ایک باغ و بہار شخصیت: صغرا مہدی
کسی
اپنے کے چلے جانے کے بعد اس کی ذات سے وابستہ کچھ بھی تحریر کرنا کس قدر مشکل کام
ہے؟ اردو کی ممتاز ادیبہ افسانہ نگار، ناول نگار ، انشاپرداز پروفیسر صغرا مہدی کے
بارے میں کچھ لکھتے ہوئے ایسا ہی مشکل اور تکلیف دہ احساس دل و دماغ پر طاری ہے۔
وہ ایک ایسی منفرد ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں جس کا مکمل بیان ناممکن ہے۔ وہ جس
خانوادے کی چشم و چراغ تھیں اور جن نامور ہستیوں کے زیرسایہ ان کی پرورش ہوئی اور
جو کچھ انھیں ورثے میں ملا اس کے تمام اوصاف ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔لیکن
ان کے اندر اس سب سے کچھ زائد بھی تھا جو ان کا اپنا، صرف اپنا تھا۔ جو انھوں نے
خود حاصل کیا تھا۔ ان کا نڈرپن، بے باکانہ اندازِگفتگو، ضد، انصاف پسندی، صاف گوئی
کے علاوہ خوشامد، منافقت، فرقہ پروری اور زمانہ سازی سے دور وہ نئی اور پرانی
تہذیب کا ایسا سنگم تھیں جن کے بہت سے مداح تھے۔ ان کا وجود ایسا گھنا درخت تھا جس
کی شاخوں پر پرندے چہچہاتے اور تازہ دم ہوکر اڑان بھرنے کے لیے نکل جاتے۔ ان کی
شخصیت ان کے اپنے خاندان میں بھی اور جہاں جہاں وہ وابستہ رہیں وہاں بھی منفرد ہی
رہی۔ اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔
صغرا مہدی کا اصل نام امامت فاطمہ تھا۔ سات بہن بھائیوں میں درمیان کی اولاد تھیں۔ دو بھائی اور ایک بہن چھوٹے اور تین بہنیں بڑی۔ ظاہر ہے درمیان کی اولاد ویسے بھی دونوں طرف سے دباؤ میں رہتی ہے۔ بڑوں کا دباؤ اور چھوٹوں کی ذمے داری، ایسے میں اپنے لیے کوئی راہ، وہ بھی علاحدہ ناممکن ہی ہے۔ لیکن صغرا مہدی نے اس ناممکن کو ممکن بنا کر اپنا نیا جہان آباد کیا۔
صغرا
مہدی نے بچپن سے اپنی دنیا کو اس روپ میں دیکھنا پسند کیا جیسا کہ وہ چاہتی تھیں۔
وہ دنیا انھیں قبول نہیں تھی جیسا کہ تھی۔ لکھتی ہیں:
”مجھے کھیلوں سے
دلچسپی نہیں تھی، کھیل سے چپکے سے نکل کر گوشۂ تنہائی تلاش کرلی جہاں بیٹھ کر اکیلے خود سے
باتیں کرتی۔ میری اپنی خیالی دنیا تھی، جو اس دنیا سے بالکل الگ تھی۔ اس میں بسنے
والے سب لوگ وہی تھے جو حقیقی دنیامیں میرے ساتھ یا آس پاس تھے۔ مگر وہ ایسے تھے
جیسا میں چاہتی تھی کہ ہوں۔ اس دنیا میں ہر وہ بات تھی جو مجھے پسند تھی۔“
ہر
فرد اپنے ماحول میں جیتا ہے پرورش پاتا ہے پروان چڑھتا ہے اور یہی بنیاد اس کی
زندگی کی عمارت کی بنیاد ہوتی ہے۔ صغرا مہدی کے مزاج کا کھراپن اور کھردرا پن
انھیں اپنی زندگی کے حالات سے میسر آیا۔ ان کے والدین کی عمروں میں بہت فرق تھا
اور مزاجوں میں بھی ماں باپ کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتیں وجہ اختلاف بن جاتیں۔
صغرا مہدی کی اماں دادی جان کو سخت ناپسند کرتی تھیں جو رشتے میں ان کی بڑی چچی
بھی لگتی تھیں۔ وہ بہت تیز مزاج اور سخت گیر بھی تھیں۔ ایسے میں صغرا مہدی کا
معصوم بچپن اپنی نئی من پسند دنیا آباد کرکے تمام ناگواریوں سے فرار حاصل کرلیتا۔
بھوپال
سے سات میل دور قصبہ باڑی میں اپنے خاندان کے زیرسایہ ان کا بچپن بیتا۔ بارنا ندی نے اس قصبے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ کسی
وقت یہاں گونڈ بھیل راجاؤں کی حکومت تھی۔ صغرا مہدی کے والد (میاں) سیدعلی مہدی
اسی علاقے میں سب انسپکٹر تھے۔ تھانے سے ملا ایک مردانہ مکان جسے پرانے وقتوں میں
مردان خانہ کہا جاتا تھا، بھی تھا جو عارضی قید خانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
یہاں مجرم رکھے جاتے تھے۔ علاقہ بے حد خوبصورت ہرا بھرا پھولوں کی وادیوں سے گھرا ہوا
تھا۔ ندی نے اس علاقے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے۔ یہیں ہری ہری گھاس
میں لال لال بیربہوٹیاں دیکھتے ہوئے رنگ برنگی تتلیاں پکڑتے ہوئے رات کے اندھیرے
میں جگنوں پکڑ پکڑ کر دامن میں بھرتے ہوئے اور کبھی کبھی شیر بھی دیکھتے ہوئے، ہرے
بھرے کھیتوں میں دور تک پھیلے ہوئے دھوپ کے ساتوں رنگ آنکھوں میں بسائے قدرت کی
گود میں صغرا مہدی کا بچپن قلانچے بھررہا تھا۔
صغرا
مہدی سب بہن بھائیوں میں زیادہ معمولی شکل و صورت کی تھیں۔ اوپر سے چیچک کے داغ
بھی بسیرا کرکے بیٹھ گئے۔ دبلی پتلی کالی سوکھی اور چیچک کے داغ بھرے چہرے نے
احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ سونے پہ سہاگا گھر اور باہر کے لوگ چڑانے لگے
تھے کہ تم اماں اور میاں کی بیٹی نہیں ہو بلکہ تمھیں کسی جمعدارنی سے گود لیا ہے۔
ایسے میں صغرا کے معصوم دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ صغرا کے والد صغرا کی والدہ سے دس
برس بڑے تھے اور انسپکٹر بھی تھے۔ ظاہر ہے مزاج میں سختی اور تناؤ بھی رہا ہوگا۔
حاکمانہ انداز ہوگا شاید اسی سبب میاں اور اماں کے درمیان ہمیشہ تناؤکی صورت رہتی۔
صغرا نے ایسی صورت میں خود کو کمتر محسوس کرکے نظرانداز نہیں کیا بلکہ یہی وہ
حالات تھے جب امامت فاطمہ کے اندر صغرا مہدی پروان چڑھ رہی تھی۔ ایسے میں صغرا
مہدی اپنی ایک خیالی دنیا آباد کرلیتی تھیں جس میں وہ خوبصورت، ذہین، پڑھی لکھی
اور سب کی چہیتی لڑکی بن جائیں۔ ایک آئیڈیل گھران کے ذہن میں تیار ہوجاتا اور اپنی
پسند کے مطابق کردار، ساز و سامان، آرائش، زیبائش، لباس اور جو وہ چاہتیں تیار
ہوجاتا... واہ صغرا مہدی... واہ۔ کیا اس سب سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ تخلیق کار
صغرا مہدی پیدا ہوچکی تھیں۔ جس میں وہ کہانی کار بھی تھیں اور کردار بھی۔
یوں
تو صغرا مہدی کی بڑی بہن سیدہ فرحت کو شاعری سے نہ صرف شغف تھا بلکہ وہ نظمیں اور
غزلیں بھی کہتی تھیں اور گاتی بھی تھیں۔ چھوٹے بھائی اقبال مہدی بھی آگے چل کر
افسانہ نگار بنے لیکن صغرا مہدی کی بات ہی الگ تھی۔ ان کا بچپن بھی انوکھا تھا
جوانی بھی نرالی اور ضعیفی بھی منفرد و مختلف جو کبھی آئی ہی نہیں۔
صغرا
مہدی کی تعلیم و تربیت اور ادب سے وابستگی اپنے ماموں جان (ڈاکٹر عابد حسین) اور
ممانی صاحبہ (صالحہ عابد حسین) کے زیرسایہ دہلی اور علی گڑھ میں ہوئی۔ یہاں کا
کھلا ماحول انھیں نہ صرف راس آیا بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اجاگر ہونے میں
بہت سازگار ثابت ہوا۔ وہ باقاعدہ افسانے لکھنے لگی تھیں۔ سب بہن بھائی پڑھ لکھ کر
آگے بڑھ رہے تھے۔ شادیاں ہورہی تھیں۔ گھر آباد ہورہے تھے لیکن صغرا مہدی نے یہاں
بھی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا۔ لکھتی ہیں:
”ممانی جان کو
اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو میری شادی کی بھی فکر تھی۔ میں نے اس سلسلے میں
معمول کے خلاف اپنے خیالات ماموں جان سے شیئر کیے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔
مجھے لکھنے کا شوق ہے۔ میں نے چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور اپنا پہلا ناول ’پا بہ
جولاں‘ لکھنا شروع کردیا تھا۔ ماموں جان نے میرے خیال کو رد نہیں کیا بلکہ یہ کہا
کہ ”تنہا زندگی گزارنا مشکل ہے۔ اگر تم یہ چاہتی ہو تو پھر ابھی سے اس کی تیاری
شروع کردو، اپنے کو پراعتماد رکھو۔ اگر تم اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن رہیں تو
میں کبھی تمھیں شادی پر مجبور نہیں کروں گا۔ مگر شادی کے دروازے بند نہ کرو۔“
(حکایتِ ہستی)
اپنے
ماموں جان کے نصیحت آمیزیہ جملے صغرا مہدی کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔ انھوں نے خود
کو پراعتماد بنایا خوش اور مطمئن رہنا اپنا شعار بنایا۔ زندگی اپنے ڈھنگ سے جینا
سیکھا اور تنہا زندگی گزارنے جیسے مشکل مرحلے سے وہ بہ حسن و خوبی شادماں گزریں او
رکیا پتہ انھوں نے کوئی خیالی شہزادہ بھی شوہر کے روپ میں بناکر اپنی دنیامیں آباد
کررکھا ہو کیوں کہ ان کی خیالی دنیا بہت پاور فل تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ
انھیں زندگی میں دقتیں درپیش نہیں آئیں۔ آئیں، انھوں نے ان کا مقابلہ کیا۔ لکھتی
ہیں:
”میں نے شروع سے
ہی سوچ لیا تھا کہ سوسائٹی کے Norms سے ہٹ کر جو کام کیا جائے اس کی قیمت چکانی
پڑتی ہے اس لیے اس سلسلے میں جو مشکلات پیش آئیں ان کا یہی سمجھ کر سامنا کیا۔“
(حکایت ہستی)
صغرا
مہدی کے والد زیادہ تر ملازمت کے سلسلے میں اپنے دوروں پر رہتے تھے۔ ان کا زیادہ
تر وقت باہر ہی گزرتا۔ گھر اور بچوں سے ان کو کم ہی واسطہ رہتا۔ والدہ اکثر بیمار
رہتی تھیں۔ ذہنی طور پر بھی پریشان رہتی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک اچھی
خاتونِ خانہ تھیں۔ کھانا اچھا پکاتی تھیں۔ بہت اچھی منتظم تھیں۔ بے حد دلچسپ گفتگو
کرتی تھیں۔ شوخ تھیں۔ لوگوں کو ہنساتی تھیں۔ ملنسار تھیں۔ لوگوں کو تحفے تحائف
دینے کا بھی شو ق تھا مگر جب موڈ خراب ہوتا تو پھر ان کی ہر چیز سے دلچسپی ختم
ہوجاتی اور گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اپنی اماں کی یہ تمام خصوصیات صغرا مہدی
میں موجود تھیں۔ ہاں ان کے اچھا کھانا پکانے پر ضرور شبہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ناچیز
کو ان کے یہاں بہت لذیذ کباب اور چپاتی ایک ادبی نشست میں کھانے کا اتفاق ہوا۔ گول
اور پتلی چپاتیاں خوش ذائقہ مناسب مسالحہ والے کباب یقینا صغرا مہدی نہیں پکا سکتی
تھیں کیوں کہ اتنی مناسبت تو ان کے اندر تھی ہی نہیں۔ اس میں یا تو ان کی بھابی
شمع صاحبہ (اقبال مہدی کی بیوی) یا پھر کسی ملازمہ کا ہاتھ ضرور لگا ہوگا۔ ویسے
اقبال مہدی نے ان کے کھانے پکانے اور گرہستی جمانے کے ذوق کو بڑے دلچسپ اندازمیں
قلم بند کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
”ایک زمانہ تھا
کہ آپا کھانا پکانے کے نام پر صفر تھیں اور آج خدا کی شان کہ وہ طرح طرح کے کھانے
پکاتی ہیں اور ستم یہ بھی ہے کہ لوگوں کی دعوتیں بھی کرتی ہیں۔ گھر بھی صاف ستھرا
رکھنے کی خواہش کرتی ہیں اور اگر ضرورت ہو تو عیب کو چھپانے کے لےے پیوندکاری کے
فن سے بھی واقف ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ آرٹ کا ’ٹچ‘ ہے۔ کھانا بنانے کے لیے کسی مغلانی بیگم کے دسترخوانی نسخے کی ضرورت نہیں۔ جیسی بے ساختہ خود ہیں اسی
طرح خودساختہ ڈشیں بناتی ہیں۔“
کیا
صغرا مہدی کا یہ تعارف ان کی شخصیت کو سمجھنے کے ل لیے کافی ہے؟ ہرگز نہیں...
سیدھے سادے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ صغرا مہدی بہت ہی لڑاکو اور ہٹلر قسم کی
خاتون مشہور تھیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ ایک پروفیسر اردو کی ادیبہ تہذیب یافتہ
گھرانے کی چشم و چراغ اور اتنا بڑا الزام... ؟ لیکن یہ الزام نہیں آنکھوں دیکھی
ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں بس صرف ایک واقعہ تحریر کروں گی۔ شاید یہ 1988 یا
89 کی بات ہے (1977 میں صغرا مہدی شعبۂ اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوچکی تھیں) مجھے اپنے پی ایچ ڈی کے داخلے کے سلسلے
میں کئی مرتبہ اردو ڈپارٹمنٹ جانا ہوا۔ محترم پروفیسر ذاکر صاحب اس وقت ہیڈ تھے۔
میں چاہتی تھی کہ محترمہ صغرا مہدی صاحبہ یا پروفیسر شمیم حنفی صاحب کے زیرنگرانی
میرا کام پایۂ تکمیل کو پہنچے کہ ایک دن
ڈپارٹمنٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی کسی خاتون کی گرج دار کڑک دار آواز میری سماعت سے
ٹکرائی، ذرا سا دروازہ کھولا چھے سات طلبہ
و طالبات گردن جھکائے کھڑے تھے اور کوئی خاتون فُل وولیوم میں ان کی خبر لے رہی
تھیں۔ چہرہ نظر نہیں آیا۔ میں پیچھے ہٹ گئی اتنے میں محترم عنوان چشتی اندر سے
باہر آئے مجھے خوف زدہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے ”گھبرائیے نہیں صغرا مہدی صاحبہ
ہیں۔“ میں چند منٹ باہر کھڑی ہوکر واپس آگئی۔ میں نے اپنا مقالہ ان کی نگرانی میں
مکمل کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ کچھ تکنیکی مجبوریوں کے سبب پروفیسر شمیم حنفی بھی
میرے گائیڈ نہیں بن سکے، لہٰذا پروفیسر حنیف کیفی صاحب کی نگرانی میں میرا داخلہ
ہوا۔ حالانکہ میری چھوٹی بہن مہر جمال صغرامہدی صاحبہ کی ایم اے میں شاگردہ رہ چکی ہے۔ وہ انھیں سخت گیر کہنے کے ساتھ ساتھ
ان کی تعریف بھی بہت کرتی ہے۔ ایسے ہی اکثر سیمیناروں اور مشاعروں میں صغرا مہدی
صاحبہ کو زبردست طریقے سے ہوٹنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ خود بھی کرتی تھیں اور دوسروں کو
بھی اکساتی تھیں۔ میرے شوہر عظیم صدیقی کو ان کا ہوٹنگ کرنا بہت پسند آتا تھا۔ اس لیے
وہ ان کے آس پاس ہی بیٹھنے کی کوشش کرتے اور اس منظر کا پورا لطف لیتے۔ لیکن جب
صغرا مہدی سے قربتیں بڑھیں تو اندازہ ہوا وہ بڑی منفرد مزاج کی خاتون ہیں ۔ان کے
اندر ہمہ وقت ایک شوخ چنچل بچہ موجود رہتا ہے ایک مست بِنداس لڑکی بھی جو ہنستی
اور قہقہے لگاتی رہتی ہے اور اپنا حکم منواتی ایک ہٹلر دیدی بھی، جو موقع پڑنے پر
مقابلہ کرتی جھانسی کی رانی بھی بن جاتی ہے۔ میرے لیے صغرا مہدی کو سمجھنے کے لیے
ان کی تحریروں اور کارناموں کے علاوہ اوکھلا میں یعنی جامعہ نگر میں منعقد ہونے
والی محفلوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
اوکھلا
کا علاقہ ویسے بھی ادیبوں کے لیے بہت سازگار علاقہ ہے۔ ایک دوسرے کے یہاں شادیوں
میں ادبی نشستوں میں خوشی اور غم میں ملاقات ہونا لازم ہے لہٰذا کسی سے ایک دوسرے
کی حقیقت چھپی نہیں رہتی بلکہ نزدیکیاں بڑھتی ہیں۔ بے تکلفی بڑھتی ہے، روابط بڑھتے
ہیں تو ایک فیملی جیسا ماحول خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے جو ایک دوسرے کو سمجھنے
میں بڑا معاون ہوتا ہے۔
اقبال مہدی نے ایک خاکہ نما مضمون ’آپا! ہٹیے ان
کو کون نہیں جانتا!“ میں کچھ ایسی سچی کھری کھری بے لاگ باتیں تحریر کردیں کہ مجھے
کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں خود کو بچاتے ہوئے اپنے دل کی آواز کو ان کی
تحریر کے ذریعے عام کرنا چاہوں گی:
- ”بہت سے حرفوں کو ملا کر نام بنا ہے
پروفیسر صغریٰ مہدی: لہٰذا بڑے بڑے حرفوں کا عطر مجموعہ ہیں محترمہ!“
- ”ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہماری اماں ان
کو ’ہٹلر‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ اماں نے بات تو بڑی سچی کہی تھی۔ غریب ہٹلر تو ختم
ہوگیا مگر اپنا جانشین چھوڑ گیا اور ان کی شانِ ہٹلری وہی ہے۔“
- ”دراصل آپا کی پارہ صفت طبیعت اور مزاج
کا اتار چڑھاؤ ان کی خداداد ذہانت ہے جس
کو انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے سنوارا ہے اور اس سنوار اور نکھار میں ایسی جلوہ
نمائی ہے کہ اپنے مقابل پروار اس طرح کرتی ہیں کہ مداحوں کی نوکِ زبان پر بے ساختہ
آجاتا ہے: ”لڑتی ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں“ تلخ کلامی بری بات ہے۔ خدا
بچائے۔ میری سمجھ میں نہیں ا ٓتا کہ ان سب باتو ں کے باوجود کیسے لوگ ان کے مداح
ہیں؟ کیا آج کل کے لوگ اتنے ڈھیٹ ہوگئے ہیں؟“
-”یہ آپا صاحبہ
کس قدر ہڑدنگی ہیں اور ہمیشہ سے ہیں۔ انھوں نے کیا کیا نہ ادھم جوتے ہیں۔ باجی
کہتی تھیں۔ ”اتنی بڑی ہوگئی ہے صغریٰ ،خدا کے واسطے سنجیدہ بنو۔ یہ کیا اپنی گت مت
کھوئی ہے چھوٹے بھائی بہنوں میں۔“
-”بچپن ہی میں
کیا زندگی کے ہر دور میں ان کی مزاجی افتاد یہی رہی ہے کبھی شعلہ کبھی شبنم— یعنی
ہنسنا، قہقہے لگانا، چیخنا چلانا، اور کبھی ناقابل یقین حد تک سنجیدہ ہوجانا۔“
- ”آپ کا تاریخی نام امامت فاطمہ ہے۔ لیکن
کسے پتہ تھا کہ امامت فاطمہ قیامت صغریٰ بن کر لوگوں پہ ستم ڈھائیں گی۔ مگر ہاں
اپنے تاریخی نام امامت فاطمہ کی نسبت سے ملک کے ملاؤں، مفتیوں اور اماموں سے بھڑتی
رہتی ہیں جو بات بات پر فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔“
یہ
تھیں ہماری صغرا مہدی صاحبہ۔ واحد ایسی خاتون جو تنہا ہوتے ہوئے بھی مکمل انجمن
تھیں۔ ہمیشہ بھیڑ میں گھری ہوتیں۔ محبتیں لٹاتیں، ڈانٹ پھٹکار سناتیں، گلے سے
لگاتیں، دعوتیں کرتیں، نصیحتیں کرتیں، دوستی کا دم بھرتیں اور سب کے دل میں گھر کر
لیتیں۔ ہر چھوٹے بڑے سے ملنا اس کا دل رکھنا انھیں خوب آتا تھا۔ میرے غریب خانہ پر
بھی ادبی نشست میں شرکت کرکے رونق اور عزت بخشی۔ انھیں ملال تھا کہ وہ عظیم صدیقی
کے گزر جانے پر میرے غم میں شریک ہونے کے لیے نہیں آسکیں کیوں کہ اس وقت میں تھرڈ
فلور پر رہ رہی تھی۔ بہت معذرت خواہ تھیں، مجھے ان کی صحبتوں پر فخر ہے۔ تعریف و
تنقید اور انعام و اکرام سے بے نیاز رہنے والی صغرا مہدی ہمیشہ خاموشی سے اپنے
تخلیقی کاموں میں منہمک رہیں۔ اردو اکادمی دہلی نے ان کی کاوشوں پر فکشن ایوارڈ سے
نوازا لیکن حقیقت میں وہ بڑے ایوارڈ کی حقدار تھیں۔ ان کے افسانے اور ناول ہمارے
سماج کی بنتی بگڑتی تصویروں کا عکس ہیں جس میں عورت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ مزاج
کی طرح ان کی فکری بصیرت بھی منفرد تھی۔ صرف تحریر ہی نہیں انھوں نے حقوقِ نسواں
اور تعلیم نسواں کے لیے آواز بھی بلند کی۔ یک طرفہ فتوےٰ دینے والے فیصلو ںپر
اعتراض بھی کیا۔
قرة
العین حیدر اور صغرا مہدی کے نزدیکی مراسم تھے جب کہ دونو ں کے مزاج میں زمین
آسمان کا فرق تھا۔ عینی آپا خودپسند اور تنہائی پسند تو صغرا مہدی بالکل پلٹ۔ اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ صغرا مہدی نہ صرف تہذیبی قدروں سے جڑی تھیں بلکہ اسے نبھانا بھی خوب جانتی تھیں۔
سہیلیوں
کے گروپ میں تاباں صاحب کی بیٹی عذرا باجی کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ پکی سہیلیاں!
پروفیسر خالد محمود لکھتے ہیں:
”صغرا آپا کی
شوخیاں اور شرارتیں جامعہ بھر میں مشہور ہیں۔ صغرا آپا اور عذرا باجی کی جوڑی کو
خدا سلامت رکھے، ایک زمانے میں قیامت برپا کررکھی تھی۔ کون تھا جو ان کی زد سے بچا
ہو۔ آج بھی یہ دونوں مل جائیں تو شریر سے شریر بچے کے کان کاٹتی ہیں، مشاعروں میں
یہ دونوں پیچھے بیٹھ کر وہ ہوٹنگ کرتی ہیں کہ اللہ میاں بھی شاعروں کا ساتھ چھوڑ
دیتا ہے۔ مرنے کے بعد تو شاعروں کو دوزخ میں جانا ہی ہے، مشاعروں میں یہ دونوں ان
کی زندگی بھی دوزخ بنا دیتی ہیں۔“
آہ...
اب دونوں کی جوڑی...؟ جب آنگن میں صغرا مہدی سفید لباس میں منہ ڈھانپے خاموش ابدی
نیند سوئی تھیں اور عذرا باجی زار و قطار رو رہی تھیں تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔
لگتا تھا صغرا مہدی ابھی ابھی منہ سے چادر ہٹائیں گی اور بولیں گی: اے ہے عذرا !بس
اب چپ بھی کرو— کیوں نیند خراب کرتی ہو، تمھیں خدا سمجھے۔
صغرا
مہدی کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو مختلف احساس ذہن کے پردے پر نمایاں ہوتے ہیں۔
کبھی لگتا ہے ان کی زندگی کسی طویل داستان کا ایک حصہ تھی اور وہ اس کی اہم کردار،
اپنا رول بہ حسن و خوبی ادا کرکے وہ دور آسمانوں میں کہیں گم ہوگئیں۔ کبھی محسوس
ہوتا ہے وہ اللہ میاں کے یہاں بھی بھیڑ لگاکر حقوق نسواں کو لے کر عورتوں کی
برابری کے لیے جھگڑ رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر مردوں کے تئیں پارشیالٹی کا الزام عائد کررہی ہیں۔
امید ہے اللہ تعالیٰ وہاں بھی ان کی نگہبانی کریں گے۔ وہ اپنی بے شمار یادوں،
باتوں، قہقہوں اور تحریروں کے ذریعے ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں گی۔ ادبی دنیا میں
ویسے بھی دور دور تک— اب کوئی صغرا نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں