8/3/19

سہسرام میں اردو (تاریخی و تہذیبی پس منظر) مضمون نگار:۔ شمیم ہاشمی



سہسرام میں اردو
 (تاریخی و تہذیبی پس منظر)

شمیم ہاشمی
ہندوستان میں اردو زبان کی ابتدا، ارتقا اور ترویج و اشاعت صوفیائے کرام اور مبلغین اسلام کی مرہون منت ہے۔ اس سلسلے میں خانقاہوں کا اہم ور مرکزی کردار بھی نمایاں ہے۔
مختلف اوقات میں ہندوستان میں اردو زبان و ادب کے مختلف مراکز کا کبھی اجمالی اور کبھی تفصیلی جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے بزرگ محققین نے اپنا تحقیقی عمل بڑے خلوص ، محنت اور عرق ریزی کے ساتھ جاری رکھا۔ ان بزرگوں کی تحقیقات کی حیثیت چراغ راہ کی ہے۔ صوبہ بہار بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا ۔ بہار کے ماہرین اور محققین علم زبان و ادب نے بھی بڑے خلوص اور بڑی ایمانداری کے ساتھ بہار میں اردو کی ابتدا ، ارتقا اور سمت و رفتار پر بہت وقیع اور گراں قدر کام کیا۔ سہسرام، بہار کا ایک حصہ ہے اور ہر دور میں ہر اعتبار سے اس شہر کی نہایت اہم، روشن اور مرکزی حیثیت رہی ہے۔ اس لیے بہار میں اردو زبان و ادب کی تاریخ میں سہسرام گمنام نہیں رہا۔ اس کی روشن اور تابناک تاریخ ہے لیکن جہاں تک اردو زبان و ادب کا تعلق ہے تحقیق ، تنقید، تبصرے اور جائزے دستیاب ضرور ہیں مگر ان کی حیثیت ضمنی ہے۔ میں خاص طور سے سہسرام میں اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا کے دستیاب نقوش کی بنیاد پر ایک مختصراً جائزہ پیش کر رہا ہوں۔ 
سہسرام میں صوفیائے کرام کی آمد کا آغاز اوائل گیارہویں صدی عیسوی سے ہوا جب حضرت شیخ ابو الفتح خواجہ شہاب الدین چشتی فاروقی ؒ افغان کے ایک لشکر کے ہمراہ واردِ ہندوستان ہوئے اور سر زمین غازی پور (اتر پردیش) کو اپنے قیام کی سعادتوں سے نوازا۔ آپ کے دو فرزندانِ گرامی حضرت مولانا نظام الدین ؒ صاحب ولایت زمانیہ (اتر پردیش) اور دوسرے حضرت مخدوم محمد صالح ؒ صاحبِ ولایت سہسرام ہوئے۔ آپ کے فرزندان حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی ؒ بھی بلند پایہ عالم اور درویش کامل تھے۔ سہسرام کا ایک محلہ شاہ ہارونی آپ ہی کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب ہے1۔ جس دن حضرت مخدوم محمد صالح ؒ کا وصال ہوا اسی دن حضرت شاہ بوڑھن دیوان (صاحب ولایت سہسرام) کی سہسرام میں آمد ہوئی۔ حضرت موصوف نے ہی حضرت مخدوم صاحب ؒ کی نماز جنازہ پڑھائی2۔ جناب مولانا ابو محمد مصلح سہسرامی نے آپ کے والد محترم کا نام قاضی شیخ مبارک ؒ لکھا ہے جو حضرت عثمان ذو النورینؓ کی اولاد باصفا میں سے تھے آپ کے آبا واجداد روح ( jksg) بہار شریف (موجودہ ضلع نالندہ، بہار) میں قاضی شریعت کے عہدے پر فائز تھے3۔ نسب نامہ سادات رجہت کے مرتب حضرت مولانا سید شاہ بدیع الدین حزیں ؒ نے حضرت شاہ بوڑھن دیوان ؒ کو فرزندان حضرت امام زین العابدینؓ میں بتایا ہے۔ سلسلہ وار فرزندان امام موصوف کا شمار کرتے ہوئے حضرت قاضی سید شاہ مبارک عرف حضرت شاہ بوڑھن شہرگ ؒ کا نام نامی تحریر کیا ہے۔ آپ کا مزار شریف قصبہ روح میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ آپ کے بعد آپ کے فرزندگرامی حضرت قاضی سید شاہ ابو محمد ؒ کا اسم گرامی ہے۔ آپ کے ایک فرزند حضرت قاضی سید شاہ فرید الدین عرف حضرت شاہ بوڑھن دیوان نے سہسرام میں سکونت اختیار کی۔ آپ کا مزار شریف سہسرام کے محلہ املی آدم خاں میں مرجع خلائق ہے4۔ (سعادت سہسرام اکثر و بیشتر کا تعلق آپ ہی کے فرزندان سے ہے۔ چند سادات گھرانے خود کو حضرت مخدوم محمد صالح کی اولاد میں شمار کرتے ہیں ) حضرت قاضی سید شاہ ابو محمد کے دوسرے فرزند حضرت قاضی سید شاہ تاج ہیں اور آپ کے فرزند قاضی سید شاہ عبد الرزاق ؒ جن کا مزار شریف موضع رجہت ضلع نوادہ (بہار ) میں مرجع خلائق ہے۔ سادات رجہت آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ سادات سہسرام محلہ وائرہ خانقاہ کبیریہ کا تعلق سادات رجہت کی اسی شاخ سے ہے۔ 
حضرت مخدوم محمد صالح ؒ کے خلفائے اجل جن کی وابستگی سہسرام سے قائم رہی ان میں حضرت محمد شہباز عرف باج گدڑیا ؒ اور حضرت شاہ گدائے رحمن عرف پیر گدا ؒ اہم اور قابل ذکر ہیں۔ حضرت شاہ بوڑھن دیوان ؒ کے خلفائے ذی شان میں حضرت شاہ شمس الحق دیوان ؒ حضرت میر گوشائیں ؒ حضرت شاہ پیر محمد ؒ اور آپ کے فرزندگرامی قدر حضرت شاہ محمد شریف عرف چھوٹے دیوان ؒ کے علاوہ اس عہد کے اور بزرگوں کے نام بھی ملتے ہیں جن میں حضرت شاہ ارزاں ؒ حضرت میر ہاشم چار ضرب ؒ ۔ حضرت شاہ کرامت اولیا ؒ ۔ حضرت نعمت یکدستی ؒ اور حضرت شاہ مومن چپ عرف گونگے دیوان ؒ قابل ذکر ہیں۔ حضرت شاہ شمس الحق دیوان ؒ کے خلیفہ گھنو دیوان ؒ نے بھی سہسرام کو اپنے قیام کی برکتوں سے نوازا۔ حضرت شاہ بوڑھن دیوان ؒ کے وصال پر حضرت میرگو شائیں ؒ نے یہ شعر کہا: 
شہر محرم بیس نو سہس چوالیس جان
بوڑھن شاہ بیکنٹھ کو تادن کین پیان 5
تاریخ وصال کا یہ شعر گویا سہسرام میں اردو زبان اور اردو شاعری کے ابتدائی خدو خال کا ایک نمونہ ہے جس کی گنگناہٹ آگے چل کر مسحور کن نغموں میں تبدیل ہوئی۔ 
بارہویں صدی عیسوی میں ملنے والی اس سلسلے کی اہم ترین کڑی حضرت سید میر حسین عرف حضرت چند تن شہید پیر ؒ کی ذات گرامی ہے۔ آپ سید فضل الرحمن غازی ؒ کے فرزند ارجمند تھے۔ اپنے وطن مدینہ منورہ سے اواخر بارہویں صدی عیسوی (1186) میں واردِ ہندوستان ہو کر اجمیر شریف کو رونق بخشی۔ 1191 کے بعد سلطان شہاب الدین کے جنرل بختیار خلجی (متوفی1204) کے لشکر کے ساتھ آپ کا گزر سہسرام سے ہوا۔ آپ نے یہیں سکونت اختیار کی۔ آپ کے زمانے میں ایک اور بزرگ حضرت مصطفی شہید عرف پیر چنا رو تھے، جن کا قیام سہسرام میں ہی تھا۔ حضرت چند تن شہید پیر کے خاندان کے ایک اور بزرگ حضرت مولانا محمد عثمان مہاجر مکی ؒ صاحب تصنیف تھے۔ آپ کی ایک تصنیف ، مثنوی معنوی‘ بز بان عربی کا حوالہ پروفیسر ڈاکٹر سید حسن آرزو نے اپنے مضمون ’شیر شاہ نگری سہسرام کا تعارف‘ (مطبوعہ ماہنامہ خوشبو ماہ جولائی /اگست 1980 میں دیا ہے۔ دوسری تصنیف ’جلستاں‘ (عربی ترجمہ گلستاں کا تذکرہ تاریخ سہسرام، صفحہ86 میں ابو محمد مصلح نے کیا ہے۔ لیکن اس کی تحقیق نہیں ہو سکی۔ اول الذکر تصنیف مدرسہ خیر یہ نظامیہ سہسرام کے کتب خانے کی زینت ہے۔
ان بزرگوں کے بعد حضرت شاہ جلال فردوسی ؒ کی ذات گرامی تھی۔ آپ اپنے وطن بزارہ سے سہسرام تشریف لائے۔ حضرت شاہ محمد فردوسی ؒ آپ کے مرید اور پھر خلیفہ و جانشین ہوئے۔ آپ کے خلفائے کرام میں (حضرت شاہ میاں مسکین حضرت شاہ جلال فردوسی ؒ کے بھانجہ) اور حضرت چاند فردوسی قابل ذکر ہیں۔ سہسرام کا محلہ میاں مسکین حضرت شاہ میاں مسکین ؒ کے نام نامی سے منسوب ہے اور محلہ شاہ جلال حضرت شاہ جلال ؒ کے اسم گرامی سے۔ پھر مداریہ طریقہ کے مشہور و معروف بزرگ حضرت شاہ مدار سیلانی ؒ اور آپ کے خلیفہ اعظم امان سیلانی نے بھی سہسرام کو اپنا وطن بنایا۔ سہسرام کے محلہ مدار سیلانی پیر اور مدار دروازہ کی نسبت انھیں بزرگوں سے ہے۔ 
’’اواخر پندرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی کی چھٹی دہائی (1494/95تا 1555) یا اس کے آس پاس جب حسین خاں اپنی اس نئی جاگیر میں آیا تو اس نے سہسرام کو اپنا صدر مقام بنایا اور یہاں مستقل طور پر اقامت اختیار کی۔ اس نے پرانی بستی سہسرام (جو آج ضلع روہتاس کا صدر مقام ہے) کے موجودہ حلقے میں بہ یک وقت 500 سوار افغاناں جن کی تعداد مع اہل و عیال ہزاروں نفوس پر مشتمل ہوگی، کی اقامت ہی سے ایک نئی بستی کا تصور پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ تازہ وار دان اپنے ساتھ نئی نئی ضرورتیں بھی لائے تھے ان کی آمد سے اس جگہ زندگی کے ہر شعبے میں اور نجی ضروریات کے ہر پیشے میں دفعتاً ایک تنوع اور گہما گہمی پیدا ہوئی۔ چنانچہ اس عہد میں یہاں نان پز، مقری، خیاط ، گندھی، نعل بند، سائیس ، معمار ، کمان گر، آہن گر، شیوخ و مشائخ غرض ہر طبقہ اور پیشہ کے لوگ آہستہ آہستہ دور نزدیک سے آکر بسنے لگے6۔‘‘
حسن خاں سور کی زندگی میں ہی اس کا ہونہار ترین بیٹا فرید خاں جاگیر کے انتظامی امور میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹاتا رہا۔ حسن خاں سور کو جب کچھ عرصے کے لیے جون پور میں قیام کرنا پڑا تو اس نے اپنے لائق بیٹے کو اپنا نائب بنایا اور اسے اختیار کل دے کر سہسرام روانہ کیا۔ بیٹا نہایت انہماک، محنت ، خلوص ، خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مشغول رہا۔ حسن خاں سور کے انتقال کے بعد تقریباً (1523) سلطان ابراہیم لودھی نے فرید خاں کو حسن خاں کی جاگیر کا پروانہ عطا کیا۔ سہسرام کا یہ سپوت آگے چل کر اپنی جفاکشی، بہادری، خود اعتمادی ، حکمت عملی، سیاست، علمیت، علم دوستی، بزرگی، عظمت اور اہلیت کے بل بوتے پر ہندوستان کے تاج و تخت کا مالک بنا اور شیر شاہ بن کر دنیا کی تاریخ میں اپنا نام بحیثیت ایک مثالی بادشاہ ثبت کر دیا۔
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
1545 میں اس عظیم بادشاہ نے دارفانی سے کوچ کیا۔ شیر شاہ کے بعد سلیم شاہ فرماں روائے ہندوستان ہوا۔ 
30اکتوبر 1552 کو اس جلیل القدر بادشاہ کا انتقال ہوا۔ اس کے متعلق او پی ترپاٹھی کی رائے ہے : 
’’۔۔۔یہاں تک کہ علاؤ الدین خلجی محمد بن تغلق اور خود اس کے باپ شیر شاہ نے ایسا بلند مطمح نظر ،مقصد کی ایسی پختگی اور اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں اتنی شدت نہیں دکھائی7۔‘‘
شیر شاہ اور سلیم شاہ خاندان سور کے جگمگاتے ہوئے آفتاب و ماہتاب تھے ۔ ان کے بعد تقریباً دو سال چند ماہ سوریوں کی حکومت رہی لیکن آپسی نفاق اور حرص و طمع نیز نا اہلی کی نذر ہو گئی۔
نصف صدی کا یہ عرصہ یقیناًسہسرام میں مقامی بولیوں کی سمت و رفتار ، ترویج و اشاعت اور ارتقا پر اثر انداز ہوا ہوگا۔ محمود شیرانی نے لکھا ہے : 
’’سوریوں کو فارسی سے سخت دشمنی تھی 8‘‘
پروفیسر ڈاکٹر اختر اورینوی کا خیال ہے : 
’’شیر شاہ سوری اور دوسرے پٹھان بہاری بولیوں کے استعمال و ترقی میں کوشاں ہوں گے۔ اس کا لازمی نتیجہ ریختہ کی ترویج میں ظاہر ہوا ہوگا۔9
سترہویں صدی عیسوی میں ایک بزرگ اور اہل دل حضرت ابو عبد اللہ قادری بغدادی ؒ کی سہسرام میں آمد ہوئی۔ آپ کا وصال1605میں ہوا۔ ہجری مادۂ تاریخ وفات ’عاشق جی معشوق محمد‘ 1099 ھ ہے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ مادۂ تاریخ کس کی تخلیق ہے۔ لیکن اس مادۂ تاریخ میں اردو کی تتلاہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔ آپ کے پر پوتے اور جانشیں حضرت شاہ جمعہ قادری ؒ تھے جو حضرت شاہ جمعہ پیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ سہسرام کا ایک محلہ شاہ جمعہ آپ کے نام سے منسوب ہے10۔
سترہویں صدی عیسوی میں جن صوفیائے کرام کا ورود سہسرام میں ہوا ان میں اہم اور روشن ترین شخصیت حضرت شاہ کبیر الدین احمد درویش ؒ کی ہے۔ مولوی ضمیر الدین رقم طراز ہیں:
’’۔۔۔ دریں شہر (سہسرام 11 اکثر شرفائے عالی خاندان از مشائخ و سادات وافاغنہ با نام و نشان می باشند۔ دریں جادائرہ شاہ کبیر الدین علیہ الرحمہ مشہور است ۔۔۔‘‘12
جناب ابو محمد مصلح نے حضرت موصوف کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت شاہ علی عباس ؒ لکھا ہے۔ 13 لیکن مرتب و مؤلف نسب نامہ سادات رجہت (گیا، بہار) موجودہ ضلع: نوادہ، نیز سادات دائرہ خانقاہ ۔۔۔ سہسرام حضرت مولانا سیدشاہ بدیع الدین احمد قدس سرّہ المتخلص بہ حزیں (متوفی 1968) سہسرام کے ایک بلند پایہ عالم اور اہل دل بزرگ اور حضرت مولانا محمد حفیظ الدین پورینوی نور اللہ مرقدہ المتخلص بہ لطیفی صوفی صاحب دیوان شاعر (متوفی 1914) مدرس اول مدرسہ خانقاہ کبیر یہ سہسرام کے شاگرد عزیز اور مرید خاص نے حضرت شاہ کبیر الدین درویش ؒ کے والد محترم کا نام نامی سید شاہ محمد لکھا ہے۔14 یہی نام عالی جناب سید شاہ تقی الدین احمد سجادہ نشین خانقاہ کبیریہ سہسرام نے بھی تحریر کیا ہے۔ 15حضرت موصوف کا سلسلہ نسب حضرت سید نا غوث الاعظم عبد القادر محی الدین جیلانیؓ سے ملتا ہے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ بغداد شریف سے دہلی تشریف لائے۔ آپ کی ولادت 1618 میں ہوئی۔16 آپ اپنے پیر و مرشد حضرت نجم الدین قادری درویش ؒ کے حکم سے سہسرام تشریف لائے۔ آپ کا نکاح حضرت سلیم اللہ ؒ (آپ سید ناامام زین العابدینؓ کی اولاد میں سے تھے) کی دختر نیک اختر حضرت بی بی فہیمہ ؒ سے 1685 میں ہوا۔17 
اس سے پہلے کہ حضرت شاہ کبیر الدین درویش ؒ اور ان کے بعد آنے والے بزرگان دین کا تذکرہ کیا جائے سادات رجہت و سادات خانقاہ کبیریہ سہسرام کے سلسلے میں پیدا شدہ ایک غلط فہمی (اب تک کی تحقیق کی روشنی میں ) کا ازالہ کرنا چاہوں گا۔ جناب میر جواد حسین رئیس گیا (بہار ) نے اپنی کتاب ’تاریخ حسن‘ میں تحریر فرمایا ہے : 
’’سادات رجہت از بد دعائے مخدوم شرف الدین بہاری برباد شد ندو دررجہت آباد شدند۔ از ااینہا اہالیان سہسرام اند‘‘
موصوف کے اس بیان کی نہ تو کوئی سند دستیاب ہے اور نہ ہی اس کی صحت کی تحقیق ہو سکی۔ تاریخ حسن میں یہ بیان بغیر کسی حوالے کے درج ہے۔ (اگر کسی صاحب علم کی نظر سے کوئی سند یا حوالہ گزرے تو راقم مضمون ہذا کو مطلع فرمائیں )۔ 
عالی جناب سید شاہ تقی الدین احمد سجادہ نشین خانقاہ کبیریہ سہسرام نے اپنے خاندانی کاغذات و مسودات کی بنیاد پر حضرت شاہ کبیر الدین درویش ؒ کے تین بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔ حضرت شاہ خلیل اللہ ؒ ، حضرت شاہ خیر اللہ اور حضرت شاہ اہل اللہ۔ اول الذکر حضرت شاہ کھیلن کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کا تذکرہ نواب غلام حسین طباطبائی نے سیر المتاخریں، (تذکرہ مشائخین بہار ) میں کیا ہے۔ سہسرام کا محلہ کھیلن گنج آپ ہی کے نام سے منسوب ہے۔ 
حضرت شاہ کبیر الدین درویش ؒ کے معتقدین میں سب سے پہلے نواب مرتضیٰ خاں نے 1716 میں ایک گاؤں حضرت موصوف کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کیا۔ 18 مغل بادشاہ فرخ سیر نے بکمال عقیدتمندی 1717 میں حضرت کی خدمت میں اٹھارہ مواضعات کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت نے قبول نہ فرمایا، بعد میں حضرت شاہ کھیلن ؒ نے بادشاہ کی گزارش پر مذکورہ نذرانہ قبول فرما کر خانقاہ کبیریہ سہسرام کی بنا ڈالی۔ 1733 میں نواب فخر الدین نے ساڑھے سات مواضعات حضرت شاہ کھیلن ؒ کی خدمت میں نذر کیا۔19 حضرت شاہ کھیلن کے بعد آپ کے داماد اور بھتیجا (حضرت شاہ خیر اللہ ؒ کے صاحبزادے) حضرت شاہ غلام شرف الدین سجادہ نشین ہوئے اور آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ قیام الدین سجادہ نشین ہوئے۔ آپ کا ذکر بھی حضرت غلام حسین طباطبائی نے ’سیر المتاخرین‘ میں کیا ہے۔ مغل بادشاہ شاہ عالم کو آپ سے بے حد عقیدت تھی 1762 میں بادشاہ موصوف نے حضرت کی خدمت میں اکتالیس مواضعات کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت نے اسے قبول فرما کر خانقاہ کبیریہ سہسرام کی توسیع فرمائی۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت شمس الدین سجادہ نشیں ہوئے۔ موصوف لاولد تھے اس لیے آپ کے بعد آپ کے عم بزرگ حضرت شاہ غلام غوث ؒ کے پوتے حضرت شاہ کبیر الدین ثانی ؒ (متوفی 1864) صاحب سجادہ ہوئے۔ موصوف کی بزرگی، حکمت عملی، روشن دماغی اور اعلیٰ کارکردگی اپنی مثال آپ تھی۔ خانقاہ کبیریہ سہسرام کی عالی شان مسجد آپ کے تابندہ دور سجادگی کی یادگار ہے۔20 آپ نے سہسرام میں مطبع کبیری کی بنیاد ڈالی جس میں علمی، ادبی اور دینی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوتی تھیں۔ مطبع کبیری کی دو مطبوعہ کتابیں، تفسیر پارہ عم اور دیوان درد (فارسی و ہندی) ۔ پروفیسر اظہر حسین کے کتب خانہ ’شیخ کرامت اردو لائبریری سہسرام‘ میں موجود ہیں۔ حضرت موصوف لاولد تھے۔ آپ کے بعد آپ کے روشن ضمیر برادر زادہ حضرت شاہ محی الدین ؒ المعروف بہ لالہ میاں سجادہ ہوئے۔ آپ اپنے خاندانی بزرگوں کی طرح قدر دان علم وفضل اور دل دادۂ علم دین تھے۔ آپ نے خانقاہ اور اس کی یکتائے روزگار درس گاہ مدرسہ خانقاہ کبیریہ سہسرام کی ترقی اور توسیع کے لے مثبت اقدام کیا۔ اپنے بزرگ اسلاف کی علم دوستی اور اسلامی خدمات کی اہم ترین یادگار مدرسہ مذکور کی موجودہ سنگی عمارت کی تعمیر نو 1883 میں کرائی۔ قطعۂ تاریخ تعمیر نو مدرسہ کے شاندار، وسیع اور بلند بالا ہال میں سنگ مر مر پر کندہ ہے : 
(1) 
ز تدبیر حکام عالی مقام
شد آباد یک خانقاہ کبیر
بطرز نوے مدرسہ رابنا
بکردند از بسکہ شد دل پذیر
بہجری رقم گشت تاریخ او
چہ طرح نکو خانقا ہے کبیر 1300ھ
(2)
گشت تعمیر چوں مکان عظیم
رفعتش رابچرخ ہم بردند
از سر خرمی دلم گفتا
خانقاہ کبیر نوکر دند 1883 
مدرسہ مذکورہ ہندوستان کے اہم ترین علوم اسلامی مراکز میں سے ایک تھا۔ اس عظیم علمی، ادبی اور تہذیبی مرکز سے نامور علما ، مشاہیر اہل قلم، صوفیائے کرام اور اولیائے عظام بحیثیت اساتذہ یا طالب علم منسلک رہے ہیں۔ چند بزرگوں کے اسمائے گرامی درج ہیں : 
حضرت مولانا شاہ امین الدین ؒ (متوفی 1874) حضرت مولانا احمد حسینؒ (متوفی 1885) فاضل بہاری شمس العلما حضرت مولانا عبد الوہاب ؒ ، حضرت مولانا محمد فاروق چریاکوٹی (آپ مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور میں مدرس اول تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے)، حضرت مولانا محمد شہاب الدین مظفر نگری کیرانوی (متوفی 1910) ، حضرت مولانا احمد حسین ؒ ابن حضرت مولانا حافظ عنایت حسین ؒ (متوفی1910)، حضرت سید شاہ عبد الرحیم مسرور ؒ (متوفی 1910)، حضرت مولانا فرخند علی خنداں سہسرامی، مرزا عبد المجید فائق سہسرامی، حضرت مولانا محمد حفیظ الدین لطیفی پورینوی ؒ (متوفی 1914)، حضرت مولانا سبحان احمد ؒ (متوفی 1915) فخر الواعظین حضرت مولانا محمد قادر بخش ؒ حافظ حدیث (متوفی 1915)، حضرت مولانا حسن جان خاں نقشبندی (متوفی 1916)، حضرت مولانا عبد الستار بیگ ؒ مصنف مسالک السالکین (متوفی 1918)، حضرت مولانا سید موسیٰ رضا کاکوی (متوفی 1372ھ ) ، حضرت مولانا سید ابوالحسن ؒ بیدل ثم خوشدل (متوفی 1935)، ملک العلما حضرت مولانا محمد ظفر الدین قادریؒ (متوفی 1382ھ) آپ کے فرزند ارجمند پروفیسر مختار الدین احمد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ حضرت مولانا میر سید نجف اشرف ؒ ۔ حضرت مولانا محمود الحسن خاں محمود سہسرامی متوفی 1949) حضرت مولانا ابو الانوار غلام مصطفی شفا ثم فخر سہسرامی (متوفی 1950) ، حضرت مولانا فضل الرحمن ؒ ۔ حضرت مولانا شیخ نجم الدین ؒ ۔ حضرت مولانا سید شاہ غلام مخدوم مست : عرف بکومیاں (متوفی 1955) ، حضرت حکیم رکن الدین دانا ندوی سہسرامی (متوفی 1964) ، حضرت مولانا سید شاہ غیاث الدین حسن شریفی چشتی ؒ (متوفی 1965)، حضرت علامہ وجیہ الدین حشر سہسرامی (متوفی1975)۔ پروفیسر سید عبد الماجد اختر ؒ ، حضرت مولانا سید مجیب الحق ہرگانوی ؒ ۔ حضرت مولانا احمد عروج قادری ؒ ۔ حضرت مولانا نور عالم نور ثم مطہر ؒ ، حضرت مولانا سید عبد القیوم مہجور شمسی ؒ (متوفی1974)، حضرت مولانا سید اظہار حسین کاندھوی ؒ (متوفی1983)، حضرت مولانا ابو الانوار نازش سہسرامی (متوفی 1983)، سید قمر الدین کیف سہسرامی ؒ (متوفی 1984)، حضرت ابو الکیف نثار احمد خاں تالجم میواتی سہسرامی اور جناب محمد ارتضا الدین حاذق سہسرامی مؤلف رجال سہسرام اور حضرت مولانا سید شاہ غلام قادر اصدقی بڈوسری ؒ وغیر ہم۔ 
آج یہ باعظمت مادر علمی اپنی سونی گود میں ہر علم و فن کی نادر و نایاب کتب اور بے بہا مخطوطات کا ذخیرہ لیے ہوئے ان کی بربادی، تباہی اور کس مپرسی پر اشک بار ہے۔ اس یکتائے روزگار درس گاہ کے درو دیوار فریاد کناں ہیں : 
کر دیم زخون خود آرائش کوئے تو
داری خبر ے یا نہ اے محو خود آرائی
کن برسا تا بو تم یک جلوہ بہ رعنائی 
اے در لبِ لعل تو اعجازِ مسیحائی 
اب اس کی حالت زار دیکھ کر بے اختیار آنسو نکل پڑتے ہیں اور فیضی کا یہ شعر جو اس نے اپنی والدہ محترمہ کے مرثیہ میں کہا تھا۔ بے اختیار ورد زبان ہو جاتا ہے : 
خوں کہ از مہر تو شد شیر و بر طفلی خوردم
باز آں خوں شدہ از دیدہ بروں می آید
سہسرام میں خانقاہ کبیریہ کے علاوہ اور بھی کئی چھوٹی بڑی خانقاہیں تھیں جن کا تعلق مندرجہ ذیل صوفیائے با صفا سے تھا : 
1۔ حضرت مخدوم محمد صالح ؒ المعروف بہ مخدوم صاحب ابن حضرت شیخ ابو الفتح خواجہ شہاب الدین چشتی فاروقی ؒ جنھیں خرقۂ خلافت حضرت شیخ ابراہیم بالا راجا جانشین حضرت گنج شکرؒ سے ملا تھا۔
2۔ دوسری خانقاہ سلسلۂ فردوسیہ کی تھی جو حضرت شیخ فرید الدین المعروف بہ شاہ بوڑھن دیوان ؒ ۔ آپ کے پیرو مرشد حضرت شاہ ابو الخیر فردوسی ؒ تھے۔ یہ سلسلہ حضرت خواجہ نجم الدین کنبری فردوسی ؒ سے جاری ہوا۔ اس گروہ صوفیا نے حبیب شاہی اور بڈھن شاہی دو ناموں کے شہرت پائی۔21 
3۔ تیسری خانقاہ مداریہ سلسلہ کی تھی۔ اس کا تعلق حضرت شمس العارفین شاہ بدیع الدین قطب المدار ؒ سے تھا۔22 
4۔ چوتھی خانقاہ قادریہ سید ابو عبد اللہ قادری بغدادی ؒ سے منسوب تھی۔ آپ کا سلسلۂ نسب بیسویں پشت میں حضرت غوث الاعظم محبوب سبحانی سید نا عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے۔23 
ان کے علاوہ سہسرام کے کئی ذی استعداد اور ذی حیثیت بزرگوں نے رفاہ عام کے کاموں اور رشد و ہدایت کے مقاصد کے پیش نظر مختلف اوقات میں اپنی دولت راہِ خدا میں وقف کی۔ ایسے چند اوقاف میں خانقاہ ناظر علی خاں مرحوم ؒ قابلِ ذکر ہے۔ اب یہ خانقاہ نا اہلوں کے ہاتھوں تنازعۂ تولیت کی نذر ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہے۔24 
سہسرام اور اطراف سہسرام میں مذکورہ بالا بزرگوں کے علاوہ اور بھی کئی قابل ذکر صوفیائے باصفا اور مشائخین کرام کی آمد، قیام اور یہیں پیو ند خاک ہونے کی شہادتیں مختلف تذکروں، مزاروں کے نشانات اور کتبوں کے الفاظ سے ملتی ہیں۔ چند بزرگوں کے معروفی نام درج ذیل ہیں: 
حضرت بہادر شاہ ولی ؒ (متوفی 1739)، حضرت شاہ اسمعیل ؒ ۔ حضرت بجلی شہید ؒ ۔ (حضرت قطب صاحب ؒ ۔ حضرت صوفی شہید ؒ ۔حضرت بھولا شہید ؒ ۔ حضرت شاہ عبد الجلیل صدیقی ؒ (آپ کا وطن سمنا تھا۔ آپ حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی ؒ (آرام گاہ کچھوچھہ شریف کی ہمشیرہ محترمہ کی اولاد میں سے تھے۔25 حضرت سید شاہ ظہور الحسن ؒ (آپ حضرت سید نا عبدالقادر جیلانیؓ کی اولاد میں سے تھے۔ 26 
حضرت نور علی شہید ؒ ۔ حضرت بابو شہید ؒ (آپ کی آرامگاہ حضرت بابو شہید کا احاطہ کہلاتی ہے (حضرت چند تن شہید پیر ؒ کی درگاہ (چندتن شہید پیر پہاڑی کے دامن میں ) اور حضرت بابو شہید کا احاطہ راقم مضمون ہذا کے نانیہالی خاندان کا موروثی قبرستان ہے۔ اس کا اکثر و بیشتر حصہ غاصبوں کے ناجائز قبضے میں ہے ان غاصبوں میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک ہیں۔) حضرت مولانا شاکر علی سہروردی ؒ ، حضرت فقیر صاحب ؒ داؤد نگری۔ حضرت مدارشاہ رخ۔ حضرت فقیر دہلوی ؒ ۔ حضرت سلیمان پیر ؒ (سلیمان گنج بھی میری نانیہالی وراثت میں شامل تھا) ۔ حضرت جرپتی شہید ؒ ۔ حضرت جہاں گیر بدلے ؒ ۔ حضرت سیفن شاہ ؒ ، حضرت جھولن شاہ ؒ (متوفی 1817 ) حضرت گل محمد شاہ پشاوری ؒ (متوفی 1913) حضرت پیر محمد شاہ پیشاوری ؒ وغیر ہم۔
اقتباسات ماقبل کی روشنی میں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا مشائخین نے اپنے پیش روؤں کی راہ پر چلتے ہوئے اہل سہسرام کی تعلیم وتربیت اوررشد و ہدایت کے لیے انھیں کی بولی اور زبان کو ذریعہ بنایا ہوگا اور ٹھیک اسی طرح جیسے ملک کے دیگر علاقوں میں اردو کا خمیر تیار ہوا اور اس کا تدریجی ارتقا ہوا، سہسرام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ 
متعاقب باب ’اردو شاعری اور سہسرام ‘ میں میں نے تدریجی ارتقا پر خصوصاً شاعری کے حوالے سے مثالیں فراہم کی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سہسرام میں بھی رفتہ رفتہ شعرو ادب کی فضا بندی عمل میں آئی۔
ایک اور اہم اور دلچسپ نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ ماہرین لسانیات اگر خالص سہسرام کی زبان کا مطالعہ کریں تو ان کے تجربات اور مشاہدات میں اور حقائق کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی واضح ہوگی کہ سہسرام میں رائج عوامی اردو زبان (یعنی خاص سہسرامیوں کی زبان) اطراف و جوانب کے مضافات و مقامات سے منفرد ہے۔ یہاں کی عوامی زبان کے الفاظ ، لب و لہجے ، طرز ادا اور انداز بیان کی انفرادیت کا اندازہ قدم قدم پر ہوگا۔ ممکن ہے کہ جس سچائی کو میں بیان کرنے جا رہا ہوں اسے جان کر لوگوں کو تعجب ہو مگر جب وہ خود سن لیں گے تو اس حقیقت کی تردید نہیں کر سکیں گے کہ سہسرام کی عوامی زبان (خاص کر باشندگان سہسرام کی زبان ) شہنشاہ تغزل میر تقی میر کی شاعری کی زبان ہے۔ میر کی زبان شاعری، اور آج بھی اہل سہسرام میں رائج خالص عوامی زبان سے اس کی مماثلت خواہ کسی بھی عوامل اور اثرات کے تحت ہو، ماہرین لسانیات کو دعوت فکرو تحقیق دیتی ہے۔
حواشی : 
.1 تاریخ سہسرام از ابو محمد مصلح،ص۔87،
.2 ایضاً، .3 ایضاً
.4 نسب نامہ سادات رجہت۔ مرتبہ : حضرت سید شاہ بدیع الدین حزیں، مملوکہ سید شاہ تقی الدین احمد سجادہ نشیں خانقاہ کبیریہ سہسرام۔
.5 تاریخ سہسرام، از: محمد مصلح، ص۔89
.6 سلطان شیر شاہ سوری احوال و آثار ۔ از: پروفیسر ڈاکٹر سید حسین آرزو،ص۔19
.7 ایضاً : ص۔122
.8 پنجاب میں اردو۔ از : اختر شیرانی، مقدمہ۔ص۔5
.9 بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا۔ از: پروفیسر اختر اورینوی۔ص۔117
.10 تاریخ سہسرام۔ از: ابو محمد مصلح سہسرامی،ص۔93 
.11 شمیم ہاشمی، .12 آثار شرف۔ از : مولوی ضمیر الدین ۔ص۔98
13۔تاریخ سہسرام۔ از : ابو محمد مصلح ،ص۔93
.14 نسب نامہ سادات رجہت از : حضرت سید شاہ بدیع الدین حزیں ؒ 
.15 ماہنامہ المجیب پھلواری شریف (پٹنہ )، ماہ جنوری،1963
.16 نسب نامہ سادات رجہت ۔ از : حضرت سید شاہ بدیع الدین حزیں ؒ 
.17 ایضاً، .18 شاہ کبیر درویش ؒ کے خاندانی کاغذات ، مسودات اور عدالت کے فیصلے مملوکہ سید شاہ تقی الدین احمد سجادہ نشین خانقاہ کبیریہ سہسرام ۔
.19 ایضاً، .20ایضاً
.21 تاریخ سہسرام ۔ از : ابو محمد مصلح سہسرامی ، ص۔87
.22 ایضاً، ص۔97،.23 ایضاً، ص۔92،.24 ایضاً، ص۔80،.25 ایضاً، ص۔95، .26 ایضاً، ص۔95

Shamim Hashmi
Afsana Cottage Near Masjid, Hashmia Colony, Hazaribagh-825301 (Jharkhand)

سہ ماہی فکر و تحقیق   شمارہ جنوری تا مارچ  2014





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ: