فن تاریخ نویسی اور چکبست
آفتاب احمد آفاقی
تاریخ ادب اردو میں پنڈت برج نرائن چکبست ایک محب وطن شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ، اور ان کا پایہ اس لحاظ سے اردو شاعری میں خاصا بلند ہے۔ حب الوطنی چکبستؔ ؔ کے یہاں قدر اعلیٰ کا درجہ رکھتی ہے اور ان کی تہذیبی ، سماجی ، علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز کہی جا سکتی ہے۔ چکبست جس دور میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے وہ ایک زبردست غیر یقینی اور سیاسی انتشار کا دور تھا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ قومی اتحاد و یگانگت کے احساس کو فروغ دینا اور اسے استحکام عطا کرنا تھا۔ حصول آزادی کی بڑھتی ہوئی جد و جہد کے ساتھ یہ مسئلہ شدّت اور پیچیدگی اختیار کرتا جا رہا تھا۔ قومیت کا وہ تصور جو دھرم، عقیدت اور رسم و رواج کے اختلاف کے باوجود مختلف فرقوں کو ایک لڑی میں پیرو سکے اور انمیں مشترکہ قومی نصب العین کا شعور اجاگر کر سکے ، ہندوستانیوں میں ا بھی پوری طرح پیدا نہیں ہوا تھا۔ ہندوستانی معاشرہ پہلے ہی سے ذات پات ، چھوا چھوت کی لعنتوں میں گرفتار اور مذہبی و انسانی فرقہ واریت کا شکار تھا۔ جو تشدد اور جارحیت کا روپ اختیار کرتی جا رہی تھی اور اس کے نتیجے میں قومی اتحاد اور سا لمیت کو مزید خطرہ لاحق تھا۔ یہ صورتحال آزادی کی راہ میں سنگ گراں کی طرح حائل تھی، اور اس کا ازالہ ضروری تھا۔ اقبال نے اس پس منظر میں’ ترانۂ ہندی‘ کی تخلیق کی اور قومی اتحاد و یکجہتی کا مثبت شعور عطا کیا اس باب میں ان کا واضح اظہار اس شعر سے ہوتا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اقبال کا یہ تخیل ہندوستانی قوم کے دل کی دھڑکن بن گیا جس کی گونج ہمارے قوم کے افکار و خیالات میں صاف طور پر سنائی دیتی ہے۔ سیاست اور ادب دونوں راستوں سے اس کی سرگرمی کے ساتھ اشاعت کی گئی۔ سیاسی محاذ پر گوکھلے، تلک ، گاندھی ،نہرو، محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد وغیرہ قائدین پیش پیش رہے اور قومی اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ شعرا میں درگا سہائے سرور ، اقبال اور چکبست نے حب الوطنی کو اپنا موضوع بنایا اور بڑی خوبصورت اور پُر اثر قومی نظمیں لکھیں جن کا واضح مقصد قومی جذبات کو بیدار کرکے اتحاد وطن کے لیے سازگار فضا پیدا کرنا تھا۔ غور سے دیکھا جائے تو ہمارے شعرا نے اس دور میں جس موضوع پر سب سے زیادہ خامہ فرسائی کی وہ قومی اتحادویکجہتی ہی ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ اس دورکے شعراوادباکا یہ نمایاں ترین میلان اور رجحان رہا ہے۔ اس ملک میں مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف ہمارے شعرا و ادبا نے خصوصی طور پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور مذہبی تعلیمات کی حقیقی اسپرٹ ملحوظ رکھتے ہوئے حب الوطنی کی بنیاد پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد و اتفاق کے جذبے کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس دور میں جو اصلاحی تحریکات ابھریں خصوصاََ راجہ رام موہن رائے اور سرسید جیسے مصلحین نے قومی اصلاح اور فلاح کے لیے جو کاوشیں انجام دیں اور تہذیبی ، معاشرتی اور تعلیمی اصلاحات کی راہ دکھائی اس نے ہندوستانیوں کے قومی اور سیاسی شعور کی تربیت میں ا ہم کردار ادا کیا۔ جن سے ان کے اندر فطری طور پر حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوا اور حصول آزادی کی جد و جہد میں ان کی شمولیت کی راہ ہموار ہوئی ۔
چکبست جو ہمارے ادبی اُفق پر ایک قومی شاعر کی حیثیت سے ابھرے، جنھوں نے تخلیقی کاوشوں کے علاوہ سماجی اصلاح کے کاموں سے خصوصی دلچسپی لی اور اپنے رسالہ ’صبح امید‘ میں جو کوئی ڈھائی سال تک جاری رہا، اپنے وقت کے اہم سیاسی مسائل اور موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا اور مسز اینی بیسنٹ کی ہوم رول تحریک سے وابستہ رہے ۔یوں تو چکبست نے شعر و ادب کے تعلق سے کئی اہم مضامین لکھے ہیں جن سے ان کی تنقیدی بصیرت اور فکر و شعور کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کا مضمون ’ تاریخ ‘ کا مطالعہ ان معنوں میں خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ اس سے جہاں ہندوستانی تہذیب اور معاشرت کے تناظر میں ان کی مثبت اور تعمیری سوچ ، متوازن انداز فکر ، معتدل ذہنی و فکری رویّے ، صحت مند اصلاحی رجحان اور وسیع النظری اور روشن خیالی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ تو دوسری طرف فن تاریخ نویسی کی روایت اور اس کے طریقِ کار سے واقفیت بہم پہنچتی ہے ۔واضح رہے کہ یہ مضمون بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت تحریر کیا گیا جب ہندوستان میں جد و جہد آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ نیز دوسری سماجی اور اصلاحی تحریکیں اپنے اپنے دائرۂ عمل میں سرگرم تھیں۔چکبست کے خیالات اس کا پرتو ہیں۔ ان کی تخلیقی کاوشوں میں بھی اس کے نقوش بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاریخ کی تعبیر اور مطالعے کے ضمن میں ان کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’ موجودہ تہذیب کا علمی اصول یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر رسم و روایت یا علوم و فنون ہیں وہ ایک سلسلہ وار ترقی سے ظہور میں آئے ہیں ۔فن تاریخ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ ضروری اصول مطالعہ تاریخ کی نسبت یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک یا قوم کی تاریخ کو کل دنیا کی تاریخ سے الگ نہ سمجھنا چاہیے ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک یا قوم کی تاریخ اس عظیم الشان تاریخ کی ایک شاخ ہے جو کل بنی نوع انسان کی تہذیب و ترقی کی داستان ہے۔ ہمارے سامنے تہذیب کے وسیع باغ ہیں ، مختلف رنگ کے مختلف پودے اپنی بہار دکھلا رہے ہیں ۔ ان میں ایسے پودے بہت کم ہیں کہ جنھوں نے ابتدائی آفرینش سے اب تک ایک ہی سرزمین کی آب و ہوا میں نشو و نما پائی ہو بر عکس اس کے ہر ایک مواد ایسا ملے گا جس میں کسی دوسرے پودے سے لا کر قلم لگائی گئی ہو اس صورت پر تاریخی واقعات کا اندازہ کرنے سے یہ آئینہ ہو جاتا ہے کہ ہماری موجودہ تہذیب کل پرانی تہذیبوں کا عطر ہے اور یہ ایسا اصول ہے جو تنگ خیالی اور کم نظری کو فنا کرنے کے لیے جادو کا اثر رکھتا ہے۔‘‘ ( مضامین چکبست ، ص۔308۔323 )
چکبست کے ان خیالات سے ان کے فکر و نظر کی کشادگی اور ہندوستانی سماج کو تعصب و تنگ نظری سے پاک کرنے کی خواہش ظاہر ہے۔چکبست کے تاریخی تصور اور اس کے انسلاکات کے تجزیے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ کی مبادیات اور اس کے دائرۂ حدو دسے بھی واقف ہوں ۔علماء اور دانشوروں کے نزدیک تاریخ،بظاہر ماضی کے واقعات کی روداد ہے مگر اس کی حیثیت ماضی اور حال کے مابین ایک مسلسل جاری رہنے والے مکالمے کی ہے۔ اور یہ اپنی اصل صورت میں تاریخ نگار اور واقعات کے باہمی اثر پذیری کے نتیجے میں بہ روئے کار آتی ہے۔ اس اعتبار سے تاریخ نویسی واقعات کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے اور اس کے محرکات اور حقیقی بنیادوں کا پتا لگانے نیز اس کی صحت مندانہ انداز میں تعبیر و ترجمانی کا عمل قرار دی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تاریخ کا مطالعہ زندگی کا نسبتاََ جامع اور متحرک شعور عطا کرنے اور حقائق کی نئی پہچان اور پرکھ کا باعث ہوتا ہے، یہ ماضی کے عرفان کے ساتھ حال اور مستقبل کا زیادہ بہتر شعور عطا کرتا ہے۔ تاریخ محض ماضی کے واقعات یا حالات کی کھتونی نہیں بلکہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار کے تقابل کی ایک راہ ہے۔ مشہور ڈچ عالم Huizingiaنے تاریخ کوTeleology سے تعبیر کیا ہے ،یعنی کائنات کے تمام تغیرات کے پیچھے کوئی نہ کوئی غایت یا مقصد چھپا ہوا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تاریخ داں محض ’کیوں‘ پر اصرا رنہیں کرتا بلکہ وہ ’کدھر‘ پر توجہ دیتا ہے۔ وہ تاریخ کو ایک خاص مفہوم میں تسلسل اور ارتقا سے تعبیر کرتا ہے ۔جب ہم ماضی سے بیگانگی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور مستقبل سے وابستہ ممکنہ ترقیات کو فراموش کر دیتے ہیں تو مؤرخ بھولا ہوا سبق یاد دلاتا اور زمانے کی بڑھتی ہوئی رو اور اس کے ارتقائی رُخ اور رفتار کی طرف راغب کرتا اور انقلابی شعور سے بار آور کرتا ہے ۔
یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ ہم جسے حال یا لمحۂ حاضر کہتے ہیں وہ فرضی خطِ فاصل ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کے رشتے اتنے مربوط اور پائدار ہیں کہ انھیں قطعاََ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں ماضی کے واقعات حالات اور سانحات ایک ایسی دستاویز مرتب کرتے ہیں جن کی روشنی میں مستقبل کے بہتر امکان کا یقین ممکن ہے۔
پنڈت برج نرائن چکبست نے تاریخ نویسی کے اصول اور تاریخ کی تفہیم و تعبیر میں جن نقطۂ نظر کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔اس میں تاریخ و تہذیب کے باہمی ربط اور اس کے ارتقا کا مطالعہ بہ طور خاص ہے۔یہ امر مسلّم ہے کہ تہذیب کا یہ ایک عملی اصول ہے کہ وقت اور تقاضوں کے تحت ارتقا پذیر ہوتی رہتی ہے ، جس طرح رسم و رواج یا مختلف علوم و فنون زندگی کے مطالبات کے تناظر میں ترقی و تبدیلی کے مرحلے سے دو چار ہوتے رہتے ہیں ۔تاریخ کے تعلق سے بھی یہی باتیں کہی جا سکتی ہیں اس لیے کہ تاریخ اور تہذیب کا رشتہ اتنا گہرا ، فطری اور پائدار ہے کہ اسے ایک دوسرے سے الگ کر کے سمجھنا مشکل ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ تاریخ تہذیب کے تحفظ اور اس کی تبدیلی کی مظہر کے علاوہ اس کی ترقی کی عین شاہد بھی ہے۔
چکبست نے تاریخ کی تفہیم و تعبیر کے کئی مدارج قائم کرکے مؤرخ کے طریق کار کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ تاریخ کی تفہیم کے سیاق میں انسانی ذہن و فکر نے بھی ترقی کی مختلف منزلیں طے کی ہیں۔ مثلاََ شروع میں تاریخ نویسوں نے قدرت کے بے ترتیب کارخانوں نیز دنیا کی کیفیت کو تشبیہوں اور استعاروں کے رنگ میں ایک شاعرانہ طرز بیان کے وسیلے سے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ وحشی قوموں کی تاریخ ہی نہیں بلکہ جملہ اقوام کی تاریخ میں اسی عمل کی کار فرمائی نظر آتی ہے ۔بہ الفاظ دیگر پہلے مرحلے میں قدرت کے حسین نظاروں ، سیاروں ، دریاؤں اور بہاروں کی عظمت و شوکت سے متاثر ہو کر اس کی پرستش کرتا ہے اور جب دل کے جذبا ت جوش میں آتے ہیں تو ان احساسات و خیالات کو تخلیقات کے قالب میں ڈھال دیتا ہے ۔ ان فن پاروں کی حیثیت ایک ایسی تاریخ کی ہوتی ہے جو تہذیب کی ترقی کے ترجمان ہوتے ہیں جنھیں انگریزی میں MYTHOLOGY کہتے ہیں۔اور جنھیں بقول چکبست :
’’ خلافِ عقل انسانی جان کر بے وقعت نہیں سمجھنا چاہیے ان سے کامل طور پر تاریخی واقعات کی تشریح نہیں ہوتی ہے لیکن اس وقت کی تہذیب کا بہ حیثیت مجموعی اندازہ ہو سکتا ہے جس وقت کہ نظمیں تصنیف ہوئی تھیں۔ اور یہ ایسی تخلیقات ہے کہ جو تاریخی تحقیقات کی حد سے کسی حالت میں باہر نہیں ہے۔ اس موقع پر کہنا ضروری ہے کہ تاریخی صراحت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو خارجی حالات کی تصریح ہے کہ جو موجودہ سائنس کے اصول پر مبنی ہے دوسرے جذبات انسانی کی توسیع و ترقی کی تشریح ہے ۔ فنِ تاریخ کے ابتدائی کارناموں سے ہم خارجی واقعات کی تصریح عمل میں نہیں لا سکتے لیکن اس وقت کے انسانوں کے جذباتِ دلی اور عقائد کا رجحان نہایت آسانی سے دریافت کر سکتے ہیں اور اس قسم کے تاریخی کارنامے ایک نہایت اعلی ذخیرے کا کام دے سکتے ہیں ، یہ فن تاریخ کی ابتدائی منزل ہے۔ ‘‘ ( مضامین چکبست ۔151)
چکبست کا خیال ہے کہ انسانی ترقیات اور تجربات میں تنوع کے اثرات فنِ تاریخ نویسی پر بھی مرتب ہوتے ہیں پہلے مرحلے میں جہاں تاریخ جذبات و عقائد انسانی قدرت کا عظیم الشان کارخانے کے مشاہدے پر مبنی تھی۔ لیکن دوسرے مرحلے میں وہ تمام خارجی واقعات یعنی انسانی عظمت اور شان و شوکت سے وابستہ تمام روایتیں جو بظاہر داستانوی رنگ اختیار کیے ہوتی ہیں،ان کی شمولیتیں ہو جاتی ہیں ۔ہر چند کہ تاریخ و توصیف میں مبالغہ درجۂ اعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے تاہم ان حکایتوں سے بھی بہت کچھ تاریخی واقعات اخذ کیے جا سکتے ہیں ۔واضح رہے کہ عظیم شخصیات کے تعلق سے جو مبالغہ آمیز قصّے خلق کر لیے جاتے ہیں اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ہر چند کہ یہ شخصتیں اپنی زندگی میں اپنی عظمت کی مدعی نہیں تھیں ۔ لیکن عوامی سطح پر ان سے وابستہ عقیدت مندوں نے بہت سے واقعات منسوب کر دیے ۔جسے کرامات اور کرشمے سے تعبیر کیا جاتا ہے ان سے ان کی عظمتوں کا اظہار مقصود ہوتا ہے ۔چکبست نے ان خیالات کے اعتراف میں متعدد مثالیں پیش کی ہیں ۔مثلاََ ہندوستان میں گوتم بدھ نے کبھی اوتار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔علاوہ ازیں وہ بت پرستی کے شدید مخالف تھے تاہم ان کے مریدوں نے انھیں اوتار کا اعزاز بخشا اور مرنے کے بعد ان کا بت پوجا جانے لگا ۔اسی طرح شیواجی کے عقیدت مندوں نے اوتار قرار دیا اور ان کی پیدائش ایک معجزے کے ذریعے ظہور میں آنا تسلیم کیا۔ چونکہ انسان میں عظمت و شوکت کی قدر کرنے کے جذبات قدرتی طور پر موجود ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مبالغہ آمیز روایتیں اکثر پرستش کی حدود میں داخل ہو جاتی ہیں۔ چونکہ زمانۂ جاہلیت میں ہی انسانی عقیدے غائبانہ اور روحانی قوتوں سے مغلوب تھے ۔علاوہ ازیں انھیں مبالغہ پسندی کی کوئی تمیز نہ تھی بلکہ ان کے نزدیک یہ ایک قسم کی عزت و توقیر تھی۔چکبست کا خیال ہے کہ’ ایسی روایتوں کے مطالعے کے ضمن میں اس امر کا خیال لازمی ہے کہ ’ ہم اصلی واقعات بجنسہ نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ واقعات کی وہ تصویر دیکھ رہے ہیں جس میں کہ بہت کچھ مبالغے کا رنگ بھرا ہوا ہے۔‘‘
تاریخ نویسی کے دونوں مرحلے پر غور کیا جائے تو ان میں دلی جذبات کے اظہار یا پھر بزرگوں کی عظمتوں کے اعتراف اور ان سے وابستہ واقعات کی فہرست سازی کے سوا کچھ نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ تاریخ ، ملک اور سوسائٹی کی حالت کی فلسفیانہ تفسیر سے عبارت ہے البتہ حقیقت واقعہ میں بعض اضافی پہلو بھی در آتے ہیں جن کا اعتراف یوروپ کے مشہور مؤرخ ہیرو ڈوئس نے بھی کیا ہے۔
چکبست کا خیال ہے کہ ہندوستان میں وید اور پُران کو مقدس کتا بوں کا درجہ حاصل ہے، جن کے مطالعے سے تہذیبِ قدیم سے متعلق واقفیت بہم پہنچتی ہیان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔تاہم ہندوستان میں تاریخ نویسی کا مذاق ،عہد وسطیٰ سے قبل ترقی نہ کر سکا ۔یہ بھی درست ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندوں نے مختلف علوم و فنون میں حیرت انگیز ترقی کی تھی جس کا برملا اظہار یوروپ کے محققین نے کیا ہے لیکن فن تاریخ نویسی کی اطمینان بخش نشو ونما نہ ہو سکی ۔ اس کی اصل وجہ بقول چکبست:
’’ فنِ تاریخ اس ملک میں زیادہ نشو و نما پائی جس ملک میں نظام معاشرت پولیٹکل اصول پر مبنی تھا۔ ہندوستان کی حالت جداگانہ تھی یہاں نظام معاشرت کا دارو مدار محض مذہبی اصولوں پر تھا ۔ یہاں دنیا سے زیادہ ، عقبیٰ کی فکر رہتی تھی اس لیے فن تاریخ کو قابل اطمینان ترقی نہ ہوئی کیوں کہ فن مذکورہ زیادہ تر دنیا وی کارناموں سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
چکبست کاخیال ہے کہ فن تاریخ اس وقت پروان چڑھی ہے جب انسان میں غوروفکرکی صلاحیت جنم لیتی ہے ،جب انسان محض عادت کاغلام نہ ہوکردستیاب معلومات ،اس کے وجودکے اسباب وعلل پرغوروفکرکرکے کوئی نتائج اخذ کرنے لگتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اصول مرتب ہوئے اوراس کی روشنی میں حقائق کی چھان پھٹک کی گئی ظاہر ہے کہ ایسی تاریخ محض واقعات کی فہرست سازی نہ ہوکران واقعات کے اسباب ونتائج کی فلسفیانہ تشریح ہوجاتی ہے اس قسم کی تاریخ کی بنیادیوروپ میں پڑی ہرچند کے عربی وفارسی وغیرہ میں اکثرمستندتاریخیں موجود ہیں لیکن :
’’یہ سلطنتوں کے کمال وزوال کی داستانوں کے مجموعے سے عبارت ہیں۔سوسائٹی اورمذہب کے پیچیدہ مسائل کاان میں ذکرنہیں ہے البتہ یوروپ،جرمنی اورانگلستان وغیرہ میں تاریخ میں تنقیدی بصیرت اورفلسفیانہ شعور کے تحت تاریخ نویسی کارواج عام ہوا۔‘‘
فن تاریخ کے ضمن میں چکبست کایہ مطالعہ نوآبادیاتی طرزفکرکی تاریخ نویسی کا زائیدہ قراردیا جاسکتا ہے،اس لیے کے یوروپ بالخصوص انگریزوں کے یہاں تہذیب و معاشرت کی تشریح میں تجزہ، براہین اور دلائل کی روایت سے انکار نہیں، لیکن تمام تر عقلی،علمی اور افادی ترقیات کی کو نپلیں انھیں علاقوں سے پھو ٹتی ہیں،ا سے کلی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا،مغربی نظامِ فکرنے ہماری علمی فتوحات کے اعتراف کا ذکر نہ ضروری سمجھا بلکہ ہمارے فکر و خیال پر مغربی ترقی کی چکا چوندھ کی ایسی دھاک بیٹھا دی کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ جملہ مشرقی تہذیب و تمدن، تاریخ ،ادب اور ثقافت نو آبادیاتی مکاتب کے مقابلے بے وقعت اور غیر فطری ثابت ہونے لگے،جب کہ صداقت یہ ہے کہ قدیم عربوں اور ایرانیوں کے یہاں ایسے مؤرخین کی کمی نہیں جنھوں نے تاریخ نویسی کے فن کونہ صرف اعتبار بخشا بلکہ ان کی شہادتیں آج بھی حوالہ جات کا حکم رکھتی ہیں۔بالخصوص اسلامی مؤرخین، محدثین اور محققین نے واقعات کی چھان پھٹک، صحتِ روایت اور راوی کے معیار ومنہاج پر جس شدو مد کے ساتھ توجہ دی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ البتہ چکبست کا یہ دعویٰ درست ہے کہ’ فنِ تاریخ شاعری اور فلسفے کا مجموعہ ہے اور مؤرخِ کامل وہی شخص ہو سکتا ہے جو کہ فلسفی کا دماغ اور مصور کا قلم رکھتا ہو‘حیرت ہوتی ہے کہ چکبست اس معروضے کی روشنی میں جب یہ کہتے ہیں کہ ’یوروپ میں بھی کوئی ایسا مؤرخ نہیں پیدا ہوا جس میں دونوں وصف درجۂ کمال پر پائے جاتے ہوں‘ظاہر ہے کہ یوروپ کے مؤرخین کے سلسلے میں پہلے کمالِ تاریخ نویسی کا دعویٰ اور پھر اس اعتراف کے باوجود یوروپ میں ایسے با وصف مؤرخ کی عدم موجودگی کا شکوہ خود اپنے خیال کی تردید کے مترادف ہے۔اتنا ہی نہیں وہ مغرب کے مؤرخین کو دو فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں ،ان میں ایک کا تعلق واقعات کی تصریح اور اس کی فلسفیانہ تحقیق سے ہے ۔جب کہ دوسرا فرقہ تاریخی فسانہ نگاروں کا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ تاریخ کسی بھی حالت میں فسا نہ طرازی کا عمل نہیں ہے اور ایسی تصنیف جس کا تعلق تحقیق کی بجائے تخیل کی بلند پروازی اور مفروضات پر مبنی ہو،اس کا اطلاق تاریخ پر ہر گز نہیں ہو سکتا۔
چکبست نے شمس العلمامولوی ذکااللہ کی تاریخ کاذکرتوکیاہے لیکن اسے فن تاریخ کے اصولوں کے مطابق تصنیف نہ کرنے کاانھیں ملال ہے البتہ محمدحسین آزادکوان معنوں میں فوقیت دی ہے کہ ان کی کتاب’درباراکبری‘ایک ایسی کتاب ہے جس پرسچی تاریخ کااطلاق ممکن ہے۔اسی طرح وہ ’آب حیات‘کواردونظم کی تاریخ قراردیتے ہیں۔واضح رہے کہ چکبست جس زمانے میں اردومیں ادب کی تاریخ، اس کی مبادیات اورفن پراظہار خیال کررہے تھے اس اس وقت ہمارے یہاں تاریخ نویسی کے جدیداصول کارواج عام نہیں تھا۔سرسید،مولوی ذکااللہ اورمحمدحسین آزاد نے اپنے محدوددائرے میں تاریخی نوعیت کی جوبھی تصانیف یادگارچھوڑیں اس کی عظمت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔لیکن یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اس وقت تک زبان اور ادب کو دو مختلف موضوعات تسلیم کرنے کا رجحان عام نہ تھا،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ دونوں میں باہمی تعلق کے با وجود یہ دو مختلف مو ضوعات تسلیم کیے گئے ہیں اور تاریخ نگاری کے لیے دونوں کے تقاضے مختلف ہیں۔جدید تاریخ نویسی کی رو سے زبان کی تاریخ کے لیے قیا سات یا دوسروں کے خیال کی بجائے براہِ راست علمِ لسانیات اور مقامی زبانوں سے واقفیت ضروری قرار دی گئی ہے۔واضح رہے کہ ادبی تاریخ نویسی کے طریۂ کار میں مواد تیار نہیں کیا جاتا بلکہ مواد پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اس ضمن میں دستاویزات، مخطو طات یا اصل شواہد جو واقعات سے متعلق ہوں اس کا محاسبہ بھی لازم ہے۔اس طریۂ کار میں حقائق کا تنقیدی تجزیہ، داخلی شواہد کی روشنی میں کیا جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں تاریخ نویس تحقیق کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے کوئی نتیجے تک پہنچتا ہے اسی بنیاد پر مشہور تاریخ داںE.H.CARRتاریخ نویسی کے عمل کو’سمندر سے چند مچھلیاں پکڑنے کا عمل قرار دیتا ہے‘ اس لحاظ سے تاریخ نویس کی ذمہّ داریاں بڑی ہیں،وہ جہاں اپنی فہم و بصیرت، قوتِ تحلیل اور عملی وژن سے کام لیتا ہے ،وہیں ایسے واقعات و بیانات کے شمول سے احتراز بھی کرتا ہے جن سے اختلافی مسائل اور متنا زع فیہ امور سے بھی گریز کرتا ہے۔تاریخ نویسی کے جدید اصول کا اطلاق ہر طرح کی تاریخ پر ہوتا ہے۔
چکبست نے بعض مؤرخین کو تاریخی فسانہ نگار کے زمرے میں رکھا ہے۔یہ فسانے عقل و شعور سے عاری ہیں لہذا اس عہد کے طرزِ معاشرت کی تفہیم کا ذریعہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ان میں ایک طرف عقل و دلائل کی کمی ہے تو دوسری طرف ان کا تانا بانابے بنیاد روایت پر بنا گیا ہے۔البتہ وہ قدیم مذہبی کتابیں جنھیں ہم تقدیم پارینہ خیال کرتے ہیں،ہر چند کہ تاریخی تقاضوں کے تحت تصنیف نہیں کی گئیں،پھر بھی بہ قول چکبست:
’’ایک قسم کے تاریخی سرمایہ سے کم نہیں۔جس سے تہذیبِ انسانی کی ابتدائی حالت کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔مہا بھارت،الیٹ کی اوڈیسی وغیرہ ایسی تاریخی تصا نیف ہیں جن میں ایسی روایتیں درج ہیں جو کہ مبالغہ سے خالی نہیں، مگر جن کی اصلیت ضرور ہے۔‘‘
تاریخ نویسی کے علاوہ چکبست نے مطالعہ تاریخ کے طریقۂ کار پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے،جسے ہم اصولِ مطالعہ تاریخ کہہ سکتے ہیں۔جس کے تحت تاریخ کا مطالعہ ایک طرح سے کہانی یا داستان کامطالعہ ہے نہ بادشاہوں کی تخت نشینی یا مرنے جینے کے تذکرے کی کھتونی،بلکہ تاریخ، انسانی اخلاق کے معیار، مذہبی انقلابات کے علاوہ مختلف زمانوں میں سو سائٹی کا اثر انداز کرنے والے مذہبی عقاید و نظریات کے مطالعے کے علاوہ علمِ طبعیات کی ترقی عقاید میں در آئی تبدیلیوں اور مذہبی انقلاب کے ساتھ سو سائٹی کے رسم و رواج کی تبدیلیوں کا بھی مطالعہ ہے۔اس نوع کے مطالعے سے تاریخی عہد محض ایک داستان مسلسل کی بجائے اخلاقی ، مذہبی اور معاشرتی قوتوں سے اخذ استنباطِ نتائج کی در یافت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔دوسرا امر یہ ہے کہ مطالعۂ تاریخ کے وہ واقعات جو بادی النظر میں غیر ضروری ہیں، یہاں وہ قوم یاملک کے اخلاق یاعادات کومتاثرکرتے ہیں،توجہ دینالازم ہے۔چناں چہ چکبست لکھتے ہیں:
’’سوسائٹی کی اصل حالت دریافت کرنے کے لیے محض عظیم الشان واقعات پر توجہ کرناضروری نہیں بلکہ ان میں پنہاں اخلاقی اورعلمی قوتوں پرغوروتعمق کی نظرڈالناچاہیے جن کے زوال وکمال کے ساتھ ملکوں اورقوموں کے زوال وکمال کی داستانیں وابستہ رہی ہیں۔اکثرلوگوں کاخیال ہے کہ دین اسلام کوجوکچھ فروغ ہوا ہے وہ تلوارکے زورسے ہوا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ عظیم الشان مذہب محض جبریہ پھیلایاگیاہے ایساخیال محض تاریخ اسلام کے سطحی نظارے سے پیدا ہوسکتا ہے۔جن لوگوں نے عمیق نظرسے عروج اسلام کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام کے فروغ کے بانی کی ایک زبردست اخلاقی قوت تھی جوکہ رسول عربی کی تلقین سے ظہور میںآئی تھی اورجس نے عرب کے جاہل وحشیوں کوسرفروش اورتوحیدپرست مسلمان بنادیا۔‘‘
اس اقتباس سے چکبست یہ واضح کرناچاہتے ہیں کہ اگرکسی واقعہ کابغیرتحقیقی وتنقیدی یاتعصب کی بناپرمطالعہ کیاگیاتونتائج کی صحت گمراہ کن ہوسکتی ہے ۔اسی طرح تاریخی شہادت کی عدم موجودگی کے باوجودبرآمدنتائج کوقبول کرنے کاعمل ذہنی خلفشار،تشکیک اورتاریکی وگمرہی میں مبتلاکاباعث بن سکتا ہے۔ان کاخیال ہے کہ ہندوستان میں تاریخی مطالعے تعصب کی نذر ہو تے رہے ہیں۔قدما کے اخلاقی وعملی اعزازات کی تشہیریاپدرم سلطان بود، کے غلغلے کی۔۔۔۔۔۔تحقیق وتفتیش کے بجائے عقیدت واحترام کی کارفرمائی نے ہماری قومی تاریخ کودنیا کی تاریخ سے بالکل الگ کردیا ہے۔جب کہ صداقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک یاقوم کی تاریخ اس عظیم الشان تاریخ کی ایک شاخ ہے جو کل بنی نوع انسان کی تہذیب وترقی کی داستان ہے اور جس کاسلسلہ زمانۂ قدیم میں دور تک پہنچتاہے ۔
مختلف تہذیبوں میں تعلقات باہمی سے مختلف علوم وفنون اورصنعت وحرفت کے نمونے ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچے ہیں۔تہذیب کے وسیع باغ میں علم وفن کے مختلف پودے کسی ایک ہی سرزمین کی آب ہوا میں نشوونما نہیں پاتے بلکہ ہرایک پوداکسی دوسرے ملک کے پودے سے قلم کے روپ میں لا کر لگایا گیا ہے۔ چکبست نے اپنے خیالات کی تائیدمیں متعددمثالیں پیش کی ہیں مثلاًعلم ہند سہ جس کی ایجاد کاسہراہندوستان کے سرہے ۔یہ اصلاً اہل یورپ نے عرب سے حاصل کیا،گھنٹوں کی تقسیم اہل بابل کی ایجاد ہے ۔آتش فشاں آلاتِ حرب کی صنعت اہلِ یوروپ کے ساتھ مخصوص سمجھی جاتی ہے جب کہ اس کے موجد چینی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب بہت کچھ اہلِ عرب کے احسانوں سے گرانبار ہے ،لیکن تمام تر ترقیات کا سہرا مغرب کے سر باندھا جاتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ یورپ میں پہلی یونی ورسٹی مسلمانوں نے قائم کی اور مسلمانوں ہی نے پہلی رصد گاہ بنائی۔
بہر حال چکبست نے تاریخ نویسی اور مطالعۂ تاریخ کے اصول کے ضمن میں جو کچھ لکھا ہے آج اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں، چکبست کا یہ اختصاص بھی قابلِ توجہ ہے کہ وہ عالمِ تاریخ کا رشتہ مادیت کے ساتھ روحانی سروکار سے استوار کرتے ہیں،جس سے آئینۂعقل کو جِلا اور دل کی آنکھیں منور اور روشن ہوتی ہیں۔اس عالم میں تہذیب و ترقی کی وہ زبر دست شاہراہ نظر آتی ہے جس کا ایک کنارہ ازل ہے اور دوسرا ابد،جس کی ہر منزل پر فیض کے چشمے جاری ہیں ۔اس عالمِ تاریخ میں ہر علم وفن کے با کمال حضرات کی زیا رت کا موقع ملتا ہے اور لطف یہ ہے کہ ادنیٰ شخص بھی عظیم الشان انسانوں کی صحبت میں بلا تکلف شریک ہو تاہے اور اپنی قابلیت کے مطابق فیض حاصل کر سکتا ہے۔
Aftab Ahmed Afaqui
Department of Urdu,
Banaras Hindu University
Varanasi, (U.P.)
سہ ماہی فکر و تحقیق شمارہ جنوری تا مارچ 2014
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں