اردو
رباعی اور طنز و مزاح
مقبول
احمد مقبول
’رباعی‘چار مصرعوں پر مشتمل اس مختصر نظم کوکہتے ہیں جس کا پہلا ‘دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے اور جو اپنے مخصوص اوزان میں لکھی جاتی ہے جن کااستخراج بحرِہزج سے ہوتا ہے۔کسی بھی خیال کو ان چار مصرعوں میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ خیال مصرع بہ مصرع ارتقا پاتے ہوئے چوتھے مصرعے میں اپنی معنوی تکمیل کو پہنچتا ہے۔چوں کہ چوتھے مصرعے پرمعنویت کی تکمیل اور اثر انگیزی کا انحصار ہوتا ہے اس لیے ماہرینِ فنِ رباعی نے تاکید کی ہے کہ چوتھا مصرع نہایت زوردار ہونا چاہیے۔رباعی کی ان مخصوص فنی نزاکتوں اور بندشوں کے پیشِ نظر رباعی کو مشکل صنفِ سخن قرار دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شعرا کی بڑی تعداد رباعی گوئی کے میدان میں قدم رکھنے سے کتراتی ہے۔اس میدان میں انھیں شعرا کے قدم جمتے ہیں جنھیں رباعی گوئی سے خاص ذہنی مناسبت ہوتی ہے۔اس کے باوجودیہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو شاعری کے آغاز سے لے کر عصرِ حاضر تک ہر زمانے میں ایسے شعرا ضرور موجود رہے ہیں جنھوں نے اس فن کی آ بیاری کی ہے۔
ذوق‘ مومن‘انیس ‘ دبیر‘حالی ‘اکبر، محروم ‘رواں ‘یگانہ ‘جوش ‘ امجد‘عطا کلیانوی‘ جذب عالمپوری وغیرہ کچھ ایسے نام ہیں جنھیں رباعی گو شاعر کی حیثیت سے شہرتِ دوام اور مقبولیت حاصل ہوئی۔موجودہ دور میں بھی ایسے کئی شعرا ہیں جو رباعی گوئی کے حوالے سے اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں ۔رباعی کے لیے یوں تو کسی خاص مضمون یا موضوع کی قید نہیں تا ہم حکیمانہ ‘ عارفانہ‘ فلسفیانہ ‘ ناصحانہ‘ متصوفانہ ‘عشقیہ اور اخلاقی موضوعات و مضامین رباعی میں کثرت سے برتے گئے ہیں ۔خمریات بھی ہمیشہ ہی سے رباعی کا ایک مرغوب موضوع رہا ہے ۔
طنز ومزاح کے حوالے سے اگر اردورباعی کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عہدِ قلی قطب شاہ سے عصرِ حاضر تک تقریباً ہر دور کے ذخیرۂ رباعیات میں ایسی رباعیات وافر مقدار میں موجود ہیں جن میں طنز کا عنصر نمایاں ہے‘ لیکن مزاح کی حا مل رباعیات خال خال ہی نظر آتی ہیں ۔شاید رباعی کی سنجیدہ و متین فضا ‘مزاح کی متحمل نہیں ہو سکتی۔تقریباً ہر دور کے رباعی گو شاعرو ں نے اپنی رباعیوں میں طنز کی کاٹ سے بھر پور کام لیا ہے۔
زیرِ نطر مقالے میں قلی قطب شاہ(1580-1611) نے اپنی ایک رباعی میں زاہد کی ظاہر داری پر طنز کرتے ہوے اس کی ریا کاری پر وار کیا ہے ۔وہ زاہد کی ظاہرد اری سے رندو ں کی پختہ کاری کو بہتر سمجھتا ہے ۔کہتا ہے:
کب لگ اچھے لب پہ زہد ہور دل میں جام
اس پاپ سوں بھریاسوں زہد منج کا کام
مد کے مدے لیا و جو صفاتیں ہیں تمام
یک پختہ برابر نئیں ہے سو لک خام
ملا نصرتی (1656-1664)ایک رباعی میں یہ کہتا ہے کہ نادان کو نصیحت کرنا گویا کھارے پانی میں شکر گھولنے کے مماثل ہے۔پھرآگے طنزیہ طور پرکہتا ہے کہ گوہر کی قدر دھنگر(بکریاں چرانے والا) کیا جانے ۔ملاحظہ ہو رباعی:
ناداں سو نصیحت کے بچن بول نکو
پانی منے کھارے تو شکر گھول نکو
کیا قدر گہر کی جانے گا بد گو ہر
دھنگر کے انگے مانک کا گھر مول نکو
دھنگر کے انگے مانک کا گھر مول نکو جرأت (1749-1809) نے انگریزوں کی ہا ں میں ہاں ملانے والے ہندوستانی امرا پر اس طرح چوٹ کی ہے:
سمجھیں نہ امیر ان کو کوئی، نہ وزیر
انگریزوں کے ہاتھ ایک قفس میں ہیں اسیر
جو کچھ یہ پڑھائیں سو یہ منھ سے بولیں
بنگال کی مینا ہیں یہ پورب کے اسیر
میر انیس ( 1802-1874) نے اپنی تعریف آپ کرنے والوں کو تہی مغز قرا دیتے ہوے یوں طنز کا نشانہ بنایا ہے۔
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فرو تنی کو جا دیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
حالی (1837-1914) کی بیشتر رباعیات ناصحانہ،اخلاقی اور اصلاحی ہیں،تاہم ان کی بعض رباعیات میں طنز کا عنصر بھی نظر آتا ہے۔ظاہر دار اور ریا کار زاہدوں پر حالی نے اس طرح طنز کیا ہے:
زاہد کہتا تھا جان ہے دیں پر قرباں
پر جب آیا امتحان کی زد پر ایماں
کی عرض کسی نے ‘کہیے اب کیا ہے صلاح
فرمایا کہ بھائی جاں’جی ہے تو جہاں‘
ایک اور رباعی میں حالی نے واعظ کی درشتی اور بے مروتی کو آشکار کرتے ہوئے اس کے رویے پر طنز کا تیر چلایا ہے:
اک گبر نے پوچھے جو اصولِ اسلام
واعظ نے درشتی سے کیا اس سے کلام
بولا کہ حضور مقتدا ہوں جس کے
ایسی ملت ایسے مذہب کو سلام
حالی کی دور رس بصیرت نے ایک صدی قبل یہ پیش قیاسی کی تھی کہ انسان کی مادی ترقی کے ساتھ اس کے تمام عیب ہنر میں تبدیل ہو جائیں گے۔چنانچہ وہ طنز آمیز لہجے میں کہتے ہیں :
پوچھا جو انجام ترقیِ بشر
یاروں سے کہا پیرِِ مغاں نے ہنس کر
باقی نہ رہے گا کوئی انسان میں عیب
ہو جائیں گے سب چھل چھلا کے عیب ہنر
اردو شاعری میں طنز وظرافت کے حوالے سے اکبر الہ آبادی(1846-1921)کوامتیازی حیثیت حاصل ہے ۔اکبر اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا کام لینا چاہتے تھے ۔ان کی شاعری مقصدی اور افادی تھی۔اگر چہ حالی اور آزادکا غالب رجحان بھی قومی،اصلاحی اور مقصدی شاعری کی طرف تھا، لیکن ان دونوں بزرگوں اور اکبر کے نقطۂ نظر میں نمایاں فرق تھا ۔اکبر ساری عمر یورپ کی تہذیب وکلچر کو طنز وظرافت کا نشانہ بناتے رہے ۔انھیں مشرقی اقدار بے حد عزیز تھیں۔انھیں اس بات کا بے حد غم تھا کہ ہندوستانی قوم اپنی مشرقی تہذیب کو بھلا کر مغربی تہذیب کی طرف دیوانہ وار لپک رہی ہے۔چنانچہ انگریزوں کا طرزِ بود وبا ش اختیار کر لینے والے ہندوستانیوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے
بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی ہے صابون بھی ہے
لیکن یہ میں تجھ سے پوچھتا ہوں ہندی
یورپ کا تری رگوں میں کچھ خون بھی ہے؟
عیسائی قوم کی عیاریوں ،مکاریوں اور تیزیوں کا پردہ چاک کرتے ہوے اکبر نے ایک رباعی میں ہندوستانیوں سے کہا ہے کہ عیسائی اپنے مفاد کی خاطر خدا کے بھی تین ٹکڑے کر دیتے ہیں توتمھارے اندر پھوٹ اور نفاق پیدا کرنا ان کے لیے کونسا مشکل کام ہے۔ساتھ ہی عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث پر بھی لطیف طنز ہے۔ملاحظہ ہو :
یورپ والے جو چاہیں دل میں بھر دیں
جس کے سر جو چاہیں تہمت دھر دیں
بچتے رہو ان کی تیزیوں سے اکبر
تم کیا ہو، خدا کے تین ٹکڑے کر دیں
اس خیال کو کہ ساری خلقت حصولِ رزق کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہے ، ہرایک کی سوچ کا محور پیٹ ہے، اس سے آگے اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا ؛اکبرنے کس طنز وظرافت کے پیرائے میں بیان کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
خلقت اسی سمت صف بہ صف جاتی ہے
با عود ورباب وچنگ ودف جاتی ہے
ہے نورِ خدا بھی طالبِ رزق کا دوست
داڑھی بھی تو پیٹ کی طرف جاتی ہے
لالچ اور حرص و ہوس کی مذمت میں اکبر کی ایک مشہور رباعی ملاحظہ فرمائیں جس میں طنز کی کاٹ کے ساتھ مزاح کی پوٹ بھی شامل ہے:
تھے کیک کی فکر میں سو روٹی بھی گئی
چاہی تھی شے بڑی سو چھوٹی بھی گئی
واعظ کی نصیحتیں نہ مانیں آخر
پتلون کی تاک میں لنگوٹی بھی گئی
کم سواد و مفاد پرست اہلِ خرقہ ودستار نے پیری مریدی کو کس طرح تجارت میں تبدیل کر لیاہے اس پر اکبر کا طنز ملاحظہ فرمائیں:
تحریکِ ضرورتِ معیشت ہے بہت
خرقہ کو بھی اب خیالِ خلعت ہے بہت
خالق کے تو جمال کا سواد کم ہے
اللہ کے نام کی تجارت ہے بہت
اسی طرح ایک اور رباعی میں نیم پختہ اہلِ ارشاد اور شعرا پر طنز کا وار کیا ہے :
کامل کم ہیں اور اہلِ ارشاد بہت
ساحر کم ہیں ملیں گے صیاد بہت
ہے بزمِ سخن کا یہ حال اکبر
شاعر کم ہیں مگر ہیں استاد بہت
اکبر الہ آبادی خالص طنزوظرافت کے شاعر تھے۔چنانچہ ان کے ذخیرۂ کلام سے طنز وظرافت کی حامل بہت ساری رباعیات پیش کی جا سکتی ہیں لیکن بخوفِ طوالت نظر انداز کی جاتی ہیں ۔
احمد علی شوق اودھ پنچ کے مخصوص قلم کار تھے، طنزو ظرافت ان کا خاص میدان تھا۔ ان کی ایک رباعی یہاں نقل کی جاتی ہے جس میں مزاح کا رنگ غالب ہے:
چانڈو سے زمانے میں محبت ہے ہمیں
بمبو پہ دل آگیا ہے الفت ہے ہمیں
دم اپنا رہے یا نہ رہے بھاڑ میں جائے
دنیا میں مدک نام غنیمت ہے ہمیں
شاد عظیم آبادی(1846-1927)نے مفاد پرست ، ابن الوقت اور توتا چشم لوگوں پر زبر دست طنز کرتے ہوے انہیں پیٹ کے بندے اور ’’رکابی مذہب‘‘ کے پیرو کارکہا ہے :
بے دین ہیں اہلِ ہوس دہر غضب
ایمان سے حریصوں کو نہیں کچھ مطلب
جس کا کھائیں اسی کا گائیں اے شاد
سب پیٹ کے بندے ہیں رکابی مذ ہب
اقبال(1877-1938)کے مجموعۂ کلام بالِ جبریل میں ایسی 39چار مصرعی نظمیں ہیں جنھیں اقبال نے رباعیات کہا ہے۔لیکن ماہرین کو اعتراض ہے کہ یہ رباعیات نہیں ۔اس لیے کہ یہ چار مصرعی نظمیں رباعی کے مخصوص اوزان میں نہیں ہیں البتہ بانگِ درا میں شامل ظریفانہ کلام کے تحت جو پہلی نظم ہے وہ رباعی کے مخصوص وزن میں ہے جس میں عقیدۂ تثلیث کوطنز و ظرافت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :
مشرق میں اصولِ دین بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے واں
ایک کے تین تین بن جاتے ہیں
یاس یگانہ چنگیزی((1883-1956)کی درجِ ذیل رباعی ملاحظہ فرمائیں جس میں کاہل ،سست اور نکمے لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انسان میں زندگی کے مسائل و مصائب سے نبردآ زما ہونے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ وہ اپنے مخصوص لہجے میں کہتے ہیں:
دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو
یا جیتے جی مردوں سے ناتا جوڑو
کیوں ٹھوکریں کھانے کو پڑے ہو بے کار
بڑھنا ہے تو بڑھو نہیں تو رستہ چھوڑو
امجد حیدرآبادی(1886-1961) کو شہنشاہِ رباعیات کہا جاتا ہے۔ان کی رباعیات میں فلسفۂ الٰہیات،حکیمانہ نکتے اور عارفانہ افکارہوتے ہیں۔ظرافت اور مزاح سے امجد کو دور کابھی علاقہ نہیں، تاہم ان کے یہاں کہیں کہیں طنز کا عنصر نظر آتا ہے۔ایک رباعی میں کم ظرفوں پر طنز کرتے ہوے کہتے ہیں:
کم ظرف اگر دولت وزر پاتا ہے
مانندِ حباب ابھر کے اتراتا ہے
کرتے ہیں ذرا سی بات پہ فخر خسیس
تنکا تھوڑی سی ہوا سے اڑجاتا ہے
ہمارے اطراف ایسے کئی لوگ نظر آتے ہیں جو پڑھے لکھے ہونے کے باوجود جاہلِ مطلق ہی رہتے ہیں ۔ان کی فطری جہالت کسی طرح کم نہیں ہوتی ۔ایسے لوگوں پر امجد کا طنز ملاحظہ ہو:
ہم صحبتِ بے خرد پریشان رہا
نافہم کو سمجھا کے پشیمان رہا
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہ گئی
نادان کو الٹا بھی تو نادان رہا
مغرور و متکبر انسان کوامجد یوں طنز کا نشانہ بناتے ہیں :
انسان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں
نادان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں
لاحول ولا قوۃ الا باللہ
شیطان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں
حرام لقمہ کھانے والوں کی نہ نماز قبول ہوتی ہے نہ ان کی دعا ؤ ں میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں پر لطیف طنز کرتے ہوے امجد ؔ نے کہا ہے:
لے لے کے نامِ خدا چلاتے ہیں
پھر بھی اثرِ دعا نہیں پاتے ہیں
کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز
کرتے نہیں پرہیز دوا کھاتے ہیں
تلوک چند محروم(1885-1962)کا نام بھی رباعی گو شاعر وں8 میں اہمیت کا حامل ہے۔اکبر کی طرح محروم کو بھی مشرقی اقدار بے حد عزیز تھیں۔ بعض معاملات میں وہ اکبر کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں۔ آرٹ کے نام پر نسوانی حیا کی پامالی کرنے والوں پروہ یوں طنز کرتے ہیں :
لاہور میں لوگ آرٹ فرماتے ہیں
دوشیزہ کو رقصِ ناز سکھلاتے ہیں
یہ وہ آرٹ ہے کہ جس پر شرم وحیا
غیرت سے زمیں میں گڑ جاتے ہیں
اشیائے خورد ونوش میں ملاوٹ اور مصنوعی طریقے سے بنائی گئی خوردنی اشیا کے روز افزوں اضافے کے باعث محروم کے خیال میں موجودہ زندگی پوری طرح سے مصنوعی ہو گئی ہے۔اسی لیے وہ طنزیہ انداز میں کہتے ہیں ؛
آٹا مصنوعی اور گھی مصنوعی
مل جاتے ہیں دودھ اور دہی مصنوعی
مصنوعی ہیں زندگی کے سارے ساماں
کیوں کر نہ ہو اپنی زندگی مصنوعی
صفی اورنگ آبادی(1893-1954)غزل کے شاعر تھے انھوں نے کچھ رباعیات بھی کہی ہیں ۔ حاملین جہل مرکب پر صفی کے طنز کی کاٹ ملاحظہ فرمائیں :
استاد بنا جہلِ مرکب جن کا
کیا سمجھیں گے رنگ غالب و مومن کا
کیا پائیں گے میر ومرزا کے نکات
باوا آدم ہی جب نیا ہے ان کا
منشی محمد فخرالدین الفت (1889-1970)کا تعلق تامل ناڈوہی سے ہے۔ ان کی دو رباعیاں ملاحظہ فرمائیں جن میں طنز کی کاٹ آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
قوم اپنی ہے جاہل تو ہیں لیڈر لیزی
کیا خاک ترقی میں ہو پیدا تیزی
عہدہ بھی کوئی ہائے نہیں مل سکتا
معلوم ٹمل ہے نہ ہمیں انگریزی
151
بھٹیارے بنے یا کہ بنے تمبولی
اغیار نے دوکانِ تجارت کھولی
ہم ہیں کہ چلے بھیک طلب کرنے کو
دف ہاتھ میں ہے اور بغل میں جھولی
جذب عالم پوری (1894-1973)جنوبی ہند کے ممتاز رباعی گو شاعر گزرے ہیں ۔ انھوں نے ایک رباعی میں کہا ہے کہ لوگو ں میں عقل و علم کا اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن صداقت ختم ہوتی جارہی ہے:
افلاس سے عزت کا جنازہ اٹھا
تفریق سے وحدت کا جنازہ اٹھا
جب علم بڑھا لوگوں میں اور عقل بڑھی
دنیا سے صداقت کا جنازہ اٹھا
جوش ملسیانی(1883-1986)اربابِ حرص ہوس پر طنز کرتے ہوے کہتے ہیں :
درپے ہے قضائے ناگہانی دن رات
پھر بھی ہے تلاشِ کامرانی دن رات
اربابِ ہوس کی بھوک مٹتی ہی نہیں
کھاتے ہیں فریبِ زندگانی دن رات
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ پھسپھسی اور پست شاعری کے باوجود گلے باز شاعر اپنی گلے بازی کے بل پر مشاعروں پر چھا جاتے ہیں ایسے شاعروں کی شاعری پر سامعین زیادہ فریفتہ ہوتے ہیں۔سامعین کی ایک بڑی تعداداسی قسم کے شاعروں کو بڑا اور اچھا شاعر سمجھتی ہے۔سامعین کے اس رویے سے دل گرفتہ ہو کرجوش ملسیانی کہتے ہیں :
شاعر ہے وہی جس نے گلا پایا ہے
یا شعر گلے باز سے پڑھوایا ہے
اے جوش زمانہ شعر کہنے کا نہیں
اب شعر الاپنے کا دور آیا ہے
جوش ملسیانی کی ایک رباعی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں بھی فیشن پرست مرد وخواتین راہِ اعتدال سے ہٹ گئے تھے ۔ان کا حلیہ ،لباس اور وضع قطع ایسا ہو چکا تھا جس سے مردو زن میں تفریق کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا ۔آج تو فیشن پرستی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ توبہ ہی بھلی ۔جوش ملسیانی اگر آج کی صورتِ حال دیکھتے تو معلوم نہیں ان کا کیا ردِ عمل ہوتا۔ بہر حال اس موضوع پر جوش ملسیانی کا طنزیہ ردِ عمل ملاحظہ فرمائیں :
اپنائے ہیں عورتوں نے مردوں کے نشاں
مردوں پہ بھی عورتوں کا ہوتا ہے گماں
آیا کس کو کہیں گے آئی کس کو
کچھ اس کا جواب دیں مجھے اہلِ زباں
جوش ملیح آبادی(1898-1982) نظم کے بڑے شاعر گزرے ہیں ۔ رباعی گو شاعر کی حیثیت سے بھی اردو شاعری کی تاریخ میں ان کا نام نمایاں ہے۔
جوش کی بیشتر رباعیات میں طنز کی گہری کاٹ نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں شوخی وظرافت کے عناصر بھی دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ کی خشک زندگی پر چوٹ کرتے ہوے کہتے ہیں :
کیا شیخ کی خشک زندگانی گزری
بے چارے کی اک شب نہ سہانی گزری
دوزخ کے تخیل میں بڑھاپابیتا
جنت کی دعاؤں میں جوانی گزری
رنگِ ظرافت کی حامل یہ رباعی بھی خوب ہے:
مرضی ہو تو سولی پہ چڑھانا یا رب
سو بار جہنم میں جلانا یا رب
معشوق کہیں آپ ہمارے ہیں بزرگ
ناچیز کو یہ دن نہ دکھانا یا رب
شوخی و ظرافت کی حامل یہ رباعی بھی دیکھیے جس سے جوش کے مخصوص مزاج کی عکاسی ہوتی ہے:
ہر رنگ میں ابلیس دغا دیتا ہے
انساں کو بہر طور سزا دیتا ہے
کر سکتے نہیں گنہ جو احمق ان کو
بے روح نمازوں میں لگا دیتا ہے
ایک اور رباعی میں انسانی فطرت کو شوخ لہجے میں یوں اجاگر کیا ہے:
خود کو گم کردۂ راہ کر کے چھوڑا
حوا کو بھی تباہ کر کے چھوڑا
کیا کیا نہ کیے خدا نے جنت میں جتن
آدم نے مگر گناہ کر کے چھوڑا
آنند نرائن ملا( 1901-1997 )قومی یکجہتیکے علمبردار،گنگا جمنی تہذیب کی علامت اور خوش فکر شاعر گزرے ہیں ۔انھوں نے ایسے لوگوں پرطنز کیا ہے جو صرف اپنی زباں، ا پنی تہذیب اور اپنی ہی قوم کا راگ الاپتے ہیں:
دل جیسے کچھ اور کہیں کہتے ہی نہیں
دھارے دنیا میں اور بہتے ہی نہیں
بس اپنی زبان وقوم و تہذیب کا راگ
انسان کہیں اور جیسے رہتے ہی نہیں
برج لال جگی رعنا نے خود غرض اور مفاد پرست شیخ وبرہمن پر یوں وار کیا ہے:
یہ لوگ جو ہیں دیرو حرم کے بندے
اللہ کے بندے نہ صنم کے بندے
خود دیر وحرم کو نہ بیچ ڈالیں کہیں
حرص ہوس ودام ودِرم کے بندے
عطا کلیانوی(1905-1985)علاقۂ دکن کے ممتاز رباعی گوشاعر گزرے ہیں ۔’وجود شہود‘ ان کی رباعیات کا مجموعہ ہے۔عرفانیات اور الٰہیات عطا کا خاص موضوع رہا ہے ۔تاہم کسی کسی رباعی میں طنزیہ رنگ بھی نظر آتا ہے۔شیخ وبرہمن کی گمراہی پر چوٹ کرتے ہوے کہتے ہیں :
انساں کے دل ودیدہ ہیں دشمن دونوں
ہیں باعثِ فتنہ یہ زر و زن دونوں
کیا راستہ دکھلائیں گے یہ اوروں کو
گمراہ ہیں خود شیخ وبرہمن دونوں
قتیل شفائی(1919-2001)نے بد فطرت لوگوں پر یو ں کاری ضرب لگائی ہے:
آسودہ تہہِ خاک نہیں ہو سکتا
روشن سرِ افلاک نہیں ہو سکتا
زم زم میں نہائے کہ وہ گنگا جل میں
ناپاک بد ن پاک نہیں ہو سکتا
کالی داس گپتا رضا (1925-2001) نہ صرف ممتاز محقق اور ماہرِ غالبیات تھے بلکہ اچھے شاعر بھی تھے۔رباعی گو شاعر کی حیثیت سے بھی وہ جانے جاتے ہیں
’ شعاعِ جاوید‘ ان کی رباعیات کا مجموعہ ہے۔رضا کی بعض رباعیات میں طنزیہ رنگ نظر آتا ہے۔تک بند شاعروں پر طنز کرتے ہوے وہ کہتے ہیں :
مخمل میں کئی ٹاٹ کے پیوند ملے
محفل میں بہت تھوڑے ہنر مند ملے
چالیس میں بس پانچ ہی شاعر ہوں گے
باقی جو تھے پینتیس وہ’تک بند‘ ملے
رباعی کے اوزان سے نا واقف رہنے کے باوجود اپنے تئیں رباعی گو شاعر کہلانے والے شعرا پر رضا نے یوں طنز کیا ہے:
اوزانِ غلط سے اپنا دامن بھر لو
بے راہ روی کا بوجھ سر پر دھرلو
قطعوں کو رباعیات کہنے والو
ارمان سخن وری کا پورا کرلو
اناڑی ’استادانِ سخن‘اور ان کے جاہل’ شاگردوں‘سے’ ایونِ شعرو ادب‘ میں جو ’رونق اورگہما گہمی‘ ہے اس پر رضا کا لطیف طنز ملاحظہ فرمائیں :
وہ کل کی ادب گاہ وہ کوئے آزاد
اب بنگلے کوٹھیاں ہیں ان سے آباد
شاگرد سمیٹا کریں ریزہ ریزہ
پھیلاتے رہیں جہل اناڑی استاد
کنجوس جب مائلِ سخاوت ہو تو حیرانی ضرور ہوگی۔رضا کو تو اس میں کچھ دال میں کالا دکھائی دیتا ہے۔اس بات کو رضا نے ظریفانہ رنگ میں اس طرح پیش کیا ہے :
خیرات سے بے گانہ کرم سے بالا
بے وجہ نہیں کوڑی بھی دینے والا
کنجوس جو مائل بہ سخاوت ہو کبھی
سمجھو کہ ہے کچھ دال میں کالا کالا
فضاابنِ فیضی(1923-2009)کا نام بھی رباعی گو شاعر کی حیثیت سے جانا ماناہے۔انھوں نے کمالِ ہوشیاری سے سرقہ کرنے والوں کی یوں چٹکی لی ہے:
سرقے کو توارد میں چھپا کر خوش ہیں
چربے کو مماثلت بتا کر خوش ہیں
شاید یوں ہی ظرف میں کچھ وسعت آئے
دریا کو سمندر میں گرا کر خوش ہیں
ناوک حمزہ پوری (پ1923-)عصرِ حاضر کے کہنہ مشق اور بزرگ استاذِ سخن ہیں ۔رباعی گوئی میں بھی ان کا پایہ مسلم ہے بلکہ ان کا شمار عصرِ حاضر کے مستند رباعی گو شعرا میں ہوتا ہے۔ طنزو مزاح کی حامل موصوف کی دو رباعیات ملاحظہ فرمائیں :
پوچھا جو اک روز میاں جمن سے
سہمے ہوے کیوں رہتے ہوگھر میں زن سے
بولے، کہ مری بساط کیا ہے بھائی
ڈرتی ہیں حکومتیں بھی ویرپن سے
151
کرتا ہے گھٹالوں پہ گھٹالا لالو
کھاتا ہے مویشیوں کا چارہ لالو
یہ سب ہے مخالفوں کی کوری بکواس
جمن کا ہنوز ہے مسیحا لالو
شباب للت(پ1933-)کا شمار عصرِ حاضر کے بزرگ شاعروں میں ہوتا ہے ۔وہ شملہ کے رہنے والے ہیں ۔موجودہ دور کے لیڈروں اور جمہوری طرزِ حکومت پر وار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
اخلاص ووفا شفقت والطاف کہاں
اس دور کے لیڈر میں یہ اوصاف کہاں
اس دور میں انصاف کو آواز نہ دو
جمہور کے اس دور میں انصاف کہاں
شاہ حسین نہری(پ۔1941)اورنگ آباد دکن کے متوطن کہنہ مشق اور استاد شاعر ہیں۔رباعی گوئی بھی ان کا خاس میدان ہے۔’ربیعہ‘ اور’’شاہ بانی‘۔
شاہ صاحب کی رباعیات کے دواوین ہیں۔موصوف نے’گے کلچر‘ ہم جنس پرستوں کے حامی اور اسی طرح کی اباحیت پسند طرزِ فکر کے حاملین پر طنز کرتے ہوے کہا ہے کہ فطرت سے بغاوت اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرلینے کے مماثل ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
گے کلچر ،لسبنزم اب ہے تہذیب
شخصی آزادی کی عجب یہ تصویب
احسن تھابشر ، ہے سوئے اسفل اب
فطرت سے بغاوت ہو تو ہے تعذیب
زبان و بیان پر کما حقہٗ دسترس حاصل نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اردو زبان کے استاد، ماہر‘ ادیب اورشاعرکہلانے والوں پر شاہ صاحب نے یوں چوٹ کی ہے :
بھالا ہے ’الف‘ ’بے ‘کنڈل بالا ہے
نالے پر کا نالا، پر نالا ہے
اس پر بھی زباں ان کے گھر کی لونڈی
حافظ اب اردو کا خدا مولیٰ ہے
بازغ بہاری(1942-2010)اصلاً بہار کے تھے لیکن ان کی ساری عمر کولکتے میں گزری ۔ طنز ومزاح کے حوالے سے بازغ بہاری کا نام اہم شعرا میں شمار ہوتا ہے ۔موصوف کو رباعی گوئی سے بھی شغف تھا۔ان کی ایک مزاحیہ رباعی ملاحظہ فرمائیں:
اس پار سے اس پار کرا دے اللہ
قدرت کا چمتکار دکھادے اللہ
ہیں جو مرے شہکار کے دشمن ان کو
انگور سے کشمش تو بنا دے اللہ
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ملک کی ایک ستر سالہ ضعیفہ نے اپنے پوتے سے عشق کر کے شادی کرلی تھی۔اس خبر سے متاثر ہو کر بازغ بہاری نے یہ طنزیہ رباعی کہی ہے:
یہ جوش وجنوں عشق کا ما شاء اللہ
دلہن ہے اگر دادی تو پوتا نوشاہ
تہذیب وتمدن نے نئی کروٹ لی
لاحول ولا قوۃالا باللہ
بازغ بہاری کی ایک اور مزاحیہ رباعی حاضرِ خدمت ہے:
سرسوں کو ہتھیلی پہ جما سکتے ہیں
صحرا کو بھی گلزار بنا سکتے ہیں
ہم شاعرِ اعظم ہیں یہ سن لو بیگم
اک شعر سے چولھے کو جلا سکتے ہیں
1980 کے بعد منظرِ عام پر آنے والے نئی نسل کے شعرا میں بھی خاصی تعداد ایسے شاعروں کی ہے جنھیں رباعی گوئی سے خاص رغبت ہے۔آئے دن رسائل وجرائد میں ان کی رباعیاں شائع ہو رہی ہیں، جو خوش آئیند بات ہے۔نئی نسل کے ان شعرا کے ذکر کے بغیر یہ مقالہ نامکمل سمجھا جائے گا۔اس نسل کے شعرا کی رباعیات میں بھی کہیں کہیں طنز کاعنصر شامل ہے۔اس نسل کے شاعرو ں کی چند رباعیات پیشِ خدمت ہیں ۔
ارم انصاری (پ1954-)کا تعلق کولکتا سے ہے ۔شاعری میں سرقے کی روایت اگر چہ ہر زمانے میں رہی ہے۔لیکن فی زمانہ یہ وبا بری طرح عام ہو رہی ہے متشاعروں کا سارا کاروبارِ شاعری اسی کے سہارے چل رہا ہے۔ایسے ہی سارقوں کا پردہ چاک کرتے ہوے ارم انصاری کہتے ہیں :
دیوان کسی کا جو چرایا میں نے
مقطعے سے تخلص کو مٹایا میں نے
تب جا کے کہیں بزمِ سخن میں صاحب
رنگ اپنا بہر طور جمایا میں نے
مہتاب پیکر اعظمی( پ1957-) مغربی بنگال کے رہنے والے تھے ۔ان کی ایک طنزیہ رباعی ملاحظہ فرمائیں جس میں انھوں نے ابن الوقتی اور سیاسی جوڑ توڑکے ذریعے فوائد حاصل کرنے کے گر بتائے ہیں ۔اس میں جو طنز پوشیدہ ہے وہ اہلِ نظر بخوبی سمجھ سکتے ہیں :
چلنا ہے تو گر گر کے سنبھلنا سیکھو
حالات کے سانچے میں ڈھلنا سیکھو
کرسی ہو اگر تم کو سیاست کی عزیز
گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا سیکھو
راقم الحروف(پ1965-) کا تعلق ضلع بیدر کرناٹک سے ہے ۱ودگیر( مہاراشٹرا) ان کا وطنِ ثانی ہے جہاں وہ کالج کی سطح پر درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔غزل کے بعد رباعی خاص میدان ہے۔ بعض رباعیات طنزیہ پہلو رکھتی ہیں ۔ شیخ و برہمن کی منافقت،مفاد پرستی اورخود غرضی پرمیں نے کچھ اس طرح اشعار کہے ہیں :
وہ رام فروش تویہ رحمان فروش
وہ وید فروش یہ قرآ ن فروش
ہر دور کی تاریخ بتاتی ہے ہمیں
ہوتے ہیں ہراک قوم میں ایمان فروش
اسی طرح یورپی کلچر اور لباس کے بارے میں یہ طنز ملاحظہ ہو:
منطق پہ ہنسی آرہی ہے یورپ کی
ہونے بھی لگا ہے ہمیں افسوس کبھی
پھرنے کی برہنہ تو اجازت ہے وہاں
ملبوسِ حیا پر ہے مگر پابندی
طنزو مزاح کے حوالے سے اردورباعی کے اس عہد بہ عہد مختصر جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر دور کے ذخیرۂ رباعیات میں ایسی رباعیات ضرور ہیں جن میں طنز کا عنصر تو شامل ہے لیکن مزاحیہ رنگ کی رباعیات بہت کم ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسی رباعیات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ شاید رباعی کا مزاج ظرافت اور مزاح کا متحمل نہیں ۔ویسے بھی اردو شاعری میں اعلیٰ درجے کے ظرافت ومزاح نگار ہیں بھی کتنے؟اور ان میں بھی سوائے اکبر الہ آبادی کے رباعی نگار شاعر کون ہے؟
Assistant Professor, Department of Urdu
Maharashtra Udayagiri College
Udgir-413517, Distt. Latur (M.S.)
سہ ماہی فکر و تحقیق شمارہ جنوری تا مارچ 2014
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں