8/3/19

ترقی پسند ادبی صحافت مضمون نگار:۔ لئیق رضوی



ترقی پسند ادبی صحافت
لئیق رضوی

ترقی پسند تحریک بیسویں صدی کا بڑا ادبی واقعہ ہے۔1935 میں سجاد ظہیر ادبی انقلاب کا خواب لے کر لندن سے الہ آباد لوٹے اور پھر شروع ہوئیں ادب کو زندگی سے جوڑنے کی منظم اور مشترکہ کوششیں۔لوگ ساتھ آتے گئے اور ترقی پسند تحریک کا خواب عملی صورت میں جلوہ گر ہوتا گیا۔ترقی پسند تحریک نے ادبی صحافت کو بھی متاثر کیا اور پھر رسالوں میں بھی ادب برائے زندگی کی بات چل نکلی۔نئے رسالے شروع ہوئے ۔پرانے رسالوں نے بھی اس نعرے پر لبیک کہا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ادبی صحافت پرترقی پسند ی کا رنگ غالب آ گیا۔یو ں توترقی پسندفکرکے رسائل الگ الگ لوگوں نے الگ الگ وقت میں اورالگ الگ مقامات سے نکالے، لیکن فکر و نظریے کی ڈورانھیں آپس میں منسلک بھی کرتی ہے اوراسی باہمی رشتے سے جنم لیتی ہے ،ایک جاندار روایت، جسے ہم ترقی پسند ادبی صحافت کہہ سکتے ہیں۔
ترقی پسند ادبی تحریک کو منظم اور متحد رکھنے کے لیے ،ابتدا سے ہی ہم خیال صحافت کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی۔ سجاد ظہیراس معاملے میں لینن کے اس عقیدے کے پیرو تھے کہ’ کوئی تحریک بغیر اخبار کے نہیں چل سکتی ۔ ‘1اپریل 1936 میں لکھنؤ میں ہوئی پہلی کانفرنس کے بعد انجمن کی قیادت نے ہم خیال صحافت کی اس ضرورت کو اور شدت سے محسوس کرنا شروع کیا۔پریم چند نے10 مئی 1936کو سجاد ظہہر کو جو خط لکھا تھا، اس میں ترقی پسند رسالوں کے اجراپرخاص زور دیا گیا تھا:
’....بابو جے پرکاش نراین سے بھی باتیں ہوئیں۔انھوں نے پراگریسیو(ترقی پسند) ادبی ہفتہ وار ہندی میں شائع کرنے کی صلاح دی جس کی انھوں نے کافی ضرورت بتائی۔انگریزی میگزین کا مسئلہ بھی سامنے ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر زبان میں ایک ایک پراگریسیو پرچہ چل سکتا ہے۔ذرا مستعدی کی ضرورت ہے۔‘(نیا ادب، جنوری، فروری 1940)
ابتدا میں ترقی پسند صحافت کی کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔ سجاد ظہیر سمیت ترقی پسند ادیبوں کا ایک طبقہ جہاں ان رسالوں کے صفحات کو دوسرے مکتبہ فکر کے ادیبوں کے لیے بھی کھلے رکھنے کے حق میں تھا، وہیں بعض لوگ چاہتے تھے کہ ان رسالوں میں صرف سکہ بند ترقی پسندوں کی چیزیں ہی چھپیں۔ان کی اپنی دلیلیں بھی تھیں۔سجاد ظہیر نے’ روشنائی‘ میں اس صورت حال کا تفصیل سے ذکر کیا ہے:
’خود ترقی پسندوں کے ذہن میں بہت سی باتیں صاف نہیں تھیں۔ایک طرف ان کی بالکل ٹھیک او ر صحیح کوشش یہ تھی کہ وسیع المشربی اور آزاد خیالی کے اصول کو ادب میں پوری طرح برتا جائے۔کسی ادیب کے لیے اگر وہ مخلص اور سنجیدہ ہے اور اس کی تحریروں میں ادبی روح ہے ، ہمارے رسالوں کے صفحے بند نہ ہونیں چاہئیں.....دوسری طرف یہ چیز تھی کہ ترقی پسند مصنفین ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں۔ان کے اپنے رسالوں کا بنیادی مقصد اس نظریہ کو ادب کی مختلف اور متنوع شکلوں میں پیش کرنا ہے۔اس لیے ان کے رسالوں کا ایک خاص مزاج اور ان کی چند خصوصیتیں ہونی چاہئیں۔یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وسیع المشربی کے نام پر رسالہ کا یہ خاص مزاج ، اس کا نمایاں رجحان اورمقصد ہی فوت ہو جائے۔ایسا کرنے سے تحریک اس شراب کی طرح ہو جائے گی جس میں اتنا پانی ملا دیا جائے کہ اس میں نشہ ہی باقی نہ رہے۔‘2
بہرحال ترقی پسند صحافت نے اپنا سفر، کیا چھاپیں اور کیا نہ چھاپیں کے اسی ادھیڑ بن کے بیچ شروع کیا۔بعض مدیر ترقی پسندی کو اپنے طور پر سمجھ اور برت رہے تھے۔ظاہر ہے کہ ایسے میں کئی باران رسائل میں مبہم اور رجعت پرست تحریریں بھی در آتیں۔اس کی اپنی وجہیں بھی تھیں۔کچھ خارجی دباؤ تھا تو کچھ داخلی کمزوریاں بھی۔سجاد ظہیرنے ان زمینی حقیقتوں اور عملی دشواریوں کوسمجھا اورپھر ترقی پسند ادبی رسالوں کے لئے ایک مثبت اور متوازن ڈگر تجویز کی:
’...اصولوں کو وضع کر لینا آسان ہے، لیکن ان پر ٹھیک سے عمل نسبتاً مشکل ہے۔اس کے لیے بالغ نظری ، تجربے اور ادب کے مسائل پر عبور کی ضرورت ہے جس کی ہمارے نوجوان اڈیٹروں میں کمی تھی۔پھر بعض رسالوں کے مالکوں کے تجارتی یا سیاسی مفاد بھی اس پالیسی پر صحیح عمل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے تھے۔بہر صورت ہماری تحریک کے شروع زمانوں میں جب پختہ کار لکھنے والوں کی کمی تھی،اور جب خود بہت سے ترقی پسند ادیبوں کی تحریروں میں نظریاتی الجھاؤ ،ترقی پسند خیالات کے ساتھ ساتھ رجعتی رجحانات کی جھلک ، اسلوبوں کا کھردرا پن ، علم کی کمی موجود تھی ، اور جب حقیقت نگاری کے معنی بھی بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے تھے ، یہ بہتر تھا کہ ہمارے رسالے اور ناشر ہر قسم کے اچھے اور ہونہار لکھنے والو ں کی چیزیں چھاپتے، ہر نئی، سنجیدہ اور قابل اعتنا ادبی تخلیق کو اپنے صفحوں پر جگہ دیتے.....‘ادب اور فنون لطیفہ کے معاملے میں تنگ نظری اور سخت گیری ، ضرورت سے زیادہ وسیع المشربی کے مقابلہ میں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے۔یہ بہتر ہے کہ مشتبہ اور ایسی چیزیں جن سے ہم اختلاف بھی رکھتے ہوں شائع کی جائیں اور عام پڑھنے والوں اور نقادوں کو خود ان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے اور ان پر نکتہ چینی اور تنقید کا موقع دیا جائے۔بجائے اس کے کہ اختلاف یا ناپسند ید گی کی بنا پر بعض ادیبوں کی تحریروں کو دبایا جائے۔ادب اور فنون لطیفہ میں سنجیدہ احتساب اور تنقید ضروری ہے لیکن آزادئی رائے اور آزادئی اظہار اس سے زیادہ ضروری۔ ‘ 3
سجاد ظہیر کی ایما پر انجمن کے ہروال دستے کے ادیبوں، فیض احمد فیض، کرشن چندر،حیات اللہ انصاری، ساحر لدھیانوی،احمد ندیم قاسمی وغیرہ نے مختلف اداروں سے نکل رہے ہم خیال رسائل(’ادب لطیف‘ اور’ سویر‘ا وغیرہ) کی باگ ڈور باقاعدہ سنبھال لی۔سبط حسن اور سردار جعفری وغیرہ نے ’نیا ادب ‘ (لکھنؤ)کے روپ میں ماڈل پیش کرنے کی کوشش کی۔اس طرح رفتہ رفتہ ترقی پسند ادبی صحافت کے خطوط وضع ہوتے گئے اور یہ ارتقائی مراحل سے گزرتی رہی۔
انجمن کے راستے اورسفر میں آئے اتار چڑھاؤ کا اثر ان پر بھی ہوا لیکن اس میں شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک کے فروغ میں رسائل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ترقی پسندوں نے ہر مورچے پر،ان کا بخوبی استعمال کیا۔مئی 1942 میں منعقدانجمن کی تیسری کانفرنس (دہلی)میں ترقی پسند رسائل کو فاشزم کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز منظور کی گئی۔وقت اور زمانے کے ساتھ ترقی پسندوں کے چیلنج بڑھے اور ان کے ساتھ ان رسالوں کی ضرورت بھی ۔مئی 1943 میں بمبئی میں انجمن کی جو چوتھی کانفرنس ہوئی، اس میں بھی ترقی پسندرسالوں کی ترویج و اشاعت پر خاصا زور دیا گیا۔ اکتوبر 1945کی حیدر آباد کانفرنس میں توصحافت پر ایک الگ اجلاس ہی رکھا گیا ۔قاضی عبد الغفور کی صدارت میں ہوئے اس اجلاس میں سبط حسن نے اخبار و رسائل کی سمت و رفتار پرجامع مقالہ پیش کیا تھا۔
کوششیں رنگ لائیں اورجلد ہی ترقی پسند رسالوں کی ایک کہکشاں جگمگا اٹھی۔ ادبی صحافت میں یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ترقی پسندی نے ادبی صحافت کو سیاسی اور سماجی شعور سے بہرہ ور کیا۔ادب کو زندگی کے تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کی کوششیں کیں۔ ترقی پسندرسائل نے ابتدا سے ہی اپنی الگ پہچان بنا لی۔فکری ہم آہنگی اور تجریدی ارتقا انھیں، ایک ایسی زندہ روایت کا روپ دیتا ہے، جس کا جواب کہیں نہیں۔انھوں نے اپنے منفرد رنگ و آہنگ سے ہم عصر صحافت پر جو نقش بنائے ہیں، ان کی چمک آج بھی دھندلی نہیں پڑی۔
’کلیم‘ ( دہلی)،’ادب لطیف‘،’ سویر‘ا (لاہور) ،’نیا ادب‘ (لاہور)،’جدید اردو ‘ (کلکتہ) ، اور ’ افکار‘ (بھوپال) وغیرہ ابتدائی دور کے نمائندہ ترقی پسند رسالے تھے، جنھوں نے ترقی پسند صحافت کے خطوط مرتب کیے اور بعد کے رسالے اسی کی ڈگر پر چلے۔
ترقی پسندصحافت ادبی سماجی سروکار کی پیغامبر رہی ہے ۔اس نے ترقی پسند تحریک کو عوامی رابطہ دیا۔ہم خیال ادیبوں کوپلیٹ فارم دیا۔ ایک ایسے ادب کی تشکیل اور ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،جو زندگی کی بات کرتا ہے ۔جو زندگی کے ساتھ ہے ۔اردو کی ادبی صحافت میں یہ ایک نئے دور کا آغازتھا۔سیاسی اور سماجی شعور سے بہرور ترقی پسند رسالوں نے ادبی صحافت میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فکری دھاروں کو نئے نہج،نئے تناظر اورادارت کو نئی ترجیحات دیں،نیا آہنگ اور نیاتیور دیا۔ادب کے معاملات ہی نہیں، ان رسالوں نے زندگی اور سماج کے سلگتے ہوئے سوالات بھی اٹھائے۔ یہ صحافت، ترقی پسند ادب کے رنگوں کی جھلک ہی نہیں دکھاتی، اس کی دانشوری کا پتہ بھی دیتی ہے۔تحریک کے اتار چڑھاؤ کا ان پر بھی اثر پڑا لیکن یہ رسائل اس کے دکھ، سکھ میں برابر کے شریک رہے۔جب بھی یہ سلسلہ کمزور پڑا تحریک کا پہیہ بھی دھیما ہوا۔1949 کے بعد ترقی پسند تحریک کو جو وقتی زوال ہوا، احتشام حسین نے اس کے پیچھے ہم خیال رسائل اور اخبارات کی کمی کو، ایک بڑا سبب قرار دیا ہے ۔4
ترقی پسند صحافت،ذہنی بیداری اور ادبی انقلاب کی بولتی ہوئی داستان ہے۔ یہ ابتدا سے ہی قومی شعور کی حامل اور عوامی احساسات کی ترجمان رہی ہے۔ان رسالوں نے عوامی جذبے کو آواز دی ۔ان رسالوں نے، ترقی پسند تحریک کو مقبول عام بنانے ، ہم خیال قلمکاروں کو پلیٹ فارم دینے اور ترقی پسند ادب کی تشکیل اور ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اپنی اپنی حدوں میں ہم خیالوں کو جوڑ کر اس تحریک کو وسعت بخشی، نظریات کو پالا پوسااور عام کیا ۔نئے قلم کاروں کی ذہنی تربیت کی۔ان رسالوں نے ، دوسری زبان کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے میں بھی اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔مشاہیر عالم کی کتنی ہی نگارشات ، پہلی بار انھیں پرچوں کی معرفت اردو دنیا تک پہنچیں۔ ترقی پسند صحافت ایک نظریے کی ترجمانی اور تبلیغ بھر نہیں، یہ رسالوں کا ایسا روشن سلسلہ ہے، جس نے اردو کی ادبی صحافت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ترقی پسند صحافت، کو بیک وقت دو محاذ پر کام کرنا ہوتا۔پہلا ترقی پسند افکار و نظریات کی اشاعت، اس کے زیر اثرلکھے جا رہے ادب کا فروغ اور دوسرا ہم عصر سیاسی سماجی لہروں کی نگرانی،تاریخ گواہ ہے کہ نمائندہ ترقی پسند رسالوں نے اپنا یہ فرض بخوبی انجام دیا ہے :
’اس تحریک کو سارے ملک میں مقبول اور محبوب بنانے میں ادبی رسائل کا بہت نمایاں حصہ رہا ہے۔حقیقت یہ کہ ادیبوں کی تخلیقی امنگوں کو آسودگی بخشنے، انھیں متعارف کرانے اور ان کی پہچان بنانے میں یہ رسائل ہی اہم ترین وسیلہ رہے ہیں۔اس کے علاوہ ترقی پسند ادبی جرائد نے ترقی پسند ادبی نظریات اور اقدار کو ملک میں عام کرنے اور قارئین کے دل و دماغ میں ان کی جگہ بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے.....ان کے قارئین عہد حاضر کے بعض رسائل کی طرح صرف نوجوان ادیبوں تک محدود نہیں تھے۔ان میں اٹھائے گئے مباحث اور مسائل ادبی محفلوں کو گرماتے اور ذہنوں کو سوچنے پر اکساتے تھے۔انھیں حالات اور محرکات نے ایک ایسے روشن، حیات افزوں اور کھلے ماحول کو جنم دی جو ترقی پسندی اور تعقل دوستی کہلایا۔‘5
ترقی پسند صحافت،ذہنی بیداری اور ادبی انقلاب کی بولتی ہوئی داستان ہے۔ترقی پسند ادبی فکر و فلسفے کی تخلیقی صورتیں پوری آب و تاب کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہیں۔نیا ادب یہیں پیدا ہوا۔نئی فکر یہیں پروان چڑھی۔ادب کو زندگی سے قریب کرنے میں ان رسالوں نے کلیدی کردار انجام دیا ہے۔سماجی حقیقت نگاری کو، یہیں فروغ ملا۔اس کے حدود اور معیار انھیں رسالوں میں مقر ر ہوئے۔نئی نسل کو ماڈل اور تخلیقی سانچے بھی یہیں سے ملے ۔’ہندستان‘،’ساقی‘،’ ادب لطیف‘،’ افکار‘،’سویر‘ا،’ شاہراہ‘،’ فسانہ‘،’ کتاب‘،’ عصری ادب‘ اور’ عصری آگہی ‘وغیرہ نے شاعری اور فکشن میں نئے شعور اوراسالیب کی راہ استوار کی۔نئے تجربوں کا خیر مقدم کیا۔’ ساقی‘ ،’ادب لطیف‘ ،’شاہراہ‘، ’سہیل‘، ’فسانہ‘، ’کتاب‘، ’عصری ادب‘،’ عصری آگہی‘ ،’گفتگو‘،’ نیا سفر‘وغیرہ نے ترقی پسند افسانہ کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان میں شائع ہونے والے رسالوں کا عام رجحان سماجی حقیقت نگاری ہے۔
’ساقی‘ نے افسانوں پر تنقید کو بھی جگہ دی۔عظیم بیگ چغتائی، وقار عظیم اور لطیف الدین اکبر آبادی کی تنقیدی کتابوں کو قسط وار شائع کیا۔سالانہ جائزوں کی بنا ڈالی۔’ساقی‘ نے ڈراموں کے فروغ میں بھی حصہ لیا۔
جد یدیت کا شور بڑھا تو ’کتاب‘،‘ عصری ادب‘ اور ‘عصری آگہی‘ نے نئی ترقی پسندی کی تعبیر سے افسانوں کو ایک نئی ڈگر دی۔’شاہراہ‘ جیسے رسالوں نے ،عوامی ادب سے استفادے کورواج دیا۔لوک گیتوں کے اسلوب میں ڈھلی نگارشات اہمیت کے ساتھ شائع کیں۔ ’کلیم‘،’ نیا ادب‘،’ کارواں‘،’ گفتگو‘،’ عصری ادب‘،’ عصری آگہی‘ اور’ نیا سفر ‘نے ترقی پسند تنقید کی کسوٹی اور مدارج سے متعارف کیا۔ ترقی پسند ادب، کن راستوں سے گزرا۔تجربوں کے کتنے دریا سر کیے۔شاعری، فکشن اور تنقید نے کب کہاں کیسی ، کیسی کروٹیں لیں،غرض ترقی پسند ادب کے ارتقائی سفرکی مسلسل، مکمل اور مجموعی تفہیم کے لیے، ان رسالوں سے بہتر اور معتبر سورس، دوسرا نہیں۔
دوسری زبانوں کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے میں بھی ان رسالوں نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ مشاہیر عالم کی کتنی ہی نگارشات ، پہلی بار انھیں پرچوں کی معرفت اردو دنیا تک پہنچیں۔’ساقی‘،’ نیا ادب‘ ، ’شاہراہ‘ وغیرہ نے روسی، چینی اور فرانسیسی ادب کے زندہ تراجم شائع کیے۔’عالمگیر ‘نے روسی ادب نمبر جاری کیا۔اسے منٹو نے ترتیب دیا تھا۔ہندوستان کی دوسری زبان کے ادب کے تراجم بھی خوب چھپے۔’ساقی‘ میں تراجم تو پہلے بھی شائع ہوتے رہے ہیں لیکن ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے بعد اس میں رفتار آئی۔شاہد احمد دہلوی اردو ادب کی ترقی کے لیے اسے ضروری مانتے تھے۔اپنے ایک اداریے میں لکھتے ہیں:
’1941کے پرچے ادب کے جدید ترین رجحانات کے آئینہ دار ہوں گے۔مغربی زبانوں کے اعلیٰ تراجم کے ساتھ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہندوستان کی اور زبانوں کا افسانوی لٹریچر بھی ’’ساقی ‘‘ کے ذریعے اردو میں پیش کیا جائے۔اس طرح ہمارے ادب میں معقول اضافہ ہو سکے گا۔(ساقی،دہلی، جنوری 1941)
’ساقی‘ نے1957 میں جو افسانہ نمبر نکالا، وہ دنیا بھر کے54بہترین افسانوں کے تراجم پر مشتمل ہے۔’شاہراہ میں’رفتار کے تحت غیر ملکی ترقی پسندادیبوں کی تخلیقات کے تراجم شائع ہوتے۔‘ ’کتاب‘ (لکھنؤ) نے کئی اچھے نمبر نکالے ۔’کتاب‘ نے ملک کی دوسری زبانوں کے ادب کے ترجموں پر زور دیا۔
’ادب لطیف ‘نے اردو دنیا کو مغربی ادب کے نئے رجحان اور رویوں سے روشناس کیا۔’آجکل‘ نے غیرملکی اور ملک کی دوسری زبانوں کے ادب کے تراجم پیش کیے۔دواشی کے دور ادارت میں ایتھل وانس کی کتاب ’اسکیپ‘ کا ’داستان نجات‘کے عنوان سے آزاد ترجمہ پیش کیا گیا۔جوش ملیح آبادی کے زمانہ ادارت میں’ آجکل‘ (دہلی) میں ’ گل کدہ‘ عنوان سے ہندوستان کی دیگر زبانوں کی منظومات پیش کی جاتیں، بعد میں اس کالم کا نام’ علاقائی ادب‘ ہو گیا۔ جوش کے دور میں ہی ’آجکل‘ میں ایک اور کالم تھا ’ نشاط مطالعہ‘، جس کے تحت غیر ملکی فنکاروں کا تعارف کرایا جاتا۔نظم کا فروغ ترقی پسند رسالوں کااہم کارنامہ ہے۔ترقی پسند نظم نے یہیں آنکھیں کھولیں ۔یہیں تربیت پائی۔ زبان و بیان،اظہار اور تکنیک کے تجربوں نے یہیں انگڑائی لی۔زندگی اور زمین کے معاملات کو فکر کا آسمان یہیں ملا۔ترقی پسندی کے زیراثرنظم میں فکر و فن کے جو تجربے شروع ہوئے ،ان کی ا بتدائی شکلیں’کلیم‘،’ادب لطیف‘،’ہندستان‘ اور’ نیا ادب‘ میں ہی ابھریں۔ ’ہندستان‘(لکھنؤ) نے تواس سلسلے میں تاریخ ساز کردارادا کیا ہے۔ترقی پسندتحریک کے جلو میں پروان چڑھے نظم گو شعرا ، علی سردار جعفری، مجاز، مخدوم، جذبی ، سلام مچھلی شہری اورمسعود اختر جمال وغیرہ کو اردو دنیا سے’ ہند ستان‘(لکھنؤ) نے ہی متعارف کرایا۔ خلیل الرحمن اعظمی نے انھیں ’ہند ستان گروپ‘ لکھا ہے۔6 ۔سجاد ظہہر لکھتے ہیں:
’اسی رسالہ(ہند ستان) میں ابتدائی دور کے تمام نوجوان اردو شاعروں کی نظمیں بالاالتزام شائع ہونے لگیں۔مجاز، سردار جعفری،جذبی،مخدوم محی الدین، وقار انبالوی، مسعود اختر جمال،جاں نثار اختر،علی جواد زیدی،رضی عظیم آبادی، شمیم کرہانی،یہ سب نام ہمیں ’ہندوستان‘ کے شاعروں میں نظر آئیں گے۔یہ سارا گروہ ترقی پسند شاعروں کا تھا۔ان کی نظموں میں نئی ادبی تحریک کی پہلی ڈھڑکنیں تھیں۔ان کے خاکوں کو دیکھ کر اب ہمیں یہ یقین آنے لگا تھا کہ اب ہم محض پروگرام بنانے ، مقصد کا تعین کرنے، پرانے ادب کے رجعت پرست رجحانات کی کڑی اور تلخ تنقید کے دور سے گزر کرزیادہ مشکل ادبی تخلیق کے دور میں داخل ہو رہے ہیں تھے۔‘7
آگے چل کر’آجکل‘، ’شاہراہ‘،’افکار‘،’گفتگو ،‘’عصری ادب ،‘،’عصری آگہی‘، ’نیا سفر‘وغیرہ نے بھی ترقی پسند نظم کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔غزل کے نئے رنگ و آہنگ بھی ترقی پسند رسائل کے صفحات میں پھلے پھولے۔۔’شاہراہ‘(دہلی) نے اردو دنیا کوغز ل کے بدلتے آہنگ سے روشناس کرایا۔
’ماہنامہ ’شاہراہ‘ (دہلی ) اور’ عصری ادب‘(دہلی)وغیرہ نے عوامی ادب سے استفادے کوتحریک اوررواج بخشا۔عوامی لب و لہجہ میں ڈھلی منظومات کویہاں خصوصی اہمیت کے ساتھ شائع کیا گیا۔ان میں گیت بھی ہیں اور نظمیں بھی۔طویل نظموں کے فروغ میں بھی ان رسالوں کا بے پناہ حصہ ہے۔گفتگو مارچ 77 تا دسمبر 77 میں قمر ہاشمی کی طویل نظم نروان ساگر بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ترقی پسند رسالوں نے نظم کے تجزیہ اور ان کی ادبی قدر و قیمت متعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’جوش بانی‘(الہ آباد) کا ترقی پسند نظم نمبر(جولائی 2010 تا جون 2011) اس راہ کا بڑا سنگ میل ہے۔ 
کچھ اصناف کو تو انھیں رسالوں نے پالا پوسا۔ان میں رپورتاژ اور ناولٹ شامل ہیں۔’شاہراہ‘ نے 1958 میں، ناولٹ نمبر نکالا، جس میں دوسر ی ملکی اور غیر ملکی زبانوں کے ناولٹ کے ترجمے پیش کیے گئے۔’شاہراہ‘ اور’نظام‘ (بمبئی) نے رپورتاژ کے فروغ میں حصہ لیا۔’شاہراہ‘ نے مہیندرر ناتھ (سیکنڈ پل)، خدیجہ مستور(پو پھٹے)، کنھیا لا کپور(آزادی کی قسم) اور فکر تونسوی (فاختہ کی اڑان) وغیرہ کے رپورتاژ شائع کیے۔ کرشن چندر کا مشہور زمانہ رپورتاژ’ پودے ‘ اور ابراہیم جلیس کا رپورتاژ ’شہر‘پہلی بار’ نظام‘ میں ہی شائع ہوئے تھے۔’سویرا‘ نے خاکہ نگاری کو فروغ دیا۔’جان پہچان‘سویرا کا مستقل کالم تھا، جس میں ادیبوں کے خاکے شامل کیے جاتے تھے۔ان رسائل کے بعض مضمون اورکالم، کتابوں کی شان نزول بنے۔مثلاً سجاد ظہیر کا مضمون ’یادیں‘جس میں ترقی پسند تحریک کے ابتدائی ایام کے احوال رقم کیے گئے تھے، بعد میں یہی یادیں روشنائی کی وجہ نزول بنیں۔انجمن کے منشور، پیغامات اور کانفرنسوں کی رپورٹ وغیرہ شائع کرکے ان رسالوں نے مستقبل کے مورخ اور محقق کی راہ آسان کی۔ جولائی 1939میں’ نیا ادب‘ نے ہم عصر ترقی پسند ادب اور ادیبوں کی جو انتھالوجی شائع کی تھی،وہ آج بھی بنیادی سورس ہے۔
ترقی پسند جریدوں نے ترقی پسند ادیبوں کی ایک پوری نسل تیار کی، ان کی ذہنی اور فنی پرورش کی، تجربات کا حوصلہ دیااور ان کی تخلیقات کو منظر عام پر لا کر انھیں شناخت اور شہرت بخشی۔تخلیقی تجربوں کو قاری کی عدالت میں پیش کیا۔گواہیاں گزاریں۔جرح کی لیکن رد و قبول کی زمینی سچائیوں کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھا۔انجمن کے اتار چڑھاؤ کا اثر ترقی پسند صحافت پر بھی پڑا۔بھیمڑی کانفرنس کے بعد بعض رسالوں میں ہارڈ لائن عام ہوئی۔ان میں’ نیا ادب‘( بمبئی)،’ شاہراہ‘ ( دہلی)،’ محاذ‘( بمبئی) اور’ تحریک‘( بمبئی) پیش پیش تھے۔ ظاہر ہے اس نے ترقی پسندوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا۔رسالوں نے اس بحث کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا۔
ان رسالوں نے جہاں، ترقی پسند نظریہ اور ادب کے خلاف اٹھنے والے سوالوں کے جواب دیے وہیں، انجمن کے اندر کے مسائل پر بھی بے لاگ تبصرے کیے۔پانچویں دہے کے آخر میں جب نئی نسل اور پرانی نسل کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا، تو کئی ترقی پسند رسالوں نے اس کو بے حد سنجیدگی سے لیا۔’صبا‘ (حیدر آباد) میں وحید اختر اور’ خیال‘(کامٹی) میں شہاب جعفری کے مکتوب آئے۔’شاہراہ‘(دہلی) میں شکیل الرحمن کا مضمون ’جد ید شاعری کے نئے چراغ‘شائع ہوااور نئی نسل اور پرانی نسل کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔وحیداختر کے سوالوں کے جواب میں سجاد ظہیر کے خط نے اسے اور ہوا دے دی۔ظاہر ہے یہ انجمن کے لیے نازک گھڑی تھی، رسالوں نے اس میں اہم رول انجام دیا۔
دوسری تحریکوں کے مقابلے ترقی پسندتحریک کی زیادہ کامیابی کے پیچھے اس کا زندہ فلسفہ تو تھا ہی، رسالو ں کا وہ مضبوط دھارا بھی تھا، جس نے اسے فطری بہاؤ کا سازگار ماحول مہیا کیا۔استدلال کے سائنسی پیرائے اپنائے۔ ترقی پسند قلم کو قاری کا بڑے معاشرہ سے منسلک کیا۔انجمن کے افکار و نظریات میٹنگوں اور کانفرنسو ں میں گھٹ کر رہ جاتے اگر ان رسالوں نے انھیں ’جن ‘’جن‘ تک نہ پہنچا دیا ہوتا۔ترقی پسند افکار اور نظیریہ کی تبلیغ اور غلط فہمیوں کے ازالے میں ان پرچوں نے تاریخی رول انجام دیا۔ ادبی بحثوں اور مذاکروں کو ان رسالوں نے پلیٹ فارم دیا۔اورجب مخالف خیموں سے سوالوں کے تیر چلے تو جوابی حملوں کا محاذ بھی یہیں کھلا۔منشور پیغامات اور کانفرنسوں کی رپورٹ شائع کرکے نہ صرف انھیں محفوظ کیا بلکہ تاریخ نویسی کی راہ بھی آسان کی۔الغرض ترقی پسند تحریک کی تاریخ، اس کی فکری اور تخلیقی لہریں ان کے پیچ وخم اور تنظیمی اتار چڑھاؤ ان رسالوں میں محفوظ ہیں۔
ترقی پسند صحافت نے جب آنکھیں کھولیں،جنگ آزادی شباب پر تھی۔ترقی پسند ادبی صحافت ، جد و جہد آزادی کے ساتھ پلی بڑھی ۔اس دور میں ترقی پسند جریدے بھی آزادی کے سپاہی نظر آتے ہیں۔انھوں نے سامراجی استبداد کے خلاف ڈٹ کر مورچہ لیا ۔لوگوں میں آزادی کی للک پیدا کرنے اور اسے حاصل کرنے کے لیے فرنگی حکومت سے ٹکرا جانے کا حوصلہ پیدا کیا۔مذہب کے نام پر اتحاد توڑنے کی چالوں سے باخبر رکھا۔ایک متحد،مسلسل اور فیصلہ کن جہاد کے لیے تیار کیا۔مسلم لیگ کے ابھار کے زمانے میں ، جب بہت سے اردو اخبار و رسائل اس کی جذباتی لہروں میں بہہ نکلے تھے ،ترقی پسند صحافت نے ایک قومی نظریہ کا ڈٹ کرپرچار کیا۔انگریزوں نے لاکھ ڈرایا لیکن ترقی پسند صحافیوں نے راہ نہ چھوڑی۔
اس دور میں ترقی پسند صحافت جد و جہد آزادی کی آئینہ دار ہے۔ان پرچوں کے اداریوں ، کالموں اور مشمولات میں ان کی ڈھڑکنیں پوشیدہ ہیں۔ترقی پسند صحافیوں نے وقت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر عصری سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔آزادی کی جد و جہد کے دوران آزادی کی للک پیدا کرنے اوراسے حاصل کرنے کے لیے فرنگی حکومت سے ٹکرا جانے کا جذبہ پیدا کیا۔عالم گیر جنگ کے زمانے میں جنگ کے جنون پر چوٹ کی۔مذہب کے نام پر اتحاد توڑنے کی سازشوں سے آگاہ کیا۔’کلیم ‘نے فرنگیوں اور ان کے دیسی پٹھوؤں کے خلاف جیسے جہاد چھیڑ رکھا تھا۔ایک ایسے نازک دور میں جب انگریزوں کے خلاف ایک لفظ شائع کرنے میں بعض دوسرے اخبار و رسائل خوف محسوس کرتے تھے، ’ کلیم ‘کمپنی سرکار پر برابرچوٹ کرتا رہتا۔یہ جد وجہد آزادی کی ایسی دستاوز ہے جس میں وہ صرف سیاسی اور سماجی اتھل پتھل کا ایماندارانہ اندراج ہے بلکہ اس پر تلخ تبصرے بھی ملتے ہیں۔
مذہبی جنون اور فرقہ پرستی کے لیے ان رسائل میں کوئی جگہ نہیں تھی۔’کلیم ‘نے جہاں ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں کی پر زور مخالفت کی وہیں مسلم لیگ کو بھی نشانہ بنایا۔دباؤ پڑا دھمکیاں دی گئیں مگر جوش نے کوئی پروا نہیں کی اور قارئین کی عدالت میں پوری ایمانداری اور شدت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتے رہے۔ 
تیسرے دہے کے آخر میں سامراج مخالف تحریکوں میں تیزی آگئی ۔ ملک بھر میں کسان،مزدور اور طلبا اپنے مطالبات لے کر سڑکوں پر آگئے۔ہڑتالیں ہونے لگیں۔ لیکن ان الگ الگ مورچوں سے ویسے حملے نہیں ہو پارہے تھے، جس کی ضرورت تھی۔ایسے میں ہفت وار ’ہندستان ‘(لکھنؤ)نے تمام سامراج مخالف تنظیموں کو باہمی تعاون کا نعرہ دیا:
’ان تحریکوں کے محاذ الگ الگ ہیں ۔کسان زمینداروں سے لڑتے ہیں ،مزدور کارخانے داروں سے۔مگر زمینداری ہو یا سرمایہ داری یہ سب بنیادیں ہیں سامراج کی۔اگر یہ جماعتیں الگ الگ کام کریں گی تو ایک ایک کرکے سب کچل دی جائیں گی۔کام چل سکتا ہے تو اسی طرح کہ جب مزدور اسٹرائک کریں تو ان کی ہمدردی میں طلبا، کسان اور کانگریسی جلوس نکالیں، جلسے کریں۔اسی طرح اگر کسانوں کی کوئی تحریک اٹھے تو اس میں سب جماعتیں آکر شریک ہوں۔(23 فروری 1938)
’مسلم لیگ کی بناوٹ ہی ان اصولوں پرہے کہ وہ چند حقوق جو گورمنٹ ہندستانیوں کو دیتی ہے ان میں مسلمانوں کو بھی حصہ ملے۔وہ حقوق کیا ہیں کونسل کی چند نشستیں اور چند ملازمتیں۔یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔جو کچھ اس سے ملے گا وہ اوسط طبقہ میں اٹک کر رہ جائے گا۔اس پر بھی مسلم لیگ اتنی خوش ہے کہ وہ نئے دستور پر عمل کرنا چاہتی ہے۔کانگریس کی طرح اس کو ناکارہ سمجھ کر ٹھکرا دینا نہیں چاہتی یعنی مٹھی بھر آدمیوں کی خاطروہ ہندستان کی فاقہ زدہ آبادی کی روٹی کے لیے جد و جہد کو روک دینا چاہتی ہے۔(22 اگست 1937)
’حکومت ہند نے جہاں ہماری جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے وہاں ہماری دماغی ترقی کی بھی راہیں بند کر دی ہیں۔جس کتاب، اخبار یا مضمون نے اس کی پالیسی پر ذرا سی بھی تنقید کی فوراً پبلک کے ہاتھوں سے چھین لی گئی۔کتابیں ضبط ہو گئیں، اخباروں سے ضمانتیں مانگ لی گئیں۔وہ کتابیں جس کو بیرونی ممالک کے بچے بچے پڑھتے ہیں ہندستان میں آ بھی نہیں سکتیں۔یہ صرف ہماری دماغی ترقیوں کو کچلنا ۔نیک و بد کی سچی پہچان ، تنقید کی صلاحیت اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ہمارے سامنے مختلف قسم کی رائیں ہوں اور ہم کو ان پر بحث کرنے اور سوچنے سمجھنے کی آزادی حاصل ہو مگر حکومت نے ہمارے لیے یہ ذرا سی رعایت گوارا نہیں کی۔کانگریس کی حکومتیں ان بندشوں کو توڑ رہی ہیں مگر اس سلسلے میں یاد رکھنا چاہییے کہ ہم کو سو فیصد آزادی نہیں مل سکتی۔جو کتابیں کسی کی شخصیت پر بے جا حملے کریں یا جو فرقہ وارانہ فساد کو بڑھائیں ہمیشہ بندشوں میں رہنے کے قابل ہیں۔‘(19 ستمبر 1937)
دوسری جنگ عظیم کی مورچہ بندی کے ساتھ ہندوستان کی سیا ست بھی گرم ہو گئی۔کانگریس اور کمیونسٹوں میں نظریاتی اختلاف ابھرا اور ظاہر ہے اس سب کا اثر تحریک اور ترقی پسند صحافت پر بھی پڑا۔ 1942 تک کچھ تعطل رہا لیکن کمیونسٹوں پر سے پابندی اٹھتے ہی ، سلسلے پھرچل نکلے۔ حالانکہ سیاسی اختلافات تب بھی تھے، لیکن تحریک پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ ترقی پسند مصنفین کے سامنے، آزادی اور ایک بہتر سماج کی تشکیل کا بڑا مقصد تھا، جس کے لیے تمام ادیب خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے جڑے ہوں یا نہ جڑے ہوں مل جل کر کام کرتے رہے۔دوسری عالمی جنگ کے وقت اس نے جنگ کے جنون پر چوٹ کی:
’ہندوستان اور چین سامراج دشمن محاذ کے سب سے اہم مورچے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہماری جمہوری تحریک دنیا کی انقلابی اشتراکی تحریک سے علاحدہ نہیں کی جا سکتی۔اس قسم کی علاحدگی کی کوشش کرنا اپنی طاقت کو گھٹانا ہوگا۔ترقی پسند مصنفین کی جگہ اسی اشتراکی اور جمہوری تحریک میں ہی ہونی چاہیے۔یہی وہ تحریکیں ہیں جن میں زندگی ہے۔ یہی وہ ذرائع عمل ہیں جو دراصل انسانی سماج انقلاب پیدا کریں گے۔یہی ترقی کے سچے راستے ہیں۔‘(اداریہ نیا ادب لکھنؤ، اکتوبر 1940)
’پچھلے سال کی پندرہ اگست کو آخر وہ تاریخی دن بھی آیا جس کے لیے ہم نے ان گنت قربانیاں کی تھیں اور دکھ جھیلے تھے......مگر طلوع آزادی کے ساتھ دھرتی خون سے رنگ گئی۔سماجی زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہ تھا جو متاثر نہ ہوا ہو۔‘(آجکل، دہلی، گاندھی نمبر 1948) 
آزادی کے بعد ہند و ستان کی سیاسی اور سماجی صورتیں تیزی سے بدلیں۔تقسیم نے جغرافیائی، تو ہجرت نے سماجی تانے بانے اور بناوٹ کو بڑی حد تک متاثر کیا۔ یہ تاریخ کا بے حد نازک موڑ تھا۔نئے سوال اور اندیشے سر اٹھا رہے تھے۔وقت کے ا س دوراہے پر، ترقی پسندادبی صحافت ،سماجی سروکار کے اصولوں کے ساتھ آگے بڑھی۔ اس قبیل کے پرچوں نے مجاہدین آزادی کے خوابوں کی تعبیر اور نئے ہندو ستان کی تعمیر و تشکیل کے لیے جدو جہدکو طاقت دی۔ ملک اور قوم کی رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔انسانی حقوق کی وکالت کی۔وقت کے سوال اٹھائے اور ارباب اقتدار سے ان کے جواب بھی مانگے۔ اردو پر وقت پڑا تو بھی ترقی پسند رسالوں نے پوری شدت سے اس کے واجب حق کاسوال اٹھایا۔جب فرقہ پرستی نے سر اٹھایا تواس کے خلاف جنگ میں بھی یہی رسالے پیش پیش رہے۔
ترقی پسند ادبی رسالوں میں عصری زندگی کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔ان کے اداریوں میں اپنے عہد کی دھڑکنیں پوشیدہ ہیں۔ترقی پسند صحافیوں نے وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی جستجو کی ہے۔یہ ادب کے نئے شعور اور بدلتے آہنگ ہی نہیں ،زندگی کے کھٹے میٹھے تجربوں کی بھی ترجمان رہی ہے۔آزادی کے بعد حالات بدلے ۔نئے سوالوں نے سر اٹھایا تو،ترقی پسند صحافت نے جواب مہیا کیے ۔اس دور میں ’شاہراہ‘ (دہلی)،’کتاب‘(لکھنؤ)، ’گفتگو‘ (بمبئی)، ’ صبا‘( حیدر آباد) ’عصری ادب‘( دہلی)،’ عصری آگہی‘( دہلی)’ نیا سفر‘( دہلی اور الہ آباد) وغیرہ نے ترقی پسند صحافت کی نمائندگی کی۔ظلم کے خلاف احتجاج اور فرقہ پرستی سے لڑنے کا ایسا عزم کہیں اور نہیں دکھائی دیتا۔ 
’اب بھی اس بد نصیب ملک میں اس شے کی بڑی کمی ہے جسے ‘امن‘ کہا جاتا ہے بڑے پیمانے پر نہ سہی، چھوٹے چھوٹے فسادات کی اطلاع کہیں نہ کہیں سے آ ہی جاتی ہے....قیام امن کی ذمے داری حکومت کے سر ہے لیکن عوام کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود پر امن شہری بن کر رہیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ادیبوں پر بھی اس سلسلے میں خاص ذمے داری عائد ہوتی ہے.....عام قاعدہ ہے کہ ہمارے اخبارات کسی فرقے کی اچھائیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور برائیوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ طریقہ غیر مستحسن ہے۔ملک کی موجودہ فضا کے پیش نظر ایسے واقعات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے جہاں ایک فرقے کے آدمی نے دوسرے فرقے کے افراد کے ساتھ محبت اور رواداری کا اظہار کیا ہو۔ہم جانتے ہیں کہ ایسے واقعات کی کمی نہیں لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان پر پردہ ڈالنا بعضوں کے نزدیک ملک کی سب سے بڑی خدمت ہے.....کیا ہمارے افسانہ نگار دوست اس طرف توجہ دیں گے ؟‘ (ا فسانہ ، الہ آبادجنوری 1948) 
20 ویں صدی کا پانچواں دہا ہندوستان کی تاریخ کا بہت نازک موڑ ہے۔ملک کی تعمیر نو کے لیے ، ملک کو فکر و عمل کی نئی فصل درکار تھی، لیکن ایک طبقہ یہ سمجھ کربیٹھ گیا تھا کہ آزادی تو مل ہی گئی ہے اور ایک دوسراطبقہ، تقسیم اور ہجرت کے سبب پیدا ما یو سیوں کے اندھیرے میں گم ہو گیا تھا۔نئے سوال اور نئے اندیشے سر اٹھا رہے تھے: 
’آپ نے اپنا گھر تو بڑے جوش اور ہمہمہ کے ساتھ واپس لے لیا مگر پھر کبھی یہ نہ دیکھا کہ مکان میں کہاں شگاف ہے۔کون سی چھت گر رہی ہے۔کس طرف دیوار شکستہ ہے۔کون سی شہتیر کمزور ہے۔ہمارا پیارا گھر غیروں کے قبضہ میں رہ کر کھنڈر بن چکا ہے۔اب ہمارے فرائض کی ادائیگی یہیں تک نہیں کہ ہم اپنا قبضہ ثابت کریں۔بلکہ اس اجڑے ہوئے گھر کے معمار بھی ہم ہیں۔مکان کی کمزوریاں ایک طرف ابھی تک دروازہ بھی سالم نہیں کہ ہم دشمنوں کو اندر آنے سے روک سکیں....بظاہر مادر ہند کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں، مگر نو نہال قوم ابھی ذہنی غلامی میں گرفتار ہیں۔دور غلامی کی تاریک راتیں ختم ہو چکی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ’وہی دن رات وہی شام و سحرآج بھی ہے‘ یاس کی تاریکیں ہر طرف چھائی ہیں۔ہمیں ضرورت ہے روشنی کی۔ایسی روشنی، جس سے اہل نظر بقدر ظرف نظر فائدہ حاصل کر سکیں اور جس کے اجالے میں ہم اپنے گرد و پیش کا صحیح مشاہدہ کر سکیں۔‘( صبح نو، پورنیہ، اگست 1953)
’ہندوستا ن پر بڑا عجیب وقت آیا ہے، بڑا سخت اور بے حد آزمائش کا دور ..... حکومت کی کمزوری بے اصولی پن اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے ملک کے شر پسند فرقہ پرست اور تخریبی عناصر نے ہمارے دستور کے صحت مند ، جمہوری اور انصاف پسند دنیا میں زلزلہ پیدا کر رکھا ہے۔‘(سہیل، گیا، اگست1958)
’جنگ کا خطرہ ٹالنے اور جنگ بازوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا بھرکے عوام میں دوستانہ تعلقات اور آپس کے میل ملاپ کو تقویت دی جائے۔کلچروفدوں کا تبادلہ اس مقصد کے لیے بڑا موثر ذریعہ ہے اور اس تبادلے کے خوشگوار نتائج نکلتے ہیں۔ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔رنگ ونسل اور علاقائی حدبندیوں کے امتیاز ات اٹھتے ہیں۔‘ (شاہراہ، اگست 1953)
فرقہ پرستی، ہمارے دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔بہت سی برائیاں اس کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں۔ترقی پسند رسالوں نے ان منفی رویوں اوراس کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے، نفرت کے سودا گروں پربار بار چوٹ کی ہے۔ 
’گزشتہ چند مہینوں سے ہندوستان جس راہ سے گذر رہا ہے وہ کسی حیثیت سے بھی قابل اطمینان نہیں ہے۔لیکن کیا اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے!فرقہ پرستی، صوبہ پرستی، ذات پات،زبان پرستی، جارحانہ عصبیت، عقل دشمنی، تشدد، احیا پرستی اور اقتدار پرستی کے سارے نشتر تیز ہو گئے ہیں اور اس طرح استعمال کیے جا رہے ہیں کہ ان کے خوف سے صحت مند ذہن بھی مفلوج ہو گئے ہیں۔یہ خطرے قحط سالی، گرانی اور اقتصادی زبوں حالی سے کسی طرح کم نہیں۔غلہ نہ ہو تو باہر سے بھیک میں مل جاتا ہے،قومی ترقی کے نام پر بہت سے ملک نیک نیتی یا بد نیتی سے سرمایہ فراہم کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن جن بیماریوں کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، ان کا علاج تو صرف ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمارے ہاتھ مفلوج معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے ذہن کو مفلوج بنا لیا ہے۔کیا ادیب ان تمام باتوں سے یہ کہہ کر بیگانہ وار گزر سکتے ہیں کہ وہ کسی بات کے ذمے دار نہیں ہیں! ان پر کسی قسم کی اصلاح فرض نہیں ہے!ان کو اپنی ذات کے سوا کسی چیز سے مطلب نہیں ہے!ان کی دنیا ان مسائل کی دنیا سے الگ ہے!کیا اپنی ذات کو پانے کا مطلب دنیا کو کھونا ہے؟‘(جنوری 1968)
جب بھی عوام میں بے چینی بڑھی ہے۔بازار میں اشیا کی قیمت چڑھی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہواہے۔ مزدور نے اپنے بچوں کے خالی پیٹ ٹٹولے ہیں۔ اقتصادی بحران نے اپنے مہیب جبڑے کھولے ہیں..... اورعوام کاغم و غصہ قابو سے باہر ہونے لگا ہے تواس کا رخ فرقہ وارانہ تناؤ کی طرف موڑ دیاگیا ہے۔ گؤر کشا کے آندولن اٹھے ہیں۔ اسلامی اداروں کے خطرے کابگل بجا ہے.....مذہب اخلاق تعلیم اور کلچر کے نام پرفرقہ پرست اداروں،تنظیموں ،گروہوں ، اخباروں،کتابوں اور تقریبوں کی سر پرستی کی گئی ہے اور یہ سچائی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس میں بلیک کے اور بجٹ کے جو لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہاں ہی کروڑوں انسانوں کے خو ن پسینے کی کمائی ہوتے ہیں جوفرقہ پرستی کی ننگی تلواروں،نیزوں اوربھالوں سے شہید کیے جاتے ہیں۔( ماہنامہ عصری آگہی،جون1979)
مسلمانو ں کی تعلیمی اورمعاشی پسماندگی اورمین اسٹریم سے تقریباًکٹ سے جانے کے پیچھے بھی قمر رئیس ،فرقہ وارانہ رویوں اورسیاسی بے ایمانی کواصل وجہ مانتے ہیں۔ لیکن آزمائش میں حوصلوں کی شکست انھیں اورپریشان کرتی ہے:
’....آزادی کے بعد ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات کی آندھیوں نے ہمیں جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔ تمدنی تعلیمی پسماندگی اور خودہماری حرکتوں نے ہمارے تہدیبی وزن و وقار کو اتنا گھٹا دیا ہے کہ خوداپنی نظروں میں ہم بولنے سے محسوس کرنے لگے ہیں۔ فرقہ پرست جماعتوں کے تعصب، تنگ نظری اورسیاسی جوڑ توڑ نے ہمارے خلاف ملامت اورنفرت کی جو مہم چھیڑ رکھی ہے اس کے خلاف دفیعی محاذ بنا نے میں کوئی سیاسی جماعت ہمارے ساتھ کھڑی ہونے کوتیار نہیں۔ نتیجہ میں ملک کی تعمیر و ترقی اور تعلیم و تہذیب کے کشادہ دھاروں سے ہماری بیگانگی بڑھتی جارہی ہے۔(نیا سفر۔5) 
ترقی پسند صحافت نے ادبی صحافت کو سماجی سروکارسے اور قریب کیا۔یہ ادب کے نئے شعور اور بدلتے آہنگ ہی نہیں ،زندگی کے کھٹے میٹھے تجربوں کی ترجمان بھی رہی ہے۔ان رسالوں نے عوامی جذبے کو آواز دی ۔انسانی حقوق کی وکالت کی۔وقت کے سوال اٹھائے اور ارباب اقتدار سے ان کے جواب بھی مانگے۔ان پرچوں میں عصری زندگی کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔ان کے اداریوں میں وقت کی دھڑکنیں پوشیدہ ہیں۔ترقی پسند صحافیوں نے وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی جستجو کی ہے۔ترقی پسند ادبی صحافت ایک نظریے کی ترجمانی اور تبلیغ بھر نہیں، یہ رسالوں کا ایسا روشن سلسلہ ہے، جس نے اردو کی ادبی صحافت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔انھیں نظر انداز کرکے اردو کی ادبی صحافت کی کوئی بھی تاریخ نامکمل ہی رہے گی۔
حواشی :
.1 سجاد ظہیر،اردو میں کمیو نسٹ صحافت، ہفتہ وار حیات، نئی دہلی ، 11 نومبر 1973
.2 سجاد ظہیر،روشنائی۔سیما پبلیکیشنز ، دہلی،ص242-243
.3 سجاد ظہیر،روشنائی۔سیما پبلیکیشنز ، دہلی،ص244-45
.4 ماہنامہ سہیل، گیا،احتشام حسین نمبر، ستمبر2012،ص112
.5 پیش گفتار، ترقی پسند ادب:پچاس سالہ سفر(ترتیب:قمر رئیس اور عاشور کاظمی) ، نیا سفر پبلی کیشنز دہلی ، ص12
.6 خلیل الرحمن اعظمی، اردو ترقی پسند ادبی تحریک، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص 125
.7 سجاد ظہیر،روشنائی،سیما پبلیکیشنز ، دہلی، ص 252-53

Mr.Laeeq Rizvi
96/B-3, Aravali Sector-34
Noida- 201301, (U.P.)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں