7/3/19

کلیاتِ سودا اور دیوان بیان میں شامل مشترک کلام کے انتساب کا قضیہ مضمون نگار: فردوس جہاں


 کلیاتِ سودا اور دیوان بیان میں 

شامل مشترک کلام کے انتساب کا قضیہ 
فردوس جہاں
میرزا محمد رفیع سودا اٹھارہویں صدی کے چند بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں، یہ صدی ’عہدمیرو سودا‘ اور ’اردو شاعری کا عہد زریں‘ دو ناموں سے موسوم ہے۔ اس عہد کی تمام تر شہرت ومقبولیت کا انحصار بھی سودا، میر اور درد کی ادبی فتوحات پر ہی ہے۔ سودا ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جو اپنی زندگی میں ہی ادب کے مقام ارفع پر پہنچ گئے تھے۔ آج صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کے متعدد کتب خانوں میں کلام سودا کے لا تعداد مطبوعہ وغیر مطبوعہ نسخے ملتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ متقدمین اردو شعرا میں جتنی شہرت سودا کو ملی وہ کسی اور معاصر کے حصے میں نہیں آئی۔ وہ قیاساً 1125ھ میں بہ مقام دلی پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال 8 رجب 1195ھ، 27جون 1781 کو لکھنؤ میں ہوا۔
سودا بلاشبہ اپنے عہد کے ایک بلند پایہ شاعر ہیں۔ انھوں نے تقریباً تمام مروجہ اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی ہے اور ہر صنف میں اپنی قدرت کمال کا جوہر دکھایا ہے۔ وہ وسیع العلم اور بے پناہ تخیل کے مالک تھے۔ نادر تشبیہات اور طرفہ تراکیب کے استعمال پر کامل دست رس رکھتے تھے۔ اُن کی تخلیقات کے مطالعہ کے دوران معلوم ہوتا ہے جیسے ترکیبیں اور تشبیہیں ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں، جدھر قلم چلاتے ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا، ان کی مدح کا زور اور ہجو کا شور چہار سو گونجنے لگتا تھا۔ سودا کے قصیدے اگر شاندار ہیں تو ان کی دوسری اصناف بھی قطعی کم مرتبہ نہیں۔ اُن کے یہاں جذبات کی وہ صداقت، معصومیت، خلوص اور درد مندی نہیں ہے جو میر کے لب ولہجے میں شیرینی پیدا کرتی ہے۔ سودا کے یہاں پرُشور آہنگ ہے ۔ میر کی شاعری اس سے یکسر خالی ہے۔ سودا اردو قصیدہ نگاری کے امام ہیں، ہجویات میں کوئی ان کا ثانی نہیں، تذکرہ نگاروں اور تاریخِ ادبِ اردوکے مصنفین نے انھیں عرفی، خاقانی اور انوری کے پہلو بہ پہلو بتایا ہے ، اس کی صداقت ظاہر ہے۔ لیکن ان کی غزلیں بھی کسی طور اعلیٰ ادبی معیار سے ساقط نہیں کہی جاسکتیں۔ 
سودا کے قصیدوں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ اُن کے مرثیے، مثنویاں، رباعیاں، مخمسات، مسدسات اور قطعے بھی ادبی معیار ومیزان پر کھرے اترتے ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے الگ الگ ہیئتوں میں کئی کامیاب شہر آشوب تخلیق کیے ہیں، نیز ان کا ایک عدد واسوخت بھی زبان وبیان کا عمدہ نمونہ ہے اور ان کے کلیات میں موجود ہے۔ 
لیکن افسوس کہ قدیم شعرا کے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ کہ ان کا کلام مطبوعہ ہو یا غیرمطبوعہ، الحاقی کلام سے یکسر پاک نہیں کہا جاسکتا ہے۔ میر ہوں یا اس عہد کے دوسرے شعرا تقریباً تمام کے کلام میں تحریفات والحاقات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ قدیم ادب بالخصوص شاعری کے ساتھ یہ خاص مسئلہ ہے کہ قاری سے جہاں کہیں پڑھا نہیں گیا اسے گڑھ لیا گیا اور یوں متن کچھ کا کچھ ہوگیا۔ ان نقطوں اور لفظوں کے ہیر پھیر سے تحریف وتصحیف کا سُقم تو ہوتا ہی ہے ، کلام کے معانی ومفاہیم بدلتے ہیں وہ الگ۔ قدیم شعری متون کی تدوین میں مدوِّن کو جن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ان میں الحاقات وتصرفات کے مسائل سب سے زیادہ اہم اور پیچیدہ ہیں۔ سودا کے یہاں جتنی بڑی تعداد میں دوسروں کا کلام شامل ہے اور اصل متن میں جس کثرت سے تصرفات اور تحریفیں واقع ہوئی ہیں اس کی مثال اردو زبان وادب کی تاریخ میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
گارساں دتاسی فرانسیسی عالم تھا۔ اسے اردو زبان وادب سے بے انتہا موانست تھی۔ وہ اس زبان کا اس قدر دلدادہ تھا کہ فرانس میں رہ کے بھی اِس زبان کی رفتار وترقی سے باخبر رہتا تھا۔ اپنے دوستوں اور انگریز حاکموں کے توسط سے اس زبان کے بارے میں مختلف اقسام کی چھوٹی بڑی معلومات حاصل کرتا اور سال کے آخر میں اپنی یونیورسٹی میں اس موضوع پر لکچر دیتا۔ کلام سودا کی اشاعت کے بارے میں اپنی فراہم کردہ معلومات کی اطلاع اس نے ان الفاظ میں دی ہے ، اس کا بیان ہے:
’’1803میں اعلان ہوا تھا کہ کلکتہ میں کلیات سودا تین جلدوں میں زیر طبع تھا۔‘‘
غالباً دتاسی کے اس بیان کی بنیاد پر شیخ چاند نے اپنی کتاب’ سودا‘ میں لکھا ہے کہ:
’’سوداکا کلیات سب سے پہلے اس کی وفات 1781کے بائیس سال بعد 1803میں کلکتہ میں طبع ہوا۔ ‘‘
دتاسی کے محوّلہ بالا بیان کی روشنی میں قاضی عبدالودود نے سال انطباعِ کلیات سودا کے بارے میں ذیل کی رائے قائم کی۔
’’میر کا کلیات وفاتِ میر کے انتقال (1810) کے کچھ ہی دنوں بعد کلکتہ (فورٹ ولیم کالج) سے چھپ کر شائع ہوا تھا۔ اہل کلکتہ (فورٹ ولیم کالج کے ارباب حل وعقد) کو کلیات سودا کی اشاعت کا خیال آیا ہو تو تعجب کی بات نہیں‘‘۔
مذکورہ بالا دتاسی کی اطلاع اور اس کی بنیاد پر شیخ چاند کے قائم کردہ مفروضے کے علاوہ قاضی عبدالودود مرحوم کی قیاسی تائید کو میر شیرعلی افسوس کی ایک تحریر سے بھی بہ ظاہر تقویت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنی تصنیف ’آرائشِ محفل‘ کے آغاز میں عرضِ مؤلف کے ذیل میں لکھا ہے۔
’’بے کار رہنا اس ناکارے کا جو شعار نہیں، بنابر اس کے، چند اوقات سرمنشۂ شعرا (شیر بیشۂ شعرا) میرزا رفیع سودا کے کلیات کی صحت میں کاٹے۔ ازبس کہ وہ کاتبوں کے قلمِ جہل سے اغلط ہوگیا تھا۔ جیسا چاہیے ویسا صحیح نہ ہوسکا اور نسخہ بھی دوسرا کہ مرتبہ صحیح ہو بہم نہ پہنچا سبب اس کے کہیں کہیں غلط رہ گیا‘‘۔
لیکن منقولہ بالا بیانات اور قاضی عبدالودود مرحوم کی قیاسی تائید کے باوجود اب تک 1803میں شائع شدہ کلیاتِ سودا کے کسی نسخے کی موجودگی کا علم نہیں۔ موجودہ حاصل شدہ معلومات کے مطابق سودا کے کلیات کا چھپا ہوا نسخہ’مطبوعہ مطبعِ مصطفائی‘ کلام سودا کا وہ ایڈیشن ہے جو 1856میں طبع ہوکر پہلی بار منظر عام پر آیا۔ بدقسمتی سے اربابِ مطبع کے تمام تر حزم واحتیاط کے باوجود اس میں متعدد تحریفیں در آئیں اور معاصرین اور ان کے شاگردوں کا کلام بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔ پیش نظر جائزے میں اختصار ملحوظ رکھتے ہوئے بیان کی دو مثنویوں اور اتنی ہی رباعیوں پر گفتگو کی جائے گی جو کلیات سودا اور دیوانِ بیان دونوں میں مشترک ہیں۔
شیخ چاند نے اپنے تحقیقی مقالے ’سودا‘ (مطبوعہ 1936) میں پہلی مرتبہ ان کی تصانیف اور کلام پر تفصیلی بحث کی اور قائم کی سات مثنویاں، شیدا اور ممتاز کی ایک ایک مثنوی، بندر ابن راقم کا ایک ہجو یہ قصیدہ نیز مہربان یا مہربان خاں تخلص کے ساتھ موجود مرثیوں کو ان کے یہاں الحاق قرار دیا ہے۔
جس عہد میں سودا تھے اسی عہد کے ایک قابل ذکر شاعر ’احسن اللہ خان‘ متخلص ’بیان‘ ہیں۔ ان کے نام کے بارے میں تذکرہ نگاروں اور تاریخ ادب اردو کے مورخین کی آرا مختلف ہیں۔
’گلشن ہند‘ (1801) کے مصنف مرزا علی لطف نے بیان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’بیان تخلص، احسن اللہ خاں نام شاگردوں میں سے مرزا مظہر جان جاناں کے تھے، سکونت دلّی میں اختیار کی لیکن متوطن اکبرآباد کا تھا شاگردوں میں سے مرزاے مذکور کے، عاشق مزاج اور شیریں زبان تھا ریختہ میں صاحب دیوان تھا‘‘۔
عمدۂ منتخبہ (تذکرہ سرور) مصنفہ نواب اعظم الدولہ میر محمد خاں بہادر سرور میں بیان کا نام ’خواجہ احسن الدین‘ مرقوم ہے اس میں ان کا اصل وطن کشمیر اور مقام پیدائش شاہجہان آباد بتایا گیا ہے۔
’گلشن ہند‘جو حیدر بخش حیدری کا تذکرہ ہے اس میں حیدری نے صفحہ 44 پر بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’بیان تخلص‘ نام احسن اللہ خان‘ شاگرد مظہر جان جاناں، اکبرآباد میں رہتے تھے‘‘۔
تذکرہ ’مجموعۂ نغز‘ از قدرت اللہ قاسم مرتبہ محمود شیرانی میں ان کا نام ’احسن اللہ خان‘ لکھا ہے۔
تذکرہ ’گلزار ابراہیم‘ از علی ابراہیم خاں خلیل مرتبہ کلیم الدین احمد میں ان کا نام احسن اللہ خاں اور وطن اکبر آباد اور مولد شاہجہان آباد بتایا گیا ہے۔
’تذکرہ ہندی‘ غلام ہمدانی مصحفی میں بیان کا ذکر خواجہ احسن الدین خاں اور بیان تخلص کے ساتھ ہوا ہے۔
بیان کے بارے میں تمام تذکرہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ مرزا مظہر جان جاناں کے وہ شاگرد تھے اور تقریباً تمام نے انھیں ایک خوش گو اور خوش بیان شاعر تسلیم کیا ہے۔
بیان کا اصلی نام احسن اللہ خان اور تخلص بیان تھا۔ ان کا اصل وطن کشمیر اور مولد ومسکن شاہجہاں آباد تھا لیکن آخر وقت میں دکن چلے گئے اور حیدرآباد میں 1213ھ میں ان کا انتقال ہوا وہ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکیزہ مزاج، ظریف الطبع، کثیرالاحباب بھی تھے۔ شاعری کے فنون پر انھیں عبور حاصل تھا۔ بیان کے کلام میں سادگی ہے اور سادگی میں بھی عجب سی لذت وکشش ہے انھوں نے اپنے کلام میں جن محاورات کا استعمال کیا ہے ان کی بندش چست اور بے ساختہ ہے۔
جس طرح سودا کے کلام میں بعض شعرا مثلاً قائم، مجذوب، شیدا، یقین، میر، میرحسن، ممتاز وغیرہ کا کلام شامل ہوگیا ہے اسی طرح بیان کا کچھ کلام بھی سودا سے منسوب ہوگیا ہے ان کی دومثنویاں۔
(1) چپک نامہ (2) مثنوی در تعریف چاہِ مومن خاں
اور دو رباعیاں سودا سے منسوب ہوگئی ہیں۔ بیان کے معاصرین تذکرہ نگاروں نے اپنے تذکروں میں مذکورہ بالا دونوں مثنویوں اور رباعیوں کو بیان کے نام سے منسوب کیا ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے:
در ہجو چپخ مرزا فیضو (64 شعر)
قدرت اللہ قاسم کے تذکرہ مجموعۂ نغز میں مرقوم ہے:
’’در مثنوی خود مسمٰی بہ چنگ نامہ داد شاعری دادہ‘‘
چنگ نامہ دراصل کتابت کی غلطی ہے اصلاً یہ ’چپک نامہ‘ ہی ہے۔ میر حسن جواحسن اللہ خاں بیان کے معاصر ہیں ان کا بھی اس کے بارے میں یہی خیال ہے وہ لکھتے ہیں:
’’چپخ نامہ از ومشہور ست‘‘
اس کے علاوہ یہ دونوں مثنویاں بیان کے معتبر قلمی نسخوں میں موجود ہیں نیز ڈاکٹر ارجمند آرا نے اپنے مرتبہ دیوان بیان میں اسے جگہ دی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ مثنوی اصلاً بیان کی ہی ہے غلطی سے سودا سے منسوب ہوگئی ہے۔ کلیات سودا میں اس مثنوی کا نام ’مثنوی ہجو چپک مرزا فیضو‘ ہے اور دیوان بیان میں یہ ’چپک نامہ‘ کے نام سے ملتی ہے۔ دونوں شعرا کے کلیات میں یہ مثنوی ایک ہی شعر سے شروع ہوتی ہے (آہ واویلا از دست روزگار) لیکن دونوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ دیوان بیان میں یہ مثنوی 66 اشعار پر مشتمل ہے جب کہ کلیات سودا میں صرف 64 شعر ہی ہیں۔ بیان کے یہاں کچھ اشعار ایسے ہیں جو کلیات سودا میں درج نہیں ہیں اور دیوان بیان میں موجود ہیں۔ یہاں چند ایسے شعر نقل کیے جاتے ہیں جو کلیات سودا میں نہیں ہیں لیکن بیان کے یہاں موجود ہیں:
جس طرح عشاق کی آہِ سحر
دل میں معشوقوں کے ہووے کارگر
پر غلط یہ تو کہا میں نے یہاں
آہِ عاشق میں اثر اتنا کہاں
کیا کہوں ایسی غرض اڑتی تھی قہر
پڑگئی تھی دھوم اس کی شہر شہر
اس کے برخلاف اس مثنوی میں ایسے شعر بھی ہیں جو سودا کے یہاں موجود ہیں لیکن بیان کے مطبوعہ وغیرمطبوعہ نسخے اس کے اندراج سے خالی ہیں وہ یہ ہیں:
(1)
دیکھ تو سارو کو کیا خورسند ہے
ڈھڈھو کو اس سے خوشی دہ چند ہے
(2)
ہائے ایسا غم نہیں اب تک ہوا
میرزا جی کا ولی نعمت موا
(3)
پودنے سے سنتے ہی اس بات کے
اُڑ گئے مینا کے طوطے ہات کے
کلیات سودا اور دیوان بیان میں منقول مثنوی ’چپک نامہ‘ میں متنی اختلافات موجود ہیں جنھیں کُلّی طور پر کاتب کی غلطیِ کتابت پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ چند مثالیں بہ طورِ نمونہ سطورِ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

متن کلیات سودا (نسخۂ مصطفائی)
متن دیوان بیان (نسخۂ ارجمند آرا)
(1)
آہ واویلا زدست روزگار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قوش خانوں پر یہ غم ہے روبکار
قوش خاتوں میں ہے یہ غم روبکار
(2)
سر سے ہر اک باز نے پٹکی کلاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رخت ہر شاہین نے پہنا سیاہ
رخت ہر شاہیں نے ہے پہنا سیاہ
(3)
دیکھ کر دیکھتے ہیں اب ٹڈوں کے خیل
دیکھ کر دبتے ہیں یوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیترے کے ساتھ اب کانٹے ہیں ویل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاٹھے ہیں ویل 
(4)
پشہ کے آگے ترمتی ہے ضعیف
پشے کے آگے ترمتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھُنگی کی نظروں میں دھوبی ہے خفیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھونی ہے خفیف
(5) 
آہ کچھ مت پوچھو اب اس کا سبب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا کہوں یاروں میں تم سے ہے غضب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے ہے غضب
(6) 
ہاے کیا تیتر کے گھر شادی ہے
ہاے کیا تلیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پینک و غوغائی کے گھر آیا ہے راج
پنیکِ غوغائی کے ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(7) 
کبک کیا کیا مارتی ہے قہقہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارتے ہیں قہقہے

کیسے ڈھبر کر رہے ہیں چہچہے
کیسے دھیّر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(8)
کیا کبوتر کیا ٹیڑی کیا بزے
کیا کبوتر، کیا ٹٹہری، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قمری اور تیتر لوے اور ابلقے
ٹونڑو، تیتر، لوے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(9)
بگلے اس کے خوف سے کرتے نہ تھے
بغلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر کو پنکھواں کے تلے دھرتے نہ تھے
سر کو پنکھوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(10)
قاز تک چگتے نہ تھے جنگل کے کھیت
قازچگ سکتے نہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرقرے چگتے کبھو لیکن سوچیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سُچیت
(12)
جانور آبی کی جب پڑتے خیال
جانور آبی کی جب پڑتی خیال

کھینچ ڈالی تھی حواصل کی بھی کھال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(13)
ایک دن مرزا گئے کرنے کو سیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوگئی اس میں ٹک اک طعمہ کو دیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تنک طعمے کو دیر
(14)
اب پڑی ہے کوڑے اوپر لنڈمنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھورے اوپر لنڈ منڈ

گرد چگتے پھرتے ہیں چڑیوں کے جھنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(15)
سو کیا اس کو فلک نے یوں ذلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرتے ہی چپک کے بگڑا ہے یہ نیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بگڑا ہے نیل
(16)
کوّوں کی ٹھونگیں ہیں اور مرزا کا سر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارو اڑجاتی ہے منھ پر پاد کر
شارو اڑجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(17)
اس کو مرزا گھرسے لے جاتے جدھر
لے نکلتے میرزا اس کو جدھر

لونڈی سے کہہ جاتے چولہے ہانڈی دھر
چولہے پر لونڈی سے کہتے ہانڈی دھر
(18)
گھر کی بی بی سے یہ کرجاتے قرار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون بھڑوا کھاوے کچھ غیر از شکار
ہم نہیں کھانے کے کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(19)
اب دو پیازے قوشخی کھاتے ہیں سب
اب دو پیازے قوشچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرزا بولی کو ترسے ہے غضب
میرزا بوٹی کو ترسیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(20)
جب نکلتے گھرسے وہ بازار کو
جب نکلتے میرزا بازار کو

تیز کرتے وھاں چھری کی دھار کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(21)
ان سے یہ کہتے اگر منظور دھرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہے تمہیں اور دھرم کی اپنے ہے شرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی ہے اپنے شرم
(22)
مت چھڑاؤ پھٹکیوں کے جانور
مت چھڑاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جتنے ہوں پیسے انھوں کے جمع کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(23)
گھر ہوا مرزا کا سب ماتم سرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا اب ماتم سرا

پُرسے کو آتے ہیں یار اور آشنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتے ہیںیار اور آشنا

(24)
کر گریباں چاک یاروں کے حضور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاک یہ ان کے حضور

یوں بیاں کرتے تھے اپنا منھ بسور
بین یوں کرتے ہیں منھ اپنا بسور
(25)
کھولے تھا میں اس کو جب پتواز سے 
کھولتا جب اس کے تئیں پتواز سے

ہاتھ پر آتی تھی وہ اس ناز سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(26)
پھینکتا جب صید پر میں اس کو جا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر اس کو میں جا

اس طرح جا لاگتی کافر ادا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(27)
جس طرح معشوق بعضے کی نگاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی بعض نگاہ

خون عاشق کا کرے ہے بے گناہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(28)
مجکو بچپن سے رہا ذوق شکار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پالا میں پر گد سے لے تا چوہے مار
پالا میں بر غد سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(29)
خوب سا میں نے کیا ہے ان کا دید
خوب سا ان کا کیا ہے میں نے دید

ریش پنچالوں میں ان کی کی سفید
ریش پنجا لوں میں کی ان کی سفید
(30)
تھی غرض ہر جانور پر کیا وہ شیر
سب طرح کے جانور ڈالے تھی چیر

گر پرند اس سے بچا سو ہے وہ تیر
گر پرند اس سے بچا، سو ہے وہ تیر
(31)
سنتے ہیں یہ درد جس دم آشنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وے آشنا

ان سے کہتے ہیں کہ سچ اے میرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(32)
غم میں اس کے میرزا اتنا نہ رو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مت کہیں رو رو کے آنکھوں کو نہ کھو
مت کہیں ایذا ہو مرغِ روح کو
(33)
غم کو اپنے دل سے اب موقوف کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے تو موقوف کر

کردیا سودا نے قصہ مختصر
جوں بیاں کرتا ہے قصہ مختصر
(2) مثنوی در تعریف چاہ مومن خاں
کلیات سودا کے تمام مطبوعہ نسخوں کے علاوہ متعدد خطّی نسخوں میں بھی متذکرہ بالا مثنوی درج ہے۔ لیکن یہ مثنوی بھی بیان کی ہی معلوم ہوتی ہے اور سہواً سودا سے منسوب ہوگئی ہے۔ کلیات سودا نسخۂ آسی میں یہ مثنوی 18 شعر پر مشتمل ہے۔ جبکہ دیوان بیان میں اشعار کی تعداد تقریباً دوگنی یعنی 32ہے۔ میرحسن نے اپنے تذکرہ ’تذکرہ شعراے اردو‘ میں صفحہ 27 پر اسے بیان کے نام سے رقم کیا ہے۔ ’مجموعہ نغز‘ از قدرت اللہ قاسم میں (ص 124) یہ مثنوی بیان کے نمونۂ کلام میں شامل ہے۔ نیز خلیق انجم نے اپنی تصنیف ’مرزا محمد رفیع سودا‘ میں اسے بیان کی ہی مثنوی شمار کیاہے۔ اس کے علاوہ یہ مثنوی بیان کے تمام مطبوعہ وغیر مطبوعہ نسخوں میں شامل ہے۔
دیوان بیان میں اس مثنوی کے آخری شعر میں تخلص موجود ہے لیکن کلیات سودا میں یہ مثنوی مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کسی شعر میں تخلص نہیں ملتا ہے جس سے نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یہ مثنوی بیان ہی کے قلم کا نتیجہ ہے۔ اس کے کچھ اشعار کو نکال کر اور کچھ اشعار کو تحریف کر کے کلیات سودا میں شامل کرلیا گیا ہے پہلی مثنوی کی طرح اس مثنوی میں بھی اشعار میں کمی بیشی دیکھنے کو ملتی ہے۔
کلیات سودا میں شامل مذکورہ بالا مثنوی کے اشعار کی تعداد دیوان بیان میں شامل مثنوی کے مقابلے میں کم ہے، دیوانِ بیان میں زائد اشعار چودہ ہیں جو تمام و کمال سطور ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:
(1)
یہ کٹورے سے نکلے ہے آواز
کہ نکوئی کن و در آب انداز
(2)
نہیں مرنے کا حشر تک وہ مرد
جس کا نکلا ہے چاہ ایسا سرد
(3)
اس میں پانی ہے یا کہ آب حیات
یا ہے وہ شربتِ گلاب و نبات
(4)
نام اس یخ سرشت کا کس بھانت
لوں کہ بجتا ہے میرے دانت سے دانت
(5)
جب سے پیدا ہوا ہے وہ پانی
جس کی کرتا ہوں میں ثناخوانی
(6)
یارو اس دن سے برف بے چاری
گھلی جاتی ہے شرم کی ماری
(7)
ٹھنڈی از بس ہوئی خریداری
ٹھٹھرے جاتے ہیں ان کے بیوپاری
(8)
جتنے اس شہر میں ہیں شورہ فروش
کہتے ہیں دل ہی دل میں کھا کر جوش
(9)
فکر کیا اس متاع کا کیجے
آگ پانی کے ہاتھ سے دیجے
(10)
قلمی کیجے اسی کو دے کے گداز
تاخریدار ہو وے آتش باز
(11)
لے کر اس آبِ جاں فزا کا نام
پانی پی پی کے کوستے ہیں تمام
(12)
سچ ہے جس شہر میں ہو ایسا چاہ
شورے اور برف کی ہو وھاں کیا چاہ
(13)
بس کہ بارد ہے وہ میں ڈرتا ہوں
نہ لگے بندھنے اب خنک مضمون
(14)
آگے سردی کا اس کی کرتے بیاں
اینٹھی جاتی ہے میرے منھ میں زباں
مندرجہ بالا 14 اشعار کلیات سودا سے ندارد ہیں لیکن باقی جو 18 شعرسودا اور بیان دونوں کے یہاں مشترک ہیں اُن میں مندرجہ ذیل متنی اختلافات پائے جاتے ہیں:

متنِ کلیات سودا
متنِ دیوان بیان
(1)
رہ کے دنیا میں کیجیے وہ فکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ فکر

بعد کوئی کرے بہ خوبی ذکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2)
آگے کرتے تھے آدمی وہ کام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وے کام

جس کے باعث رہے ہمیشہ نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(3)
کرتے تعمیر اہل مکنت و جاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پل ومہماں سراے ومسجد و چاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرا و مسجد و چاہ
(4)
اب نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ راتیں
اب نہ وے دن رہے نہ وے راتیں

رہ گئیں یادگار یہ باتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وے باتیں
(5)
نزد اہل خرد کبھی نہ موا
ایک ایسا بنا گیا ہے کُوا

جس کا نکلا ہے اس طرح کا کنوا
کہ کبھو روزِ حشر تک نہ موا
(6)
کیا کنوا ہے کہ جس کی سن کے ثنا
کیا کُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھپ کے آوے ہے دیکھنے دریا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(7)
نالے آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں
جھرنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرم سے ڈبرے آب ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(8)
ڈگ ڈگا کر اگر کوئی پیوے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تا نہ اوڑے لحاف کب جیوے
تانہ اوڑھے لحاف، کیا جیوے
(9)
برف والے جہاں تلک ہیں اب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گردپیش اس کنوئیں کے آکر سب
گرد وپیش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنویں ۔۔۔۔۔۔
(10)
کہتے ہیں ہاے چاہ مومن خاں
کہتے ہیں آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر ہمارے کو کردیا ویراں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(11)
کیا سقوں کا خانماں آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خان وماں آباد

تیرے ہاتھوں سے اے کنوئیں فریاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنویں فریاد
(12)
رو زمیں کے تمام اب کووے
ہفت اقلیم کے تمام کوے

چپنی بھر پانی لے کے ڈوب موے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(13)
جن نے یک بار بھی پیا وہ آب
جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حشر تک زیرِ خاک ہے سیراب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رباعی
(1)
آیا ہوں بہ تنگ دور رہتے رہتے
لوگوں سے تھکا پیام کہتے کہتے

روتا ہوں کہ سیل اشک جاری ہوئے
پہنچوں میں گلی میں اس کی بہتے بہتے
151151
(2)
کیا زلف میں اس شوخ کے دبکی تھی صبح
جوں شام سے ہوتی ہے کسی شب کی صبح

جب زلف کو میں ہاتھ لگایا اودھر
ہمسایہ پکارا کہ ہوئی کب کی صبح
بیان کی منقولہ بالا دو رباعیاں بھی اُن کی مثنویوں کی طرح سودا سے منسوب ہوگئی ہیں۔ یہ دونوں رباعیاں کلیات سودا کے تمام مطبوعہ نسخوں میں ملتی ہیں اور بیان کے مطبوعہ نسخوں کے علاوہ بیشتر قلمی نسخوں میں بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ اس عہد کے تذکرہ نگاروں نے بھی اپنے تذکروں میں انھیں بیان کے نمونۂ کلام میں ہی درج کیا ہے۔ مثلاً ’تذکرہ گلزار ابراہیم ‘ میں علی ابراہیم خاں خلیل نے مذکورہ بالا رباعی کو بیان کے نمونۂ کلام میں دیا ہے، دوسری طرف یہ رباعیاں سودا کے کسی معتبر قلمی نسخوں میں نہیں ملتیں۔ جیسے نسخۂ حبیب مکتوبہ 1174 اور نسخہ بنارس مکتوبہ 1177-78ھ اور نسخہ رچرڈ جونسن میں بھی نہیں ہیں۔ کلیات سودا میں بیان کی پہلی رباعی کو ہو بہ ہو نقل کردیا گیا ہے اور دوسری رباعی میں چند لفظوں کی تحریف کے ساتھ شامل کرلیا گیا ہے، دوسری رباعی دیوان بیان میں اس طرح نقل ہے۔
کیا زلف میں اس شوخ کی تھی دبکی صبح
یا شام سے ہوتی ہے کسو شب کی صبح
ٹک زلف کو میں ہاتھ لگایا کہ ادھر
ہمسایہ پکارا کی ہوئی کب کی صبح
مندرجہ بالا اختلافات کی صورت یہ ہے کہ اکثر جزوی طور پر متن میں ترمیم ہوئی ہے۔ لیکن بعض مقامات پر نصف شعر یا پورا شعر بدل دیا گیا ہے ان تبدیلیوں کی نوعیت اصلاح کی ہوسکتی ہے کہ سودا کے یہاں بیان کی یہ تخلیقات بہ غرض تصحیح پہنچی ہوں اور سودا نے اصلاح دی اور پھر وہ بیان کو واپس نہ مل سکی ہوں۔ ان میں بعض تبدیلیوں پر کاتب کے سہو قلم کا بھی گمان گزرتا ہے۔ بہر حال بہ حالت موجودہ یہ دونوں مثنویوں اور دونوں رباعیوں کو بیان کی تسلیم کرنے میں کسی طرح کے شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور انھیں بلا تأمل بیان کے رسحات قلم کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

Ms. Firdous Jahan
Research Scholar, Department of Urdu
BHU, Varanasi - 221005 






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں