اسٹالن پر جس نے لینن کی وفات سے لے کر خود اپنی وفات تک سوویت روس کے اشتراکی سماج کی سربراہی کی تھی۔ سوویت فوجوں کی قیادت کی اور نازی حملے کو پسپا کیا۔ سوویت روس کو ایک پسماندہ زرعی ملک کی سطح سے اوپر اٹھا کر دنیا کے دو اعلیٰ ترین ملکو ں کے درجے تک پہنچا دیا تھا۔ جاں نثار اختر ایک سچے اور کھرے مارکسسٹ تھے۔ اسٹالن مخالف تحریک سے وہ متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے اسٹالن کی خدمات اور کارناموں کو فراموش نہیں کیا۔ انھوں نے جو نظم اسٹالن کی وفات پر کہی تھی اسے اپنے مجموعہ کلام ’خاک دل‘ میں جگہ دی کیونکہ اسٹالن ان کے لیے محض ایک خاص اور اہم شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ مارکسزم کے نظریات اور تصورات کو پیش کرنے کے لیے ایک علامت کی سی حیثیت رکھتا تھا۔ حالانکہ سجاد ظہیر نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اس نظم کو اپنے مجموعے میں شامل نہ کریں لیکن اختر کا جواب تھا:
’’میں نے یہ نظم جس وقت کہی تھی اس وقت میرے ہی نہیں پوری کمیونسٹ دنیا کے ذہن میں اسٹالن کمیونزم کی ایک علامت کی حیثیت رکھتا تھا... کیا میرے اس نظم کو شامل نہ کرنے سے وہ ختم ہوجائے گی۔ جب میں نے کہی تھی تو میں ضرور شامل کروں گا، مجھے یہ بات کبھی نہیں جچی کہ کل تک جو آپ کا آئیڈیل رہا ہو اگر اس کا سیاسی زوال آجائے تو آپ اپنی نظم سے اس کا نام کاٹ کر برسراقتدار شخص کا نام ڈال دیں۔ اسٹالن کا لفظ آج بھی میرے لیے کمیونزم کا ہم معنی ہے۔‘‘ 12
ان کا یہ بیان اس بات کا ضامن ہے کہ وہ اس وقت بھی جب سوویت روس میں اسٹالن مخالف تحریک زور شور سے چل رہی تھی اور دوسرے ملکوں کی کمیونسٹ تحریک پر بھی اس کا اثر صاف نظر آرہا تھا۔ جاں نثار اختر سوویت روس کے سیاسی سربراہوں کے اسٹالن مخالف غلط اقدام اور رویہ کا شکار نہیں ہوئے۔
جاں نثار اختر کی آخری دور کی شاعری میں ایک نئی تبدیلی نے لوگوں کو چونکا دیا۔ کسی نے اس تبدیلی کو سراہا تو کسی نے اس پر لعنت ملامت کی۔ یوں بھی کسی ایک فرد کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں کیونکہ یہ اعتراضات اس تحریک کی کمزوریوں کے بھی آئینہ دار ہیں، جس سے تاعمر اختر وابستہ رہے۔
جب اختر نے اپنی نظموں اور غزلوں میں جدید حسیت کو سماجی معنویت کے پیکر میں نئے ڈھنگ سے ڈھالنا شروع کیا تو ان کے بعض ترقی پسند ہمعصروں کو دھوکے میں مبتلا کردیا کہ وہ اس احساس اور نرم آہنگ کے ساتھ ساتھ ’جدیدیت‘ کی نام نہاد کلبیت اور نظریۂ بیزاری کے بھی قائل ہوگئے ہیں۔ بعض حضرات نے ’پچھلے پہر‘ کی غزلوں سے چن کر چند اشعار نکالے اور ان کی بیزاری، مایوسی اور ہر نظریے پر سے ایمان اٹھ جانے اور انسانیت کے مستقبل کی طرف ان کے قنوطی رویے کا ذکر کیا۔ تو کچھ اشعار پر جدید نقاد ان سے خفا ہوگئے۔ بعض کو شکایت ہے کہ ان کی نئی غزل میں روایتی شعر بھی در آئے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ وہ آج بھی آنکھوں میں خواب سحر لیے پھرتے ہیں۔ بعض کو تعجب ہے کہ اب بھی زندگی شمع لیے در پہ کیوں کھڑی ہے، بعض کو اعتراض ہے کہ ان کے یہاں ’انقلابوں کی گھڑی‘ اور ’رات کے ہٹنے اور صبح کے انتظار‘ کا ذکر کیوں ہے۔ مختصر یہ کہ وہ حقیقت کو پوری ذمہ داری سے کیوں دیکھتے ہیں اور حال اور مستقبل کی طرف ان کا رجائی رویہ کس لیے ہے۔ دراصل ان سوالوں کا جواب خود جاں نثار اختر کے آخری دنوں کی تصنیف ’آخری لمحہ‘ ہے جو غزل کی ایمائیت اور رمزیت کے بجائے نظم کے پیرائے میں خود ان کے معتقدات اور فکری اقتدار کا آئینہ دار ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد حسن:
’’اس سے (آخری لمحہ) اندازہ ہوگیا کہ اس جاں نثار اختر کو جسے انسانیت کے مستقبل سے مایوس، بیزار، شکی اور کلبی بتایا جارہا تھا، انسانیت اور ارتقا پر کیسا بھرپور اعتماد تھا اور اس کا سینہ شکستوں کے باوجود اعتماد کے نور اور انسان دوستی کی بصیرت سے کیسا معمور تھا۔‘‘ 13
میرے خیال میں ڈاکٹر محمد حسن کے اس مختصر لیکن جامع بیان میں متذکرہ دونوں قسم کے اعتراض کا جواب مضمر ہے۔ مختصر یہ کہ جاں نثار اپنے آخری دور کی تخلیقات جیسے ’نیا رگ وید‘ اور ’آخری لمحہ ‘ میں بھی اپنے دور کی سچائیوں کو نئی گویائی بخشنے میں کامیاب رہے۔ گویا وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک مارکسزم کے نظریے کی بڑی حسین اور بہترین ترجمانی کرتے رہے۔ ان کی ایسی نظموں کو اردو ادب ہی نہیں ہندوستانی ادب کے شاہکاروں میں شمار کیا جاتا رہے گا جن میں جمالیاتی حسن بھی ہے اور نظریاتی بانکپن بھی۔
حواشی:
.1 سردار جعفری خط بنام جاں نثار اختر، خاک دل، اپریل 1974، ص 11
.2 ایضاً، ص 11
.3 ایضاً، ص 11
.4 ظفرامام: مارکسزم ایک مطالعہ، ص 21,22,23
.5 مدہوش بلگرامی: مارکسی شاعر، جاں نثار اختر نمبر فن اور شخصیت، ص 84
.6 ڈاکٹر قمر رئیس: فن اور شخصیت، جاں نثار اختر نمبر، ص 64
.7 پروفیسر آفاق حسین صدیقی: جاں نثار اختر، شخص اور شاعر، ص 90
.8 انگلس: خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز
.9 عرفان حبیب ’مغل ہندوستان کا طریق زراعت‘ ص 441، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دوسرا ایڈیشن 1999
.10 حجۃ اللہ البالغہ کااردو ترجمہ صفحہ 94 (ماخوذ : عرفان حبیب کی تصنیف مغل ہندوستان کا طریق زراعت، ص 451)
.11 ڈاکٹر کشور سلطانہ: جاں نثار اختر۔حیات و فن، ص 289، طبع دوم مئی 2008
.12 اصغر علی انجینئر: جاں نثاراختر کے طویل انٹرویو سے اقتباس، فن اور شخصیت، جاں نثار اختر نمبر ص 114
.13 ڈاکٹر محمد حسن: عصری ادب، جولائی 1976، ص 195


Mr. Waqar Siddiqui 
103, Garden Homes, Phase-III, Alkapuri - Gwalior, (MP








قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...